Frequently Asked Questions
طلاق و تفریق
Ref. No. 1454/42-904
الجواب وباللہ التوفیق
بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ ایسی عورت کے لئے شریعت نے خلع کی گنجائش دی ہے، تاہم اگربچوں کی خاطر وہ مظالم کو برداشت کرے اور صبر کرکے اس کے ساتھ رہے اور خلع نہ لے تو یہ زیادہ بہتر ہے اور دوراندیشی کی بات ہے۔ خاندان کے لوگوں کو چاہئے کہ لڑکے کو سمجھائیں اور اگر عورت خلع ہی لینا چاہے تو اس پر زبردستی نہ کریں ، خلع لینے میں اس کی مدد کریں ۔
واللہ اعلم بالصواب
دارالافتاء
دارالعلوم وقف دیوبند
نکاح و شادی
اسلامی عقائد
الجواب وباللّٰہ التوفیق:جس وقت وہ دوبارہ مسلمان ہونا چاہے، اس کو مسلمان کرلیا جائے، اسلام میں کوئی تنگی نہیں ہے، اللہ کی رحمت بہت وسیع ہے؛ بلکہ اس کو سمجھانے کی پوری کوشش کرنی چاہئے، دل کے اعتقاد کے ساتھ کلمۂ طیبہ پڑھ لینے سے مسلمان ہو جائیگا۔(۲)
(۲) {فَإِنْ عَلِمْتُمُوْھُنَّ مُؤْمِنٰتٍ فَلاَ تَرْجِعُوْھُنَّ إِلَی الْکُفَّارِط لاَھُنَّ حِلٌّ لَّھُمْ وَلَاھُمْ یَحِلُّوْنَ لَھُنَّطوَأٰتُوْھُمْ مَّآ أَنْفَقُوْاط وَلَا جُنَاحَ عَلَیْکُمْ أَنْ تَنْکِحُوْ ھُنَّ إِذَآ أٰتَیْتُمُوْھُنَّ أُجُوْرَھُنَّ ط وَلَا تُمْسِکُوْا بِعِصَمِ الْکَوَافِرِ} (سورۃ الممتحنۃ: ۱۰)
وإسلامہ أن یتبرأ عن الأدیان سوی الإسلام أو عما انتقل إلیہ الخ۔ (ابن عابدین، الدر المختار مع رد المحتار، ’’کتاب الجہاد: باب المرتد، مطلب: ما یشک أنہ ردۃ لا یحکم بہا‘‘: ج ۶، ص: ۳۶۱)
وإسلامہ أن یأتي بکلمۃ الشہادۃ ویتبرأ عن الأدیان کلہا سوی الإسلام، وإن تبرأ عما انتقل إلیہ کفی، کذا في المحیط۔ (جماعۃ من علماء الہند، الفتاویٰ الہندیۃ، ’’الباب التاسع: في أحکام المرتدین، ومنہا: الطوع‘‘: ج ۲، ص: ۲۶۷)
طہارت / وضو و غسل
Ref. No. 1818/43-1673
بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ اگر آپ نے پھنسی سے نکلنے والے مواد کو پانی سے دھولیا اور چہرہ یا ہاتھ پر اس کےاثرات نہیں ہیں تو پاکی حاصل ہوگئی، اوروضو درست ہوگئی، بلاوجہ کے شک یا وسوسہ میں مبتلا ہونے کی ضرورت نہیں ہے۔
واللہ اعلم بالصواب
دارالافتاء
دارالعلوم وقف دیوبند
تجارت و ملازمت
Ref. No. 2017/44-1977
بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ اجیر کو اجرت دینے میں وسعت ظرفی سے کام لینا چاہئے۔ جتنے دن اجیر نے کام کیا ہے اتنے دنوں کی اجرت دینی لازم ہے یہ اس کا حق ہے۔ مثلاکسی نے 25 دن کام کئے، اور مہینہ پورا ہونے سے پہلے چھوڑنا چاہتاہے تو اس کے 25 دن کی اجرت نہ دینا ظلم ہے۔
والثاني وہوالأجیر الخاص ویسمی أجیر وحد وہو من یعمل لواحدٍ عملاً موقتاً بالتخصیص ویستحق الأجر بتسلیم نفسہ في المدۃ وإن لم یعمل کمن استؤجر شہراً للخدمۃ أو شہراً لرعي الغنم المسمی بأجر مسمی ۔۔۔۔ ولیس للخاص أن یعمل لغیرہ ، ولو عمل نقص من أجرتہ بقدر ما عمل ۔۔۔۔۔ وإن لم یعمل أي إذا تمکن من العمل فلو سلم نفسہ ولم یتمکن منہ لعذر کمطر ونحوہ لا أجر لہ". (رد المحتار: ۹/۸۲ ، کتاب الإجارۃ ، وکذا فی البحر الرائق : ۸ /۵۲ ، کتاب الإجارۃ)
واللہ اعلم بالصواب
دارالافتاء
دارالعلوم وقف دیوبند
Business & employment
Ref. No. 2112/44-2187
In the name of Allah the most Gracious the most Merciful
The answer to your question is as follows:
The money, you receive for answering the survey from the company is halal, and the commission you get for referring is also halal for you. You are directly involved in both of them and are working hard, therefore this amount is halal. However, if you get money in any other way, explain it and post your question again in details.
And Allah knows best
Darul Ifta
Darul Uloom Waqf Deoband
اسلامی عقائد
Ref. No. 2222/44-2366
بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ مسجد کی تعمیر کے وقت ہی مسجد کی زمین کے بعض حصے کو مسجد میں نماز کے لئے اور بعض کو مصالح مسجد کے لئے مختص کیاگیا تھا، بعد میں وضو خانہ والی جگہ کے اوپری حصہ کو مسجد میں نماز کے لئے شامل کرلیا گیا اور اسی طرح دوکانوں کے اوپری حصہ کو بھی مسجد میں شامل کرلیا گیا ہے۔ یہ تمام جگہیں مسجد ہی ہیں، اس لئے دائیں بائیں حصہ میں نماز پڑھنا مسجد ہی کا ثواب رکھتاہے، اور اس حصہ میں نماز پڑھنے والا مسجد کا پورا ثواب پانے والا ہوگا۔ اور جب اس حصہ کو مسجد میں شامل کرلیا گیا اور صف کا ایک حصہ بن گیا تو اس صف کو پورا کرکے ہی پچھلی صف میں کھڑا ہونا چاہئے یا اوپر کی منزل میں جانا چاہئے۔ مسجد انتظامیہ جس حصہ کو نماز کے لئے متعین کردے اس کا حکم مسجد کاہوگا، اور جس حصہ کو مسجد کے مصالح کے لئے رکھے اس میں مسجد کے احکام جاری نہیں ہوں گے، تاہم وہ حصہ بھی وقف ہے، اس لئے اس حصہ میں بھی مسجد کے تقدس کے خلاف کوئی کام کرنا جائز نہیں ہوگا۔
الدر المختار مع رد المحتار: (355/4، ط: الحلبي)
(ويزول ملكه عن المسجد، والمصلى) بالفعل و (بقوله جعلته مسجدا) عند الثاني (وشرط محمد) والإمام (الصلاة فيه) بجماعة وقيل: يكفي واحد وجعله في الخانية ظاهر الرواية.
(قوله بالفعل) أي بالصلاة فيه ففي شرح الملتقى إنه يصير مسجدا بلا خلاف، ثم قال عند قول الملتقى، وعند أبي يوسف يزول بمجرد القول ولم يرد أنه لا يزول بدونه لما عرفت أنه يزول بالفعل أيضا بلا خلاف اه. مطلب في أحكام المسجد قلت: وفي الذخيرة وبالصلاة بجماعة يقع التسليم بلا خلاف، حتى إنه إذا بنى مسجدا وأذن للناس بالصلاة فيه جماعة فإنه يصير مسجدا اه ويصح أن يراد بالفعل الإفراز۔۔۔۔إلخ
الدر المختار و حاشیہ ابن عابدین میں ہے:
"[فرع] لو بنى فوقه بيتا للإمام لا يضر لأنه من المصالح، أما لو تمت المسجدية ثم أراد البناء منع ولو قال عنيت ذلك لم يصدق تتارخانية، فإذا كان هذا في الواقف فكيف بغيره فيجب هدمه ولو على جدار المسجد، ولا يجوز أخذ الأجرة منه ولا أن يجعل شيئا منه مستغلا ولا سكنى بزازية۔۔(ولو خرب ما حوله واستغني عنه يبقى مسجدا عند الإمام والثاني) أبدا إلى قيام الساعة (وبه يفتي)"
وفي الرد:"(قوله: أما لو تمت المسجدية) أي بالقول على المفتى به أو بالصلاة فيه على قولهما ط وعبارة التتارخانية، وإن كان حين بناه خلى بينه وبين الناس ثم جاء بعد ذلك يبني لا بترك اهـ وبه علم أن قوله في النهر، وأما لو تمت المسجدية، ثم أراد هدم ذلك البناء فإنه لا يمكن من ذلك إلخ فيه نظر؛ لأنه ليس في عبارة التتارخانية ذكر الهدم وإن كان الظاهر أن الحكم كذلك (قوله: فإذا كان هذا في الواقف إلخ) من كلام البحر والإشارة إلى المنع من البناء (قوله: ولو على جدار المسجد) مع أنه لم يأخذ من هواء المسجد شيئا. اهـ. ط ونقل في البحر قبله ولا يوضع الجذع على جدار المسجد وإن كان من أوقافه. اهـ.
ويكره الوضوء والمضمضمة( والمضمضة )في المسجد إلا أن يكون موضع فيه اتخذ للوضوء ولا يصلی فيه۔(البحر الرائق،كتاب الصلوة ،باب مايفسد الصلوة وما يكره فيها ج2ص61)
واللہ اعلم بالصواب
دارالافتاء
دارالعلوم وقف دیوبند
حدیث و سنت
الجواب وباللّٰہ التوفیق:پوری حدیث اس طرح ہے:
’’عن عبد اللّٰہ بن عمر بن العاص قال: قال رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم: إن اللّٰہ لایقبض العلم انتزاعاً ینتزعہ من الناس ولکن یقبض العلم بقبض العلماء حتی إذا لم یترک عالماً اتخذ الناس رؤساً جہالا فسئلوا فأفتوا بغیر علم فضلوا وأضلوا‘‘(۱)
اسی حوالہ کے حاشیہ میں اس حدیث کا مطلب مذکور ہے، کہ قیامت سے پہلے دنیا سے علم اٹھالیا جائے گا اور علم کے اٹھانے کی یہ صورت نہیں ہوگی، کہ ایک بارگی لوگوں کے دلوں سے علم نکل جائے گا؛ بلکہ علم اس طرح اٹھے گا کہ دھیرے دھیرے اہل علم اٹھ جائیں گے اور جب کوئی عالم باقی نہ رہے گا، تو لوگ جاہلوں کو اپنا مقتدیٰ بنائیں گے اور ان سے مسائل معلوم کریں گے، تو وہ ایسے فتوے دیں گے کہ خود بھی گمراہ ہوں گے اور دوسروں کو بھی گمراہ کریں گے۔
حاصل یہ ہے کہ اس حدیث میں قیامت کی ایک علامت اور اس کی صورت واقعیہ کو بیان کیا گیا ہے۔
(۱) أخرجہ الترمذي، في سننہ، ’’أبواب العلم: باب ما جاء في ذہاب العلم‘‘: ج ۲، ص: ۳۱، رقم: ۲۶۵۲۔
وعن عبد اللّٰہ بن عمر بن العاص قال: قال رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم: إن اللّٰہ لایقبض العلم انتزاعاً ینتزعہ من العباد الخ۔ (مشکوٰۃ المصابیح، ’’کتاب العلم: الفصل الأول‘‘: ج ۱، ص: ۳۳؛ وأخرجہ البخاري، في صحیحہ، ’’کتاب العلم: باب کیف یقبض العلم‘‘: ج ۱، ص: ۲۰، رقم: ۱۰۰)
فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج2ص73
حدیث و سنت
الجواب وباللّٰہ التوفیق:حضرت وہب فرماتے ہیں کہ آپ کے بدن پر نور کا لباس پڑا ہوا تھا اور دنیا میں اتارے جانے کے بعد بھیڑ کے بالوں کا خود تیار کردہ جبہ زیب تن فرمایا اور حضرت حواء علیہا السلام کے لئے لفافہ اور اوڑھنی تیار کرکے دی ،انہوں نے وہ استعمال فرمائی۔(۱)
(۱) عن وہب بن منبہ أنہ کان لباسہما من النور۔ (محمد ثناء اللّٰہ پانی پتی، تفسیر المظہري، ’’سورۃ الأعراف: ۲۲‘‘: ج ۳، ص: ۳۵۹)
فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج2ص227
طہارت / وضو و غسل
الجواب وباللہ التوفیق: بلاوضو کمپیوٹر کے ذریعہ قرآنی آیات کی کتابت کرنا درست ہے؛ اس لیے کہ یہاں پر آیت کو بلاوضو چھونا لازم نہیں آتا ہے؛ بلکہ آیت اور ہاتھ کے درمیان فاصلہ ہوتاہے جو کہ واسطہ منفصلہ کے درجہ میں ہے۔ علامہ ابن الہمام نے جنبی وغیرہ کے لیے اس تختی پر قرآن لکھنے کی گنجائش دی ہے، جو ہاتھ میں نہ لی جائے؛ بلکہ کسی چیز پر رکھ کر لکھا جائے اور وجہ یہ بیان فرمائی کہ یہاں قلم کے ذریعہ چھونا پایا جارہا ہے اور قلم واسطہ منفصلہ ہے۔ اس بنیاد پر اگر دیکھا جائے، تو کمپیوٹر میں بھی کی بورڈکا واسطہ موجود ہے؛ بلکہ نقش حروف بنانے میں قلم سے بھی زیادہ دور کا واسطہ ہے، اس طور پر کہ قلم سے براہِ راست نقوش حروف بنتے ہیں اور کمپیوٹر میں حروف کی بورڈ پر لکھے ہوتے ہیں صرف ان کا ظہور اسکرینوں پر ہوتا ہے؛ لہٰذا کمپیوٹر کے ذریعہ بے وضو قرآنی عبارت ٹائپ کرنے کی گنجائش معلوم ہوتی ہے۔ (۱)
(۱) لا تکرہ کتابۃ القرآن والصحیفۃ أو اللوح علی الأرض عند الثاني خلافا لمحمد، حیث قال: أحب إلي أن لا یکتب لأنہ في حکم الماس للقرآن، قال في الفتح: والأول أقیس؛ لأنہ في ھذہ الحالۃ ماس بالقلم وھو واسطۃ منفصلۃ۔ (ابن عابدین، الدر المختار، ’’کتاب الطہارۃ، مطلب یطلق الدعاء علی ما یشمل الثناء،‘‘ ج۱، ص:۳۱۷)
فتاوی ٰ دارالعلوم وقف دیوبند ج3 ص153