Frequently Asked Questions
طہارت / وضو و غسل
Ref. No. 1084/42-328
الجواب وباللہ التوفیق
بسم اللہ الرحمن الرحیم :۔ )1(حدیث سے معلوم ہوتا ہے کہ قضاء حاجت کی جگہ شیطان کا بسیرا ہوتا ہے اور دعا پڑھ کر بیت الخلاء جانے سے آدمی شیطان کے وساوس سے محفوظ رہتا ہے؛ اس لیے اگرگھر میں اٹیچ بیت الخلاء ہو تو بیت الخلاء میں شیطان کا بسیرا ہوسکتا ہے لیکن اس کا اثر گھر پر نہیں پڑتا ہے اور جولوگ بیت ا لخلاء دعا پڑھ کر جاتے ہیں وہ بھی شیطانی وساوس سے محفوظ رہتے ہیں۔
عن أنس بن مالك أن رسول الله قال: (إن هذه الحشوش محتضرة، فإذا دخلها أحدكم فليقل: اللهم إنى أعوذ بك من الخبث والخبائث) . فأخبر فى هذا الحديث أن الحشوش مواطن للشياطين، فلذلك أمر بالاستعاذة عند دخولها،(شرح صحيح البخاري لابن بطال 10/90)ومن هذا قول رسول الله صلى الله عليه وسلم إن هذه الحشوش محتضرة أي يصاب الناس فيها وقد قيل إن هذا أيضا قول الله - عز وجل - (كل شرب محتضر) القمر 28 أي يصيب منه صاحبه۔1773- مالك عن يحيى بن سعيد أنه قال أسري برسول الله صلى الله عليه وسلم فرأى عفريتا من الجن يطلبه بشعلة من نار كلما التفت رسول الله صلى الله عليه وسلم رآه فقال له جبريل أفلا أعلمك كلمات تقولهن إذا قلتهن طفئت شعلته وخر لفيه فقال رسول الله صلى الله عليه وسلم بلى فقال جبريل فقل أعوذ بوجه الله الكريم وبكلمات الله التامات اللاتي لا يجاوزهن بر ولا فاجر من شر ما ينزل من السماء وشر ما يعرج فيها وشر ما ذرأ في الأرض وشر ما يخرج منها ومن فتن الليل والنهار ومن طوارق الليل والنهار إلا طارقا يطرق بخير يا رحمن(الاستذکار8/443)
(2)روایت سے معلوم ہوتا ہے کہ جب انسان گھر میں داخل ہوتے وقت دعا پڑھ لیتا ہے تو اللہ تعالی کے ضمان میں آجاتا ہے اور شیطان کہتا ہے کہ اب میں تمہارے ساتھ رات نہیں گزار سکتا لیکن جب آدمی بغیر دعا کے گھر میں داخل ہوتا ہے تو شیطان کہتا ہے کہ میں تمہارے ساتھ رات گزاروں گااس لیے گھر میں داخل ہوتے وقت دعا کا اہتمام کرنا چاہیے۔
وروينا عن أبي أمامة الباهلي، واسمه صدَيُّ بن عَجْلان عن رسول الله صلى الله عليه وسلم قال: " ثَلاَثَةٌ كُلُّهُمْ ضَامِنٌ على اللَّهِ عَزَّ وَجَلَّ: رَجُلٌ خرج غَازِيَاً في سَبِيلِ اللَّهِ عَزَّ وَجَلَّ فَهُوَ ضَامِنٌ على الله عَزَّ وجَلَّ حَتَّى يَتَوفَّاهُ فيدخله الجنة أو يرده بما نال من أجْرٍ وَغَنِيمَةٍ،وَرَجُلٌ رَاحَ إلى المَسْجِد فَهُو ضَامِنٌ على الله تعالى حتَّى يَتَوَفَّاهُ فَيُدْخلَهُ الجَنَّةَ أو يرده بما نال من أجر وَغَنِيمَةٍ، وَرَجُلٌ دَخَلَ بَيْتَهُ بِسلامٍ فَهُوَ ضَامنٌ على اللَّهِ سُبْحانَهُ وتَعَالى " حديث حسن، رواه أبو داود بإسناد حسن، ورواه آخرون.ومعنى " ضامن على الله تعالى ": أي صاحب ضمان، والضمان: الرعاية للشئ، كما يقال: تَامِرٌ، ولاَبنٌ: أي صاحب تمر ولبن.فمعناه: أنه في رعاية الله تعالى، وما أجزل هذه العطية، اللهمَّ ارزقناها.
60 - وروينا عن جابر بن عبد الله رضي الله عنهما قال: سمعت النبي صلى الله عليه وسلم يقول: " إذَا دَخَلَ الرَّجُلُ بَيْتَهُ فَذَكَرَ اللَّهَ تَعالى عِنْدَ دُخُولِهِ وَعِنْدَ طَعامِهِ قالَ الشِّيْطانُ: لا مَبِيتَ لَكُمْ وَلا عَشاءَ، وَإذا دَخَلَ فَلَمْ يَذْكُرِ اللَّهَ تَعالى عنْدَ دُخُولِه، قالَ الشَّيْطانُ: أدْرَكْتُمُ المَبِيتَ، وَإذا لَمْ يَذْكُرِ اللَّهَ تَعالى عِنْدَ طَعامِهِ قالَ: أدْرَكْتُمُ المَبِيتَ والعَشَاء " رواه مسلم في صحيحه.(کتاب ا لاذکار للنووی ص: 24)
(3)بیت الخلاء کے لٹکے کپڑے یا وہاں گرے خواتین کے با لوں پرشیطان کا جادو کرنا کوئی ضروری نہیں ہے؛ بلکہ جو لوگ اس طرح کا عمل کراتے ہیں وہ اس طرح کی چیزوں کو استعمال کرتے ہیں اس لیے کہ بہتر کہ بال وغیرہ کو محفوظ مقام پر دفن کردیا جائے لیکن شیطان کا ان بالوں پر تصرف کرنا کوئی ضروری نہیں ہے اس لیے کہ شیطان ،جنات اس کے بغیر بھی تصرف پر قادر ہوجاتے ہیں ۔ (4)میاں بیوی کے درمیان نااتفاقی اگر رہتی ہے تو ضروری نہیں کہ یہ جادو کہ ہی کا اثر ہو۔گھر میں حضرت شیخ الحدیث مولانا زکریا صاحب ؒ کی منزل اسی طرح معوذتین اور سورہ بقرہ کا اہتمام کریں اگر جادو وغیرہ کا کوئی اثر ہوگا تو زائل ہوجائے گااور اگر اس کے بعد بھی نااتفاقی ختم نہ تو بہتر ہوگا کہ دونوں خاندان کے بزرگ کے سامنے مسئلہ کو پیش کیا جائے وہ حضرات طرفین کی بات کو سن کر جو فیصلہ کریں اس پر دونوں حضرات عمل کریں انشاء اللہ نااتفاقی ختم ہوجائے گی ۔
واللہ اعلم بالصواب
دارالافتاء
دارالعلوم وقف دیوبند
روزہ و رمضان
Ref. No. 1433/42-861
الجواب وباللہ التوفیق
بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ ایک مسجد میں تراویح کی دو جماعت کی گنجائش ہے، تاہم اس کا خیال رکھا جائے کہ آوازیں نہ ٹکرائیں اور کسی کو دوسرے سے خلل نہ ہو۔ قرآن مکمل ہونے کے بعدبہتر یہ ہے کہ دوسری جماعت والے پہلی جماعت میں شامل ہوجائیں اور دوسری جماعت بند کردی جائے۔
واللہ اعلم بالصواب
دارالافتاء
دارالعلوم وقف دیوبند
حدیث و سنت
Ref. No. 1543/43-1080
الجواب وباللہ التوفیق
بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ صورت مذکورہ میں احناف کا مسلک احتیاط پر مبنی ہے جس کی تائید میں صحابہ کے آثار موجود ہیں، علامہ عینی نے ان آثار کو نقل کیا ہے اس لئے مطلقا مذہب غیر پر عمل کا فتوی نہیں دیاجاسکتاہے ۔ دوسال قبل مباحث فقہیہ جمعیۃ علماء ہند کا اس موضوع پر سیمینار ہواتھا اس کی تجویز یہی ہے کہ مطلقا مذہب غیر پر عمل کا فتوی نہیں دیاجاسکتاہے، ہاں انفرادی طور پر کسی کے ساتھ کوئی واقعہ پیش آجائے تو وہ مفتی سے رجوع کرے، اگر حالات و قرائن سے مفتی کو مناسب لگے تو خصوصی حالت میں مفتی اس کے لئے مذہب غیر پر عمل کی اجازت دے سکتاہے۔
واللہ اعلم بالصواب
دارالافتاء
دارالعلوم وقف دیوبند
طہارت / وضو و غسل
Ref. No. 1910/43-1812
بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ صورت مذکورہ میں دیواروں پرناپاک چھینٹیں پڑنا، یا فرش پر ناپاک پانی کا باقی رہ جانا موہوم ہے یقینی نہیں ہے، کیونکہ کپڑا پاک کرتے وقت ناپاک پانی بہہ جاتاہے، نیز ہلکی پھلکی چھینٹیں جن سے بچنا مشکل ہے وہ معاف ہیں۔ لہذا دوسرا کوئی شخص وہاں نہائے یا کپڑے دھوئے تو وہ شخص بھی پاک ہے اور کپڑا بھی پاک ہے۔
واللہ اعلم بالصواب
دارالافتاء
دارالعلوم وقف دیوبند
متفرقات
Ref. No. 2014/44-1986
بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ آیت کریمہ میں عالم سے مراد وہ ہے جس کواللہ تعالی کی ذات و صفات کا کماحقہ معرفت حاصل ہو اور دین کی تمام بنیادی باتوں کا علم ہو، اور شریعت و سنت کے مطابق وہ زندگی گزارتاہو۔ اور آج کل ہماری اصطلاح میں عالم اس کو کہاجاتاہے جو کسی مدرسہ سے سندیافتہ ہو نحو صرف بلاغت وغیرہ کا علم رکھتاہو۔ قرآن کریم کی آیت میں خشیت کو علماء کا لازمہ قراردیاگیا ہے کہ عالم کے اندر خشیت الہی ضرور ہی ہوتی ہے۔ البتہ غیرعالم میں خشیت کی نفی اس سے نہیں ہوتی ہے۔ لہذا غیرعالم سائنسداں سے خشیت کی نفی کرنا درست نہیں ہے یعنی ایسا نہیں ہے کہ غیر عالم کو خشیت حاصل نہیں ہوسکتی ہے۔ ہر سائنس داں کو آیت بالا کا مصداق قراردینا غلط اور گمراہ کن ہے ۔ مذکورہ بالا صفات کے حامل سائنسداں کو ہی آیت کے اندر شامل کیا جاسکتاہے۔
مزید تفصیل کے لئے معارف القرآن کا مطالعہ کریں ۔ (معارف القرآن از مفتی شفیع صاحب ، تفسیر سورہ فاطر آیت 28)
واللہ اعلم بالصواب
دارالافتاء
دارالعلوم وقف دیوبند
طلاق و تفریق
Ref. No. 2091/44-2131
بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ صورت مسئولہ میں بیٹی کی عمر جس دن دس سال کی ہوگی، اس دن آپ کی بیوی پر ایک طلاق واقع ہوجائے گی۔ اور اس طلاق سے بچنے کی اب کوئی صورت نہیں ہے۔ ماضی کے لفظ سے طلاق واقع ہوجاتی ہے اور مستقبل میں اگر کسی کام پر طلاق کو معلق کیاجائے گا ، شرط کے پائے جانے پروہ طلاق واقع ہوجائے گی، لیکن ایک طلاق واقع ہوگی اگر پہلے سے طلاق نہیں دیا ہے تو وقوع طلاق کے بعدعدت میں رجوع کرسکتاہے پھر آئندہ کے لئے طلاق دینے سے احتیاط کرے۔
واللہ اعلم بالصواب
دارالافتاء
دارالعلوم وقف دیوبند
بدعات و منکرات
Ref. No. 2224/44-2370
بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ مدرسہ میں نمازوں کے بعد جو معمولات ہوتے ہیں ان میں ذمہ داران کے پیش نظر کوئی نہ کوئی تعلیمی پہلو ہوتاہے، یعنی طلبہ کی تعلیم و تربیت کی غرض سے ایسا عمل کیاجاتاہے۔ اس لئے اہل مدارس اگر تعلیمی وتربیتی لحاظ سے کوئی عمل کریں تو اس کو بدعت نہیں کہا جائے گا بلکہ وہ بھی تعلیم کا ایک حصہ ہے۔
واللہ اعلم بالصواب
دارالافتاء
دارالعلوم وقف دیوبند
فقہ
Ref. No. 2298/44-3448
بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ چونکہ وہ کنواں اب استعمال میں نہیں ہے، اس لئے اگر وہ آپ کی ملکیت میں ہے تو اس میں بیت الخلاء کی ٹنکی بنانے میں کوئی حرج نہیں ہے۔لیکن اگر سرکاری ہے تو اس میں تصرف کرنا جائز نہیں ہے۔
"للمالك أن يتصرف في ملكه أي تصرف شاء." (بدائع الصنائع في ترتيب الشرائع ،فصل في بيان حكم الملك والحق الثابت في المحل:6/264،ط:دار الكتب العلمية)
واللہ اعلم بالصواب
دارالافتاء
دارالعلوم وقف دیوبند
خوردونوش
Ref. No. 2413/44-3645
بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ بلاکسی ظاہری سبب کے کسی پر شک کرنا تقوی کے خلاف عمل ہے، اگر وکئی وجہ ہو، تو پرہیز کرنا چاہئے، اور ایسی صورت میں کوئی آپ پر لعن طعن بھی نہیں کرے گا، لیکن بلاکسی وجہ کے کسی کے بارے میں بدگمانی رکھنا درست نہیں ہے،۔ اس لئے اگر والد صاحب کھانے ک لئے کہیں تو ان کی اطاعت ہی اقرب الی التقوی ہوگی۔
واللہ اعلم بالصواب
دارالافتاء
دارالعلوم وقف دیوبند
حدیث و سنت
الجواب وباللّٰہ التوفیق:سلطان سے مراد ہر صاحب اقتدار بادشاہ ہے۔(۱)
(۱) أفضل الجہاد کلمۃ عدل عند سلطان جائر۔ (أخرجہ أبوداود، في سننہ، ’’کتاب الملاحم: باب الأمر والنہي‘‘: ج ۲، ص: ۵۹۷، رقم: ۴۳۴۴)
نقل في الحاشیۃ: عن مرقات الصعود قال الخطابي: وإنما صار ذلک أفضل الجہاد لأن من جاہد العدو کان مترددا بین رجاء وخوف لا یدري ہل یغلب أو یغلب وصاحب السلطان مقہور في یدہ فہو إذا قال الحق وأمرہ بالمعروف فقد نعرض للتلف واہراق نفسہ للہلاک فصار ذلک أفضل أنواع الجہاد من أجل غلبۃ الخوف۔ (خلیل أحمد سہارنفوري، بذل المجہود، ’’کتاب الملاحم: باب الأمر بالمعروف الخ‘‘: ج ۵، ص: ۱۱۹)
فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج2ص75