نماز / جمعہ و عیدین

Ref. No. 1704/43-1359

بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ غروب آفتاب کا وقت ، مکروہ وقت ہے، لیکن اسی دن کی نماز  عصر پڑھنے کی گنجائش ہے۔  اگرعصر کی نماز پڑھتے ہوئے آفتاب غروب ہوگیا ،  تو مکروہ وقت ختم ہوکر اب صحیح وقت شروع ہوگیا ، اس لئے نماز درست ہوجائے گی۔ فجر کے وقت کا مسئلہ اس سے مختلف ہے، یعنی اگر  کسی نے فجر کی نماز شروع کی اور دوران نماز آفتاب طلوع ہوگیا تو نماز فاسد ہوجائے گی۔ کیونکہ صحیح وقت میں اس نے نماز شروع کی اور اب مکروہ وقت شروع ہوگیا، اس لئے نماز درست ہوجائے گی۔  

''و کرہ صلوۃ الی قولہ الا عصر یومہ وفی الشرح: فلایکرہ فعلہ لادائہ کماوجب بخلاف الفجر (شامی، کتاب الصلوۃ 1/373)

والصلاة منهي عنها في هذا الوقت وفي عصر يومه يتضيق الوجوب في هذا الوقت وقد وجبت عليه ناقصة وأداها كما وجبت بخلاف الفجر إذا طلعت فيها الشمس؛ لأن الوجوب يتضيق بآخر وقتها ولا نهي في آخر وقت الفجر وإنما النهي يتوجه بعد خروج وقتها فقد وجبت عليه الصلاة كاملة فلا تتأدى بالناقصة فهو الفرق والله أعلم (بدائع الصنائع، فصل حکم صلوات الخوف اذا فسدت 1/247)

واللہ اعلم بالصواب

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند

طہارت / وضو و غسل

Ref. No. 2335/44-3496

بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ ہوا خارج ہونے سے وضو ٹوٹ گیا اس لئے  ہوا خارج ہونے سے پہلے جو اعضاء دھوچکا تھا ان کو دوبارہ دھوئے یعنی از سر نو وضو کرے۔

الفقه على المذاهب الأربعة (1/ 49):

’’ومنها: أن لا يوجد من المتوضئ ما ينافي الوضوء مثل أن يصدر منه ناقض للوضوء في أثناء الوضوء. فلو غسل وجهه ويديه مثلاً ثم أحدث فإنه يجب عليه أن يبدأ الوضوء من أوله. إلا إذا كان من أصحاب الأعذار‘‘. 

واللہ اعلم بالصواب

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند

 

Prayer / Friday & Eidain prayers

Ref. No. 244945-3709

In the name of Allah the most Gracious the most Merciful

The answer to your question is as follows:

A Musafir Muqtadi will pray full namaz behind a Muqeem imam and it is not permissible for him to do Qasr. The said person does not know the proper ruling of namaz . The one, who has shortened the prayer behind the muqeem imam, is obliged to repeat the prayer, and in such a case he will do Qasr while repeating the prayer.

And Allah knows best

Darul Ifta

Darul Uloom Waqf Deoband

 

اسلامی عقائد

Ref. No. 2504/45-3823

بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔   بینک والوں کو اپنی دوکان یا مکان کرایہ پر دینا جائز ہے البتہ ضرورت نہ ہو تو  نہ دینا بہتر ہے۔

واللہ اعلم بالصواب

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند

 

حدیث و سنت

الجواب وباللّٰہ التوفیق:خوشبو دل ودماغ کو معطر کرتی ہے اور عقل میں اضافہ کرتی ہے اور عقل دین کو قائم رکھتی ہے؛ اس لئے خوشبو محبوب ہے اور عورتیں مردوں کے لئے عفت وپاکدامنی اور امت میں اضافہ کا ذریعہ ہیں؛ اس لیے عورتیں محبوب ہیں اور نماز اسلامی رکن اور دین کی بنیاد ہے اور نماز کے وقت دربار خداوندی میں حاضری ہوتی ہے؛ اس لئے نماز محبوب ہے۔(۱)

(۱) وعن عائشۃ رضي اللّٰہ عنہا قالت: کان رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم یعجبہ من الدنیا ثلاثۃ: الطعام والنساء والطیب، فأصاب اثنین ولم یصب واحداً أصاب النساء والطیب ولم یصب الطعام رواہ أحمد۔ (مشکوٰۃ المصابیح، ’’کتاب الرقاق: باب فضل الفقراء‘‘: ج ۲، ص: ۴۴۹، رقم: ۵۲۶۰)
وعن عائشۃ رضي اللّٰہ عنہا، قالت: کان رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم یعجبہ من الدنیا ثلثۃ) أي ثلاثۃ أشیاء کما في روایۃ (الطعام) أي حفظا لبدنہ وتقویۃ علی دینہ (والنساء) أيصونا النفسہ النفیسہ عن الخواطر الخسیسۃ (والطیب) أي لتقویۃ الدماغ الذي ہو محل العقل عند بعض الحکماء الخ۔ (ملا علي قاري، مرقاۃ المفاتیح، ’’کتاب الرقاق: باب فضل الفقراء وماکان من عیش النبي صلی اللہ علیہ وسلم‘‘: ج ۵، ص: ۲۳)


فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج2ص125

طہارت / وضو و غسل

الجواب وباللہ التوفیق:دونوں قسم کے نلوں کا پانی استعمال کرنا اور اس سے وضو وغسل کرنا شرعاً جائز ہے(۱) اور پانی کا جب تک ناپاک ہونے کا یقین نہ ہو اس کو پاک سمجھا جائے گا۔(۲)

(۱) عن أبي سعید الخدريؓ قال: قیل یارسول اللّٰہ ﷺ أنتوضأ من بئر بضاعۃ؟ فقال رسول اللّٰہ ﷺ: إن الماء طھور لا ینجسہ شيء۔ (أخرجہ الترمذي، في سننہ، کتاب الطہارۃ، باب ما جاء أن الماء لاینجسہ شيء، ج۱، ص:۲۱، رقم :۶۶)
(۲) الیقین لا یرفع بالشک (ابن نجیم، الأشباہ والنظائر، ج۱، ص۱۳)
 

فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج2ص477

طہارت / وضو و غسل

الجواب وباللّٰہ التوفیق:صورت مسئولہ میں اگر وہ اس طرح پیوست کر دیا گیا ہے کہ نکالا اور ہلایا ہی نہیں جا سکتا، تو وضو اور غسل صحیح ہو جاتا ہے۔ نیز اس کی امامت بھی درست ہے۔(۲)

(۲)ولا یجب غسل ما فیہ حرج کعین و ثقب انضم و داخل قلفۃ۔ (ابن عابدین، رد المحتار، ’’کتاب الطہارۃ، مطلب في أبحاث الغسل،‘‘ ج۱،ص:۲۸۶)؛ ولو کان سنہ مجوفاً فبقي فیہ أو بین أسنانہ طعام أو درن رطب في أنفہ، ثم غسلہ علی الأصح۔ (جماعۃ من علماء الہند، الفتاویٰ الہندیہ، ’’کتاب الطہارۃ، الباب الثانی في الغسل،‘‘ج۱، ص:۶۴)
 

فتاوی ٰ دارالعلوم وقف دیوبند ج3 ص144

طہارت / وضو و غسل

الجواب وباللّٰہ التوفیق:اس صورت میں محض ہاتھ لگنے سے یا چھونے سے چاہے چھونا شہوت کے ساتھ ہی کیوں نہ ہو، وضو نہیں ٹوٹتا ہے؛ اس لیے کہ خروج نجاست ناقض وضو ہے جب کہ یہاں پر کسی چیز کا خروج نہیں ہوا ہے، ہاں اگر چھونے کی وجہ سے مذی وغیرہ کا خروج ہوجائے، تو وضو ٹوٹ جائے گا۔
’’المعاني الناقضۃ للوضوء کل ما یخرج من السبیلین‘‘(۱)
’’ینقضہ خروج نجس منہ أي ینقض الوضوء خروج نجس من  المتوضي‘‘(۲)
’’لا ینقض الوضوء مس الذکر وکذا مس الدبر والفرج مطلقاً وکذا مس بشرۃ المرأۃ لا ینقض الوضوء مطلقاً سواء کان بشہوۃ أو لا‘‘(۳)

(۱) المرغیناني، ہدایۃ، ’’کتاب الطہارات: فصل في نواقض الوضوء‘‘: ج ۱، ص: ۲۲۔
(۲) ابن نجیم، البحر الرائق، ’’کتاب الطہارۃ‘‘: ج ۱، ص: ۵۸۔
(۳) أیضًا:  ج ۱، ص: ۸۲۔

 

فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج3 ص246

طہارت / وضو و غسل

الجواب وباللّٰہ التوفیق:اصولی طور پر یہ بات ذہن میں رکھیں کہ منی کے نکلنے سے غسل واجب ہو جاتا ہے اور منی کا خروج شہوت کے ساتھ اچھل کر ہوتا ہے عام طورپر پیشاب کے بعد جو لیس دار مادہ نکلتا ہے، اس کی کیفیت منی کی طرح نہیں ہوتی، اسے وَدِی کہتے ہیں، اس کے نکلنے سے صرف وضو ٹوٹتا ہے، غسل واجب نہیں ہوتا۔ اسی طرح بیوی سے ملاعبت کرنے یا شہوت انگیز چیز دیکھنے سے جو مادہ لیس دار نکلتا ہے اسے مذی کہتے ہیں، اس کے نکلنے سے بھی غسل واجب نہیں ہوتا صرف وضو ٹوٹتا ہے۔اور اگر وہ واقعتا منی کا ہی قطرہ ہے، تو جو منی بلا شہوت اور بلا دفق کے نکلے اس کے نکلنے سے بھی غسل واجب نہیںہوتاہے؛ اس لیے کہ وہ منی موجب غسل ہے جو شہوت کے ساتھ اچھل کر نکلے جو یہاں پر مفقود ہے۔
’’المني والمذي والودي فأما المذي والودي فإنہ یغسل ذکرہ ویتوضأ وأما
المني ففیہ الغسل‘‘(۱)
’’اعلم أنہ مذي أو شک أنہ مذي أو ودي أو کان ذکرہ منتشرا قبیل النوم فلا غسل وفي رد المحتار لأن برؤیۃ المني یجب الغسل کما صرح بہ في المنیۃ وغیرہا‘‘(۲)
’’عن عبد ربہ بن موسیٰ عن أمہ أنہا سالت عائشۃ عن المذي، فقالت: إن کل فحل یمذي، وإنہ المذي والودي والمني، فأما المذي فالرجل یلاعب امرأتہ فیظہر علی ذکرہ الشيء فیغسل ذکرہ وأنثییہ ویتوضأ ولا یغتسل وأما الودي فإنہ یکون بعد البول یغسل ذکرہ وأنثییہ ویتوضأ ولا یغتسل، وأما المني فإنہ الماء الأعظم الذي منہ الشہوۃ وفیہ الغسل‘‘(۳)
’’المجامع إذا اغتسل قبل أن یبول أو ینام ثم سال منہ بقیۃ المني من غیر شہوۃ یعید الاغتسال عندہما خلافا لہ فلو خرج بقیۃ المنی بعد البول أو النوم أو المشي لا یجب الغسل إجماعا؛ لأنہ مذي ولیس بمني؛ لأن البول والنوم والمشي یقطع مادۃ الشہوۃ‘‘(۱)
’’رجل بال فخرج من ذکرہ مني إن کان منتشرا فعلیہ الغسل وإن کان منکسرا علیہ الوضوء‘‘(۲)

(۱) الطحطاوي، حاشیۃ الطحطاوي، ’’کتاب الطہارۃ: باب الرجل یخرج من ذکرہ المذي کیف یغسل‘‘: ج ۱، ص: ۴۰۔
(۲) ابن عابدین، الدر المختار مع رد المحتار، ’’کتاب الطہارۃ: فصل في تحریر الصاع والمد والرطل‘‘: ج ۱، ص: ۳۰۱۔
(۳) ابن الہمام، فتح القدیر، ’’کتاب الطہارات: فصل في الغسل‘‘: ج ۱، ص: ۶۵۔
(۱) ابن نجیم، البحر الرائق، ’’کتاب الطہارۃ: موجبات الغسل‘‘: ج ۱، ص: ۱۰۳۔
(۲) جماعۃ من علماء الہند، الفتاویٰ الہندیۃ، ’’کتاب الطہارۃ: الباب الثاني في الغسل، الفصل الثالث في المعاني الموجبۃ للغسل، السبب الأول خروج المني‘‘: ج ۱، ص: ۶۶۔

 فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج3 ص336

 

نماز / جمعہ و عیدین

الجواب وباللّٰہ التوفیق: زکوۃ ایک فریضہ ہے جس کا تقاضا ہے کہ خالص اللہ تعالیٰ کی رضا کے لیے زکوٰۃ دی جائے جس طرح خالص اللہ تعالیٰ کی رضا کے لیے نمازپڑھتے اور روزہ رکھتے ہیں۔ زکوۃ کسی فقیر غیر صاحب نصاب کو مالک بنانے کا نام ہے اس میں ضروری ہے کہ کسی خدمت کے عوض میں زکوٰۃ کی رقم نہ دی جائے، گھر کے تنخواہ دار ملازم کو بھی اجرت میں زکوٰۃ کی رقم نہیں دی جا سکتی ہے، اس سے زکوٰۃ دینے والے کی زکوٰۃ ادا نہیں ہوگی، اس لیے امام صاحب کو امامت کی تنخواہ میں زکوٰۃ کی رقم دینا درست نہیں ہے، اس سے زکوٰۃ ادا نہیں۔ ہاں! اگر تنخواہ کے علاوہ زکوٰۃ کی مد سے امام صاحب کی مدد کی جائے اور امام صاحب مستحق زکوٰۃ ہوں تو یہ دینا درست ہے اس سے زکوٰۃ ادا ہو جائے گی۔
’’ولو نوی الزکاۃ بما یدفع المعلم إلی الخلیفۃ ولم یستأجرہ إن کان الخلیفۃ بحال لو لم یدفعہ یعلم الصبیان أیضاً أجزأہ وإلا فلا‘‘(۱)
’’الصدقۃ ہي ما یخرجہ الإنسان من مالہ علی وجہ القربۃ واجباً کان أو تطوعاً‘‘(۲)
(۱) جماعۃ من علماء الہند، الفتاویٰ الہندیۃ، ’’کتاب الزکوٰۃ، الباب السابع في المصارف‘‘: ج ۱، ص: ۲۵۲۔
(۲) ملا علي قاري، مرقاۃ المفاتیح، ’’کتاب الزکاۃ، باب فضل الصدقۃ‘‘: ج ۴، ص: ۳۳۸، رقم: ۱۸۸۸۔

 فتاویٰ دارالعلوم وقف دیوبند ج5 ص324