Frequently Asked Questions
نماز / جمعہ و عیدین
الجواب وباللّٰہ التوفیق: حنفی مسلک میں جمعہ کی نماز میں تعجیل کرنا افضل ہے البتہ نمازیوں کی تعداد اور سہولت کے پیش نظر باہم مشورہ سے کچھ تاخیر بھی ہو جائے تواس میں کوئی مضائقہ نہیں ہے، واضح رہے کہ ظہر کی نماز موسم گرما میں تاخیر سے ادا کرنا مستحب ہے، جمعہ میں تاخیر کرنا مستحب نہیں ہے بلکہ جمعہ میں تعجیل افضل ہے جیسا کہ احادیث سے بھی ثابت ہے امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے ایک روایت نقل کی ہے۔
’’عن أنس بن مالک رضي اللّٰہ عنہ أن رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم، کان یصلي الجمعۃ حین تمیل الشمس‘‘(۱)
’’(وجمعۃ کظہر أصلا واستحبابا) في الزمانین؛ لأنہا خلفہ‘‘۔ وقال ابن عابدین رحمہ اللّٰہ: (واستحبابا في الزمانین) أي الشتاء والصیف، لکن جزم في الأشباہ من فن الأحکام أنہ لا یسن لہا الإبراد …… وقال الجمہور: لیس بمشروع؛ لأنہا تقام بجمع عظیم، فتأخیرہا مفض إلی الحرج ولا کذلک الظہر وموافقۃ الخلف لأصلہ من کل وجہ لیس بشرط‘‘(۲)
(۱) أخرجہ البخاري، في صحیحہ، ’’کتاب الجمعۃ: باب وقت الجمعۃ إذا زالت الشمس‘‘: ج ۱، ص: ۱۲۳، رقم: ۹۰۴، مکتبہ فیصل، دیوبند۔
(۲) ابن عابدین، رد المحتارعلی الدر المختار، ’’کتاب الصلاۃ: مطلب: في طلوع من مغربہا‘‘: ج ۲، ص: ۲۵،۲۶، مکتبہ زکریا، دیوبند۔
فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج4 ص85
نماز / جمعہ و عیدین
الجواب وباللّٰہ التوفیق: امام کے پیچھے محاذات میں کھڑے ہوکر تکبیر کہنے کا تعامل ہے اس لیے یہ ہی افضل ہے ؛البتہ حسب ضرورت وحسب موقع جس طرح اور جس موقع پر کھڑا ہوکر تکبیر کہے وہ درست ہے۔ شرعی ضرورت کے بغیر خوا مخواہ ادھر ادھر کھڑے ہوکر تکبیر کہنے کی عادت بنا لینا خلاف اولیٰ ہے۔ مگر تکبیر کا اعادہ نہیں ہوگا۔(۱)
(۱) ویقیم علی الأرض ہکذا في القنیۃ، وفي المسجد، ہکذا في البحر الرائق۔ (جماعۃ من علماء الہند، الفتاویٰ الھندیۃ، ’’کتاب الصلاۃ‘‘: الباب الثاني في الأذان، الفصل الثاني في کلمات الأذان والإقامۃ وکیفیتہما، ج۱ ،ص: ۱۱۲)
ویسن الأذان في موضع عال والإقامۃ علی الأرض۔ (ابن نجیم، البحر الرائق، ’’کتاب الصلاۃ: باب الأذان‘‘: ج ۱، ص: ۴۴۳)
فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج4 ص208
نماز / جمعہ و عیدین
الجواب وباللّٰہ التوفیق: خلاف سنت ومکروہ ہے مگر نماز ادا ہوجائے گی۔(۲)
’’یکرہ اشتمال الصماء والاعتجار والتلثم، قال الشامي: قولہ: والتلثم وہو تغطیۃ الأنف والفم في الصلاۃ لأنہ یشبہ فعل المجوس حال عبادتہم النیران‘‘(۱)
(۲) قال صلی اللّٰہ علیہ وسلم أمرت أن أسجد علی سبعۃ أعظم وأن لا أکف شعرا ولا ثوبا متفق علیہ، ذکرہ في البرہان، وکذا یکرہ الاشتمالۃ الصماء في الصلاۃ وہو أن یلف بثوب واحد رأسہ وسائر بدنہ ولا یدع منفذا لیدہ وہل یشترط عدم الائتزار مع ذلک عن محمد یشترط وغیرہ لا یشترطہ ویکرہ الاعتجار وہو أن یلف العمامۃ حول رأسہ ویدع وسطہا کما یفعلہ الدعرۃ ومتوشحا لا یکرہ وفي ثوب واحد لیس علی عاتقہ بعضہ یکرہ إلا لضرورۃ کما في فتح القدیر۔ (ملا خسرو الحنفي، درر الحکام شرح غرر الاحکام، ’’مکروہات الصلاۃ‘‘: ج۱، ص: ۱۰۶)
ویکرہ لبسۃ الصماء، وروی الحسن عن أبي حنیفۃ أنہا کالاضطباع،…وإنما کرہہا؛ لأنہا من لباس أہل الأثر والبطر، وفي البخاري أنہ علیہ السلام نہی عن لبسۃ الصماء فقال: إنما یکون الصماء إذا لم یکن علیک إزار۔ قیل: ہی اشتمال الیہود۔ وقال الجوہري عن أبي عبید: اشتمال الصماء أن تخلل جسدک بثوبک نحو سلمۃ الأعراب بأکیستہم وہي أن یرد الکساء من قبل یمینہ علی یدہ الیسری وعاتقہ الأیسر ثم یردہ ثانیۃ من خلفہ علی یدہ الیمنی أو عاتقہ الأیمن فیغطیہا۔ وقیل: أن یشتمل بثوبہ فیخلل جسدہ کلہ ولا یرفع جانبا یخرج یدہ منہ۔ وقیل: أن یشتمل ثوب واحد لیس علیہ إزار، وفي مشارق الأنوار ہو الالتفاف في ثوب واحد من رأسہ إلی قدمیہ یخلل بہ جسدہ کلہ وہو التلفف، قال سمیت بذلک واللّٰہ أعلم لاشتمالہا علی أعضائہ حتی لا یجد مستقرا کالصخرۃ الصماء أو یشدہا وضمہا جمیع الجسد، ومنہ صمام القارورۃ الذي تسد بہ فوہا۔ (العیني، البنایۃ شرح الھدایۃ، ’’باب ما فسد الصلاۃ و ما یکرہ فیھا، فصل في العوارض‘‘: ج ۲، ص: ۴۴۷)
(۱)ابن عابدین، رد المحتار، ’’کتاب الصلاۃ: باب ما یفسد الصلاۃ وما یکرہ فیہا‘‘: ج ۲، ص: ۴۲۳۔
فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج6 ص168
اسلامی عقائد
Ref.No.2837/45-4487
بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ تراویح سنانے والے حافظ کے لئے سامع کا ہونا ضروری نہیں ہے، بلکہ اس کو اچھا یاد ہونا ضروری ہے۔ سامع کے ہونے نہ ہونے سے تراویح کی نماز میں کوئی فرق نہیں آئے گا، البتہ اگر سامع ہو تو حافظ کے لئے آسانی ہوتی ہے۔
واللہ اعلم بالصواب
دارالافتاء
دارالعلوم وقف دیوبند
نماز / جمعہ و عیدین
Ref. No. 1009
الجواب وباللہ التوفیق
بسم اللہ الرحمن الرحیم: اگر چند نمازیں کسی وجہ سے چھوٹ جائیں توان کی قضاء کرتے وقت ترتیب کا خیال رکھنا ضروری ہے۔خندق کے موقع پر نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی چار نمازیں رہ گئی تھیں تو آپ نے بالترتیب ان کی قضاء فرمائی تھی۔ نیز حضرت ابن عمر کی روایت ہے : ان النبی صلی اللہ علیہ وسلم قال : من نسی صلاۃ فلم یذکرھا الا وھو مع الامام فلیصل مع الامام ولیجعلھا تطوعا ثم لیقض ماتذکر ثم لیعد ماکان صلاہ مع الامام۔مزید تفصیل کے لئے دیکھئے بدائع ج1،ص339،338۔ واللہ اعلم بالصواب
دارالافتاء
دارالعلوم وقف دیوبند
ربوٰ وسود/انشورنس
Ref. No. 39/1168
الجواب وباللہ التوفیق
بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ بیمہ کرانا ناجائز تھا لیکن اب اس رقم کو بیمہ کمپنی سے نکال لینا اور کسی غریب اور مستحق کو بلا نیت ثواب صدقہ کردینا لازم ہے ۔ اگر آپ خود صاحب نصاب نہیں ہیں ،مقروض بھی ہیں اوربیمہ کی رقم سے قرض کی ادائیگی چاہتے ہیں تو ایسا کرنے کی گنجائش ہے۔ اور اگر قرض کی ادائیگی کے بعد بچ جائے تو آپ اپنے استعمال میں لاسکتے ہیں، یا کسی اور مستحق کو بلا نیت ثواب صدقہ کردیں۔
واللہ اعلم بالصواب
دارالافتاء
دارالعلوم وقف دیوبند
اسلامی عقائد
Ref. No. 1289/42-842
الجواب وباللہ التوفیق
بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ آیت کریمہ کا ترجمہ آپ نے غلط سمجھ لیا ہے۔ آیت ہے:
وَقَالَ لِلَّذِي ظَنَّ أَنَّهُ نَاجٍ مِّنْهُمَا اذْكُرْنِي عِندَ رَبِّكَ فَأَنسَاهُ الشَّيْطَانُ ذِكْرَ رَبِّهِ فَلَبِثَ فِي السِّجْنِ بِضْعَ سِنِينَ (سورۃ یوسف 42)۔
آیت کا مطلب یہ ہے کہ حضرت یوسف علیہ السلام نے اپنے قیدی ساتھی سے فرمایا کہ اپنے آقا کے سامنے میرا بھی تذکرہ کرنا کہ ایک شخص بے قصور قید میں ہے، اس نے وعدہ کرلیا پھر اس قیدی کو اپنے آقا سے یوسف علیہ السلام کا تذکرہ کرنا شیطان نے بھُلادیا اس وجہ سے یوسف علیہ السلام کو قید خانہ میں اور بھی چند سال رہنا پڑا۔ یہاں رب سے مراد مالک ہے، جیسے کہ جوہری نے الصحاح میں لکھا ہے : رب کل شیئ مالکہ: ہر شیئ کا رب وہی ہے جو اس کا مالک ہے۔ عربی محاورہ میں بھی اس کا استعمال ہے جیسے صاحب خانہ کو رب الدار، کشتی کے مالک کو رب السفینۃ وغیرہ ۔ مذکورہ آیت میں رب سے مراد آقا اور مالک ہے۔ جبکہ آپ نے سمجھا کہ یوسف علیہ السلام کو شیطان نے اللہ کی یاد بھلادی تھی حالانکہ اس قیدی کو اپنے آقا اور مالک سے یوسف علیہ السلام کا تذکرہ کرنا شیطان نے بھلادیا ۔ (معارف القرآن 5/67)
واللہ اعلم بالصواب
دارالافتاء
دارالعلوم وقف دیوبند
متفرقات
طلاق و تفریق
Ref. No. 1806/43-1557
بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ بشرط صحت سوال مذکورہ صورت میں بیوی پر فقہ حنفی کے مطابق تینوں طلاقیں واقع ہوگئیں، اور عورت حرام ہوگئی، اب عورت عدت گزارنے کے بعد دوسرے سے نکاح کرسکتی ہے۔
قوله وركنه لفظ مخصوص )۔۔۔وبه ظهر أن من تشاجر مع زوجته فأعطاها ثلاثة أحجار ينوي الطلاق ولم يذكر لفظا لا صريحا ولا كناية لا يقع عليه كما أفتى به الخير الرملي وغيره ۔(ردالمحتار علی الدرالمختار، کتاب الطلاق،ج 4 ص 431)
ولو قال أنت طالق هكذا وأشار بأصبع واحدة فهي واحدة وإن أشار بأصبعين فهي ثنتان وإن أشار بثلاث فثلاث۔(الفتاوى الهندية ،كتاب الطلاق ج1 ص439)
واللہ اعلم بالصواب
دارالافتاء
دارالعلوم وقف دیوبند
ذبیحہ / قربانی و عقیقہ
Ref. No. 1903/43-1787
بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ جہاں عید کی نمازجائز نہیں، جیسے گاؤں، دیہات وغیرہ، وہاں فجر کا وقت داخل ہونے کے بعد کبھی بھی قربانی کرسکتے ہیں۔ وہاں کے لوگوں کا نماز عید پڑھنا اور نہ پڑھنا برابر ہے، اس لئے ان کی نماز کا اعتبار نہیں ہوگا اور قربانی اس نماز سے قبل بھی درست ہوجائے گی۔ البتہ شہر میں اگر ایک جگہ نماز ہوگئی تو پورے شہر میں قربانی جائز ہے چاہے اپنے محلہ کی مسجد میں نماز عید نہ ہوئی ہو۔
لایجوز لأہل المصر ان یذبحوا الاضحیۃ قبل أن یصلوا صلاۃ العید یوم الاضحی وذبح غیرہ والاصل فیہ قولہ علیہ الصلاۃ والسلام من ذبح قبل الصلوٰۃ فلیعد ذبیحتہ ومن ذبح بعد الصلاۃ تم نسکہ۔ (مجمع الانھر، ص169ج 4 کتاب الاضحیۃ)
واللہ اعلم بالصواب
دارالافتاء
دارالعلوم وقف دیوبند