Frequently Asked Questions
متفرقات
Ref. No. 2878/45-4564
بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ بلوغت کا مدار لذت حاصل ہونے پر نہیں ہے بلکہ منی کے نکلنے پر ہے، اس لئے مذکورہ صورت میں 15 سال کی عمر میں بلوغت ہوئی ہے اور احکام لازم ہوئے ہیں۔ آئندہ مشت زنی سے مکمل پرہیز کریں، یہ گناہ بھی ہے اور آئندہ کی زندگی کو تباہ کرنے والا بھی۔ اس لئے اس لعنت والے عمل سے اپنے آپ کو بچائیں۔
بلوغ الغلام بالاحتلام والإحبال والإنزال) والأصل هو الإنزال (والجارية بالاحتلام والحيض والحبل) ولم يذكر الإنزال صريحاً؛ لأنه قلما يعلم منها (فإن لم يوجد فيهما) شيء (فحتى يتم لكل منهما خمس عشرة سنةً، به يفتى) لقصر أعمار أهل زماننا". (الدر المختار وحاشية ابن عابدين (رد المحتار) (6/ 153)
’’عن أنس بن مالك، عن النبي صلى الله عليه وسلم قال: "سبعة لاينظر الله عز وجل إليهم يوم القيامة، ولايزكيهم، ولايجمعهم مع العالمين، يدخلهم النار أول الداخلين إلا أن يتوبوا، إلا أن يتوبوا، إلا أن يتوبوا، فمن تاب تاب الله عليه: الناكح يده، والفاعل والمفعول به، والمدمن بالخمر، والضارب أبويه حتى يستغيثا، والمؤذي جيرانه حتى يلعنوه، والناكح حليلة جاره". " تفرد به هكذا مسلمة بن جعفر هذا ". قال البخاري في التاريخ".(شعب الإيمان 7/ 329))
واللہ اعلم بالصواب
دارالافتاء
دارالعلوم وقف دیوبند
نماز / جمعہ و عیدین
Ref. No. 2877/45-4563
بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ تراویح کی نماز سنت ہے ، اور عشاء کی نماز فرض ہے، امام کے پیچھے اقتداء کے لئے ضروری ہے کہ امام کی نماز مقتدی کی نماز سے اعلی ہو، اعلی کے پیچھے ادنی کی نماز ہوجاتی ہے لیکن ادنی کے پیچھے اعلی کی نماز درست نہیں ہے۔ ظاہر ہے کہ سنت اور فرض میں سے فرض اعلی ہے اور سنت ادنی ہے، اس لئے سنت پڑھنے والے کے پیچھے فرض پڑھنے والے کی نماز نہیں ہوگی۔ لہذا اگر کبھی آپ کی عشاء کی جماعت فوت ہوجائے تو پہلے انفرادی طور پر عشاء کی نماز پڑھ لیں پھر امام کے ساتھ تراویح میں شامل ہوجائیں۔ اور تراویح کی جو رکعتیں رہ جائیں ان کو وتر سے پہلے یا وتر کے بعد بھی پڑھ سکتے ہیں۔ اگر وتر شروع ہوجائے تو بہتر ہے کہ امام کے ساتھ وتر پڑھ لے پھر تراویح کی باقی رکعتیں پڑھے۔
"ولا مفترض بمتنفل وبمفترض فرض آخر؛ لأن اتحاد الصلاتین شرط عندنا، وصح أن معاذاً کان یصلي مع النبي صلی اللہ علیہ وسلم نفلاً وبقومہ فرضاً .... الخ " (الدر المختار: باب الإمامة، 324/2- 325، ط: زکریا)
الدر المختار: (باب الوتر و النوافل، 43/2، ط: سعید)
ووقتہا بعد صلاۃ العشاء إلی الفجر قبل الوتر وبعدہ في الأصح، فلو فاتہ بعضہا وقام الإمام إلی الوتر أوتر معہ، ثم صلی ما فاتہ۔
(بدائع الصنائع: فصل فی مقدار التراویح، 288/1، ط: سعید)
واللہ اعلم بالصواب
دارالافتاء
دارالعلوم وقف دیوبند
ربوٰ وسود/انشورنس
Ref. No. 2876/45-4562
بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ حرام شیئرز سے جو منافع حاصل ہوئے ہیں ان کو بلا نیت ثواب غریبوں میں تقسیم کردینا واجب ہے۔ جو اصل سرمایہ آپ کا ہے وہ آپ کی ملکیت ہے اس کو اپنے استعمال میں لانا جائز اور درست ہے، لیکن اس پیسے سے حرام طریقہ پر جو منافع کمائے اس نفع والی رقم کو اپنے استعمال میں لانا جائز نہیں ہے۔
"والملك الخبيث سبيله التصدق به، ولو صرفه في حاجة نفسه جاز. ثم إن كان غنيا تصدق بمثله، وإن كان فقيرا لا يتصدق." (الاختیار لتعلیل المختار ، كتاب الغصب ،ج:3، ص:61، ط:دارالفكر)
"قال شیخنا: ویستفاد من کتب فقهائنا کالهدایة وغیرہا: أن من ملک بملک خبیث، ولم یمکنه الرد إلی المالک، فسبیله التصدقُ علی الفقراء … قال: إن المتصدق بمثله ینبغي أن ینوي به فراغ ذمته، ولا یرجو به المثوبة." )معارف السنن، كتاب الطهارة، باب ما جاء لا تقبل صلاۃ بغیر طھور، ج:1، ص:34، ط: سعید)
واللہ اعلم بالصواب
دارالافتاء
دارالعلوم وقف دیوبند
مساجد و مدارس
Ref. No. 2875/45-4561
بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ چندہ دینے والوں نے مسجد اور مصالح مسجد کے لئے چندہ دیا ہے، اور چندہ جس مقصد سے جمع کیاجائےاس کے علاوہ امور میں استعمال کرنا جائز نہیں ہے۔ افطار پارٹی مصالح مسجد میں سے نہیں ہے اس لئے مسجد فنڈ کو افطار پارٹی میں استعمال کرنا جائز نہیں ہے۔
"( ويبدأ من غلته بعمارته ) ثم ما هو أقرب لعمارته كإمام مسجد ومدرس مدرسة يعطون بقدر كفايتهم، ثم السراج والبساط كذلك إلى آخر المصالح، وتمامه في البحر وإن لم يشترط الوقف لثبوته اقتضاء". ". (شامی، 4/367 دارالفکر بیروت)
"شرط الواقف كنص الشارع أي في المفهوم والدلالة". (شامی، كتاب الوقف، مطلب في شرط الواقف...،ج:4،ص:433، ط:سعيد)
واللہ اعلم بالصواب
دارالافتاء
دارالعلوم وقف دیوبند
نکاح و شادی
Ref. No. 2874/45-4560
بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ آپ دونوں کا اس طرح خفیہ ملاقات کرنا اور پھر کورٹ میرج کرلینا بڑی نادانی اور شرعی طور پر ناجائز عمل تھا۔کورٹ میریج کرتے وقت جب ایجاب و قبول ہوا تو نکاح منعقد ہوگیا، اور اگر مسلمان گواہ موجود نہیں تھے تو نکاح ہی منعقد نہیں ہوا اور دونوں اگر ساتھ رہے تو گناہ گار ہوئے ، دونوں پرتوبہ واستغفار لازم ہے، اور اگر نکاح صحیح ہوگیا تھا تو اب لڑکی والوں کو زبردستی نہیں کرنی چاہئے، تاہم اگر لڑکی طلاق کا مطالبہ کررہی ہے اور آپ طلاق دیدیں تو گنہگار نہیں ہوں گے۔ ابھی تھوڑا انتظار کرلیں ہوسکتاہے کچھ وقت گزرنے پر لڑکی اور اس کے والدین راضی ہوجائیں۔
واللہ اعلم بالصواب
دارالافتاء
دارالعلوم وقف دیوبند
قرآن کریم اور تفسیر
Ref. No. 2873/45-4559
بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ ختم قرآن کے موقع پر صحیح سند سے کوئی مخصوص دعا حضور اکرم صلی اللہ علیہ و سلم سے منقول ہونا نظر سے نہیں گزری ، اس لئے اپنے طور پر کوئی بھی دعا عربی میں یا اپنی مادری زبان میں کی جاسکتی ہے۔ کسی مخصوص دعا کو ضروری یا مسنون سمجھنا درست نہیں ہے۔ اس لئے ختم قرآن والی دعا پڑھنے میں کوئی حرج نہیں ہے، تاہم لازم نہ سمجھاجائے۔
واللہ اعلم بالصواب
دارالافتاء
دارالعلوم وقف دیوبند
قرآن کریم اور تفسیر
Ref. No. 2910/45-4552
بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم قرآن مجید ترتیل سے یعنی آہستہ اور ٹھہر ٹھہر کر پڑھتے تھے تاکہ امت کے لئے سمجھنے میں آسانی ہو: جیسا کہ قرآن میں اللہ تعالی نے حکم فرمایا: “وَرَتِّلِ الْقُرْآنَ تَرْتِيلًا” (سورہ مزمل)۔
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی قراءت واضح ہوتی تھی، آپ تلاوت فرماتے تو ہر حرف کوجدا جدا ادا فرماتے تھے ، پڑھنے میں عجلت نہیں فرماتےتھے۔ اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم ہر آیت پر وقف فرماتے تھے ۔
آپ صلی اللہ علیہ وسلم آواز کو کھینچ کر تلاوت فرماتے تھے: حضرت قتادہ بیان کرتے ہیں کہ میں نے حضرت انس سے پوچھا : “نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کس طریقے سے تلاوت قرآن فرمایا کرتے تھے؟ تو انھوں نے جواب میں فرمایا: آپ صلی اللہ علیہ وسلم آواز کو کھینچ کر تلاوت فرمایا کرتے تھے۔” ( رواہ النسائی (1014)
آپ صلی اللہ علیہ وسلم خوبصورت آواز میں تلاوت فرماتےتھےاور اسی کا لوگوں کو حکم فرمایاکرتے تھے۔ حضرت براء بن عازب رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں کہ میں نے حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو عشاء (کی نماز) میں سورۃ التین ) وَالتِّيْنِ وَالزَّيْتُونِ ( پڑھتے ہوئے سنا، اور میں نے کسی کو آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے اچھی آواز اور قرات والا نہیں سنا۔ (رواہ الدارمی(3501)،
واللہ اعلم بالصواب
دارالافتاء
دارالعلوم وقف دیوبند
طلاق و تفریق
Ref. No. 2909/45-4551
بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ اسلام میں نکاح ایک پاکیزہ رشتے کا نام ہے،اسلام نے اس کی پائداری پر زور دیا ہے، اور اس کے لیے باہمی الفت ومحبت اور دونوں کو ایک دوسرے کے حقوق کی ادائیگی کی تلقین کی ہے لیکن اگر کسی وجہ سے میاں بیوی کے درمیان نااتفاقی ہونے لگے تو پہلے دونوں خاندان کے بزرگ کو صلح کرانے کی کوشش کرنی چاہیے؛ کیوںکہ اسلام میں طلاق ناپسندیدہ فعل ہے اور بلا ضرورت اسکا استعمال درست نہیں ہے۔ پھر بھی اگر نباہ کی کوئی صورت نہ بن سکے اور فتنہ وفساد کا اندیشہ ہو تو ایک طلاق صریح دے کر دونوں کو الگ ہو جانے کا حکم ہے۔ ایک طلاق کے بعد اگر دوبارہ ساتھ رہنا چاہیں تو عدت میں رجوع کے ذریعہ اور عدت کے بعد نکاح کے ذریعہ دونوں ساتھ رہ سکتے ہیں۔ ایک ساتھ تین طلاق دینا شرعاً گناہ ہے اور ملکی قانون کے مطابق قابل مواخذہ جرم ہے۔
بشرط صحت سوال صورت مسئولہ میں بیوی پر تین طلاقیں واقع ہوچکی ہیں۔ اب رجعت کی کوئی گنجائش باقی نہیں رہی۔ تین طلاق کے بعد بیوی شوہر پر حرام ہوجاتی ہے اور بیوی پر پردہ لازم ہوجاتاہے۔ یہ عورت عدت گزارنے کے بعد کسی دوسرے مرد سے نکاح کرسکتی ہے۔
﴿ الطَّلَاقُ مَرَّتَانِ فَإِمْسَاكٌ بِمَعْرُوفٍ أَوْ تَسْرِيحٌ بِإِحْسَانٍ ﴾ [البقرة: 229]﴿ فَإِنْ طَلَّقَهَا فَلَا تَحِلُّ لَهُ مِنْ بَعْدُ حَتَّى تَنْكِحَ زَوْجًا غَيْرَهُ﴾ [البقرة: 230]
'' أن رجلاً طلق امرأته ثلاثاً، فتزوجت فطلق، فسئل النبي ﷺ: أتحل للأول؟ قال: «لا، حتى يذوق عسيلتها كما ذاق الأول»'' (بخاری، 2/791)
(قَالَ الشَّافِعِيُّ) : وَالْقُرْآنُ يَدُلُّ وَاَللَّهُ أَعْلَمُ عَلَى أَنَّ مَنْ طَلَّقَ زَوْجَةً لَهُ دَخَلَ بِهَا أَوْ لَمْ يَدْخُلْ بِهَا ثَلَاثًا لَمْ تَحِلَّ لَهُ حَتَّى تَنْكِحَ زَوْجًا غَيْرَهُ فَإِذَا قَالَ الرَّجُلُ لِامْرَأَتِهِ الَّتِي لَمْ يَدْخُلْ بِهَا أَنْتِ طَالِقٌ ثَلَاثًا فَقَدْ حُرِّمَتْ عَلَيْهِ حَتَّى تَنْكِحَ زَوْجًا. (الأم للشافعي (5 / 196، دار المعرفة – بيروت)
واللہ اعلم بالصواب
دارالافتاء
دارالعلوم وقف دیوبند
طلاق و تفریق
Ref. No. 2908/45-4550
بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔اگر دیوار پر طلاق کے الفاظ شوہر نے نہیں لکھے تو محض اس طرح تصویر پر لفظ طلاق تحریر ونے سے بیوی پر کوئی طلاق واقع نہیں ہوئی۔ طلاق کے واقع ہونے کے لئے شوہر کا اپنی بیوی کی طرف نسبت کرکے طلاق دینا ضروری ہے، جبکہ صورت مسئولہ میں شوہرنے طلاق نہیں دی ہے۔
واللہ اعلم بالصواب
دارالافتاء
دارالعلوم وقف دیوبند
متفرقات
Ref. No. 2907/45-4549
بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ تراویح کی نماز میں آخری دس سورتیں ہی پڑھنا لازم نہیں ، قرآن کریم میں سے کہیں سے بھی تین چھوٹی آیات یا کوئی ایک بڑی آیت یا کوئی سورت پڑھی جاسکتی ہے۔ عام نمازوں کی جو شرطیں ہیں وہی شرطیں نماز تراویح کے لئے بھی ہیں۔ لہذا قرآن کریم میں سے قرات کرنا واجب ہے چاہے کہیں سے بھی قرات کرے۔
"(وضم) أقصر (سورة) كالكوثر أو ما قام مقامها، هو ثلاث آيات قصار، نحو {ثم نظر} [المدثر: 21] {ثم عبس وبسر} [المدثر: 22] {ثم أدبر واستكبر} [المدثر: 23] وكذا لو كانت الآية أو الآيتان تعدل ثلاثاً قصاراً، ذكره الحلبي (في الأوليين من الفرض) وهل يكره في الأخريين؟ المختار لا (و) في (جميع) ركعات (النفل) لأن كل شفع منه صلاة (و) كل (الوتر) احتياطاً. (الدر المختار وحاشية ابن عابدين (رد المحتار) (1/ 458)
واللہ اعلم بالصواب
دارالافتاء
دارالعلوم وقف دیوبند