حدیث و سنت

الجواب وباللّٰہ التوفیق:حیاء کہتے ہیں وقار سنجیدگی اور متانت کو اصطلاح میں: ’’ہو صفۃ وخلق یکون في النفس فیبعث علی اجتناب القبیح ویمنع من التقصیر في حق ذي الحق‘‘(۱)   نفس کا کسی کام کے کرنے میں انقباض اور تنگی محسوس کرنا ملامت اور سزا کے ڈر سے نہ کرنے کو حیاء کہتے ہیں۔
حیاء انسانی زندگی میں ایک ضروری حیثیت رکھتی ہے شرم وحیاء کے ذریعے انسان کو خیر وبھلائی حاصل ہوتی ہے، افعال میں ہو، اخلاق میں ہو یا اقوال میں، جس میں حیاء کا جذبہ نہ رہے اس سے خیر رخصت ہو جاتی ہے۔ امام بخاریؒ نے ایک روایت نقل کی ہے: ’’إذا لم تستحي فاصنع ما شئت‘‘(۲) جب حیاء نہ رہے تو جو چاہے کر۔

اللہ تعالیٰ سے حیاء کے متعلق رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے جس کو امام ترمذیؒ نے اپنی سنن میں ذکر کیا ہے:
’’قال رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم: استحیوا من اللّٰہ حق الحیاء، قال: قلنا یا رسول اللّٰہ إنا نستحي والحمد للّٰہ، قال: لیس ذاک ولکن الاستحیاء من اللّٰہ حق الحیاء أن تحفظ الرأس وما وعی، والبطن وما حوی ولتذکر الموت والبلی ومن أراد الآخرۃ ترک زینۃ الدنیا فمن فعل ذلک فقد استحییٰ من اللّٰہ حق الحیاء‘‘(۱)
ترجمہ:  رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: لوگو! اللہ تعالیٰ سے شرم وحیاء کیا کرو۔ جیسا کہ اس سے شرم وحیاء کرنے کا حق ہے۔ ہم نے عرض کیا یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہم اللہ تعالیٰ سے شرم وحیاء کرتے ہیں اور اس پر اللہ تعالیٰ کا شکر ادا کرتے ہیں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا حیاء کا یہ مطلب نہیں جو تم نے سمجھا ہے؛ لیکن اللہ تعالیٰ سے شرم وحیاء کرنے کا جو حق ہے وہ یہ ہے کہ تم اپنے سر اور اس کے ساتھ جتنی چیزیں ہیں ان سب کی حفاظت کرو اور اپنے پیٹ اور اس کے اندر جو چیزیں ہیں ان کی حفاظت کرو اور موت اور ہڈیوں کے سڑ جانے کو یاد کرو اور جسے آخرت کی چاہت ہو وہ دنیا کی زینت کو ترک کردے، تو جس شخص نے اسے پورا کیا حقیقت میں اسی نے اللہ تعالیٰ سے حقیقی حیاء کی۔
امام ترمذی رحمۃ اللہ علیہ نے نقل کیا ہے، حیاء ایمان کا جزء ہے اور ایمان جنت میں لے جاتا ہے اور بے حیائی بدکاری ہے اور بدکاری دوزخ میں لے جاتی ہے۔
’’قال رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم: الحیاء من الإیمان والإیمان في الجنۃ والبذاء من الجفاء والجفاء في النار‘‘(۲)
حیاء اخلاقیات میں ریڑھ کی ہڈی کا درجہ رکھتی ہے اس سے خیر وبھلائی حاصل ہوتی ہے، اگر حیاء ہے تو دوسرے خصائل بھی حاصل ہو سکتے ہیں، ایسے ہی نبی کریم صلی اللہ علیہ کا فرمان ہے:ہر  دین کے لئے ایک خُلق ہے اور اسلام کا خُلق حیاء ہے۔
’’عن ابن عباس رضي اللّٰہ عنہ، قال: قال رسول اللّٰہ علیہ وسلم: إن لکل دین خُلقا وإن خُلق الإسلام الحیاء‘‘(۱)

(۱) ابن حجر، فتح الباري شرح البخاري، باب أمور الإیمان، ج۱، ص:۵۲
(۲)أخرجہ البخاري، في صحیحہ، ’’کتاب الأدب: باب إذا لم تسحتي فاصنع ما شئت‘‘: ج ۲، ص: ۹۰۴، رقم: ۶۱۲۰؛ وأخرجہ أبوداود، في سننہ، ’’کتاب الأدب: باب في الحیاء‘‘: ج ۲، ص: ۶۶۸، رقم: ۴۷۹۷۔
(۱) أخرجہ الترمذي، في سننہ، ’’أبواب صفۃ القیامۃ‘‘: ج ۲، ص: ۸۰، رقم: ۲۴۵۸۔
(۲) أخرجہ الترمذي، في سننہ، ’’أبواب الإیمان، باب ما جاء في الحیاء‘‘: ج ۲، ص: ۲۱، رقم: ۲۰۰۹۔
(۱) أخرجہ ابن ماجہ، في سننہ، ’’أبواب الزہد، باب الحیاء‘‘: ج ۲، ص: ۳۰۸، رقم: ۴۱۸۱۔


فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج2ص89

 

مذاہب اربعہ اور تقلید

الجواب وباللّٰہ التوفیق:جو حضرات شیعیت میں غلو کرتے ہیں، حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کو برا کہتے ہیں یا جبریل علیہ السلام کے وحی لانے میں غلطی کے قائل ہیں وغیرہ کفریہ عقائد رکھتے ہیں وہ کافر ہیں اور جن کے عقائد کفریہ نہیں ہیں، وہ مسلمان ہیں اگر کسی خاص جماعت یا شخص کے بارے میں سوال مقصود ہو، تو اس کے موجود عقائد کی وضاحت کرکے سوال کرلیا جائے۔(۱)

(۱) فصل: وأما الشیعۃ فلہم أقسام، منہا: الشیعۃ والرافضۃ والغالیۃ والطاریۃأما الغالیۃ فیتفرق منہا إثنتا عشرۃ فرقۃ منہا البیانیۃ والطاریۃ والمنصوریۃ والمغیریۃ والخطابیۃ والمعمریۃ الخ … ومن ذلک تفضیلہم علیاً رضي اللّٰہ عنہ علی جمیع الصحابۃ وتنصیصہم علی إمامتہ بعد النبي صلی اللّٰہ علیہ وسلم وتبرؤہم من أبي بکر وعمر رضي اللّٰہ عنہما وغیرہما من الصحابۃ الخ۔ (غنیۃ الطالبین: القسم الثاني: العقائد والفرق، فصل في بیان مقالۃ الفرقۃ الضالۃ: ص: ۱۷۹ - ۱۸۰)
نعم لا شک في تکفیر من قذف السیدۃ عائشۃ رضي اللّٰہ عنہا أو أنکر صحبۃ الصدیق رضي اللّٰہ عنہ أو اعتقد الألوہیۃ في علي رضي اللّٰہ عنہ أو أن جبرئیل علیہ السلام غلط في الوحي أو نحو ذلک من الکفر الصریح المخالف للقرآن۔ (ابن عابدین، الدر المختار مع رد المحتار، ’’کتاب الجہاد: باب المرتد، مطلب: فہم في حکم سب الشیخین‘‘: ج ۲، ص: ۳۷۸)

 

فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج2ص279

اسلامی عقائد

الجواب وباللّٰہ التوفیق:’’بسم اللّٰہ، والّٰلہ أکبر، اللہم لک وإلیک، ہذہ عقیقۃ فلان‘‘ (فلان کی جگہ بچہ کا نام لیں)۔(۱)

(۱) عبد الرزاق عن ابن جریج قال: حدثت حدیثا، رفع إلی عائشۃ رضي اللّٰہ عنہا، أنہا قالت عن رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم عن حسن شاتین، وعن حسین شاتین ذبحہما یوم السابع قال: ومشقہما وأمر أن یماط عن رؤوسہما الأذی، قالت:قال رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم: اذبحوا علی إسمہ، وقولوا: بسم اللّٰہ اللہم لک وإلیک، ہذہ عقیقۃ فلان۔ (أخرجہ أبو بکر عبد الرزاق، في مصنفہ: ج ۴، ص: ۳۳۰، رقم: ۷۰۶۳)
أخرج ابن أبي شیبۃ من طریق ہشام عن قتادۃ نحوہ قال: یسمی علی العقیقۃ کما یسمی علی الأضحیۃ بسم اللّٰہ عقیقۃ فلانٍ ومن طریق سعید عن قتادۃ نحوہ وزاد اللہم منک ولک عقیقۃ فلانٍ بسم اللّٰہ أللّٰہ أکبر ثم یذبح۔ (ابن حجر، فتح الباري: ج ۹، ص: ۵۹۴)


فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج2ص378

طہارت / وضو و غسل

الجواب وباللہ التوفیق: بیت الخلا میں جاتے وقت دعا میں تین قسم کے الفاظ حدیث میں مذکور ہیں اور تینوں مصنف ابن ابی شیبہ میں ہیں:
 عن أنس بن مالک قال: کان النبي صلی اللہ علیہ وسلم إذا دخل الخلاء، قال: أعوذ باللہ من الخبث، والخبائث (۱)
عن زید بن أرقم، قال: قال رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم: إن ہذہ الحشوش محتضرۃ، فإذا دخل أحدکم فلیقل: أللہم إني أعوذ بک من الخبث والخبائث(۲)
عن أنس: أن النبي صلی اللہ علیہ وسلم کان إذا دخل الخلاء، قال: بسم اللہ أللہم إنی أعوذ بک من الخبث والخبائث‘‘ (۳)

ان تینوں میں کوئی بھی دعا پڑھ سکتے ہیں؛ البتہ مناجات مقبول میں جو دعا ہے، وہ معنی کے اعتبار سے زیادہ جامع ہے، اس لیے اس کا پڑھنا بھی درست ہے۔

(۱) أخرجہ ابن أبی شیبۃ، في مصنفہ، حققہ محمد عوامہ، کتاب الطہارۃ، ما یقول الرجل إذا دخل الخلاء، ج۱، ص:۲۱۹،رقم: ۱(بیروت : دارارقم، لبنان)
(۲) ایضاً،ج۱، ص:۲۲۱، رقم: ۲۹۸۹۹        (۳)ایضاً،ج۱، ص:۲۲۳، رقم: ۲۹۹۰۲
 

فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج3 ص92

نماز / جمعہ و عیدین

الجواب وباللّٰہ التوفیق: مذکورہ فی السوال شخص بلا شبہ فاسق ہے جس کے پیچھے نماز مکروہ تحریمی ہے(۱) لیکن اگر کوئی شخص فاسق و گناہگار ہو سچی توبہ کرے اور اپنی توبہ کا اعلان کرے تو اس کو اللہ رب العزت معاف کردیتے ہیں حدیث شریف میں ہے۔ ’’التائب من الذنب کمن لا ذنب لہ‘‘(۲) جس شخص نے توبہ کرلی وہ ایسا ہو جاتا ہے کہ اس نے گناہ کیا ہی نہ ہو؛ اس لیے مذکورہ فی السوال حافظ کی اقتداء میں تراویح یا دیگر نماز پڑھنا بلا شبہ درست ہے اس کی اقتداء میں جو لوگ تراویح پڑھ رہے ہیں شرعاً ان کا یہ فعل بلا شبہ درست ہے۔(۳)

(۱) إمامۃ الفاسق مکروہۃ تحریماً۔ (جماعۃ من علماء الہند، الفتاویٰ الہندیۃ، ’’کتاب الصلوۃ، الباب الخامس في الإمامۃ، الفصل الثالث في بیان من یصلح إمامًا لغیرہ‘‘: ج۱، ص: ۱۴۴)
(۲) أخرجہ ابن ماجہ   في سننہ، ’’کتاب الزہد، باب ذکر التوبۃ‘‘:ص: ۳۰۳، رقم: ۴۲۵۰۔

 

 فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج5 ص56

نماز / جمعہ و عیدین

الجواب و باللّٰہ التوفیق: جھوٹا الزام لگانے والا گناہ کبیرہ کا مرتکب ہے(۲) اس لیے بشرطِ صحت سوال مذکورہ شخص کی امامت مکروہ تحریمی ہے؛ البتہ اس شخص سے معافی و توبہ و استغفار کے بعد امامت درست ہے، جس پر الزام لگایا گیا باہمی مشورے سے متولی و ذمہ داران مسئلہ کو حل کریں۔(۳)

(۲) إن الکذب یہدی إلی الفجور وإن الفجور یہدی إلی النار وإن الرجل لیکذب حتی یکتب عند اللّٰہ، کذابا۔ (أخرجہ البخاري، في صحیحہ، ’’کتاب الآداب باب قول اللّٰہ، یاأیہا الذین آمنوا اتقو اللّٰہ وکونوا مع الصادقین وما ینہی عن الکذب‘‘: ج ۵، ص: ۵۳، رقم:  ۶۰۹۴)
(۳) ومن أم قوماً وہم لہ کارہون إن الکراہۃ لفساد فیہ أو لأنہم أحق بالإمامۃ منہ… کرہ لہ ذلک تحریماً وإن ہو أحق لا والکراہۃ علیہم۔ ابن عابدین، رد المحتار، ’’کتاب الصلوۃ، باب الإمامۃ، مطلب في تکرار الجماعۃ في المسجد‘‘: ج۲، ص: ۲۹۸)
عن ابن عباس قال قال رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم إجعلوا أئمتکم خیارکم فإنہم وفدکم بینکم وبین ربکم، (محمد بن علی الشوکاني، نیل الأوطار، ’’کتاب الصلوۃ، باب ماجاء في إمامۃ الفاسق‘‘: ج۳، ص:۱۴۲، رقم: ۱۰۸۸)
وقد أخرجہ الحاکم في ترجمۃ مرتد الغنوي عنہ أن سرکم أن تقبل صلوتکم فلیؤمکم خیارکم فإنہم وفدکم بینکم وبین ربکم ویؤید ذلک حدیث ابن عباس المذکور۔ (أیضًا: ’’کتاب الصلوۃ، باب ماجاء في إمامۃ الصبي‘‘: ج۳، ص: ۱۹۶، رقم: ۱۰۹۱)

 

فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج5 ص184

 

نماز / جمعہ و عیدین

الجواب وباللّٰہ التوفیق: اگر شوہر اس کو اس قبیح فعل سے منع کرتا ہے، تو اس کی امامت درست ہے، لیکن اگر وہ اپنے شوہر کی مرضی یا شوہر کے حکم سے ایسا کرتی ہے، تو پھر اس کی امامت درست نہیں ہے۔(۱)

(۱) {ٰٓیاَیُّہَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا قُوْٓا اَنْفُسَکُمْ وَاَھْلِیْکُمْ نَارًا} أي اعملوا الأعمال الصالحۃ وأتمروا بالأوامر واجتنبوا النواہي وأمروا أہلیکم بہا ولزموہم الطاعۃ والعبادۃ لتتقوا بذلک النار۔ (أوضح التفاسیر، ’’الباب السادس‘‘: ج ۱، ص: ۶۹۶)
إن رسول اللّہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم یقول أن الناس إذا أرادوا المنکر ولا یغیرونہ…یوشک اللّٰہ عز وجل أن یعمہم بعقابہ۔ (التیسیر في أحادیث التفسیر، ’’الربع الثاني من الحزب الثالث عشر‘‘: ج ۲، ص: ۹۶)

فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج5 ص274

 

اسلامی عقائد

Ref. No. 2753/45-4292

بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ اس طرح اذان دینا درست نہیں، اور مذکورہ غلطیوں کی وجہ سے اذان واجب الاعادہ ہوتی ہے، اس لئے کسی مناسب مؤذن کا نظم کرنا چاہئے اور ان کو منع کردینا چاہئے۔البتہ اب تک جو نمازیں ہوئیں وہ درست ہوگئیں ان کو لوٹانے کی ضرورت نہیں ہے۔ متولی صاحب کو اس پر توجہ دینی چاہئے، اگر کوئی مناسب اذان دینےوالا نہ ہو تو امام صاحب خود بھی اذان و اقامت کہہ سکتے ہیں۔    

واللہ اعلم بالصواب

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند

 

نماز / جمعہ و عیدین

الجواب وباللہ التوفیق:اذان یا تکبیر میں اگر کوئی کلمہ چھوٹ جائے اور پھر یاد آجائے تواس جگہ سے اذان واقامت لوٹائیں جہاں کوئی کلمہ چھوٹا ہے، اگر اذان یا اقامت سے فارغ ہوجانے کے بعد یاد آیا تو پھر یہ دیکھا جائے گا کہ اکثر کلمات ادا ہوگئے یا اکثر چھوٹ گئے اگر اکثر کلمات چھوٹ گئے تو اعادہ کیا جائے ورنہ اعادہ کی ضرورت نہیں، اور اس سے نماز میں کوئی فرق نہیں آئے گا۔(۱)

(۱) قال (وإذا قدم المؤذن في أذانہ أو إقامتہ بعض الکلمات علی بعض فالأصل فیہ أن ما سبق أداؤہ یعتد بہ حتی لا یعیدہ في أذانہ) وما یقع مکررا لا یعتد بہ فکأنہ لم یکرر۔ (السرخسي، المبسوط، ’’کتاب الصلاۃ، باب الأذان‘‘: ج ۱، ص: ۲۸۵، دارالکتاب العلمیہ، بیروت)
وإذا قدّم المؤذن في أذانہ وإقامتہ بعض الکلمات علی البعض، نحو أن یقول أشہد أن محمداً رسول اللّٰہ قبل قولہ أشہد أن لا إلہ إلا اللّٰہ، فالأفضل في ہذا أن ما سبق أوانہ لا یعتد بہ حتی یعیدہ في أوانہ وموضعہ؛ لأن الأذان شرعت متطوعۃ مرتبۃ فتؤدی علی نظیرہ وترتیبہ إن مضی علی ذلک جازت صلاتہم۔ (أبو المعالي برہان الدین المرغینانی، المحیط البرہاني في الفقہ النعماني: ’’کتاب الصلاۃ، بیان الصلاۃ التي لہا أذان والتي لا أذان لہا، في تدارک الحد الواقع فیہ‘‘: ج ۱، ص: ۳۴۸)
وإذا قدم فی أذانہ أو في إقامتہ بعض الکلمات علی بعض نحو أن یقول: أشہد أن محمدا رسول اللّٰہ قبل قولہ: أشہد أن لا إلہ إلا اللّٰہ فالأفضل في ہذا أن ما سبق علی أوانہ لا یعتد بہ حتی یعیدہ في أوانہ وموضعہ وإن مضی علی ذلک جازت صلاتہ کذا في المحیط۔  (جماعۃ من علماء الہند، الفتاویٰ الہندیۃ ’’کتاب الصلاۃ، الباب الثاني: في الأذان‘‘ الفصل الثاني: في کلمات الأذان والإقامۃ وکیفیتہما‘‘: ج ۱، ص: ۱۱۳)

 

فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج4 ص161

نماز / جمعہ و عیدین

الجواب وباللّٰہ التوفیق: دعا کے آداب میں سے یہ ہے کہ دونوں ہاتھ سینہ تک اٹھائیں اور دونوں ہاتھوں کے درمیان قدرے فاصلہ رکھیں۔(۱)

(۱) عن ابن عباس رضي اللّٰہ عنہ قال: المسألۃ أن ترفع یدیک حذ ومنکبیک أو نحوہما۔ (أخرجہ أبوداود، في سننہ، ’’کتاب الصلاۃ، باب الدعاء‘‘: ج ۱، ص: ۲۰۹، رقم: ۱۴۸۹)
عن عمر بن الخطاب رضي اللّٰہ عنہ قال: کان رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم إذا رفع یدیہ في الدعاء لم یحطہما حتی یمسح بہما وجہہ۔ (أخرجہ الترمذي في سننہ، ’’أبواب الدعوات عن رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم، باب ما جاء في رفع الیدین عند الدعاء‘‘: ج ۲، ص: ۴۶۳، رقم: ۳۳۸۶)
فیبسط یدیہ حذاء صدرہ نحو السماء لأنہا قبلہ ویکون بینہما فرجۃ۔ (ابن عابدین،رد المحتار، ’’کتاب الصلاۃ، باب صفۃ الصلاۃ، مطلب فيإطالۃ الرکوع للجائي‘‘: ج ۲، ص: ۲۱۵)

 

فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج4 ص430