حدیث و سنت

Ref. No. 1544/43-1085

الجواب وباللہ التوفیق

بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ عورت کی شرمگاہ پر شہوت سے نظر ڈالنے سے اس عورت کے اصول و فروع مرد کے لئے حرام ہوجاتے ہیں یہ احناف کے نزدیک ہے، احناف نے قیاس کے ساتھ اس سلسلہ میں منقول احادیث و آثار کو بھی پیش نظر رکھا ہے۔ جس حدیث کا آپ نے تذکرہ کیا ہے یہ حدیث اور اس کے علاوہ متعدد آثار اور مرسل روایتیں ہیں، احناف کے یہاں مرسل روایتیں بھی حجت ہیں، بعض روایت اگرچہ مجہول ہے لیکن تعدد طرق سے اس میں قوت پیدا ہوجاتی ہے۔ علامہ ابن ھمام نے اس پر کافی تفصیلی کلام کیا ہے، وہ لکھتے ہیں:

أن الآثار جاءت بالحرمة في المس ونحوه. وقد روي في الغاية السمعانية حديث أم هانئ عنه - صلى الله عليه وسلم - أنه قال «من نظر إلى فرج امرأة بشهوة حرمت عليه أمها وابنتها» وفي الحديث «ملعون من نظر إلى فرج امرأة وابنتها» وعن عمر: أنه جرد جارية ونظر إليها ثم استوهبها منه بعض بنيه فقال: أما إنها لا تحل لك. (فتح القدیر، فصل فی بیان المحرمات 3/224)  

واللہ اعلم بالصواب

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند

نماز / جمعہ و عیدین

Ref. No. 1708/43-1363

بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ شہر سے باہرایسی جگہ جمعہ کی نماز قائم کرنا درست نہیں ہے۔ کالج کے طلبہ کے لئے اگر ممکن ہو تو شہر جاکر جمعہ کی نماز ادا کرلیں، اور اگر شہر جانا ممکن نہ ہو تو کالج کے اسی کمرہ میں جہاں پنجوقتہ نماز ہوتی ہے وہیں نمازِ ظہر ادا کرلیں؛ ایسے لوگوں پر نماز جمعہ فرض نہیں ہے۔نماز جمعہ کے لئے  شہر، قصبہ یا بڑے گاوٴں  کا ہونا ضروری ہے ، چھوٹے گاوٴں یا جنگل میں جمعہ کی نماز قائم کرنا درست نہیں۔

ويشترط لصحتها) سبعة أشياء:الأول: (المصر وهو ما لايسع أكبر مساجده أهله المكلفين بها) وعليه فتوى أكثر الفقهاء، مجتبى؛ لظهور التواني في الأحكام، وظاهر المذهب أنه كل موضع له أمير وقاض قدر على إقامة الحدود كما حررناه فيما علقناه على الملتقى. وفي القهستاني: إذن الحاكم ببناء الجامع في الرستاق إذن بالجمعة اتفاقا على ما قاله السرخسي وإذا اتصل به الحكم صار مجمعاً عليه فليحفظ. (الدر المختار وحاشية ابن عابدين (رد المحتار) (2/ 137)

"عن أبي حنيفة رحمه الله: أنه بلدة كبيره فيها سكك وأسواق ولها رساتيق، وفيها وال يقدر على إنصاف المظلوم من الظالم مجشمته وعلمه أو علم غيره، والناس يرجعون إليه فيما يقع من الحوادث، وهذا هو الأصح".  (بدائع الصنائع، ج: 2، ص: 260، ط: سعيد)

وتقع فرضاً في القصبات والقرى الكبيرة التي فيها أسواق، وفيما ذكرنا إشارة إلى أنها لاتجوز في الصغيرة". (شامی، ج: 1، ص: 537، ط: سعيد)

لاتجوز في الصغيرة التي ليس فيها قاض ومنبر وخطيب، كذا في المضمرات". (شامی، ج: 2، ص: 138، ط: سعيد)

عن علي أنه قال: لا جمعة ولا تشريق إلا في مصر". (اعلاء السنن، ج: 8، ص1، إدارة القرآن)

 واللہ اعلم بالصواب

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند

طہارت / وضو و غسل

Ref. No. 1819/43-1588

بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ پانی کے استعمال میں آج کل بیت زیادہ بے احیتاطی برتی جاتی ہے، جبکہ حدیث میں آیاہے کہ اگر تم چشمہ پر ہو تب بھی اسراف سے بچو اور پانی کم استعمال کرو۔ اس لئے  اعضاء وضو پر پانی اتنا ڈالاجائے کہ بہہ پڑے، اور خوب مَل کر دھویا جائے۔ تین بار میں بھی تسلی نہ ہو تو مزید نہ دھوئے، تین بار سے زیادہ دھونا درست نہیں ہے۔ اعضاء وضو کو ایک ایک بار اس طرح دھونا  کہ کوئی جگہ خشک نہ رہے فرض ہے، اور تین بار دھونا سنت ہے۔ اس سے زیادہ دھونا بدعت شمار کیاگیا ہے۔ اس لئے اطمینان سنت کے دائرہ میں رہ کر ہونا چاہئے۔

وکُلُواْ وَاشْرَبُواْ وَلاَ تُسْرِفُواْ (الاعراف:۳۱) وَلاَ تُسْرِفُواْ إِنَّہُ لاَ یُحِبُّ الْمُسْرِفِیْنَ (الانعام:َ ۱۴۱) شرار أمتي الذین یسرفون فی صب الماء‘‘( حاشیہ الطحاوی :ص 80) عن ابن عمر، قال: رأى رسول الله صلى الله عليه وسلم رجلا يتوضأ، فقال: «لا تسرف، لا تسرف» (سنن ابن ماجۃ ، فضل عمار بن یاسر 1/52، الرقم 424)

عن عبد الله بن عمرو، أن رسول الله صلى الله عليه وسلم مر بسعد، وهو يتوضأ، فقال: «ما هذا السرف» فقال: أفي الوضوء إسراف، قال: «نعم، وإن كنت على نهر جار» (سنن ابن ماجۃ، فضل عمار بن یاسر 1/52، الرقم 425)

عن عمرو بن شعيب، عن أبيه، عن جده، قال جاء أعرابي إلى النبي صلى الله عليه وسلم فسأله عن الوضوء، فأراه ثلاثا ثلاثا، ثم قال: «هذا الوضوء، فمن زاد على هذا فقد أساء، أو تعدى، أو ظلم» (سنن ابن ماجۃ، فضل عمار بن یاسر 1/52، الرقم 422)

واللہ اعلم بالصواب

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند

ذبیحہ / قربانی و عقیقہ

Ref. No. 2018/44-1978

بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ صورت مذکورہ میں دوسرے جانور کی قربانی کسی پر واجب نہیں ہے اس لیے کہ فقیر اگر ایام قربانی میں جانور خریدے تو وہ نذر کے حکم میں ہوتاہے اگر ایام قربانی سے پہلے خریدے تو نذر کے حکم نہیں ہوتاہے اس لیے کہ وہ پہلا جانور نذر کا نہیں ہے ۔فقیر کے جانور خریدنے کی صورت میں وہ مطلقا نذر کا ہوتاہے یا ایام نحر میں خریدنے کی صورت میں نذر کے حکم میں ہوتاہےاس میں حضرات فقہاء کی عبارت میں اختلاف ہے لیکن حضرات اکابر علماء دیوبندمثلا مفتی عزیز الرحمن ، مفتی محمد شفیع دیوبند اور حضرت مفتی محمود گنگوہی وغیرہم نے ایام نحر کو ہی ترجیح دی ہے اس لیے صورت مذکورہ میں راجح یہی ہے کہ پہلا جانورنذر کا نہیں ہے.

ووقع في التتارخانية التعبير بقوله شراها لها أيام النحر، وظاهره أنه لو شراها لها قبلها لا تجب(رد المحتار،کتاب الاضحیۃ،6/321)

 واللہ اعلم بالصواب

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند

 

Fiqh

Ref. No. 2093/44-2131

In the name of Allah the most Gracious the most Merciful

The answer to your question is as follows:

In Islam, it is permissible to mourn someone's death for only three days, after that it is not permissible to mourn. Therefore, you people can now (when three days already passed) organize wedding programs and celebrations.

سنن الترمذي: (ابواب الطلاق، رقم الحديث: 1195، ط: مطبعة مصطفي البابي)
قالت زينب: دخلت علي ام حبيبة زوج النبي صلي الله عليه وسلم حين توفي ابوها ابو سفيان بن حرب فدعت بطيب فيه صفرة خلوق او غيره فدهنت به جارية ثم مست بعاضيها ثم قالت : والله مالي بالطيب من حاجة غير اني سمعت رسول الله صلي الله عليه وسلم يقول : لا يحل لامرأة تؤمن بالله واليوم الآخر ان تحد علي ميت فوق ثلاثة ايام الا علي زوج اربعة اشهر وعشرا.
الهندية: (مسائل في التعزية، 167/1، ط: دار الفکر)
ولا بأس لاهل المصيبة ان يجلسوا في البيت او في مسجد ثلاثة ايام والناس ياتونهم ويعزونهم ويكره الجلوس علي باب الدار ومايصنع في بلاد العجم من فرش البسط والقيام علي قوارع الطرق من اقبح القبائح. كذا في الظهيرية.
واما النوح العالي فلا يجوز والبكاء مع رقة القلب لابأس به ويكره للرجال تسويد الثياب وتمزيقها للتعزية
ولا باس للتسويد للنساء. واما تسويد الخدود والايدي
وشق الجيوب وخدش الوجوه ونشر الشعور ونثر التراب علي الرؤوس والضرب علي الفخذ والصدر وايقاد النار علي القبور فمن رسوم الجاهلية والباطل والغرور. كذا في المضمرات.
ولا باس بان يتخذ لاهل الميت طعام كذا في التبيين.
ولا يباح اتخاذ الضيافة عند ثلاثة ايام كذا في التاتارخانية.

And Allah knows best

Darul Ifta

Darul Uloom Waqf Deoband

حدیث و سنت

Ref. No. 2166/44-2245

بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ مندرجہ ذیل روایتیں امام بیہقی نے سنن کبری میں نقل کی ہیں:

  حضرت انسؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺنے فرمایا : سنو اور اطاعت کرو، چاہے تم پر گھنگریالے بالوں والا حبشی ہی امیر کیوں نہ بنادیا جائے!(سننِ کبریٰ بیہقی) حضرت ابو ذرؓکہتے ہیں، مجھے رسول اللہ ﷺ نے حکم دیا کہ میں سنوں اور اطاعت کروں، اگرچہ مجھ پر حبشی غیر مناسب اعضا والا غلام ہی امیر کیوں نہ ہو۔)سننِ کبریٰ بیہقی(

واللہ اعلم بالصواب

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند

 

مساجد و مدارس

Ref. No. 2223/44-2369

بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ مسجد کا اوپری حصہ پُر ہوجانے کے بعد جو لوگ نیچے کی منزل میں نماز پڑھیں گے، ان کی نماز درست ہوگی اور ثواب بھی ملے گا۔  البتہ اگر اوپر کا حصہ پُر نہ ہوا ہو تو نچلی منزل میں نمازیوں کو پورا ثواب  نہیں ملے گا، البتہ نماز درست ہوجائے گی۔

واللہ اعلم بالصواب

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند

 

حدیث و سنت

الجواب وباللّٰہ التوفیق:جن حضرات کو قطرات آنے کا صرف وسوسہ ہوتا ہے، ان کے لیے یہ عمل کرنا بہتر ہے اس سے وسوسہ شیطانی ختم ہوجائے گا۔(۱)

۱) ولو عرض لہ الشیطان کثیراً لا یلتفت إلی ذلک، کما في الصلوٰۃ وینضح فرجہ بماء حتی لو رأی بللا حملہ علی بلۃ الماء ہکذا في الظہیریۃ۔ (جماعۃ من علماء الہند، الفتاویٰ الہندیۃ، ’’کتاب الطہارۃ: الفصل الثالث في الاستنجاء، کیفیۃ الاستنجاء من البول‘‘: ج ۱، ص: ۱۰۴)

فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج2ص74

طہارت / وضو و غسل

Ref. No. 2603/45-4122

بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔    زخم سے خون بہا اور آپ نے اس کو پونچھ دیا یا دھولیا ، پھر اس کے بعد زخم سے خون بہا تو دھونے سے پہلے اور دھونے کے بعد بہنے والے خون کے مجموعہ کو دیکھاجائے گا اگر وہ مجموعی طور پر اتنی مقدار میں ہو کہ اگر پونچھا نہ جاتا تو جمع ہو کر بہہ پڑتا تو اس سے وضو ٹوٹ جائے گا، اور اس خون سے جو پانی میں لگے گا وہ بھی ناپاک ہوگا۔

وينقضه) خروج منه كل خارج (نجس) بالفتح ويكسر (منه) أي من المتوضئ الحي معتادا أو لا، من السبيلين أو لا (إلى ما يطهر) بالبناء للمفعول: أي يلحقه حكم التطهير.ثم المراد بالخروج من السبيلين مجرد الظهور وفي غيرهما عين السيلان ولو بالقوة، لما قالوا: لو مسح الدم كلما خرج ولو تركه لسال نقض وإلا لا، كما لو سال في باطن عين أو جرح أو ذكر ولم يخرج." (رد المحتار) 1/ 134)

واللہ اعلم بالصواب

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند

 

نماز / جمعہ و عیدین

الجواب وباللہ التوفیق: اگلی صف میں خالی جگہ کا پر کرنا ضروری ہے اور جو لوگ دوسری صف میں کھڑے ہوگئے باوجود پہلی صف میں جگہ ہونے کے، تو اس کو پر کرنے کے لیے دوسری صف والوں کے آگے سے گزرنا اور پہلی صف میں خالی جگہ پر جاکر کھڑا ہونا درست اور جائز ہے۔
’’إلا أن یجد الداخل فرجۃ في الصف الأول فلہ أن یمر بین یدي الصف الثاني لتقصیر أہل الصف الثاني ذکرہ الطیبي‘‘(۱)
’’لو وجد فرجۃ في الأول لاالثاني لہ خرق الثاني لتقصیرہم‘‘(۲)

(۱) ابن عابدین، رد المحتار، ’’کتاب الصلاۃ، باب الإمامۃ، مطلب إذا تردد قولہ جدک بدون ألف لاتفسد‘‘: ج ۲، ص:۴۰۲۔

(۲) أیضًا۔

فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج5 ص452