Frequently Asked Questions
نماز / جمعہ و عیدین
الجواب وباللہ التوفیق:تہجد کی نماز کا وقت عشاء کی نماز کے بعد سے صبح صادق تک ہے۔ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے صحاح میں روایت ہے کہ حضور اقدس صلی اللہ وسلم نے تہجد ابتدائی شب میں بھی، نصف شب میں بھی اور آخری شب میں بھی پڑھی ہے۔ زندگی میں زیادہ تر نصف شب میں اور آخری شب میں پڑھی ہے مگر آخر زندگی میں زیادہ تر آخری شب میں پڑھنا ہوتا تھا، رات میں جتنی تاخیر سے تہجد پڑھی جاتی ہے اتنی ہی رحمتیں اور برکتیں زیادہ ہوتی ہیں اور سدس آخر یعنی رات کا آخری چھٹا حصہ تمام حصوں سے زیادہ افضل ہے۔(۱)
(۱) وروي الطبراني مرفوعا: ۔۔۔۔ وما کان بعد صلاۃ العشاء فہو من اللیل۔۔۔۔ قلت:۔۔۔۔ غیر خاف أن صلاۃ اللیل المحثوث علیہا ہي التہجد۔۔۔۔، وأید بما في معجم الطبراني من حدیث الحجاج بن عمرو رضي اللّٰہ تعالی عنہ قال: بحسب أحدکم إذا قام من اللیل یصلی حتی یصبح أنہ قد تہجد، إنما التہجد المرء یصلی الصلاۃ بعد رقدۃ۔۔۔۔ أقول: الظاہر أن حدیث الطبراني الأول بیان لکون وقتہ بعد صلاۃ العشاء، حتی لو نام ثم تطوع قبلہا لا یحصل السنۃ، فیکون حدیث الطبراني الثاني مفسرا للأول۔۔۔۔ ولأن التہجد إزالۃ النوم بتکلف مثل؛ تأثم: أي تحفظ عن الإثم؛ نعم صلاۃ اللیل وقیام اللیل أعم من التہجد۔ (ابن عابدین، رد المحتار علی الدر المختار، ’’کتاب الصلاۃ: باب الوتر و النوافل، مطلب في صلاۃ اللیل‘‘: ج ۲، ص: ۴۶۷، زکریا بکڈپو، دیوبند)
فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج4 ص93
نماز / جمعہ و عیدین
الجواب وباللّٰہ التوفیق: اس بارے میں امام شافعیؒ کا مسلک تو یہ ہے کہ اقامت ختم ہونے کے بعد امام و مقتدی کھڑے ہوں۔ یہ ہی مستحب ہے۔ امام مالکؒ کے نزدیک، حسب روایت قاضی عیاض شروع اقامت ہی سے کھڑا ہونا مستحب ہے۔ امام احمد ابن حنبلؒ کے نزدیک جب مؤذن قد قامت الصلوٰۃ کہے اس وقت کھڑا ہونا چاہئے۔ امام ابوحنیفہ ؒ کے قول میں ذرا تفصیل ہے کہ امام اور مقتدی اگر اقامت سے پہلے ہی مسجد میں موجود ہوں تو صحیح روایت کے مطابق حي علی الفلاح پر اٹھ جانا چاہئے۔ اور اگر امام باہر سے آرہا ہو تو اگر وہ محراب کے کسی دروازے سے یا اگلی صف کے سامنے سے آئے تو جس وقت مقتدی امام کو دیکھیں اسی وقت کھڑے ہو جائیں اور اگر پچھلی صف سے آرہا ہے تو جس صف سے امام گذرے وہ صف کھڑی ہوجائے۔ امام نوویؒ نے شرح مسلم میں تحریر فرمایا ہے:
’’مذہب الشافعی وطائفۃ أنہ یستحب أن لا یقوم أحد حتی یفرغ المؤذن من الإقامۃ، ونقل القاضي عیاض عن مالک وعامۃ العلماء أنہ یستحب أن یقوموا إذا أخذ المؤذن في الإقامۃ، وکان أنس یقوم إذا قال المؤذن قد قامت الصلوٰۃ، وبہ قال أحمد وقال أبوحنیفۃ والکوفیون یقومون في الصف إذا قال حي علی الصلوٰۃ‘‘(۱)
امام اعظمؒ کے مسلک کی پوری تفصیل بدائع الصنائع اور فتاویٰ ہندیہ نے اس طرح بیان فرمائی ہے ’’إن کان المؤذن غیر الإمام وکان القوم مع الإمام في المسجد فإنہ یقوم الإمام والقوم إذا قال المؤذن حي علی الفلاح عند علمائنا الثلاثہ وہو الصحیح فأما إذا کان الإمام خارج المسجد فإن دخل من قبل الصفوف فکلما جاوز صفا قام ذلک الصف وإلیہ مال شمش الأئمہ الحلوانی والسرخسي وشیخ الإسلام ’’خواہر زادہ‘‘ وإن کان الإمام دخل المسجد من قدامہم یقومون کما رأی الإمام الخ‘‘(۲)
البحر الرائق میں حنفیہ کے مسلک کی تفصیل لکھتے ہوئے جہاں یہ بیان کیا ہے کہ جب امام اقامت سے پہلے ہی مسجد میں موجود ہو تو ’’حي علی الفلاح‘‘ پر کھڑا ہونا چاہئے اس کی علت یہ بیان کی ہے ’’والقیام حین قیل حي علی الفلاح لأنہ أمر یستحب المسارعۃ إلیہ‘‘ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ جن حضرات نے ’’حي علی الفلاح‘‘ یا ’’قدقامت الصلوٰۃ‘‘پر کھڑے ہونے کو مستحب قرار دیا ہے ان کا مطلب یہ ہے کہ ’’حي علی الفلاح‘‘ یا ’’قد قامت الصلوٰۃ‘‘ کے بعد بیٹھنا خلاف ادب ہے یہ مطلب نہیں کہ اس سے پہلے کھڑا ہونا خلاف ادب ہے، اس لیے کہ پہلے کھڑے ہونے میں تو اور بھی زیادہ مسارعت پائی جاتی ہے اور جہاں مسجد میں کھڑے ہوکر جماعت کا انتظار کرنے سے منع کیا گیا ہے وہاں مراد یہ ہے کہ اگر امام مسجد میں آیا ہی نہیں تو کھڑے رہنا اور انتظار کرنا درست نہیں جیسا کہ اس حدیث میں ہے جس کو بخاری شریف نے ’’باب متی یقوم الناس إذا رأوا الإمام‘‘ میں بیان کیا گیا ہے۔ ’’قال رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم إذا أقیمت الصلوٰۃ فلا تقوموا حتی تروني‘‘(۱)
نیز صفوں کا سیدھا کرنا بھی عند الشرع مطلوب ہے اور یہ حکم بڑی قوت کا حامل ہے جس پر بدرجہ اتم عمل اسی صورت میں ہوسکتا ہے جب کہ پہلے ہی سے لوگ کھڑے ہو جائیں نیز یہ بھی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور صحابہ کرامؓ سے ثابت ہے ’’قال کان رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم یسوی صفوفنا إذا قمنا إلی الصلاۃ فإذا استوینا کبر (۲) وأیضا روی عن عمرؓ أنہ کان یؤکّل رجلاً بإقامۃ الصفوف ولا یکبر حتی یخبر أن الصفوف قد استوت أخرجہ الترمذي وقال: وروي عن علي وعثمان أنہما کانا یتعاہدان ذلک‘‘(۳)
سوال میں آپ نے جو عبارتیں نقل کی ہیں ان کا مطلب یہ ہے کہ امام کے مسجد میں آنے سے پہلے کھڑے ہوکر جماعت کا انتظار کرنا درست نہیں ہے اور اگر پہلے کھڑے ہوکر صفیں سیدھی کرلی جائیں تو درست ہے اور ’’قد قامت الصلوٰۃ‘‘ کے بعد بیٹھے رہنا مناسب نہیں ہے۔
نوٹ: فقہاء کا اس سلسلہ میں اختلاف افضلیت و استحباب میں ہے جواز و عدم جواز میں نہیں ہے؛ اس لیے مسئلہ ہذا میں شدت اختیار نہ کی جائے۔
(۱) أخرجہ مسلم، في صحیحہ، ’’کتاب المساجد ومواضع الصلاۃ‘‘: باب متی یقوم الناس للصلاۃ، ج۱، ص:۲۲، رقم: ۶۰۵۔
(۲) جماعۃ من علماء الہند، الفتاویٰ الہندیۃ، ’’کتاب الصلاۃ، الباب الثاني في الأذان، الفصل الثاني في کلمات الأذان والإقامۃ وکیفیتہما‘‘:باب صفۃ الصلاۃ،
(۱) أخرجہ البخاري، في صحیحہ، ’’کتاب الأذان، باب حتی یقوم الناس إذا رأؤا الإمام عند الإقامۃ ‘‘: ج ۱، ص: ۱۸۸، رقم: ۶۳۷۔
(۲) أخرجہ أبوداود في سننہ، ’’کتاب الصلاۃ، تفریع أبواب الصفوف، باب تسویۃ الصفوف، ج۱، ص: ۹۷، رقم: ۶۶۵
(۳) أخرجہ الترمذي، في سننہ، أبواب الصلاۃ، باب ماجاء في إقامۃ الصفوف، ج۱، ص: ۵۳، رقم: ۲۲۷۔
فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج4 ص213
نماز / جمعہ و عیدین
الجواب وباللہ التوفیق: مسبوق وہ شخص کہلاتا ہے کہ جو ایک رکعت یا اس سے زیادہ ہوجانے کے بعد امام کے ساتھ جماعت میں تاخیر سے آکر شریک ہوا ہو۔
’’المسبوق من لم یدرک الرکعۃ الأولی مع الإمامۃ‘‘(۱)
’’المسبوق من سبقہ الإمام بھا أو ببعضھا‘‘(۲)
’’کالمسبوق وھو الذي لم یدرک أول الصلاۃ مع الإمام‘‘(۳)
’’وحقیقۃ المسبوق ھو من لم یدرک أول صلاۃ الإمام والمراد بالأول الرکعۃ الأولی‘‘(۴)
(۱) جماعۃ من علماء الہند، الفتاویٰ الھندیہ، ’’کتاب الصلاۃ: الباب الخامس في الإمامۃ، الفصل السابع في المسبوق واللاحق‘‘: ج۱، ص: ۱۴۸۔
(۲) الحصکفي، الدر المختار مع رد المحتار، ’’باب الإمامۃ، مطلب: فیما لو أتی بالرکوع و السجود أو بھما مع الإمام أو قبلہ أو بعدہ‘‘: ج ۲، ص: ۳۴۶،( زکریا، دیوبند)
(۳) الکاساني، بدائع الصنائع في ترتیب الشرائع، ’’کتاب الصلاۃ: بیان کیفیۃ القضاء‘‘: ج ۱، ص: ۵۶۳۔
(۴) ابن نجیم، البحر الرائق، ’’کتاب الصلاۃ: باب الحدث في الصلاۃ، (وصح استخلاف المسبوق)‘‘: ج۱، ص: ۶۶۱؛ و جماعۃ من علماء الہند، الفتاویٰ الھندیہ، ’’کتاب الصلاۃ: الباب الخامس في الإمامۃ، الفصل السابع في المسبوق واللاحق‘‘: ج ۱، ص: ۱۴۹۔
فتاویٰ دارالعلوم وقف دیوبند ج6 ص52
نماز / جمعہ و عیدین
الجواب وباللّٰہ التوفیق: بلا ضرورت پیروں کو حرکت دینا مکروہ ہے ہاں اگر تھوڑا سا پیر ادھر اُدھر ہو جائے تو نماز میں کوئی نقص نہیں آئے گا۔ نماز بہر صورت ہوجاتی ہے۔(۲)
(۲) فإن کان أجنبیا من الصلاۃ لیس فیہ تتمیم لہا، ولا فیہ دفع ضرر فہو مکروہ أیضا کالعبث بالثوب أو البدن وکل مایحصل بسبہ شغل القلب وکذا ماہو من عادۃ أہل التکبیر أو صنیع أہل الکتاب۔ (غنیۃ المتملی شرح منیۃ المصلی ’’مطلب في حکم تغطیۃ المصلی فمہ في الصلاۃ‘‘ ج۱، ص: ۲۱۶)
یکرہ للمصلي أن یعبث بثوبہ أو لحیتہ أو جسدہ، و إن یکف ثوبہ بأن یرفع ثوبہ من بین یدیہ أو من خلفہ إذا أراد السجود۔ (جماعۃ من علماء الہند، الفتاویٰ الہندیۃ، ’’الباب السابع، الفصل الثاني فیما یکرہ في الصلاۃ وما لایکرہ‘‘: ج ۱، ص: ۱۴۶)
فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج6 ص173
Taharah (Purity) Ablution &Bath
In the name of Allah the Most Gracious the Most Merciful
The answer to your question is as follows:
According to Shariah ruling, you are not Mazoor. Hence if the drop of urine comes after urination, it will surely nullify your wuzu. You must change napkin, make Wuzu and perform namaz. Changing napkin twice or thrice is not sufficient. Every time the napkin gets wet you have to change it, renew your wuzu and read namaz.
NOTE: A Mazoor is one who suffers from urine problem and cannot find so much time that he can perform wuzu and one namaz without urine drop. If full time of a salah passed and he could not be able to perform namaz with complete purity, then he is Mazoor. And he will be Mazoor as long as full time of a namaz passes without urine problem.
For him, Shariah gives concession that he must perform wuzu when the time of a salah starts and then perform namaz even with the drops of urine coming out and falling onto his clothes. He can complete his salaah in that state.
For more, See Fatwa No. 971 online
And Allah knows the best
Darul Ifta
Darul Uloom Waqf Deoband
نماز / جمعہ و عیدین
Ref. No. 1247 Alif
الجواب وباللہ التوفیق
بسم اللہ الرحمن الرحیم-:جیسی چھوٹی ہے اسی طرح ادا کریں گے، لہذا صورت مسئولہ میں چھوٹی ہوئی رکعت میں دعاء قنوت دوبارہ نہیں پڑھی جائے گی۔ واللہ اعلم بالصواب
دارالافتاء
دارالعلوم وقف دیوبند
مساجد و مدارس
Ref. No. 39 / 954
الجواب وباللہ التوفیق
بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔واقف کی تصریحات کیا ہیں، کھیت میں مسجد بنانے کے لئے وقف کیا ہے یا اس کی آمدنی کسی خاص مسجد کے لئے وقف کی ہے؟ اس کے متعلق کسی قریبی معتبر علماء ومفتیان سے رابطہ کریں ، وقف نامہ ان کو دکھائیں تاکہ واقف کی تصریحات پر اور شرائط پر عمل کیا جاسکے۔
واللہ اعلم بالصواب
دارالافتاء
دارالعلوم وقف دیوبند
Miscellaneous
طلاق و تفریق
Ref. No. 40/1047
الجواب وباللہ التوفیق
بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ اگرہوش کی حالت میں طلاق دی ہے تو واقع ہوگی۔ آخرت کا معاملہ دنیا سے بالکل مختلف ہوگا اس کو دنیا پر قیاس نہ کیا جائے بلکہ اللہ کے علم کے سپرد کردینا چاہئے۔ طلاق دینے والا اگر کوئی شرعی عذر رکھتا ہے تو گناہ سے بری ہوگا۔ واللہ اعلم بالصواب
دارالافتاء
دارالعلوم وقف دیوبند
طہارت / وضو و غسل
Ref. No. 1172/42-423
الجواب وباللہ التوفیق
بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ اگر وضو وفرض نماز کے بقدر وقت مل جاتا ہے اور وضو کرکے نماز باوضو پڑھ لیتے ہیں تو بار بار وضو کرکے نماز پڑھتے رہیں۔ البتہ اگر وضو کی حالت میں نماز پڑھنا ممکن ہی نہ ہو اور برابر وضو ٹوٹ جاتا ہو، تو پھر آپ معذور ہیں، لہذا نماز کے وقت میں وضو کرکے جب تک وقت باقی ہے جتنی چاہیں نماز پڑھ سکتے ہیں۔وقت ختم ہوگا تو وضو ٹوٹ جائے گا۔
واللہ اعلم بالصواب
دارالافتاء
دارالعلوم وقف دیوبند