Business & employment

Ref. No. 2024/44-1994

In the name of Allah the most Gracious the most Merciful

The answer to your question is as follows:

If you have already made an agreement with a shopkeeper that the customer who goes to the shop in your name or with your slip, the shopkeeper will have to pay 5% commission on his total bill without any extra charge to the customer. Now, if the shopkeeper gives the goods to the customer at the market price, and the shopkeeper does not increase the price due to the workman, then it is permissible to take a specified commission from the shopkeeper. You go with the customer or send him alone to the specified shop, in both cases you are entitled to receive your commission.

لو سعی الدلال بينهما وباع المالک بنفسه ینظر إلی المعرف إن کانت الدلالة علی البائع فعليه وإن کانت علی المشتري فعليه وإن کانت عليهما فعليهما. (شرح منظومة ابن وهبان: ۲/۷۸)

And Allah knows best

Darul Ifta

Darul Uloom Waqf Deoband

 

اسلامی عقائد

الجواب وباللّٰہ التوفیق:قرآن کریم پڑھ کر مرحومین کو ایصال ثواب کرنا شرعاً جائز اور درست ہے، اس سے مرحومین کو فائدہ بھی حاصل ہوتا ہے؛ مگر اس پر علماء محدثین وفقہاء کا اتفاق ہے کہ قرآن پاک کی تلاوت پر اجرت لینا ناجائز اور حرام ہے۔ جس کی وجہ سے خود قاریوں کو ثواب نہیں ملتا، تو وہ دوسروں کو کیسے ایصال ثواب کریں گے؛ اس لئے یہ بدعت سیئہ بھی ہے اور شرعاً ناجائز بھی، اس طرح مقصد تو فوت ہو ہی گیا اور تلاوت پر اجرت کا گناہ بھی ہوا، ہاں اگر کچھ لوگ صرف اللہ کے لئے قرآن پاک پڑھ کر ایصال ثواب کردیں، تو اس میں کوئی حرج نہیں ہے؛ بلکہ جائز اور مستحسن ہے۔(۱)

(۱) فالحاصل أن ما شاء في زماننا من قراء ۃ الأجزاء بالأجرۃ لا یجوز: لأن فیہ الأمر بالقراء ۃ وإعطاء الثواب للآمر والقراء ۃ لأجل المال، فإذا لم یکن للقاري ثواب لعدم النیۃ الصحیحۃ فأین یصل الثواب إلی المستأجر، ولو لا الأجرۃ ما قرأ أحد لأحد في ہذا الزمان، بل جعلوا القرآن العظیم مکسباً ووسیلۃ إلی جمع الدنیا۔ (ابن عابدین، الدر المختار مع رد المحتار، ’’کتاب الإجارۃ، باب الإجارۃ الفاسدۃ، مطلب: تحریر مہم في عدم جواز الاستئجار علی التلاوۃ‘‘: ج ۹، ص: ۷۷)
فللإنسان أن یجعل ثواب عملہ لغیرہ عند أہل السنۃ والجماعۃ صلوٰۃ کان أو صوماً أو حجاً أو صدقۃ أو قراء ۃ للقرآن أو الأذکار أو غیر ذلک من أنواع البر ویصل ذلک إلی المیت وینفعہ۔ (ابن نجیم، البحر الرائق، ’’کتاب الحج: باب الحج عن الغیر‘‘: ج ۳، ص: ۱۰۵؛ ابن الہمام، فتح القدیر، ’’کتاب الحج: باب الحج عن الغیر‘‘: ج ۳، ص: ۱۳۱)
إن القرآن بالأجرۃ لا یستحق الثواب لا للمیت ولا للقاري۔ (ابن عابدین، الدر المختار مع رد المحتار، ’’کتاب الإجارۃ: باب الإجارۃ الفاسدۃ، مطلب: تحریر مہم في عدم جواز الاستئجار علی التلاوۃ‘‘: ج ۹، ص: ۷۷)
والحاصل أن اتخاذ الطعام عند قراء ۃ القرآن لأجل الأکل یکرہ۔ (ابن عابدین، الدر المختار مع رد المحتار، ’’کتاب الصلاۃ: باب صلاۃ الجنازۃ، مطلب: في کراہۃ الضیافۃ من أہل المیت‘‘: ج ۳، ص: ۱۴۸)


فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج1ص304

اسلامی عقائد

Ref. No. 2401/44-3627

بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔  اگر نجاست کا اثر ظاہر نہ ہو توبارش کے موسم میں  راستہ  میں موجود بارش کا پانی  اور کیچڑ عفو کے درجہ میں  ہے، اور گاڑیوں سے اٹھنے والے پانی  کا فوارہ بھی اسی حکم میں ہے، اس میں نماز درست ہے، علماء نے عموم بلوی  کی وجہ سے دفع حرج کے لئے اس کی گنجائش دی ہے۔ 

طین الشوارع عفو وإن ملأ الثوب للضرورۃ، ولو مختلطاً بالعذرات وتجوز الصلوٰۃ معہ الخ۔ بل الأشبہ المنع بالقدر الفاحش منہ إلا لمن ابتلي بہ بحیث یجيء ویذہب في أیام الأوحال في بلادنا الشامیۃ؛ لعدم انفکاک طرقہا من النجاسۃ غالباً مع عسر الاحتراز بخلاف من لا یمر بہا أصلاً في ہٰذہ الحالۃ فلا یعفی في حقہ، حتی أن ہٰذا لا یصلي في ثوب ذاک۔ (شامی، ۱/۵۳۱)

سئل أبو نصر عن ماء الثلج الذي یجري علی الطریق، وفي الطریق سرقین ونجاسات یتبین فیہ أیتوضأ بہ؟ قال: متی ذہب أثر النجاسۃ ولونہا جاز، وفي الحجۃ: ماء الثلج والمطر یجري في الطریق إذا کان بعیداً من الأرواث یجوز التوضي بہ بلاکراہۃ۔ (فتاویٰ تاتارخانیۃ ۱؍۲۹۸ رقم: ۴۸۱/بحوالہ کتاب النوازل)

وبتغیر أحد أوصافہ من لون أو طعم أو ریح ینجس الکثیر ولو جاریاً إجماعاً۔ أما القلیل فینجس وإن لم یتغیر۔ (درمختار مع الشامي : ۱/۳۳۲)

ولا یضر بقاء أثر کلون وریح فلا یکلف في إزالتہ إلی ماء حارٍ أو صابون ونحوہ۔ (شامي : ۱/۵۳۷)

واللہ اعلم بالصواب

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند

 

فقہ

Ref. No. 2510/45-3831

بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ نمازیں مقررہ اوقات میں فرض ہیں اور جان بوجھ کر کسی نماز کو قضا کرنا سخت گناہ کا  کام ہے۔ البتہ اگر کوئی طبعی یا شرعی مجبوری درپیش ہو اور آدمی فرض نماز اداکرنے پر قادر نہ ہو تو ایسی مجبوری میں نماز قضا ہوجانے پر امید ہے کہ گناہ گار نہ ہوگا، لیکن شرط یہ ہے جب یاد آجائے اور جب قدرت ہوجائے تو فورا نماز کی قضاکرلے۔ جان بوجھ کر کسی نماز کو قضا کرنا یا قضا نماز کی ادائیگی میں جان بوجھ کر  ٹال مٹول کرنا گناہ کا باعث ہوگا۔ اگر کوئی مجبوری ہو تو اس کی وضاحت  کرکے دوبارہ سوال کرلیں۔

واللہ اعلم بالصواب

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند

 

طہارت / وضو و غسل

Ref. No. 2575/45-3942

بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔  ہماری معلومات کے مطابق جلد کے اندر سے ایک طرح کا روغن نکلتا رہتا ہے جس سے جلد کے اوپر چکناہٹ اور چمک پیدا ہوتی ہے، بعض مرتبہ ان مسامات سے جب روغن نکلنا بند ہو جاتا ہے یا کم نکلتا ہے تو ان میں میل جمع ہو جاتا ہے، وہی میل بعض مرتبہ سخت ہو جاتا ہے اور چاول کے دانوں کی طرح نظر آتا ہے اور باہر نکلتا ہے، بہر حال اس کے نکلنے سے نہ تو وضو ٹوٹتا ہے اور نہ ہی اس کے پانی میں گرنے سے پانی ناپاک ہوتا ہے، اسی طرح دانے نکلنے کی جگہ کا دھونا بھی ضروری نہیں ہے، تاہم اگر اس کے ساتھ خون بھی نکلے تو اس کا حکم مختلف ہوگا۔

واللہ اعلم بالصواب

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند

 

حدیث و سنت

الجواب وباللّٰہ التوفیق:حضرت مریم علیہا السلام کے والد کا نام عمران اور والدہ کا نام حَنَّہ ہے۔(۲)

(۲)أحمد بن محمد الصاوي،  تفسیر الصاوي: ج۳، ص ۳۶۔
{إِذْ قَالَتِ امْرَاَتُ عِمْرٰنَ رَبِّ إِنِّيْ نَذَرْتُ لَکَ مَافِيْ بَطْنِيْ مُحَرَّرًا فَتَقَبَّلْ مِنِّيْج إِنَّکَ أَنْتَ السَّمِیْعُ الْعَلِیْمُہ۳۵} (سورۃ آل عمران: ۳۵)

قال الدمشقي: إمراء ۃ عمران ہذہ أم مریم بنت عمران علیہا السلام وہي حنہ بنت فاقوذ۔ (ابن کثیر، تفسیر ابن کثیر، ’’سورۃ آل عمران: ۳۵‘‘ : ج ۴، ص: ۳۲۴)
 

فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج2ص229

طہارت / وضو و غسل

الجواب وباللہ التوفیق:ایسا بڑا تالاب جو کئی میل میں پھیلا ہوا ہے، اس کا پانی پاک ہے، اس میں دھویا ہوا کپڑا پاک ہے، ناپاک نہیں ہے۔(۲)

(۲)والغدیر العظیم الذي لا یتحرک أحد طرفیہ بتحریک الطرف الآخر إذا وقعت نجاسۃ في أحد جانبیہ، جاز الوضوء من الجانب الآخر۔ (المرغینانی، الہدایہ، کتاب الطہارۃ، باب الماء الذي یجوز بہ التوضؤ ومالا یجوز بہ،ج۱،ص:۳۶)، إذا ألقي في الماء الجاري شيء نجس کالجیفۃ … پچھلے صفحہ کا بقیہ حاشیہ …والخمر، لا یتنجس مالم یتغیر لونہ أو طعمہ أو ریحہ۔ (جماعۃ من علماء الہند ، الفتاوی الہندیہ، کتاب الطہارۃ، الفصل الأول فیما یجوز بہ التوضؤ، ج۱، ص:۶۸)، الحوض إذا کان عشراً في عشر، جاز التوضیٔ منہ والاغتسال فیہ۔ (سراج الدین محمد، فتاویٰ سراجیہ، باب ما یجوز بہ الوضوء والغسل، ج۱، ص:۴۱)
 

 فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج2ص433

 

طہارت / وضو و غسل

الجواب وباللہ التوفیق:باتھ روم میں غسل کے دوران اگر ستر کھلا ہوا ہو تو بغیر ضرورت کے بات کرنا بہتر نہیں ہے؛ البتہ اگر ستر کھلا ہوا نہ ہو تو کوئی مضائقہ نہیں ہے۔

’’وقال الطحاوي: وآداب الاغتسال ہي مثل آداب الوضوء وقد بیناہا إلا أنہ لا یستقبل القبلۃ حال اغتسالہ لأنہ یکون غالبا مع کشف العورۃ فإن کان مستورا فلا بأس بہ ویستحب أن لا یتکلم بکلام معہ ولو دعاء لأنہ في مصب الأقذار ویکرہ مع کشف العورۃ‘‘(۱)

(۱) الطحطاوي، حاشیۃ الطحطاوي علی مراقي الفلاح، ’’ ‘‘: ج ۱، ص: ۱۰۵۔
 

 فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج3 ص346

نماز / جمعہ و عیدین

الجواب وباللّٰہ التوفیق: حروف کی ادائیگی صحیح طریقہ پر ہونی چاہئے حتی الامکان امام صاحب کو اس کی کوشش کرنی چاہئے(۱) لیکن انگوٹھے چومنا اور دعاء میں یاغوث کہنا غلط عقیدہ ہے جو بدعت ہے ایسے شخص کو امام نہ بنانا چاہئے؛ بلکہ دیندار متبع سنت شخص کو نماز جیسے اہم فریضہ کی ادائیگی کا امام بنانا چاہئے؛ البتہ حی علی الفلاح پر کھڑا ہونا اور ایسے ہی شروع تکبیر میں کھڑا ہونا دونوں جائز ہیں اس بارے میں ایک فریق کو دوسرے پر نکیر نہ کرنی چاہئے مگر مذکورہ بالا غلط عقیدہ رکھنے والے بدعتی کی امامت مکروہ ہے۔ بیت المقدس تمام انبیاء کا قبلہ ہے اس کو آرام گاہ کہنا ہے بے ادبی ہے، اس لیے کہ وہ عبادت گاہ ہے آرام گاہ نہیں ہے۔(۲)

(۱) قولہ ثم الأحسن تلاوۃ و تجویدا أفاد بذلک أن معنی قولہم أقرأ أي أجود لاأکثرہم حفظاً، وإن جعلہ في البحر متبادراً، ومعنی الحسن في التلاوۃ أن یکون عالماً بکیفیۃ الحروف والوقف وما یتعلق بہا۔ (ابن عابدین، رد المحتار، ’’کتاب الصلاۃ، باب الإمامۃ، مطلب في تکرار الجماعۃ في المسجد‘‘: ج۲، ص: ۲۹۴، زکریا دیوبند)
(۲) ویکرہ إمامۃ مبتدع أي صاحب بدعۃ وہي اعتقاد خلاف المعروف، وقال الشامي، بأنہا ما أحدث علی خلاف الحق المتلقي عن رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم من علم أو عمل أو حال…بنوع شبہۃ واستحسان وجعل دیناً قویماً وصراطاً مستقیماً۔ (أیضًا)
وقال في مجمع الروایات، إذا صلی خلف فاسق أو مبتدع یکون محرزاً ثواب الجماعۃ لکن لاینال ثواب من یصلي خلف إمام تقي۔ (أحمد بن محمد، حاشیۃ الطحطاوي علی مراقي الفلاح، ’’کتاب الصلاۃ: فصل في بیان الأحق بالإمامۃ‘‘: ص: ۳۰۳، شیخ الہند دیوبند)

 

فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج5 ص129

 

نماز / جمعہ و عیدین

الجواب وباللّٰہ التوفیق: اگر مذکورہ شخص کو اتنا وقت بھی نہ مل سکے کہ ایک وقت کی نماز وضو کر کے ادا کر لے اور اس وقت میں قطرہ نہ آئے، بلکہ قطرہ آجاتا ہو تو وہ شخص شرعاً معذور ہے اس کا حکم یہ ہے کہ ایک وقت میں وضو کر کے جس قدر نمازیں چاہے پڑھے، دوسری نماز کے لیے از سر نو وضو کرے یہ شخص معذور ہے جو غیر معذور کا امام نہیں بن سکتا۔(۲)

(۲) وصاحب عذر من بہ سلس بول لا یمکنہ إمساکہ أو استطلاق بطن أو انفلات ریح… إن استوعب عذرہ تمام وقت صلاۃ مفروضۃ بأن لا یجد في جمیع وقتہا زمنا یتوضأ ویصلي فیہ خالیا عن الحدث ولو حکما لأن الانقطاع الیسیر ملحق بالعدم۔ (الحصکفي، رد المحتار مع الدرالمختار، ’’کتاب الطہارۃ، باب الحیض، مطلب في أحکام المعذورین‘‘: ج ۱، ص: ۵۰۴)
ومعذور بمثلہ وذي عذرین بذي عذر، لا عکسہ کذي انفلات ریح بذي سلس لأن مع الإمام حدثا ونجاسۃ۔ (أیضًا:’’مطلب: الواجب کفایۃ ہل یسقط بفعل الصبي وحدہ‘‘: ج ۲، ص: ۳۲۳)

 

فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج5 ص226