Frequently Asked Questions
نماز / جمعہ و عیدین
Ref. No 2453/45-3724
بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ معنی میں ایسا تغیر ہوا ہے جو فاحش ہے اس لئے نماز درست نہیں ہوئی، لہذا نماز کا اعادہ کیاجائے گا۔
واللہ اعلم بالصواب
دارالافتاء
دارالعلوم وقف دیوبند
حدیث و سنت
الجواب وباللّٰہ التوفیق:کتاب فردوس سے جن الفاظ سے آپ نے حدیث نقل کی ہے، وہ کتب صحاح ستہ میں نہیں ہے؛ البتہ دیگر احادیث موجود ہیں، جن سے علماء کی عزت اور ان کے احترام کرنے کا حکم ملتا ہے۔ بخاری شریف میں ہے ’’إن علماء ہم ورثۃ الأنبیاء، ورّثوا العلم من أخذہ أخذ بحظ وافر‘‘(۱) قرآن کریم میں ہے: {إنما یخشی اللّٰہ من عبادہ العلماء، وما یعقلہا الالعالمون، وقال ہل یستوی الذین یعلمون والذین لا یعلمون، من یرد اللّٰہ بہ خیراً یفقہ في الدین، وأما العلم بالتعلیم} دین ومذہب اور احکامِ شریعت سے واقف کردینے والے علماء حق ہی ہیں، اگر ان کا اتباع نہ کیا جائے، تو ضلالت وگمراہی پھیل جائے۔(۱)
(۱) عن قیس بن کثیر عن أبي الدرداء رضي اللّٰہ عنہ، أن الني صلی اللّٰہ علیہ وآلہ وسلم، قال: من سلک طریقاً یطلب فیہ علماً سہل اللّٰہ لہ طریقاً إلی الجنۃ، وأن الملائکۃ لتضع أجنحتہا رضي لطالب العلم، وأن العالم لیستغفر لہ من في السموٰت ومن في الأرض، حتی الحیتان في الماء۔ وفضل العالم علی العابد کفضل القمر لیلۃ البدر علی سائر الکواکب، وأن العلماء ورثۃ الأنبیاء، وأن الأنبیاء، علیہم السلام، لم یورثوا دیناراً ولا درہما، وإنما ورثوا العلم فمن أخذہ أخذ بحظ وافر۔ (العیني، عمدۃ القاري شرح صحیح البخاری، ’’باب العلم قبل القول والعمل لقولہ تعالیٰ {فَاعْلَمْ أَنَّہٗ لَآ إِلٰہَ إِلَّا اللّٰہُ} (سورۃ المحمد: ۱۹) فبدأ بالعلم‘‘: ج ۲، ص: ۳۹، رقم: ۶۷)
وإنما ورثوا العلم): لإظہار الإسلام ونشر الأحکام أو بأحوال الظاہر والباطن علی تباین أجناسہ۔ (ملا علي قاري، مرقاۃ المفاتیح، ’’کتاب العلم: الفصل الأول‘‘: ج ۲، ص: ۱۲۶، رقم: ۲۱۲)
قال ابن حجر: والفقہ ہو الفہم قال اللّٰہ تعالیٰ: لا یکادون یفقہون حدیثا، أي: لا یفہمون والمراد الفہم في الأحکام الشرعیۃ قولہ: وإنما العلم بالتعلم ہو حدیث مرفوعٌ، أیضاً: أوردہ بن أبي عاصم والطبراني من حدیث معاویۃٌ أیضاً: بلفظ یا أیہا الناس: تعلموا إنما العلم بالتعلم والفقہ بالتفقہ ومن یرد اللّٰہ بہ خیراً یفقہ في الدین إسنادہ حسنٌ۔ (ابن حجر، فتح الباري شرح صحیح البخاري، ’’کتاب العلم: قولہ باب العلم قبل القول والعمل‘‘: ج ۱، ص: ۱۶۱، رقم: ۶۷)
فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج2ص130
متفرقات
Ref. No. 2620/45-3988
بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ ہمارا عرف یہی ہے کہ بچہ کا ایک ہی نام رکھاجاتاہے، لیکن بچہ کا ایک سے زائد نام رکھنے میں کوئی ممانعت نہیں ہے، تاہم دستاویز کے اعتبار سے ایک ہی نام رکھنا ضروری ہوگا، اس لئے اگر دستاویز میں ایک نام تجویز کردیاگیاہے اور پھر لوگوں کی آسانی کے لئے یا پکارنے کےلئے کوئی دوسرا نام تجویز کرلیا جائے تو کوئی حرج نہیں ہے۔واضح رہے کہ نکاح اور دیگر شرعی اور قانونی مسائل میں اس کا وہی نام معتبر ہوگا جو دستاویزات میں تجویز کیا گیا ہے۔
واللہ اعلم بالصواب
دارالافتاء
دارالعلوم وقف دیوبند
اسلامی عقائد
Ref. No. 2674/45-4133
بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ جس عورت کو خلوت صحیحہ سے پہلے طلاق ہوجائے اس پر عدت نہیں ہوتی ہے۔ بہرحال بارہ سال کا لڑکا مراہق ہے، اس لئے اس کا نکاح اور وطی کرنا درست ہے اور اس سے وہ عورت پہلے شوہر کے لئے حلال ہوجائے گی؛ حلالہ میں دخول شرط ہے انزال شرط نہیں ہے، اس لئے قریب البلوغ بچہ کا جماع کرنا بھی معتبر ہوگا۔ البتہ یہاں ایک مسئلہ جان لینا چاہئے کہ نابالغ مراہق طلاق دینے کا اہل نہیں ہے اس لئے اس کی طلاق معتبر نہیں ہے، اس کی طلاق بلوغ کے بعد ہی قابل نفاذ ہوگی۔اس لئے ابھی جو طلاق ہوئی اور پہلے شوہر سے نکاح کردیاگیا یہ درست نہیں ہوا۔
ولو مراھقا) ھو الدانی من البلوغ نھر ولا بد ان یطلقھا بعد البلوغ لان طلاقہ غیر واقع در منتقی عن التتارخانیة (قولہ: یجامع مثلہ) تفسیر للمراھق ذکرہ فی الجامع، وقیل ھو الذی تتحرک آلتہ ویشتھی النساء کذا فی الفتح، والأولی ان یکون حرا بالغا: فان الانزال شرط عند مالک کما فی الخلاصة۔ملخصًا (رد المحتار علی الدر المختار،٤١٠/٣)
"(وكره) النكاح كراهة تحريم (بشرط التحليل) بأن يقول: تزوجتك على أن أحللك أو تقول هي، وعلى هذا حمل ما صححه الترمذي: (لعن رسول الله صلى الله عليه وسلم المحلل والمحلل له) قيد باشتراط؛ لأنهما لو نوياه فقط لم يكره، بل يكون الرجل مأجورًا لقصده الإصلاح، وإن وصلية حلت (للأول)". النهر الفائق شرح كنز الدقائق (2/ 423)
واللہ اعلم بالصواب
دارالافتاء
دارالعلوم وقف دیوبند
نماز / جمعہ و عیدین
الجواب وباللّٰہ التوفیق: ایسا کرنا بدعت وگمراہی ہے اور کافرانہ رسم ورواج ہے پس مذکورہ شخص بھی (تاوقتیکہ توبہ نہ کرلے) امام بنانے کہ قابل نہیں ہے اس کی نماز مکروہ تحریمی ہے۔(۱)
(۱) قولہ: (یکون محرزاً ثواب الجماعۃ) أي مع الکراہۃ إن وجد غیر ہم وإلا فلا کراہۃ، کما في البحر بحثاً وفي السراج ہل الأفضل أن یصلي خلف ہٰؤلاء أم الإنفراد؟ قیل أما في الفاسق فالصلاۃ خلفہ أولیٰ، وہذا إنما یظہر علی أن إمامتہ مکروہۃ تنزیہا أما علی القول بکراہۃ التحریم فلا وأما الآخرون فیمکن أن یقال الإنفراد أولیٰ لجہلہم بشروط الصلاۃ۔ (أحمد بن محمد، حاشیۃ الطحطاوي علی مراقي الفلاح، ’’کتاب الصلاۃ: فصل في بیان الأحق الإمامۃ، ص:۳۰۳)
ویکرہ إمامتہ عبد … ومبتدع أي صاحب بدعۃ وہي اعتقاد خلاف المعروف عن الرسول۔ (ابن عابدین، رد المحتار، ’’کتاب الصلاۃ: باب الإمامۃ، مطلب في تکرار الجماعۃ في المسجد‘‘: ج ۲، ص: ۲۹۹)
وحاصلہ إن کان ہوی لا یکفر بہ صاحبہ تجوز الصلاۃ خلفہ مع الکراہۃ وإلا فلا۔ (جماعۃ من علماء الہند، الفتاویٰ الہندیۃ، ’’کتاب الصلاۃ: الباب الخامس، في الإمامۃ، الفصل الثالث في بیان من یصلح إماماً لغیرہ‘‘: ج ۱، ص: ۱۴۱، زکریا دیوبند)
لا یجوز ما یفعلہ الجہال بقبور الأولیاء والشہداء من السجود والطواف حولہا واتخاذ السرج والمساجد علیہا ومن الاجتماع بعد الحول کالأعیاد ویسمونہ عرسا۔ (محمد ثناء اللّٰہ پاني پتي، التفسیر المظہري، ’’سورۃ آل عمران: ۶۴‘‘: ج ۲، ص: ۶۸، زکریا دیوبند)
فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج5 ص122
فقہ
Ref. No. 2746/45-4282
بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ حضرت امام ابوحنیفہ رحمہ اللہ کے نزدیک مدتِ رضاعت ڈھائی سال ہے جبکہ صاحبین، اور امام شافعی رحمہم اللہ کے نزدیک رضاعت کی مدت دو سال ہے ۔ یہ دونوں اقوال درست اور قابلِ اعتماد ہیں، اور ہر ایک کی اپنی دلیل موجود ہے، البتہ صاحبین اور دیگر ائمہ کا دوسال کا قول مختار اور مفتی ٰبہ ہے، یعنی دو سال تک بچے کو دودھ چھڑا دینا چاہیے۔ تاہم اگر کسی نے لاعلمی میں یا کسی وجہ سے دو سال کے بعد ڈھائی سال کے اندر اندر بچے کو دودھ پلادیا تو احناف کے نزدیک اس سے بھی حرمتِ رضاعت ثابت ہوجائے گی۔
"ثم اختلف العلماء في المدة التي تثبت فيها حرمة الرضاع ، فقدر أبو حنيفة رحمه الله تعالى بثلاثين شهراً وأبو يوسف ومحمد - رحمهما الله تعالى - قدرا ذلك بحولين وزفر قدر ذلك بثلاث سنين، فإذا وجد الإرضاع في هذه المدة تثبت الحرمة وإلا فلا، واستدلا بظاهر قوله تعالى: { والوالدات يرضعن أولادهن حولين كاملين لمن أراد أن يتم الرضاعة }، ولا زيادة بعد التمام والكمال، وقال الله تعالى: { وفصاله في عامين }، ولا رضاع بعد الفصال، ولأن الظاهر أن الصبي في مدة الحولين يكتفي باللبن وبعد الحولين لايكتفي به فكان هو بعد الحولين بمنزلة الكبير في حكم الرضاع وأبو حنيفة رحمه الله تعالى استدل بقوله تعالى: {وحمله وفصاله ثلاثون شهراً} وظاهر هذه الإضافة يقتضي أن يكون جميع المذكور مدةً لكل واحدة منهما إلا أن الدليل قد قام على أن مدة الحبل لاتكون أكثر من سنتين فبقي مدة الفصال على ظاهره، وقال الله تعالى: {فإن أرادا فصالاً عن تراض منهما وتشاور} الآية فاعتبر التراضي والتشاور في الفصلين بعد الحولين فذلك دليل على جواز الإرضاع بعد الحولين، وقال الله تعالى: {وإن أردتم أن تسترضعوا أولادكم فلا جناح عليكم} قيل: بعد الحولين إذا أبت الأمهات، ولأن اللبن كما يغذي الصبي قبل الحولين يغذيه بعده والفطام لايحصل في ساعة واحدة، لكن يفطم درجةً فدرجةً حتى ينسى اللبن ويتعود الطعام، فلا بد من زيادة على الحولين بمدة، وإذا وجبت الزيادة قدرنا تلك الزيادة بأدنى مدة الحبل، وذلك ستة أشهر اعتبارًا للانتهاء بالابتداء، وبهذا يحتج زفر رحمه الله تعالى أيضاً إلا أنه يقول: لما وجب اعتبار بعض الحول وجب اعتبار كله، وتقدر مدة الفطام بحول؛ لأنه حسن للاختبار والتحول به من حال إلى حال. (قال:) فإن فطم الصبي قبل الحولين ثم أرضع في مدة ثلاثين شهراً عند أبي حنيفة رحمه الله تعالى أو في مدة الحولين عندهما، فالظاهر من مذهبهما وهو قول أبي حنيفة رحمه الله تعالى: أنه تثبت به الحرمة لوجود الإرضاع في المدة، فصار الفطام كأن لم يكن، وروى الحسن عن أبي حنيفة رحمهما الله تعالى قال: هذا إذا لم يتعود الصبي الطعام حتى لايكتفي به بعد هذا الفطام". (المبسوط للسرخسی 6/75.76)
"قَالَ الشّاَفعيُّ : فَجِمَاعُ فَرْقِ ما بين الصَّغِيرِ وَالْكَبِيرِ أَنْ يَكُونَ الرَّضَاعُ في الْحَوْلَيْنِ فإذا أُرْضِعَ الْمَوْلُودُ في الْحَوْلَيْنِ خَمْسَ رَضَعَاتٍ كما وَصَفْت فَقَدْ كَمُلَ رَضَاعُهُ الذي يُحَرِّمُ.
قَالَ الشّاَفعيُّ : وَسَوَاءٌ أُرْضِعَ الْمَوْلُودُ أَقَلَّ من حَوْلَيْنِ ثُمَّ قُطِعَ رَضَاعُهُ ثُمَّ أُرْضِعَ قبل الْحَوْلَيْنِ أو كان رَضَاعُهُ مُتَتَابِعًا حتى أَرْضَعَتْهُ امْرَأَةٌ أُخْرَى في الْحَوْلَيْنِ خَمْسَ رَضَعَاتٍ وَلَوْ تُوبِعَ رَضَاعُهُ فلم يُفْصَلْ ثَلاَثَةَ أَحْوَالٍ أو حَوْلَيْنِ أو سِتَّةَ أَشْهُرٍ أو أَقَلَّ أو أَكْثَرَ فَأُرْضِعَ بَعْدَ الْحَوْلَيْنِ لم يُحَرِّمْ الرَّضَاعُ شيئا وكان بِمَنْزِلَةِ الطَّعَامِ وَالشَّرَابِ وَلَوْ أُرْضِعَ في الْحَوْلَيْنِ أَرْبَعَ رَضَعَاتٍ وَبَعْدَ الْحَوْلَيْنِ الْخَامِسَةَ وَأَكْثَرَ لم يُحَرِّمْ وَلاَ يَحْرُمُ من الرَّضَاعِ إلاَّ ما تَمَّ خَمْسَ رَضَعَاتٍ في الْحَوْلَيْنِ". (الأم ـ للشافعي - (5 / 29)
"ويشترط في الارضاع شرطان :(أحدهما) خمس رضعات لحديث عائشة الذي سيأتي.وفي حديث سهلة " أرضعيه خمس رضعات يحرم بهن.
الشرط الثاني أن يكون في الحولين، فإن كان خارجها عنهما لم يحرم كما سيأتي". (المجموع شرح المہذب 18 / 210)
"انتزع الفقهاء من قوله تعالى: (والوالدات يرضعن أولادهن حولين كاملين) أن الرضاعة المحرمة - بكسر الراء المشددة - الجارية مجرى النسب إنما هن ماكان في الحولين، لانه بانقضاء الحولين تمت الرضاعة، ولا رضاعة بعد الحولين معتبرة". (المجموع شرح المہذب 18/212)
واللہ اعلم بالصواب
دارالافتاء
دارالعلوم وقف دیوبند
نماز / جمعہ و عیدین
الجواب وباللّٰہ التوفیق:آج کے ترقی یافتہ دور میں فلکیات کے نظام پر کافی ریسرچ ہوئی ہے اور بہت کام کیا گیا ہے اور اب پوری دنیامیں نماز کا وقت جاننے کے لیے انٹرنیٹ پر معلومات جمع ہیں، یہاں تک کہ نظام شمسی کے اعتبار سے پورے سال کا ٹائم ٹیبل بھی معلوم کیا جاسکتا ہے۔ انٹرنیٹ پر موجود ٹائم ٹیبل اسی طرح موبائل ایپ کے ٹائم ٹیبل پر اعتماد کیا جاسکتا ہے جب کہ نیٹ سے مربوط ہو۔ دائمی کلینڈر ہر علاقہ کے طول البلد اور عرض البلد کے لحاظ سے طے کیا جاتا ہے، اس لیے آپ کے علاقہ میں جو جنتری ہو اس کو نیٹ پر موجود ٹائم ٹیبل سے چیک کر لیں اور اس پر اعتماد کریں تو کوئی حرج نہیں ہے۔ تاریخ اور لوکیشن دونوں ڈال کر چیک کر یں تا کہ صحیح وقت معلوم ہو سکے۔(۱)
(۱){إِنَّ الصَّلاۃَ کانَتْ عَلَی الْمُؤْمِنِینَ کِتاباً أی مکتوبا مَوْقُوتاً} (سورۃ النساء: ۱۰۳)
إِنَّ الصَّلاۃَ کانَتْ عَلَی الْمُؤْمِنِینَ کِتاباً أي مکتوبا مفروضا مَوْقُوتاً محدود الأوقات لا یجوز إخراجہا عن أوقاتہا في شيء من الأحوال فلا بدّ من إقامتہا سفرا أیضاً۔ (علامہ آلوسي، روح المعاني، ’’سورۃ النساء: ۹۴‘‘: ج ۳، ص: ۱۳۲)
فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج4 ص97
نماز / جمعہ و عیدین
الجواب وباللہ التوفیق: صورت مسئولہ میں دعوت نماز کے لیے اذان کافی ہے۔ پھر سے لوگوں کو دعوت کی ضرورت نہیں ہے؛ لیکن اگر کیف مااتفق کبھی کبھی کسی آدمی کو ترغیباً نماز کے لیے کہہ دیا جائے تاکہ اس کی جماعت ترک نہ ہو، تو اس میں کوئی مضائقہ نہیں؛ البتہ روزانہ اس کے التزام سے پرہیز کیا جائے۔ تاہم بعض علماء نے غافلوں کی تنبیہ کے لیے اجازت دی ہے۔(۱)
’’واستحسن المتأخرون التثویب وہو العود إلی الإعلام بعد الإعلام بحسب ما تعارفہ کل قوم‘‘(۲)
(۱) الشرنبلالي، قال الزہري: وزاد بلال في نداء صلاۃ الفجر الصلاۃ خیر من النوم، قأقرہا نبي اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم، وقال عمر: أما إني قد رأیت مثل الذي رأي، ولکنہ سبقني۔ (اخرجہ مسند أبي یعلی، مسند عبداللّٰہ بن عمر:ج۹، ص: ۳۷۹)
أخبرنا مالک، أخبرنا ابن شہاب، عن عطاء بن یزید اللیثي، عن أبي سعید الخدري، أن رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم، قال: إذا سمعتم النداء، فقولوا مثل ما یقول المؤذن۔ (ص: ۵۵) قال مالک: بلغنا أن عمر بن الخطاب رضي اللّٰہ عنہ جاء ہ المؤذن یؤذنہ لصلاۃ الصبح، فوجدہ نائماً فقال المؤذن: الصلاۃ خیر من النوم، فأمرہ عمر أن یجعلہا في نداء الصبح۔ (أخرجہ مالک في المؤطا، ’’کتاب الصلاۃ، باب الأذان والتثویب‘‘: ج ۱، ص: ۵۴؛ ومسند ابن أبي شیبۃ، ’’من کان یقول في الأذان الصلاۃ خیر من النوم‘‘: ج ۱، ص: ۱۸۹)
محمد، قال: أخبرنا أبو حنیفۃ، عن حماد، عن إبراہیم، قال: سألتہ عن التثویب، قال: ہو مما أحدثہ الناس، وہو حسن مما أحدثوا وذکر أن تثویبہم کان حین یفرغ المؤذن من أذانہ: الصلاۃ خیر من النوم قال محمد: وبہ نأخذ، وہو قول أبي حنیفۃ رضي اللّٰہ عنہ۔ (محمد بن الحسن، الآثار، کتاب الصلاۃ،’’باب الأذان‘‘: ج ۱، ص: ۱۰۱)
(۲) نور الإیضاح، ’’کتاب الصلاۃ، باب الأذان‘‘: ص: ۶۲؛ وابن عابدین، رد المحتار، ’’کتاب الصلاۃ، باب الأذان، مطلب في أول من بنی المنائر للأذان، ج۲، ص: ۵۶۔
فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج4 ص229
نماز / جمعہ و عیدین
الجواب و باللّٰہ التوفیق: فرض نماز میں امام کو لقمہ دینے سے نماز فاسد نہیں ہوتی ہے یعنی امام سے قرأت میں غلطی ہو جائے یا کوئی آیت بھول جائے یا پڑھتے پڑھتے اٹک جائے تو مقتدی نے لقمہ دیا اور امام نے لقمہ لے کر نماز کو مکمل کیا تو نماز درست ہوگئی، لیکن یہاں خیال رکھنا چاہئے کہ لقمہ دینے میں جلدی نہ کی جائے اور امام کو چاہئے کہ اگر مقدار واجب قرأت کر چکا ہے تو رکوع کر لے یا کوئی دوسری جگہ سے تلاوت شروع کردے مقدار واجب قرأت کے بعد کسی آیت کو بار بار لوٹانا تاکہ یاد آجائے یا مقتدی لقمہ دے یہ مکروہ ہے، اسی طرح مقتدی کو چاہئے کہ لقمہ دینے میں جلدی نہ کرے؛ بلکہ توقف کرے ہو سکتا ہے امام رکوع کرلے یا دوسری سورت پڑھے یا خود ہی اٹکی ہوئی جگہ کو درست کرلے جلدی لقمہ دینا مقتدی کے حق میں مکروہ ہے ہاں شدید ضرورت ہو تو لقمہ دے سکتا ہے۔(۱)
(۱) والصحیح أن ینوي الفتح علی إمامہ دون القراء ۃ، قالوا: ہذا إذا أرتج علیہ قبل أن یقرأ قدر ما تجوز بہ الصلاۃ، أو بعدما قرأ ولم یتحول إلی آیۃ أخری۔ وأما إذا قرأ أو تحول، ففتح علیہ، تفسد صلاۃ الفاتح والصحیح أنہا لا تفسد صلاۃ الفاتح بکل حال ولا صلاۃ الإمام لو أخذ منہ علی الصحیح۔ ہکذا فی الکافي۔ (جماعۃ من علماء الہند، الفتاوی الہندیۃ، ’’کتاب الصلاۃ: الباب السابع فیما یفسد الصلاۃ وما یکرہ فیہا، الفصل الأول فیما یفسدہا، النوع الأول في الأقوال‘‘: ج ۱، ص: ۱۵۷)
ویکرہ للمقتدي أن یفتح علی إمامہ من ساعتہ؛ لجواز أن یتذکر من ساعتہ فیصیر قارئاً خلف الإمام من غیر حاجۃ۔ کذا فی محیط السرخسي۔ ولا ینبغي للإمام أن یلجئہم إلی الفتح؛ لأنہ یلجئھم إلی القراء ۃ خلفہ وإنہ مکروہ، بل یرکع إن قرأ قدر ما تجوز بہ الصلاۃ، وإلا ینتقل إلی آیۃ أخری۔ کذا فی الکافی۔ وتفسیر الإلجاء: أن یردد الآیۃ أو یقف ساکتاً۔ کذا فی النہایۃ: ولا ینبغي للمقتدي أن یفتح علی الإمام من ساعتہ؛ لأنہ ربما یتذکر الإنسان من ساعتہ فتکون قراء تہ خلفہ قراء ۃ من غیر حاجۃ۔ (أیضاً)
قالوا: یکرہ للمقتدي أن یفتح علی إمامہ من ساعتہ، وکذا یکرہ للإمام أن یلجئہم إلیہ بأن یقف ساکتا بعد الحصر أو یکرر الآیۃ بل یرکع إذا جاء أوانہ أو ینتقل إلی آیۃ أخری لم یلزم من وصلہا ما یفسد الصلاۃ أو ینتقل إلی سورۃ أخری۔ (ابن نجیم، البحر الرائق، ’’کتاب الصلاۃ: باب ما یفسد الصلاۃ وما یکرہ فیہا‘‘: ج ۲، ص: ۱۰)
فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج6 ص291