حدیث و سنت

الجواب وباللّٰہ التوفیق:رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: ’’اتبعوا السواد الأعظم فإنہ من شذ شذ في النار‘‘(۱) سواد اعظم کی پیروی کرو کیونکہ جو اس سے الگ ہوا وہ جہنم میں گیا، سواد اعظم سے مراد بڑی جماعت، حق پر چلنے والی جماعت ہے۔ اس کا مصداق اہل سنت والجماعت ہے۔ اور اہل سنت والجماعت سے مراد وہ حضرات ہیں جو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت اور صحابہ کرام رضوان اللہ عنہم اجمعین کے طریقے پر چلتے ہیں۔
’’أہل السنۃ والجماعۃ ہم الفرقۃ الناجیۃ والطائفۃ المنصورۃ أخبر النبي صلی اللّٰہ علیہ وسلم عنہم بأنہم یسیرون علی طریقتہ وأصحابہ الکرام دون انحراف؛ فہم أہل الإسلام المتبعون للکتاب والسنۃ المجانبون لطرق أہل الضلال‘‘(۲)
’’عن أنس بن مالک رضي اللّٰہ عنہ یقول: سمعت رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم: یقول: إن أمتي لا تجمع علی ضلالۃ فإذا رأیتم اختلافاً فعلیکم بالسواد الأعظم‘‘۔(۳)
انس بن مالک رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو فرماتے ہوئے سنا: ’’میری امت گمراہی پر کبھی جمع نہ ہوگی؛ لہٰذا جب تم اختلاف دیکھو سواد اعظم (بڑی جماعت) کو لازم پکڑو‘‘۔

(۱) ملا علي قاري، مرقاۃ المفاتیح، ’’کتاب الإیمان: باب الاعتصام بالکتاب والسنۃ‘‘: ج ۱، ص: ۳۸۳، رقم: ۱۷۴۔
(۲) الندوۃ العالمیۃ للشباب الإسلامي، الموسوعۃ المیسرۃ: ج ۱، ص: ۳۶۔
(۳) أخرجہ ابن ماجۃ، في سننہ، ’’أبواب الفتن، باب السواد الأعظم‘‘: ج ۲، ص: ۲۸۳، رقم: ۳۹۵۰۔


فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج2ص121

حدیث و سنت
الجواب وباللّٰہ التوفیق:حضرت نوح علیہ السلام کے تین لڑکے تھے حام، سام، یافث۔ حام کی اولاد افریقی ممالک کے لوگ اور بعض نے ہندوستان کے باشندے مراد لئے ہیں اور سام کی اولاد اہل عرب، روم اور فارس کے لوگ ہیں اور یافث کی اولاد میں یاجوج ماجوج اور ترک، منگول وغیرہ ہیں۔ (۱) (۱) مفتي محمد شفیع العثمانيؒ، معارف القرآن: ج ۷، ص: ۴۴۴۔ فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج2ص218

طہارت / وضو و غسل

الجواب وباللّٰہ التوفیق:(۱)اگر عورت اپنی شرم گاہ میں انگلی داخل کرے، نہ شہوت ہو اور نہ ہی انزال ہو، تو غسل واجب نہیں ہوگا، ہاں اگر اس عمل کی وجہ سے شہوت پیدا ہوجائے تو محتاط قول کے مطابق غسل واجب ہے (و)لا عند (إدخال إصبع و نحوہ) کذکر غیر آدمي و ذکر خنثی و میت و صبي لا یشتہي وما یصنع من نحو خشب (في الدبر أو القبل) علی المختار… (بلا إنزال) لقصور الشہوۃ أما بہ فیحال علیہ… (قولہ: علی المختار) قال في التجنیس : رجل أدخل إصبعہ في دبرہ وھو صائم اختلف في وجوب الغسل والقضاء۔ والمختار أنہ لا یجب الغسل ولا القضاء؛ لأن الإصبع لیس آلۃ للجماع فصار بمنزلۃ الخشبۃ ذکرہ في الصوم، و قید بالدبر، لأن المختار وجوب الغسل في القبل إذا قصدت الاستمتاع: لأن الشہوۃ فیھن غالبۃ فیقام السبب مقام المسبب دون الدبر لعدمہا نوح افندی… (قولہ: أما بہ) أي أما فعل ہذہ الأشیاء المصاحب للإنزال فیحال وجوب الغسل علی الإنزال۔ (۱)
(۲) اگر کسی دوسری عورت نے یا ڈاکٹر نے شرم گاہ میں انگلی داخل کی اور انزال نہیں ہوا، تو غسل واجب نہیں ہوگا۔
(۳) اگر شوہر نے بیوی کی شرم گاہ (فرج) میں انگلی داخل کی اور عورت کو اس سے شہوت نہیں ہوئی، تو اس صورت میں غسل واجب نہیں ہوگا؛ البتہ اگرمیاں بیوی شہوت کی بنا پر یہ عمل کریں اور شوہر اپنی انگلی عورت کی شرم گاہ میں داخل کرے، تو بعض فقہاء کے قول کے مطابق غسل لازم ہوجاتا ہے، احتیاط اسی قول میں ہے۔ لہٰذا شہوت ہونے کی صورت میں عورت غسل کرے اور اگر مرد کے انگلی داخل کرنے کی وجہ سے عورت کی منی خارج ہوگئی، تو عورت پر بالاتفاق غسل واجب ہوجائے گا۔ (قولہ وفي فتح القدیر أن في إدخال الإصبع الدبر خلافاً الخ) ذکر العلامۃ الحلبی ھنا تفصیلاً، فقال: والأولی أن یجب في القبل إذا قصد الاستمتاع لغلبۃ الشہوۃ: لأن الشہوۃ فیھن غالبۃ فیقام السبب مقام المسبب وھو الإنزال دون الدبر بعدمھا۔(۱)

(۱)ابن عابدین، الدر المختار مع رد المحتار ’’کتاب الطہارۃ، قبیل مطلب في رطوبۃ الفرج‘‘ ج۱، ص: ۳۰۵
(۱) ابن نجیم البحر الرائق، ج۱، ص:۱۱۱

 

 فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج3 ص319

 

نماز / جمعہ و عیدین

الجواب وباللّٰہ التوفیق: صورت مسئولہ میں اگر امام متعین ہے تو وہ نماز پڑھائے اور اگر مقرر نہیں ہے تو مقرر کرلیا جائے جو پابند شریعت اور امامت کے لائق ہو، امام کے مقرر نہ ہونے کی صورت میں زید سے امامت کرائیں، اس لیے کہ وہ اعلم بالسنۃ اور پابند شرع ہے۔ بکر تو ڈاڑھی بھی کٹاتا ہے اور ایک مشت سے کم رکھتا ہے اس لیے اس کی امامت مکروہ تحریمی ہے، البتہ فرض ادا ہوجاتا ہے، اعادہ کی ضرورت نہیں ہے۔(۱)

(۱) والأحق بالإمامۃ الأعلم بأحکام الصلوۃ فقط صحۃ وفساداً بشرط اجتنابہ للفواحش الظاہرۃ، وحظہ قدر فرض ثم۔ الأحسن تلاوۃ وتجویداً للقراء ۃ ثم الأورع ثم الأسن ثم الأحسن الخ۔ (ابن عابدین،  رد المحتار، ’’کتاب الصلوۃ، باب الإمامۃ، مطلب في تکرار الجماعۃ في المسجد‘‘: ج۲، ص: ۲۹۴)
إن سرکم أن تقبل صلوٰتکم فلیؤمکم خیارکم۔ (المعجم الکبیر للطبراني، ’’باب أما أسند مرثد بن أبي مرثد الغنوي‘‘: رقم: ۷۷۷)
وأما الأخذ منہا وہي دون ذلک کما فعلہ بعض المغاربۃ ومخنثۃ الرجال فلم یبحہ أحد، وأخذ کلہا فعل یہود الہند ومجوس الأعاجم۔(ابن عابدین، رد المحتار، ’’کتاب الصوم، باب مایفسد الصوم ومالایفسدہ، مطلب في الأخذ من اللحیۃ‘‘: ج ۳، ص: ۳۹۸)
صلی خلف فاسق أو مبتدع نال فضل الجماعۃ۔ قولہ: نال فضل الجماعۃ أفاد أن الصلاۃ خلفہما أولیٰ من الإنفراد، لکن لا ینال کما ینال خلف تقي ورع۔ (ابن عابدین، رد المحتار، ’’کتاب الصلوۃ، باب الإمامۃ، مطلب في إمامۃ الأمرد‘‘: ج۲، ص: ۳۰۱، ۳۰۲)

فتاوی دارالعلوم وقف دیوبندج5 ص112


 

طہارت / وضو و غسل

الجواب وباللّٰہ التوفیق:طہارت کرنے کے بعد جو پانی رانوں پر لگا رہتا ہے، وہ پاک ہے، اس کے قطرات ٹپک کر اگر کپڑے پر یا بدن کے دوسرے حصے پر لگ جائیں، تو اس پانی سے بدن یا کپڑے ناپاک نہیں ہوںگے اس میں کوئی شبہ نہ کیا جائے۔(۱)

(۱) قد قال في المجتبیٰ: صحت الروایۃ عن الکل أنہ طاھر غیر طھور فالاشتغال بتوجیہ التغلیظ والتخفیف مما لا جدوی لہ۔ (ابن عابدین، رد المحتار، ’’کتاب الطہارۃ، باب المیاہ مطلب في تفسیر القربۃ والثواب‘‘ ج۱،ص:۳۵۲) قال مشائخ العراق: إنہ طاھر عند أصحابنا۔ واختار المحققون من مشائخ ماوراء النھر طہارتہ و علیہ الفتویٰ(ابن الہمام، فتح القدیر، ’’کتاب الطہارات، باب الماء الذي یجوز بہ الوضوء ومالایجوز‘‘  ج۱، ص۹۰)
 

فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج3 ص407

نماز / جمعہ و عیدین

الجواب وباللّٰہ التوفیق: حنفی مسلک میں جمعہ کی نماز میں تعجیل کرنا افضل ہے البتہ نمازیوں کی تعداد اور سہولت کے پیش نظر باہم مشورہ سے کچھ تاخیر بھی ہو جائے تواس میں کوئی مضائقہ نہیں ہے، واضح رہے کہ ظہر کی نماز موسم گرما میں تاخیر سے ادا کرنا مستحب ہے، جمعہ میں  تاخیر کرنا مستحب نہیں ہے بلکہ جمعہ میں تعجیل افضل ہے جیسا کہ احادیث سے بھی ثابت ہے امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے ایک روایت نقل کی ہے۔
’’عن أنس بن مالک رضي اللّٰہ عنہ أن رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم، کان یصلي الجمعۃ حین تمیل الشمس‘‘(۱)
’’(وجمعۃ کظہر أصلا واستحبابا) في الزمانین؛ لأنہا خلفہ‘‘۔ وقال ابن عابدین رحمہ اللّٰہ: (واستحبابا في الزمانین) أي الشتاء والصیف، لکن جزم في الأشباہ من فن الأحکام أنہ لا یسن لہا الإبراد …… وقال الجمہور: لیس بمشروع؛ لأنہا تقام بجمع عظیم، فتأخیرہا مفض إلی الحرج ولا کذلک الظہر وموافقۃ الخلف لأصلہ من کل وجہ لیس بشرط‘‘(۲)

(۱) أخرجہ البخاري، في صحیحہ، ’’کتاب الجمعۃ: باب وقت الجمعۃ إذا زالت الشمس‘‘: ج ۱، ص: ۱۲۳، رقم: ۹۰۴، مکتبہ فیصل، دیوبند۔
(۲) ابن عابدین، رد المحتارعلی الدر المختار، ’’کتاب الصلاۃ: مطلب: في طلوع من مغربہا‘‘: ج ۲، ص: ۲۵،۲۶، مکتبہ زکریا، دیوبند۔

 فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج4 ص85

 

نماز / جمعہ و عیدین

الجواب وباللّٰہ التوفیق: امام کے پیچھے محاذات میں کھڑے ہوکر تکبیر کہنے کا تعامل ہے اس لیے یہ ہی افضل ہے ؛البتہ حسب ضرورت وحسب موقع جس طرح اور جس موقع پر کھڑا ہوکر تکبیر کہے وہ درست ہے۔ شرعی ضرورت کے بغیر خوا مخواہ ادھر ادھر کھڑے ہوکر تکبیر کہنے کی عادت بنا لینا خلاف اولیٰ ہے۔ مگر تکبیر کا اعادہ نہیں ہوگا۔(۱)

(۱) ویقیم علی الأرض ہکذا في القنیۃ، وفي المسجد، ہکذا في البحر الرائق۔ (جماعۃ من علماء الہند، الفتاویٰ الھندیۃ، ’’کتاب الصلاۃ‘‘: الباب الثاني في الأذان، الفصل الثاني في کلمات الأذان والإقامۃ وکیفیتہما، ج۱ ،ص: ۱۱۲)
ویسن الأذان في موضع عال والإقامۃ علی الأرض۔ (ابن نجیم، البحر الرائق، ’’کتاب الصلاۃ: باب الأذان‘‘: ج ۱، ص: ۴۴۳)

 

 فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج4 ص208

نماز / جمعہ و عیدین

الجواب وباللّٰہ التوفیق: خلاف سنت ومکروہ ہے مگر نماز ادا ہوجائے گی۔(۲)
’’یکرہ اشتمال الصماء والاعتجار والتلثم، قال الشامي: قولہ: والتلثم وہو تغطیۃ الأنف والفم في الصلاۃ لأنہ یشبہ فعل المجوس حال عبادتہم النیران‘‘(۱)

(۲) قال صلی اللّٰہ علیہ وسلم أمرت أن أسجد علی سبعۃ أعظم وأن لا أکف شعرا ولا ثوبا متفق علیہ، ذکرہ في البرہان، وکذا یکرہ الاشتمالۃ الصماء في الصلاۃ وہو أن یلف بثوب واحد رأسہ وسائر بدنہ ولا یدع منفذا لیدہ وہل یشترط عدم الائتزار مع ذلک عن محمد یشترط وغیرہ لا یشترطہ ویکرہ الاعتجار وہو أن یلف العمامۃ حول رأسہ ویدع وسطہا کما یفعلہ الدعرۃ ومتوشحا لا یکرہ وفي ثوب واحد لیس علی عاتقہ بعضہ یکرہ إلا لضرورۃ کما في فتح القدیر۔ (ملا خسرو الحنفي، درر الحکام شرح غرر الاحکام، ’’مکروہات الصلاۃ‘‘: ج۱، ص: ۱۰۶)
ویکرہ لبسۃ الصماء، وروی الحسن عن أبي حنیفۃ أنہا کالاضطباع،…وإنما کرہہا؛ لأنہا من لباس أہل الأثر والبطر، وفي البخاري أنہ علیہ السلام نہی عن لبسۃ الصماء فقال: إنما یکون الصماء إذا لم یکن علیک إزار۔ قیل: ہی اشتمال الیہود۔ وقال الجوہري عن أبي عبید: اشتمال الصماء أن تخلل جسدک بثوبک نحو سلمۃ الأعراب بأکیستہم وہي أن یرد الکساء من قبل یمینہ علی یدہ الیسری وعاتقہ الأیسر ثم یردہ ثانیۃ من خلفہ علی یدہ الیمنی أو عاتقہ الأیمن فیغطیہا۔ وقیل: أن یشتمل بثوبہ فیخلل جسدہ کلہ ولا یرفع جانبا یخرج یدہ منہ۔ وقیل: أن یشتمل ثوب واحد لیس علیہ إزار، وفي مشارق الأنوار ہو الالتفاف في ثوب واحد من رأسہ إلی قدمیہ یخلل بہ جسدہ کلہ وہو التلفف، قال سمیت بذلک واللّٰہ أعلم لاشتمالہا علی أعضائہ حتی لا یجد مستقرا کالصخرۃ الصماء أو یشدہا وضمہا جمیع الجسد، ومنہ صمام القارورۃ الذي تسد بہ فوہا۔ (العیني، البنایۃ شرح الھدایۃ، ’’باب ما فسد الصلاۃ و ما یکرہ فیھا، فصل في العوارض‘‘: ج ۲، ص: ۴۴۷)
(۱)ابن عابدین، رد المحتار، ’’کتاب الصلاۃ: باب ما یفسد الصلاۃ   وما یکرہ فیہا‘‘: ج ۲، ص: ۴۲۳۔


 

فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج6 ص168


 

اسلامی عقائد

Ref.No.2837/45-4487

بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ تراویح سنانے والے حافظ کے لئے سامع کا ہونا ضروری نہیں ہے، بلکہ اس کو اچھا یاد ہونا ضروری ہے۔ سامع کے ہونے نہ ہونے سے تراویح کی نماز میں کوئی فرق نہیں آئے گا، البتہ اگر سامع ہو تو حافظ کے لئے آسانی ہوتی ہے۔

واللہ اعلم بالصواب

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند

 

نماز / جمعہ و عیدین

Ref. No. 1009

الجواب وباللہ التوفیق                                                                                                                                                        

بسم اللہ الرحمن الرحیم: اگر چند  نمازیں  کسی وجہ سے چھوٹ جائیں  توان کی قضاء  کرتے وقت  ترتیب کا خیال رکھنا ضروری ہے۔خندق کے موقع پر  نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم  کی چار نمازیں  رہ گئی تھیں تو آپ نے بالترتیب ان کی قضاء فرمائی تھی۔ نیز حضرت ابن عمر کی روایت ہے : ان النبی صلی اللہ علیہ وسلم قال : من نسی صلاۃ فلم یذکرھا الا وھو مع الامام فلیصل مع الامام ولیجعلھا تطوعا ثم لیقض ماتذکر ثم لیعد ماکان صلاہ مع الامام۔مزید تفصیل کے لئے  دیکھئے بدائع ج1،ص339،338۔ واللہ اعلم بالصواب

 

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند