نماز / جمعہ و عیدین

الجواب وباللہ التوفیق: ایک مسجد میں ایک آدمی اذان پڑھے اور وہی آدمی دوسری مسجد میں اسی وقت کی نماز پڑھاوے تو شرعاً جائز ہے، اس کی اقتداء میں پڑھی گئیں نمازیں بلاکراہت درست ہیں۔(۱)

(۱) کرہ تحریمہا للنھي خروج من لم یصل من سجد قد أذن فیہ إلا لمن ینتظم بہ أمر جماعۃ أخری۔ (ابن عابدین،رد المحتار، ’’کتاب الصلاۃ، باب إدراک الفریضۃ‘‘:  مطلب في کراہۃ الخروج من المسجد بعد الأذان، ۲، ص: ۵۰۶، ۵۰۷)
 

فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج4 ص236

نماز / جمعہ و عیدین

الجواب وباللّٰہ التوفیق: نماز کے دوران عمل قلیل سے نماز فاسد نہیں ہوتی او رعمل کثیر سے نماز فاسد ہوجاتی ہے، عمل قلیل وکثیر کی مختلف تعریفیں کی گئی ہیں جن میں دو تعریفیں زیادہ صحیح معلوم ہوتی ہیں ایک یہ کہ دیکھنے والے کو یقین یا ظن غالب ہو کہ وہ نماز میں نہیں ہے تو وہ عمل کثیر ہے ورنہ قلیل ہے اور دوسری یہ کہ جس میں دونوں ہاتھ کا استعمال ہو وہ کثیر ہے اور جس میں ایک ہاتھ کا استعمال ہو وہ قلیل ہے۔ صورت مذکورہ میں امام صاحب نے ایک ہاتھ سے موبائل نکال کر بلا دیکھے اسے بند کردیا ہے، تو بظاہر یہ عمل قلیل ہے جس سے نماز فاسد نہیں ہوگی، لیکن امام صاحب کو اس طرح کے عمل سے بھی احتراز کرنا چاہیے اس سے بھی کراہت بہر حال پیدا ہوتی ہے۔
’’(و) یفسدہا (کل عمل کثیر) لیس من أعمالہا ولا لإصلاحہا، وفیہ أقوال خمسۃ أصحہا (ما لا یشک) بسببہ (الناظر) من بعید (في فاعلہ أنہ لیس فیہا) صححہ في البدائعِ، وتابعہ الزیلعي والولوالجي۔ وفي المحیط أنہ الأحسن۔ وقال الصدر الشہید: إنہ الصواب۔ وفي الخانیۃ والخلاصۃ: إنہ اختیار العامۃ۔ وقال في المحیط وغیرہ: رواہ الثلجي عن أصحابنا۔ حلیۃ۔ القول الثاني: أن ما یعمل عادۃ بالیدین کثیر وإن عمل بواحدۃ کالتعمم وشد السراویل، وما عمل بواحدۃ قلیل وإن عمل بہما کحل السراویل ولبس القلنسوۃ ونزعہا إلا إذا تکرر ثلاثا متوالیۃ وضعفہ في البحر بأنہ قاصر عن إفادۃ ما لا یعمل بالید کالمضغ والتقبیل‘‘(۱)

(۱) الحصکفي و ابن عابدین، الدرالمختار مع رد المحتار، ’’باب ما یفسد الصلاۃ و ما یکرہ فیھا‘‘: ج۲، ص:۳۸۴، ۳۸۵)۔

 

فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج6 ص69

خوردونوش

Ref. No. 841 Alif

الجواب وباللہ التوفیق

بسم اللہ الرحمن الرحیم:اگر کوئی خلاف شرع امر نہ پایا جائے ،کوئی مذہبی موقع نہ ہو ،  اسی طرح کسی مفسدہ کا خطرہ نہ ہو تو اگرکھانا حلال ہےتو دعوت میں جانا بھی درست ہے اور  دعوت دے کر اپنے گھر مہمان نوازی کرنا بھی درست ہے۔ مسلمانوں کو غیروں سے بھی معاملات اچھے رکھنے چاہئیں۔   واللہ اعلم بالصواب

 

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند

زیب و زینت و حجاب

Ref. No. 38 / 1143

الجواب وباللہ التوفیق                                                                                                                                                        

بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ پالش اتارکر صرف ہاتھ دھولینے سے غسل صحیح ہوجائے گا۔ دوبارہ غسل کرنے کی ضرورت نہیں ہوگی۔ واللہ اعلم بالصواب

 

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند

متفرقات

Ref. No. 41/1047

الجواب وباللہ التوفیق 

بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ ہمیں اس کی صحت و سقم کا علم نہیں۔

 واللہ اعلم بالصواب

 

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند

نماز / جمعہ و عیدین

Ref. No. 888/41-20B

الجواب وباللہ التوفیق      

بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ احناف کے نزدیک نابالغ کی امامت تراویح اور غیرتراویح میں درست نہیں ہے۔

 ولایجوز للرجال ان یقتدوا بامراۃ او صبی۔ وفی التراویح والسنن المطلقۃ جوزہ مشائخ بلخ ولم یجوزہ مشائخنا والمختار انہ لایجوز فی الصلوات کلھا (الھدایہ) لان نفل الصبی دون نفل البالغ۔ فان لم یوجد فیھما شیئ فحتی یتم بکل منھما خمس عشر سنۃ بہ یفتی (در مختار مع الشامی)

 واللہ اعلم بالصواب

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند

نماز / جمعہ و عیدین

Ref. No. 1628/43-1187

بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ دیگرنمازیوں کو دشواری ہو اس قدرتاخیر جائز نہیں ہے۔ معمولی تاخیر کرنے میں حرج نہیں ہے۔

وفي أذان التتارخانية قال: وفي المنتقى أن تأخير المؤذن وتطويل القراءة لإدراك بعض الناس حرام، هذا إذا مال لأهل الدنيا تطويلا وتأخيرا يشق على الناس. فالحاصل أن التأخير القليل لإعانة أهل الخير غير مكروه. (شامی، فروع قرا بالفارسیۃ 1/495)

واللہ اعلم بالصواب

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند

اسلامی عقائد

Ref. No. 1712/43-1440

بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ شرعی احکام  دوسروں سے فساد کو روکنے کے ساتھ ساتھ انسان کے اندرونی فساد کو روکنے کے لئے بھی ہیں۔ موسیقی گوکہ وقتی طور پر سکون دیتی ہے مگر انسان کی باطنی خرابیوں کا باعث  ہے۔حدیث میں آیاہے کہ اس سے دل کا نفاق پیدا ہوتاہے۔ آپ اس موضوع سے متعلق کتابوں کا مطالعہ کریں، جیسے "احکام اسلام عقل کی نظر میں" اور "اشرف الجواب" از حکیم الامت حضرت مولانا اشرف علی تھانوی ؒ۔"حجۃ اللہ البالغہ"، "احیاء العلوم"،  "الموافقات  "لابراہیم بن موسی الشاطبی ۔ اسرار الشریعہ من اعلام الموقعین لابن القیم، وغیرہ

 واللہ اعلم بالصواب

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند

مساجد و مدارس

Ref. No. 1821/43-1587

بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ اگر وہ لکڑیاں مسجد میں استعمال کے قابل ہیں ، تو اخلاص نیت کے ساتھ ان کو دیا جاسکتاہے۔ اللہ کے راستہ میں پرانا اور نیا نہیں دیکھاجاتاہے بلکہ اخلاص  قابل توجہ ہوتی ہے۔ البتہ اگر وہ لکڑی  کسی وجہ سے مسجد  میں استعمال کے لائق نہ ہو تو اس کو بیچ کر اس کا پیسہ مسجد کی کھڑکیوں کے لئے دیدیاجائے۔ 

اِنَّـآ اَنْزَلْنَـآ اِلَيْکَ الْکِتٰبَ بِالْحَقِّ فَاعْبُدِ اللهَ مُخْلِصًا لَّهُ الدِّيْنَo اَ لَا ِللهِ الدِّيْنُ الْخَالِصُ۔ )الزمر 3.2/39(

عَنْ مُعَاذِ بْنِ جَبَلٍ رضي الله عنه أَنَّهُ قَالَ لِرَسُوْلِ اللهِ ﷺ : حِيْنَ بَعَثَهُ إِلَی الْیَمَنِ : یَا رَسُوْلَ اللهِ، أَوْصِنِي۔ قَالَ : أَخْلِصْ دِيْنَکَ، یَکْفِکَ الْعَمَلُ الْقَلِيْلُ۔

رَوَاهُ الْحَاکِمُ وَاللَّفْظُ لَهُ وَالْبَيْھَقِيُّ، وَقَالَ الْحَاکِمُ : صَحِيْحُ الْإِسْنَادِ۔)   أخرجه الحاکم في المستدرک، 4 / 341، الرقم : 7844، والبیھقي في شعب الإیمان، 5 / 342، الرقم : 6859، والمنذري في الترغیب والترھیب، 1 / 22، والدیلمي في مسند الفردوس، 1 / 435، الرقم : 1772(

واللہ اعلم بالصواب

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند

مساجد و مدارس

Ref. No. 1912/43-1809

بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔  مسجد کے لئے جو زمین وقف ہے اور جہاں مسجد بن چکی ہے، وہ جگہ اب ہمیشہ کے لئے مسجد بن گئی ، اب اس کو بیچنا یا بدلنا جائزنہیں ہے۔  مسجد سابقہ جگہ پر ہی بنائی جائے گی، اورمسجد کی حفاظت کے لئے  پڑوسی کی شرارت کے خلاف قانونی کار روائی بھی کرائی جاسکتی ہے۔

فإذا تم ولزم لا یملک ولا یملک ولا یعار ولا یرہن)( الدر المختار) وفی رد المحتار: (قولہ: لا یملک) أی لا یکون مملوکا لصاحبہ ولا یملک أی لا یقبل التملیک لغیرہ بالبیع ونحوہ لاستحالة تملیک الخارج عن ملکہ.( الدر المختارمع رد المحتار:۶/۵۳۹ط:زکریا دیوبند)

 (ويزول ملكه عن المسجدوالمصلى) بالفعل و (بقوله جعلته مسجدا) عند الثاني (وشرط محمد) والإمام (الصلاة فيه)بجماعة وقيل: يكفي واحد وجعله في الخانية ظاهر الرواية. ۔۔۔ قوله: وشرط محمد والإمام الصلاة فيه) أي مع الإفراز كما علمته واعلم أن الوقف إنما احتيج في لزومه إلى القضاء عند الإمام؛ لأن لفظه لا ينبئ عن الإخراج عن الملك، بل عن الإبقاء فيه، لتحصل الغلة على ملكه، فيتصدق بها بخلاف قوله: جعلته مسجدا، فإنه لا ينبئ عن ذلك ليحتاج إلى القضاء بزواله، فإذا أذن بالصلاة فيه، قضى العرف بزواله عن ملكه، ومقتضى هذا أنه لا يحتاج إلى قوله وقفت ونحوه وهو كذلك وأنه لو قال وقفته مسجدا، ولم يأذن بالصلاة فيه ولم يصل فيه أحد أنه لا يصير مسجدا بلا حكم وهو بعيد كذا في الفتح ملخصا.۔۔۔۔۔۔

۔۔۔۔وفي الدر المنتقى وقدم في التنوير والدرر والوقاية وغيرها قول أبي يوسف وعلمت أرجحيته في الوقف والقضاء. اهـ (الدر المختار وحاشية ابن عابدين (رد المحتار) (4/ 355)

واللہ اعلم بالصواب

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند