Frequently Asked Questions
نماز / جمعہ و عیدین
الجواب وباللّٰہ التوفیق: نماز پڑھتے ہوئے کہنیوں تک کھلا رکھنا مرد کے لیے بھی مکروہ تنزیہی ہے (غیراولیٰ ہے) اگر بنیان ایسی ہے کہ اس میں کہنیاں کھلی رہتی ہیں، تو اس میں نماز تو ادا ہوجائے گی مگر مکروہ تنزیہی اور خلاف اولیٰ ہوگی۔(۱)
’’قال ابن الہمام وقد أخرج الستۃ عنہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم أمرت أن أسجد علیٰ سبعۃ وأن لا أکف شعرا ولا ثوباً ویتضمن کراہۃ کون المصلی مشمرا کمیہ‘‘(۲)
’’ولو صلی رافعاً کمیہ إلی المرفقین کرہ‘‘(۳)
(۱) وکرہ الإقعاء وافتراش ذراعیہ وتشمیر کمیہ عنہما للنہي عنہ لما فیہ من الجفاء المنافي للخشوع۔ (حسن بن عمار، مراقي الفلاح علی حاشیۃ الطحطاوي، ’’کتاب الصلاۃ، فصل في المکروہات‘‘: ص: ۴۹، ۳۴۸، شیخ الہند دیوبند)
ٰیبَنِیْ اٰدَمَ خُذُوْا زِیْنَتَکُمْ عِنْدَ کُلِّ مَسْجِدٍ وَّکُلُوْا وَاشْرَبُوْا وَلَاتُسْرِفُوْاج اِنَّہٗ لَایُحِبُّ الْمُسْرِفِیْنَہع ۳۱ (الأعراف: ۳۱)
(۲) ابن الہمام، فتح القدیر: ج ۱، ص: ۴۲۴۔
(۳) جماعۃ من علماء الہند، الفتاویٰ الہندیۃ، کتاب الصلاۃ، الباب السابع، الفصل الثاني فیما یکرہ في الصلاۃ و ما یکرہ: ج ۱، ص: ۱۶۵، مکتبہ فیصل دیوبند۔)
فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج6 ص165
فقہ
Ref. No. 1231 Alif
الجواب وباللہ التوفیق
بسم اللہ الرحمن الرحیم۔درست ہے، کوئی قباحت نہیں۔ واللہ اعلم بالصواب
دارالافتاء
دارالعلوم وقف دیوبند
تجارت و ملازمت
Ref. No. 41/957
الجواب وباللہ التوفیق
بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ مذکورہ کاروبار درست نہیں ہے۔البتہ اگر پالنے والے کو ماہانہ یا سالانہ اجرت پر رکھاجائے تو جانور کو پالنے کے لئے دینا درست ہے۔
واللہ اعلم بالصواب
دارالافتاء
دارالعلوم وقف دیوبند
نماز / جمعہ و عیدین
Ref. No. 1170/42-418
الجواب وباللہ التوفیق
بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ جہری نمازوں کی قضاء اگر جہری نماز کے اوقات میں کرے تو جہری اور سری دونوں کا اختیار ہے، اور اگر سری نماز کے اوقات میں قضاء کرے تو سری ہی قراء ت کرے گا۔ جہر جائز نہیں ہے۔ فجر کی نماز کی قضاء اگر طلوع فجر کے بعد کرے تو سری قراءت کرے گا، البتہ اگر جماعت کے ساتھ نماز ہو تو امام جہری قراءت کرے گا۔
ویخافت المنفرد حتما ای وجوبا ان قضی الجھر یۃ فی وقت المخافتۃ کان صلی العشاء بعد طلوع الشمس۔ (ردالمحتار، فصل فی القراءۃ 1/533)
واللہ اعلم بالصواب
دارالافتاء
دارالعلوم وقف دیوبند
اسلامی عقائد
Ref. No. 1616/43-1200
بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ حالت حمل میں عورت کی طبیعت خراب ہونا، کھانسی، الٹی وغیرہ ہونا عام بات ہے۔ کھانسی کا علاج کسی اچھے اسپتال میں کرانا چاہئے تھا۔بلا ڈاکٹر کے مشورہ کے اسقاط حمل جائز نہیں، اس لئے میاں بیوی نے جو کچھ کیا وہ ناجائز تھا۔ دونوں اللہ تعالی سے توبہ کریں اور حسب حیثیت صدقہ بھی کریں تو بہتر ہے۔
الْعِلَاجُ لِإِسْقَاطِ الْوَلَدِ إذَا اسْتَبَانَ خَلْقُهُ كَالشَّعْرِ وَالظُّفْرِ وَنَحْوِهِمَا لَا يَجُوزُ وَإِنْ كَانَ غَيْرَ مُسْتَبِينِ الْخَلْقِ يَجُوزُ وَأَمَّا فِي زَمَانِنَا يَجُوزُ عَلَى كُلِّ حَالٍ وَعَلَيْهِ الْفَتْوَى كَذَا فِي جَوَاهِرِ الْأَخْلَاطِيِّ. ۔ ۔ وَفِي الْيَتِيمَةِ سَأَلْت عَلِيَّ بْنَ أَحْمَدَ عَنْ إسْقَاطِ الْوَلَدِ قَبْلَ أَنْ يُصَوَّرَ فَقَالَ أَمَّا فِي الْحُرَّةِ فَلَا يَجُوزُ قَوْلًا وَاحِدًا وَأَمَّا فِي الْأَمَةِ فَقَدْ اخْتَلَفُوا فِيهِ وَالصَّحِيحُ هُوَ الْمَنْعُ كَذَا فِي التَّتَارْخَانِيَّة." (الھندیۃ كتاب الكراهية، الْبَابُ الثَّامِنَ عَشَرَ فِي التَّدَاوِي وَالْمُعَالَجَاتِ وَفِيهِ الْعَزْلُ وَإِسْقَاطُ الْوَلَدِ، ٥ / ٣٥٦، ط: دار الفكر)
"العلاج لإسقاط الولد إذا استبان خلقه كالشعر والظفر ونحوهما لا يجوز وإن كان غير مستبين الخلق يجوز وأما في زماننا يجوز على كل حال وعليه الفتوى، كذا في جواهر الأخلاطي. وفي اليتيمة سألت علي بن أحمد عن إسقاط الولد قبل أن يصور فقال: أما في الحرة فلايجوز قولاً واحدًا، و أما في الأمة فقد اختلفوا فيه والصحيح هو المنع، كذا في التتارخانية….امرأة مرضعة ظهر بها حبل وانقطع لبنها وتخاف على ولدها الهلاك وليس لأبي هذا الولد سعة حتى يستأجر الظئر يباح لها أن تعالج في استنزال الدم ما دام نطفة أو مضغة أو علقة لم يخلق له عضو وخلقه لا يستبين إلا بعد مائة وعشرين يوما أربعون نطفة وأربعون علقة وأربعون مضغة كذا في خزانة المفتين. و هكذا في فتاوى قاضي خان." (الھندیۃ 5 / 356، الباب الثامن عشر فی التداوی والمعالجات، کتاب الکراہیۃ، ط؛ رشیدیہ)
واللہ اعلم بالصواب
دارالافتاء
دارالعلوم وقف دیوبند
Miscellaneous
Ref. No. 1697/43-1330
بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ میت سڑچکی ہے، اگر ممکن ہو تو اس پر پانی بہادیا جائے ورنہ غسل کی بھی ضرورت نہیں ہے، اس کی نمازجنازہ نہیں پڑھی جائے گی۔اس کو پورے تابوت سمیت دفن کردیا جائے۔
ولو کان المیت متفسخًا یتعذر مسحہ کفی صب الماء علیہ (عالمگیري: ۱/۱۵۸) لا یصلی علیہ بعد التفسخ لأن الصلاة شرعت علی بدن المیت فإذا تفسخ لم یبق بدنہ قائمًا (البحر الرائق: ۲/۳۲۰، زکریا دیوبند) ولا بأس باتخاذ تابوت ولو من حجر أو حدید لہ عند الحاجة کرخاوة الأرض ․․․․ وإلاّ کرہ الخ (درمختار مع الشامی: 3/140، کتاب الصلاة ، باب صلاة الجنازة ، مطبوعہ: مکتبہ زکریا دیوبند)
واللہ اعلم بالصواب
دارالافتاء
دارالعلوم وقف دیوبند
اسلامی عقائد
Ref. No. 1801/43-1541
الجواب
بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ حق بات بولنا اور بدعت و گمراہی سے نفرت کرنا اور اس کی بیخ کنی کے لئے حسب قدرت اٹھ کھڑا ہونا یہ ایمانی تقاضہ ہے۔ ہر مؤمن کو ایسا ہونا چاہئے، حدیث میں اس کی جانب رہنمائی کی گئی ہے، البتہ موقع و محل اور کہنے کا انداز ایسا ہونا چاہئے جو مؤثر ہو، ایسانہ ہو کہ اصلاح کے بجائے فتنہ وفساد کاسبب بن جائے۔ اس لئے قرآن کریم نے لوگوں کو حکمت کے ساتھ دعوت و تبلیغ کرنے اور بحث ومباحثہ میں احسن طریقہ اختیار کرنے کا حکم دیاہے۔
کسی مسلمان کے بارے میں حسن ظن ہی رکھنا چاہئے جب تک کہ اس کے خلاف کا مشاہدہ نہ ہوجائے، اس لئے کس نے کونسا گناہ کیاہے، اس کا علم مغیبات میں سے ہے، جس کو صرف اور صرف اللہ تعالی جانتے ہیں۔ آپ کو کسی کےبارے میں بدگمان نہیں ہونا چاہئے، کسی کے بارے میں اگردل میں یہ خیال آتاہے کہ اس نے فلاں گناہ کیا ہے تو اس کو محض ایک وسوسہ سمجھیں، اس شخص کو برا نہ سمجھیں، ہوسکتاہے کہ آپ کو غلط فہمی ہوئی ہو، یا اس نے اس گناہ سے توبہ کرلیا ہو یا وہ گناہ کسی نیک عمل سے بدل گیاہو وغیرہ۔ اس طرح کے وساوس کے دفعیہ کے لئے جلد از جلد کسی صاحب نسبت بزرگ سے مسلسل رابطہ میں رہنا مفید معلوم ہوتاہے۔
عن أبی سعيد: سمعت رسول الله صلى الله عليه وسلم، يقول: «من رأى منكم منكرا، فاستطاع أن يغيره بيده، فليغيره بيده، فإن لم يستطع، فبلسانه، فإن لم يستطع، فبقلبه، وذلك أضعف الإيمان» (سنن ابن ماجہ، باب الامر بالمعروف 2/1330 الرقم 4013)
اُدْعُ اِلٰى سَبِیْلِ رَبِّكَ بِالْحِكْمَةِ وَ الْمَوْعِظَةِ الْحَسَنَةِ وَ جَادِلْهُمْ بِالَّتِیْ هِیَ اَحْسَنُؕ-اِنَّ رَبَّكَ هُوَ اَعْلَمُ بِمَنْ ضَلَّ عَنْ سَبِیْلِهٖ وَ هُوَ اَعْلَمُ بِالْمُهْتَدِیْنَ (سورۃ النحل 125)
ان الحسنات یذھبن السیئات، ذلک ذکری للذاکرین (سورہ ھود 114)
واللہ اعلم بالصواب
دارالافتاء
دارالعلوم وقف دیوبند
طلاق و تفریق
Ref. No. 2215/44-2353
بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ چونکہ جان بوجھ کر گاڑی کو مخاطب کرکے طلاق کو اس کی جانب منسوب کیا ہے ، اس لئے مذکورہ صورت میں اس کی بیوی پر کوئی طلاق واقع نہیں ہوگی۔
واللہ اعلم بالصواب
دارالافتاء
دارالعلوم وقف دیوبند
اسلامی عقائد
الجواب وباللّٰہ التوفیق:جو حالات آپ نے لکھے ہیں اور جو افعال وہ کرتے ہیں وہ کفریہ ہیں ایسا کرنا قطعاً اور کسی اعتبار سے بھی جائز نہیں ہے۔ ان کو سمجھایا جائے اور عقائد کی کتابیں ان کو دکھلائی جائیں، اگر وہ باز نہ آئیں اور توبہ و استغفار کرکے اپنے عقائد کو درست نہ کریں، تو ان سے اجتناب ضروری ہوگا۔ اپنے عقائد اور کردار کی حفاظت کے لئے ایسے لوگوں سے ترک تعلق شرعی حکم ہے۔(۱)
(۱) أسماء رجال صالحین من قوم نوح، فلما ہلکوا وحي الشیطان إلي قومہم أن انصبوا إلي مجالسہم التي کانوا یجلسون أنصاباً وسمَّوہا بأسمائہم، ففعلوا، فلم تعبد، حتی إذا ہلک أولٰئک وتنسخ العلم عبدت۔ (أخرجہ البخاري، في صحیحہ، ’’کتاب السیر: سورۃ نوح، باب وداً ولا سواعاً ولا یغوث‘‘: ج ۲، ص: ۷۳۲، رقم: ۴۹۲۰)
وأعلم أن النذر الذي یقع للأموات من أکثر العوام وما یؤخذ من الدراہم والشمع والزیت ونحوہا إلی ضرائح الأولیاء الکرام تقربا إلیہم فہو بالإجماع باطل وحرام۔
قولہ: (باطل وحرام) لوجوہ منہا: أنہ نذر لمخلوق والنذر للمخلوق لا یجوز لأنہ عبادۃ والعبادۃ لا تکون لمخلوق۔ ومنہا: أن المنذور لہ میت والمیت لا یملک۔ ومنہ: أنہ إن ظن أن المیت یتصرف في الأمور دون اللّٰہ تعالیٰ واعتقادہ ذلک کفر۔ (ابن عابدین، الدر المختارمع رد المحتار، ’’کتاب الصوم: باب ما یفسد الصوم وما لا یفسدہ، مطلب: في النذر الذي یقع للأموات من أکثر‘‘: ج ۳، ص: ۴۲۷)
فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج1ص394
اسلامی عقائد
الجواب وباللّٰہ التوفیق:مذکورہ فی السوال طریقہ جو رائج ہے اس کی کوئی اصل نہیں ہے یہ خیال بالکل غلط ہے۔ ذبح اور تکبیر حیوانوں کے لئے ہے نہ کہ پھل وغیرہ کے لئے(۱) شریعت اسلامیہ میں اس کی کوئی حقیقت نہیں ہے۔
’’ولم یکن لہ أصل من الشریعۃ الغراء‘‘(۲) اس سے بدعات کو فروغ ملتا ہے اور بے اصل اور بے بنیاد چیزیں مذہب میں داخل ہوجاتی ہیں اور ایسا کرنے والا گناہگار ہوتا ہے؛ اس لئے اس سے پرہیز کرنا اور بچنا ضروری ہے۔
’’عن عائشۃ -رضي اللّٰہ عنہا- قالت: قال رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم: من أحدث في أمرنا ہذا ما لیس منہ فہو رد‘‘(۳) ’’من أحدث في الإسلام رأیا لم یکن لہ من الکتاب والسنۃ سند ظاہر أو خفي ملفوظ أو مستنبط فہو مردود‘‘(۴)
البتہ ہر کام کو شروع کرنے سے پہلے ’’بسم اللّٰہ‘‘ یا ’’الحمد للّٰہ‘‘ وغیرہ پڑھنا باعث خیر وبرکت ہے۔ ’’قال: قال رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم: کل أمر ذي بال لا یبدأ فیہ بالحمد أقطع‘‘(۴)
(۱) أشرف علي التھانوي، أغلاط العوام: ص: ۱۸۲۔
(۲) علامہ أنور شاہ الکشمیري، العرف الشذي، ’’أبواب العیدین، باب ما جاء في التکبیر في العیدین‘‘: ج ۱، ص: ۵۶۸۔
(۳) أخرجہ مسلم، في صحیحہ، ’’کتاب الأقضیۃ: باب نقض الأحکام الباطلۃ‘‘: ج ۲، ص: ۷۷، رقم: ۱۷۱۸۔
(۴) ملا علي قاري، مرقاۃ المفاتیح، ’’کتاب الإیمان: باب الاعتصام بالکتاب والسنۃ، الفصل الأول‘‘: ج ۱، ص: ۳۳۶، رقم: ۱۴۰۔
(۵) أخرجہ ابن ماجہ، في سننہ، ’’أبواب النکاح: باب خطبۃ النکاح‘‘: ج ۱، ص: ۶۱۰، رقم: ۱۸۹۴۔
فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج1ص520