Miscellaneous

Ref. No. 978/4-138

In the name of Allah the most Gracious the most Merciful

The answer to your question is as follows:

Islam urges Muslims to acquire the knowledge of medicines and drugs to protect the living body from diseases. Ulama, due to its importance, regarded it as Farze Kifaya.

Muslim societies are without doubt in dire need of Muslim lady doctors for checkups and treatments. Muslim woman who observe parda and have never been open to strangers, hesitate to visit the male doctors and feel very shy to express their private problems to them, and indeed it is due to their modesty. Hence, Muslim women’s interest in attaining medicine knowledge meets a big objective of shariah and it is highly admirable in shariah.

You can choose whatever is more convenient to you. But before proceeding to become an obstetrician and gynecologist, you must know that there are some shariah rules about abortion.

Conducting an abortion may be permissible before the fetus has reached 120 days only when a trustworthy physician decides that the continuation of pregnancy poses risk to the mother's life or health. Thereupon, it is permissible to conduct an abortion to preserve the mother's life. However in the case the fetus has reached 120 days, it is not permissible to conduct an abortion even if it is medically diagnosed with congenital defects. Conducting an abortion when the age of the fetus has reached 120 days is considered killing a soul which Allah has forbidden in the Holy Quran. Killing a soul without right is absolutely a grave sin and both parties could be sinner.

ان احدکم یجمع فی بطن امہ اربعین یوما ثم علقۃ مثل ذلک ثم یکون مضغۃ مثل ذلک ثم یبعث اللہ ملکا فیومر باربع برزقہ واجلہ وشقی او سعید (بخاری شریف)۔

ھل یباح الاسقاط بعد الحبل یباح مالم یتخلق شیئ منہ ثم فی غیر موضع ولایکون ذلک الا بعد مائۃ وعشرین یوما انھم ارادوا بالتخلیق نفخ الروح (کذا فی الشامی و فتح القدیر)

And Allah knows best

Darul Ifta

Darul Uloom Waqf Deoband

تجارت و ملازمت

Ref. No. 1180/42-442

الجواب وباللہ التوفیق 

بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔  نائی کو مسجد کی دوکان کرایہ پر دینا شرعا جائز ہے۔ لیکن احتیاط کے خلاف ہے۔ (فتاوی محمودیہ 1/464، کتاب المساجد)

واللہ اعلم بالصواب

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند


 

تجارت و ملازمت

Ref. No. 1455/42-912

الجواب وباللہ التوفیق

بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ اپنے حصہ کی دوکان کا کرایہ آپ لے سکتے ہیں اس میں کوئی حرج کی بات نہیں ہے۔

واللہ اعلم بالصواب

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند

فقہ

Ref. No. 1545/43-1126

الجواب وباللہ التوفیق

بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ اگر حدیث کی سند میں تابعی کے بعد راوی ساقط ہوں مثلا تابعی کہیں : قال رسول اللہ او فعل رسول اللہ ﷺ کذا ۔۔۔ تو اس روایت کو مرسل کہتے ہیں۔ اور اس کو منقطع بھی کہہ سکتے ہیں۔ اس لئے کہ درمیان سند سے کسی بھی راوی کے ساقط ہونے سے سند میں انقطاع پیداہوجاتاہے اور اس انقطاع کی وجہ سے ضعف بھی پیداہوتاہے ، تاہم مرسل روایت حضرت امام ابوحنیفہ اور امام مالک کے نزدیک مطلقا قابل قبول ہے، اور امام شافعی کے نزدیک چند شرطوں کے ساتھ قابل قبول ہے، جمور محدثین کے نزدیک مرسل کا حکم توقف کا ہے۔

وان کان السقوط من آخرالسند فان کان بعد التابعی فالحدیث مرسل وھذا الفعل ارسال کقول التابعی قال رسول اللہ ﷺ ۔ وحکم المرسل التوقف عندجمہور العلماء۔ وعند ابی حنیفۃ ومالک المرسل مقبول مطلقا (مقدمہ شیخ عبدالحق )

واللہ اعلم بالصواب

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند

اسلامی عقائد

الجواب وباللّٰہ التوفیق:اعتقاد کے اعتبار سے کفار ایمان بالفروع کے مخاطب ہیں اورادا کے بارے میں صحیح قول یہ ہے کہ فروع کی ادائیگی کے وہ مخاطب نہیں ہیں۔ سوال میں نور الانوار کی جو عبارت ہے (۲) اس میں اسی کی صراحت ہے۔ یہ اعتراض کہ جب وہ اداء کے مخاطب نہیں تو {ویل للمشرکین} (الآیۃ) کا کیا مطلب ہے؟ حضرت تھانویؒ نے اس کا جواب یہ دیا ہے کہ  اس آیت میں عتاب ومذمت اصل ترک زکوٰۃ پر نہیں ہے؛ بلکہ ان کا ترک زکوٰۃ کفر کی بنا پر تھا اورترک زکوٰۃ ان کے کفر کی علامت تھی، تو مذمت علامت پر ہے۔ حاصل یہ ہوا کہ تم مؤمن ہوتے، تو زکوٰۃ کی پابندی کرتے، تمہارا قصور ایمان نہ لانا ہے۔(۱)

بعض دیگر مفسرین کا کہنا ہے کہ یہاں پر زکوٰۃ سے نفس کی زکوٰۃ مراد ہے اور معنی یہ ہیں کہ ان مشرکوں کے لئے ہلاکت ہے جو اپنے نفس کو پاک نہیں کرتے اور ایمان نہیں لاتے۔ حضرت سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہ سے یہی تفسیر منقول ہے۔

بہر حال آیت سے استدلال درست نہیں ہے کہ وہ فروع کی ادائیگی کے مخاطب ہیں اور نور الانوار کی عبارت مفتی بہ قول کے اعتبار سے صحیح ہے۔

(۲) إن الکفار لا یخاطبون بأداء العبادات التي تحتمل السقوط مثل الصلوٰۃ والصوم الخ۔ (ایضا)

(۱) حضرت مولانا اشرف علی تھانوی رحمۃ اللہ علیہ، بیان القرآن، (سورۃ حم سجدہ: ۶؛ملا جیون، نور الأنوار: ص: ۶۴)

مساجد و مدارس

Ref. No. 1904/43-1796

بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔  مسجد کی تعمیر اور اس کی تمام اشیاء نماز اور اس کے متعلقات کے لئے وقف ہیں، اس لئے مسجد کو نماز کے علاوہ کسی دوسرے دینی کام میں استعمال کرنے کے لئے متولیان مسجد کی اجازت ضروری ہے۔ متولیان مسجد کی اجازت سے، مسجد کے کسی خارجی حصہ میں مکتب کا نظام قائم کرنا درست ہے۔ خیال رہے کہ مکتب چلانے سے نمازیوں کو تکلیف نہ ہو اور مسجد  کی حرمت پامال نہ ہو۔  اس لئے اگر  بہت چھوٹے بچے ہوں تو ان کو مسجد میں داخل نہ کیا جائے تاکہ مسجد کو تلویث سے محفوظ رکھاجاسکے، اسی طرح نماز کے وقت تمام سرگرمیاں موقوف کردی جائیں تاکہ نمازیوں کو خلل واقع نہ ہو۔

عن واثلۃ بن الاسقع ، أن النبی صلی اﷲ علیہ وسلم قال: جنبوا مساجدکم صبیانکم ومجانینکم ، وشراء کم ، وبیعکم ، وخصوماتکم الحدیث: ( سنن ابن ماجہ ، باب ما یکرہ فی المساجد ، النسخۃ الہندیۃ/۵۴، دارالسلام رقم: ۷۵۰)

قولہ لا لدرس وذکر لأنہ مابنی لذلک وإن جاز فیہ الخ ۔(شامی، الصلوٰۃ ، باب مایفسد الصلاۃ ، وما یکرہ فیہا ، مطلب فیمن سبقت یدہ إلیٰ مباح زکریا ۲/۴۳۷، کراچی ۱/۶۶۳)

یکرہ أ ن یخیط فی المسجد لأنہ أعد للعبادۃ دون الإکتساب وکذا الوراق والفقیۃ إذا کتب بأجرۃ أو المعلم إذا علم الصبیان بأجرۃ ۔ (قاضیخان، کتاب الطہارۃ، فصل فی المسجد زکریا جدید ۱/۴۳، وعلی ہامش الہندیۃ ۱/۶۵)

وتعلیم الصبیان فیہ بلا أجر وبالأجر یجوز۔ (بزازیہ ، کتاب الکراہیۃ ، الفصل الاول نوع فی المسجد زکریاجدید۳/۲۰۱، وعلی ھامش الہندیہ ۶/۳۵۷(

واللہ اعلم بالصواب

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند

 

حدیث و سنت

الجواب وباللّٰہ التوفیق:حضرت ابراہیم علیہ السلام کی زبان تو سریانی تھی، مگر جب نمرود کے کارندوں کے ساتھ آپ علیہ السلام نے گفتگو فرمائی، تو اس وقت عبرانی زبان میں گفتگو کی تھی، تاکہ وہ گرفت نہ کرسکیں۔(۲)

(۲) کان آدم علیہ السلام یتکلم باللغۃ السریانیۃ وکذلک أولادہ من الأنبیاء… وغیرہم غیر أن إبراہیم علیہ السلام حولت لغتہ إلی العبرانیۃ حین عبر النہر أي الفرات۔ (عمدۃ القاري شرح صحیح البخاري، باب قول اللّٰہ: ونضع الموازین‘‘: ج ۱، ص: ۵۳، رقم: ۳)
 

فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج2ص226

طہارت / وضو و غسل

الجواب وباللّٰہ التوفیق:آنکھ کے اندرونی حصے میں پانی پہنچانا ضروری نہیں ہے؛بلکہ آنکھ کی پلکوں اور دونوں کناروں پر پانی پہنچانا ضروری ہے۔ اگر مذکورہ لینس اس سے مانع نہیں ہے اور بغیر اتارے پلکوں اور آنکھوں کے کونوں پر پانی پہنچانا ممکن ہو، تو اتارنا ضروری نہ ہوگا۔(۲)

(۲) لا أعلم یجب غسلھا کلھا بقول الأکثر والأعم ممن لقیت و حکي لي عنہ من أھل العلم و بأن الوجہ نفسہ مالا شعر علیہ إلاشعر الحاجب و أشفار العینین والشارب والعنفقۃ۔……
محمد بن ادریس الشافعي، کتاب الأم،’’کتاب الطہارۃ، باب غسل الوجہ،‘‘ ج۱، ص:۸۰؛  و داخل العینین غیر أنہ سقط للحرج۔ (ابن نجیم، النہر الفائق شرح کنز الدقائق، کتاب الطہارۃ، ج۱، ص:۲۷)

 

فتاوی ٰ دارالعلوم وقف دیوبند ج3 ص152

طہارت / وضو و غسل

الجواب وباللّٰہ التوفیق:(۱) جب ریاح کے خارج ہونے کا یقین ہوجائے گرچہ اس میں آواز یا بدبو نہ ہو تو وضو ٹوٹ جاتا ہے۔ (۲) ہوا نکلنے کا یقین ہے تو وضو ٹوٹ گیا گرچہ بہت تھوڑی سی نکلی ہو۔ (۳) پیشاب اور پاخانے کے راستے سے کوئی بھی چیز نکلی تو وضو ٹوٹ جائے گا،حتی کہ اگر کوئی کیڑا وغیرہ نکلا، تو بھی وضو ٹوٹ جائے گا۔ (۴) ایک فی صد بھی اگر ہوا نکلے گی تو وضو ٹوٹ جائے گا۔ اس میں اصل سبیلین سے نکلنے پر وضو کے ٹوٹنے کا مدار ہے۔ اگر سبیلین سے نکلنا پایا گیا تو وضو کا ٹوٹنا بھی پایا جائے گا۔(۱)

(۱) وغالب الظن عند ہم ملحق بالیقین وہو الذي یبتنی علیہ الأحکام، یعرف ذلک من تصفح کلامہم في الأبواب، صرحوا في نواقض الوضوء بأن الغالب کالمتحقق۔ (ابن نجیم، الأشباہ والنظائر: ص: ۴۳)
منہا ما یخرج من السبیلین من البول والغائط والریح الخارجۃ من الدبر والودي والمذي والمني والدودۃ والحصاۃ، الغائط یوجب الوضوء قل أو کثر وکذلک البول والریح الخارجۃ من الدبر کذا في المحیط۔ (جماعۃ من علماء الہند، الفتاویٰ الہندیۃ، ’’الفصل الخامس في نواقض الوضوء‘‘: ج ۱، ص: ۹مکتبۃ فیصل، دیوبند)
والمراد بالدابۃ الدودۃ وہذا لأن النجس ما علیہا وذلک قلیل وہو حدث في السبیلین دون غیرہما فأشبہ الجثاء والفساء بخلاف الریح الخارجۃ من قبل المرأۃ وذکر الرجل لأنہا لا تنبعث عن محل النجاسۃ حتی لو کانت مفضاۃ یستحب لہا الوضوء لاحتمال خروجہا من الدبر۔ (ابن الہمام، فتح القدیر، ’’فصل في نواقض الوضوء‘‘: ج ۱، ص: ۵۳مکتبۃ زکریا دیوبند)

 

فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج3 ص258

 

نماز / جمعہ و عیدین

الجواب وباللہ التوفیق: دو صف کے فاصلہ کی مقدار چھوڑ کر گزر سکتا ہے۔(۲)

(۲) أو مرور بین یدیہ إلی حائط القبلۃ في بیت ومسجد صغیر فإنہ کبقعۃ واحدۃ مطلقاً، قال ابن عابدین، قولہ في بیت ظاہرہ ولو کبیراً وفي القہستاني وینبغي أن یدخل فیہ أي في حکم المسجد الصغیر الدار والبیت، قولہ ومسجد صغیر ہوا قل من ستین ذراعاً وقیل من أربعین وہو المختار کما أشار إلیہ في الجواہر، قہستاني۔ (ابن عابدین، رد المحتار، ’’کتاب الصلاۃ: باب الإمامۃ، مطلب إذا قرأ قولہ -تعالٰی- جدک بدون ألف لاتفسد‘‘: ج۲، ص: ۳۹۸)
قولہ: ظاہرہ ولو کبیراً لکن ینبغي تقییدہ بالصغیر کما تقدم في الإمامۃ تقیید الدار بالصغیر حیث لم یجعل قدر الصفین مانعا من الاقتداء بخلاف الکبیرۃ۔ (تقریرات الرافعي: ج ۱، ص: ۸۳)

 

فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج5 ص450