مساجد و مدارس

Ref. No. 2047/44-2026

بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔  بچوں کی تعلیم و تربیت  نہایت اہم اور نیک کام ہے، لیکن اگر نیک کام میں شرعی اصول و ضوابط کی رعایت نہ کی جائے تو وہ نیک کام بھی گناہ کا باعث بن جاتاہے۔ بچوں کی تعلیم  وتربیت میں نرمی و سختی دونوں پہلوؤں میں اعتدال کا راستہ اختیار کرنا چاہئے۔ اس لئے صورت مسئولہ میں استاذ کا شاگردوں کے ساتھ  حد سے زیادہ مارنا درست نہیں ہے۔ اگر متوجہ کرنے اور سمجھانے پر بھی استاذ مذکور کا یہی معمول رہے تو کسی دوسرے استاذ یا مدرسہ میں اپنی تعلیم جاری رکھ سکتے ہیں ، لیکن مذکور ہ استاذ کے ادب واحترام کو ملحوظ رکھئے۔

لوضرب المعلم الصبی  ضربا فاحشا فانہ یعزرہ  ویضمنہ لومات (قولہ ضربا فاحشا) قید بہ لانہ لیس لہ ان یضربھا فی التادیب ضربا فاحشا وھو الذی یکسر العظم او یخرق الجلد او یسودہ کما فی التاتارخانیۃ قال فی البحر وصرحوا بانہ اذا ضربھا بغیرحق وجب علیہ التعزیر ای وان لم یکن فاحشا (ردالمحتار 4/79 کتاب الحدود ، باب التعزیر )

روی ان النبی ﷺ قال لمرداس المعلم رضی اللہ عنہ ایاک ان تضرب فوق الثلاث فانک اذا ضربت فوق الثلاث اقتص اللہ منک (الموسوعۃ الفقہیۃ الکویتیۃ 13/13 الضرب للتعلیم)

 واللہ اعلم بالصواب

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند

 

اسلامی عقائد
الجواب وباللّٰہ التوفیق:خلافت سے مراد یہ ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے خلیفہ اور صحیح اعتبار سے خلافت راشدہ کا دور حضرت حسن رضی اللہ عنہ پر ختم ہو گیا۔ اس کے بعد حضرت امیر معاویہ رضی اللہ عنہ کا دورِ خلافت، خلافتِ راشدہ کا دور نہیں؛ بلکہ ملوکیت کا دور ہے اور بنی امیہ کے دور سے تعبیر کیا جاتا ہے، بنو امیہ کے بعد بنو عباس کا دور آیا، جن کی حکومت ہلاکو خان کے حملہ کے بعد معتصم باللہ پر ختم ہوگئی۔ یہ امراء کے ادوار، خلافت راشدہ نہیں؛ بلکہ ادوار ملوکیت ہیں(۱)۔ دوسرا دور جوخلافت کا چلتا ہے وہ خلافت راشدہ کا نہیں ہے، بلکہ وہ تصوف کا درجہ ہے، جو حضرت علی رضی اللہ عنہ تک پہونچتا ہے اور یہی خلافت پیری ومریدی کے سلسلہ کو قائم کرتی ہے؛ لیکن پیر ہونے یا پیر کا خلیفہ ہونے کے لئے شرائط ہیں جو ان شرائط پر پورا اترتا ہو وہ ہی پیر ہوگا اور جو ان شرائط کو پورا نہیں کرتے اور خود کو پیر کہتے ہیں وہ دنیا داری میں مبتلا ہوکر ریاکاری کرتے ہیں، حقیقت میں وہ نہ تو پیر ہیں اور نہ ہی ان کی خلافت صحیح ہے، ان سے پرہیز کرنا ضروری ہے۔ ۱) عن سفینۃ قال: سمعت النبي صلی اللّٰہ علیہ وسلم یقول: ألخلافۃ ثلثون سنۃ ثم تکون ملکا۔ (مشکوۃ المصابیح،’’کتاب الفتن: باب مناقب الصحابۃ‘‘: ج ۲، ص: ۵۶۰، رقم: ۲۱۹۱۹؛ مسند أحمد بن حنبل، مسند الأنصار، حدیث: أبي عبد الرحمن سفیۃ مولیٰ رسول اللّٰہ -صلی اللّٰہ علیہ وسلم-) فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج1ص236

اسلامی عقائد

الجواب وباللّٰہ التوفیق:یہ بدعت اور مذموم و ناجائز ہے؛ البتہ دفن کے بعد تھوڑی دیر ٹھہر کر انفرادی طور پر میت کے لئے منکر نکیر کے سوالات کے جوابات دینے میں ثابت قدمی اورمغفرت کے لئے دعاء کرنی چاہئے۔(۲)

(۲) عن عثمان رضي اللّٰہ عنہ قال: کان النبي صلی اللّٰہ علیہ وسلم إذا فرغ من دفن المیت وقف علیہ فقال: استغفروا لأخیکم ثم سلوا لہ بالتثبیت فإنہ الآن یسأل۔ رواہ أبو داود۔ (مشکوۃ المصابیح، ’’کتاب الإیمان، باب إثبات عذاب القبر، الفصل الأول‘‘: ۲۶، رقم: ۱۳۳)
وعن عبد اللّٰہ بن عمر رضي اللّٰہ عنہما، قال: سمعت النبي صلی اللّٰہ علیہ وسلم یقول: إذا مات أحدکم فلا تحبسوہ وأسرعوا بہ إلی قبرہ ولیقرأ عند رأسہ فاتحۃ البقرۃ وعند رجلیہ بخاتمۃ البقرۃ۔ (مشکوٰۃ المصابیح، ’’کتاب الجنائز: باب البکاء علی المیت‘‘: ج ۱، ص: ۱۴۹، رقم: ۱۷۱۷)
ویستحب … بعد دفنہ لدعاء وقراء ۃ بقدر ما ینحر الجزور ویفرق لحمہ إلخ۔ (ابن عابدین، الدر المختار مع رد المحتار، ’’کتاب الصلاۃ: باب صلاۃ الجنازۃ، مطلب في دفن المیت‘‘: ج۳، ص: ۱۴۳)

فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج1ص363

زیب و زینت و حجاب

Ref. No. 2482/45-3805

بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ ہم نے اس معالجہ کے بارے میں جو کچھ سمجھاہے اس کا خلاصہ یہ ہے کہ: انسانی جلد پر ایک قسم کا روغن ہوتاہے جس کو میلانین کہاجاتاہے، اسی میلانین  روغن کو جو بے اثر ہوچکا ہوتاہے از سر نو پیداکرکے اگر فعال کردیا جائے تو جلد کے داغ دھبے ختم ہوسکتے ہیں۔ اس  حوالہ سے  وہائٹننگ کریم،فیشیئل  ماسک، گاجر اور چقندر کا جوس، سبز سیب اور انار کاجوس، پپیتا، لیموں اور کھیرے کاجوس،  برف،اور گلیسرین  کا مساج اور زیادہ پانی پینا بھی مفید بتایاجاتاہے جو قدرتی طریقہ کارہے۔  

ہماری معلومات کے مطابق 'لیزر اِسکِن وائٹننگ ٹریٹمنٹ' چہرہ کے سیاہ دھبوں پر لائٹ کی شعاعوں کی مدد سے جلد کو نرم کرکے اس دھبہ والے جلد کی اوپری سطح کوہٹانے کا  یہ ایک طریقہ کار ہے۔  اس میں چہرہ کی نرم جلدوں پر جب شعاعیں پڑتی ہیں تو انسان کو تکلیف بھی ہوتی ہے، اور جلد کی اوپری  انتہائی باریک سطح کو ہٹادیاجاتاہے، اس لئے یہ بھی سرجری کی ہی ایک ادنی قسم کہلائے گی ۔مزید برآں  لیزر وائٹننگ  معالجہ کے نقصانات بھی  برداشت کرنے پڑسکتے ہیں۔  جیسے کہ خراش، جلد کی خشکی، سورج کی روشنی میں حساسیت، جکڑن، سوجن، داغ، جلد کے انفیکشن، جلد کی ساخت میں فرق، رنگت، جلد کی سرخی اور جلن۔  اور اس طریقہ علاج کے بعد جلد کے ٹھیک  ہونے میں تقریبا تین ہفتے درکار ہوتے ہیں۔

الغرض اگرمیلانین روغن کی افزائش کا قدرتی اشیاء  کے ذریعہ علاج کیاجائے ، یعنی مخصوص غذاؤں اور جوس  کا استعمال، قدرتی چیزوں کا مساج اور میک اپ  کے کریم وغیرہ کا استعمال کیاجائے تو بہت بہتر ہے اور اس طرح گورا ہونا  اور چہرے کی رنگت کو نکھارنا درست جائز ہے، البتہ سوال میں مذکور طریقۂ علاج جائز نہیں ہے، یہ تغیر لخلق اللہ میں داخل ہے، اللہ رب العزت نے جس رنگ کا جس کو بنایا ہے، اسی پر انسان کو راضی رہنا چاہیے،  اور مذکورہ طریقہ علاج سے گریز کرنا چاہئے۔

واللہ اعلم بالصواب

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند

 

حدیث و سنت

الجواب وباللّٰہ التوفیق:صحیح روایت میں ہے کہ مسجد حرام میں ایک نماز ایک لاکھ کے برابر اور مسجد نبوی میں ایک نماز ایک ہزار نمازوں کے برابر ہے۔ پچاس ہزار والی روایت ضعیف ہے، اور اس وقت مسجد حرام اور مسجد نبوی میں جو اضافہ کیا گیا ہے ان تمام حصوں میں نماز پڑھنے سے یہ ثواب حاصل ہو جاتا ہے، کسی مخصوص حصہ میں نماز پڑھنا ضروری نہیں ہے اور یہ ثواب فرض نمازوں کے بارے میں ہے، نفل نماز کے بارے میں نہیں، اس لیے کہ حدیث کے اندر نفل نماز گھر میں پڑھنے کو افضل قرار دیا ہے۔
’’ومعلوم أنہ قد زید في المسجد النبوي؛ فقد زاد فیہ عمر ثم عثمان ثم الولید ثم المہدي، والإشارۃ بہذا إلی المسجد المضاف المنسوب إلیہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم، ولا شک أن جمیع المسجد الموجود الآن یسمی مسجدہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم فقد اتفقت الإشارۃ والتسمیۃ علی شیئ واحد، فلم تلغ التسمیۃ، فتحصل المضاعفۃ المذکورۃ في الحدیث فیما زید فیہ۔ وخصہا الإمام النووي بما کان في زمنہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم عملاً بالإشارۃ،(۱) قولہ: (إلا المسجد الحرام) وفي المفاضلۃ بین المسجد الحرام والمسجد النبوي کلام وحقق في الحاشیۃ أن الاستثناء لزیادۃ الأجر في المسجد الحرام۔ ثم ادعی العلماء بتضعیف أجر المسجد النبوي بعدہ، إلا أن ما استدلوا بہ لا یوازي روایۃ الصحیح۔ بقی أن الفضل یقتصر علی المسجد الذي کان في عہد صاحب النبوۃ خاصۃً أو یشمل کل بناء بعدہ أیضاً؟ فالمختار عند العیني رحمہ اللّٰہ تعالیٰ أنہ یشمل الکل، وذلک لأن الحدیث ورد بلفظ: مسجدي ہذا۔ فاجتمع فیہ الإشارۃ والتسمیہ۔ وفي مثلہ یعتبر بالتسمیۃ، کما یظہر من الضابطۃ التی ذکرہا صاحب (الہدایۃ) تنبیہ: قال الطحاوي رحمہ اللّٰہ تعالیٰ: إن الفضیلۃ في الحرمین تختص بالفرائض، أما النوافل فالفضل فیہا في البیت۔ قلت: وہو الصواب، فإن النبي صلی اللّٰہ علیہ وسلم لم یؤدہا إلا في البیت مع کونہ بجنب المسجد‘‘ (۲)

(۱) ابن عابدین، الدر المختار مع رد المحتار، ’’کتاب الصلاو: باب صفۃ الصلاۃ، مطلب في ستر العورۃ‘‘: ج ۱، ص: ۴۲۶۔
(۲) علامۃ أنور شاہ الکشمیري، فیض الباري، ’’باب في مسجد قبا‘‘: ج ۳، ص: ۵۸۹۔


فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج2ص91

مذاہب اربعہ اور تقلید

الجواب وباللّٰہ التوفیق:شیعوں کو روافض کہتے ہیں۔ فقہاء نے ان کو مبتدع لکھا ہے، کفر کا فتویٰ ان پر نہیں ہے(۱)۔ البتہ جو حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا پر بہتان لگاتے ہوں یا ضروریات دین میں سے کسی امر کے منکر ہوں، تو ان کے اس غلط عقیدے کی بناء پر ان پر کفر کا فتویٰ ہے۔ اور یہی فرقہ باطلہ ہے۔(۲)

(۱) وإن کان یفضل علیاً کرم اللّٰہ وجہہ علي أبي بکر رضي اللّٰہ عنہ لا یکون کافراً إلا أنہ مبتدع۔ (من جماعۃ علماء الہند: الفتاویٰ الہندیۃ، ’’کتاب السیر: الباب التاسع: في أحکام المرتدین، موجبات الکفر أنواع، ومنہا: ما یتعلق بتلقین الکفر‘‘: ج ۲، ص: ۳۷۶)
(۲) إن جبرائیل علیہ السلام غلط في الوحي أو کان ینکر صحبۃ الصدیق أو یقذف السیدۃ الصدیقۃ فہو کافر۔ (ابن عابدین، الدر المختار مع رد المحتار، ’’کتاب الجہاد: باب المرتد، مطلب مہم: في حکم سب الشیخین‘‘: ج ۶، ص: ۱۳۷۸)

فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج2ص282

نماز / جمعہ و عیدین

الجواب وباللّٰہ التوفیق:’’حسبنا اللّٰہ ونعم الوکیل‘‘ روزانہ پانچ سو مرتبہ پڑھتے رہیں، ہر نماز کے بعد ایک سو گیارہ مرتبہ ’’یا فتاح‘‘ پڑھ کر دعاء کریں (۲) نیز روزانہ سونے سے قبل یا مغرب کے بعد سورہ واقعہ ضرور پڑھا کریں، اسی طرح ہر نماز کے بعد ’’یا لطیف‘‘ ایک سو گیارہ مرتبہ اور ’’یا سبوح، یا قدوس‘‘ ۲۵؍ مرتبہ پڑھا کریں۔ حدیث میں ایک دعاء ہے اس کو بھی کثرت سے پڑھیں: ’’اللہم أکفني بحلالک عن حرامک واغنني بفضلک عمن سواک‘‘ (۱) اے اللہ مجھے حلال روزی عنایت فرما، حرام روزی سے حفاظت فرما اور اپنے علاوہ سب سے بے نیاز کردے۔

(۲) صدیق أحمد باندوي، مجربات صدیق، ’’باب‘‘ ۱۲، ص: ۱۱۱۔
(۱) أخرجہ الترمذي، في سننہ، ’’أبواب الدعوات، باب منہ‘‘: ج ۲، ص: ۱۷۵، رقم: ۳۵۶۳۔

فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج2ص379

طہارت / وضو و غسل

الجواب وباللّٰہ التوفیق:جی ہاں دھونا چاہیے۔(۱)

(۱) والغسل بالماء إلی أنہ یقع في قلبہ لہ طھر مالم یکن موسوسا فیقدر بثلاث، (ابن عابدین الدر المختار، ’’کتاب الطہارۃ، فصل في الاستنجاء،‘‘ ج۱، ص:۵۴۹)؛ والبداء ۃ (بغسل الیدین  الطاھرتین ثلاثا) قبل الإستنجاء و بعدہٗ ۔(ابن عابدین،رد المحتار علی الدر المختار، ’’سنن الوضوء،‘‘ ج۱، ص:۲۶-۲۲۷)
 

فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج3 ص93

 

احکام میت / وراثت و وصیت

Ref. No. 2718/45-4217

بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ و باللہ التوفیق: فقہائے کرام کی تصریحات کے مطابق بہتر یہ ہے کہ آدمی کا انتقال جس جگہ پر ہو جائےاسی جگہ قریبی قبرستان میں اس کو دفن کیا جائے البتہ امام محمدؒنےایک میل یا دومیل کی مسافت پر منتقل کرنے کو جائز کہا ہے ۔لیکن ایک ملک سے دوسرے ملک منتقل کرنا یا ایک شہر سے دوسرے شہر منتقل کرنا مکروہ تحریمی ہے اور اس کی وجہ یہ ہے کہ انتقال کے بعد جلدی تجہیز و تکفین کا حکم دیا گیا ہےجب کہ منتقل کرنے میں خاص کر ایک ملک سے دوسرے ملک منتقل کرنے میں غیرمعمولی تاخیر ہوگی جو پسندیدہ عمل نہیں ہے ۔

(قوله ولا بأس ‌بنقله ‌قبل ‌دفنه) قيل مطلقا، وقيل إلى ما دون مدة السفر، وقيده محمد بقدر ميل أو ميلين لأن مقابر البلد ربما بلغت هذه المسافة فيكره فيما زاد.(ردالمحتار على درالمختار ،كتاب الصلاة،باب صلاةالجنازة،ج:2،ص:146)أما إذا أرادوا نقله قبل الدفن أو تسوية اللبن فلا بأس بنقله نحو ميل أو ميلين.قال المصنف في التجنيس: لأن المسافة إلى المقابر قد تبلغ هذا المقدار. وقال السرخسي: قول محمد بن سلمة ذلك دليل على أن نقله من بلد ‌إلى ‌بلد ‌مكروه، والمستحب أن يدفن كل في مقبرة البلدة التي مات بها۔(فتح القدير،فصل في الدفن،ج:2،ص:141)

نقل ‌من ‌بلد إلى بلد مكروه" أي تحريما لأن قدر الميلين فيه ضرورة ولا ضرورة في النقل إلى بلد آخر وقيل أيجوز ذلك إلى ما دون مدة السفر وقيل في مدة السفر أيضا(حاشية الطحطاوي على مراقي الفلاح شرح نور الإيضاح، أحمد بن محمد بن إسماعيل الطحطاوي الحنفي، كتاب الصلاة، فصل في حملها و دفنها،ص614

جہاں تک منتقل کرنے کی صورت میں الکوحل کے استعمال کا حکم ہے اس سلسلے میں عرض یہ ہے کہ تمام قسم کے الکوحل حرام اور ناپاک نہیں ہیں بلکہ جو کجھور ،انگور اور منقی سے بنے وہ الکحل نجس ہیں جب کہ آج کے دور میں دوائی اور عطر میں جوالکوحل کا استعمال ہورہاہے عموما ان چیزوں کے علاوہ سے بنتے ہیں اس لیے جائز ہیں ۔فقہ البیوع میں مفتی تقی عثمانی صاحب لکھتے ہیں ،

وقد ثبت من مذہب الحنفیۃ المختار ان غیر الأشربۃ ( المصنوعۃ من التمر او من العنب ) لیست نجسۃ(فقہ البیوع ١/٢٩٤)تکملۃ فتح الملہم میں ہے : ان معظم الکحول التی تستعمل الیوم الادویۃ و العطور و غیرہا لا تتخذ من العنب أو التمر انما تتخذ من الحبوب أو القشور أو البترول وغیرہ کما ذکر نا فی باب بیوع الخمر ( تکملۃ فتح الملہم ،کتاب الاشربۃ، ٣/ ٦٠٨)

واللہ اعلم بالصواب

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند

 

نماز / جمعہ و عیدین

الجواب وباللّٰہ التوفیق: مذکور ہ فی السوال جرم کی اگر شرعی شہادت نہیں ہے، توجرم ثابت نہیں ہوتا، نیزجب تک جرم ثابت نہ ہو، اس کو زبانوں پر لانا اورالزام تراشی کرنا شرعاً گناہ کبیرہ ہے۔(۱) جن لوگوں نے الزام لگایا وہ گناہ کبیرہ کے مرتکب ہیں تاہم اس امام کو بھی انتہائی احتیاط لازم ہے جرم ثابت ہونے سے قبل اس کی امامت بلا کراہت درست ہے۔(۲)

(۱) {وَالَّذِیْنَ یَرْمُوْنَ الْمُحْصَنٰتِ ثُمَّ لَمْ یَاْتُوْا بِاَرْبَعَۃِ شُھَدَآئَ فَاجْلِدُوْھُمْ ثَمٰنِیْنَ جَلْدَۃً وَّلَاتَقْبَلُوْا لَھُمْ شَہَادَۃً اَبَدًاج وَاُولٰٓئِکَ ھُمُ الْفٰسِقُوْنَہلا ۴ } (سورۃ النور: ۴)
لایرمی رجل رجلا بالفسوق ولایرمیہ بالکفر إلا إذا ارتدت علیہ إن لم یکن صاحبہ کذلک۔ (مشکوٰۃ المصابیح، ص: ۴۱۱)
(۲) {وَالّٰتِیْ یَاْتِیْنَ الْفَاحِشَۃَ مِنْ نِّسَآئِکُمْ فَاسْتَشْھِدُوْا عَلَیْھِنَّ اَرْبَعَۃً مِّنْکُمْج} (سورۃ النساء: ۱۵)
{لَوْلَا جَآئُ وْ عَلَیْہِ بِاَرْبَعَۃِ شُھَدَآئَج فَاِذْلَمْ یَاْتُوْا بِالشُّہَدَآئِ فَاُولٰٓئِکَ عِنْدَ اللّٰہِ ھُمُ الْکٰذِبُوْنَہ۱۳} (سورہ النور: ۱۳)
وفیہ لو أم قوماً وہم لہ کارہون، فہو من ثلاثۃ أوجہ: إن کانت الکراہۃ لفساد فیہ، أو کانوا أحق بالإمامۃ منہ، یکرہ، وإن کان ہو أحق بہا منہم ولا فساد فیہ ومع ہذا یکرہونہ لا یکرہ لہ التقدم۔ (حسن بن عمار، مراقي الفلاح شرح نور الإیضاح، ’’کتاب الصلوۃ، فصل في الأحق بالإمامۃ وترتیب الصفوف‘‘: ص: ۱۱۲)

 

 فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج5 ص57