متفرقات

Ref. No. 2729/45-4244

بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ خود سے گھر پر دوہرالینا بھی کافی ہوگا اب دوبارہ حافظ صاحب کو سنانا ضروری نہیں ہے، البتہ اگلے دن اگر دونوں دن کا سبق سنادیں تاکہ اور پختگی آجائے تو بہتر ہے۔

واللہ اعلم بالصواب

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند

 

نماز / جمعہ و عیدین

الجواب وباللّٰہ التوفیق: صورت مسئولہ میں امام صاحب صف اول میں کھڑے ہوں تو بھی درست ہے اور یہ ہی مناسب ہے اگر نمازی زیادہ ہوں اور جگہ کی تنگی ہو تو محراب میں کھڑے ہوکر نماز پڑھائے اور پہلی صف میں نمازی کم ہونے سے کوئی فرق نہیں پڑتا۔(۲)

(۲) فلو قاموا علی الرفوف والإمام علی الأرض أو في المحراب لضیق المکان…لم یکرہ لو کان معہ بعض القوم في الأصح … (قولہ کجمعۃ وعید) مثال للعذر، وہو علی تقدیر مضاف: أي کزحمۃ جمعۃ وعید (قولہ فلو قاموا إلخ) تفریع علی عدم الکراہۃ عند العذر فی جمعۃ وعید، قال فی المعراج: وذکر شیخ الإسلام إنما یکرہ ہذا إذا لم یکن من عذر، أما إذا کان فلا یکرہ کما في الجمعۃ إذا کان القوم علی الرف، وبعضہم علی الأرض لضیق المکان۔ (الحصکفي، الدرالمختار مع رد المحتار، ’’کتاب الصلوۃ: باب مایفسد الصلوۃ ومایکرہ فیہا، مطلب إذا تردد الحکم بین سنۃ وبدعۃ‘‘: ج۲، ص: ۴۱۵)
 

فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج5 ص433

 

نماز / جمعہ و عیدین

الجواب وباللّٰہ التوفیق: زید کی فرض نماز پہلے ادا ہوگئی تھی دو بارہ جو نماز پڑھی وہ نفلی ہوئی اس کے پیچھے لوگوں کی فرض نماز ادا نہیں ہوئی۔(۱)

(۱) ولا مفترض بمتنفل وبمفترض فرضاً آخر لأن اتحاد الصلاتین شرط عندنا۔ (الحصکفي، الدر المختار مع ردالمحتار، ’’کتاب الصلاۃ: باب الإمامۃ، مطلب الواجب کفایۃ ہل یسقط بفعل الصبي وحدہ‘‘: ج ۲، ص: ۳۲۵)
ولا اقتداء المفترض بالمتنفل۔ (جماعۃ من علماء الہند، الفتاویٰ الہندیۃ: ’’کتاب الصلاۃ: الباب الخامس في الإمامۃ، الفصل الثالث في بیان من یصلح إماما‘‘: ج ۱، ص: ۱۴۳)

فتاویٰ دارالعلوم وقف دیوبند ج4 ص346

 

Islamic Creed (Aqaaid)

Ref. No. 2786/45-4342

In the name of Allah the most Gracious the most Merciful

The answer to your question is as follows:

Kufr will be applied to the one who utters the words of Kufr from the tongue; in fact, it is not possible to know what is in the heart of the speaker, so the focal point of Kufr will be on the pronunciation of Kufr words. Therefore, unless the person repents, he will not be treated like a Muslim. He is obliged to go through the repentance and renewal of faith along with the renewal of the marriage if he is married.

And Allah knows best

Darul Ifta

Darul Uloom Waqf Deoband

 

Islamic Creed (Aqaaid)

Ref. No. 863/41-1093 A

In the name of Allah the most Gracious the most Merciful

The answer to your question is as follows:

Allamah Jarullah Zamakhshari was Hanafite in school of thought and according to his belief he was Mu’tazilite. 

الزمخشری جاراللہ: کان اماما  فی التفسیر والنحو واللغۃ والادب واسع العلم کبیرالفضل متفننا فی علوم شتی معتزلی المذھب متجاھرا بذلک۔ (معجم الادباء 6/2688)

And Allah knows best

Darul Ifta

Darul Uloom Waqf Deoband

تجارت و ملازمت
https://dud.edu.in/darulifta/?qa=2776/%D9%88%D8%A8%D8%B1%DA%A9%D8%A7%D8%AA%DB%81-%D9%81%D8%A7%D8%B1%D9%85%D8%B3%D8%B3%D9%B9-%D9%84%D8%A7%D8%A6%D8%B3%D9%86%D8%B3-%D9%86%D8%A7%D8%AC%D8%A7%D8%A6%D8%B2-%D8%B8%D8%A7%DB%81%D8%B1%DB%81%DB%8C%DA%BA-%D9%81%D8%A7%D8%B1%D9%85%D8%A7%D8%B3%D8%B3%D9%B9-%D9%84%D8%A7%D8%A6%D8%B3%D9%86%D8%B3-%D9%81%D8%A7%D8%B1%D9%85%DB%8C%D8%B3%DB%8C&show=2776#q2776

عائلی مسائل

Ref. No. 1406/42-840

الجواب وباللہ التوفیق

بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ قرآنی آیات یا ماثور دعاؤں  سے جادو ونظربد کا علاج کرایا جائے تو اس میں کوئی حرج نہیں ہے، اور اس سلسلہ میں کسی دیندار شخص سے  ہی رابطہ کرنا چاہئے۔ تاہم رنگ برنگ کی ڈوریاں اور ناریل  اور ختنہ کی چمڑی وغیرہ کا استعمال محض وہمی چیزیں ہیں، ان سے احتراز کرنا چاہئے۔ اصل اعتقاد یہ ہو کہ اللہ تعالی ہی شفا دینے والے ہیں اور قرآنی آیات وغیرہ اللہ تعالی کی رحمتوں کاوسیلہ ہیں اس لئے ان کو اختیار کیا جاتاہے تاکہ اللہ کی رحمت متوجہ ہو۔  کسی بھی چیز کو کھولنےیا بندش کرنے کا اختیار صرف اللہ تعالی کو ہے:

 مایفتح اللہ للناس من رحمۃ فلاممسک لھا ومایمسک فلا مرسل لہ من بعدہ ۔ وان یمسسک اللہ بضر فلاکاشف لہ الا ھو وان یمسسک بخیر فھو علی کل شیئ قدیر (سورۃ الانعام)۔

 اس لئے مذکور شخص کا بندش کرانے کی ترغیب دینا بدعقیدگی ہے۔ ایسے شخص سے احتیاط لازم ہے۔

واللہ اعلم بالصواب

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند

ربوٰ وسود/انشورنس

Ref. No. 1998/44-1955

بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔

الجواب وباللہ التوفیق: بشرط صحت سوال کسی بھی صورت میں اپنے حق سے زیادہ کا دعویٰ کرنا اور اس دعویٰ کے نتیجہ میں زائد مال حاصل کرنا شرعاً جائز نہیں ہے چاہے مقروض کے ٹال مٹول کی وجہ سے نقصان ہی ہو رہا ہو، لہٰذا مذکورہ مسئلے میں زائد رقم سود شمار ہوگی اگر آپ کے والد بھی اس کام میں شریک ہیں تو وہ بھی گنہگار ہوں گے اور اگر وہ اس سے لا تعلق ہیں یا رہے ہیں تو ان پر کوئی گناہ نہیں ہوگا۔

’’وفیہا وفي الأشباہ: لا یجوز الاعتیاض عن الحقوق المجردۃ کحق الشفعۃ وعلی ہذا لا یجوز الاعتیاض عن الوظائف بالأوقاف‘‘ (رد المحتار: ج ۴، ص: ۵۱۸)

’’عن أبي ہریرۃ رضي اللّٰہ عنہ أن رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم قال لصاحب الحق فذ حقک في عفاف واف أو غیر واف‘‘ (أخرجہ ابن ماجۃ، في سننہ)

واللہ اعلم بالصواب

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند

 

اسلامی عقائد

الجواب وبا اللّٰہ التوفیق:پرانی یا نئی کوئی بھی قبر ہو اس کو پختہ کرنا اور مزار کی شکلیں بنانا شریعت اسلامیہ میں ناجائز اور ممنوع ہے، امام ترمذی نے رحمۃ اللہ علیہ حضرت جابر رضی اللہ عنہ کی روایت نقل کی ہے: ’’قال: نہی النبي صلی اللّٰہ علیہ وسلم أن تجصص القبور وأن یکتب علیہا وأن یبنی علیہا وأن توطأ‘‘(۱) اس کی اصل نہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم اور نہ ہی صحابہ کرام رضوان اللہ عنہم کے دور میں ملتی ہے اس سے اگلی نسل میں بدعات وخرافات ظاہر ہونے کا قوی اندیشہ ہے؛ اس لئے اس طرح کی بدعت سے بچنا لازم ہے۔ ’’ولم یکن من ہدیہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم تعلیۃ القبور ولا بناؤہا بآجر ولا بحجر ولبن ولا تشییدہا، ولا تطیینہا ولا بناء القباب علیہا فکل ہذا بدعۃ مکروہۃ مخالفۃ لہدیہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم الخ‘‘(۲) اللہ تبارک وتعالیٰ نے یہود ونصاری پر لعنت فرمائی ہے جنہوں نے اپنے پیغمبروں اور صالحین کی قبروں کو مسجدبنا لیا، ’’لعن اللّٰہ الیہود اتخدوا قبور أنبیائہم مساجد‘‘ (۳)

(۱) أخرجہ الترمذي، في سننہ، ’’أبواب الجنائز، باب ما جاء في کراہیۃ تجصیص القبور والکتابۃ علیہا‘‘: ج ۱، ص: ۲۰۳، رقم: ۱۰۵۲۔   (۲) ابن قیم، زاد المعاد، ’’فصل في تعلیۃ القبور‘‘: ج ۱، ص: ۵۵۰۔
(۳) أخرجہ البخاري، في صحیحہ، ’’کتاب الصلاۃ:، باب ہل ینبش قبور مشرکي الجاہلیۃ‘‘: ج ۱، ص: ۶۱۔

 

فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج1ص390

 

اسلامی عقائد

الجواب وباللّٰہ التوفیق:سوال میں جو باتیں آپ نے ذکر کی ہیں ان کا اسلام سے کوئی تعلق نہیں ہے، افسوس ہے کہ ناجائز اور حرام کاموں کو مذہبی شعار سمجھ کر انجام دیا جار ہا ہے، یہ سب بدعات اور خرافات ہیں مسلمانوں کو ان کاموں سے مکمل اجتناب کرنا چاہیے، ڈھول، میوزک اور پیانو شریعت میں حرام ہے اس سے دل میں نفاق پیدا ہوتا ہے اور جس طرح یہ چیزیں بجانا حرام ہے اسی طرح اس کا سننا بھی حرام ہے، زور وطاقت سے چندہ وصول کرنا حرام ہے اگر چہ ان پیسوں کو کسی بھی خیر کے کام میں لگایا جائے، دسویں محرم کو کربلا جانا یہ روافض کے کام ہیں مسلمانوں کو ان سے بچنا چا ہیے ’’عن عائشۃ -رضي اللّٰہ عنہا- قالت: قال رسول اللّٰہ علیہ وسلم: من أحدث في أمرنا ہذا ما لیس فیہ فہو رد(۱) و کرہ کل لہو و استماعہ کالرقص، و السخریۃ، و التصفیق، وضرب الأوتار من الطنبور، و البربط، و الرباب، و القانون، و المزمار، و الصنج، و البوق فإنہا کلہا مکروہۃ لأنہا زی الکفار، واستماع ضرب الدف، والمزمار، وغیر ذلک حرام،(۲) قال ابن مسعود صوت اللہو، والغنا ینبت النفاق في القلب کما ینبت الماء النبات قلت وفي البزازیۃ استماع صوت الملاھی کضرب قصب ونحوہ حرام‘‘ (۳)

(۱) أخرجہ البخاري، في صحیحہ، ’’کتاب الصلح: باب إذا اصطلحوا علی صلح جور‘‘: ج ۱، ص: ۳۷۱، رقم: ۲۶۹۷۔
(۲) ابن عابدین، الدر المختار مع رد المحتار، ’’کتاب الحظر والإباحۃ: فصل في البیع‘‘: ج ۹، ص: ۶۶۵۔
(۳) ابن عابدین، الدر المختار مع الدر المحتار، ’’کتاب الحظر والإباحۃ‘‘: ج ۹، ص: ۲۰۵)


فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج1ص478