اسلامی عقائد

Ref. No. 1618/43-1198

بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ تلاش کرنے پر ہمیں  ایسی کوئی حدیث نہیں مل سکی، جس میں ایک قدم کا مذکورہ ثواب لکھاہوا ہو،  اللہ کے راستے میں نکلنے کے اور بھی بہت سے فضائل ہیں جوصحیح  ہیں، فضائل کے بیان میں بھی انہی صحیح حدیثوں پراکتفا کرنا چاہیے، اور موضوع و من گھڑت  روایات بیان کرنا جائز نہیں۔ اس سے  اجتناب کرنا چاہیے۔

"وإذا کان الحدیث لا إسناد له، فلا قیمة له، ولایلتفت إلیه، إذ الاعتماد في نقل کلام سیدنا رسول الله ﷺ إلینا وإنّما هو على الإسناد الصحیح الثابت أو مایقع موقعه، وما لیس کذلك فلا قیمة له ( المصنوع في معرفة الحدیث الموضوع، ص: ۱۸، ط: ایچ ایم سعید کمپنی)

واللہ اعلم بالصواب

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند

طہارت / وضو و غسل

Ref. No. 1803/43-1543

بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ نجس چپل یا نجس کپڑا دھونے کے بعد جو پانی جمع رہتاہے وہ ناپاک ہے، اگر اس کی چھینٹیں کپڑے پر لگ جائیں اور کپڑا گیلا ہوجائے تو کپڑا ناپاک ہوجائے گا۔ اسی طرح ناپاک پانی جمع تھا اور آپ نے ٹونٹی کھولی  جس سے ناپاک پانی کی چھینٹیں آپ کے کپڑے پر لگ گئیں تو کپڑا ناپاک ہوجائے گا۔ نجاست غلیظہ ایک درھم سے کم معاف ہے، ایک درھم اور اس سے زیادہ  مقدارکپڑا ناپاک ہوگا تو اس میں نماز درست نہیں ہوگی۔ نجاست خفیفہ کپڑے کی ایک چوتھائی سے کم معاف ہے، اس سے زیادہ ہو تو کپڑا ناپاک سمجھاجائے گا۔ ناپاک کپڑے میں نماز درست نہیں ہوتی ہے۔ کپڑے کا پاک ہونا نماز کے شرائط میں سے ہے۔

 (وقدر الدرهم وما دونه من النجس المغلظ كالدم والبول والخمر وخرء الدجاج وبول الحمار جازت الصلاة معه وإن زاد لم تجز) وقال زفر والشافعي: قليل النجاسة وكثيرها سواء لأن النص الموجب للتطهير لم يفصل. ولنا أن القليل لا يمكن التحرز عنه فيجعل عفوا، وقدرناه بقدر الدرهم أخذا عن موضع الاستنجاء. (فتح القدیر، باب الانجاس وتطھیرھا 1/202)

يجب أن يعلم بأن القليل من النجاسة عفو عندنا، لما روي أن عمر رضي الله عنه سئل عن قليل النجاسة في الثوب، فقال: «إذا كان مقدار ظفري هذا لا يمنع جواز الصلاة» ، ولأن التحرز عن قليل النجاسة غير ممكن، فإن الذباب يغفو على النجاسة ثم يغفو على ثياب المصلي، لا بد وأن يكون (في) أجنحتهن وأرجلهن نجاسة، فجعل القليل عفواً لمكان البلوى، وقد صح أن أكثر الصحابة كانوا يكتفون بالاستنجاء بالأحجار، وإنه لا يزيل أصل النجاسة لولا أن القليل من النجاسة عفو، وإلا لما اكتفوا به.

ثم النجاسة نوعان: غليظة، وخفيفة، فالغليظة إذا كانت قدر الدرهم أو أقل فهي قليلة لا تمنع جواز الصلاة، وإن كانت أكثر من قدر الدرهم منعت جواز الصلاة، ويعتبر الدرهم الكبير دون الصغير (المحیط البرھانی، الفصل السابع فی النجاسات واحکامھا 1/192)

واللہ اعلم بالصواب

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند

اسلامی عقائد

Ref. No. 2003/44-1958

بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔  مسجد میں چندہ دینے والوں کا مقصد مسجد کی ضروریات کی تکمیل ہوتی ہے، اس لئے مسجد کا پیسہ تراویح کے امام کو دینا جائز نہیں ہے، جو  پیسے آپ کو مسجد کی طرف سے دئے گئے تھے، اس  کو آپ جلد از جلد  واپس کردیں؛ اس پیسے کا استعمال آپ کے لئے جائز نہیں اور والد صاحب کو دینابھی درست نہیں۔  اور اگرمسجد والوں نے  چندہ آپ کے لئے ہی کیاتھا تو  وہ رقم آپ کے لئے حلال ہے، گوکہ یہ طریقہ مناسب نہیں ہے۔

واللہ اعلم بالصواب

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند

 

تجارت و ملازمت

Ref. No. 2214/44-2365

بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔اگر کھیت میں آلو کی پیداوار ہوچکی ہے اور ا س کا علم بھی اس طورپر ہے کہ بعض جگہ سے نکال کر دیکھ لیا گیا ہے تو زمین میں رہتے ہوئے آلو کی بیع درست ہے ا س لیے کہ یہ بیع معدوم نہیں ہے بلکہ بیع کا حقیقی وجود ہے اور عاقدین کے درمیان کوئی نزاع کا باعث بھی نہیں ہے اور مبیع موجود ہونے کی صورت میں اس کو اندازے سے فروخت کرنا جائز ہے ۔

ومنه بيع ما أصله غائب كجزر وفجل، أو بعضه معدوم كورد وياسمين وورق فرصاد. وجوزه مالك لتعامل الناس، وبه أفتى بعض مشايخنا عملا بالاستحسان، هذا إذا نبت ولم يعلم وجوده، فإذا علم جا. (قوله بيع ما أصله غائب) أي ما ينبت في باطن الأرض، وهذا إذا كان لم ينبت أو نبت ولم يعلم وجوده وقت البيع وإلا جاز بيعه كما يأت-قال في الهندية إن كان المبيع في الأرض مما يكال أو يوزن بعد القلع كالثوم والجزر والبصل فقلع المشتري شيئا بإذن البائع أو قلع البائع، إن كان المقلوع مما يدخل تحت الكيل أو الوزن إذا رأى المقلوع ورضي به لزم البيع في الكل وتكون رؤية البعض كرؤية الكل إذا وجد الباقي(رد المحتار7/238۔

واللہ اعلم بالصواب

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند

 

حج و عمرہ

Ref. No. 2390/44-3622

بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ حدود حرم کے اندر ہی بال کٹوانا ضروری ہے، اور عزیزیہ ہوٹل حدود حرم کے اندر ہے،  اس لئے  حلق کرانے کے لئے  عزیزیہ ہوٹل  جانا درست  ہے۔

الھدایۃ: (164/1، ط: دار احیاء التراث العربی)

" وإن حلق في أيام النحر في غير الحرم فعليه دم ومن اعتمر فخرج من الحرم وقصر فعليه دم عند أبي حنيفة ومحمد " رحمهما الله تعالى " وقال أبو يوسف " رحمه الله " لا شيء عليه "۔۔۔۔ولهما أن الحلق لما جعل محللا صار كالسلام في آخر الصلاة فإنه من واجباتها وإن كان محللا فإذا صار نسكا اختص بالحرم كالذبح

واللہ اعلم بالصواب

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند

 

اسلامی عقائد

الجواب وباللّٰہ التوفیق:رسم ورواج سے ہٹ کر بچے کے والدین کو محض اپنی خوشی اور رضامندی سے جو چاہے دے سکتے ہیں، اس کا لینا بھی جائز ہے(۱) البتہ کوئی غیر شرعی طریقہ اختیار نہ کیا جائے(۲)

(۱) خیرکم من تعلم القرآن وعلمہ۔ (أخرجہ الترمذي: في سننہ، ’’أبواب العلم، باب خیرکم من تعلم القرآن‘‘: ج ۱، ص: ۷۳، رقم: ۲۹۰۷؛ أخرجہ البخاري، في صحیحہ،… ’’کتاب العلم: باب خیرکم من تعلم القرآن‘‘: ج ۱، ص: ۱۹، رقم: ۵۰۲۷)
تہادوا تحابوا۔ (أخرجہ الطبري، في المعجم الأوسط: ج ۷، ص: ۱۹۰، رقم: ۷۲۴۰)

(۲) عن عائشۃ رضي اللّٰہ عنہا، قالت: قال رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم: من أحدث في أمرنا ہذا ما لیس منہ فہو رد، متفق علیہ۔ (أخرجہ مسلم، في صحیحہ، ’’کتاب الأقضیۃ: باب نقض الأحکام‘‘: ج ۲، ص: ۷۷، رقم: ۱۷۱۸)

فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج1ص521

حدیث و سنت

الجواب وبا اللّٰہ التوفیق:ڈاڑھی ایک مشت سے کم کرنا یا بالکل منڈانا، موجب فسق وگناہِ کبیرہ ہے(۱)؛ لیکن مذکورہ فی السوال باتیں حدیث رسول صلی اللہ علیہ وسلم میں نہیں ہیں، وعظ ونصیحت کے وقت انتہائی احتیاط لازم ہے جو حدیث نہ ہو، اس کو حدیث کہہ کر بیان کرنا شرعاً درست نہیں۔
رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی حدیث ہے: ’’من تعمد علی کذباً فلیتبؤ مقعدہ من النار‘‘(۲)

(۱) أما الأخذ منہا وہي دون ذلک کما یفعلہ بعض المغاربۃ ومخنثۃ الرجال فلم یبحہ أحد، وأخذ کلہا فعل یہود الہند ومجوس الأعاجم۔ (ابن عابدین، الدر المختار مع رد المحتار، ’’کتاب الصوم: باب ما یفسد الصوم ومالا یفسدہ‘‘: ج ۲، ص: ۲۱۸)
(۲) أخرجہ البخاري، في صحیحہ، ’’کتاب الإیمان: إثم من کذب علي النبي صلی اللّٰہ علیہ وسلم‘‘: ج ۱، ص: ۲۱، رقم: ۱۰۸۔

فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج2ص120

بدعات و منکرات

الجواب وباللّٰہ التوفیق:بندوں کے حقوق کی ادائیگی کی فکر کرنا اور قرض کو ادا کرنے کی کوشش کرنا اللہ تعالیٰ سے تعلق کی دلیل ہے اور یہ توکل کے منافی بھی نہیں ہے۔ دنیا دار الاسباب ہے، یہاں اسباب اختیار کرنے کے بعد توکل کرنا ہوگا، آپ نماز وتلاوت وغیرہ کے ساتھ ہی تبلیغی جماعت سے جڑے رہیں اور قرض کو جلد از جلد ادا کرنے کی کوشش کریں، قرض کی ادائیگی سے پہلے مزید قرض لینا یا اس کا مشورہ دینا حماقت ہے۔ حقوق العباد کی ادائیگی میں کوتاہی ہرگز نہ کریں۔(۱)
 

(۱) {إِنَّ اللّٰہَ یَأْمُرُکُمْ أَنْ تُؤَدُّوا الْأَمٰنٰتِ إِلٰٓی أَھْلِھَالا} (سورۃ النساء: ۵۸)…بقیہ حاشیہ آئندہ صفحہ پر……إن دمائکم وأموالکم وأعراضکم بینکم حرام، الحدیث۔ (تحفۃ الأحوذي، باب ما جاء دمائکم وأموالکم علیکم حرام: ص: ۳۱۳)

----------

فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج2ص330

نماز / جمعہ و عیدین

الجواب وباللہ التوفیق: بشرط صحت سوال مقررقائم، مقام امام امامت کے مستحق ہیں، دوسرا آدمی جو مقرر امام نہیں ہے وہ مستحق امامت نہیں ہے نیز کسی شرعی وجہ کے نہ ہوتے ہوئے اس شخص کا جماعت چھوڑ کر چلے جانا قطعاً درست نہیں اور ان کا یہ کہنا کہ میں مقرر قائم مقام امام سے بڑا عالم ہوں یہ شرعی عذر نہیں ہے، مقرر امام خواہ مقتدی سے کم درجہ کا عالم ہو تب بھی جماعت چھوڑنی درست نہیں اور ترک جماعت کا گناہ اس کے دامن پر ہوگا۔(۱)

(۱) عن أبي مسعود، أن رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم قال: لا یؤم الرجل في سلطانہ ولا یجلس علی تکرمتہ في بیتہ إلا بإذنہ۔ (أخرجہ الترمذي في سننہ، ’’أبواب الصلاۃ عن رسول اللّٰہ  صلی اللّٰہ علیہ وسلم، باب من أحق بالإمامۃ‘‘: ج ۱، ص: ۴۵۸، رقم: ۲۳۵)
ولا یؤمن الرجل الرجل في سلطانہ) أی: في مظہر سلطنتہ ومحل ولایتہ، أو فیما یملکہ، أو فی محل یکون في حکمہ) ویعضد ہذا التأویل الروایۃ الأخری في أہلہ، وروایۃ أبي داؤد في بیتہ ولا سلطانہ، ولذا کان ابن عمر یصلی خلف الحجاج، وصح عن ابن عمر أن إمام المسجد مقدم علی غیر السلطان، وتحریرہ أن الجماعۃ شرعت لاجتماع المؤمنین علی الطاعۃ وتآلفہم وتوادہم، فإذا أم الرجل الرجل في سلطانہ أفضی ذلک إلی توہین أمر السلطنۃ، وخلع ربقۃ الطاعۃ۔ (ملا علي قاري، المرقاۃ المفاتیح شرح مشکاۃ المصابیح، ’’کتاب الصلاۃ: باب الإمامۃ، الفصل الأول‘‘: ج۳، ص: ۱۷۵، رقم: ۱۱۱۷)
قولہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم: ولا یؤمن الرجل في سلطانہ معناہ ماذکرہ أصحابنا وغیرہم أن صاحب البیت والمجلس وإمام المسجد أحق من غیرہ وإن کان ذلک الغیر أفقہ وأقرأ وأورع وأفضل منہ وصاحب المکان أحق فإن شاء تقدم وإن شاء قدم من یریدہ وإن کان ذلک الذي یقدمہ مفضولاً بالنسبۃ إلی باقي الحاضرین لأنہ سلطانہ فیتصرف فیہ کیف شاء۔ (النووي، شرح النووی علی مسلم، ’’کتاب المساجد ومواضع الصلاۃ: باب من أحق بالإمامۃ‘‘: ج ۱، ص: ۲۳۶، رقم: ۶۷۳)

 

فتاوی دارالعلوم وقف دیوبندج5 ص111

 

طہارت / وضو و غسل

الجواب وباللّٰہ التوفیق: اگر آپ کواتنا وقت بھی نہیں ملتا کہ وضو کر کے نماز ادا کریں بلکہ ہر وقت یہ پیشاب یا منی کے قطروں کا سلسلہ جاری رہتا ہے، ایک نماز ادا کرنے کا وقت بھی نہیں خالی ملتا تو مذکورہ شخص معذور کے حکم میں ہے، اس کے لیے شرعی حکم یہ ہے کہ وہ وضو کر کے ایک وقت کی نماز ادا کرے پھر دوسرے وقت کے لئے دوبارہ وضو کرے اور معذور کی امامت درست نہیں ہے۔(۱)

(۱)صاحب عذر من بہ سلس بول لا یمکنہ إمساکہ۔ (ابن عابدین، الدر المختار مع رد المحتار، ’’کتاب الطہارۃ، باب الحیض مطلب في أحکام المعذور‘‘ج۱، ص:۵۰۴) ؛ و إنما یصیر صاحب عذر إذا لم یجد في وقت الصلاۃ زمنا یتوضأ و یصلي فیہ خالیا عن الحدث۔ (ابن الہمام، فتح القدیر، ’’کتاب الطہارات، فصل في الاستحاضۃ‘‘ج۱، ص:۱۸۵) ؛ (وطاھر بمعذور) أي و فسد اقتداء طاھر بصاحب العذر المفوت للطھارۃ لأن الصحیح أقوی حالا من المعذور۔ (ابن نجیم، البحرالرائق،’’کتاب الصلاۃ، باب الإمامۃ‘‘ج۱،ص۶۳۰)؛  ولا یصلي الطاھر خلف من بہ سلس البول ولا الطاھرۃ خلف المستحاضۃ، و ھذا إذا قارن الوضوء الحدث أو طرأ علیہ۔ (جماعۃ من علماء الہند، الفتاویٰ الہندیۃ، ’’کتاب الصلاۃ، الباب الخامس: في الإمامۃ، الفصل الثالث: في بیان ما یصلح إمام لغیرہ‘‘ج۱،ص:۱۴۲)
 

فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج3 ص406