ربوٰ وسود/انشورنس

Ref. No. 40/1059

الجواب وباللہ التوفیق 

بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ اگر وہ پیسے بعد میں آپ پورے واپس لے سکتے ہوں  اور کمپنی اس میں سے کچھ بھی چارج نہ کرتی ہو تو پھر ان سہولیات کا استعمال درست نہیں ہوگا۔ اور اگر کچھ چارج کرے تو پھریہ سب درست  ہوگا۔

واللہ اعلم بالصواب

 

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند

Hajj & Umrah

Ref. No. 41/975

In the name of Allah the most Gracious the most merciful

The answer to your question is as follows:

(i) Using menses control pills may harm a woman. Hence, it is better that she does not use the pills. Though using the pills is allowed due the severe needs as detailed in the question. Nevertheless, if a woman couldn’t take pills and menses started. Now the situation is that while she is still going through menses, the departure time has arrived and she is yet to perform Tawaf-e Ziyarat. In this case, the woman should wear sanitary pads and perform Tawafe Ziyarat. Along with this, she must also slaughter an animal, such as camel, in the Haram premises. However, she will not be obligated to sacrifice the animal if she becomes pure and is able to perform the tawaf in a condition of purity.

ولوطاف للزیارۃ جنبا او حائضا او نفساء کلہ او اکثر ہ و یقع معتدا بہ فی حق التحلل ویصیر عاصیا فان اعادہ سقطت عنہ البدنۃ (غنیۃ الناسک 272)

(ii) If the woman couldn’t do tawafe Wadaa and menses started then she should do nothing for it. She will not be required to offer any sacrifices etc. 

 وکذلک لیس علی الحائض والنفساء طواف الصدر ولاشیئ علیھا بترکہ (تاتارخانیۃ 2/522)۔ امر الناس ان یکون آخرعھدھم بالبیت الا انہ خفف عن المرآۃ الحائض (مسلم شریف 1/427)

And Allah knows best

Darul Ifta

Darul Uloom Waqf Deoband

مساجد و مدارس

Ref. No. 1082/42-327

الجواب وباللہ التوفیق     

بسم اللہ الرحمن الرحیم :۔  یہ شرعی مسجد نہیں ہے، البتہ شہر یا قریہ کبیرہ میں یہ مصلی ہے تو اس میں جمعہ کی نماز درست ہے۔ نجی زمین میں جو مصلی بنایاجاتاہے اس سے مالکان زمین حق ملکیت کی بنیاد پر کچھ لوگوں کو روکیں تو  ان کو  نہیں جانا چاہئے  تاہم مالکان زمین کو ایسا نہیں کرنا چاہئے۔

واللہ اعلم بالصواب

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند

حج و عمرہ

Ref. No. 1184/42-461

الجواب وباللہ التوفیق 

بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔  عمرہ کے طواف و سعی کے درمیان اتصال ضروری نہیں ہے بلکہ سنت ہے، بہتر ہے کہ طواف کے  فورا بعد سعی کرلی جائے، لیکن اگر مذکورہ عذر کی وجہ سے سعی کو مؤخر کیا تو کوئی حرج نہیں اور نہ ہی کوئی جزا لازم ہوگی۔

واما السنۃ  فمنھا ان یوالی بین الطواف والسعی فلو فصل بینھما بوقت ولو طویلا فقد ترک السنۃ ولیس علیہ جزاء۔ (الفقہ علی المذاھب الاربعۃ 1/459)

واللہ اعلم بالصواب

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند

ذبیحہ / قربانی و عقیقہ
السلام علیکم و رحمة اللہ و برکاتہ کیا فرماتے ہیں علماء کرام و مفتیان عظام مسئلہ ذیل کے متعلق کہ عقیقہ کے جانور کی عمر کیا ہونی چاہیے؟ اگر کسی نے عقیقہ میں ایک سال سے کم عمر بکرہ ذبح کر دیا تو اس کا کیا حکم ہے؟ اب کیا کرے؟

طلاق و تفریق

Ref. No. 1541/43-1050

الجواب وباللہ التوفیق

بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ بیوی کو اختیار تو اس طرح بھی  مل جائے گا اور عورت کو جب بھی  معلوم ہوگا وہ اپنے اختیار کو استعمال کرکے طلاق دے سکتی ہے۔   

قوله:  ولو قال لها: أنت طالق متى شئت أو متى ما شئت أو إذا شئت أو إذا ما شئت فلها أن تشاء في المجلس وبعد القيام عن المجلس ولو ردت لم يكن ردا ولا تطلق نفسها إلا واحدة كذا في الكافي. (الھندیۃ، الفصل الثالث فی المشیئۃ، 1/406)

ولو قال لها: أنت طالق متى شئت أو متى ما شئت أو إذا شئت أو إذا ما شئت أو كلما شئت لا يقع الطلاق ما لم تشأ فإذا شاءت وقع؛ لأنه أضاف الطلاق إلى وقت مشيئتها ووقت مشيئتها هو الزمان الذي توجد فيه مشيئتها فإذا شاءت فقد وجد ذلك الزمان فيقع ولا يقتصر هذا على المجلس بخلاف قوله: إن شئت وما يجري مجراه؛ لأن هذا إضافة وذا تمليك لما نبين في موضعه.(بدائع الصنائع، فصل فی شرائط رکن الطلاق وبعضھا یرجع الی، 3/134)

(وفي) قوله أنت طالق (حيث) شئت (وأين) شئت (لا) تطلق حتى تشاء (ويتقيد بالمجلس) لأن حيث وأين من أسماء المكان والطلاق لا يتعلق بالمكان حتى إذا قال: أنت طالق في الشام تطلق الآن فيلغو ويبقى ذكر مطلق المشيئة فيقتصر على المجلس بخلاف الزمان فإن له تعلقا به حتى يقع في زمان دون زمان فوجب اعتباره خصوصا كما لو قال: أنت طالق غدا إن شئت، أو عموما كما لو قال أنت طالق في أي وقت شئت. (درر الحکام شرح غرر الاحکام، باب التفویض 1/372)

واللہ اعلم بالصواب

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند

تجارت و ملازمت

Ref. No. 2020/44-1973

بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔  انجینئر کو پانچ فی صد رقم غالبا  کمیشن کے طور پر دی جاتی ہے،  اگر یہ انجینئر سرکاری ملازم نہیں ہے، بلکہ محض ایک درمیانی واسطہ ہے تو کمیشن لینا جائز ہے بشرطیکہ  پہلے سے معاملہ طے ہو۔  اور اگر انجینئر کو سرکار سے تنخواہ ملتی ہے تو پھر اس کا اپنی مفوضہ ذمہ داری کی انجام دہی پر  کمیشن لینا رشوت ہوگا اور حرام ہوگا۔

ولايجوز أخذ المال ليفعل الواجب (شامی كتاب القضاء، مطلب في الكلام على الرشوة والهدية، ج: 5، صفحہ: 362، ط: سعید)

 واللہ اعلم بالصواب

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند

 

طلاق و تفریق

Ref. No. 222/44-2367

بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔  مذکورہ شرط کے پائے جانے پر اس کی بیوی پر ایک طلاق واقع ہوجائے گی،  اور بار بار اس شرط کو ذکر کرنے سے کئی طلاقیں واقع نہیں ہوں گی۔ لہذا اگر شرط پائی گئی اور صلح کرلی تو اس کی بیوی پر ایک طلاق رجعی واقع ہوگئی، عدت کے اندر اس سے رجعت کرلے اور اگر عدت گزرگئی ہو تو اس سے دوبارہ نکاح کرسکتاہے۔

واللہ اعلم بالصواب

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند

 

نماز / جمعہ و عیدین

Ref. No. 2294/44-3447

بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ ایسی صورت میں چونکہ متعینہ طور پر قضا نماز کا دن اور وقت معلوم نہیں تو اس طرح  نیت کریں  کہ  مثلاً جتنی فجر کی نمازیں مجھ سے قضا ہوئی ہیں ان میں سے پہلی  فجر کی نماز ادا کر رہا ہوں یا مثلاً جتنی ظہر کی نمازیں قضا ہوئی ہیں ان میں سے پہلی ظہر کی نماز ادا کر رہا ہوں، تو اس طرح جتنے سالوں کی نمازیں ذمہ میں ہوں  گی اتنے سال کا حساب کرکے ادا کرلیں۔  ایک آسان صورت فوت شدہ نمازوں کی ادائیگی کی یہ بھی ہے کہ ہر وقتی فرض نمازکے ساتھ اس وقت کی قضا نمازوں میں سے ایک پڑھ لیاکریں،یعنی فجر کی نمازاداکرنے کے بعد فجر کی قضانماز ایک ادا کرلیں۔  جتنے برس یاجتنے مہینوں کی نمازیں قضاہوئی ہیں اتنے سال یامہینوں تک اداکرتے رہیں۔ اورجو طریقہ آپ نے لکھاہے کہ ایک لسٹ بناکر جو نمازیں اداکرتے ر ہیں ان پر نشان لگاتے رہیں تو یہ بھی حساب کے لئے بہت بہتر طریقہ ہے۔

"كثرت الفوائت نوى أول ظهر عليه أو آخره. (قوله: كثرت الفوائت إلخ) مثاله: لو فاته صلاة الخميس والجمعة والسبت فإذا قضاها لا بد من التعيين؛ لأن فجر الخميس مثلاً غير فجر الجمعة، فإن أراد تسهيل الأمر، يقول: أول فجر مثلاً، فإنه إذا صلاه يصير ما يليه أولاً، أو يقول: آخر فجر، فإن ما قبله يصير آخراً، ولايضره عكس الترتيب؛ لسقوطه بكثرة الفوائت (الدر المختار وحاشية ابن عابدين (رد المحتار) (2/ 76)

واللہ اعلم بالصواب

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند

 

اسلامی عقائد

الجواب وباللّٰہ التوفیق:مردے کو ایصال ثواب کرنے کی شرعاً اجازت ہے؛ لیکن کوئی وقت مقرر کرنا، یا کھانے کی قسم مقرر کرنے کی شرعی اجازت نہیں ہے، جس کام کا آپ نے ذکر کیا ہے اس کی کوئی شرعی اصل نہیں ہے، یہ غلط اور بے اصل ہے، اس رواج کو توڑنا ضروری اور باعث ثواب ہے، مردے کو کچھ پڑھ کر ایصال ثواب کیا جائے، کسی مستحق کو کتابیں کپڑے وغیرہ دیدیئے جائیں، کسی بھوکے کو کھانا کھلادیا جائے؛ ان سب کا ثواب مرحوم کو پہونچا دیا جائے۔(۱)

(۱) فإن من صام أو صلی أو تصدق وجعل ثوابہ لغیرہ من الأموات والأحیاء جاز ویصل ثوابہا إلیہم عند أہل السنۃ والجماعۃ۔ کذا في البدائع، وبہذا علم أنہ لا فرق بین أن یکون المجعول لہ میتاً أو حیًا۔ (ابن نجیم، البحر الرائق، ’’کتاب الحج: باب الحج عن الغیر‘‘: ج ۳، ص: ۱۰۶)
ویکرہ اتخاذ الضیافۃ من الطعام من أہل المیت لأنہ شرع في السرور لا في الشرور، وہي بدعۃ مستقبحۃ۔ (ابن الہمام، فتح القدیر، ’’کتاب الصلاۃ: فصل في الدفن‘‘: ج ۲، ص: ۱۵۱)
ویکرہ اتخاذ الطعام في الیوم الأول والثالث وبعد الأسبوع ونقل الطعام إلی القبر في المواسم۔ (ابن عابدین، الدر المختار مع رد المحتار، ’’کتاب الصلاۃ: باب صلاۃ الجنازۃ، مطلب في کراہۃ الضیافۃ من أہل المیت‘‘: ج ۳، ص: ۱۴۸)
ویقرء من القرآن ما تیسر لہ من الفاتحۃ وأول البقرۃ إلی المفلحون، وآیۃ الکرسي وآمن الرسول، وسورۃ یٰس، وتبارک الملک، وسورۃ التکاثر، والإخلاص إثنی عشر مرۃ أو إحدی عشر أو سبعاً أو ثلاثا، ثم یقول: اللہم أوصل ثواب ما قرأناہ إلی فلان أو إلیہم۔ (ابن عابدین، الدر المختار مع رد المحتار، ’’کتاب الصلاۃ: باب صلاۃ الجنائز، مطلب في زیارۃ القبور‘‘: ج ۳، ص: ۱۵۱)


 فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج1ص405