Frequently Asked Questions
عائلی مسائل
Ref. No. 1693/43-1334
بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ شوہر کے انتقال کے وقت بیوی ملتان میں تھی تو وہیں عدت گزارے۔ عام حالات میں دوران عدت سفر وغیرہ سے حتی الامکان گریز کرنا لازم ہے۔ البتہ اگر ملتان میں رہنا ممکن نہ ہو اور سفر کرکے کراچی آنا ہی ناگزیر ہو تو کسی محرم کے ساتھ دن میں سفر کرکے اپنے مقام پر پہونچ جائے اور عدت وہیں گزارے پھر دوبارہ سفر نہ کرے۔ حضرت ابوسعید خدریؓ کی بہن حضرت فریعہ بنت مالک ؓ بیوہ ہوگئیں تواللہ کے رسولِ صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں حکم دیا : اُمْکُثِیْ فِیْ بَیْتِکَ حَتّٰی یَبْلُغَ الْکِتَابَ اَجَلَہٗ (ابوداؤد : ۲۳۰۰، ترمذی : ۱۲۰۴)
فقہاء نے لکھا ہے کہ بیوہ عورت وقتِ ضرورت دن میں تو گھر سے باہر جاسکتی ہے ، لیکن رات اسے ضرور اپنے گھر ہی میں گزارنی چاہیے۔ (فتاویٰ عالم گیری ،۱/۵۳۴ ، بدائع الصنائع ،۳/۲۰۵، ۲۰۶، فتح القدیر ،۳/۲۸۵)
حَدَّثَنَا الأَنْصَارِيُّ قَالَ: حَدَّثَنَا مَعْنٌ قَالَ: حَدَّثَنَا مَالِكٌ، عَنْ سَعْدِ بْنِ إِسْحَاقَ بْنِ كَعْبِ بْنِ عُجْرَةَ، عَنْ عَمَّتِهِ زَيْنَبَ بِنْتِ كَعْبِ بْنِ عُجْرَةَ، أَنَّ الفُرَيْعَةَ بِنْتَ مَالِكِ بْنِ سِنَانٍ وَهِيَ أُخْتُ أَبِي سَعِيدٍ الخُدْرِيِّ، أَخْبَرَتْهَا [ص:501] أَنَّهَا جَاءَتْ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ تَسْأَلُهُ أَنْ تَرْجِعَ إِلَى أَهْلِهَا فِي بَنِي خُدْرَةَ، وَأَنَّ زَوْجَهَا خَرَجَ فِي طَلَبِ أَعْبُدٍ لَهُ أَبَقُوا، حَتَّى إِذَا كَانَ بِطَرَفِ القَدُومِ لَحِقَهُمْ فَقَتَلُوهُ، قَالَتْ: فَسَأَلْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَنْ أَرْجِعَ إِلَى أَهْلِي، فَإِنَّ زَوْجِي لَمْ يَتْرُكْ لِي مَسْكَنًا يَمْلِكُهُ وَلَا نَفَقَةً، قَالَتْ: فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «نَعَمْ»، قَالَتْ: فَانْصَرَفْتُ، حَتَّى إِذَا كُنْتُ فِي الحُجْرَةِ، أَوْ فِي المَسْجِدِ، نَادَانِي رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، أَوْ أَمَرَ بِي فَنُودِيتُ لَهُ، فَقَالَ: «كَيْفَ قُلْتِ؟»، قَالَتْ: فَرَدَدْتُ عَلَيْهِ القِصَّةَ الَّتِي ذَكَرْتُ لَهُ مِنْ شَأْنِ زَوْجِي، قَالَ: «امْكُثِي فِي بَيْتِكِ حَتَّى يَبْلُغَ الكِتَابُ أَجَلَهُ»، قَالَتْ: فَاعْتَدَدْتُ فِيهِ أَرْبَعَةَ أَشْهُرٍ وَعَشْرًا، قَالَتْ: فَلَمَّا كَانَ عُثْمَانُ أَرْسَلَ إِلَيَّ، فَسَأَلَنِي عَنْ ذَلِكَ، فَأَخْبَرْتُهُ، فَاتَّبَعَهُ وَقَضَى بِهِ حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ بَشَّارٍ قَالَ: حَدَّثَنَا يَحْيَى بْنُ سَعِيدٍ قَالَ: حَدَّثَنَا سَعْدُ بْنُ إِسْحَاقَ بْنِ كَعْبِ بْنِ عُجْرَةَ فَذَكَرَ نَحْوَهُ بِمَعْنَاهُ.: «هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ»، " وَالعَمَلُ عَلَى هَذَا الحَدِيثِ عِنْدَ أَكْثَرِ أَهْلِ العِلْمِ مِنْ أَصْحَابِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَغَيْرِهِمْ: لَمْ يَرَوْا لِلْمُعْتَدَّةِ أَنْ تَنْتَقِلَ مِنْ بَيْتِ زَوْجِهَا حَتَّى تَنْقَضِيَ عِدَّتُهَا، [ص:502] وَهُوَ قَوْلُ سُفْيَانَ الثَّوْرِيِّ، وَالشَّافِعِيِّ، وَأَحْمَدَ، وَإِسْحَاقَ «،» وقَالَ بَعْضُ أَهْلِ العِلْمِ مِنْ أَصْحَابِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَغَيْرِهِمْ: لِلْمَرْأَةِ أَنْ تَعْتَدَّ حَيْثُ شَاءَتْ، وَإِنْ لَمْ تَعْتَدَّ فِي بَيْتِ زَوْجِهَا ".: «وَالقَوْلُ الأَوَّلُ أَصَحُّ» (سنن الترمذی 3/500 الرقم 1204) (سنن ابی داؤد، باب فی المتوفی عنھا تنتقل 3/608 الرقم 2300)
أبانها، أو مات عنها في سفر) ولو في مصر (وليس بينها) وبين مصرها مدة سفر رجعت ولو بين مصرها مدته وبين مقصدها أقل مضت (وإن كانت تلك) أي مدة السفر (من كل جانب) منهما ولا يعتبر ما في ميمنة وميسرة، فإن كانت في مفازة (خيرت) بين رجوع ومضي (معها ولي، أو لا في الصورتين، والعود أحمد) لتعد في منزل الزوج (و) لكن (إن مرت) بما يصلح للإقامة كما في البحر وغيره. زاد في النهر: وبينه وبين مقصدها سفر (أو كانت في مصر) أو قرية تصلح للإقامة (تعتد ثمة) إن لم تجد محرما اتفاقا، وكذا إن وجدت عند الإمام (ثم تخرج بمحرم) إن كان". (الدر المختار علی تنویر الابصار (3/ 538)
"(وتعتدان) أي معتدة طلاق وموت (في بيت وجبت فيه) ولا يخرجان منه (إلا أن تخرج أو يتهدم المنزل، أو تخاف) انهدامه، أو (تلف مالها، أو لا تجد كراء البيت) ونحو ذلك من الضرورات فتخرج لأقرب موضع إليه. (قوله: في بيت وجبت فيه) هو ما يضاف إليهما بالسكنى قبل الفرقة ولو غير بيت الزوج كما مر آنفا، وشمل بيوت الأخبية كما في الشرنبلالية. (قوله: ولا يخرجان) بالبناء للفاعل، والمناسب " تخرجان " - بالتاء الفوقية -؛ لأنه مثنى المؤنث الغائب أفاده ط. (قوله: إلا أن تخرج) الأولى الإتيان بضمير التثنية فيه وفيما بعده ط، وشمل إخراج الزوج ظلما، أو صاحب المنزل لعدم قدرتها على الكراء، أو الوارث إذا كان نصيبها من البيت لا يكفيها بحر: أي لا يكفيها إذا قسمته لأنه لا يجبر على سكناها معه إذا طلب القسمة، أو المهايأة ولو كان نصيبها يزيد على كفايتها. (قوله: أو لا تجد كراء البيت) أفاد أنها لو قدرت عليه لزمها من مالها، وترجع به المطلقة على الزوج إن كان بإذن الحاكم كما مر. (قوله: ونحو ذلك) منه ما في الظهيرية: لو خافت بالليل من أمر الميت والموت ولا أحد معها لها التحول - والخوف شديد - وإلا فلا. (قوله: فتخرج) أي معتدة الوفاة".(الدر المختار وحاشية ابن عابدين (رد المحتار) (3/ 536)
واللہ اعلم بالصواب
دارالافتاء
دارالعلوم وقف دیوبند
اسلامی عقائد
Ref. No. 1812/43-1574
بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔کسی کو زنا سے باز رکھنے کا سبب بننا خواہ وہ زنا کرنے والے حشرات الارض ہوں یا انسان و چرند و پرند اس بات کی جانب اشارہ ہے کہ آپ کے ذریعے معاشرے میں اصلاحات ہوں گی۔ آپ کے باطن کی صفائی ہوگی اور بزرگی ظاہر ہوگی۔
خواب میں مکہ مکرمہ میں موجودگی اور وہاں ہجڑے کا زنا کی کوشش، اس امر کی جانب مشیر ہے کہ آپ کو کسی بڑے خطرے سے امن و امان نصیب ہوگی۔ کیونکہ پورے کا پورا شہر مکہ حرم کے حکم میں ہے۔ ومن دخلہ کان آمناً۔
واللہ اعلم بالصواب
دارالافتاء
دارالعلوم وقف دیوبند
اسلامی عقائد
Ref. No. 1899/43-1825
بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ دونوں پالیسیوں میں جو رقم جمع ہوچکی ہے وہ اتنی ہے کہ اس سے 612 گرام چاندی(بقدر نصاب) خریدی جاسکتی ہے، اور قربانی کے وجوب کے لئے صاحب نصاب ہونا ضروری ہے۔ جوشخص 612 گرام چاندی یا اس قدر مال رکھتاہو اس پر قربانی واجب ہے۔ لہذا آپ پر قربانی واجب ہوگی۔
البتہ پالیسیوں میں پیسے لگانے کا کیا حکم ہے، اس کو بھی سمجھ لینا چاہئے، اور سودی معاملات گریز کرنا چاہئے کہ یہ دنیا وآخرت میں خسارہ کا باعث ہے۔
واللہ اعلم بالصواب
دارالافتاء
دارالعلوم وقف دیوبند
طہارت / وضو و غسل
Ref. No. 2009/44-1965
بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔
الجواب وباللہ التوفیق: جو پرندے ہوا میں بیٹ نہیں کرتے جیسے مرغی، بطخ وغیرہ ان کی بیٹ نجاست غلیظہ ہے، لہٰذا مرغی اور بطخ کے علاوہ تمام حلال پرندوں کی بیٹ پاک ہے باقی تمام حرام پرندوں کی بیٹ ناپاک ہے، جو صرف ایک درہم کے بقدر معاف ہوگی۔
(ومنها) خرء بعض الطيور من الدجاج والبط وجملة الكلام فيه ان الطيور نوعان نوع لا يذرق في الهواء ونوع يذرق في الهواء (اما) ما لا يذرق في الهواء كالدجاج والبط فخرؤهما نجس ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ (وما) يذرق في الهواء نوعان أيضا ما يؤكل لحمه كالحمام والعصفور والعقعق ونحوها وخرؤها طاهر عندنا ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ وما لا يؤكل لحمه كالصقر والبازي والحدأة وأشباه ذلك خرؤها طاهر عند أبي حنيفة وأبى يوسف وعند محمد نجس نجاسة غليظة (بدائع الصنائع 1/62، کتاب الطہارۃ)
واللہ اعلم بالصواب
دارالافتاء
دارالعلوم وقف دیوبند
فقہ
Ref. No. 2104/44-2127
بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ بارات سے پہلے دلہے کا دو رکعت بطور شکرانہ یا صلوۃ الحاجۃتنہا پڑھنا جائز ہے بشرطیکہ اس کو ضروری نہ سمجھے اور ویڈیوگرافی اور دیگر خرافات سے بچے۔ البتہ شب زفاف میں میاں بیوی کاملاقات سے پہلے دو رکعت نفل پڑھنا احادیث سے ثابت ہے، اس کا اہتمام کرنا چاہئے اور خیر کی دعا کرنی چاہئے۔
"حدثنا ابن إدريس، عن داود، عن أبي نضرة، عن أبي سعيد، مولى أبي أسيد، قال: تزوجت وأنا مملوك، فدعوت نفراً من أصحاب النبي صلى الله عليه وسلم فيهم ابن مسعود وأبوذر وحذيفة، قال: وأقيمت الصلاة، قال: فذهب أبو ذر ليتقدم، فقالوا: ’’إليك‘‘، قال: أو كذلك؟ قالوا: ’’نعم‘‘، قال: فتقدمت إليهم وأنا عبد مملوك وعلموني، فقالوا: ’’إذا أدخل عليك أهلك فصل عليك ركعتين، ثم سل الله تعالى من خير ما دخل عليك، وتعوذ به من شره، ثم شأنك وشأن أهلك‘‘. (کتاب النکاح، ما يؤمر به الرجل إذا دخل على أهله؟ (مصنف ابن أبي شیبه:: ۳/ ۵۶۰، ط: مكتبة الرشد، الرياض)
واللہ اعلم بالصواب
دارالافتاء
دارالعلوم وقف دیوبند
اسلامی عقائد
الجواب وباللّٰہ التوفیق:میت کے ایصال ثواب کے لئے قرآن پاک پڑھ کر میت کو ثواب بخشنے کے لئے شرعی طریقہ پر کوئی دن یا وقت مقرر نہیں ہے، بہتر یہ ہے کہ انتقال کے بعد ہی ایصال ثواب کا اہتمام کرلیں تاکہ میت سے سوال وجواب ہونے سے پہلے پہلے میت کے لئے ذخیرہ مغفرت ہوجائے، اس میں کسی خاص دن کو رواج بنا کر مقرر کر لینا خلاف شریعت اور بدعت کہلائے گا؛ بلکہ میت کے لیے کسی دن بھی ایصال ثواب کردیا جائے۔(۱) جو کھانا پڑھنے والوں، پڑوسیوں اور رشتہ داروں کے لئے بنایا جاتا ہے اور اس کو ضروری سمجھا جاتا ہے، خواہ کسی میں وسعت نہ ہو، یہ بھی رسم ورواج ہوکر بدعت بن جائے گا، یہ بھی قابل ترک ہے۔(۲) البتہ اگر کوئی شخص اپنے پیسے سے میت کے ایصال ثواب کے لئے کھانا بنادے تو اس کے مستحق غریب آدمی ہیں، مالداروں کے لئے اس کا کھانا جائز نہیں ہے۔ایسے ہی میت کے گھر والے کا مہمانوں کے لئے کھانا بنانے میں کوئی حرج نہیں ہے۔(۳)
(۱) فللإنسانِ أن یجعل ثواب عملہ لغیرہ عند أہل السنۃ والجماعۃ … ویصل ذلک إلی المیت وینفعہ۔ (حاشیۃ الطحطاوي علی، مراقي الفلاح، ’’کتاب الصلاۃ: فصل في حملہا ودفنہا‘‘: ص۶۲۱)
(۲) ویکرہ اتخاذ الضیافۃ من الطعام من أہل المیت لأنہ شرع في السرور لا في الشرور، وہي بدعۃ مستقبحۃ۔ (ابن الہمام، فتح القدیر، ’’کتاب الصلاۃ: فصل في الدفن‘‘: ج ۲، ص: ۱۵۱)
(۳) {إِنَّمَا الصَّدَقٰتُ لِلْفُقَرَآئِ وَالْمَسٰکِیْنِ} (سورۃ التوبۃ: ۶۰)
فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج1ص399
اسلامی عقائد
الجواب وباللّٰہ التوفیق:یوم پیدائش نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم یا یوم وفات پر جشن و عیدمیلاد النبی وغیرہ کی خیر القرون میں کوئی اصل نہیں ملتی؛ اس لیے اگر لازم سمجھ کر اس متعین تاریخ میں جشن منایا جائے، تو بدعت اور واجب الترک ہوگا، ہاں ایصال ثواب مستحسن ہے، لیکن غیر شرعی امور کا ارتکاب موجب فسق ہے۔(۱)
(۱) ولم یکن لہ أصل من الشریعۃ الغراء۔ (علامہ أنور شاہ الکشمیري، العرف الشذي، ’’أبواب العیدین، باب ما جاء في التکبیر في العیدین‘‘: ج ۱، ص: ۵۶۸)
من أحدث فی الإسلام رأیا لم یکن لہ من الکتاب والسنۃ سند ظاہر أو خفي ملفوظ أو مستنبط فہو مردود۔ (ملا علي قاري، مرقاۃ المفاتیح، ’’کتاب الإیمان: باب الاعتصام بالکتاب والسنۃ: الفصل الأول‘‘: ج ۱، ص: ۳۳۶، رقم: ۱۴۰)(جماعۃ من علماء الہند، الفتاویٰ الہندیۃ، ’’الباب الخامس في آداب المسجد والقبلۃ‘‘: ج ۵، ص: ۳۱۹)
لا بأس بالجلوس للوعظ إذا أراد بہ وجہ اللّٰہ تعالیٰ کذا في الوجیز۔ … (جماعۃ من علماء الہند، الفتاویٰ الہندیۃ، ’’الباب الخامس في آداب المسجد والقبلۃ‘‘: ج ۵، ص: ۳۱۹)
ولأن ذکر اللّٰہ تعالیٰ إذا قصد بہ التخصیص بوقت دون وقت، أو بشيء دون شيء لم یکن مشروعاً لم یرد الشرع بہ لأنہ خلاف المشروع۔ (ابن نجیم، البحر الرائق، ’’کتاب الصلاۃ: باب العیدین‘‘: ج ۲، ص: ۲۷۹)
من أحدث فی الإسلام رأیا لم یکن لہ من الکتاب والسنۃ سند ظاہر أو خفي ملفوظ أو مستنبط فہو مردود۔ (ملا علي قاري، مرقاۃ المفاتیح، ’’کتاب الإیمان: باب الاعتصام بالکتاب والسنۃ: الفصل الأول‘‘: ج ۱، ص: ۳۳۶، رقم: ۱۴۰)
فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج1ص483
قرآن کریم اور تفسیر
الجواب وباللّٰہ التوفیق:قرآن وحدیث میں بہت سی نصوص ہیں جن میں اللہ تعالیٰ کے لیے ’’ید، وجہ‘‘ وغیرہ کا اثبات کیا گیا ہے اس طرح کی آیات واحادیث کو متشابہات کہا جاتا ہے، اس سلسلے میں حضرات اہل علم کے دو نقطہ نظر ہیں۔ سلف اور متقدمین کا نقطہ نظر تفویض کا ہے یعنی نصوص میں جن صفات کا اثبات کیا گیا ہے وہ سب بلاشبہ اللہ تعالیٰ کے لیے ان کی شایان شان ثابت ہیں؛ لیکن یہ صفات مخلوقات کی صفات کی طرح نہیں ہیں اور نہ ہمیں ان اوصاف کی کوئی کیفیت اور حقیقت معلوم ہے۔ دوسرا نقطہ نظر خلف اور متأخرین کا ہے۔ وہ حضرات ایسی تأویل کرتے ہیں جو ذات باری تعالیٰ کے شایان شان ہوں، مثلاً: ’’ید‘‘ کے معنی قدرت، ’’وجہ‘‘ کے معنی ذات کے ہیں اس کو تنزیہ مع التأویل کہتے ہیں پہلے نظریے کو تنزیہ مع التفویض کہتے ہیں، علماء دیوبند کا اصل مسلک تواول ہے؛ البتہ دوسرے نظریے کو بھی حق سمجھتے ہیں، چنانچہ حضرت تھانوی رحمۃ اللہ علیہ کا قول ہے: اس عقیدہ میں حضرات سلف کے مسلک پر ہوں کہ نصوص اپنی حقیقت پر ہیں مگر ’’کنہ‘‘ اس کی معلوم نہیں۔(۱)
’’وإنما لیسلک في ہذا المقام مذہب السلف من أئمۃ المسلمین قدیما وحدیثا وہو إمرارہا کما جاء ت من غیر تکییف ولا تشبیہ ولا تعطیل‘‘(۲)
’’وأما ما قال المتأخرون في أئمتنا في تلک الآیات یؤولونہا بتأویلات صحیحۃ في اللغۃ والشرع بأنہ یمکن أن یکون المراد من الاستواء الاستیلاء ومن الید القدرۃ إلی غیر ذلک تقریباً إلی أفہام القاصرین فحق أیضاً عندنا‘‘(۱)
(۱) أشرف علي التھانويؒ، إمداد الفتاویٰ: ج ۶، ص: ۲۵۔
(۲)ابن کثیر، تفسیر ابن کثیر، ’’سورۃ الأعراف: ۵۴۔
(۱) خلیل أحمد سہارنفوري، المہند علی المفند: ص: ۳۸۔
فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج2ص
حدیث و سنت
نماز / جمعہ و عیدین
Ref. No. 2665/45-4192
بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ حنفی شخص کے لئے ضروری ہے کہ حتی الامکان مثل ثانی کے بعد ہی عصر کی نماز پڑھنے کی کوشش کرے، اگر کوئی دوسری مسجد ہو جہاں حنفی مذہب کے مطابق نماز ہوتی ہو تو وہاں جاکر نماز پڑھے۔ البتہ اگرکسی ایسی جگہ مقیم ہے کہ جہاں دیگر فقہی مسالک رائج ہیں اور تمام مساجد میں نماز مثل اول کے بعد ہی ادا کی جاتی ہے، اور حنفی مسلک کے مطابق مثل ثانی کے بعد جماعت کے ساتھ نماز کی ادائیگی ممکن نہیں ہے، تو ایسی مساجد میں مثل اول کے بعد نماز عصر ادا کرنے گنجائش ہے۔ اپنی انفرادی نماز مثل ثانی کے بعد پڑھنے کے لئےمستقل طور پر جماعت کا ترک کرنا جائز نہیں ہے۔ البتہ اگر اس دوران کسی وجہ سے جماعت نہ مل سکے تو (انفرادی طور پر نماز پڑھتے ہوئے) مثلِ ثانی کے بعد ہی عصر پڑھنا لازم ہوگا۔
"(ووقت الظهر من زواله) أي ميل ذكاء عن كبد السماء (إلى بلوغ الظل مثليه) وعنه مثله، وهو قولهما وزفر والأئمة الثلاثة. قال الإمام الطحاوي: وبه نأخذ. وفي غرر الأذكار: وهو المأخوذ به. وفي البرهان: وهو الأظهر. لبيان جبريل. وهو نص في الباب. وفي الفيض: وعليه عمل الناس اليوم وبه يفتى (سوى فيء) يكون للأشياء قبيل (الزوال) ويختلف باختلاف الزمان والمكان، ولو لم يجد ما يغرز اعتبر بقامته وهي ستة أقدام بقدمه من طرف إبهامه(ووقت العصر منه إلى) قبيل (الغروب)." (رد المحتار ، كتاب الصلاة، ج:1، ص:359، ط:سعيد)
واللہ اعلم بالصواب
دارالافتاء
دارالعلوم وقف دیوبند