ربوٰ وسود/انشورنس

Ref. No. 2160/44-2254

بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ اسلام میں سودی لین دین پر لعنت وارد ہوئی ہے اور سخت وعید آئی ہے، اسلئے کاروبار کی ترقی کے لئے سودی لون لینے کی بالکل اجازت نہیں ہوگی۔ ہم مسلمانوں کو حدیث پر عمل کرتے ہوئے سودی قرض لینے اور دینے سے لازمی طور پر بچنا  چاہئے ۔ دوسرے  لوگ سودی لون سے بظاہر ترقی کرتے نظر آئیں گے مگر ہماری ترقی مال و دولت کی فراوانی میں نہیں ہے بلکہ اللہ اور اس کے رسول ﷺ کی اطاعت میں ہے۔ اگر اللہ اور اس کے رسول ﷺ کی اطاعت کے جذبہ سے ہم سودی لین دین سے گریز کریں گے تو ان شاء اللہ ہمارے کاروبار میں برکت ہوگی اور پریشانیاں دور ہوں گی۔ جو کچھ آپ کے پاس ہے اسی میں محنت کیجئے، گراہک کے ساتھ  نرم رویہ رکھئے، اور خوش خلقی کا مظاہرہ کیجئے۔ اور دھوکہ دہی سے گریز کیجئے۔

عن جابر بن عبد اللّٰہ رضي اللّٰہ عنہما قال: لعن رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم آکل الربوا وموٴکلہ وکاتبہ وشاہدیہ، وقال: ہم سواء (الصحیح لمسلم، ۲: ۷۲، ط: المکتبة الأشرفیة دیوبند)۔

ولو أنھم آمنوا واتقوا لفتحنا علیھم برکٰت من السماء والأرض الخ (سورة الأعراف،رقم الآیة:۹۶)۔

واللہ اعلم بالصواب

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند

 

فقہ

Ref. No. 2230/44-2364

بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔   ہر مسلمان پربنیادی  دینی تعلیم کا حاصل کرنا فرض ہے،  اب اگر لوگ اس میں کوتاہی کررہے ہیں تو دوسرے مسلمان ان کی جس طرح ممکن ہو اس میں تعاون کریں، اور ان کو دینی تعلیم سے اور قرآن و سنت سے قریب کرنے کی کوشش کریں۔ ہر آدمی اپنے اعتبار سے اس میں محنت کرے، چنانچہ مدارس کا قیام، تبلیغی جماعت کا نظام، مساجد میں  درسِ تفسیر ، نمازوں کے بعد فضائل اعمال اور احادیث کی تعلیم اسی سلسلہ کی  کوششیں ہیں۔ بہت سے علماء   نے آن لائن  مدارس قائم کئے ہیں اور درس نظامی  کی تعلیم دیتے ہیں۔ ہر میدان میں لوگ کام کررہے ہیں ، لوگوں کے اندر طلب کی کمی ہے، اور لوگوں کے اندر طلب پیداکرنے کے لئے بھی لوگ مختلف انداز سے اپنی حیثیت کے مطابق کام کررہے ہیں۔ ہر شخص کے لئے ضروری ہے کہ اپنی حیثیت کے مطابق لوگوں کے تعاون میں لگارہے۔

واللہ اعلم بالصواب

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند

 

نماز / جمعہ و عیدین

Ref. No. 2365/44-3570

بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔   سوال میں مذکور غلطی کی بناء پر نماز فاسد نہیں ہوئی تھی، اور انفرادی طور پر بھی اعادہ کی ضرورت نہیں تھی، البتہ احتیاطا اعادہ صلوۃ کی وجہ سے کوئی گناہ نہیں ہوا ۔

"قال في شرح المنیة الکبیر:"القاعدة عند المتقدمین أن ما غیره تغیراً یکون اعتقاده کفراً تفسد في جمیع ذلک سواء کان في القرآن أو لم یکن إلا ما کان من تبدیل الجمل مفصولاً بوقف تام، ثم قال بعد ذلک: فالأولی الأخذ بقول المتقدمین". (إمداد المفتین، ص ۳۰۳)

"وإن غیر المعنی تغیراً فاحشاً فإن قرأ: ” وعصی آدم ربه فغوی “ بنصب میم ” اٰدم ورفع باء ” ربه “……… وما أشبه ذلک لو تعمد به یکفر، وإذا قرأ خطأً فسدت صلاته..." الخ (الفتاوی الخانیة علی هامش الهندیة، ۱: ۱۶۸، ط: المطبعة الکبری الأمیریة، بولاق، مصر)

"ومنها: ذکر کلمة مکان کلمة علی وجه البدل إن کانت الکلمة التي قرأها مکان کلمة یقرب معناها وهي في القرآن لاتفسد صلاته، نحو إن قرأ مکان العلیم الحکیم، وإن کان في القرآن، ولکن لاتتقاربان في المعنی نحو إن قرأ: "وعداً علینا إنا کنا غافلین" مکان {فاعلین} ونحوه مما لو اعتقده یکفر تفسد عند عامة مشایخنا،وهو الصحیح من مذهب أبي یوسف رحمه الله تعالی، هکذا في الخلاصة". (الفتاوی الهندیة، ۱: ۸۰،، ط: المطبعة الکبری الأمیریة، بولاق، مصر)

"وفي المضمرات: قرأ في الصلاة بخطإ فاحش ثم أعاد وقرأ صحیحاً فصلاته جائزة". (حاشیة الطحطاوي علی الدر المختار،۱: ۲۶۷ط: مکتبة الاتحاد دیوبند)

"ذکر في الفوائد: لو قرأ في الصلاة بخطإفاحش ثم رجع وقرأ صحیحاً ، قال: عندي صلاته جائزة". (الفتاوی الهندیة، ۱: ۸۲، ط: المطبعة الکبری الأمیریة، بولاق، مصر)ف

واللہ اعلم بالصواب

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند

 

اسلامی عقائد

Ref. No. 2409/44-3646

بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔  (١) حجام کی اجرت کے حلال یا حرام ہونے میں تفصیل یہ ہے کہ جو کام حرام ہیں یعنی داڑھی مونڈنا، ایک مشت سے کم کرنا یا بھنویں بنانا، ان کاموں کی اجرت بھی حرام ہے اور جو کام جائز ہیں جیسے سر کے بال کاٹنا، ان کی اجرت بھی حلال ہے اب اگر حجام اپنی حلال آمدنی سے قربانی میں شریک ہوتا ہے یا اس کی آمدنی مخلوط ہے لیکن حلال آمدنی غالب ہے تو اس صورت میں اس کو شریک کرنا جائز ہے، اگر اس کی آمدنی خالص حرام ہے یا یقینی طور پر معلوم ہے کہ وہ حرام آمدنی سے اجتماعی قربانی میں شریک ہو رہا ہے تو اس کو شریک کرنا جائز نہیں۔

(٢) اگرحرام آمدنی غالب ہے تو اس کی قربانی درست نہیں ہوگی، کیونکہ اللہ تعالیٰ طیب ہیں اور مال طیب ہی سے صدقہ وعبادت قبول کرتے ہیں، اگر اس ے پاس حلال مال نصاب کے بقدر ہو تو حلال مال سے یا پھر قرضہ لیکر قربانی کرے، تو پھر اس کو شریک کرنا درست ہے۔

’’قال رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم یا أیہا الناس ان اللہ طیب لا یقبل الا طیبا‘‘

(٣) جس پر قربانی واجب ہے اس کے لئے قربانی کا جانور ذبح ہونے تک بال وناخن نہ کاٹنا مستحت ہے، فرض یا واجب نہیں اس لئے اگر ایسے شخص نے بال یا ناخن کاٹ لئے تو اس کی قربانی جائز ودرست ہے اس میں کوئی کمی نہیں آئیگی۔

’’قال رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم من رأی ہلال ذي الحجۃ، فأراد أن یضحی یأخذ من شعرہ ولا من أظفارہ حتی یضحی‘‘ (مرقاۃ المفاتیح شرح مشکوٰۃ المصابیح: ج ٣، ص: ١٠٨١)

(٤) سونےکا نصاب ٨٧٠٤٨گراماورچاندیکانصاب٦١٢٠٣٦گرام ہے اگر کسی کے پاس تھوڑا سونا اور تھوڑی چاندی ہو جن کی قیمت ٦١٢گرام چاندی کی قیمت کےبرابرہوجائےتو ایسا شخص صاحب نصاب ہوتا ہے اور اس پر زکوٰۃ وقربانی لازم ہوتی ہے اس لئے صورت مذکورہ میں کیونکہ آپ ستر تولہ چاندی کے بقدر مال کے مالک ہیں تو آپ پر قربانی واجب ہے۔

واللہ اعلم بالصواب

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند

 

نماز / جمعہ و عیدین

Ref. No. 2454/45-3723

بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔  سوال میں اس کی وضاحت نہیں ہے کہ آپ نے قعدہ اخیرہ کے بعد سلام پھیرنے میں تاخیرکیوں  کی جوکہ واجب ہے ۔ اگر کوئی شرعی وجہ نہیں تھی ذہول ہوگیا تھا،  تو ایسی صورت میں سجدہ سہو لازم ہوگا۔ یادآنے پر سہو کا سجدہ کریں، اور پھر تشہد وغیرہ سے فارغ ہوکر سلام پھیردیں۔  

"في الظهيرية: لو شك بعد ما قعد قدر التشهد أصلى ثلاثًا أو أربعًا حتى شغله ذلك عن السلام، ثم استيقن و أتمّ صلاته فعليه السهو ا هـو علله في البدائع بأنه أخر الواجب وهو السلام ا هـ  و ظاهره لزوم السجود وإن كان مشتغلا بقراءة الأدعية أو الصلاة." )حاشية رد المحتار على الدر المختار (2/ 93)

زائدًا عن التشهد ) أي الأول أو الثاني سواء كان بعد الفراغ من الصلاة والأدعية أو قبلهما قوله : ( وجب عليه سجود السهو ) إذا شغله التفكر عن أداء واجب بقدر ركن." (حاشية على مراقي الفلاح شرح نور الإيضاح (ص: 307)

واللہ اعلم بالصواب

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند

 

حدیث و سنت

الجواب وباللّٰہ التوفیق:حضرت دحیہ کلبی رضی اللہ عنہ ہیں۔(۲)

(۲) دحیۃ بن خلیفۃ بن فروہ الخ وکان جبرئیل علیہ السلام ینزل علی صورتہ۔ (ابن حجر العسقلاني، الإصابۃ في تمییز الصحابۃ: ج ۲، ص: ۳۲۱)

فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج2ص129

تجارت و ملازمت

Ref. No. 2619/45-4004

بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔  اس طرح کے معاملہ میں جس میں مبیع بائع کی ملکیت میں ہی رہی ، مشتری کاکسی طرح حکما بھی اس پر قبضہ نہیں ہوا ،   مشتری کا اس کو بائع سے بیچنا جائز نہیں ہے، ہاں اگر بھٹہ والے نےآپ کی اینٹ  اس طور پر الگ کردی  کہ اگر آپ لینا چاہیں تو لے لیں اور بیچنا چاہیں تو بیچ دیں ، پھرآپ نے مالک بھٹہ کو وہ اینٹیں بیچ دیں تو یہ بیع جائز  ہے اور اس پر منافع لینا درست  ہے۔  لیکن اگر مبیع  پر  مشتری کا کسی طرح کا قبضہ نہیں ہوا تو یہ بیع جائز نہیں ہوگی۔

واللہ اعلم بالصواب

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند

 

نماز / جمعہ و عیدین

الجواب وباللّٰہ التوفیق: سوال میں جو جملہ اللہ تعالیٰ کی شان میں گستاخی کا مذکور ہے اگر وہ صحیح ہے، تو مذکورہ شخص بلا شبہ مرتد اور اسلام سے خارج ہو گیا، نیز دیگر مذکورہ امور بھی مشتبہ ہیں؛ اس لیے متولی، نمازی ومقتدی حضرات اور اہل محلہ پر اس کو فوراً امامت سے علاحدہ کر دینا واجب ہے۔(۱)

(۱) (قولہ: خلف من لا تکفرہ بدعتہ) فلا تجوز الصلاۃ خلف من ینکر شفاعۃ النبي صلی اللّٰہ علیہ وسلم أو  الکرام الکاتبین أو  الرؤیۃ لأنہ کافر، وإن قال لا یری لجلالہ وعظمتہ فہو مبتدع۔ (أحمد بن محمد،  حاشیۃ الطحطاوي علی مراقي الفلاح، ’’کتاب الصلاۃ: فصل في بیان الأحق بالإمامۃ‘‘: ص: ۳۰۳، مکتبہ شیخ الہند دیوبند)

(ویکرہ إمامۃ عبد … ومبتدع لا یکفر بہا … وإن) أنکر بعض ما علم من الدین ضرورۃ (کفر بہا) کقولہ إن اللّٰہ تعالیٰ جسم کالأجسام وإنکارہ صحبۃ الصدیق۔ (الحصکفي، رد المحتار مع الدرالمختار، ’’کتاب الصلاۃ: باب الإمامۃ، مطلب في تکرار الجماعۃ في المسجد‘‘: ج ۲، ص: ۳۰۱-۲۹۸)
وحاصلہ: إن کان ہویٰ لا یکفر بہ صاحبہ تجوز الصلاۃ خلفہ مع الکراہۃ وإلا فلا۔ (جماعۃ من علماء الہند، الفتاویٰ الہندیۃ، ’’کتاب الصلاۃ: الباب الخامس في الإمامۃ، الفصل الثالث في بیان من یصلح إماماً لغیرہ‘‘: ج ۱، ص: ۱۴۱، زکریا دیوبند)
 

فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج5 ص121

Games and Entertainment

Ref. No. 2745/45-4469

بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ ۔ حدیث میں ہماری نظر سے ایسا کوئی مضمون نہیں گزرا، اس لئے اس تعلق سے کوئی حتمی بات نہیں کہی جاسکتی ہے۔ اللہ تعالی مسجد اقصی کی حفاظت فرمائے۔آمین

واللہ اعلم بالصواب

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند

 

نماز / جمعہ و عیدین

الجواب وباللہ التوفیق:امام شافعی، امام مالک اور امام احمد رحمہم اللہ تعجیل عصر کو مستحب کہتے ہیں،سایہ ایک مثل ہوجائے تو فورا نماز عصر پڑھ لو، امام ابوحنیفہ رحمۃ اللہ علیہ اصفرارِ شمس سے پہلے پہلے تک عصر کی تاخیر کومستحب کہتے ہیں؛ البتہ اصفرارِ شمس تک نمازکو موخر کرنا مکروہ ہے۔یہ تاخیر اس وقت مستحب ہے جب آسمان میں بادل نہ ہواگر آسمان میں بدلی ہو تو تاخیر مستحب نہیںہے۔عصر کی نماز تاخیر سے پڑھنا احادیث سے ثابت ہے امام ترمذی رحمۃ اللہ علیہ نے یہ روایت نقل کی ہے: ’’أم سلمۃ، قالت: کان رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم أشد تعجیلا للظہر منکم، وأنتم أشد تعجیلا للعصر منہ‘‘(۱)
حضرت ام سلمہؓ فرماتی ہیں: کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم تم لوگوں سے زیادہ ظہر میں جلدی کرنے والے تھے اور تم لوگ عصر کی نماز میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے زیادہ جلدی کرنے والے ہو۔ ایک روایت طبرانی رحمۃ اللہ علیہ، بیہقی رحمۃ اللہ علیہ اور دارقطنی میں رافع بن خدیج کی ہے وہ کہتے ہیں:
’’أن رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم: کان یأمر بتأخیر العصر‘‘(۱)
اسی طرح طبرانی وغیر ہ میں ہے کہ ابن مسعود رضی اللہ عنہ عصر کی نماز تاخیر کرکے پڑھتے تھے۔
(أن ابن مسعود رضي اللّٰہ عنہ، کان یؤخر العصر‘‘(۲)
روایتوں میں آتاہے کہ حضرت ابن مسعود رضی اللہ عنہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے فعل کی اتباع میں پیش پیش تھے، جب یہ متبع سنت ہیں تو ان کا دیر سے عصر پڑھنا دلیل ہے کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم بھی تاخیر سے پڑھتے تھے۔
امام محمد رحمۃ اللہ علیہ نے موطأ میں تاخیر عصر پر ایک استدلال کیا ہے۔ فرماتے ہیں: عصر کے معنی ہی لغت میں تاخیر کے آتے ہیں ’’سمی العصر عصرا لانہا تعصر أي تؤخر‘‘ عصر کا نام عصر اس لیے رکھا گیا کہ عصر کے معنی لغت میں تاخیر کے آتے ہیں تو اگر تاخیر کردی جائے تو معنی لغوی کی بھی رعایت ہوجائے گی؛ کیوں کہ شرعی افعال کے ناموں میں لغوی معنی کی رعایت پائی جاتی ہے۔
دوسری بات: یہ سب مانتے ہیں کہ عصر کے بعد نفل نماز پڑھنا ممنوع ہے اگر عصر جلدی سے پڑھ لی جائے تو نفل پڑھنے کا موقع نہیں ملے گا اور اگر عصر کی نماز تاخیر سے پڑھی جائے تو زیادہ سے زیادہ نفل پڑھنے کا موقع ملے گا اس لیے کثرت نفل کا تقاضا ہے کہ عصر کی نماز کو مؤخر کیا جائے۔

(۱) أخرجہ الترمذي، في سننہ، أبواب الصلوات ’’ باب ماجاء في تاخیر صلاۃ العصر‘‘: ج ۱، ص: ۴۲، رقم: ۱۶۱، دارالکتاب، دیوبند۔
(۱) الطبراني، في المعجم الکبیر  ’’باب عبد اللّٰہ بن رافع بن خدیج‘‘: ج ۳، ص: ۸۵، رقم: ۴۳۷۶؛ وسنن دارقطني، ’’کتاب الصلاۃ، باب ذکر بیان المواقیت واختلاف الروایات في ذلک‘‘: ج ۲، ص: ۳۶۱، رقم: ۹۷۸؛و سنن الکبری للبیہقي، ’’کتاب الصلاۃ، باب تعجیل صلاۃ العصر‘‘: ج ۳، ص: ۲۷۰، رقم: ۲۰۸۴۔
(۲) الطبراني، في المعجم الکبیر، ج ۳، ص: ۱۲۲، رقم: ۹۲۷۹۔

 

 فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج4 ص95