نماز / جمعہ و عیدین

الجــواب وباللّٰہ التــوفیق: اس صورت میں سجدہ سہو کرلیا گیا تو نماز درست ہوگئی۔(۱)(۱) ولو شک في الوتر وہو قائم أنہا ثانیۃ یتم تلک الرکعۃ ویقنت فیہا ویقعد ثم یقوم فیصلی رکعۃ أخری ویقنت فیہا أیضا ہو المختار إلی ہنا عبارۃ الخلاصۃ۔ ومما لا ینبغي إغفالہ أنہ یجب سجود السہو في جمیع صور الشک سواء عمل بالتحری أو بنی علی الأقل، کذا في البحر الرائق ناقلا عن فتح القدیر۔ (جماعۃ من علماء الہند، الفتاویٰ الہندیۃ، ’’کتاب الصلاۃ: الباب الثاني عشر: في سجود السہو‘‘: ج ۱، ص: ۱۹۰، ۱۹۱)

فتاوى دار العلوم وقف ديوبند: ج 7، ص: 279

نماز / جمعہ و عیدین

الجواب وباللّٰہ التوفیق: اس صورت میں نماز صحیح ہوگئی اگرچہ صرف شک کی بنیاد پر سجدہ سہو واجب نہیں تھا، لیکن اگر سجدہ سہو کرلیا تو نماز فاسد نہیں ہوئی۔(۱)

(۱) ولو ظن الإمام السہو فسجد لہ فتابعہ فبان أن لا سہو فالأشبہ الفساد لاقتدائہ في موضع الإنفراد۔قولہ: (فالأشبہ الفساد) وفي الفیض: وقیل لا تفسد وبہ یفتی، وفي البحر عن الظہیریۃ قال الفقیہ أبو اللیث: في زماننا لاتفسد لأن الجہل في القراء غالب۔ (ابن عابدین، رد المحتار علی الدر المختار، ’’کتاب الصلاۃ: باب الإمامۃ، مطلب: فیما لو أتی بالرکوع والسجود أو بہما مع الإمام أو قبلہ أو بعدہ‘‘: ج ۲، ص: ۳۵۰)

فتاوى دار العلوم وقف ديوبند: ج 7، ص: 278

نماز / جمعہ و عیدین

الجواب وباللّٰہ التوفیق: نماز میں جو سجدہ تلاوت واجب ہوا اس کو نماز ہی میں کرنا چاہئے تھا لیکن اگر بھول گیا تو سجدہ سہو واجب نہیں ہوا اس لئے سجدہ سہو نمازکے کسی واجب کے ترک کی بنا پر لازم ہوتا ہے اور سجدہ تلاوت نماز کے واجبات میں سے نہیں ہے؛ بلکہ تلاوت کا ہے اس لئے نماز درست ہوگئی۔ ’’(ولو تلاہا في الصلاۃ سجدہا فیہا لا خارجہا) لما مر وفي البدائع: وإذا لم یسجد أثم فتلزمہ التوبۃ، قال ابن عابدین: وکل سجدۃ وجبت في الصلاۃ ولم تؤد فیہا سقطت أي لم یبق السجود لہا مشروعاً لفوات محلہ‘‘(۱) الحصکفي، الدر المختار مع رد المحتار، ’’کتاب الصلاۃ: باب سجود التلاوۃ‘‘: ج ۲، ص: ۵۸۵۔(۱)والسجدۃ التي وجبت في الصلاۃ لاتؤدي خارج الصلاۃ، کذا في السراجیۃ، وہکذا في الکافي، ویکون آثماً بترکہا ہکذا في البحرالرائق۔ (جماعۃ من علماء الہند، الفتاویٰ الہندیۃ، ’’کتاب الصلاۃ: الباب الثالث عشر في سجود التلاوۃ‘‘: ج ۱، ص: ۱۹۴)

فتاوى دار العلوم وقف ديوبند: ج 7، ص: 278

نماز / جمعہ و عیدین

الجواب وباللّٰہ التوفیق: اگر امام پہلی یا تیسری رکعت میں تین تسبیح پڑھنے کی مقدار نہیں بیٹھا بلکہ فوراً ہی کھڑا ہوگیا خواہ خود بخود یا دوسرے مقتدیوں کے لقمہ دینے سے تو ایسی صورت میں سجدہ سہو لازم نہیں ہوا۔ نماز درست اور صحیح ہوگئی ہے۔ صورت مذکورہ میں امام کا قول معتبر ہوگا مقتدیوں کا قول اس بارے میں معتبر نہ ہوگا۔ کہ امام جماعت میں اصل ہوتا ہے اور مقتدی حضرات اس کے تابع ہوتے ہیں۔(۱)نوٹ: تسبیح کی مقدار ٹھیرنا مراد ہوگا نہ کہ تسبیح پڑھنا۔(۱) وکذا القعدۃ في آخر الرکعۃ الأولیٰ أو الثالثۃ فیجب ترکہا، ویلزم من فعلہا أیضاً تأخیر القیام إلی الثانیۃ أو الرابعۃ عن محلہ، وہذا إذا کانت القعدۃ طویلۃ، أما الجلسۃ الخفیفۃ التي استحبہا الشافعي فترکہا غیر واجب عندنا، بل ہو الأفضل کما سیأتي۔ (ابن عابدین، رد المحتار علی الدر المختار، ’’کتاب الصلاۃ: باب صفۃ الصلاۃ، مطلب: لا ینبغي أن یعدل عن الدرایۃ إذا وافقتہا روایۃ‘‘: ج ۲، ص: ۱۶۴)

فتاوى دار العلوم وقف ديوبند: ج 7، ص: 277

نماز / جمعہ و عیدین

الجواب وباللّٰہ التوفیق: اس صورت میں گمان غالب کا اعتبار ہوگا آپ کے گمان کے مطابق جو مقدار رکعتوں کی یا سجدے کی غالب ہو جائے اسی کا اعتبار کرکے نماز پوری کریں۔(۱)

(۱) وإذا شک) في صلاتہ (من لم یکن ذلک) أي الشک (عادۃ لہ)، وقیل: من لم یشک في صلاۃ قط بعد بلوغہ، وعلیہ أکثر المشایخ، بحر عن الخلاصۃ، (کما صلی استأنف) بعمل مناف وبالسلام قاعداً أولی؛ لأنہ المحل (وإن کثر) شکہ (عمل بغالب ظنہ إن کان) لہ ظن للحرج (وإلا أخذ بالأقل)؛ لتیقنہ۔ قولہ: (من لم یکن ذلک عادۃ لہ) ہذا قول شمس الأئمۃ السرخسي واختارہ في البدائع، ونص في الذخیرۃ علی أنہ الأشبہ۔ قال في الحلیۃ: وہو کذلک۔ وقال فخر الإسلام: من لم یقع لہ في ہذہ الصلاۃ واختارہ ابن الفضل۔قولہ: (استأنف بعمل مناف إلخ) فلا یخرج بمجرد النیۃ، کذا قالوا۔ وظاہرہ أنہ لا بد من العمل، فلو لم یأت بمناف وأکملہا علی غالب ظنہ لم تبطل إلا أنہا تکون نفلاً ویلزمہ أداء الفرض، ولو کانت نفلاً ینبغي أن یلزمہ قضاؤہ وإن أکملہا؛ لوجوب الاستئناف علیہ، بحر، وأقرہ في النہر والمقدسي۔قولہ: (وإن کثر شکہ) بأن عرض لہ مرتین في عمرہ علی ماعلیہ أکثرہم، أو في صلاتہ علی ما اختارہ فخر الإسلام۔ وفي المجتبی: وقیل: مرتین في سنۃ، ولعلہ علی قول السرخسي، بحر ونہر۔قولہ: (للحرج) أي في تکلیفہ بالعمل بالیقین قولہ: (وإلا) أي وإن لم یغلب علی ظنہ شيء، فلو شک أنہا أولی الظہر أو ثانیتہ یجعلہا الأولی ثم یقعد لاحتمال أنہا الثانیۃ ثم یصلي رکعۃ ثم یقعد لما قلنا، ثم یصلي رکعۃً ویقعد لاحتمال أنہا الرابعۃ، ثم یصلي أخری ویقعد لما قلنا، فیأتي بأربع قعدات قعدتان مفروضتان وہما الثالثۃ والرابعۃ، وقعدتان واجبتان؛ ولو شک أنہا الثانیۃ أو الثالثۃ أتمہا وقعد ثم صلی أخری وقعد ثم الرابعۃ وقعد، وتمامہ في البحر وسیذکر عن السراج أنہ یسجد للسہو۔ (الحصکفي، الدر المختار مع رد المحتار، ’’کتاب الصلاۃ: باب سجود السہو‘‘: ج ۲، ص: ۵۶۰، ۵۶۱)

فتاوى دار العلوم وقف ديوبند: ج 7، ص: 276

نماز / جمعہ و عیدین

الجواب وبا للّٰہ التوفیق: نماز واجب کا وہی حکم ہے جو نماز فرض کا ہے پس اگر قعدہ اولیٰ میں تشہد کے بعد درود شریف پڑھا گیا تو سجدہ سہو لازم ہوگا اور سنن مؤکدہ میں دو قول ہیں مگر احوط یہ ہی ہے کہ سجدہ سہو کیا جائے۔(۱)(۱) ولو قراء آیۃ في الرکوع أو السجود أو القومۃ فعلیہ السہو، ولو قراء في القعود إن قراء قبل التشہد في القعدتین فعلیہ السہو لترک واجب الابتداء بالتشہد أول الجلوس۔ (أحمد بن إسماعیل، حاشیۃ الطحطاوي علی مراقي الفلاح، ’’کتاب الصلاۃ: باب سجود السہو‘‘: ص: ۴۶۱)وإذا قراء الفاتحۃ مکان التشہد فعلیہ السہو وکذلک إذا قرأ الفاتحۃ ثم التشہد کان علیہ السہو۔ (جماعۃ من علماء الہند، الفتاویٰ الہندیۃ، ’’کتاب الصلاۃ: الباب الثاني عشر: في سجود السہو‘‘: ج ۱، ص: ۱۸۷)

فتاوى دار العلوم وقف ديوبند: ج 7، ص: 275

نماز / جمعہ و عیدین

الجواب وبا للّٰہ التوفیق: اس صورت میں سجدہ سہو واجب نہیں ہوگا۔(۲)(۲) ولو کرر التشہد في القعدۃ الأولی فعلیہ السہو وکذا لو زاد علی التشہد الصلاۃ علی النبي صلی اللّٰہ علیہ وسلم، ہکذا في التبیین۔ وعلیہ الفتویٰ، کذا في المضمرات … ولو کررہ في القعدۃ الثانیۃ فلا سہو علیہ، کذا في التبیین۔ (جماعۃ من علماء الہند، الفتاویٰ الہندیۃ، ’’کتاب الصلاۃ: الباب الثاني عشر: في سجود السہو‘‘: ج ۱، ص: ۱۸۷)(وتأخیر قیام إلی الثالثۃ بزیادۃ علی التشہد بقدر رکن) وقیل: بحرف، وفي الزیلعي: الأصح وجوبہ باللہم صلّ علی محمد قولہ: (وفي الزیلعي الخ) جزم بہ المصنف في متنہ في فصل إذا أراد الشروع وقال إنہ المذہب واختارہ في البحر تبعا للخلاصۃ والخانیۃ۔ والظاہر أنہ لا ینافي قول المصنف ہنا بقدر رکن تأمل۔ (الحصکفي، الدر المختار مع رد المحتار، ’’کتاب الصلاۃ: باب سجود السہو‘‘: ج ۲، ص: ۵۴۴، ۵۴۵)

فتاوى دار العلوم وقف ديوبند: ج 7، ص: 274

نماز / جمعہ و عیدین

الجواب وبا للّٰہ التوفیق: صورت مسئولہ میں ایک رکعت کے بعد قعدہ کرنا بہتر تھا جو آپ نے کیا وہ درست کیا آپ کے ساتھی نے قعدہ نہیں کیا تو خلاف اولی کیا مگر نماز اس کی بھی صحیح  ہوگئی اعادہ کی ضرورت نہیں۔حضرت مسروق اور حضرت جندب کو بھی یہ بات پیش آئی تو حضرت مسروق نے قعدہ کیا اور حضرت جندب نے نہیں کیا، حضرت عبداللہ بن مسعودؓ کے پاس واقعہ پہونچا تو آپ نے فرمایا کہ دونوں کی نماز ہوگئی مگر مسروق نے افضل پر عمل کیا ہے۔(۱)

(۱) ویقضي أول صلاتہ في حق قراء ۃ، وآخرہا في حق تشہد؛ فمدرک رکعۃ من غیر فجر یأتي برکعتین بفاتحۃ وسورۃ وتشہد بینہما، وبرابعۃ الرباعي بفاتحۃ فقط، ولا یقعد قبلہا۔ (الحصکفي، الدر المختار مع رد المحتار، ’’کتاب الصلاۃ: باب الإمامۃ، مطلب: فیما لو أتی بالرکوع والسجود الخ‘‘: ج ۲، ص: ۳۴۷)وفي الفیض عن المستصفی: لو أدرکہ في رکعۃ الرباعي یقضي رکعتین بفاتحۃ وسورۃ، ثم یتشہد، ثم یأتي بالثالثۃ بفاتحۃ خاصۃ عند أبي حنیفۃ۔ وقالا: رکعۃ بفاتحۃ وسورۃ وتشہد، ثم رکعتین أولاہما بفاتحۃ وسورۃ، وثانیتہما بفاتحۃ خاصۃ۔ اہـ۔ وظاہر کلامہم اعتماد قول محمد۔ (ابن عبادین، رد المحتار مع الدر المختار، ’’أیضا:‘‘)

فتاوى دار العلوم وقف ديوبند: ج 7، ص: 273

نماز / جمعہ و عیدین

الجواب وباللّٰہ التوفیق: بشرطِ صحت سوال نماز درست ہوگئی شبہ نہ کیا جائے۔(۱)(۱) کذا صرح بذلک في غیر ہذا المصنف علی ہذہ الواجبات في باب صفۃ الصلاۃ وبقي واجب آخر وہو عدم تأخیر الفرض والواجب وعدم تغییرہما وعلیہ تفرع مسائل منہا لو رکع رکوعین أو سجد ثلاثا في رکعۃ لزمہ السجود لتأخیر الفرض وہو السجود في الأول والقیام في الثاني۔ (ابن نجیم، البحر الرائق شرح کنز الدقائق، ’’کتاب الصلاۃ: باب سجود السہو‘‘: ج ۲، ص: ۱۷۱، ۱۷۲)

فتاوى دار العلوم وقف ديوبند: ج 7، ص: 273

نماز / جمعہ و عیدین

الجواب وبا للّٰہ التوفیق: مذکورہ صورت میں سجدہ سہو واجب نہیں ہے، امام کو لقمہ دینے کے لئے ’’اللّٰہ أکبر، سبحان اللّٰہ، الحمد للّٰہ‘‘ کہہ سکتا ہے۔(۱)(۱) واحترز بقصد الجواب عما لو سبح لمن استأذنہ في الدخول علی قصد إعلامہ أنہ في الصلاۃ کما یأتي أو سبح لتنبیہ إمامہ فإنہ وإن لزم تغییرہ بالنیۃ عندہما إلا أنہ خارج عن القیاس بالحدیث الصحیح إذا نابت وہو في الصلاۃ فلیسبح۔ (ابن عابدین، الدر المختار مع رد المحتار، ’’کتاب الصلاۃ: باب ما یفسد الصلاۃ، وما یکرہ فیہا، مطلب: المواضع التي لا یجب فیہا رد السلام‘‘: ج ۲، ص: ۳۸۰)

فتاوى دار العلوم وقف ديوبند: ج 7، ص: 272