Frequently Asked Questions
نماز / جمعہ و عیدین
الجواب وباللہ التوفیق: وقت فجر شروع ہونے کے بعد فجر کی اذان پڑھی جائے وقت سے پہلے نہ پڑھی جائے، وقت سے پہلے پڑھی ہوئی اذان فجر کی اذان شمار نہیں ہوگی(۱) اور سحری کے ختم ہونے کی اطلاع کے لیے اذان نہیں ہے۔ امام صاحب کو بیان کردہ مسئلہ سے رجوع کرنا چاہئے اور صحیح مسئلہ پر عمل کرنا چاہئے کسی عمل کا صدیوں تک ہوتے رہنا اس کے صحیح ہونے کی دلیل نہیں ہے۔
(۱) قال الحصکفي: وقت الفجر من طلوع الفجر الثاني إلی طلوع ذکاء۔ (الحصکفي الدر مع الرد، ’’کتاب الصلاۃ، مطلب في تعبدہ علیہ السلام الخ‘‘: ج ۲، ص: ۱۴، زکریا دیوبند)
وقال ابن عابدین تحت حد الصوم: وہو الیوم أي الیوم الشرعي من طلوع الفجر إلی الغروب۔ (ابن عابدین، رد المحتار، ’’کتاب الصوم‘‘: ج ۳، ص: ۳۳۰، زکریا دیوبند)
وقال الحصکفي: فیعاد أذان وقع بعضہ قبلہ کالإقامۃ وقال: وہو سنۃ للرجال … مؤکدۃ للفرائض الخمس۔ (ابن عابدین، الدر المختار مع رد المحتار، ’’کتاب الصلاۃ، باب الأذان‘‘: ج ۲، ص: ۴۸، ۵۰، زکریا دیوبند)
وإن أذن قبل دخول الوقت لم یجزہ ویعیدہ في الوقت لأن المقصود من الأذان إعلام الناس بدخول الوقت فقبل الوقت یکون تجہیلاً لا إعلاماً۔ (السرخسي، المبسوط، ’’کتاب الصلاۃ، باب الأذان‘‘: ج ۱، ص: ۲۷۸)
فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج4 ص160
نماز / جمعہ و عیدین
الجواب وباللّٰہ التوفیق: جس طرح نماز میں امام کو چاہئے کہ مقتدیوں کے حالات کے پیش نظر ہلکی نماز پڑھائے اسی طرح دعا میں بھی مقتدیوں کے حالات کو سامنے رکھے اور درمیانی طریقہ کار اختیار کرے نہ بہت وقت دعا میں لگائے اور نہ بہت ہی کم۔ جن نمازوں کے بعد سنتیں ہیں ان میں سلام کے بعد مختصر دعا کر کے سنتوں میں مشغول ہو جانا چاہئے؛ البتہ سنتوں کے بعد انفرادی طور پر دیر تک دعا مانگنے میں کوئی مضائقہ نہیں۔(۱)
(۱)فإن کان بعدہا أی بعد المکتوبۃ تطوع یقوم إلی التطوع بلا فصل إلا مقدار ما یقول: اللہم أنت السلام ومنک السلام تبارکت یا ذ الجلال والإکرام، ویکرہ تاخیر السنۃ عن حال أداء الفریضۃ بأکثر من نحو ذلک القدر، وقد یوفق بأن تحمل الکراہۃ علی کراہۃ التنزیہ، ومراد الحلواني عدم الإسائۃ ولو فعل لا بأس بہ ولا تسقط السنۃ بذلک حتی إذا صلاہا بعد الأوراد تقع سنۃ موداۃ لا علی وجہ السنۃ، فالحاصل: أن المستحب فی حق الکل وصل السنۃ بالمکتوبۃ من غیر تاخیر إلا أن الاستحباب في حق الإمام أشد حتی یؤدي تاخیرہ إلی کراہۃ لحدیث عائشۃ بخلاف المقتدي، (والمنفرد الخ)۔ (إبراہیم الحلبي، غنیۃ المستملي: ص: ۳۴۱-۳۴۴، مکتبہ: الاشرفیہ دیوبند)
فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج4 ص428
نماز / جمعہ و عیدین
الجواب و باللہ التوفیق:ائمہ احناف کا مسلک یہ ہے کہ بسم اللہ نہ سورہؐ فاتحہ کا جز ہے اور نہ ہی سورۂ نمل کے علاوہ کسی سورت کا؛ بلکہ یہ مستقل آیت ہے اور قرآن کریم کا جز ہے جو ہر سورت کے شروع میں دو سورتوں کے درمیان فصل کرنے کے لیے نازل ہوئی ہے، درمختار میں ہے۔
’’عن أنس رضي اللّٰہ عنہ قال صلیت مع رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم وأبي بکر وعمر وعثمان فلم أسمع أحدا منہم یقرأ بسم اللّٰہ الرحمن الرحیم‘‘
’’عن أنس بن مالک رضي اللّٰہ عنہ أنہ حدثہ قال صلیت خلف النبي صلی اللّٰہ علیہ وسلم وأبي بکر وعمر وعثمان فکانوا یستفتحون بالحمد للّٰہ رب العالمین لا یذکرون بسم اللّٰہ الرحمن الرحیم في أول قرائۃ ولا في آخرہا‘‘(۲)
’’عن أنس قال کان رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم وأبي بکر وعمر وعثمان یفتتحون القرائۃ بالحمد للّٰہ رب العالمین، قال أبو عیسیٰ ہذا حدیث حسن صحیح‘‘(۱)
’’روی البخاري في صحیحہ من حدیث أبي ہریرۃ رضي اللّٰہ عنہ قال: کنت أصلي في المسجد فدعاني رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم فلم أجبہ فقلت: یا رسول اللّٰہ کنت أصلي ، فقال : ألم یقل اللّٰہ : استجیبوا للّٰہ وللرسول إذا دعاکم (الانفال: ۲۴) ثم قال لي : ألا أعلمک سورۃ ہي أعظم سورۃ في القرآن؟ قلت ما ہي ؟ قال الحمد للّٰہ رب العلمین ، ہي السبع المثاني والقرآن العظیم الذي أوتیتہ فأخبر أنہا السبع المثاني، ولو کانت البسملۃ آیۃ منہا لکانت ثمانیا، لأنہا سبع آیات بدون البسملۃ‘‘(۲)
(۲) أخرجہ مسلم، في صحیحہ، ’’کتاب الصلاۃ: باب حجۃ من قال: لا یجہر بالبسملۃ‘‘: ج ۱، ص: ۱۷۲، رقم: ۳۹۹، نعیمیہ دیوبند)
(۱) أخرجہ الترمذي، في سننہ، ’’أبواب الصلاۃ عن رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم، باب في افتتاح القرائۃ بالحمد للّٰہ رب العالمین‘‘: ج ۱، ص: ۵۷، رقم: ۲۴۶، نعیمیہ دیوبند۔)
(۲) بدرالدین العیني، البنایۃ شرح الہدایۃ، ’’باب في صفۃ الصلاۃ‘‘: ج ۲، ص:۱۹۶، نعیمیہ دیوبند۔)
فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج6 ص225
نماز / جمعہ و عیدین
الجواب وباللّٰہ التوفیق: سنتوں کا گھر میں پڑھنا اولیٰ ہے مسجد میں پڑھنا بھی درست ہے۔(۱)
(۱) الأفضل في السنن والنوافل المنزل لقولہ علیہ السلام: صلاۃ الرجل في المنزل أفضل إلا المکتوبۃ۔ (جماعۃ من علماء الہند، الفتاویٰ الہندیۃ، ’’الباب التاسع في النوافل، من المندوب صلاۃ الضحی‘‘: ج ۱، ص: ۱۷۲، زکریا دیوبند)
والأفضل في عامۃ السنن والنوافل المنزل ہو المروي عن النبي صلی اللّٰہ علیہ وسلم۔ (ابن الھمام، فتح القدیر، ’’باب ادراک الفریضۃ‘‘: ج ۱، ص: ۴۹۴، زکریا دیوبند)
فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج6 ص352
اسلامی عقائد
Ref. No. 1082 Alif
الجواب وباللہ التوفیق
بسم اللہ الرحمن الرحیم۔ مذکورہ کتب پڑٕھنے میں حرج نہیں ، تاہم کہیں ذہن اٹکے یا کوئی بات ذہن میں خلجان پیداکرے تو کسی قریبی عالم سے رجوع کرلیا کریں۔ واللہ اعلم
دارالافتاء
دارالعلوم وقف دیوبند
سیاست
Ref. No. 839 Alif
الجواب وباللہ التوفیق
بسم اللہ الرحمن الرحیم-:-: یوم پیدائش منانا غیراسلامی تصور ہے، اسلام میں بے جا رسم و رواج سے بچنے کی تاکید ہے، اور ان سے بچنا چاہئے۔ آپ اپنے دوست کو سمجھائیں۔ اگر وہ سمجھدار ہوں گے تو اصرار نہیں کریں گے۔
واللہ تعالی اعلم بالصواب
دارالافتاء
دارالعلوم وقف دیوبند
اسلامی عقائد
Ref. No. 41/861
الجواب وباللہ التوفیق
بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ اگروہ صدق دل سے آئیں اور ان کے ہدایت کی امید ہو یا ان کے شر کا اندیشہ نہ ہو تو ان کو قرآن کی تعلیم دینے میں حرج نہیں ہے، اور ان کو تعلیم دینے کے کے لئے کسی ماہر اور سنجیدہ عالم کا ہونا ضروری ہے۔ تاہم اگر ان کی بدنیتی واضح ہوجائے یا ان سے کسی شر کا اندیشہ ہ ہو تو گریز کرنا چاہئے۔
واللہ اعلم بالصواب
دارالافتاء
دارالعلوم وقف دیوبند
طلاق و تفریق
Ref. No. 1023/41-192
الجواب وباللہ التوفیق
بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ صورت مسئولہ میں شادی کرتے ہی ایک طلاق بائن واقع ہوچکی ہے۔ اب اگر وہ اس لڑکی کو رکھنا چاہتا ہے تو نکاح ثانی کرنا ضروری ہے۔ نکاح اول کافی نہ ہوگا۔ نیز چودہ سال کا لڑکا مراہق ہوتا ہے جو بالغ کے حکم میں ہے۔ اس لئے نکاح صحیح ہے۔
ان نکحتک فانت طالق وکذا کل امراۃ ویکفی معنی الشرط الا فی المعینۃ باسم او نسب او اشارۃ۔ (ردالمحتار زکریا دیوبند 4/594)
لان المراھق والمراھقۃ کل واحد منھما مشتھی کالبالغ والبالغۃ۔ (فتاوی عثمانی 4/410) (المحیط البرہانی 2/320)
واللہ اعلم بالصواب
دارالافتاء
دارالعلوم وقف دیوبند
طلاق و تفریق
Ref. No. 1485/42-947
الجواب وباللہ التوفیق
بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ فقہ حنفی میں نشہ کی حالت میں دی گئی طلاق زجرا واقع ہوجاتی ہے۔ اگر بہت زیادہ نشہ تھا کہ ہوش وحواس گم تھے تو پھر اس کو طلاق ہی کیوں سوجھی، اس لئے صورت مسئولہ میں ایسی حالت نہیں پائی گئی کہ اس کو بالکل ہی کچھ خبر نہ ہو۔ اگر کوئی شخص اپنی حالت اس طرح بیان کرے تو بھی فقہاء نے زجرا شرابی کی طلاق کو واقع گردانا ہے۔ اس لئے مذکورہ صورت میں جبکہ لفظ جواب آپ کے علاقہ میں بمنزلہ لفظ طلاق کے صریح ہے تو شریعت کی روشنی میں تین طلاقیں واقع ہوگئیں ، اب میاں بیوی کا رشتہ باقی نہیں رہا، عورت اپنا نکاح دوسری جگہ کرنے میں آزاد ہے۔
وفي الذخيرة ": طلاق السكران واقع إذا سكر من الخمر والنبيذ، ولو أكره على الشرب فسكر أو شرب للضرورة فذهب عقله يقع طلاقه. وفي جوامع الفقه عن أبي حنيفة: يقع، وبه أخذ شداد ولو ذهب عقله بدواء أو أكل البنج لايقع. (البنایۃ، طلاق السکران 5/300) ولا يقع طلاق السكران منه بمنزلة النائم ومن ذهب عقله بالبنج ولبن الرماك۔ وعن محمد أنه حرام ويحد شاربه ويقع طلاقه إذا سكر منه كما في سائر الأشربة المحرمة (فتح القدیر للکمال، فصل فی الدعوی ولاختلاف والتصرف فیہ 10/99) واختار الكرخي والطحاوي أن طلاق السكران لا يقع؛ لأنه لا قصد له كالنائم، وهذا لأن شرط صحة التصرف العقل، وقد زال فصار كزواله بالبنج وغيره من المباحات ولنا أنه مخاطب شرعا لقوله تعالى {لا تقربوا الصلاة وأنتم سكارى} [النساء: 43] فوجب نفوذ تصرفه؛ ولأنه زال عقله بسبب هو معصية فيجعل باقيا زجرا له بخلاف ما إذا زال بالمباح حتى لو صدع رأسه وزال بالصداع لا يقع طلاقه (تبیین الحقائق شرح کنز الدقائق، کتاب الطلاق 2/196)
وروى الطحاوي عن أبي سنان قال: سمعت عمر بن عبد العزيز يقول طلاق السكران والمكره واقع ولأنه قصد إيقاع الطلاق في منكوحته حال أهليته فلا يعرى عن قضيته وهذا لأنه عرف الشرين فاختار أهونهما وهذا علامة القصد والاختيار لأنه غير راض بحكمه وذلك غير مانع من وقوع الطلاق كالهازل. (الغرۃ المنیفۃ فی تحقیق بعض مسائل الامام، کتاب الطلاق 1/153)
واللہ اعلم بالصواب
دارالافتاء
دارالعلوم وقف دیوبند
اسلامی عقائد
الجواب وباللّٰہ التوفیق:جس دارالقضاء میں مقدمہ دائر کیا تھا اس پر اعتمادنہ کیا ہوگا ۔ اب اگر فیصلہ خلاف ہوگیا تو قاضی صاحب پر تہمت دھر نا اوران کو برا بھلا کہنا اور رشوت کا الزام لگانا قطعاً غلط اور خلاف شریعت ہے، جو شخص ایسا کرتا ہے اس پر توبہ لازم ہے باقی اس کی وجہ سے وہ شخص دائرہَ اسلام سے خارج نہیں ہوا صرف گنہگار ہوا لیکن کفر کا اندیشہ ہے ۔
ویخاف علیہ الکفر ;202;ذا شتم عالماً اَو فقیہاً م غیر سبب ۔ (جماعۃ م علماء الہ د، الفتاویٰ الہ دیۃ، ’’کتاب السیر: الباب السابع: ف;184; اَحکام المرتدی ، موجبات الکفر اَ واع، وم ہا: ما یتعلق بالعلم والعلماء‘‘:ج ۲، ص: ۲۸۲) وم بغض عالماً م غیر سبب ظاہر خیف علیہ الکفر، ولو شتم فم عالم فقیہ اَو علوی یکفر ۔ (عبد الرحم ب محمد، مجمع الاَ ہر، ’’کتاب السیر والجہاد: ثم ;202; اَلفاظ الکفر اَ واع‘‘: ج ۲، ص: ۹۰۵)