Frequently Asked Questions
متفرقات
Ref. No. 2327/44-3490
بشرط صحت سوال صورت مذکورہ میں اگر مقروض کے وارثین قرض کے بارے میں علم رکھتے ہیں مگر ادائیگی کے لئے تیار نہیں ہیں، یا یہ کہ وہ قسم کھانے سے انکار کریں تو آپ کے لئے مرحوم کی اس زمین کو بیچ کر اپنا قرض وصول کرنے کی اجازت ہے، اسی طرح مارکیٹ ریٹ کے اعتبار سے مرحوم کے وارثین کو زمین کی رقم دیدینا بھی کافی ہے، البتہ وارثین کو اس زمین کے بارے میں پوری اطلاع دینا ضروری ہے تاکہ اگر وہ زمین رکھنا چاہیں تو آپ کا قرض ادا کرکے زمین اپنے پاس رکھ لیں یا اس زمین کو بیچنے پر راضی ہوجائیں۔
كذا إذا ادعى دينا أو عينا على وارث إذا علم القاضي كونه ميراثا أو أقر به المدعي أو برهن الخصم عليه) فيحلف على العلم.
)الدر المختار: (553/5، ط: دار الفکر(
ولو أن رجلا قدم رجلا إلى القاضي وقال: إن أبا هذا قد مات ولي عليه ألف درهم دين فإنه ينبغي للقاضي أن يسأل المدعى عليه هل مات أبوه؟ ولا يأمره بجواب دعوى المدعي أولا فبعد ذلك المسألة على وجهين: إما أن أقر الابن فقال: نعم مات أبي، أو أنكر موت الأب فإن أقر وقال: نعم مات أبي؛ سأله القاضي عن دعوى الرجل على أبيه فإن أقر له بالدين على أبيه يستوفى الدين من نصيبه، ولو أنكر فأقام المدعي بينة على ذلك قبلت بينته وقضي بالدين ويستوفى الدين من جميع التركة لا من نصيب هذا الوارث خاصة.۔۔۔۔وإن لم تكن للمدعي بينة وأراد استحلاف هذا الوارث يستحلف على العلم عند علمائنا - رحمهم الله تعالى - بالله ما تعلم أن لهذا على أبيك هذا المال الذي ادعى وهو ألف درهم ولا شيء منه.فإن حلف انتهى الأمر وإن نكل يستوفى الدين من نصيبه۔
)الفتاوی الھندیۃ: (407/3، ط: دار الفکر(
واللہ اعلم بالصواب
دارالافتاء
دارالعلوم وقف دیوبند
حدیث و سنت
الجواب وباللّٰہ التوفیق:اس حدیث کا مفہوم یہ ہے کہ بادشاہ کو عمدہ اوصاف سے متصف ہونا چاہئے، نرمی کے وقت نرمی، سختی کے وقت سختی کی ضرورت ہے اور عدل وانصاف وغیرہ میں اس کو نمونہ ہونا چاہئے اور بادشاہ کا رعایا کو احترام کرنا چاہئے اور اس کی عزت وتوقیر کو لازم سمجھنا چاہئے، باقی تفصیلات کتب حدیث میں دیکھی جاسکتی ہیں۔(۱)
(۱) وأما الحدیث النبوي (السلطان ظل اللّٰہ فيالأرض یأوي إلیہ کل ضعیف وملہوف) وہذا صحیح، فإن الظل مفتقر إلی آو وہو رفیق لہ مطابق لہ نوعاً من المطابقۃ والآوي إلی الظل المکتنف بالمظل صاحب الظل فالسلطان عبد اللّٰہ مخلوق مفتقر إلیہ لا یستغني عنہ طرفۃ عین، وفیہ من القدرۃ والسلطان والحفظ والنصرۃ وغیر ذلک من معاني السؤدد والصمدیۃ التي بہا قوام الخلق، ما یشبہ أن یکون ظل اللّٰہ في الأرض وہو أقوي الأسباب التي بہا یصلح أمور خلقہ وعبادہ، فإذا صلح ذو السلطان صلحت أمور الناس، وإذا فسد فسدت یحسب فسادہ؛ ولا تفسد من کل وجہ، بل لا بد من مصالح، إذ ہو ظل اللّٰہ، لکن الظل تارۃ یکون کاملاً مانعاً من جمیع الأذي وتارۃ لا یمنع إلا بعض الأذي، وأما إذا عدم الظل فسد الأمر، کعدم سر الربیۃ التي بہا قیام الأمۃ الإنسانیۃ۔ واللّٰہ أعلم۔ (ابن تیمیہ، مجموعۃ الفتاویٰ، ’’کتاب قتال أصل البغي إلی نہایۃ الإقرار‘‘: ج ۱۸، ص: ۳۹)
فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج2ص124
بدعات و منکرات
الجواب وباللّٰہ التوفیق:اپنی اپنی ہمت کے مطابق اسلام کی تبلیغ کرنا امر ضروری ہے ’’بلّغوا عني ولوآیۃ‘‘ (الحدیث) رہا تبلیغی جماعت کا معاملہ تو انہوں نے تبلیغ کے کام کو انجام دینے کے لئے کچھ اصول مقرر کئے ہیں اور اسی طرح ہر جماعت اپنا اپنا طریقہ کا ر مقرر کرتی ہے۔ اس طریقہ کار کو فرض وواجب نہیں کہا جاتا ہے؛ بس اگر اس میں غیر شرعی امور کا ارتکاب نہ ہو، تو وہ طریقہ کار مباح اور جائز ہوتا ہے۔ رہی اس طریقہ کار کی افادیت تو اس پر ہم سے زیادہ روشنی آپ کو مرکز تبلیغ دہلی بنگلہ والی مسجد سے مل سکتی ہے، جماعت والوں کا حسب ضرورت مسجد میں سونا درست ہے۔(۱)
۱) عن عبد اللّٰہ بن عمرو رضي اللّٰہ عنہ: أن النبي صلی اللّٰہ علیہ وسلم، قال: (بلغوا عني ولو آیۃ۔ (أخرجہ البخاري، في صحیحہ، ’’کتاب الأنبیاء علیہم السلام: باب ما ذکر عن بني إسرائیل‘‘: ج ۱، ص: ۴۹۰، رقم: ۳۴۶۱)
وإذا أراد أن یفعل ذلک ینبغي أن ینوي الاعتکاف فیدخل فیہ ویذکر اللّٰہ تعالیٰ بقدر ما نوی أو یصلي ثم یفعل ما شاء، کذا في السراجیہ۔ ولا بأس للغریب ولصاحب الدار أن ینام في المسجد في الصحیح من المذہب۔ (جماعۃ من علماء الہند، الفتاویٰ الہندیۃ، ’’کتاب الکراہیۃ: الباب الخامس: في آداب المسجد والقبلۃ‘‘: ج ۵، ص: ۳۷۱)وإذا أراد ذلک ینبغي أن ینوي الاعتکاف، فیدخل ویذکر اللّٰہ تعالی بقدر ما نوی، أو یصلي ثم یفعل ما شاء۔ (ابن عابدین، الدر المختار مع رد المحتار، ’’کتاب الصلاۃ: باب ما یفسد وما یکرہ فیہا، مطلب: في أفضل المساجد‘‘: ج ۲، ص: ۴۳۱)
----------------
فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج2ص342
طہارت / وضو و غسل
الجواب وباللہ التوفیق: چھینٹوں کے احتمالات سے کنواں ناپاک نہیں ہوتا؛ لیکن کنویں کی بائونڈری کو اونچا کردینا چاہیے، نیز لوگوں کو کنویں کے بالکل قریب کھڑے ہوکر نہانے سے بھی احتیاط لازم ہے۔(۱)
(۱)وھو (أي الماء المستعمل) طاھر ولو من جنب وھو الظاھر (ابن عابدین، ردالمحتار، کتاب الطہارۃ، باب المیاہ، مبحث الماء المستعمل، مطلب في تفسیر القربۃ والثواب، ج۱، ص:۳۵۲؛ و جماعۃ من علماء الہند، الفتاویٰ الہندیہ، ج۱، ص۲۰۵)؛ وھو (أي الماء المستعمل) والجاري ھو ما یعد جار یاعرفا، و قیل ما یذھب بتبنۃ والأول أظھر والثاني أشھر۔ (ابن عابدین، الدرالمختار مع رد المحتار، کتاب الطہارۃ، باب المیاہ، مطلب في أن التوضي من الحوض أفضل رغماً الخ، ج۱، ص:۳۳۴)
فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج2ص477
طہارت / وضو و غسل
الجواب وباللّٰہ التوفیق:اگروقت میں گنجائش ہو، تو اذان ہوتے ہوئے وضو نہ بنائے؛ بعد میں بنالے اور اذان کا جواب دے۔ اگر اذان کے بعد فوراً جماعت ہونے والی ہے اور گنجائش نہیں ہے، تو اذان ہوتے ہوئے وضو بنانا درست ہے۔
قرآن پاک کی تلاوت اگر مکان میں ہو رہی ہو، تو اذان کے وقت بند کر کے اذان کا جواب دیا جائے اور اگر مسجد میں ہو تو اختیار ہے کہ تلاوت جاری رکھے یا بند کردی جائے۔(۱)
(۱)ولا ینبغي أن یتکلم السامع في خلال الأذان والإقامۃ، ولا یشغل بقراء ۃ القرآن، ولا بشيء من الأعمال سوی الإجابۃ ولو کان في القراء ۃ ینبغي أن یقطع و یشتغل بالإستماع والإجابۃ۔ (جماعۃ من علماء الہند، الفتاویٰ الہندیہ، ’’کتاب الصلوٰۃ، الفصل الثاني في کلمات الأذان والإقامۃ،‘‘ ج ۱، ص:۱۱۴)؛ ولا یقرأ السامع ولا یسلم ولا یرد السلام ولا یشتغل بشيء سوی الإجابۃ۔ (ابن نجیم، البحر الرائق، ’’کتاب الصلوٰۃ، باب الأذان،‘‘ ج ۱، ص:۴۵۰)
فتاوی ٰ دارالعلوم وقف دیوبند ج3 ص143
نماز / جمعہ و عیدین
Ref. No. 2709/45-4197
بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ اگر کوئی شخص بے ہوشی کی حالت میں چلاجائے اور چھ سے زیادہ نمازیں چھوٹ جائیں تو جو نماز یں بے ہوشی کی حالت میں چھوٹ جائیں وہ معاف ہیں، ان کی قضاء ذمہ میں لازم نہیں ہے، لہذا وہ ایام جن میں آپ کو بالکل ہوش نہیں تھا ان دنوں کی نماز قضاء کرنے کی ضرورت نہیں ہے، اور ہوش کے زمانے میں جو نمازیں آپ نے بستر پر یا وہیل چیئر پر پڑھیں وہ ادا ہوگئیں ان کو دوبارہ پڑھنے کی ضرورت نہیں ہے، پیشاب کی تھیلی مجبوری میں لگنے سے آپ معذور کے حکم میں ہوں گے اور معذور کا حکم یہ ہے کہ نماز کا وقت داخل ہونے کے بعد وضو کرکے نماز ادا کرلے تو اس کی نماز عذر کے باوجود ادا ہوجاتی ہے۔
"و من أغمي عليه خمس صلوات قضى، و لو أكثر لايقضي، و الجنون كالإغماء و هو الصحيح، ثم الكثرة تعتبر من حيث الأوقات عند محمد -رحمه الله تعالى- وهو الأصح، هذا إذا دام الإغماء و لم يفق في المدة أما إذا كان يفيق ينظر فإن كان لإفاقته وقت معلوم مثل أن يخف عنه المرض عند الصبح مثلًا فيفيق قليلًا ثم يعاوده فيغمى عليه تعتبر هذه الإفاقة فيبطل ما قبلها من حكم الإغماء إذا كان أقل من يوم وليلة، وإن لم يكن لإفاقته وقت معلوم لكنه يفيق بغتةً فيتكلم بكلام الأصحاء، ثمّ يغمى عليه فلا عبرة بهذه الإفاقة، كذا في التبيين. ولو أغمي عليه بفزع من سبع أو آدمي أكثر من يوم وليلة يسقط عنه القضاء بالإجماع." (الھندیۃ ، کتاب الصلاۃ، الباب الرابع عشر في صلاة المريض، ج: 1، صفحہ:137، ط: دار الفکر)
وصاحب عذر من به سلس) بول لا يمكنه إمساكه (أو استطلاق بطن أو انفلات ريح أو استحاضة) أو بعينه رمد أو عمش أو غرب، وكذا كل ما يخرج بوجع ولو من أذن وثدي وسرة (إن استوعب عذره تمام وقت صلاة مفروضة)
بأن لا يجد في جميع وقتها زمنا يتوضأ ويصلي فيه خاليا عن الحدث (ولو حكما) لأن الانقطاع اليسير ملحق بالعدم (وهذا شرط) العذر (في حق الابتداء، وفي) حق (البقاء كفى وجوده في جزء من الوقت) ولو مرة (وفي) (استيعاب الانقطاع) تمام الوقت (حقيقة) لأنه الانقطاع الكامل. (شامی، ج: 1/ص: 305، مطلب في أحكام المعذور،ط:دار الفكر-بيروت)
واللہ اعلم بالصواب
دارالافتاء
دارالعلوم وقف دیوبند
طہارت / وضو و غسل
الجواب وباللّٰہ التوفیق:مقعد میں تھرما میٹر (Therma Meter) لگانے سے غسل واجب نہیں ہوتا؛ غسل کا وجوب انزال منی یا التقاء ختانین وغیرہ کی وجہ سے ہوتا ہے نہ کہ مقعد میں تھرما میٹر لگانے سے؛ البتہ ڈاکٹر کا یہ عمل ناقض وضو ہے۔ اس لیے مریض اس عمل کے بعد وضو کر کے یا وضو پر عدم قدرت کی صورت میں تیمم کر کے نماز پڑھ سکتا ہے۔
’’کذا لو أدخل أصبعہ في دبرہ ولم یغیبہا فإن غیبہا أو أد خلہا عند الاستنجاء بطل وضوئہ‘‘(۱)
’’وکل شيء غیبہ في دبرہ ثم أخرجہ أو خرج بنفسہ ینقض‘‘(۲)
’’رجل أدخل عودا في دبرہ أو قطنۃ في إحلیلہ وغیبہا ثم أخرجہا أو خرجت فعلیہ الوضوء‘‘(۳)
’’والمعاني الموجبۃ للغسل إنزال المني علیٰ وجہ الدفق والشہوۃ من الرجل والمرأۃ والتقاء الختانین من غیر إنزال والحیض والنفاس‘‘(۴)
(۱) ابن عابدین، رد المحتار مع الدر المختار، ’’کتاب الطہارۃ: فصل في نواقض الوضوء، مطلب في ندب مراعاۃ الخلاف إذا لم یرتکب مکروہ مذہبہ‘‘: ج ۱، ص: ۲۸۱۔
(۲) المرجع السابق:
(۳) الشیخ فرید الدین، فتاویٰ التاتار خانیۃ، ’’کتاب الطہارۃ: الفصل الثاني، في بیان ما یوجب الوضوء‘‘: ج۱، ص: ۲۴۰۔
(۴) المرغیناني، الہدایۃ، ’’کتاب الطہارات: فصل في الغسل‘‘: ج ۱، ص: ۳۱۔
فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج3 ص335
نماز / جمعہ و عیدین
الجواب وباللّٰہ التوفیق: امام مسجد کو حتی الوسع تمام تر سہولیات فراہم کرنی چاہئیں امام مسجد کو اگر فیملی روم کی ضرورت ہے اور مسجد میں وسعت بھی ہے اس کے باوجود کمرہ نہ دینا خلاف مروّت معلوم ہوتا ہے اس لیے اہل مسجد کو اس طرف توجہ دینے کی ضرورت ہے۔(۱)
(۱) قد یقال: إن کان قصدہ وجہ اللّٰہ تعالٰی لکنہ بمراعاتہ للأوقات والاشتغال بہ یقل اکتسابہ عما یکفیہ لنفسہ وعیالہ، فیأخذ الأجرۃ لئلا لیمنعہ الاکتساب عن إقامۃ ہذہ الوظیفۃ الشریفۃ، ولولا ذلک لم یأخذ أجرا فلہ الثواب المذکور بل یکون جمع بین عبادتین وہما الأذان والسعي علی العیال وإنما الأعمال بالنیات۔۔۔۔ وبعض مشایخنا استحسنوا الاستیجار علی تعلیم القرآن الیوم لأنہ ظہر التواني في الأمور الدینیۃ ففي الامتناع تضییع حفظ القرآن وعلیہ الفتوی۔ (ابن عابدین، (الدر المختار مع رد المحتار، ’’کتاب الصلاۃ، باب الأذان، مطلب في المؤذن إذا کان غیر محتسب في أذانہ‘‘: ج۲، ص: ۶۰)، مطبوعہ کوئٹہ۔
فتاویٰ دارالعلوم وقف دیوبند ج5 ص323
نماز / جمعہ و عیدین
الجواب وباللہ التوفیق: واضح رہے کہ احادیث اور فقہ کی کتابوں میں صف بندی کی ترتیب یہ بیان کی گئی ہے کہ پہلا مقتدی امام کے پیچھے کھڑا ہو، اس کے بعد آنے والا شخص پہلے مقتدی کی دائیں جانب سے، پھر بائیں جانب، پھر دائیں جانب پھر بائیں جانب، اس طرح جب پہلی صف مکمل ہوجائے تو دوسری صف بنائی جائے، اس میں بھی پہلا مقتدی امام کے بالمقابل کھڑا ہو دوسرا پہلے کی دائیں جانب، تیسرا پہلے کی بائیں جانب، اس طرح دوسری صف مکمل ہونے کے بعد تیسری صف بنائی جائے۔ امام ابو داود رحمۃ اللہ علیہ نے ایک حدیث نقل کی ہے:
حضرت انس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: ’’پہلی صف مکمل کرو پھر اس کے بعد والی صف پس اگر صفوں میں کوئی کمی رہ جائے تو وہ آخر والی صف میں ہو۔‘‘
’’أتموا الصف المقدّم ثم الذي یلیہ فما کان من نقص فلیکن في الصف المؤخر‘‘(۱)
حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہما سے روایت ہے کہ میں نے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے برابر میں نماز پڑھی اور ہمارے پیچھے حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا تھیں وہ بھی ہمارے ہم راہ نماز میں شریک تھیں، جیسا کہ امام نسائیؒ نے حضرت عبد اللہ بن عباس رضی اللہ عنہ کی روایت نقل کی ہے۔
’’إن قزعۃ مولی لعبد القیس أخبرہ أنہ سمع عکرمۃ قال: قال ابن عباس: صلیت إلی جنب النبي صلی اللّٰہ علیہ وسلم وعائشۃ خلفنا تصلی معنا، وأنا إلی جنب النبي صلی اللّٰہ علیہ وسلم أصلی معہ‘‘(۱)
’’عن ابن عمر قال: قیل للنبي صلی اللّٰہ علیہ وسلم: إن میسرۃ المسجد تعطلت فقال النبي صلی اللّٰہ علیہ وسلم: من عمر میسرۃ المسجد کتب لہ کفلان من الأجر‘‘(۲)
’’قولہ: ’’من عمر میسرۃ المسجد الخ لما بین النبي صلی اللّٰہ علیہ وسلم فضیلۃ ترک الناس قیامھم بالمیسرۃ فتعطلت المیسرۃ فأعلمھم أن فضیلۃ المیمنۃ إذا کان القوم سواء في جانبی الإمام، وأما إذا کان الناس فی المیمنۃ أکثر لکان لصاحب المیسرۃ کفلان من الأجر، والحاصل أنہ یستحب توسط الإمام‘‘(۳)
’’وفي القھستاني: وکیفیتہ أن یقف أحدھما بحذائہ والآخر بیمینہ إذا کان الزائد إثنین، ولو جاء ثالث وقف عن یسار الأول والرابع عن یمین الثاني والخامس عن یسار الثالث وھکذا‘‘(۴)
’’ومتی استوی جانباہ یقوم عن یمین الإمام إن أمکنہ‘‘(۵)
قولہ: ’’وخیر صفوف الرجال أولھا‘‘: لأنہ روی فی الأخبار ’’أن اللہ تعالی إذا أنزل الرحمۃ علی الجماعۃ ینزلھا أولاً علی الإمام، ثم تتجاوز عنہ إلی من بحذائہ في الصف الأول، ثم إلی المیامن، ثم إلی المیاسر، ثم إلی الصف الثاني‘‘، وتمامہ في البحر‘‘(۶)
خلاصہ: باجماعت نمازوں کے لیے صف کی ترتیب اس طرح ہو گی کہ امام پہلی صف کے آگے درمیان میں کھڑا ہو گا اس کے بعد پہلی صف مکمل کی جائے پھر دوسری پھر تیسری علی ہذا القیاس پچھلی صفیں بنائی جائیں گی، اگر مردوں، بچوں، مخنثوں اور عورتوں کا مجمع ہو تو ان کی صف بندی میں درج ذیل ترتیب کو ملحوظ رکھا جائے۔ آگے مرد کھڑے ہوں، پیچھے بچے، پھر مخنث اور اس کے بعد عورتیں۔
(۱) أخرجہ أبو داود، في سننہ، ’’کتاب الصلاۃ: باب تسویۃ الصفوف‘‘: ۱، ص: ۲۵۸، ۲۵۹، رقم: ۱۷۱۔
(۱) أخرجہ النسائي، في سننہ، ’’کتاب الإمامۃ: موقف الإمام إذا کان معہ صبي وامرأۃ‘‘: ج ۲، ص: ۱۰۴، رقم: ۸۰۴۔
(۲) أخرجہ ابن ماجۃ، في سننہ، ’’ ‘‘: ص: ۷۱، مطبوعہ: مکتبہ اشرفیہ دیوبند۔
(۳) انجاح الحاجہ حاشیہ سنن ابن ماجہ: ص: ۱۷۔
(۴) ابن عابدین، رد المحتار علی الدر المختار، ’’ ‘‘: ج ۲، ص: ۳۰۹، مطبوعہ: مکتبہ زکریا دیوبند۔
(۵) ابن عابدین، رد المحتار علی الدر المختار، ’’ ‘‘: ج ۲، ص: ۳۱۰۔
فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج5 ص440
نماز / جمعہ و عیدین
الجواب وباللّٰہ التوفیق: خصیوں میں پانی کی وجہ سے لنگوٹ کس کر نماز پڑھانے والے امام کی نماز درست ہے۔ بلکہ اگر لنگوٹ نہ پہننے سے خلل ہونے کا اندیشہ ہو تو پہن لینا بہتر ہے۔(۱)
(۱) وعند حضور ما یشغل البال عن استحضار عظمۃ اللّٰہ تعالیٰ والقیام بحق خدمتہ ویخل بالخشوع في الصلاۃ۔ (حسن بن عمار، حاشیۃ الطحطاوي علی مراقي الفلاح، ’’فصل في الأوقات المکروہۃ‘‘: ص: ۱۹۱؛ وجماعۃ من علماء الہند، الفتاویٰ الہندیۃ، ’’کتاب الصلاۃ، الباب الأول، الفصل الثالث في بیان الأوقات التي الخ‘‘: ج۱، ص: ۱۰۹)
ویخل بالخشوع کزینۃ ولہو ولعب۔ (ابن عابدین، رد المحتار، ’’مطلب في بیان السنۃ والمستحب والمندوب الخ‘‘: ج۲، ص:۴۲۵، زکریا)
فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج6 ص179