طہارت / وضو و غسل

Ref. No. 2283/44-3438

بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ناپاک کپڑے کو تین بار پانی بدل کر دھونے سے کپڑا پاک ہوجائے گا اور اس کے لئے ہر بار بالٹی کو دھونا ضروری نہیں ۔

واللہ اعلم بالصواب

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند

 

اسلامی عقائد

الجواب وباللّٰہ التوفیق:مروجہ فاتحہ رسم وبدعت ہے، جسے ترک کرنا واجب ہے۔(۱) بقدر گنجائش مالی صدقہ کرکے یا غرباء کو کھانا کھلاکر، میت کو ثواب پہونچانا چاہئے جو جائز اور امر مستحسن ہے۔(۲)

(۱) عن عائشۃ -رضي اللّٰہ عنہا- قالت: قال رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم: من أحدث في أمرنا ہذا ما لیس منہ فہو رد۔ (أخرجہ مسلم، في صحیحہ، ’’کتاب الأقضیہ: باب نقض الأحکام الباطلۃ‘‘: ج ۲، ص: ۷۷، رقم: ۱۷۱۸)
فالحاصل أن ما شاء في زماننا من قراء ۃ الأجزاء بالأجرۃ لا یجوز: لأن فیہ الأمر بالقراء ۃ وإعطاء الثواب للآمر والقراء ۃ لأجل المال، فإذا لم یکن للقاري ثواب لعدم النیۃ الصحیحۃ فأین یصل الثواب إلی المستأجر، ولو لا الأجرۃ ما قرأ أحد لأحد في ہذا الزمان، بل جعلوا القرآن العظیم …مکسباً ووسیلۃ إلی جمع الدنیا۔ (ابن عابدین، الدر المختار مع رد المحتار، ’’کتاب الإجارۃ، باب الإجارۃ الفاسدۃ، مطلب: تحریر مہم في عدم جواز الاستئجار علی التلاوۃ‘‘: ج ۹، ص: ۷۷)
(۲) فللإنسان أن یجعل ثواب عملہ لغیرہ عند أہل السنۃ والجماعۃ صلوٰۃ کان أو صوماً أو حجاً صدقۃ أو قراء ۃ للقرآن أو الأذکار أو غیر ذلک من أنواع البر ویصل ذلک إلی المیت وینفعہ۔ (ابن نجیم، البحر الرائق، ’’کتاب الحج: باب الحج عن الغیر‘‘: ج ۳، ص: ۱۰۵، ابن الہمام، فتح القدیر، ’’کتاب الحج: باب الحج عن الغیر‘‘: ج ۳، ص: ۱۳۱)

 

فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج1ص305

طہارت / وضو و غسل

Ref. No. 2400/44-3628

بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔  مفتی صاحب کی بات درست ہے، اور اس سلسلہ میں آپ نے پہلے بھی فتوی طلب کیا تھا جس کا جواب بھی بھیجا گیا تھا، فتوی  نمبر1662/43-1278سرچ کرسکتے ہیں یا مندرجہ ذیل لنک پر کلک کرکے جواب تک پہونچ سکتے ہیں۔

Ref. No. 1662/43-1278

بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔چھت پر موجود چوہے کی بیٹ اور پرندوں کی بیٹ سے گزر کر بارش کا  جو پانی گرتاہے وہ پاک ہے، اس سے بدن یا کپڑا ناپاک نہیں ہوگا۔   ہاں اگر بیٹ اس قدر زیادہ  ہو کہ اس کا اثر پانی میں محسوس ہوتاہوتو پانی ناپاک ہوگا اور اس سے بدن یا کپڑا ناپاک ہوجائے گا۔

https://dud.edu.in/darulifta/?qa=4101/%D8%A7%D9%84%D8%B3%D9%84%D8%A7%D9%85-%D8%B9%D9%84%DB%8C%DA%A9%D9%85-%D9%88%D8%B1%D8%AD%D9%85%D8%AA%DB%81-%D9%88%D8%A8%D8%B1%D8%A7%DA%A9%D8%A7%D8%AA%DB%81-%D8%A2%D8%AC%D8%A7%D8%AA%DB%8C-%D9%BE%D8%A7%D9%86%DB%8C-%D9%86%DB%8C%DA%86%DB%92-%DA%AF%D8%B1%D8%AA%DB%92-%D9%86%D8%A7%D9%BE%D8%A7%DA%A9-%D9%BE%D8%B1%D9%86%D8%AF%DB%92&show=4101#q4101

  • - - - -

https://dud.edu.in/darulifta/?qa=4885/%D8%A7%D9%84%D8%B3%D9%84%D8%A7%D9%85-%D9%88%D8%A8%D8%B1%DA%A9%D8%A7%D8%AA%DB%81-%D9%BE%D8%B1%DB%8C%D8%B4%D8%A7%D9%86%DB%8C-%DA%86%DA%BE%DB%8C%D9%86%D9%B9%DB%92-%D9%85%D8%B1%D8%BA%DB%8C%D8%A7%DA%BA-%D9%BE%D8%B1%DB%8C%D8%B4%D8%A7%D9%86%DB%8C-%D8%B1%DB%81%D9%86%D9%85%D8%A7%D8%A6%DB%8C-%D9%81%D8%B1%D9%85%D8%A7%D8%A6%DB%8C%DA%BA&show=4885#q4885

 

واللہ اعلم بالصواب

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند

 

بدعات و منکرات

Ref. No. 2511/45-3844

بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ حضور ﷺ کی شان میں گستاخی کفر تک پہونچادیتی ہے، اس لئے تجدید ایمان کے ساتھ اللہ تعالی کے سامنے سچی توبہ ضروری ہے، سچی توبہ   گناہوں کو ایسے مٹادیتی ہے جیسے کہ وہ گناہ سرزد ہی نہ ہوئے ہوں۔  اس لئے اگر کسی سے گستاخی واقعی ہوئی ہے، اور اس نے معافی مانگ لی تو جمہور کے بقول اس کی توبہ مقبول ہوگی،  اگر اللہ نے اس کی توبہ قبول کرلی تو اس کے اعمال ضائع نہیں ہوں گے اور آخرت میں وہ مجرمین کی فہرست میں شامل نہیں ہوگا اور عذاب سے مامون ہوگا۔ یہ اللہ کو ہی معلوم ہے کہ کس کی توبہ مقبول ہے اور کس کی مردود۔ اللہ تعالی ہم سب کی توبہ قبول فرمائیں۔ آمین

واللہ اعلم بالصواب

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند

 

متفرقات

Ref. No. 2576/45-3941

بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔  آپ کے تینوں بھائی شرکت میں جو کاروبار کررہے ہیں اس کی نوعیت کیا ہے؟  اگر وہ کاروبار والد کا قائم کیا ہوا ہے، اور والد کے ساتھ تینوں بھائی لگ کر اس کام میں تعاون کررہے ہیں تو یہ تینوں بھائی اس کاروبار میں از راہ تبرع کام کررہے ہیں، اور والد  کی مدد کررہے ہیں، اس لئے وہ کاروبار صرف والد  کی ملکیت ہے، تو ایسی صورت میں والد کو چاہئے کہ چاروں بیٹوں میں کاروبار کو برابر تقسیم کریں۔ اور اگر اس کاروبار میں باپ کا کوئی دخل نہیں ہے بلکہ تین بھائیوں نے مل کر ایک کاروبار شروع  کیا ہے، تو ایسی صورت میں چھوٹے بھائی  (جو اس کاروبار میں شریک نہیں ہے)کا کوئی حصہ نہیں ہوگا۔

واللہ اعلم بالصواب

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند

 

حدیث و سنت

الجواب وباللّٰہ التوفیق:حضرت یوسف علیہ السلام کے زلیخا سے دو لڑکے پیدا ہوئے۔ ’’افراثیم، میشا‘‘ (۱)

(۱) وقیل إنہ لما مات زوجہ إمرأتہ زلیخا فوجدہا عذراء، لأن زوجہا کان لا یأتي النساء فولدت لیوسف علیہ السلام رجلین وہما افراثیم ومنشا۔ (ابن کثیر، البدایۃ والنہایۃ، ’’ذکر ما وقع من الأمور‘‘: ج ۱، ص: ۲۱۰)
فزوج الملک یوسف راعیل امرأۃ العزیز، فلما دخل علیہا قال: ألیس ہذا خیراً مما کنت تریدین؟ فقالت: أیہا الصدیق لا تلمني، فأني کنت المرأۃ حسناء ناعمۃ کما تری، وکان صاحبي لا یأتي النساء، وکنت کما جعلک اللّٰہ من الحسن فغلبتني نفسي۔ فوجدہا یوسف عذراء فأصابہا فولدت لہ رجلین إفراثیم بن یوسف، ومنشا بن یوسف۔ (القرطبي، الجامع لأحکام القرآن: ج ۹، ص: ۲۱۳)


فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج2ص230

طہارت / وضو و غسل

الجواب وباللہ التوفیق:ایسی صورت میں نہ غسل فرض ہے، نہ واجب ہے، جس حصے پر چھینٹ پڑی ہے، اس کو دھو لیا جائے۔(۱)
 

(۱) (وعفي) و دم السمک و لعاب البغل والحمار و بول انتضح کرؤوس الإبر۔۔۔ و قید برؤوس الإبر لأنہ لو کان مثل رؤوس المسلۃ منع۔(ابن نجیم، البحر الرائق، باب الأنجاس، ج۱، ص:۴۰۸)، أي ویجب غسل المحل بالماء إن تعدت النجاسۃالمخرج لأن للبدن حرارۃ جاذبۃ۔ (ابن نجیم، البحر الرائق، ج۱، ص:۴۱۹)؛ و بول انتضح مثل رؤس الإبر عفو، (ابراہیم بن محمد ، ملتقی الأبحر، کتاب الطہارۃ، باب الأنجاس، ج۱، ص:۹۴)

 

 فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج2ص434

طہارت / وضو و غسل

الجواب وباللّٰہ التوفیق:آپ نے جو پڑھا وہ ٹھیک پڑھا ہے، جماع سے غسل واجب ہوجاتا ہے خواہ انزال ہو یا نہ ہو، ناپاکی کی حالت میں اب تک جو نمازیں پڑھی گئیں سب واجب الاعادہ ہیں، اندازہ کرکے تمام نمازیں لوٹانی لازم ہیں۔ فرائض وواجبات کو کسی عالم سے سمجھ لینا ہر مسلمان پر فرض ہے، علوم دینیہ سے اس قدر ناواقفیت افسوسناک ہے۔ اللہ صحیح فہم عطاء کرے۔
’’وخرجہ الإمام أحمد، عَن عفان، عَن ہمام وأبان، عَن قتادۃ، ولفظ حدیثہ:(إذا جلس بین شعبہا الأربع، فأجہد نفسہ، فَقد وجب الغسل، أنزل أو لم ینزل)‘‘(۱)
(۱) ابن حجر، فتح الباري شرح البخاري: ج ۱، ص: ۲: رقم: ۳۶۷۔(مکتبہ شیخ الہند، دیوبند)

 

 فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج3 ص347

نماز / جمعہ و عیدین

الجواب وباللّٰہ التوفیق:بشرط صحت سوال اگر وہ امام بدعت میں شرک کی حد تک پہنچ گیا جیسے قبر کو سجدہ کرنا وغیرہ تو اس کے پیچھے نماز پڑھنا جائز نہیں اور اگر شرکیہ عقائد نہ ہوں تو نماز تو ہو جائے گی؛ لیکن مکروہ ہوگی اس لیے صورت مسئولہ میں اس بریلوی امام کے پیچھے نماز پڑھنا تنہا نماز پڑھنے کے مقابلہ بہتر ہے۔ تنہا نماز پڑھنے سے جماعت کی نماز افضل ہے اگرچہ کسی فاسق کے پیچھے ہو، اس سلسلے میں بڑی حکمت عملی سے کام لیا جانا چاہئے، آہستہ آہستہ سارے کام ٹھیک ہوتے ہیں جلد بازی کرکے مسجد چھوڑ دینا، کسی فساد و جھگڑے کا سبب بننا، عقلمندی کا تقاضا نہیں ہے، آپ کوشش کرتے رہیں ان شاء اللہ دیر سہی کامیابی ہوگی فی الحال فساد سے بچنا لازم ہے۔

’’ویکرہ إمامۃ عبد … ومبتدع أي صاحب بدعۃ وھي اعتقاد خلاف المعروف عن الرسول … لا یکفر بہا … وإن کفر بہا … فلا یصح الاقتداء بہ أصلاً … قولہ وہي اعتقاد عزا ہذا التعریف في ہامش الخزائن إلی الحافظ ابن حجر في شرح النخبۃ ولا یخفی أن الاعتقاد یشمل ما کان معہ عمل أولا؛ فإن من تدین بعمل لا بد أن یعتقدہ‘‘(۱)
’’وفي النہر عن المحیط: صلی خلف فاسق أو مبتدع نال فضل الجماعۃ … قولہ نال فضل الجماعۃ أفاد أن الصلاۃ خلفہما أولیٰ من الإنفراد لکن لا ینال کما ینال خلف تقي ورع لحدیث :  من صلی خلف عالم تقي فکأنما صلی خلف نبي … أخرج الحاکم في مستدرکہ مرفوعاً: إن سرکم أن یقبل اللّٰہ صلاتکم فلیؤمکم خیارکم، فإنہم وفدکم فیما بینکم وبین ربکم‘‘(۲)

(۱) ابن عابدین، رد المحتار، ’’کتاب الصلاۃ، باب الإمامۃ: مطلب البدعۃ خمسۃ أقسام‘‘: ج ۲، ص: ۲۹۸، ۲۹۹، زکریا دیوبند۔
(۲) أیضًا:ص: ۳۰۱۔
وحاصلہ إن کان ہوی لایکفر بہ صاحبہ تجوز الصلاۃ خلفہ مع الکراہۃ وإلا لا۔ (جماعۃ من علماء الہند، الفتاویٰ الہندیۃ، ’’کتاب الصلاۃ، الباب الخامس في الإمامۃ، الفصل الثالث في بیان من یصلح إمامًا لغیرہ‘‘: ج۱، ص: ۱۴۱)، زکریا دیوبند۔

 

فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج5 ص130

 

نماز / جمعہ و عیدین

الجواب وباللّٰـہ التوفیق:ایسا نابینا جو خود بھی نجاست سے پرہیز نہ کرے اور دوسرے بھی اس کی دیکھ بھال نہ کریں اس کی امامت مکروہ تنزیہی ہے۔ دوسرے اچھے شخص کے ہوتے ہوئے اس کو امام نہ بنایا جائے تاہم اگراس کے پیچھے نماز پڑھی جائے اور اس کوامام بنایا جائے تو تنہا نماز پڑھنے سے بہتر ہے، نماز کا فریضہ اس کے پیچھے نماز پڑھ کر بھی ادا ہو جائے گا اور جماعت کا ثواب بھی مل جائے گا۔
’’ویکرہ إمامۃ عبد وأعمیٰ، و في الشامیۃ قید کراہۃ إمامۃ الأعمیٰ في المحیط وغیرہ بأن لا یکون أفضل القوم فإن کان أفضلہم فہو أولیٰ‘‘(۱)

(۱) ابن عابدین، رد المحتار، ’’کتاب الصلاۃ، باب الإمامۃ، مطلب في تکرار الجماعۃ في المسجد‘‘: ج ۲، ص:۲۹۸۔

 

فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج5 ص227