نماز / جمعہ و عیدین

Ref. No. 40/1081

الجواب وباللہ التوفیق 

بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ قرآن پاک مکمل تراویح میں سننا سنت ہے ضروری نہیں ہے۔  اگر اس کے لئے اچھے قاری ملیں تو اس سنت پر عمل کرنا چاہئے۔ جن جگہوں پر حافظ نہ ملیں یا اچھے پڑھنے والے نہ ہوں وہاں اچھے پڑھنے والے امام سے الم تر کیف سے تراویح پڑھ لینی چاہئے۔  اتنا تیز پڑھنا، کہ الفاظ مکمل طور پر ادا نہ ہوتے ہوں یا پیچھے کھڑے حافظ و عالم کو بھی سمجھ میں نہ آتاہو،  درست نہیں ہے بلکہ نماز کے فاسد ہونے کا بھی خطرہ ہے۔ غلطیاں اور بھول ہوجایا کرتی ہیں ، اس کے لئے  ایک سامع بھی رکھنا چاہئے۔  اور اگر حافظ صاحب سے غلطیاں اور بھول بکثرت صادر ہوتی ہوں ، لوگوں کو دشواری  ہو اور تقلیل جماعت کا اندیشہ ہو تو کسی دوسرے حافظ صاحب کا انتظام کرلیا جائے اور وہ بھی نہ ہوسکے تو پھرالم ترکیف سے تراویح پڑھ لی جائے۔

واللہ اعلم بالصواب

 

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند

احکام میت / وراثت و وصیت

الجواب وباللہ التوفیق 

بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ (1) صورت مذکورہ میں چچا کے بیٹے عصبہ ہوں گے؛ اور ساری جائداد چچا کی مذکر اولاد کے درمیان تقسیم ہوگی، اس طور پر کہ جائداد کے چار حصے کئے جائیں گے،  اور ہر ایک بیٹے کو ایک ایک حصہ ملے گا۔ باقی تمام رشتہ دار محروم ہوں گے اور ان کو کوئی بھی حصہ نہیں ملے گا۔ (2) اگر مذکورہ چچاؤں کے چاروں لڑکے بالغ ہیں اور وہ اپنی مرضی سے جائداد سے دستبردار ہوجائیں اور میت کے ایصال ثواب کے لئے خرچ کرنے پر راضی ہوں تو اس کی گنجائش ہے۔ ولایجوز لاحدھما ان یتصرف فی نصیب الآخر الابامرہ وکل واحد منہما کالاجنبی فی نصیب صاحبہ (عالمگیری ۲؍۳۰۱) 

 واللہ اعلم بالصواب

 

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند

فقہ

Ref. No. 41/1114

الجواب وباللہ التوفیق:

بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ غیراختیاری طور پر دل میں آنےوالی بات وسوسہ ہے، نیت  کا وجود ارادہ پر ہی موقوف ہے۔ لہذاا ٓپ کا وسوسہ نیت کے قائم مقام نہیں ہوگا اور اس سے کوئی طلاق واقع نہیں ہوگی۔

 واللہ اعلم بالصواب

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند

زیب و زینت و حجاب

Ref. No. 1177/42-432

الجواب وباللہ التوفیق 

بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔

زیرِ ناف بال ناف کے متصل نیچے سے ہی صاف کرلینے چاہییں۔ جہاں نجاست لگنے کا زیادہ امکان رہتاہے وہاں تک بال کاٹیں اس کے علاوہ رانوں کے بال کاٹنے کی ضرورت نہیں۔پاخانے کے مقام کے بال بھی زیرِ ناف بالوں کی طرح کاٹنا ضروری ہے تاکہ بوقتِ ضرورت صرف  پتھر سے استنجا کرنے کی صورت میں نجاست کی تلویث سے بچاجاسکے۔

"ويبتدئ في حلق العانة من تحت السرة، ولو عالج بالنورة في العانة يجوز، كذا في الغرائب".   (فتاوی ہندیہ 5 / 358)

"والعانة: الشعر القريب من فرج الرجل والمرأة، ومثلها شعر الدبر، بل هو أولى بالإزالة ؛ لئلايتعلق به شيء من الخارج عند الاستنجاء بالحجر". (رد المحتار علی الدر المختار،2 / 481) 

واللہ اعلم بالصواب

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند

طلاق و تفریق
طلاق کے متعلق سوال و جوابات میں عمومی طور پر لکھا ہوتا ہے کہ میں نے کہا میں بیوی کو طلاق دیتا ہوں مفتی نے کہا ایک طلاق واقع ہو گئی. تو کیا اس طرح طلاق کے سوال و جواب والے فتوی والی فائل کوئی شخص اپنی زوجہ کو خاص طور پر طلاق دینے کی نیت سے انٹرنیٹ سے اپنے کمپیوٹر میں ڈاون لوڈ کرے یعنی اپنے کمپیوٹر کی میمری جسے کمپیوٹر کی یاداشت بھی کہتے ہیں طلاق دینے کی نیت سے بھرتا ہے اور پھر سکرین پر ظاہر کرے تو کیا اس کی بیوی کو طلاق ہوگی.

Marriage (Nikah)

Ref. No. 2328/44-3491

In the name of Allah the most Gracious the most Merciful

The answer to your question is as follows:

Marriages should be done with the consent of the parents. Therefore, you should try to convince your parents. If parents agree, but there are still some difficulties, then read ‘Yaa Lateefu’ Yaa Jami-ou’ 100 times each daily before going to bed, along with Darood Shareef seven times before and after.

And Allah knows best

Darul Ifta

Darul Uloom Waqf Deoband

اسلامی عقائد

الجواب وباللّٰہ التوفیق:مذکورہ فی السوال رسم وطریقہ بالکل غلط ہے، اولاً تو اصولی بات یہ ہے، جس کے ذمہ نان ونفقہ واجب ہوتا ہے اسی پر مرنے کے بعد کفن کا دینا بھی واجب ہوتا ہے۔
فتویٰ اس پرہے کہ شوہر مالدار ہو یا غریب عورت نے مال چھوڑا ہو یا نہ چھوڑا ہو، کفن زوج ہی پر واجب ہوتا ہے۔ یہی مسلک ہے امام اعظم ابوحنیفہؒ اور امام ابی یوسفؒ کا، اور فتویٰ اسی پر ہے۔(۲)
معلوم ہوا کہ شوہر کو مجبور کیا جائے گا کہ وہ کفن دے جس کا مطلب یہ ہوا کہ اگر وہ کفن نہیں دے گا، تو گنہگار ہوگا؛ البتہ اگر اس کے پاس رقم نہ ہو، تو اسی کے اقارب سے لیا جائے اور اگر مرحومہ کے والد یا بھائی یا رشتہ دار اپنی مرضی سے دینا چاہیں تو ممانعت نہیں ہے؛ لیکن ان کو مجبور نہیں کیا جاسکتا اور لعنت ملامت تو اول درجے کی جہالت ہی ہے اور ناجائز بھی ہے۔(۱)
(۲) الذي اختارہ في البحر لزومہ علیہ موسرا، أو لا لہا مال، أو لا لأنہ ککسوتہا وہي واجبۃ علیہ مطلقاً۔ (ابن عابدین، الدر المختار مع رد المحتار، ’’کتاب الصلاۃ: باب صلاۃ الجنازۃ، مطلب في کفن الزوجۃ علی الزوج‘‘: ج ۳، ص: ۱۰۱۰)
(۱) فعلی المسلمین أي العالمین بہ وہو فرض کفایۃ۔ (ابن عابدین، الدرالمختار، ج۳، ص۲۰۱)
لو کفن الزوجۃ غیر زوجہا بلا إذنہ، ولا إذن القاضي فہو متبرع۔ (’’أیضاً:‘‘: ج ۲، ص: ۲۰۵)


فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج1ص403
 

اسلامی عقائد

الجواب وباللّٰہ التوفیق:اگر قبر کھودی گئی اور اس میں میت کی تدفین عمل میں نہ آسکے تو قبر کو بند کردیا جائے، اس میں مٹی بھر کر جگہ کو ہموار کردیا جائے۔ یہ عقیدہ رکھنا کہ خالی قبر کو بند نہیں کرسکتے اور اس میں کسی چیز کے دفن کرنے کو ضروری سمجھنا غلط ہے، اور ایسے عقیدہ کا ترک کرنا ضروری ہے۔ (۱) جو مرغ اس قبر میں دفن کیا گیا یہ مال کا ضائع اور ہلاک کرنا ہوا، یہ بھی شرعاً جائز نہیں ہے۔ (۲) صورت مسئولہ میں توبہ واستغفار لازم ہے۔ (۳)

(۱) عن عائشۃ رضي اللّٰہ عنہا، قالت: قال رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم من أحدث في أمرنا ہذا ما لیس منہ فہو ردٌّ، متفق علیہ۔ (مشکوٰۃ المصابیح، ’’کتاب الإیمان: باب الاعتصام بالکتاب والسنۃ، الفصل الأول‘‘: ج ۱، ص: ۲۷، رقم: ۱۴۰)
(۲) وإن إضاعۃ المال والتبذیر بأي وجہ کان کالرشوۃ والقمار والربوا وغیر ذلک حرام إجماعاً، قال اللّٰہ تعالیٰ: {إِنَّ الْمُبَذِّرِیْنَ کَانُوْا إِخْوَانَ الشَّیَاطِیْنَ} (المظہري، ’’سورۃ البقرۃ: ۲۱۹‘‘: ج ۱، ص: ۲۶۹)
(۳) {ثُمَّ یَسْتَغْفِرِ اللّٰہَ یَجِدِ اللّٰہَ غَفُوْرًا رَّحِیْمًاہ۱۱۰} (سورۃ النساء: ۱۱۰)

فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج1ص524

طلاق و تفریق

Ref. No. 2590/45-4088

بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔    بشرط صحت سوال صورت مذکورہ میں کوئی طلاق واقع نہیں ہوئی۔ البتہ آئندہ اس طرح کے کلمات بولنے میں احتیاط کریں تاکہ کوئی دشواری کا سامنا نہ کرنا پڑے۔

وَلَوْ قَالَ لَهَا لَا نِكَاحَ بَيْنِي وَبَيْنَك أَوْ قَالَ لَمْ يَبْقَ بَيْنِي وَبَيْنَك نِكَاحٌ يَقَعُ الطَّلَاقُ إذَا نَوَى۔ (الفتاویٰ الہندیۃ : ۱؍۳۷۵)

وَالْقَوْلُ قَوْلُ الزَّوْجِ فِي تَرْكِ النِّيَّةِ مَعَ الْيَمِينِ۔ (الفتاویٰ الہندیۃ : ١/٣٧٥)

واللہ اعلم بالصواب

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند

 

طہارت / وضو و غسل

الجواب وباللہ التوفیق:جب کوئی اور نجاست مرغی کے اوپر ظاہر نہ ہو، تو چالیس سے پچاس ڈول تک نکالنے سے کنواں پاک ہو جائے گا۔(۱)

(۱) و إذا وقعت فیھا دجاجۃ أو سنور نزح منھا أربعون (النتف في الفتاویٰ،مطلب في السؤر۔ص:۱۰)؛ دجاجۃ وقعت في بئر فماتت قال: ینزح منھا قدر أربعین دلواً أو خمسین دلوا ثم یتوضأ منھا۔ (اللباب في الجمع بین السنۃ۔ باب إذا وقع في البئر حیوان،ج۱، ص:۹۲)؛ و قال في الدجاجۃ: إذا ماتت في البئر نزح منھا أربعون دلوا و ھذا لبیان الإیجاب۔ والخمسون بطریق الاستحباب۔(ابن الھمام، فتح القدیر، کتاب الطہارۃ، فصل في البئر، ج۱،ص:۱۰۹)
 

فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج2ص480