نماز / جمعہ و عیدین

الجواب و باللّٰہ التوفیق: فرض نمازوں میں امام کا ایک سانس میں سورۂ فاتحہ پڑھنا کوئی کمال نہیں ہے۔ اور اس کی عادت ڈال لینا ناپسندیدہ ہے کراہت تنزیہی سے خالی نہیں ہے۔ لہٰذا جو حضرات اعتراض کرتے ہیں اور اس کو اچھا نہیں سمجھتے  وہ لوگ اپنی جگہ صحیح ہیں۔ ترتیل کے ساتھ معانی میں تدبر کے ساتھ ٹھہر ٹھہر کر پڑھنا چاہئے اس کی تائید حدیث سے بھی ہوتی ہے۔(۲)

(۲) عن یعلی بن مملک، أنہ سأل أم سلمۃ رضي اللّٰہ عنہا زوج النبي صلی اللّٰہ علیہ وآلہ وسلم عن قراء ۃ النبي صلی اللّٰہ علیہ وآلہ وسلم وصلاتہ، فقالت: مالکم وصلاتہ، کان یصلي، ثم ینام قدر ماصلی، ثم یصلي قدر مانام، ثم ینام قدر ما صلی حتی یصبح۔ ثم نعتت قرائتہ فإذا ہی تنعت …قرائۃ مفسرۃ حرفاً حرفاً۔ وقال أبو عیسی: ہذا حدیث حسن صحیح۔ (أخرجہ الترمذي، في سننہ، ’’أبواب فضائل القرآن عن رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم، باب: کیف کانت قراء ۃ النبي‘‘: ج ۲، ص: ۱۲۰، رقم: ۲۹۲۳)
عن أبي حمزۃ قال: قلت لابن عباس رضي اللّٰہ عنہما: إني سریع القرآن إني أقرأ القرآن في ثلاث، قال: لئن أقرأ البقرۃ في لیلۃ أتدبرہا وارتلہا أحب إلی أن أقرأ کما تقرأ۔ (أخرجہ البیہقي، في شعب الإیمان، فصل في أومان تلاوۃ القرآن‘‘: ج ۳، ص: ۴۰۶، رقم: ۱۸۸۲)
عن عبد اللّٰہ بن عمرو رضي اللّٰہ عنہما قال: قال رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم: یقال لصاحب القرآن: إقرأ وارتق، ورتل کما کنت ترتل في الدنیا؛ فإن منزلک عند آخر آیۃ تقرأہا۔ (أخرجہ أبوداؤد، في سننہ، ’’کتاب الصلاۃ: باب کیف یستحب الترتیل في القراء ۃ‘‘: ج ۱، ص: ۲۰۶، رقم: ۱۴۶۴)

 

فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج6 ص227

 

نماز / جمعہ و عیدین

الجواب وباللّٰہ التوفیق: سنت مؤکدہ کبھی کبھار ترک ہو جائے تو کوئی حرج کی بات نہیں ہے، لیکن ترک پر اصرار کرنا گناہ کا باعث ہے  اور چھوڑ نے کی عادت بنا لینا موجب فسق ہے۔ سنت مؤکدہ کے ترک پر بہت سی احادیث میں وعیدیں وارد ہوئی ہیں، مثلاً: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: کہ جو شخص ظہر کی پہلی چار سنت مؤکدہ چھوڑ دے اس کو میری شفاعت نصیب نہ ہوگی،(۱) اور مؤکدہ سنتوں کا پڑھنا بھی احادیث سے ثابت ہے، طبرانی میں حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے فرماتی ہیں: کہ میں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو نہیں دیکھا کہ آپ نے سفر وحضر یا مرض وصحت میں کبھی فجر کی سنتیں چھوڑی ہوں،(۲) ایک دوسری حدیث میں حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم ظہر سے قبل چار رکعت سنت اور ظہر کے بعد دو رکعت سنت، مغرب کے بعد دو رکعت سنت اور عشاء کے بعد دو رکعت سنت اور فجر سے پہلے دو رکعت سنت پڑھتے تھے۔(۳) ان روایات سے سنن مؤکدہ کے پڑھنے کی تاکید اور چھوڑنے پر گناہ معلوم ہوتا ہے، سنت مؤکدہ کیوں مشروع ہوئیں؟ اس کی وضاحت فرمائی کہ فرض نماز سے پہلے شیطان انسانوں کو بہکاتا ہے جب انسان فرض سے پہلے سنت پڑھتا ہے تو شیطان یہ تصور کرتا ہے کہ جس نے فرض سے کم درجہ کی چیز سنت نہیں چھوڑی تو وہ فرض بدرجہ اولیٰ نہیں چھوڑے گا اور بہکانا بند کر دیتا ہے اور جب انسان فرض نماز ادا کرتا ہے تو اس میں کچھ نہ کچھ کوتا ہی ضرور ہو جاتی ہے خدا تعالیٰ کی یہ عبادت اس کی شایان شان نہیں ہو پائی تو بعد والی سنتوں سے اس نقصان کو پورا کیا جاتا ہے ایک حدیث میں ہے کہ نماز روزہ وزکوٰۃ کا فریضہ جب پورا نہ ہو تواس کو تطوع (سنت) سے پورا کیا جائے گا، جمہور علماء ومفتیان کے نزدیک یہ ہی وضاحت ہے،(۴) امام غزالی رحمۃ اللہ علیہ کے سنت مؤکدہ کا تذکرہ نہ کرنے سے سنت مؤکدہ کی تاکید کم نہیں ہوتی۔

(۱) لأن فیہا وعیداً معروفاً قال علیہ الصلاۃ و السلام من ترک أربعاً قبل الظہر لم تنلہ شفاعتي۔ (ابن نجیم، البحر الرائق، ’’کتاب الصلاۃ: باب الوتر والنوافل‘‘: ج ۲، ص: ۸۶، زکریا دیوبند)
(۲) وفي أوسط الطبراني عنہا أیضاً: لم أراہ ترک الرکعتین قبل صلاۃ الفجر في سفر ولا حضر ولا صحۃ ولا سقم۔ (ابن نجیم، البحر الرائق، ’’کتاب الصلاۃ: باب الوتر والنوافل‘‘: ج ۲، ص: ۸۳، ۸۴)
(۳) عن عبد اللّٰہ بن شقیق قال: سألت عائشۃ رضي اللّٰہ عنہا عن صلاۃ رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم من التطوع فقالت: کان یصلي قبل الظہر أربعاً في بیتي الخ۔ (أخرجہ ابوداؤد،… في سننہ، ’’کتاب الصلاۃ: باب تفریع أبواب التطوع ورکعات السنۃ‘‘: ج ۱، ص: ۱۷۸، دار الکتاب دیوبند)
(۴) لأن السنۃ من لواحق الفریضۃ وتوابعہا ومکملاتہا فلم تکن أجنبیۃ عنہا۔ (ابن عابدین، رد المحتار، ’’کتاب الصلاۃ: باب صفۃ الصلاۃ، مطلب: ھل یفارقہ الملکان؟‘‘: ج ۲، ص: ۲۴۶، زکریا دیوبند)
(قولہ لجبر النقصان) أي لیقوم في الآخرۃ مقام ما ترک منہا لعذر کنسیان، وعلیہ یحمل الخبر الصحیح أن فریضۃ الصلاۃ والزکاۃ وغیرہما إذا لم تتم تکمل بالتطوع۔ (ابن عابدین، رد المحتار، ’’کتاب الصلاۃ: باب الوتر والنوافل، مطلب في السنن والنوافل‘‘: ج ۲، ص: ۴۵۲، زکریا دیوبند)
وفي التنجیس والنوازل والمحیط: رجل ترک سنن الصلوات الخمس إن لم یر السنن حقاً فقد کفر لأنہ ترک استخفافاً، وإن رأی حقاً منہم من قال لا یأثم والصحیح أنہ یأثم لأنہ جاء الوعید بالترک۔ (ابن نجیم، البحر الرائق، ’’کتاب الصلاۃ: باب الوتر والنوافل‘‘: ج ۲، ص: ۸۶، زکریا دیوبند)

فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج6 ص353


 

نکاح و شادی

Ref. No. 1081 Alif

الجواب وباللہ التوفیق

بسم اللہ الرحمن الرحیم۔  شرعاً اس کی کوئی  حیثیت نہیں۔ رسم و رواج سے اجتناب کیا جانا چاہئے۔ نیزدولہا وغیرہ کا آنگن میں جانا اور نامحرم عورتوں  کا سامنا کرنا ، یہ تمام غیرشرعی امور ہیں جن سے اجتناب کیا جانا ضروری ہے۔واللہ اعلم بالصواب

 

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند

کھیل کود اور تفریح

Ref. No. 837

الجواب وباللہ التوفیق                                                                                         

بسم اللہ الرحمن الرحیم-:  چونکہ تجربہ سے ثابت ہے کہ اس کھیل  میں غفلت حد درجہ پائی جاتی ہے، اس لئے احتراز کیا جا نا ضروری ہے۔ باقی تفصیل آپ کے گذشتہ سوال کے جواب میں لکھدی گئی ہے۔  واللہ تعالی اعلم  بالصواب

 

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند

اسلامی عقائد

Ref. No. 1029/41-259

الجواب وباللہ التوفیق 

بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔   دین  کی تعلیم ، تبلیغ اور عمل کے لئے قرآن اور احدیث کافی ہیں، صرف بخاری میں تمام صحیح احادیث  نہیں ہیں، بلکہ بخاری کے علاوہ دیگر کتابوں میں بھی صحیح احادیث ہیں۔ خود امام بخاری کا قول ہے کہ میں نے صحیح احادیث کو جمع کیا ہے ، میں نے تمام صحیح احادیث کو جمع نہیں کیا ہے۔

واللہ اعلم بالصواب

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند

طہارت / وضو و غسل

Ref. No. 1240/42-561

الجواب وباللہ التوفیق

بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ احادیث میں مسواک کرنے کی بڑی فضیلت وارد ہوئی ہے، تاہم مسواک کرنے پر ثواب ہے اور نہ کرنے  پرکوئی ملامت اور کوئی گناہ نہیں ہے۔

واما ماورد من افضلیۃ الصلوۃ التی بسواک علی غیرھا فیدل علی الاستحباب  وھو الحق ( البحر الرائق 1/42 زکریا دیوبند)

واللہ اعلم بالصواب

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند

متفرقات

Ref. No. 1362/42-768

الجواب وباللہ التوفیق

بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ ایسا کرنا مناسب نہیں ہے۔ اس میں دینی چیزوں  کی ناقدری ہے اور  توہین ہے۔ اس لئے اس  سے بچنا چاہئے۔ لا يقرأ جهرا عند المشتغلين بالأعمال) الفتاوى الهندية :5/ 316(

واللہ اعلم بالصواب

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند

نکاح و شادی
نعیم نے نجمہ کو 4 آدمیوں کے سامنے کہا نجمہ میری بیوی ہے کیا نکاح ہوگیا جبکہ نجمہ چپ رہی. جبکہ نجمہ کی ایسی نیت نہ تھی کے نعیم کو بطور شوہر قبول کرے.

نماز / جمعہ و عیدین

Ref. No. 1663/43-1274

بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔مسجد میں جماعت اولی کے ساتھ نماز پڑھنا ہی اصل سنت ہے، اور اسی کی تاکید ہے اور اسی پر بعض نے وجوب کاحکم لگایا ہے، اس کو ترک کرنے والا اس وعید کا مستحق ہوگا جو حدیث میں وارد ہوئی ہے، البتہ ترک کرنے سے مراد عادت بنالینا ہے، کبھی اتفاقی طور پر کسی وجہ سے ترک ہوجانامراد نہیں ہے۔ اس لئے اگر کبھی کسی  وجہ سے  جماعت چھوٹ جائے، توتنہا نماز پڑھنے سے بہتر ہے کہ  گھر میں جماعت  کرلی جائے جیسا کہ  ایسی صورت میں نبی علیہ السلام سے گھر جاکر جماعت سے نماز پڑھنا ثابت ہے۔  حضرت ابی بکرۃ ؓ سے روایت ہے کہ ایک مرتبہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم  مدینہ کے دیہی علاقوں سے لوٹ کر آئے اور نماز کی ادائیگی کا ارادہ کیا تو دیکھا کہ لوگ نماز سے فارغ ہوگئے ہیں لہذا آپ صلی اللہ علیہ وسلم  گھر چلے گئے اور گھر کے افراد کو جمع کیا اور ان کے ساتھ جماعت سے نماز پڑھی۔ ( معجم الکبیر للطبرانی، مجمع الزوائد ۲/۴۵، المعجم الاوسط ۵/۳۵ / ۴۶۰۱ ، ۷/۵۱/ ۶۸۲۰، المجروحین لابن حبان ۳ / ۴۔۔۵، الکامل لابن عدی ۶/۲۳۹۸

حضرت عبد اللہ بن مسعود ؓ ایک مرتبہ اپنے دو ساتھیوں کے ساتھ مسجد میں نماز ادا کرنے کے لئے نکلے تو دیکھا کہ لوگ مسجد سے باہر آرہے ہیں اور جماعت ختم ہوگئی ہے۔ چنانچہ حضرت عبد اللہ بن مسعود ؓ اپنے ساتھیوں کے ساتھ واپس گھر آئے اور جماعت کے ساتھ نماز ادا فرمائی۔ (اس روایت کو امام طبرانی نے "المعجم الکبیر ۹۳۸۰" میں صحیح سند کے ساتھ ذکر فرمائی ہے نیز ابن عبد الرزاق نے "مصنف ۲/۴۰۹/۳۸۸۳" میں ذکر فرمائی ہے)۔

عن أبی ہریرة قال قال رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم لقد ہممت أن آمر فتیتي فیجمعوا لي حزماً من حطب ثم آتي قوما یصلون فی بیوتہم لیست بہم علة فأحرقہا علیہم“ (أبوداوٴد: ۱/۸۰، ط: اشرفی دیوبند) صَلَاةُ الْجَمَاعَةِ تَفْضُلُ صَلَاةَ الْفَذِّ بِسَبْعٍ وَعِشْرِيْنَ دَرَجَةً. بخاری، الصحيح، کتاب الأذان، باب فضل صلاة الجماعة، 1 : 231، رقم (619

قال فی الشامی: (قولہ: وتکرار الجماعة) لما روی عبد الرحمن بن أبي بکر عن أبیہ ”أن رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم خرج من بیتہ لیصلح بین الأنصار فرجع وقد صلی فی المسجد بجماعة فدخل رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فی منزل بعض أہلہ فجمع أہلہ فصلی بہم جماعة“ (شامی: ۲/ ) المرأة إذا صلت مع زوجہا فی البیت إن کان قدمہا لحذاء قدم الزوج لاتجوز صلاتہما بالجماعة، وإن کان قدماہا خلف قدم الزوج إلا أنہا طویلة تقع رأس المرأة فی السجود قِبَل رأس الزوج جازت صلاتہا؛ لأن العبرة للقدم ۔ (درمختار مع الشامی: ۱/۵۷۲، کراچی) ۔

واللہ اعلم بالصواب

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند

طہارت / وضو و غسل

Ref. No. 1744/43-1467

بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ پیشاب کے قطروں کی بیماری میں جبکہ آپ معذور کے حکم میں ہوں آپ پر ہر نماز کے وقت وضو کرنا اور پیشاب لگے ہوئے ناپاک کپڑے بدلنا ضروری ہے۔ پیشاب کے قطروں کے لئے جو پلاسٹک استعمال کرتے ہیں  اگر قطرے اس میں آگئے تو اس کو اگلی نماز کے لئے بدلنا ضروری ہوگا۔ پیشاب کرنے کے بعد اچھی طرح سے پیشاب کی نالی میں موجود قطروں کو نکالنا لازم ہے،  جب مکمل پیشاب کے قطرے نکل گئے تو اب اس کو سکھانے کی ضرورت نہیں ہے دھولینا بھی کافی ہے۔ (2) اعضائے وضو کو ایک ایک بار دھونا فرض ہے اور تین تین بار دھونا سنت ہے، اس سے زیادہ ان گنت مرتبہ دھونا مکروہ ہے اور اسراف میں داخل ہے، وضو درست ہوجائے گا مگر بلاوجہ ایسا کرنا مکروہ ہوگا۔ (3) ہونٹوں  کا وہ حصہ جو منھ بند کرنے پر چھپ جاتاہے، اس پر  ویسلین یا کوئی کریم استعمال  نہ کریں یہ نقصاندہ بھی ہے۔ البتہ اگر لگالیا اور منھ کے اندراس کا اثر  حلق میں محسوس کیا توچونکہ یہ مقدار بہت ہی قلیل ہےاور صرف اس کا اثر محسوس ہوا ہے اس لئے  اس سے نماز میں کوئی خرابی لازم نہیں آئے گی، نماز درست ہوجائے گی۔

’’(1) وصاحب عذر من به سلس) بول لا يمكنه إمساكه (أو استطلاق بطن أو انفلات ريح أو استحاضة) أو بعينه رمد أو عمش أو غرب، وكذا كل ما يخرج بوجع ولو من أذن وثدي وسرة (إن استوعب عذره تمام وقت صلاة مفروضةبأن لا يجد في جميع وقتها زمناً يتوضأ ويصلي فيه خالياً عن الحدث (ولو حكماً)؛ لأن الانقطاع اليسير ملحق بالعدم (وهذا شرط) العذر (في حق الابتداء، وفي) حق (البقاء كفى وجوده في جزء من الوقت) ولو مرةً (وفي) حق الزوال يشترط (استيعاب الانقطاع) تمام الوقت (حقيقة)؛ لأنه الانقطاع الكامل. ونحوه (لكل فرض) اللام للوقت كما في - {لدلوك الشمس} [الإسراء: 78]- (ثم يصلي) به (فيه فرضاً ونفلاً) فدخل الواجب بالأولى (فإذا خرج الوقت بطل) أي: ظهر حدثه السابق، حتى لو توضأ على الانقطاع ودام إلى خروجه لم يبطل بالخروج ما لم يطرأ حدث آخر أو يسيل كمسألة مسح خفه. وأفاد أنه لو توضأ بعد الطلوع ولو لعيد أو ضحى لم يبطل إلا بخروج وقت الظهر.(وإن سال على ثوبه) فوق الدرهم (جاز له أن لا يغسله إن كان لو غسله تنجس قبل الفراغ منها) أي: الصلاة (وإلا) يتنجس قبل فراغه (فلا) يجوز ترك غسله، هو المختار للفتوى، وكذا مريض لا يبسط ثوبه إلا تنجس فورا له تركه (و) المعذور (إنما تبقى طهارته في الوقت) بشرطين (إذا) توضأ لعذره و (لم يطرأ عليه حدث آخر، أما إذا) توضأ لحدث آخر وعذره منقطع ثم سال أو توضأ لعذره ثم (طرأ) عليه حدث آخر، بأن سال أحد منخريه أو جرحيه أو قرحتيه ولو من جدري ثم سال الآخر (فلا) تبقى طهارته‘‘.(الدر المختار وحاشية ابن عابدين (رد المحتار) (1/ 305)

’’شرط ثبوت العذر ابتداءً أن یستوعب استمراره وقت الصلاة کاملاً، وهو الأظهر، کالانقطاع لایثبت مالم یستوعب الوقت کله ... المستحاضة ومن به سلس البول … یتوضؤن لوقت کل صلاة، ویصلون بذلک الوضوء في الوقت ماشاؤا من الفرائض و النوافل … ویبطل الوضوء عند خروج وقت المفروضة بالحدث السابق … إذا کان به جرح سائل وقد شد علیه خرقةً فأصابها الدم أکثر من قدر الدرهم، أو أصاب ثوبه إن کان بحال لوغسله یتنجس ثانیاً قبل الفراغ من الصلاة، جاز أن لا یغسله وصلی قبل أن یغسله وإلا فلا، هذا هو المختار‘‘.(الهندیة(1/40,41)

(2)"(والإسراف) ومنه الزيادة على الثلاث (فيه) تحريمًا ولو بماء النهر، والمملوك له. أما الموقوف على من يتطهر به، ومنه ماء المدارس، فحرام

(قوله: والإسراف) أي بأن يستعمل منه فوق الحاجة الشرعية، لما أخرج ابن ماجه وغيره عن عبد الله بن عمرو بن العاص «أن رسول الله صلى الله عليه وسلم مر بسعد وهو يتوضأ فقال: ما هذا السرف؟ فقال: أفي الوضوء إسراف؟ فقال: نعم، وإن كنت على نهر جار»، حلية (قوله: ومنه) أي من الإسراف الزيادة على الثلاث أي في الغسلات مع اعتقاد أن ذلك هو السنة لما قدمناه من الصحيح أن النهي محمول على ذلك، فإذا لم يعتقد ذلك وقصد الطمأنينة عند الشك، أو قصد الوضوء على الوضوء بعد الفراغ منه فلا كراهة كما مر تقريره (قوله: فيه) أي في الماء (قوله: تحريمًا إلخ) نقل ذلك في الحلية عن بعض المتأخرين من الشافعية وتبعه عليه في البحر وغيره، وهو مخالف لما قدمناه عن الفتح من عده ترك التقتير والإسراف من المندوبات، ومثله في البدائع وغيرها، لكن قال في الحلية: ذكر الحلواني أنه سنة؛ وعليه مشى قاضي خان، وهو وجيه اهـ واستوجبه في البحر أيضا وكذا في النهر. قال: والمراد بالسنة المؤكدة لإطلاق النهي عن الإسراف، وجعل في المنتقى الإسراف من المنهيات فتكون تحريمية لأن إطلاق الكراهة مصروف إلى التحريم، وبه يضعف جعله مندوبا.

أقول: قد تقدم أن النهي عنه في حديث «فمن زاد على هذا أو نقص فقد تعدى وظلم» محمول على الاعتقاد عندنا، كما صرح به في الهداية وغيرها. وقال في البدائع: إنه الصحيح، حتى لو زاد أو نقص واعتقد أن الثلاث سنة لا يلحقه الوعيد وقدمنا أنه صريح في عدم كراهة ذلك يعني كراهة تحريم، فلاينافي الكراهة التنزيهية، فما مشى عليه هنا في الفتح والبدائع وغيرهما من جعل تركه مندوبًا مبني على ذلك التصحيح، فيكره تنزيهًا، ولاينافيه عده من المنهيات كما عد منها لطم الوجه بالماء، فإن المكروه تنزيهًا منهي عنه حقيقةً اصطلاحًا، ومجازًا لغةً كما في التحرير. وأيضًا فقد عده في الخزانة السمرقندية من المنهيات، لكن قيده بعدم اعتقاد تمام السنة بالثلاث، كما نقله الشيخ إسماعيل، وعليه يحمل قول من جعل تركه سنةً، وليست الكراهة مصروفة إلى التحريم مطلقًا كما ذكرناه آنفًا، على أن الصارف للنهي عن التحريم ظاهر، فإن من أسرف في الوضوء بماء النهر مثلاً مع عدم اعتقاد سنية ذلك نظير من ملأ إناء من النهر ثم أفرغه فيه، وليس في ذلك محذور سوى أنه عبث لا فائدة فيه، وهو في الوضوء زائد على المأمور به؛ فلذا سمي في الحديث إسرافًا". (لدر المختار وحاشية ابن عابدين (رد المحتار) (1/ 132)

(3) ثم القدر الذي يتعلق به الفساد ما يفسد الصوم عزي إلى غريب الرواية لأبي جعفر وهو قدر الحمصة من بين أسنانه، أما من خارج فلو أدخل سمسمة فابتلعها تفسد، وعن أبي حنيفة وأبي يوسف لا تفسد، ولو كانت بين أسنانه فابتلعها لا تفسد، ولو كان عين سكرة في فيه فذابت فدخل حلقه فسدت، ولو لم يكن عينها بل صلى على أثر ابتلاعها فوجد الحلاوة لا تفسد، ولو لاك هليلجة فسدت كمضغ العلك، ولو لم يلكها لكن دخل في جوفه منه شيء يسير لا تفسد.۔ وذكر شيخ الإسلام أكل بعض اللقمة وبقي في فيه بعضها فدخل في الصلاة فابتلعه لا تفسد ما لم تكن ملء الفم (فتح القدیر للکمال، فصل یکرہ للمصلی ان یعبث بثوبہ 1/412)

واللہ اعلم بالصواب

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند