اسلامی عقائد

Ref. No. 2789/45-4362

بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ گاڑھا سرخ جو زنانہ لباس کے طور پر مستعمل ہے اس کا استعمال مردوں کے لئے مکروہ تنزیہی ہے اور یہ کراہت صرف لباس کی حدتک ہے، لہٰذا دوسرے کاموں میں جیسے خطاطی وغیرہ کے لئے سرخ کپڑا استعمال کرنابلا کراہت درست ہے، بعض مربتہ موقع ومحل کے اعتبار سے غیروں کی مشابہت ہو جائے تو سرخ کپڑا استعمال کرنے سے بچنا چاہئے۔

وليس المعصفر والمزعفر والاحمر مفاده أن الكراهة تنزيهية لكن صرح في التحفة بالحرمة فادانها تحريمية‘‘ (الدر المحتار مع رد المحتار: ج 9،ص: 515)

واللہ اعلم بالصواب

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند

 

مساجد و مدارس

Ref. No. 997 Alif

الجواب وباللہ التوفیق                                                                                                                                                        

بسم اللہ الرحمن الرحیم: مذکورہ مسئلہ  درست ہے، مفتی صاحب نے صحیح فرمایا ہے۔  واللہ اعلم بالصواب

 

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند

طہارت / وضو و غسل

Ref. No. 40/802

الجواب وباللہ التوفیق 

بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ قرآن کریم میں سورہ مائدہ  آیت نمبر چھ میں وضو کے فرائض بیان کئے گئے ہیں۔وضو میں چار چیزیں فرض ہیں  (1)  چہرہ دھونا یعنی پیشانی کے بالوں سے ٹھوڑی کے نیچے تک اور ایک کان کے لَو سے دوسرے کان کے لَو تک پورا چہرہ دھونا۔ (2) دونوں ہاتھوں کو کہنیوں سمیت دھونا۔(3) سرکا مسح یعنی چوتھائی سر کا مسح کرنا۔  (4) دونوں پیر ٹخنوں سمیت دھونا۔

واللہ اعلم بالصواب

 

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند

Usury / Insurance

Ref. No. 41/951

In the name of Allah the most Gracious the most Merciful

The answer to your question is as follows:

The interest money received from government banks may be used in paying the income tax to government.

And Allah knows best

Darul Ifta

Darul Uloom Waqf Deoband

اسلامی عقائد

Ref. No. 1528/43-1128

الجواب وباللہ التوفیق

بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ اس طرح کے جملوں سے آپ کی کیا مراد ہے؟ آپ خود ہی اس کی وضاحت کرکے دوبارہ  معلوم کرلیں۔

إذا كان في المسألة وجوه توجب الكفر، ووجه واحد يمنع، فعلى المفتي أن يميل إلى ذلك الوجه كذا في الخلاصة في البزازية إلا إذا صرح بإرادة توجب الكفر، فلا ينفعه التأويل حينئذ كذا في البحر الرائق، ثم إن كانت نية القائل الوجه الذي يمنع التكفير، فهو مسلم، وإن كانت نيته الوجه الذي يوجب التكفير لا تنفعه فتوى المفتي، ويؤمر بالتوبة والرجوع عن ذلك وبتجديد النكاح بينه وبين امرأته كذا في المحيط. (الفتاوی الھندیۃ، مطلب فی موجبات الکفر، انواع منھا مایتعلق 2/282)

واللہ اعلم بالصواب

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند

 

ربوٰ وسود/انشورنس

Ref. No. 2301/44-3458

بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔  مذکورہ جرمانہ چونکہ سرکار کی طرف سے ہے، اور سرکاری بینک کا سود بھی سرکار کا ہے، اور سودی رقم میں اصل یہ ہے  کہ جس کا پیسہ ہو اسی کو واپس کردیاجائے چاہے کسی طرح بھی واپس کیاجائے۔ اس لئے مذکورہ جرمانہ میں سرکاری بینک کا سود دے سکتے ہیں۔  

واللہ اعلم بالصواب

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند

 

اسلامی عقائد

الجواب وباللّٰہ التوفیق:جو شخص ایسا عقیدہ رکھتا ہو اور ائمہ دین خصوصاً امام ابوحنیفہ رحمۃ اللہ علیہ اور امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ کو مذکورہ الفاظ سے تعبیر کرتا ہو یا کسی صحابی کی توہین کرتا ہو، تو وہ شخص مبتدع فاسق اور مستحق تعزیر ہے ’’عزّر کل مرتکب منکر أو موذي مسلم بغیر حق بقول أو فعل‘‘(۱)

(۱) ابن عابدین، الدر الختار مع رد المحتار، ’’کتاب الحدود: باب التعزیر، مطلب: التعزیر قد یکون بدون معصیۃ‘‘: ج ۶، ص: ۱۱۳۔
ویخاف علیہ الکفر إذا شتم عالماً أو فقیہا من غیر سبب۔ (جماعۃ من علماء الہند، التفاویٰ الہندیۃ، ’’کتاب السیر: الباب التاسع: في أحکام المرتدین، موجباب الکفر أنواع، ومنہا: ما یتعلق بالعلم والعلماء‘‘: ج ۲، ص: ۲۸۲)
ومن بغض عالماً من غیر سبب ظاہر خیف علیہ الکفر۔ (إبراہیم بن محمد، ……مجمع الأنہر في شرح ملتقی الأبحر، ’’کتاب السیر والجہاد: باب المرتد، ثم إن ألفاظ الکفر أنواع‘‘: ۲، ص: ۵۰۹)
وسب أحد من الصحابۃ وبغضہ لا یکون کفراً، لکن یضل الخ، وذکر في فتح القدیر أن الخوارج الذین یستحلون دماء المسلمین وأموالہم ویکفرون الصحابۃ حکمہم عند جمہور الفقہاء وأہل الحدیث حکم البغاۃ، وذہب بعض أہل الحدیث إلی أنہم مرتدون۔ (ابن عابدین، الدر المختار مع رد المحتار، ’’کتاب الجہاد: باب المرتد، مطلب مہم: في حکم سب الشیخین‘‘: ج ۶، ص: ۳۷۷
)

فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج1ص279

نماز / جمعہ و عیدین

Ref. No. 2445/45-3708

بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ جمعہ کی نماز میں ہر دو خطبے طوال مفصل یعنی سورۂ حجرات سے سورۂ بروج تک میں سے کسی سورہ کے برابر رہیں‘ اتنا طویل خطبہ دیناکہ طوال مفصل سے بڑھ جائے مکروہ ہے۔ حدیث میں خطبہ طویل کرنے کی ممانعت آئی ہے۔ اس لئے   نماز جمعہ میں خطبہ مختصر ہونا چاہئے، نبی اکرم ﷺ کے اقوال ا فعال سے، اور صحابہ کرام کے آثار اور اجماع سے یہ بات ثابت شدہ ہے کہ طویل خطبہ دینا خلافِ سنت ہے۔ حدیث میں صراحت کے ساتھ نمازمیں تخفیف کا حکم ہے۔ لہذانماز پڑھانے والے پر لازم ہے کہ کمزوروں اور ضرورتمندوں کا خیال رکھ کر نماز پڑھائے خطبہ مختصر دے۔ اس قدر طویل خطبہ دینا جو تقلیل جماعت کا سبب بنے  درست  نہیں ہے۔

خطبنا عمار فاوجز وابلغ فلما نزل قلنا یا ابا الیقظان لقد بلغت واوجزت فلو کنت تنفست فقال انی سمعت رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم یقول ان طول صلوٰة الرجل وقصر خطبتہ مئنة من فقہ فاطیلو الصلوٰة واقصروا الخطبة وان من البیان لسحرًا(مسلم شریف ج۱،ص۲۸۶،مکتبہ ملت دیوبند۔)

عن جابر بن سمرة قال کان النبی صلی اللّٰہ علیہ وسلم یخطب قائماً ثم یجلس ثم یقوم ویقرأ آیات ویذکر اللّٰہ عزوجل وکانت خطبة قصدا وصلاتہ قصدًا․ (نسائی شریف جلد۱، ص۱۵۹، ابن ماجہ ص ۷۷، مکتبہ فیصل دیوبند۔ ترمذی شریف ج۱، ص۱۱۴، فیصل دیوبند۔)

عن جابررضى الله تعالى عنہ قال :  کان النبی صلی اللّٰہ علیہ وسلم یوم الجمعة یخطبہ فیقول بعد ان یحمد اللّٰہ ویصلی علی انبیائہ ”ایہا الناس ان لکم معالم فانتہو الی معالمکم وان لکم نہایة فانتہوا الی نہایتکم ان العبد الموٴمن بین مخافتین بین اجل قد مضی لایدری ما اللّٰہ قاض فیہ وبین اجل قد بقی لا یدری ما اللّٰہ صانع فیہ فلیاخذ العبد من نفسہ لنفسہ ومن دیناہ لآخرتہ ومن الشبیبة قبل الکبر ومن الحیاة قبل الممات والذی نفسی بیدہ ما بعد الموت من مستعتب ما بعد الدنیا من دار الا الجنة او النار اقول قولی ہذا واستغفر اللّٰہ لی ولکم وقد تقدم ما خطبہ بہ علیہ الصلوٰة والسلام اول جمعة عند قدومہ المدینة (اخرجہ ابوداؤد، مراسیل ص ۱۹۴۰۸، بیہقی ج۲، ص۲۱۵، باب کیف یستحب ان تکون الخطبة، بحوالہ الجامع الاحکام القرآن ص ۱۰۵،۱۰۶ ج۹، جز ۱۸ مکتبہ دارالفکر۔)

عن جابررضى الله تعالى عنہ قال :  کان رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم لایطیل الموعظة یوم الجمعة انما ہن کلمات یسیرات․( ابوداؤد شریف ج۱، ص۱۵۸، مکتبہ ملت دیوبند۔)

"قال أبوحنیفة رحمة الله عليه: إن اقتصر الخطیب علی مقدار یسمي ذکر اللّٰه کقوله: الحمد اللّٰه، سبحان اللّٰه جاز ... وقال الصاحبان: لابد من ذکر طویل یسمٰی خطبة".(بدائع الصنائع ج۱، ص۳۸۹، مکتبه دارالفکر)
"ومنها الخطبة"؛ لأن النبي صلى الله عليه وسلم ما صلاها بدون الخطبة في عمره، "وهي قبل الصلاة بعد الزوال"، به وردت السنة، "ويخطب خطبتين يفصل بينهما بقعدة"، به جرى التوارث"، ويخطب قائمًا على طهارة؛ "لأن القيام فيهما متوارث، ثم هي شرط الصلاة فيستحب فيها الطهارة كالأذان، "ولو خطب قاعدًا أو على غير طهارة جاز؛ "لحصول المقصود، إلا أنه يكره؛ لمخالفته التوارث؛ وللفصل بينهما وبين الصلاة، "فإن اقتصر على ذكر الله جاز عند أبي حنيفة رحمه الله، وقالا: لا بد من ذكر طويل يسمى خطبة، "لأن الخطبة هي الواجبة والتسبيحة أو التحميدة لاتسمى خطبةً، وقال الشافعي رحمه الله: لاتجوز حتى يخطب خطبتين اعتبارًا للمتعارف، وله قوله تعالى: {فَاسَعَوْا إِلَى ذِكْرِ اللَّهِ} [الجمعة: 9] من غير فصل، وعن عثمان رضي الله عنه أنه قال: الحمد لله فأرتج عليه، فنزل وصلى". (الهداية في شرح بداية المبتدي (1/ 82)

 (والرابع عشر) تخفیف الخطبتین بقدرسورۃ من طوال المفصل ویکرہ التطویل۔ (فتاویٰ عالمگیری ج1ص 147)

واللہ اعلم بالصواب

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند

 

حدیث و سنت

الجواب وباللّٰہ التوفیق:یہ حدیث درست اور معجم کبیر وغیرہ میں مذکور ہے۔(۲)

(۲) عن عبد اللّٰہ: عن النبي صلی اللّٰہ علیہ وسلم قال: من وسع علی عیالہ یوم عاشوراء لم یزل في سعۃ سائر سنتہ۔ (أخرجہ سلیمان بن أحمد، المعجم الکبیر: ج ۱۰، ص: ۷۷، رقم: ۱۰۰۰۷)  حدیث: من وسع علی عیالہ في یوم عاشوراء وسع اللّٰہ علیہ السنۃ کلہا، الطبراني في الشعب وفضائل الأوقات، وأبو الشیخ عن ابن مسعود، والأولان فقط عن أبي سعید، والثاني فقط في الشعب عن جابر وأبي ہریرۃ، وقال: إن أسانیدہ کلہا ضعیفۃ، ولکن إذا ضم بعضہا إلی بعض أفاد قوۃ، بل قال العراقي في أمالیہ: لحدیث أبي ہریرۃ طرق، صحح بعضہا ابن ناصر الحافظ، وأوردہ ابن الجوزي في الموضوعات من طریق سلیمان ابن أبي عبد اللّٰہ عنہ، وقال: سلیمان مجہول، وسلیمان ذکرہ ابن حبان في الثقات، فالحدیث حسن علی رأیہ، قال: ولہ طریق عن جابر علی شرط مسلم، أخرجہا ابن عبد البر في الاستذکار من روایۃ أبي الزبیر عنہ، وہي أصح طرقہ، ورواہ ہو والدارقطني في الأفراد بسند جید، عن عمر موقوفا علیہ، والبیہقي في الشعب من جہۃ محمد بن المنتشر، قال: کان یقال، فذکرہ، قال: وقد جمعت طرقہ في جزء، قلت: واستدرک علیہ شیخنا رحمہ اللّٰہ کثیرا لم یذکرہ، وتعقب اعتماد ابن الجوزي في الموضوعات، قول العقیلي في ہیصم بن شداخ راوي حدیث ابن مسعود: إنہ مجہول بقولہ بل ذکرہ ابن حبان في الثقات والضعفاء۔ (شمس الدین، المقاصد الحسنۃ: ج ۱، ص: ۶۷۴)

 فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج2ص115

بدعات و منکرات

الجواب وباللّٰہ التوفیق:نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی بعثت کے مقاصد اصلیہ میں داخل تھا کہ اسلام و احکام اسلام کی تبلیغ فرماکر دنیاسے گمراہی و ضلالت کو دور فرمائیں۔ متعدد نصوص قطعیہ اس پر شاہد ہیں {ٰٓیأَیُّھَا الرَّسُوْلُ بَلِّغْ مَآ أُنْزِلَ إِلَیْکَ مِنْ رَّبِّکَط}(۱) آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے حسب ضرورت و موقع دعوت کے طریقے اختیار کئے جس بے نظیر اولو العزم، جانفشانی، مسلسل جدوجہد اور صبر و استقلال سے فرض رسالت و تبلیغ کو ادا کیا وہ اس کی واضح دلیل تھی کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو دنیا میں ہر چیز سے بڑھ کر اپنے فرض منصبی رسالت و ابلاغ کا احساس ہے۔ اللہ تعالیٰ نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے لئے دعوت اسلام کا کامیاب طریقہ بھی خود ہی مصرح فرمایا {أُدْعُ إِلٰی سَبِیْلِ رَبِّکَ بِالْحِکْمَۃِوَالْمَوْعِظَۃِ الْحَسَنَۃِ وَجَادِلْھُمْ بِالَّتِيْ ھِيَ أَحْسَنُط} (۲) آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس طریقہ کو ہر قدم پر پیش نظر رکھا اور کامیابی و کامرانی کا اعلیٰ مقام حاصل کیا اس طریقہ دعوت اسلام ہی کو دوسرے مقام پر اس طرح واضح فرمایا {وَلَا تَسُبُّوا الَّذِیْنَ یَدْعُوْنَ مِنْ دُوْنِ اللّٰہِ فَیَسُبُّوا اللّٰہَ عَدْوًام بِغَیْرِ عِلْمٍط} (۳) نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے تازیست پیغام رسالت کو پہونچانے کی پیہم سعی فرمائی، پھر حجۃ الوداع کے موقعہ پر اس ذمہ داری کی تکمیل اس حد تک فرمادی کہ عام خطاب فرمایا کہ جو یہاں موجود ہیں ان پر لازم ہے کہ یہ پیغام ان لوگوں تک پہونچادیں جو یہاں موجود نہیں ہیں، اس طرح یہ سلسلہ قیامت تک کے لئے جاری ہوگیا، یہ سب اسی پیغام کی تکمیل ہے؛ نیز اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے: {وَلْتَکُنْ مِّنْکُمْ أُمَّۃٌ یَّدْعُوْنَ إِلَی الْخَیْرِ وَیَأْمُرُوْنَ بِالْمَعْرُوْفِ وَیَنْہَوْنَ عَنِ الْمُنْکَرِط وَأُولٰٓئِکَ ھُمُ الْمُفْلِحُوْنَہ۱۰۴}(۱) یعنی ایمان، اعتصام بحبل اللہ، اتفاق ، اتحاد اس وقت باقی رہ سکتا ہے، جب مسلمانوں میں ایک خاص جماعت دعوت وارشاد کے لیے باقی رہے اور اس کا طریقہ کار وہ ہو جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے بایں الفاظ بیان کیا ’’من رأی منکم منکراً فلیغیرہ بیدہ الخ‘‘ (۲) یعنی حسب موقع قول و عمل، تقریر وتحریر وعظ و نصیحت اور ذرائع اشاعت وغیرہ کے ذریعہ ہر برائی کو دنیا سے مٹانے کی سعی کی جائے لیکن یہ سعی حسب موقع و حسب استطاعت ہو یعنی اس طریقہ کو اختیار کئے جانے میں کسی فتنہ میں مبتلاء ہونے کا احتمال نہ ہو ظاہر ہے کہ یہ کام وہی حضرات کر سکتے ہیں جو معروف و منکر کا علم رکھنے اور قرآن و سنت سے باخبر ہونے کے ساتھ ذی ہوش و موقع شناس بھی ہوں ورنہ بہت ممکن ہے کہ ایک جاہل آدمی معروف کو منکر ومنکر کو معروف خیال کرکے بجائے اصلاح کے سارا نظام مختل کر دے، یا ایک منکر کی اصلاح کا ایسا طریقہ اختیار کرلے جو اس سے بھی زیادہ منکرات کا موجب ہو جائے یا نرمی کی جگہ سختی اور سختی کی جگہ نرمی برتنے لگے یا احوال و کوائف کو مدنظر نہ رکھ کر عظیم فتنہ میں پڑ جائے شاید اسی لئے مسلمانوں میں سے ایک مخصوص جماعت کو اس منصب پر مامور کیا گیا جو ہر طرح دعوت الی الخیر، امر بالمعروف نہی عن المنکر کی اہل ہو اس مختصر وضاحت کی روشنی میں معلوم ہوا کہ:
(۱) غیر مسلموں میں اسلام اور مسلمانوں میں احکام کی دعوت دینا فرض کفایہ ہے۔
(۲) اسلام واحکام اسلام کی دعوت میں تقدم وتاخر زمانہ واحوال کے اعتبار سے ہے۔
(۳) دعوت اسلام ہو یا دعوت احکام اسلام اس کی ذمہ داری صرف آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم پر نہیں؛ بلکہ حسب وضاحت مذکور امت مسلمۃ پر بھی عائد ہوتی ہے۔
(۴) اگر کسی بڑے فتنہ میں مبتلاء ہونے کا احتمال ہو اور اس لئے کسی علاقہ کے لوگوں کو دعوت نہ پہونچ سکی تو ان شاء اللہ امت مسلمۃ ماخوذ نہ ہوگی۔
(۵) جو جماعت دعوت اسلام یا احکام اسلام کا کام انجام دے اس جماعت کا تعاون کرنا بلاشبہ موجب اجر و ثواب ہے۔ {وَتَعَاوَنُوْا عَلَی الْبِرِّ وَالتَّقْوٰیص} (۱)

(۱) سورۃ المائدۃ: ۶۷۔    (۲) سورۃ النحل: ۱۲۵۔         (۳) سورۃ الإنعام: ۱۰۸۔
(۱) سورۃ النساء: ۱۰۴۔
(۲) أخرجہ مسلم، في صحیحہ، ’’کتاب الإیمان: ج ۱، ص: ۵۱، رقم: ۴۹)

--------------------

فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج2ص332