Frequently Asked Questions
نکاح و شادی
Ref. No. 2004/44-1960
بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ صورت مسئولہ میں زید کے لڑکے کا نکاح زینب کی سوتیلی بیٹی سے جائز ہے۔ زینب کے بھائی کا زینب کی سوتیلی بیٹی سے کوئی تعلق نہیں ہے، اس لئے دونوں کا رشتہ نکاح جائز ہے۔
"وبنات الأخوات المتفرقات وبنات الإخوة المتفرقين؛ لأن جهة الاسم عامة.
(وبنات الأخوة المتفرقات وبنات الإخوة المتفرقين) ش: أي ويدخل في الآية المذكورة بنات الإخوة والأخوات.
وقوله: المتفرقين بصيغة الجمع المذكر صفة الأخوة التي جمع أخ ويدخل فيه الأخوات التي هي جمع أخت، ومعنى التفرق يعني سواء كانت بنات الأخ لأب وأم أو لأم وبنات الأخت كذلك، وكلهن محرمات على التأبيد بالكتاب والسنة والإجماع". (بنایہ شرح ہدایہ: كتاب النكاح، المحرمات من جهة النسب، 22/5/دار الكتب العلمية)
و) يحرم (أخته) لأب وأم، أو لأحدهما لقوله تعالى {وأخواتكم} [النساء: 23] (وبنتها) لقوله تعالى {وبنات الأخت} [النساء: 23] (وابنة أخيه) لأب وأم، أو لأحدهما لقوله تعالى {وبنات الأخ} [النساء: 23].
وإن سفلن) لعموم المجاز، أو دلالة النص، أو الإجماع كما بيناه (وعمته وخالته) لأب وأم، أو لأحدهما لقوله تعالى {وعماتكم وخالاتكم} [النساء: 23۔ (کتاب النکاح، باب المحرمات، 323/1/دار إحياء التراث العربي)
واللہ اعلم بالصواب
دارالافتاء
دارالعلوم وقف دیوبند
مساجد و مدارس
Ref. No. 2088/44-2269
بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔
عیدگاہ ایک کھلا ہوا میدان ہوتا ہے، حفاظت کے لیے اس کی چہاردیواری کراسکتے ہیں، عیدگاہ میں اوپر لنٹر ڈالنا یعنی چھت بنانا مناسب نہیں، اگر عید کے دن لوگ زیادہ ہوں تو آگے پیچھے جگہ دیکھ کر صفیں بڑھالی جائیں، امام کا عیدگاہ میں ہی کھڑا ہونا ضروری نہیں ہے اگر آگے گنجائش ہے تو امام باہر صفوں کے آگے کھڑا ہوسکتاہے۔ پھر بھی اگرکچھ لوگوں کو جگہ نہیں ملی تو وہ محلے کی بڑی مسجد میں یا جامع مسجد میں نماز عید ادا کرلیں مگر عیدگاہ کے اوپرچھت نہ ڈالیں تو بہتر ہے۔
واللہ اعلم بالصواب
دارالافتاء
دارالعلوم وقف دیوبند
متفرقات
Ref. No. 2303/44-3445
بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ صورت مذکورہ میں مرحوم کی جائداد کوآٹھ حصوںمیں تقسیم کیاجائےگاجس میں سے ایک حصہ دونوں بیویوں کو،ایک حصہ بیٹی کو اوردودو حصے تینوں بیٹوں کو ملیں گے۔
واللہ اعلم بالصواب
دارالافتاء
دارالعلوم وقف دیوبند
Islamic Creed (Aqaaid)
Ref. No. 2388/44-3620
In the name of Allah the most Gracious the most merciful
The answer to your question is as follows:
It is recommended for a person who intends to sacrifice, not to cut his hair and nails from the sighting of the moon of Dhul-Hijjah until he performs the sacrifice. The prohibition mentioned in the hadith is only about cutting hair and nails. So, there is no problem in having physical relations with one's wife.
عن سلمة رضي اللّٰہ عنہا أن النبي صلی اللّٰہ علیہ وسلم قال: اذا دخلت العشر، وأراد أحدکم أن یضحي، فلا یمس من شعرہ و بشرہ شیئاً۔۔۔ قال العثماني التھانوي: نہی النبي صلی اللّٰہ علیہ وسلم من أراد التضحیة عن قلم الأظفار وقص الشعر في العشر الأول، والنہي محمول عندنا علی خلاف الأولی لما روي عن عائشة رضي اللّٰہ عنہا أن النبي صلی اللّٰہ علیہ وسلم کان یبعث بہدیة، ولا یحرم علیہ شیء أحلہ اللّٰہ لہ حتی ینحر ہدیہ۔۔۔۔۔۔۔۔۔ (اعلاء السنن: ۱۷/ ۲۶۸۲۶۴، مفصلاً، کتاب التضحیة، باب ما یندب للمضحي في عشر ذي الحجة، ط: أشرفیة، دیوبند)
قال ابن حجر: ومن زعم أن المعنى هنا التشبه بالحجاج غلطوه بأنه يلزم عليه طلب الإمساك عن نحو الطيب ولا قائل به اهـ.وهو غلط فاحش من قائله ؛ لأن التشبه لا يلزم من جميع الوجوه، وقد وجه توجيهاً حسناً قي خصوص اجتناب قطع الشعر أو الظفر'. (مرقاة المفاتيح شرح مشكاة المصابيح (3/ 1081)
Darul Ifta
Darul Uloom Waqf Deoband
متفرقات
Ref. No. 2501/45-3840
بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ ٹرسٹ قائم کرنااوراس کے ذریعہ غریب ونادار لوگوں کی مدد کرنا ایک پسندیدہ عمل ہے،اس میں کوشش کی جائے کہ زکوۃ و صدقات کی وصولیابی میں احتیاط سے کام لیاجائے اورپیسے کو صحیح طورپر مصرف میں خرچ کیا جائے اس سلسلےمیں تفصیلی طورپر کسی مفتی سے معلوم بھی کرلیاجائے،مثلا زکوۃ کے پیسے کوبطورپر قرض دیناپھر واپس لینادرست نہیں ہےاس سے زکوۃ دینےوالے کی زکوۃ ادا نہیں ہوتی ہے ۔جہاں تک آپ کے سوال کا تعلق ہےکہ قرض دینے والے کو ٹرسٹ میں ڈونیٹ کرنے کے لیے کہا جائے اس میں کوئی حرج نہیں ہے، ٹرسٹ تو ہر کسی کو ڈونیٹ کرنے کے لیے کہہ سکتاہے تاہم کوشش ہو کہ صرف ترغیب دی جائے کسی قسم کا دباؤ نہ ڈالا جائے ۔
وشرعا (تمليك)خرج الإباحة، فلو أطعم يتيما ناويا الزكاة لا يجزيه إلا إذا دفع إليه المطعوم كما لو كساه بشرط أن يعقل القبض إلا إذا حكم عليه بنفقتهم- لأنه بالدفع إليه بنية الزكاة يملكه فيصير آكلا من ملكه، بخلاف ما إذا أطعمه معه، ولا يخفى أنه يشترط كونه فقيرا، ولا حاجة إلى اشتراط فقر أبيه أيضا لأن الكلام في اليتيم ولا أبا له(رد المحتار، کتاب الزکاۃ ،2/257) ولایصرف الی بناء نحو مسجد کبناء القناطر و السقایات و اصلاح الطرقات کری الانہار و الحج و الجہادو کل مالا تملیک لا فیہ(شامی 3/291) ۔فقط
واللہ اعلم بالصواب
دارالافتاء
دارالعلوم وقف دیوبند
حدیث و سنت
الجواب وباللّٰہ التوفیق:رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: ’’اتبعوا السواد الأعظم فإنہ من شذ شذ في النار‘‘(۱) سواد اعظم کی پیروی کرو کیونکہ جو اس سے الگ ہوا وہ جہنم میں گیا، سواد اعظم سے مراد بڑی جماعت، حق پر چلنے والی جماعت ہے۔ اس کا مصداق اہل سنت والجماعت ہے۔ اور اہل سنت والجماعت سے مراد وہ حضرات ہیں جو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت اور صحابہ کرام رضوان اللہ عنہم اجمعین کے طریقے پر چلتے ہیں۔
’’أہل السنۃ والجماعۃ ہم الفرقۃ الناجیۃ والطائفۃ المنصورۃ أخبر النبي صلی اللّٰہ علیہ وسلم عنہم بأنہم یسیرون علی طریقتہ وأصحابہ الکرام دون انحراف؛ فہم أہل الإسلام المتبعون للکتاب والسنۃ المجانبون لطرق أہل الضلال‘‘(۲)
’’عن أنس بن مالک رضي اللّٰہ عنہ یقول: سمعت رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم: یقول: إن أمتي لا تجمع علی ضلالۃ فإذا رأیتم اختلافاً فعلیکم بالسواد الأعظم‘‘۔(۳)
انس بن مالک رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو فرماتے ہوئے سنا: ’’میری امت گمراہی پر کبھی جمع نہ ہوگی؛ لہٰذا جب تم اختلاف دیکھو سواد اعظم (بڑی جماعت) کو لازم پکڑو‘‘۔
(۱) ملا علي قاري، مرقاۃ المفاتیح، ’’کتاب الإیمان: باب الاعتصام بالکتاب والسنۃ‘‘: ج ۱، ص: ۳۸۳، رقم: ۱۷۴۔
(۲) الندوۃ العالمیۃ للشباب الإسلامي، الموسوعۃ المیسرۃ: ج ۱، ص: ۳۶۔
(۳) أخرجہ ابن ماجۃ، في سننہ، ’’أبواب الفتن، باب السواد الأعظم‘‘: ج ۲، ص: ۲۸۳، رقم: ۳۹۵۰۔
فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج2ص121
حدیث و سنت
طہارت / وضو و غسل
الجواب وباللّٰہ التوفیق:(۱)اگر عورت اپنی شرم گاہ میں انگلی داخل کرے، نہ شہوت ہو اور نہ ہی انزال ہو، تو غسل واجب نہیں ہوگا، ہاں اگر اس عمل کی وجہ سے شہوت پیدا ہوجائے تو محتاط قول کے مطابق غسل واجب ہے (و)لا عند (إدخال إصبع و نحوہ) کذکر غیر آدمي و ذکر خنثی و میت و صبي لا یشتہي وما یصنع من نحو خشب (في الدبر أو القبل) علی المختار… (بلا إنزال) لقصور الشہوۃ أما بہ فیحال علیہ… (قولہ: علی المختار) قال في التجنیس : رجل أدخل إصبعہ في دبرہ وھو صائم اختلف في وجوب الغسل والقضاء۔ والمختار أنہ لا یجب الغسل ولا القضاء؛ لأن الإصبع لیس آلۃ للجماع فصار بمنزلۃ الخشبۃ ذکرہ في الصوم، و قید بالدبر، لأن المختار وجوب الغسل في القبل إذا قصدت الاستمتاع: لأن الشہوۃ فیھن غالبۃ فیقام السبب مقام المسبب دون الدبر لعدمہا نوح افندی… (قولہ: أما بہ) أي أما فعل ہذہ الأشیاء المصاحب للإنزال فیحال وجوب الغسل علی الإنزال۔ (۱)
(۲) اگر کسی دوسری عورت نے یا ڈاکٹر نے شرم گاہ میں انگلی داخل کی اور انزال نہیں ہوا، تو غسل واجب نہیں ہوگا۔
(۳) اگر شوہر نے بیوی کی شرم گاہ (فرج) میں انگلی داخل کی اور عورت کو اس سے شہوت نہیں ہوئی، تو اس صورت میں غسل واجب نہیں ہوگا؛ البتہ اگرمیاں بیوی شہوت کی بنا پر یہ عمل کریں اور شوہر اپنی انگلی عورت کی شرم گاہ میں داخل کرے، تو بعض فقہاء کے قول کے مطابق غسل لازم ہوجاتا ہے، احتیاط اسی قول میں ہے۔ لہٰذا شہوت ہونے کی صورت میں عورت غسل کرے اور اگر مرد کے انگلی داخل کرنے کی وجہ سے عورت کی منی خارج ہوگئی، تو عورت پر بالاتفاق غسل واجب ہوجائے گا۔ (قولہ وفي فتح القدیر أن في إدخال الإصبع الدبر خلافاً الخ) ذکر العلامۃ الحلبی ھنا تفصیلاً، فقال: والأولی أن یجب في القبل إذا قصد الاستمتاع لغلبۃ الشہوۃ: لأن الشہوۃ فیھن غالبۃ فیقام السبب مقام المسبب وھو الإنزال دون الدبر بعدمھا۔(۱)
(۱)ابن عابدین، الدر المختار مع رد المحتار ’’کتاب الطہارۃ، قبیل مطلب في رطوبۃ الفرج‘‘ ج۱، ص: ۳۰۵
(۱) ابن نجیم البحر الرائق، ج۱، ص:۱۱۱
فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج3 ص319
نماز / جمعہ و عیدین
الجواب وباللّٰہ التوفیق: صورت مسئولہ میں اگر امام متعین ہے تو وہ نماز پڑھائے اور اگر مقرر نہیں ہے تو مقرر کرلیا جائے جو پابند شریعت اور امامت کے لائق ہو، امام کے مقرر نہ ہونے کی صورت میں زید سے امامت کرائیں، اس لیے کہ وہ اعلم بالسنۃ اور پابند شرع ہے۔ بکر تو ڈاڑھی بھی کٹاتا ہے اور ایک مشت سے کم رکھتا ہے اس لیے اس کی امامت مکروہ تحریمی ہے، البتہ فرض ادا ہوجاتا ہے، اعادہ کی ضرورت نہیں ہے۔(۱)
(۱) والأحق بالإمامۃ الأعلم بأحکام الصلوۃ فقط صحۃ وفساداً بشرط اجتنابہ للفواحش الظاہرۃ، وحظہ قدر فرض ثم۔ الأحسن تلاوۃ وتجویداً للقراء ۃ ثم الأورع ثم الأسن ثم الأحسن الخ۔ (ابن عابدین، رد المحتار، ’’کتاب الصلوۃ، باب الإمامۃ، مطلب في تکرار الجماعۃ في المسجد‘‘: ج۲، ص: ۲۹۴)
إن سرکم أن تقبل صلوٰتکم فلیؤمکم خیارکم۔ (المعجم الکبیر للطبراني، ’’باب أما أسند مرثد بن أبي مرثد الغنوي‘‘: رقم: ۷۷۷)
وأما الأخذ منہا وہي دون ذلک کما فعلہ بعض المغاربۃ ومخنثۃ الرجال فلم یبحہ أحد، وأخذ کلہا فعل یہود الہند ومجوس الأعاجم۔(ابن عابدین، رد المحتار، ’’کتاب الصوم، باب مایفسد الصوم ومالایفسدہ، مطلب في الأخذ من اللحیۃ‘‘: ج ۳، ص: ۳۹۸)
صلی خلف فاسق أو مبتدع نال فضل الجماعۃ۔ قولہ: نال فضل الجماعۃ أفاد أن الصلاۃ خلفہما أولیٰ من الإنفراد، لکن لا ینال کما ینال خلف تقي ورع۔ (ابن عابدین، رد المحتار، ’’کتاب الصلوۃ، باب الإمامۃ، مطلب في إمامۃ الأمرد‘‘: ج۲، ص: ۳۰۱، ۳۰۲)
فتاوی دارالعلوم وقف دیوبندج5 ص112
طہارت / وضو و غسل
الجواب وباللّٰہ التوفیق:طہارت کرنے کے بعد جو پانی رانوں پر لگا رہتا ہے، وہ پاک ہے، اس کے قطرات ٹپک کر اگر کپڑے پر یا بدن کے دوسرے حصے پر لگ جائیں، تو اس پانی سے بدن یا کپڑے ناپاک نہیں ہوںگے اس میں کوئی شبہ نہ کیا جائے۔(۱)
(۱) قد قال في المجتبیٰ: صحت الروایۃ عن الکل أنہ طاھر غیر طھور فالاشتغال بتوجیہ التغلیظ والتخفیف مما لا جدوی لہ۔ (ابن عابدین، رد المحتار، ’’کتاب الطہارۃ، باب المیاہ مطلب في تفسیر القربۃ والثواب‘‘ ج۱،ص:۳۵۲) قال مشائخ العراق: إنہ طاھر عند أصحابنا۔ واختار المحققون من مشائخ ماوراء النھر طہارتہ و علیہ الفتویٰ(ابن الہمام، فتح القدیر، ’’کتاب الطہارات، باب الماء الذي یجوز بہ الوضوء ومالایجوز‘‘ ج۱، ص۹۰)
فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج3 ص407