طہارت / وضو و غسل

الجواب وباللّٰہ التوفیق:اگر کبھی ایسا ہو کہ پانچ اوقات میں سے کسی ایک وقت میں مذکورہ عذر سے خالی اتنا وقت بھی نہ مل سکے کہ وضو کر کے اس وقت کے فرائض ادا کر لیے جائیں، تو مریض شرعاً معذور کہلاتا ہے، اور اگر ایسا نہ ہو، تو شرعاً وہ معذور ہی نہیں کہلاتا۔ اس اعتبار سے اگر معذور شرعی ہو، تو نماز کا وقت آجانے پر وضو کرے اور اس وقت کی نماز پڑھے، اور اسوقت میں جتنی چاہے نمازیں پڑھے، اور دوسرے وقت دوسرا وضو کرے، اور اگر معذور نہیں تو عام آدمی کی طرح وضو کر کے نماز ادا کرے عذر لاحق ہونے پر وضو ٹوٹ جائے گا۔(۲)

(۲) و حاصلہ أن طہارۃ المعذور تنتقض بخروج الوقت بالحدث السابق۔ (المرغیناني، ہدایۃ، ’’کتاب الطہارۃ فصل والمستحاضۃ‘‘ ج۱،ص:۶۸) ؛ وفسائر ذوي الأعذار في حکم المستحاضۃ، فالدلیل یشملھم و یصلون بہ أي بوضوئھم في الوقت ما شاء وا من الفرائض الخ۔ (طحطاوي،حاشیہ الطحطاوي، علی مراقي الفلاح، ’’کتاب الطہارۃ، باب الحیض والنفاس والاستحاضۃ‘‘ج۱،ص:۱۴۹)
 

فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج3 ص413

نماز / جمعہ و عیدین

الجواب وباللّٰہ التوفیق: بشرط صحت سوال مذکورہ امام ظہر کی نماز پڑھا سکتا ہے کوئی وجہ ممانعت نہیں۔(۱)

(۱) وشروط صحۃ الإمامۃ للرجال الأصحاء ستۃ أشیاء: الإسلام، والبلوغ، والعقل، والذکورۃ، والقراء ۃ، والسلامۃ من الأعذار کالرعاف والفأفأۃ والتمتمۃ واللثغ، وفقد شرط کطہارۃ وستر عورۃ۔ (الشرنبلالي، نورالإیضاح، ’’کتاب الصلاۃ: باب الإمامۃ‘‘: ص: ۷۸، ۷۷، مکتبہ عکاظ دیوبند)
لقولہ علیہ السلام: صلوا خلف کل برو فاجر، الخ۔ (أحمد بن محمد، حاشیۃ الطحطاوي علی مراقي الفلاح،’’کتاب الصلاۃ: باب الإمامۃ‘‘: ص: ۳۰۳، شیخ الہند دیوبند)

 

 فتاویٰ دارالعلوم وقف دیوبند ج5 ص321

نماز / جمعہ و عیدین

الجواب و باللہ التوفیق:ایک مشت داڑھی رکھنا واجب ہے اور اس سے کم کرانا یا کاٹنا ناجائز ہے، ایسا کرنے والاشریعت کی نگاہ میں فاسق ہے اور فاسق کی اذان واقامت مکروہ ہے۔
(وکرہ أذان الفاسق) لعدم الاعتماد ولکن لا یعاد‘‘(۱)
’’کذا أي: کما کرہ أذان السبعۃ المذکورین ومنھم الفاسق کرہ إقامتھم وإقامۃ المحدث لکن لا تعاد إقامتھم لعدم شرعیۃ تکرار الإقامۃ‘‘(۲)

(۱) عبدالرحمن بن محمد، مجمع الأنہر، ’’کتاب الصلاۃ، صفۃ الأذان‘‘: ج ۱، ص: ۱۱۸۔
(۲) محمد بن فرامرز، درر الحکام شرح غرر الأحکام: ج ۱، ص: ۵۶، (شاملہ)

 فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج4 ص217

 

نماز / جمعہ و عیدین

الجواب وباللّٰہ التوفیق: جس کی امام کے ساتھ کوئی رکعت چھوٹ جائے اس کو مسبوق کہتے ہیں، مسبوق اپنی چھوٹی ہوئی رکعت اسی طرح پوری کرتا ہے جس طرح کے منفرد اپنی نماز پوری کرتا ہے، یعنی قرأت وغیرہ امور انجام دیتا ہے، اس میں کبھی سجدہ سہو کی بھی ضرورت پیش آجاتی ہے، پس مسبوق کے لیے سجدہ سہو ضروری نہیں ہے، لیکن اگر چھوٹی رکعت کے پوری کرنے کے دوران ایسی غلطی ہوگئی جس پر سجدہ سہو واجب ہوتا ہے، تو مسبوق کو بھی سجدہ سہو کرنا پڑتا ہے۔
’’والمسبوق من سبقہ الإمام بہا أو ببعضہا وہو منفرد) حتی یثنی ویتعوذ ویقرأ، وإن قرأ مع الإمام لعدم الاعتداد بہا لکراہتہا۔ مفتاح السعادۃ (فیما یقضیہ) أي: بعد متابعتہ لإمامہ، فلو قبلہا فالأظہر الفساد، ویقضي أول صلاتہ في حق قراء ۃ، وآخرہا في حق تشہد؛ (في الشامیہ)، ویلزمہ السجود إذا سہا فیما یقضیہ کما یأتي، وغیر ذلک مما یأتي متنا وشرحا‘‘(۱)

(۱) ابن عابدین، رد المحتار علی الدرالمختار، ’’کتاب الصلاۃ: باب الإمامۃ، مطلب فیما لو أتی بالرکوع والسجود الخ ‘‘: ج ۲، ص:۳۴۶، ۳۴۷۔

 

فتاویٰ دارالعلوم وقف دیوبند ج6 ص54

نماز / جمعہ و عیدین

الجواب وباللّٰہ التوفیق: گلا کے بٹن کھلا رکھنا یا بند رکھنا نہ شعائر اسلام میں سے ہے اور نہ ضروریات دین میں سے؛ بلکہ ضروریات زندگی جس امر کی متقاضی ہوں ویسے ہی کیا جاسکتا ہے گرمی کی وجہ سے اگر کھولنے کی ضرورت پڑے تو اس میں کوئی حرج نہیں، سردی و ہوا وغیرہ کی وجہ سے بند کرنے کی ضرورت ہو تو بند کرنے میں کوئی مضائقہ نہیں پس بلا قصد بھی کسی کے بٹن کھلے رہیں تب بھی کوئی حرج نہیں امام کا مذکورہ عمل نہ نماز کے شرائط میں سے ہے نہ مستحبات میں، نظر صرف ان چیزوں پر رہنی چاہئے کہ جن اعمال سے نماز میں کراہت آتی ہو کہ وہ نہ ہونے پائیں۔(۱)

(۱) فما رأیت معاویۃ‘‘ إلی آخرہ، وھذا وإن کان اختیاراً لما ھو خلاف الأولی خصوصاً فی الصلوات؛ لکنھما أحبا أن یکونا علی ما رأیا النبی صلی اللہ علیہ وسلم وإن کان إطلاقہ أزرارہ إذ ذاک لعارض، ولم یکن ھذا من عامۃ أحوالہ صلی اللہ علیہ وسلم، وذلک لما فیہ من قلۃ المبالاۃ بأمر الصلاۃ، إلا أن الکراھۃ لعلھا لا تبقی فی حق معاویۃ وابنہ لکون الباعث لھما حب النبی صلی اللہ علیہ وسلم واتباعہ فیما رأیاہ من الکیفیۃ۔ (خلیل أحمد سہارنفوري، بذل المجھود، ’’کتاب اللباس: باب في حل الإزار‘‘: ج۱۲، ص: ۱۰۹،(شاملہ)
وتشمیرکمیہ عنہما للنہي عنہ لما فیہ من الجفاء المنافي للخشوع۔ (حسن بن عمار، مراقي الفلاح مع حاشیۃ الطحطاوي، ’’کتاب الصلاۃ: باب ما یفسد الصلاۃ، فصل في المکروہات‘‘:  ص: ۳۴۹، دارالکتاب دیوبند )
(۱)ٰیبَنِیْٓ اٰدَمَ خُذُوْ ازِیْنَتَکُمْ عِنْدَ کُلِّ مَسْجِدٍ (سورۃ الأعراف: ۳۱)
وصلاتہ في ثیاب بذلۃ یلبسہا في بیتہ ومہنۃ أي خدمۃ إن لہ غیرہا وإلا لا۔ (ابن عابدین، رد المحتار، ’’باب ما یفسد الصلاۃ و ما یکرہ فیھا‘‘: ج۲، ص: ۴۰۷)

 

فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج6 ص175

عائلی مسائل

Ref. No. 839 Alif

الجواب وباللہ التوفیق

کسی مریض پر شریعت کے مطابق دم کرنے کے لئے اگر کسی کامل پیر کی اجازت بھی ہو تو اس  سے اس میں مزید تاثیر پیداہوتی ہے۔ شریعت کےمطابق دَم کرنے کی اجازت ہے۔ ابتدائی طور پر روزانہ ایک تسبیح استغفار کی پڑھیں۔ واللہ تعالی اعلم

 

دارالافتاء

 دارالعلوم وقف دیوبند

مساجد و مدارس

Ref No. 1010

الجواب وباللہ التوفیق                                                                                                                                                        

بسم اللہ الرحمن الرحیم: (١) اگر تہ خانہ مسجد کے طور پر نہیں بنایا گیا بلکہ مصالح مسجد کیلئے ہے تو اس میں رہائش کی گنجائش ہے۔ (٢) مسجد کے اوپر چھوٹے بچے بچیوں کی تعلیم درست ہے  مگر بالغ بچیوں کا ہاسٹل بنانا درست نہیں  ہے۔ (٣) مسجد کے اوپری حصہ میں پردہ کے ساتھ مرد معلم تعلیم دے سکتا ہے۔ (٤) معلمہ کو اپنا کام خود کرنا چاہئے؛ طالبات سے گھر کا ذاتی کام لینا پسندیدہ نہیں ہے اور بالغ لڑکوں  سے پردہ لازم ہے  معلمہ کو اس کا خیال رکھنا ضروری ہے؛ کبھی وقت ضرورت معلمہ اگر کام لے لیں تو کوئی حرج نہیں مگر پردہ لازمی طور پر کرائیں۔ (٥) اگر کسی ادارہ کی صورت حال ایسی ہو کہ وہاں منکرات کو نظرانداز کیا جاتا ہو  تو اس میں اپنی بچیوں کو نہیں بھیجنا چاہئے  جب تک بچیوں کے لئے کسی دوسری محفوظ اور مناسب جگہ کا نظم نہ ہوجائے۔ (٦) چندہ دینا درست ہے، ثواب ان شاء اللہ مرتب ہوگا،  البتہ جو خامیاں اور منکرات ہیں ان کی اصلاح ضروری ہے۔ واللہ اعلم بالصواب

 

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند

فقہ

Ref. No. 971/41-117

الجواب وباللہ التوفیق 

بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔  اس میں کوئی حرج نہیں ہے، اس سے مزید برکت حاصل ہوگی ان شاء اللہ۔

واللہ اعلم بالصواب

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند

ذبیحہ / قربانی و عقیقہ

Ref. No. 1174/42-424

الجواب وباللہ التوفیق 

بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ ساتویں، چودہویں،یا پھر اکیسویں دن عقیقہ کرنا مسنون ہے۔ اس کے بعد کبھی بھی عقیقہ کیاجائے ، عقیقہ ادا ہوجائے گا۔ ایسا کوئی ضروری نہیں ہے کہ جس دن ولادت ہو اسی تاریخ میں عقیقہ ہو،  کسی دن کی کوئی تخصیص نہیں ہے۔

واللہ اعلم بالصواب

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند

متفرقات

Ref. No. 1906/43-1801

بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔  اگرچہ عرف کے اعتبار سے مالک زمین ہی ٹھیکہ کا حقدار ہوتاہے، اور ملازمت میں بھی اسی کو ترجیح دی جاتی ہے ، لیکن اگر کسی دوسرے نے اس زمین کا ٹھیکہ قانون کے مطابق لے لیا، تو مالک زمین بھی اپنے لئے اس زمین کے ٹھیکہ کا دعوی پیش کرسکتاہے، ۔ حکومت اگر مناسب سمجھے گی تو دوسرے کا ٹھیکہ منسوخ کرکے ٹھیکہ مالک زمین کے نام کردے گی۔

واللہ اعلم بالصواب

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند