Frequently Asked Questions
طہارت / وضو و غسل
الجواب وباللّٰہ التوفیق:ناسور اگر ہر وقت بہتا ہے، تو وہ معذور ہے۔(۲)
(۲)تتوضأ المستحاضۃ ومن بہ عذر کسلس بول أو استطلاق بطن و انفلات ریح و رعاف دائم و جرح لا یرقأ … یتوضؤن لوقت کل فرض۔ (الشرنبلالي، نورالإیضاح مع المراقي والطحطاوي، ’’کتاب الطہارۃ، باب الحیض والنفاس والاستحاضۃ‘‘ ج۱، ص:۱۴۹) ؛ ولا یصیر معذوراً حتی یستوعبہ العذر وقتا کاملاً لیس فیہ انقطاع بقدر الوضوء والصلاۃ، إذ لو وجد، لا یکون معذوراً۔ (أیضاً، ص:۱۵۰)؛ و صاحب عذر من بہ سلس … إن استوعب عذرہ تمام وقت صلاۃ مفروضۃ بأن لا یجد في جمیع وقتھا زمنا یتوضأ و یصلّي فیہ خالیا عن الحدث۔ (ردالمحتار علی الدر المختار،’’ کتاب الطہارۃ، باب الحیض، مطلب في أحکام المعذور‘‘ ج۱،ص:۵۰۴)
فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج3 ص411
نماز / جمعہ و عیدین
الجواب وباللّٰہ التوفیق: ان بعض مقتدیوں کے قول پر توجہ نہ دیجئے مذکورہ امام کے پیچھے نماز صحیح ادا ہوجاتی ہے۔(۱)
(۱) وشروط صحۃ الإمامۃ للرجال الأصحاء ستۃ أشیاء: الإسلام، والبلوغ، والعقل، والذکورۃ، والقراء ۃ، والسلامۃ من الأعذار کالرعاف والفأفأۃ والتمتمۃ واللثغ، وفقد شرط کطہارۃ وستر عورۃ۔ (الشرنبلالي، نور الإیضاح، ’’کتاب الصلاۃ: باب الإمامۃ‘‘: ص: ۷۸، ۷۷، مکتبہ عکاظ دیوبند)
لقولہ علیہ السلام: صلوا خلف کل برو فاجر الخ۔ (أحمد بن محمد، حاشیۃ الطحطاوي علی مراقي الفلاح، ’’کتاب الصلاۃ: باب الإمامۃ‘‘: ص: ۳۰۳، شیخ الہند دیوبند)
فتاویٰ دارالعلوم وقف دیوبند ج5 ص318
نماز / جمعہ و عیدین
الجواب وباللہ التوفیق:احتیاطاً پندرہ بیس منٹ پر عمل کرنا چاہئے؛ کیوں کہ طلوع آفتاب پورے طور ہو جانے کے بعد اشراق کا وقت شروع ہوجاتا ہے۔
’’قال العلامۃ سراج أحمد في شرح الترمذي لہ إن المتعارف في أول النہار صلاتان الأولی بعد طلوع الشمس وارتفاعہا قدر رمح أو رمحین، ویقال لہا صلاۃ الإشراق، والثانیۃ عند ارتفاع الشمس قدر ربع النہار إلی ما قبل الزوال ویقال لہا صلاۃ الضحیٰ واسم الضحیٰ في کثیر من الأحادیث شامل لکلیہما و قد ورد في بعضہا لفظ الإشراق أیضاً‘‘(۱)
’’عن أنس رضي اللّٰہ عنہ، قال: قال رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم من صلیٰ الفجر في جماعۃ ثم قعد یذکر اللّٰہ تعالیٰ حتی تطلع الشمس ثم صلی رکعتین کانت لہ کأجر حجۃ وعمرۃ قال: قال رسول للّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم تامۃ تامۃ تامۃ‘‘(۲)
’’عن أبي الدرداء وأبي ذر رضي اللّٰہ عنہما قالا: قال رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم: عن اللّٰہ تبارک وتعالیٰ أنہ قال یا ابن آدم لاتعجزنی في من أربع رکعات من أول النہار اکفک آخرہ‘‘(۳)
(۱) ظفر أحمد العثماني، إعلاء السنن، کتاب الصلاۃ: ج ۷، ص: ۲۴۔
(۲) أخرجہ الترمذي، في سننہ، ’’باب ما ذکر مما یستحب من الجلوس في المسجد بعد صلاۃ الصبح حتی تطلع الشمس‘‘: ج ۱، ص: ۱۳۰، رقم: ۵۸۶، مکتبہ: نعیمیہ، دیوبند۔
(۳) البغوی، مشکوٰۃ المصابیح، ’’کتاب الصلوۃ، باب صلوٰۃ الضحیٰ، الفصل الثاني‘‘: ج ۱، ص: ۱۱۵، ۱۱۶، رقم: ۱۳۱۳۔
فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج4 ص91
نماز / جمعہ و عیدین
الجواب وباللّٰہ التوفیق: مذکورہ صورت بھی قواعد کے لحاظ سے صحیح ہے، اس میں کوئی مضائقہ نہیںہے۔ اقامت کا مسنون طریقہ یہ ہے کہ ایک سانس میں چار مرتبہ ’’اللّٰہ أکبر‘‘ کہا جائے اور ہر ’’اللّٰہ أکبر‘‘ کی راء پر سکون کیا جائے اور اگر ملا کرپڑھیں تو راء پر حرکت ظاہرکی جائے ’’حي علی الصلوٰۃ اور حي علی الفلاح‘‘ دونوں ایک سانس میں دو دو بار پڑھیں، آخر حرف کو ساکن پڑھیں۔
’’وحاصلہا أن السنۃ لیسکن الراء من اللّٰہ أکبر الأولیٰ أو یصلہا باللّٰہ أکبر الثانیۃ، فإن سکتہا کفی وإن وصلہا نوی السکون فحرک الراء بالفتحۃ‘‘(۱)
(۱) ابن عابدین، رد المحتار، ’’کتاب الصلاۃ، باب الأذان‘‘: مطلب في الکلام علی حدیث الأذان جزم، ج ۲، ص: ۵۲، زکریا دیوبند۔
فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج4 ص212
نماز / جمعہ و عیدین
الجواب وباللہ التوفیق: مسبوق کے لیے سجدہ سہو کے احکام بیان کرتے ہوئے علامہ کاسانیؒ نے بدائع الصنائع میں درج ذیل وضاحتیں کی ہیں:
مسبوق (جس مقتدی کی ایک، دو یا تین رکعت چھوٹ گئی ہو) سجدہ سہو میں امام کی متابعت یعنی پیروی کرے گا، سلام پھیرنے میں امام کی پیروی نہ کرے؛ بلکہ مسبوق امام کا انتظار کرے کہ وہ سلام پھیر کر سجدہ سہو کرے تو مسبوق بھی سجدہ سہو کرے۔ اور سجدہ سہو میں امام کی متابعت اور پیروی کرے۔ آخری سلام پھیرنے میں مسبوق امام کی متابعت ہرگز نہ کرے۔ اور اگر سلام پھیرنے میں جان بوجھ کر امام کی پیروی کی تو اس صورت میں مقتدی کی نماز فاسد ہو جائے گی یعنی ٹوٹ جائے گی؛ لیکن بھول کر پیروی کی تو نماز فاسد نہیں ہو گی اور مسبوق پر سجدہ سہو بھی نہیں ہوگا، کیوں کہ وہ مقتدی ہے اور مقتدی کا سہو باطل ہوتا ہے۔ اور جب امام آخری سلام پھیرے تو مسبوق امام کے ساتھ سلام نہ پھیرے؛ اس لیے کہ امام کا سلام نماز سے باہر آنے کے لیے ہے اور مسبوق پر ابھی ارکانِ نماز باقی ہیں۔
’’ثم المسبوق إنما یتابع الإمام في السہو دون السلام، بل ینتظر الإمام حتی یسلم فیسجد فیتابعہ في سجود السہو، لا في سلامہ، وإن سلم فإن کان عامدا تفسد صلاتہ، وإن کان ساہیا لا تفسد ولا سہو علیہ لأنہ مقتد، وسہو المقتدی باطل، فإذا سجد الإمام للسہو یتابعہ في السجود ویتابعہ في التشہد، ولا یسلم إذا سلم الإمام لأن السلام للخروج عن الصلاۃ وقد بقي علیہ أرکان الصلاۃ‘‘(۱)
خلاصہ: مذکورہ عبارتوں کی روشنی میں یہ واضح ہو جاتی ہے کہ مسبوق امام کے ساتھ سلام نہیں پھیرے گا، اور اگر مسبوق نے امام کے ساتھ جان بوجھ کر سلام پھیر لیا تو اس صورت میں مسبوق کی نماز ٹوٹ جائے گی؛ البتہ اگر مسبوق بھول کر امام کے ساتھ سلام پھیرا ہے، تو اس کی نماز درست ہو جائے گی اور مسبوق پر سجدہ سہو بھی لازم نہیں آئے گا، نیز مسبوق ہر حال میں امام کے ساتھ سجدہ سہو کرے گا خواہ امام کی وہ بھول مسبوق کے نماز میں شامل ہونے سے پہلے یا بعد میں ہوئی ہو، مسبوق پر امام کے ساتھ سجدہ سہو کرنا ضروری ہے، اگر مسبوق سجدہ سہو نہ کیا تو نماز فاسد ہو جائے گی اور اعادہ ضروری ہوگا۔
(۱) الکاساني، بدائع الصنائع في ترتیب الشرائع، ’’کتاب الصلاۃ: بیان من یجب علیہ سجود السہو و من لا یجب علیہ‘‘: ج ۱، ص:۴۲۲( دارالکتاب، دیوبند)
فتاویٰ دارالعلوم وقف دیوبند ج6 ص50
نماز / جمعہ و عیدین
الجواب وباللّٰہ التوفیق: اس طرح محراب میں کھڑا ہونا کہ پیر بھی باہر نہ ہوں مکروہ ہے اور اگر ایڑیاں باہر ہوں تو کوئی کراہت نہیں نماز بہر صورت ادا ہوجاتی ہے۔(۱)
(۱) وقیام الإمام في المحراب لاسجودہ فیہ وقدماہ خارجہ لأن العبرۃ للقدم۔ (الحصکفي، الدر المختار مع رد المحتار، ج۲، ص: ۴۱۴)
ویکرہ قیام الإمام وحدہ في الطاق وہو المحراب، ولا یکرہ سجودہ فیہ إذا کان قائماً خارج المحراب۔ (جماعۃ من علماء الہند، الفتاویٰ الہندیۃ، ’’الباب السابع، الفصل الثاني فیما یکرہ في الصلاۃ وما لایکرہ‘‘: ج ۱، ص:۱۶۷)
فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج6 ص173
The Holy Qur’an & Interpretation
Ref. No. 838 Alif
الجواب وباللہ التوفیق
اس میں نماز کی پابندی کی طرف توجہ دلائی گئی ہے، اور یہ اطلاع ہے کہ اس کے ذریعہ سے آپ کی ہر طرح سے حفاظت ہوگی۔ واللہ تعالی اعلم
دارالافتاء
دارالعلوم وقف دیوبند
زکوۃ / صدقہ و فطرہ
Ref. No. 1240 Alif
الجواب وباللہ التوفیق
بسم اللہ الرحمن الرحیم-:۱۔ زکوة کی رقم پوری ایک ساتھ کسی کو دینا ضروری نہیں بلکہ حسب موقع و ضرورت تھوڑا تھوڑا دینا بھی درست ہے ۔
۲۔ اگر اس شخص کی ملکیت میں بقدرنصاب مال نہیں ہے تو اس کو زکوة کی رقم دے سکتے ہیں۔ واللہ اعلم بالصواب
دارالافتاء
دارالعلوم وقف دیوبند
Business & employment
Ref. No. 38 / 1113
In the name of Allah the most Gracious the most Merciful
The answer to your question is as follows:
Network marketing involves conditions which are invalid according to Islamic rulings. Hence it is not allowed to become a member of network marketing to take commission from the work of the persons below you while you do not have a share in their work etc.
And Allah Knows Best
Darul Ifta
Darul Uloom Waqf Deoband
تجارت و ملازمت
Ref. No. 40/1046
الجواب وباللہ التوفیق
بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ حلال کاروبار میں شرعا کسی کے لئے کوئی قباحت نہیں ۔ واللہ اعلم بالصواب
دارالافتاء
دارالعلوم وقف دیوبند