اسلامی عقائد

Ref. No. 1813/43-1576

بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔  انسان و حیوان، چرند و پرند یا حشرات الارض میں سے کسی کے لئے زنا سے باز رہنے کا سبب بننا اس بات کی دلیل ہے کہ آپ کے ذریعے معاشرے میں پھیلی ہوئی برائیوں کی اصلاح ہوگی۔ آپ کے باطن کی صفائی ہوگی، تقوی حاصل ہوگا،  اور بزرگی ظاہر ہوگی۔ان شاء اللہ

واللہ اعلم بالصواب

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند

نماز / جمعہ و عیدین

Ref. No. 1900/43-1789

بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔  آپ ناسک میں مسافر ہیں، اس لئے آپ پر قصر لازم  ہے، اور آپ کایہ عمل درست ہے۔ مسافر کے کسی جگہ مقیم ہونے کے لئے کم از کم پندرہ دن اقامت کی نیت کرنا ضروری ہوتاہے جبکہ آپ ناسک میں پانچ دن کی نیت سے ہی اقامت کرتے ہیں، اس لئے  آپ برابر قصر کرتے رہیں گے چاہے پوری زندگی اسی طرح گزر جائے۔  جب تک آپ وہاں  پندرہ دن اقامت کی نیت نہ کرلیں   مسافر ہی رہیں گے۔

ووطن) الإقامة: وهو أن يقصد الإنسان أن يمكث في موضع صالح للإقامة خمسة عشر يومًا أو أكثر." (بدائع الصنائع 1 / 103)

"ويصير مقيماً بشيئين: أحدهما إذا عزم علي إقامة خمسة عشر يوماً أين ما كان ..." (النتف في الفتاوى للسغدي (1 / 76)

"و لو دخل مصرًا على عزم أن يخرج غدًا أو بعد غد ولم ينو مدة الإقامة حتى بقي على ذلك سنين قصر" لأن ابن عمر رضي الله عنه أقام بأذربيجان ستة أشهر وكان يقصر وعن جماعة من الصحابة رضي الله عنهم مثل ذلك". (الهداية في شرح بداية المبتدي (1 / 80)

ویبطل وطن الإقامة بمثلہ وبالوطن الأصلي وبإنشاء السفر، والأصل أن الشیء یبطل بمثلہ وبما فوقہ لا بما دونہ (الدر المختار مع رد المحتار، کتاب الصلاة، باب صلاة المسافر ۲: ۶۱۴، ۶۱۵،ط: مکتبة زکریا دیوبند)، من خرج من عمارة موضع إقامتہ الخ (المصدر السابق، ص:۵۹۹)۔

واللہ اعلم بالصواب

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند

 

قرآن کریم اور تفسیر

Ref. No. 2008/44-1964

بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ مذکورہ عمل قرآن کے ساتھ بے ادبی شمار نہیں ہوتاہے، اس لئے اس طرح گھڑی یا کسی بھی پاک چیز کو قرآن پر رکھنے میں کوئی حرج نہیں ہے۔  

واللہ اعلم بالصواب

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند

 

قرآن کریم اور تفسیر

Ref. No. 2103/44-2126

بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ تجوید وقراءت کے استاذ کو بھی استاذ ہی کہاجائے گا۔ تجوید کے ساتھ قرآن کریم پڑھنا ہر ایک مسلمان کی ذمہ داری ہے، اگر کسی علاقہ میں لوگوں کی تجوید درست نہ ہو تو اس کا الزام مدرسہ والوں پر نہیں ڈالا جاسکتاہے، اورمدرسہ والے گنہگار نہیں ہوں گے۔ مدرسہ اپنی حیثیت کے مطابق تمام دینی کام کے لئے  تیار رہتاہے اور ہرممکن کوشش  بھی کرتاہے۔ جن لوگوں کو تجوید پڑھنی ہو وہ مدرسہ والوں سے رابطہ کریں گے تو کوئی حل نکل آئے گا ان شاء اللہ۔ یا پھر علاقہ میں کسی قاری صاحب کے پاس جاکر بھی تجوید پڑھ سکتے ہیں۔

واللہ اعلم بالصواب

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند

 

اسلامی عقائد

الجواب وباللّٰہ التوفیق:سکرات موت کا تو مرتے وقت انسان کو علم ہوتا ہے، موت واقع ہوجانے کے بعد کوئی علم اس کو نہیں ہوتا ۔ (۲)
(۲) قال عبد اللّٰہ بن مسعود رضي اللّٰہ عنہ: دخلت علی رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم، وہو یوعک، فقلت: یا رسول اللّٰہ إنک لتوعک وعکا شدیداً، قال: أجل إني أوعک کما یوعک رجلان منکم، فقلت: ذلک بأن لک أجرین، فقال: أجل ذلک کذلک۔(أخرجہ البخاري، في صحیحہ، ’’کتاب المرضیٰ، باب أشد الناس بلاء الأنبیاء -علیہم السلام- ثم الأمثل فالأمثل‘‘: ج ۲، ص: ۸۴۳

فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج1ص291)

اسلامی عقائد

الجواب وباللّٰہ التوفیق:گاہے گاہے ایسا کرنے میں کوئی حرج نہیں ہے کہ مقصد ایصال ثواب ہے، مگر اس کا التزام کرنا بدعت ہوجائے گا، اسی طرح ناموں کا رجسٹر میں اندراج کرنا یہ بیجا رسم اور لغو ہے اور دو رکعت نفل پڑھنے کے لئے کہنا یہ بھی رسم بنائی گئی ہے، کوئی شخص اپنی خوشی سے جس طرح چاہے عمل کرکے ایصال ثواب کرسکتا ہے، کچھ لوگ بیشتر مسائل سے ناواقف ہوتے ہیں؛ لہٰذا ان کو چاہئے کہ علماء و مفتیان کرام سے مسائل معلوم کرکے عمل کیا کریں۔(۱)

(۱) مردہ کو ثواب کھانے کا اور کلمہ، تہلیل اور قرآن کا پہونچانا ہر روز بغیر کسی تاریخ کے درست ہے مگر بہ قیودِ تاریخ معین کر کے کہ پش وپیش نہ کریں اور اس کو ضروری جانیں تو بدعت ہے اور ناجائز ہے، جس امر کو شریعت نے مطلق فرمایا ہے اپنی عقل سے اس میں قید لگانا حرام ہے۔ (تالیفات رشیدیہ، ’’کتاب البدعات‘‘: ص: ۱۵۲)
من أصر علی أمر مندوب وجعلہ عزماً ولم یعمل بالرخصۃ فقد أصاب منہ الشیطان من الاضلال فکیف من أصر علی بدعۃ أو منکر۔ (ملا علي قاري، مرقاۃ المفاتیح، ’’کتاب الصلاۃ: باب الدعاء في التشہد‘‘: ج ۳، ص: ۲۶، رقم: ۹۴۶)

فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج1ص398

اسلامی عقائد

الجواب وباللّٰہ التوفیق:اگر اس اجلاس کو اسی متعینہ تاریخ میں لازم سمجھ کر نہ کیا جائے تو یہ بدعت نہیں ہوگا اور بدعت کی تعریف اس پر صادق نہ آئے گی، اس میں اتنا تغیر کرلینا سنت شریعت کے موافق ہوگا کہ اسی ۹؍ ربیع الاول کو لازم نہ سمجھا جائے، گاہے گاہے اس تاریخ کے علاوہ دوسری تاریخوں میں اجلاس کرلیا جائے کہ کسی سال میں ۸؍ کو کسی میں ۷؍ کو وغیرہ۔(۱) لیکن اس کو لازم سمجھ کر عمل کرنا بدعت اور واجب الترک ہے۔ انتظامی طور پر کوئی تاریخ مقرر کئے رکھنا درست ہے، سنت سمجھ کر درست نہیں ہے، اسی طرح کوئی ایسی تاریخ طے کئے رکھنا بھی درست نہیں ہے جسے لوگ سنت کی حیثیت دینے لگیں جب کہ وہ سنت نہ ہو۔(۲)

(۱) لا بأس بالجلوس للوعظ إذا أراد بہ وجہ اللّٰہ تعالیٰ کذا في الوجیز۔ …(جماعۃ من علماء الہند، الفتاویٰ الہندیۃ، ’’الباب الخامس في آداب المسجد والقبلۃ‘‘: ج ۵، ص: ۳۱۹)
(۲) ومن جملۃ ما أحدثوہ من البدع مع اعتقادہم أن ذلک من أکبر العبادات وأظہر الشعائر ما یفعلونہ في شہر ربیع الأول من المولد وقد احتوی علی بدع ومحرمات جملۃ۔ (موسوعۃ الرد علی الصوفیۃ، ’’البدع الحولیۃ‘‘: ج ۲۲، ص: ۱۹۳)
عن عائشۃ رضي اللّٰہ عنہا، قالت: قال رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم: من أحدث في أمرنا ہذا ما لیس منہ فہو رد۔ (أخرجہ مسلم، في صحیحہ، ’’کتاب الأقضیۃ: باب نقض الأحکام‘‘: ج ۲، ص: ۷۷، رقم: ۱۷۱۸)

 

فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج1ص482

قرآن کریم اور تفسیر

الجواب وباللّٰہ التوفیق:قرآن کریم پڑھتے اورپڑھاتے وقت ابتداء میں تلاوت شروع کرتے ہوئے تعوذ اور ’’بسم اللّٰہ‘‘ پڑھنا سنت ہے: جیسا کہ معارف القرآن میں حضرت مفتی شفیع عثمانی صاحب رحمۃ اللہ علیہ نے تحریر فرمایا: تلاوت قرآن کے علاوہ کسی دوسرے کلام یا کتاب پڑھنے سے پہلے ’’أعوذ باللّٰہ‘‘ پڑھنا سنت نہیں ہے وہاں صرف ’’بسم اللّٰہ‘‘ پڑھنی چاہئے۔(۲)
مفسر کے درسِ قرآن کا مقصد قرأت قرآن کریم نہیں ہے؛ اس لئے ابتداء میں ’’بسم اللّٰہ‘‘ پڑھ لینا کافی ہے جیسا کہ علامہ ابن عابدینؒ نے لکھا ہے:
’’وحاصلہ أنہ إذا أراد أن یأتي بشيء من القرآن کالبسملۃ والحمدلۃ، فإن قصد بہ القراء ۃ تعوذ قبلہ وإلا فلا، وکما لو أتی بالبسملۃ في افتتاح الکلام کالتلمیذ حین یبسمل في أول درسہ للعلم فلا یتعوذ، وکما لو قصد بالحمدلۃ الشکر، وکذا إذا تکلم بغیر ما ہو من القرآن فلا یسن التعوذ بالأولیٰ‘‘(۱)
فتاویٰ عالمگیر میں ہے:
’’إذا أراد أن یقول بسم اللّٰہ الرحمن الرحیم، فإن أراد افتتاح أمر لا یتعوذ، وإن أراد قراء ۃ القرآن یتعوذ، کذا فی السراجیۃ‘‘(۲)
قرأت کا ارادہ ہو تو ’’أعوذ باللّٰہ‘‘ اور ’’بسم اللّٰہ‘‘ دونوں پڑھنا چاہئے اور اگر قرأت کا ارادہ نہ ہو؛ بلکہ درس وتدریس یا تفسیر کا ہو تو تعوذ پڑھنا بھی کوئی ضروری نہیں ہے
’’قال العلامۃ آلوسي رحمہ اللّٰہ: {فَإِذا قَرَأْتَ الْقُرْآنَ فَاسْتَعِذْ بِاللَّہِ} أي إذا أردت قراء ۃ القرآن فاسألہ عز جارہ أن یعیذک مِنَ وساوس الشَّیْطانِ الرَّجِیمِ کی لا یوسوسک في القراء ۃ‘‘(۳)

(۲) مفتي شفیع عثمانيؒ، معارف القرآن، ’’سورۃ النحل: ۸۹‘‘: ج ۵، ص: ۳۸۹۔
(۱) ابن عابدین، الدر المختار مع رد المحتار، ’’کتاب الصلاۃ: فروع قرأ بالفارسیۃ أو التوراۃ أو الإنجیل‘‘: ج ۱، ص: ۴۸۹۔
(۲) جماعۃ من علماء الہند، الفتاویٰ الہندیۃ، ’’کتاب الکراہیۃ: الباب الرابع: في الصلوٰۃ والتسبیح وقراء ۃ القرآن‘‘: ج ۵، ص: ۳۶۵۔
(۳) علامہ آلوسي، روح المعاني، ’’سورۃ النحل: ۹۸‘‘: ج ۸، ص: ۳۳۷۔


 فتاوی  دارالعلوم وقف  دیوبند ج2ص68

طہارت / وضو و غسل

الجواب وباللّٰہ التوفیق:اس عمل سے غسل واجب نہیں ہو تا۔
’’(و) لا عند (إدخال إصبع ونحوہ) کذکر غیر آدمي وذکر خنثی ومیت وصبي لا یشتہي وما یصنع من نحو خشب (في الدبر أو القبل) علی المختار۔ (الدر المختار) وفي رد المحتار: (قولہ: علی المختار) قال في التجنیس: رجل أدخل إصبعہ في دبرہ وہو صائم اختلف في وجوب الغسل والقضاء۔ والمختار أنہ لا یجب الغسل ولا القضاء؛ لأن الإصبع لیس آلۃ للجماع فصار بمنزلۃ الخشبۃ ذکرہ في الصوم، وقید بالدبر؛ لأن المختار وجوب الغسل في القبل إذا قصدت الاستمتاع؛ لأن الشہوۃ فیہن غالبۃ فیقام السبب مقام المسبب دون الدبر لعدمہا نوح آفندي‘‘(۱)
’’منہا إدخال أصبع ونحوہ کشبہ ذکر مصنوع من نحو جلد في أحد السبیلین علی المختار لقصور الشہوۃ‘‘(۲)
’’(ولا) عند (إدخال أصبع ونحوہ في الدبر ووطء بہیمۃ بلا إنزال) لقلۃ الرغبۃ کما مر‘‘(۳)
’’رجل أدخل اصبعہ في دبرہ وہو صائم الختلفوا في وجوب الغسل والقضاء والمختار إنہ لا یجب الغسل ولا القضاء لأن الأصبع لیس آلۃ للجماع فصار بمنزلۃ الخشبۃ‘‘(۱)

(۱) ابن عابدین، الدر المختارمع رد المحتار، ’’کتاب الطہارۃ: مطلب في تحریر الصاع والمد والرطل‘‘: ج ۱، ۳۰۴۔
(۲) الطحطاوي، حاشیۃ الطحطاوي علی مراقي الفلاح، ’’کتاب الطہارۃ: عشرۃ أشیاء لا یغتسل منہا‘‘: ص: ۱۰۱۔
(۳)علي حیدر، درر الحکام شرح مجلۃ الأحکام، ’’موجبات الغسل‘‘: ج ۱، ص: ۱۹۔(مکتبہ شاملہ)

(۱) ابن نجیم، البحر الرائق، ’’کتاب الطہارۃ‘‘: ج ۱، ص: ۱۱۱۔
 

 فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج3 ص326

 

 

نماز / جمعہ و عیدین

الجواب وباللّٰہ التوفیق:  جو عالم ماہر ہو، مگربلا عذر تارک جماعت ہو، تو وہ فاسق ہے، اس کی امامت مکروہ ہے، ناظرہ خواں امامت کے لیے بہتر ہے، کیوں کہ فاسق اگرچہ کتنا ہی بڑا عالم ہو امامت اس کی مکروہ ہے ، تاہم بلا تحقیق کسی عالم پر الزام نہ لگایا جائے۔(۲)

(۲) قال رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم إن سرکم أن تقبل صلاتکم فلیؤمکم علماء کم فإنہم وفدکم فیما بینکم وبین ربکم في روایۃ فلیؤمکم خیارکم۔۔۔۔۔۔ ولذا کرہ إمامۃ الفاسق العالم لعدم اہتمامہ بالدین فتجب إہانتہ شرعا فلا یعظم یتفرعہ للإمامۃ۔ (أحمد بن محمد، حاشیۃ الطحطاوي علی مراقي الفلاح، ’’کتاب الصلوۃ: باب الإمامۃ‘‘: ص: ۳۰۱، ۳۰۲، شیخ الہند دیوبند)
وأما الفاسق وقد عللوا کراہۃ تقدیمہ بأنہ لایہتم لأمر دینہ وبأن في تقدیمہ للإمامۃ تعظیمہ وقد وجب علیہم إہانتہ شرعًا، ولا یخفی أنہ إذا کان أعلم من غیرہ لاتزول العلۃ۔ (الحصکفي، رد المحتار، ’’کتاب الصلوۃ: باب الإمامۃ، مطلب في تکرار الجماعۃ في المسجد‘‘: ج۲، ص: ۲۹۹، زکریا دیوبند)

 

فتاوی دارالعلوم وقف دیوبندج5 ص117