Frequently Asked Questions
طلاق و تفریق
Ref. No. 1546/43-1051
الجواب وباللہ التوفیق
بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ وقوع طلاق کے لئے صرف نیت کافی نہیں ہے، نیت کی ترجمانی کرنے والے صریح یا کنائی الفاظ کا تلفظ ضروری ہے۔ کسی عمل کے کرنے پر طلاق کی نیت معتبر نہیں۔ ہاں اگر کسی عمل کے کرنے پر طلاق معلق کرے تو طلاق معلق ہوگی اور تعلیق پوری ہونے پر طلاق واقع ہوجائے گی۔ اس لئے صورت بالا میں محض طلاق کی نیت سے طلاق کی فائل کھولنے سے طلاق واقع نہیں ہوگی۔ البتہ اگر وہ زبان سے کہے کہ "جب میں طلاق کا پیج کھولوں تو میری بیوی کو طلاق" تو اب طلاق کا پیج کھولنے سے طلاق واقع ہوجائے گی۔
وقال الليث: الوسوسۃ حديث النفس وإنما قيل موسوس؛ لأنه يحدث بما في ضميره وعن أبي الليث لا يجوز طلاق الموسوس يعني المغلوب في عقله عن الحاكم هو المصاب في عقله إذا تكلم تكلم بغير نظام (البحر، اکثر التعزیر 5/51) (شامی، باب المرتد 4/224)
(قوله فيقع بلا نية للعرف) أي فيكون صريحا لا كناية، بدليل عدم اشتراط النية الی قولہ - - - أن الصريح ما غلب في العرف استعماله في الطلاق بحيث لا يستعمل عرفا إلا فيه من أي لغة كانت (شامی، باب صریح الطلاق 3/252) رجل قال: إن كذبت فامرأتي طالق فسئل عن أمر فحرك رأسه بالكذب لا يحنث في يمينه ما لم يتكلم كذا في فتاوى قاضي خان. (الھندیۃ، الفصل الثالث فی تعلیق الطلاق بکلمۃ ان 1/448)
أن الصريح لا يحتاج إلى النية، ولكن لا بد في وقوعه قضاء وديانة من قصد إضافة لفظ الطلاق إليها عالما بمعناه (شامی، باب صریح الطلاق 3/250) وليس لفظ اليمين كذا إذا لا يصح بأن يخاطبها بأنت يمين فضلا عن إرادة إنشاء الطلاق به أو الإخبار بأنه أوقعه حتى لو قال أنت يمين لأني طلقتك لا يصح فليس كل ما احتمل الطلاق من كنايته بل بهذين القيدين ولا بد من ثالث هو كون اللفظ مسببا عن الطلاق وناشئا عنه كالحرمة في أنت حرام ونقل في البحر عدم الوقوع، بلا أحبك لا أشتهيك لا رغبة لي فيك وإن نوى. (شامی، باب الکنایات 3/296)
واللہ اعلم بالصواب
دارالافتاء
دارالعلوم وقف دیوبند
اسلامی عقائد
الجواب وباللّٰہ التوفیق:کمیونسٹ نظام میں اللہ اور اس کے رسول کا کوئی تصور نہیں ہے اور آپ اعتقاداً کمیونسٹ تھے(۲)؛ اس لئے آپ تجدید اسلام بھی کریں اور تجدید نکاح بھی کریں، اللہ تعالیٰ کا شکر ادا کریں؛ اس نے آپ کو قعر ذلت وضلالت سے نکال کر اسلام سے سرفراز فرمایا، اگر صرف دو گواہوں کے سامنے ایجاب وقبول کرلیا، تو نکاح ہوجائے گا اور تنہائی میں توبہ واستغفار کریں اور
کلمہ پڑھ لیں، تو کافی ہے۔ (۱)
(۱) {وَمَنْ یَّبْتَغِ غَیْرَ الْإِسْلَامِ دِیْنًا فَلَنْ یُّقْبَلَ مِنْہُ ج وَھُوَ فِي الْأٰخِرَۃِ مِنَ الْخٰسِرِیْنَ ہ۸۵} (سورۃ آل عمران: ۸۵)
{وَلَا تَنَازَعُوْا فَتَفْشَلُوْا وَتَذْھَبَ رِیْحُکُمْ وَاصْبِرُوْاط} (سورۃ الأنفال: ۴۶)
{وَاعْتَصِمُوْا بِحَبْلِ اللّٰہِ جَمِیْعًا وَّلَا تَفَرَّقُوْا ص} (سورۃ آل عمران: ۱۰۳)
إن العقیدۃ الأساسیۃ للنظام الاشتراکی ہي عقیدۃ المادۃ اللتي تقول إن المادۃ ہي أصل الأشیاء ولا شيء لغیر المادۃ وہذا یعني إنکار وجود الخالق العظیم سبحانہ وتعالیٰ وبالثاني إنکار کل دین سماوي واعتبار ہا الإیمان بذلک أفیونا یحذر الشعوب کما یعتقد بذلک المارکسیون والتیتویون وأمثالہم۔ (حکم الإسلام في الاشتراکیہ: ص: ۱۱۹، بحوالہ فتاوی محمودیہ: ج ۴، ص: ۴۸۴)
(۱) واتفقوا علی أن التوبۃ من جمیع المعاصي واجبۃ۔ (نووي علی مسلم، ’’کتاب التوبۃ‘‘: ج ۲، ص: ۳۵۴)
یکفر إذا وصف اللّٰہ تعالیٰ بما لا یلیق بہ۔ (جماعۃ من علماء الہند، الفتاویٰ الہندیۃ، ’’کتاب السیر، الباب التاسع: في أحکام المرتدین، موجبات الکفر أنواع، ومنہا: ما یتعلق بذات اللّٰہ تعالیٰ الخ‘‘: ج ۲، ص: ۲۷۱)
نکاح و شادی
Ref. No. 1905/43-1797
بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ نکاح مذکور درست نہیں ہوا۔ فون پر نکاح کا مذکورہ طریقہ درست نہیں تھا۔ نکاح کے لئے ایجاب و قبول کا ایک ہی مجلس میں ہونا شرط ہے جبکہ لڑکی مجلس میں موجود نہیں ہے، لڑکی کے والد اور دیگر حضرات گواہ بن سکتے تھے اگر ایجاب و قبول درست ہوتا۔اس لئے یہ نکاح درست نہیں ہوا تھا۔ البتہ اگر لڑکی قاضی صاحب کو فون پر اپنا وکیل بنادیتی کہ میرا نکاح آپ فلاں سے کردیں، اور پھر مجلس میں قاضی صاحب کہدیتے کہ میں نے فلاں لڑکی کا نکاح آپ (لڑکے) سے کردیا تو اس طرح نکاح درست ہوجاتا۔ الغرض مذکورہ نکاح درست نہیں ہوا، اب دوبارہ درست طریقہ پر نکاح کرلیا جائے۔
ومن شرائط الإیجاب والقبول اتحاد المجلس لو حاضرین وإن طال کمخیرة۔ (الدر المختار مع الشامي: 4/76، ط زکریا دیوبند)
"(ومنها) أن يكون الإيجاب والقبول في مجلس واحد حتى لو اختلف المجلس بأن كانا حاضرين فأوجب أحدهما فقام الآخر عن المجلس قبل القبول أو اشتغل بعمل يوجب اختلاف المجلس لاينعقد وكذا إذا كان أحدهما غائبا لم ينعقد حتى لو قالت امرأة بحضرة شاهدين: زوجت نفسي من فلان وهو غائب فبلغه الخبر فقال: قبلت، أو قال رجل بحضرة شاهدين: تزوجت فلانة وهي غائبة فبلغها الخبر فقالت: زوجت نفسي منه لم يجز وإن كان القبول بحضرة ذينك الشاهدين، وهذا قول أبي حنيفة ومحمد - رحمهما الله تعالى- ولو أرسل إليها رسولاً أو كتب إليها بذلك كتاباً فقبلت بحضرة شاهدين سمعا كلام الرسول وقراءة الكتاب جاز؛ لاتحاد المجلس من حيث المعنى." (الفتاوى الهندية (1/ 269)
"ثم النكاح كما ينعقد بهذه الألفاظ بطريق الأصالة ينعقد بها بطريق النيابة، بالوكالة، والرسالة؛ لأن تصرف الوكيل كتصرف الموكل، وكلام الرسول كلام المرسل، والأصل في جواز الوكالة في باب النكاح ما روي أن النجاشي زوج رسول الله صلى الله عليه وسلم أم حبيبة - رضي الله عنها - فلايخلو ذلك إما أن فعله بأمر النبي صلى الله عليه وسلم أو لا بأمره، فإن فعله بأمره فهو وكيله، وإن فعله بغير أمره فقد أجاز النبي صلى الله عليه وسلم عقده والإجازة اللاحقة كالوكالة السابقة". (بدائع الصنائع في ترتيب الشرائع (2/ 231)
واللہ اعلم بالصواب
دارالافتاء
دارالعلوم وقف دیوبند
نماز / جمعہ و عیدین
Ref. No. 2016/44-1979
بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ جب تک کسی جگہ 15 دن یا اس سے زیادہ ٹھہرنے کی نیت نہ ہو آپ مسافر رہیں گے، چاہے اس طرح کتنی ہی مدت گزرجائے۔
"و لو دخل مصرًا على عزم أن يخرج غدًا أو بعد غد ولم ينو مدة الإقامة حتى بقي على ذلك سنين قصر" لأن ابن عمر رضي الله عنه أقام بأذربيجان ستة أشهر وكان يقصر وعن جماعة من الصحابة رضي الله عنهم مثل ذلك". (الهداية في شرح بداية المبتدي 1 / 80)
"ويصير مقيماً بشيئين: أحدهما إذا عزم علي إقامة خمسة عشر يوماً أين ما كان .." (النتف في الفتاوى للسغدي 1 / 76)
واللہ اعلم بالصواب
دارالافتاء
دارالعلوم وقف دیوبند
احکام میت / وراثت و وصیت
Ref. No. 2102/44-2125
بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ خالدہ کا یہ عمل یقینا غلط ہے اور تکلیف دہ ہے، اس کو ایسانہیں کرنا چاہئے تھا، البتہ چونکہ وہ عاقلہ بالغہ ہے اس لئے اس کا کیا ہوا نکاح شرعا معتبر ہے، اور اس کو دیگر ورثہ کی طرح وراثت کی تقسیم میں حصہ بھی ملے گا۔ اس کی اپنی مرضی سے شادی کی بناء پر اس کو وراثت سے محروم کرنا جائز نہیں ہوگا۔
واللہ اعلم بالصواب
دارالافتاء
دارالعلوم وقف دیوبند
متفرقات
Ref. No. 2165/44-2246
بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ زنا ایک جرم عظیم ہے،شریعت اسلامیہ میں غیر شادی شدہ زانی کی سزا ایک سو کوڑے مارنا ہے، اور اس سزا کا جاری کرنااسلامی حکومت میں حاکم اسلام کا کام اور ذمہ داری ہے، حاکم اسلام یا اس کے نمائندہ کے علاوہ دوسرا کوئی یہ سزا جاری نہیں کر سکتا۔ لیکن جہاں پر اسلامی حکومت نہ ہو وہاں کے ملکی قانون کے مطابق کارروائی کی جائے گی ۔ زنا کا ارتکاب حقوق اللہ کی پامالی ہے، یہ حقوق العباد میں سے نہیں ہے، اس لئے لڑکی یا اس کے والدین کے معاف کرنے سے معافی نہیں ہوگی بلکہ اس لڑکے پر لازم ہے کہ جلد اللہ تعالی کے سامنے توبہ کرے اور جوکچھ ہوا اس پر نادم ہو، اور پھر دوبارہ ہر گز ایسی حرکت نہ کرنے کا پختہ ارادہ کرے۔ امید ہے کہ اس کی بخشش ہوجائے گی۔
واللہ اعلم بالصواب
دارالافتاء
دارالعلوم وقف دیوبند
طہارت / وضو و غسل
Ref. No. 2414/44-3655
بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ اگر کوئی جانور گرکر مرگیا ہو تو جانور کو نکالنے کے بعد بور کا پورا پانی نکالاجائے گا، اور پھر اگر اتنی مدت گزرگئی کہ جانور کے اجزاء پانی میں تحلیل ہوجانے کا غالب گمان ہو تو سارا پانی نکال دینا اس بور کی پاکی کے لئے کافی ہوگا، اسی طرح اگرپیشاب کے قطرے بورنگ کے اندر چلے جائیں توبھی سارا پانی نکالنا ضروری ہوگا۔
نوٹ: بور کے اندر کتنا پانی ہے اس کا اندازہ کرنے کے لئے کوئی رنگ اندر ڈال دیاجائے اور پھر پانی نکالنا شروع کیا جائے، جب رنگ کا اثر ختم ہوجائے تو یہ اس بات کی علامت ہوگی کہ سارا پانی نکالاجاچکاہے، اب بور کو پاک سمجھاجائے گا۔
واللہ اعلم بالصواب
دارالافتاء
دارالعلوم وقف دیوبند
حدیث و سنت
الجواب وباللّٰہ التوفیق:حضرت موسیٰ علیہ السلام کی والدہ کا نام ’’یوخا بذ‘‘یا ’’یوکا بد‘‘ بنت لاوی بن یعقوب‘‘ تھا۔ قرطبی رحمۃ اللہ علیہ نے ثعلبی کا یہی قول نقل کیا ہے اور یہی راجح قول ہے۔(۱)
(۱)امام بغوی رحمہ اللہ علیہ نے لکھا ہے کہ ان کا نام یوحانذ بنت لاوي بن یعقوب تھا۔ (البغوي،معالم التنزیل(تفسیر بغوي) ج ۳، ص: ۴۲۵)
فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج2ص226
طہارت / وضو و غسل
الجواب وباللہ التوفیق:کنویں میں جوتا گرنے سے کنواں ناپاک نہیں ہوتا، اگر بظن غالب یا یقینی طور پر نجاست ہو، تو کنواں ناپاک ہوگا۔ اگر تمام موجودہ پانی نکال دیا جائے، تو کنواں پاک ہوجائے گا۔(۱)
(۱)سئل یوسف بن محمد لو وقع بعض الجلد من الخف مما یکون في موضع القدم في الجب و کان صاحب الخف یلبسہ قال لا یحکم بنجاسۃ الماء حتی یستیقن أن بہ نجاسۃ، الفتاویٰ التاتارخانیہ، کتاب الطہارۃ، الفصل الرابع في المیاہ التي یجوز العدو بھا، ج ۱،ص:۳۳۰)؛ ولو وقع في البئر خرقۃ أو خشبۃ نجسۃ ینزح کل الماء۔ و في الظھیریۃ، ولو وقعت في البئر خشبۃ أو قطعۃ ثوب نجس۔ و في الفتاویٰ الخلاصۃ: أو عظم تلطخ بالنجاسۃ و تغیبت فیھا ظھرت بالنزح تبعا لطھارۃ ماء البئر؛ ولو وقعت في البئر خشبۃ نجسۃ أو قطعۃ من ثوب نجس و تعذر إخراجھا و تغیبت فیھا طھرت الخشبۃ والقطعۃ من الثوب تبعا لطھارۃ البئر۔ (ابن نجیم، البحر الرائق، کتاب الطہارۃ،ج۱، ص:۱۹۷)؛ وإذا وقعت في البئر نجاسۃ نزحت و کان نزح ما فیھا من الماء طہارۃ لھا بإجماع السلف کذا في الہدایۃ۔ (جماعۃ من علماء الہند، الفتاویٰ الہندیہ، کتاب الطہارۃ، الباب الثالث في المیاہ، الفصل الأول: فیما یجوز بہ التوضؤ، النوع الثالث: ماء الآبار الأول ما یجب نزح الماء بوقوعہ، ج ۱، ص:۷۱)
فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج2ص483
طہارت / وضو و غسل
الجواب وباللّٰہ التوفیق:دانتوں پر سونے یا چاندی کا خول بلاضرورت چڑھانا مکروہ ہے؛ لیکن ضرورت کی وجہ سے مکروہ نہیں ہے۔ بہرصورت یہ خول وضو اور غسل کے جواز پر اثر انداز نہیں ہوتا۔(۱)
(۱)لو تحرکت سن رجل و خاف سقوطھا فشدھا بالذھب أو بالفضۃ لم یکن بہ بأس۔ (جماعۃ من علماء الہند، الفتاویٰ الہندیہ، ’’کتاب الکراہیۃ، الباب العاشر: في استعمال الذھب والفضۃ،‘‘ ج۵، ص:۳۸۹)؛ ولا یشد منہ المتحرک بذھب بل بفضۃ وجوزھما محمد۔ و في التاتارخانیۃ، و علی ھذا الاختلاف إذا جدع أنفہ و أذنہ أو سقط سنہ، فأراد أن یتخذ سنا آخر، فعند الإمام یتخذ ذلک من الفضۃ فقط، وعند الإمام محمد: یتخذ من الذھب (ابن عابدین، رد المحتار، ’’کتاب الحظروالإباحۃ، فصل في اللبس،‘‘ ج ۹، ص:۵۲۰- ۵۲۱)؛ و شد السن بالفضۃ یعنی یحل شد السن المتحرک بالفضۃ ولا یحل بالذھب، و قال محمد: یحل بالذھب أیضا۔ ( ابن نجیم، البحر الرائق، ’’کتاب الکراہیۃ، فصل في اللبس،‘‘ ج۸، ص:۳۵۰)؛ و الأصل وجوب الغسل إلا أنہ سقط للحرج (ابن عابدین، رد المحتار، ’’کتاب الطہارۃ، مطلب في أبحاث الغسل،‘‘ ج ۱،ص:ـ۲۸۶)
فتاوی ٰ دارالعلوم وقف دیوبند ج3 ص151