Prayer / Friday & Eidain prayers

Ref. No. 939/41-1100 A

In the name of Allah the most Gracious the most Merciful

The answer to your question is as follows:

Government has asked Muslims to suspend the Friday congregational prayer for some days as part of efforts to stem the spread of the novel coronavirus known as COVID-19. Hence, all are requested to follow strictly the guidelines of the government to be protected from coronavirus pandemic.

In this situation, Imam and Muazzin along with some people (cleaning workers etc.) should offer Friday congregational prayer in masjid and others should stay at home and offer all prayers therein. Masjid should remain closed for general public for all prayers including Friday prayer amid coronavirus pandemic. It is a good measure for safety.

And Allah knows best

Darul Ifta

Darul Uloom Waqf Deoband

 

نماز / جمعہ و عیدین

Ref. No. 831/41-000

الجواب وباللہ التوفیق 

بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ نماز میں قیام، رکوع، سجدہ فرض ہے۔ بلاکسی شدید عذر کے ان کا ترک ناجائز ہے اور نماز ادا نہیں ہوتی ہے۔ لیکن اگر قیام متعذر ہو اور بیٹھ کر رکوع ، سجدہ سے نماز پڑھ سکتا ہو تو زمین پر بیٹھ کر نماز پڑھے، کرسی پر نماز ادا نہیں ہوگی۔ لیکن اگر رکوع ، سجدہ پر بھی قدرت نہ ہو تو کرسی پر بیٹھ کر نماز پڑھ سکتا ہے ۔ پوری نماز میں کرسی کے پچھلے پائے دیگر نمازیوں کی ایڑی کے برابر رکھے جائیں گے۔

  المشقۃ تجلب  التیسیر (الاشباہ والنظائر 1/75) ۔

علامہ شامی لکھتے ہیں : اراد بالتعذر التعذر الحقیقی بحیث لوقام سقط او الحکمی بان خاف زیادتہ او بطء برئہ بقیامہ او دوران راسہ او وجد لقیامہ الما شدیدا صلی قاعدا۔ (درمختار وردالمحتار 2/9)

 واللہ اعلم بالصواب

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند

حدیث و سنت

Ref. No. 1617/43-1203

بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔مذاق کو مذاق کی حد تک رہنے دیں۔ اایسا کہنے والوں پر بھی کوئی گناہ نہیں۔سفید رنگ کا صاف ستھرا جبہ پہنیں تو شاید ایسی بات لوگ نہ کہیں۔ ہوسکتاہے آپ کا جبہ رنگین ہو۔ اور اگر پھر بھی لوگ کہیں تو کہنے دیں، آپ کو جبہ پسند ہے ، آپ اپنی پسند پر عمل کریں ۔  البتہ اگر وہ اس سے آپ کا مذاق اڑاتے ہیں، اور آپ کی توہین کرتے ہیں تو اس تذلیل کا ان کو گناہ ہوگا۔

یٰۤاَیُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا لَا یَسْخَرْ قَوْمٌ مِّنْ قَوْمٍ عَسٰۤى اَنْ یَّكُوْنُوْا خَیْرًا مِّنْهُمْ وَ لَا نِسَآءٌ مِّنْ نِّسَآءٍ عَسٰۤى اَنْ یَّكُنَّ خَیْرًا مِّنْهُنَّۚ-وَ لَا تَلْمِزُوْۤا اَنْفُسَكُمْ وَ لَا تَنَابَزُوْا بِالْاَلْقَابِؕ-بِئْسَ الِاسْمُ الْفُسُوْقُ بَعْدَ الْاِیْمَانِۚ-وَ مَنْ لَّمْ یَتُبْ فَاُولٰٓىٕكَ هُمُ الظّٰلِمُوْنَ (سورۃ الحجرات 11)   

واللہ اعلم بالصواب

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند

تجارت و ملازمت

Ref. No. 1802/43-1542

بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ آن لائن خریدوفروخت آج کل کافی تیزی سے بڑھ رہاہے، اور ہر کمپنی کی پالیسی بھی بہت واضح ہے، اس کے ٹرم اینڈ کنڈیشن کافی حد تک صاف اور دھوکہ سے محفوظ ہوتے ہیں۔ آن لائن خریدوفروخت میں مبیع کی تصویر وغیرہ سے ایک گونہ اندازہ بھی ہوجاتاہے اور پسند نہ آنے کی صورت میں واپسی کی بھی مکمل گنجائش رہتی ہے۔خیار شرط، خیار رؤیت، خیارعیب وغیرہ کی صراحت رہتی ہے،  اس  طرح  بائع ومشتری کے درمیان کسی نزاع کا اندیشہ بہت کم ہوجاتاہے۔ اس لئے آن لائن مارکیٹنگ میں جو کمپنی معتبر ہو اس سے سامان خریدنے اور بیچنے میں کوئی حرج نہیں ہے۔  تاہم کرنسی کی خریدوفروخت  آن لائن  کرنے  سے گریز کرنا ضروری ہے۔

ويشترط) عدم التأجيل والخيار و (التماثل) أي التساوي وزناً، (والتقابض) بالبراجم لا بالتخلية (قبل الافتراق)، وهو شرط بقائه صحيحاً على الصحيح، (إن اتحد جنساً وإن) وصلية (اختلفا جودةً وصياغةً) ؛ لما مر في الربا (وإلا) بأن لم يتجانسا (شرط التقابض) لحرمة النساء، (فلو باع) النقدين (أحدهما بالآخر جزافاً أو بفضل وتقابضا فيه) أي المجلس (صح)". الدر المختار وحاشية ابن عابدين (رد المحتار) (5/ 257(

یع الفلوس بمثلہا، کالفلس الواحد بالفلس الواحد الآخر، وہٰذا إنما یجوز إذا تحقق القبض في أحد البدلین في المجلس قبل أن یفترق المتبایعان؛ فإن تفرقا ولم یقبض أحد شیئًا فسد العقد؛ لأن الفلوس لا تتعین، فصارت دَینًا علی کل أحد، والافتراق عن دَین بدَین لا یجوز۔ (تکملة فتح الملہم ۱/۵۸۷) ۔

واللہ اعلم بالصواب

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند

اسلامی عقائد

Ref. No. 2302/44-3444

بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ نماز میں اگر سجدہ سہو واجب ہو اور سجدہ سہو نہ کرے تو وقت کے اندر اعادہ واجب ہے، اور وقت کے بعد اعادہ اولی اور مستحب ہے۔

"وإعادتها بتركه عمداً" أي ما دام الوقت باقياً وكذا في السهو إن لم يسجد له، وإن لم يعدها حتى  خرج الوقت تسقط مع النقصان وكراهة التحريم، ويكون فاسقاً آثماً، وكذا الحكم في كل صلاة أديت مع كراهة التحريم، والمختار أن المعادة لترك واجب نفل جابر والفرض سقط بالأولى؛ لأن الفرض لايتكرر، كما في الدر وغيره. ويندب إعادتها لترك السنة". (حاشية الطحطاوي على مراقي الفلاح  (ص: 247)

واللہ اعلم بالصواب

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند

 

اسلامی عقائد

الجواب وباللّٰہ التوفیق:ماں کا دودھ بخشنا یہ رسم و رواج کے تحت ہے، قرآن وحدیث میں اس کی کوئی اصل وارد نہیں ہے، پس ایسی رسوم کا اعتقاد رکھنا بھی درست اور جائز نہیں ہے۔(۱)

۱) عن عائشۃ رضي اللّٰہ عنہا، قالت: قال رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم: من أحدث في أمرنا ہذا ما لیس منہ فہو رد۔ (أخرجہ مسلم، في صحیحہ، ’’کتاب الأقضیۃ: باب نقض الأحکام‘‘: ج ۲، ص: ۷۷، رقم: ۱۷۱۸)
ما أحدث علی خلاف الحق المتلقی عن رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم من علم أو عمل أو حال بنوع شبہۃ واستحسان وجعل دیناً قویماً وصراطاً مستقیماً الخ۔ (ابن عابدین، الدر المختار مع رد المحتار، ’’کتاب الصلاۃ: باب الإمامۃ، مطلب: البدعۃ خمسۃ أقسام‘‘: ج ۲، ص: ۲۹۹)
من أحدث في الإسلام رأیا لم یکن لہ من الکتاب والسنۃ سند ظاہر أو خفي ملفوظ أو مستنبط فہو مردود۔ (ملا علي قاري، مرقاۃ المفاتیح، ’’کتاب الإیمان: باب الاعتصام بالکتاب والسنۃ، الفصل الأول‘‘: ج ۱، ص: ۳۳۶، رقم: ۱۴۰)


فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج1ص521

حدیث و سنت

الجواب وباللّٰہ التوفیق:مذکورہ الفاظ کے ساتھ کوئی حدیث نہیں ملی؛ لیکن قرآن کریم اور احادیث سے اس مفہوم کی تائید ہوتی ہے کہ شادی کرنے سے اللہ تعالیٰ فقر وفاقہ دور فرماتے ہیں اور ما تحتوں پر خرچ کرنے سے برکات ہوتی ہیں۔ (۱)

(۱) {وَأَنْکِحُوا الْأَیَامٰی مِنْکُمْ وَالصّٰلِحِیْنَ مِنْ عِبَادِکُمْ وَإِمَآئِکُمْ ط إِنْ یَّکُوْنُوْا فُقَرَآئَ یُغْنِھِمُ اللّٰہُ مِنْ فَضْلِہٖ ط وَاللّٰہُ وَاسِعٌ عَلِیْمٌہ۳۲} (سورۃ النور: ۳۲)
ثلاثۃ حق علی اللّٰہ عونہم المجاہد في سبیل اللّٰہ والمکاتب الذي یرید الأداء والناکح الذي یرید العفاف۔ (أخرجہ الترمذي، في سننہ، ’’أبواب الجہاد، باب الجہاد والناکح‘‘: ج ۱، ص: ۲۹۵، رقم: ۱۶۵۵)


فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج2ص119

عائلی مسائل

Ref. No. 2719/45-4220

بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ صرف ا س طرح بولنے سے کوئی طلاق واقع نہیں ہوئی۔ البتہ اگر طلاق کا تذکرہ تھا یا شوہر نے طلاق کی نیت سے ایسا کہا تھا تو طلاق واقع ہوجائے گی۔

واللہ اعلم بالصواب

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند

 

نماز / جمعہ و عیدین

الجواب وباللہ التوفیق: بشرطِ صحت سوال صورت مسئولہ میںامامت کے زیادہ حقدار وہ امام صاحب ہیں جو مسجد کے مستقل امام ہیں اور پنج وقتہ نمازیں پڑ ھاتے ہیں عیدین کی نماز میں وارث بن کر امامت کرنے کے لیے زور دینا درست نہیں ہے۔ امام صاحب اگر اپنی مرضی سے کسی کو دیدیں تو اس کی گنجائش ہے؛ لیکن اس کے لیے ان کو مجبور نہیں کیا جاسکتا ہے۔(۱)

(۱) (والأحق بالإمامۃ) تقدیماً بل نصبا مجمع الأنہر، (الأعلم بأحکام الصلاۃ) فقط صحۃ وفسادًا بشرط اجتنابہ للفواحش الظاہرۃ، (حسن تلاوۃ) وتجویداً (للقراء ۃ ثم الأورع)    …أی الأکثر اتقاء للشبہات والتقوی: اتقاء المحرمات۔ الأولی بالإمامۃ أعلمہم بأحکام الصلوۃ ہکذا في المضمرات، ہذا إذا علم من القراء ۃ قدر ما تقوم بہ سنۃ القراء ۃ ہکذا في التبیین۔ (ابن عابدین،  رد المحتار، ’’کتاب الصلاۃ: باب الإمامۃ، مطلب في تکرار الجماعۃ في المسجد‘‘: ج۲، ص: ۲۹۴)
ویجتنب الفواحش الظاہرۃ وإن کان غیرہ أورع منہ کذا في المحیط وإن کان متبحرا في علم الصلوۃ لکن لم یکن لہ حظ في غیرہ من العلوم فہو أولی۔  (جماعۃ من علماء الہند، الفتاویٰ الہندیۃ، ’’کتاب الصلاۃ: باب الإمامۃ، الفصل الثاني في بیان من ہو أحق بالإمامۃ‘‘: ج۱، ص:۱۴۱)

 

فتاوی دارالعلوم وقف دیوبندج5 ص110

 

طہارت / وضو و غسل

الجواب وباللّٰہ التوفیق:ایسا شخص جس کو قطرہ آنے کے مرض میں اتنا بھی موقع نہ ملتا ہو کہ وضو کر کے ایک وقت کی نماز ادا کرے، (جیسا کہ مذکورہ شخص ہے) اسے شریعت اسلامی نے معذور قرار دیاہے، اور ایسے آدمی کے لیے نماز پڑھنے کا طریقہ یہ ہے کہ ایک مرتبہ وضو کر کے ایک وقت کی نماز ادا کرے، پھر دوسرے وقت وضو کرکے پوری نماز ادا کرے، ایک مرتبہ وضو کر کے جس قدر چاہے قرآن پاک پڑھے اور قرآن پاک کو مس کرے، یعنی چھوئے، رہا صرف قرآن پاک پڑھنے کا مسئلہ سو وضو کے بغیر بھی قرآن پاک کی تلاوت کرنا شرعاً درست ہے، صرف مس قرآن کے لیے وضو شرط ہے، اور حج کرنا بھی بغیر وضو کے شرعاً درست ہے، صرف طواف کے لیے باوضو رہنا ہے، حاصل یہ ہے کہ ایک مرتبہ کیا ہوا وضو نماز کے پورے وقت تک باقی سمجھا جائے گا، بس اسی روشنی میں آپ پر بھی عمل کرنا واجب ہے، کوئی عمل مذکورہ مرض کی وجہ سے ترک نہ کریں۔(۱)

(۱) استیقظ یمسح النوم عن وجھہ ثم قرأ عشر آیات من آل عمران ثم قام رسول اللّٰہ ﷺ إلی شن معلقۃ فتوضأ فأحسن الوضوء ثم قام یصلی۔ (أخرجہ البخاري، في صحیحہ ،باب ما جاء في الوتر، ج۱، ص:۱۳۵، رقم:۹۹۲)؛و لا یکلف اللّٰہُ نَفْسًا إِلاَّ وُسْعَھَا۔ (بقرہ:۲۸۶)؛ و کذا سائر المعذورین ابتداء…  باستیعابہ وقت صلٰوۃ کامل، و في الکافي: إنما یصیر صاحب عذر إذا لم یجد في وقت الصلاۃ زمنا یتوضأ و یصلي فیہ خالیاعن الحدث۔(ابن الہمام، فتح القدیر، ’’کتاب الطہارات، فصل في الاستحاضۃ‘‘ج۱،ص:۱۸۵)؛ و صاحب عذر من بہ سلس بول لا یمکنہ إمساکہ الخ (ابن عابدین، الدر المختار مع رد المحتار’’ کتاب الطہارۃ، باب الحیض، مطلب في أحکام المعذور‘‘ ج۱،ص:۵۰۴)
 

فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج3 ص405