نماز / جمعہ و عیدین

الجواب وباللہ التوفیق: اگر اگلی صف میں جگہ ہے تو اس کو پُر کرنے کے لیے نابالغ بچوں کے آگے سے گزرنا درست ہے۔ بلا وجہ نہ گزریں۔ تاکہ نمازی کے آگے سے گزرنے کا گناہ لازم نہ آئے۔
’’وإن أثم المار لحدیث البزار لو یعلم المار ما ذا علیہ من الوزر لوقف أربعین خریفاً، قولہ لحدیث البزار: ذکر في الحلیۃ أن الحدیث فيالصحیحین بلفظ لو یعلم المار بین یدي المصلي ماذا علیہ لکان أن یقف أربعین خیرا لہ من أن یمر بین یدیہ، قال أبو النضر أحد رواتہ لا أدري قال: أربعین یوماً أو شہرا أو سنۃ قال وأخرجہ البزار وقال: أربعین خریفاً … والخریف السنۃ، سمیت بہ باعتبار بعض الفصول‘‘(۱)

(۱) ابن عابدین، رد المحتار، ’’کتاب الصلاۃ، باب ما یفسد الصلاۃ وما یکرہ فیہا، فروع مشی المصلي مستقبل القبلۃ‘‘: ج ۲، ص: ۳۹۹۔
إن کعب الأحبار قال: لو یعلم المار بین یدي المصلي ما ذا علیہ لکان أن یخسف بہ خیراً لہ من أن یمر بین یدیہ۔ أخرجہ مالک في الموطأ، کتاب الصلاۃ، الشدید في أن یمر بین یدي المصلي، ص
۱۵۳

فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج5 ص450

 

نماز / جمعہ و عیدین

الجواب وباللّٰہ التوفیق: نماز میں مطلقاً قرأت فرض ہے اور سورہ فاتحہ یا سورت کا ملانا واجب ہے، اگر سورت ملانا بھول جائے، تو سجدہ سہو سے نماز درست ہو جائے گی اور اگر قرأت بالکل ہی نہ کی ہو، تو نماز دو بارہ پڑھنی فرض ہوگی۔(۱)

(۱) ولہا واجباتٌ وفي قراء ۃ  فاتحۃ الکتاب … (و) في جمیع رکعات النفل لأن کل شفع منہ صلاۃ وکل الوتر۔ (ابن عابدین، الرد المحتار، ’’کتاب الصلاۃ، باب صفۃ الصلاۃ، مطلب کل شفع من النفل صلاۃ‘‘: ج۲، ص: ۱۴۹؛ و والسہو یلزم إذا زاد في صلاۃ فعلا من جنسہا لیس منہا أوترک فعلاً مسنونا أوترک قراء ۃ فاتحۃ الکتاب اوالقنوت أو التشہد أو تکبیرات العیدین أو یجہر الإمام فیما یخافت أو خافت فیما یجہر۔ (عبدالغني الغنیمي الدمشقي، اللباب في شرح الکتاب، ’’باب سجود السہو‘‘: ج۱، ص: ۹۶)
ضم سورۃ إلی الفاتحۃ في جمیع رکعات النفل والوتر والأولین من الفرض ویکفي في أداء الواجب أقصر سورۃ أو مایماثلہا کثلاث آیات قصار أو آیۃ طویلۃً والآیات القصار الثلاث۔ (عبدالرحمن الجزیري، الفقہ علی المذاہب الأربعۃ، ’’واجبات الصلاۃ‘‘: ج۱، ص: ۱۷)

 

فتاویٰ دارالعلوم وقف دیوبند ج4 ص363

نماز / جمعہ و عیدین

الجواب وباللہ التوفیق: سلام پھیرنا واجب ہے اس لئے اگر کسی کو سلام سے پہلے حدث لاحق ہو گیا تو ایک واجب رہ گیا، ایسا شخص وضو کر کے سلام پھیر دے تو یہ بناء درست ہے اور نماز ہو جائیے گی، البتہ بناء کرنے کے مقابلہ میں استیناف یعنی از سر نو پور نماز پڑھنا افضل ہے، چونکہ بناء کے شرائط سخت ہیں اکثر لوگ ان سے واقف نہیں ہوتے، اس لئے استیناف افضل ہے۔
’’وأما حکمہ، فہو الخروج من الصلاۃ، ثم الخروج یتعلق بإحدی التسلیمتین عند عامۃ العلماء، وقد روي عن محمد أنہ قال: التسلیمۃ الأولی للخروج والتحیۃ، والتسلیمۃ الثانیۃ للتحیۃ خاصۃً۔ ‘‘(۱)
’’عن عائشۃ رضي اللّٰہ عنہا قالت: قال رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم: من أصابہ في أو رعاف أو قلس أو مذي، فلینصرف فلیتوضأ، ثم لیبن علی صلوتہ، وہوفي ذلک لا یتکلم۔ والأحادیث في الباب مختلفۃ، منہا: ما یدل علی الاستیناف، ومنہا ما یدل علی البناء فجمعنا بینہا بأن حکمنا بجواز کلیہما واستحباب الاستیناف‘‘(۲)
’’سبق الإمام حدیث … غیر مانع البناء کما قدمناہ ولو بعد التشہد لیأتي بالسلام واستینافہ أفضل تحرزاً عن الخلاف … وإذا ساغ لہ البناء توضأ فوراً بکل سنۃ وبنی علی ما مضی الخ‘‘(۳)
’’ثم ما ذکرنا من جواز البناء لا یتخلف، سیما إذا کان الحدث في وسط الصلاۃ أو في آخرہا، حتی لو سبقہ الحدث بعد ما قعد قدر التشہد الأخیر  یتوضأ، ویبني عندنا، لأنہ یحتاج إلی الخروج بلفظۃ السلام التي ہي واجبۃ‘‘(۴)

(۱) الکاساني، بدائع الصنائع، ’’کتاب الصلاۃ: فصل: و أما بیان مواضع الجنۃ الخ‘‘: ج ۱، ص: ۴۵۷، (رشیدیہ)۔
(۲) ظفر أحمد العثماني، إعلاء السنن، ’’کتاب الصلاۃ: باب جواز البناء لمن أحدث في الصلاۃ‘‘: ج ۵، ص: ۱، (ادارۃ القرآن، کراچی)۔
(۳) الدر المختار، ’’کتاب الصلاۃ: باب الإمامۃ‘‘: ج ۱، ص: ۵۹۹، ۶۰۵، سعید۔
(۴) الکاساني، بدائع الصنائع، ’’کتاب الصلاۃ: آخر فصل شرائط جواز البناء‘‘: ج ۱، ص: ۵۲۱، (رشیدیہ)۔

فتاویٰ دارالعلوم وقف دیوبند ج6 ص63

 

نماز / جمعہ و عیدین

الجواب وبا اللّٰہ التوفیق: بغیر اجازت کسی کی چیز نہ لینا چاہیے صراحۃ اجازت لینا بہتر ہے، اور ایک دوسرے کی ٹوپی، لنگی وغیرہ استعمال کرنے میں کوئی اعتراض کسی کو نہ ہو تو دلالۃً اجازت کی وجہ سے استعمال کرنے کی گنجائش ہے اگر اس طرح استعمال پر مالک کو کوئی اعتراض نہ ہو تو یہ اجازت میں شمار ہوتی ہے، تاہم نماز بہر صورت اداء ہو جاتی ہے۔(۱)

(۱) وتکرہ في أرض الغیر بلا رضاہ۔ (حسن بن عمار، مراقي الفلاح مع حاشیۃ الطحطاوي: ص: ۳۵۸)
وفي مختارات الفتاویٰ۔ الصلاۃ في أرض مغصوبۃ جائزۃ … لأن الظاہر أنہ یرضی بہا لأنہ ینال أجراً من غیر اکتساب منہ۔ (أحمد بن محمد، حاشیۃ الطحطاوي علی مراقي الفلاح: ص: ۳۵۸)
فروع: تکرہ الصلاۃ في الثوب المغصوب وإن لم یجد غیرہ لعدم جواز الإنتفاع بملک الغیر قبل الإذن۔ (أحمد بن محمد، حاشیۃ الطحطاوي علی مراقي الفلاح، ’’کتاب الصلاۃ: فصل في المکروہات‘‘: ص: ۳۵۸، مکتبہ شیخ الہند دیوبند)
الصلاۃ في أرض مغصوبۃ جائزۃ۔ (جماعۃ من علماء الہند، الفتاویٰ الہندیۃ، ’’کتاب الصلاۃ: الباب السابع،  الفصل الثاني: فیما یکرہ في الصلاۃ وما لا یکرہ‘‘: ج ۱، ص: ۱۶۸، زکریا دیوبند)

 

فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج6 ص188

نماز / جمعہ و عیدین

الجواب وباللّٰہ التوفیق: مذکورہ طریقہ نہ واجب نہ فرض ہے؛ بلکہ بہتر اور مندوب ہے اس کو لازم سمجھنا درست نہیں۔(۲)

(۲) قال کعب بن مالک: کان النبی صلی اللّٰہ علیہ وسلم إذا قدم من سفر بدأ بالمسجد فصلی فیہ۔ (الکشمیري، فیض الباری علی شرح البخاری،  کتاب الصلاۃ، باب الصلاۃ إذا قدم من سفر ج۲، ص: ۶۸، بیروت)
ومن المندوبات رکعتا السفر والقدوم منہ: عن مطعم بن المقدام قال: قال رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم: ماخلف أحد عند أہلہ أفضل من رکعتین یرکعہما عندہم حین یرید سفراً رواہ الطبراني۔ وعن کعب بن مالک کان رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم لایقدم من السفر إلا نہارا في الضحی،فإذا قدم بدأ بالمسجد فصلی فیہ رکعتین ثم جلس فیہ۔ رواہ مسلم۔ شرح المنیۃ۔ ومفادہ اختصاص صلاۃ رکعتي السفر بالبیت، ورکعتي القدوم منہ بالمسجد، وبہ صرح الشافعیۃ۔ (ابن عابدین، رد المحتار، کتاب الصلاۃ، باب الوتر والنوافل، مطلب في رکعتي السفر، ج:۲، ص:۴۶۶، زکریادیوبند)

 

فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج6 ص407

 

روزہ و رمضان

Ref. No. 1250 Alif

الجواب وباللہ التوفیق                                                                                           

بسم اللہ الرحمن الرحیم-: صور ت مسئولہ میں اگر زید نے فدیہ ادا کرنے کی وصیت کی تھی تو  ترکہ سے فدیہ اداکرنا  واجب ہے، اور اگر وصیت نہیں  کی اور ورثاء  اپنی خوشی سے نکالنا چاہتے ہیں توبھی درست ہے۔ حساب کرکے ہر نماز کے عوض ایک صدقة الفطر کی مقدارغلہ یا اسکی قیمت اداکریں۔روزانہ کی پانچ فرض نمازوں کے فدیہ کے ساتھ وتر کا فدیہ  بھی الگ سے ادا کریں۔ فدیہ کے مصارف وہی ہیں جو زکوة کے مصارف ہیں،  البتہ مساجد میں صرف کرنا جائز نہیں ہے۔شامی ج۲ ص۷۴، ج۳ص۲۹۱۔ 

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند

متفرقات

Ref. No. 1136

الجواب وباللہ التوفیق                                                                                                                                                        

بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔  حمیز عربی زبان کا لفظ ہے جس کے معنی قوی، خوبصورت اور انتہائی عقلمند کے ہیں۔ ہدیان کے معنی ہمیں معلوم نہیں۔   واللہ اعلم بالصواب

 

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند

اسلامی عقائد

Ref. No. 39 / 978

الجواب وباللہ التوفیق                                                                                                    

بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ کفریہ منتر پڑھنا حرام ہے؛اس لئے ایسے کلمات سے احتراز اور اپنے ایمان کی حفاظت ازحد لازمی  اور ضروری ہے۔

واللہ اعلم بالصواب

 

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند

فقہ

Ref. No. 40/1110

الجواب وباللہ التوفیق 

بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ پہلے اصل مسئلہ سمجھیں  کہ غیرسبیلین سے اگر کوئی چیز نکلے اور نکل کر اپنی جگہ سے بہہ جائے تو وضو ٹوٹ جاتاہے اور اگر اتنی معمولی مقدار میں ہے کہ وہ اپنی جگہ سے نہ بہے تو اس سے وضو نہیں ٹوٹتا ہے ۔ لیس فی القطرۃ والقطرتین من الدم وضوء الا ان یکون سائلا ۔ اس مسئلہ کی روشنی میں اگر غورفرمائیں تو پہلی عبارت درست ہے کہ زخم سے نجاست نکلی اور اتنی مقدار میں ہے کہ نچوڑنے کی صورت میں سیلان پایاجاے گا تو اس سے وضو ٹوٹ جاتا ہے اگرچہ اس کی کیفیت یہ ہے کہ اگر نہ نچوڑا جاتا تو نہ بہتا۔ جہاں تک ہدایہ کی عبارت کا تعلق ہے اما اذا عصرھا فخرج بعصرہ لاینقض لانہ مخرج ولیس بخارج، یہ درست نہیں ہے، اس لئے کہ اس صورت میں بھی وضو ٹوٹ جائے گا۔ کیونکہ وضو کے ٹوٹنے کا مدار خارج پر ہے اور مخرج سے بھی خارج کا وجود ہوجاتا ہے۔  چنانچہ علامہ لکھنوی صاحب نے ہدایہ کی اس عبارت پر نقد کیا ہے وہ لکھتے ہیں کہ : وذکر فی الکافی الاصح ان المکڑج ناقض انتہی کیف لا؟ وجمیع الادلۃ من الکتاب والسنۃ والاجماع والقیاس تدل علی تعلیق النقض بالخارج النجس وھو الثابت فی المخرج۔ (حاشیہ ہدایہ 1/116)۔

  واللہ اعلم بالصواب

 

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند

مساجد و مدارس

Ref. No. 41/8B

الجواب وباللہ التوفیق 

بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ مستقل ملازمین کی تنخواہ کاٹنا درست نہیں ہے، تاہم کسی مجبوری کی وجہ سے تاخیر ہو تو اس کی گنجائش ہے۔ 

(والأجير الخاص الذي يستحق الأجرة بتسليم نفسه في المدة وإن لم يعمل كمن استؤجر شهرا للخدمة أو لرعي الغنم) (فتح القدیر  ج9 ص128)

وَجَوَابُهُ أَنَّهُ يَسْتَحِقُّهُ بِالسَّبَبِ السَّابِقِ وَهُوَ الْعَقْدُ وَإِنَّمَا الظَّاهِرُ يَشْهَدُ عَلَى بَقَائِهِ إلَى ذَلِكَ الْوَقْتِ زَيْلَعِيٌّ مُلَخَّصًا (الدر المختار ج6 ص74)

 واللہ اعلم بالصواب

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند