Frequently Asked Questions
مساجد و مدارس
Ref. No. 2231/44-2363
بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ (1) مسجد کے لئے وقف شدہ زمین پر مدرسہ یا اسکول تعمیر کرنا درست نہیں ہے، البتہ اگر مسجد کی زمین مسجد کی ضرورت سے زائد ہے اور خالی پڑی ہے تو مسجد کی رقم سے تعمیر کرکے کسی مدرسہ یا اسکول کو کرایہ پر دینا جائز ہے۔ (2) شادی ہال میں اگر صرف نکاح اور دعوت کا اہتمام ہو اور کوئی غیر شرعی امور کا ارتکاب نہ ہو تو مسجد کی خالی زمین کوشادی ہال کے لئے کرایہ پر دینا جائز ہے، البتہ چونکہ عام طور پر غیرشرعی امور سے روکنا مشکل ہوتاہے اس لئے شادی ہال نہ بنائیں تو زیادہ بہتر ہے ۔
واللہ اعلم بالصواب
دارالافتاء
دارالعلوم وقف دیوبند
اسلامی عقائد
الجواب وباللّٰہ التوفیق:مروّجہ فاتحہ بدعت ہے؛ اس لئے اس کی مٹھائی وغیرہ میں شرکت درست نہیں۔(۱)
(۱) عن عائشۃ -رضي اللّٰہ عنہا- قالت: قال رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم: من أحدث في أمرنا ہذا ما لیس منہ فہو رد۔ (أخرجہ مسلم، في صحیحہ، ’’کتاب الأقضیہ: باب نقض الأحکام الباطلۃ‘‘: ج ۲، ص: ۷۷، رقم: ۱۷۱۸)
فالحاصل أن ما شاء في زماننا من قراء ۃ الأجزاء بالأجرۃ لا یجوز: لأن فیہ الأمر بالقراء ۃ وإعطاء الثواب للامر والقراء ۃ لأجل المال، فإذا لم یکن للقاري ثواب لعدم النیۃ الصحیحۃ فأین یصل الثواب إلی المستأجر، ولو لا الأجرۃ ما قرأ أحد لأحد في ہذا الزمان، بل جعلوا القرآن العظیم مکسباً ووسیلۃ إلی جمع الدنیا۔ (ابن عابدین، الدر المختار مع رد المحتار، ’’کتاب الإجارۃ: باب الإجارۃ الفاسدۃ، مطلب: تحریر مہم في عدم جواز الاستئجار علی التلاوۃ‘‘: ج ۹، ص: ۷۷)
فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج1ص306
نماز / جمعہ و عیدین
Ref. No. 2399/44-3622
بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ بظاہر اتنی چھوٹی بستی میں جمعہ درست نہیں ہے۔ تاہم کسی ماہر مفتی سے معائنہ کرالیاجائے، معائنہ کے بعد وہ جو فتوی دیں اس کے مطابق عمل کیاجانا چاہئے۔
واللہ اعلم بالصواب
دارالافتاء
دارالعلوم وقف دیوبند
اسلامی عقائد
Ref. No. 2444/45-3707
بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ امہات المؤمنین کے بارے میں اہل سنت والجماعت کا عقیدہ یہ ہے کہ وہ قرآن کی تصریح کے مطابق تمام مومنین کی مائیں ہیں ان کا احترام و اکرام فرض ہے،وہ جنت میں اعلی مقام پر فائز ہوںگی ، امہات المؤمنین جنت میں رسول اللہ ﷺ کی بیویوں کی حیثیت سے ہی رہیں گی اس کی صراحت بعض روایات میں ہے ، بعض روایت میں حضرت عائشہ کے بارے میں ہے کہ وہ جنت میں آپ کی بیوی ہوں گی ۔في رواية الترمذي: «إِنَّ هَذِهِ زَوْجَتُكَ فِي الدُّنْيَا وَالْآخِرَةِ(سنن الترمذی ؛حدیث نمبر: 3880)۔اسی طرح حضور ﷺ نے حضرت حفصہ کو طلاق دیا تو جبرئیل امین تشریف لائے اور فرمایا کہ ان سے رجوع فرمالیں اس لیے کہ یہ آپ کی بیوی ہیں دنیا میں بھی اور جنت میں بھی ۔عَنْ أَنَسٍ أَنَّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ طَلَّقَ حَفْصَةَ تَطْلِيقَةً، فَأَتَاهُ جِبْرِيلُ، فَقَالَ: " يَا مُحَمَّدُ طَلَّقْتَ حَفْصَةَ تَطْلِيقَةً وَهِيَ صَوَّامَةٌ قَوَّامَةٌ، وَهِيَ زَوْجَتُكَ فِي الدُّنْيَا وَفِي الْجَنَّةِ (شرح مشکل الآثار ،حدیث نمبر: 4615) عن هشام بن عروة، عن أبيه، أن رسول الله صلى الله عليه وسلم " طلق سودة، فلما خرج إلى الصلاة أمسكت بثوبه، فقالت: مالي في الرجال من حاجة، ولكني أريد أن أحشر في أزواجك قال: فرجعها وجعل يومها لعائشة رضي الله عنها(السنن الکبری، للبیہقی،حدیث نمبر:13435)
ابن کثیر نے لکھا ہے کہ تمام ازواج مطہرات جنت میں آپ کی بیویاں ہوگی اور تمام مخلوق سے افضل مقام و مرتبہ میں حضور ﷺ کے ساتھ ہوں گی۔.
۔" ثم ذكر عدله وفضله في قوله: ( وَمَنْ يَقْنُتْ مِنْكُنَّ لِلَّهِ وَرَسُولِهِ )، أي: يطع الله ورسوله ويستجب ( نُؤْتِهَا أَجْرَهَا مَرَّتَيْنِ وَأَعْتَدْنَا لَهَا رِزْقًا كَرِيمًا ) أي: في الجنة، فإنهن في منازل رسول الله صلى الله عليه وسلم، في أعلى عليين، فوق منازل جميع الخلائق، في الوسيلة التي هي أقرب منازل الجنة إلى العرش " انتهى من "تفسير ابن كثير" (6/408) ۔
(2) تمام صحابہ کرام جنتی ہیں اس کی بشارت قرآن میں بھی ہے اور احادیث میں بھی ہے ،اور یہ اہل سنت والجماعت کا مسلک ہے ،حضرت مولانا ادریس کاندھلوی نے عقائد اسلام میں لکھاہے: صحابہ کرام اگر چہ انبیاء کی طرح معصوم نہیں ہیں ، مگر خدا تعالی کا ان سے راضی ہونا اور جنت میں ان کا جانا قطعی اور یقینی ہے جس میں ذرہ برابر شک و شبہ کی گنجائش نہیں ہے کیو ں کہ یہ دونوں باتیں رضائے خداوندی کا پروانہ اور جنت کی خوشخبری صحابہ کے لیے قرآن وحدیث سے ثابت ہیں ان کے علاوہ کسی کے لیے یہ دونوں باتیں قرآن وحدیث سے ثابت نہیں ہیں ،(عقائد اسلام ص:168)
وَالسَّابِقُونَ الأَوَّلُونَ مِنَ الْمُهَاجِرِينَ وَالأَنصَارِ وَالَّذِينَ اتَّبَعُوهُم بِإِحْسَانٍ رَّضِيَ اللّهُ عَنْهُمْ وَرَضُواْ عَنْهُ وَأَعَدَّ لَهُمْ جَنَّاتٍ تَجْرِي تَحْتَهَا الأَنْهَارُ خَالِدِينَ فِيهَا أَبَدًا ذَلِكَ الْفَوْزُ الْعَظِيمُ {التوبة:100قال أبو محمد بن حزم رحمه الله: ثم نقطع على أن كل من صحب رسول الله صلى الله عليه وسلم بنية صادقة ولو ساعة، فإنه من أهل الجنة لا يدخل النار لتعذيب، إلا أنهم لا يلحقون بمن أسلم قبل الفتح، وذلك لقول الله عز وجل: لا يستوي منكم من أنفق من قبل الفتح وقاتل أولئك أعظم درجة من الذين أنفقوا من بعد وقاتلوا وكلا وعد الله الحسنى. انتهى
واللہ اعلم بالصواب
دارالافتاء
دارالعلوم وقف دیوبند
حج و عمرہ
Ref. No. 2512/45-3845
بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ معتمر کے لیے عمرہ کے تمام اَرکان ادا کرلینے کے بعد، اسی طرح حاجی کے لئے تمام مناسک حج ادا کرلینے کے بعد صرف احرام کی پابندیوں سے نکلنے اور حلال ہونےکی نیت سے، خود اپنے سر کا حلق کرناجائز ہے، اس سے کوئی دم وغیرہ لازم نہیں آئے گا۔
"(واذا حلق) ای المحرم (رأسہ) ای رأس نفسہ (أو رأس غیرہ) ای ولو کان محرما (عند جواز التحلل) ای الخروج من الاحرام بأداء أفعال النسک (لم یلزمہ شیٔ) الاولی لم یلزمھما شیٔ وھذا حکم یعم کل محرم فی کل وقت". (مناسک لملا علی القاری: (ص: 230)
واللہ اعلم بالصواب
دارالافتاء
دارالعلوم وقف دیوبند
حدیث و سنت
الجواب وباللّٰہ التوفیق:(۱) مشکوٰۃ شریف احادیث مقدسہ کا انتہائی اہم ذخیرہ ہے، جس کو علماء نے غیر معمولی اہمیت دی ہے، اس میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی احادیث، آثار صحابہ رضی اللہ عنہم اور آثار تابعین رحمہم اللہ اجمعین کو بھی بیان کیا گیا ہے۔ رہا معاملہ استدلال کا تو کسی بھی کتاب سے استدلال کے لیے یہ دیکھنا ضروری ہے کہ یہ استدلال کس مسئلہ سے متعلق ہے، کبھی اس کا تعلق عقائد سے ہوگا، تو کبھی واجبات وفرائض سے اور کبھی سنن ونوافل سے یا معاشرت واخلاقیات سے اس کا تعلق ہوگا۔ ہر ایک پر استدلال کے لیے مستدل منہ کے لئے شرائط علیحدہ ہیں، مشکوٰۃ شریف کی خصوصیت ہے کہ اس میں راوی کی وضاحت اور جس کتاب سے روایت لی گئی اس کا عموماً حوالہ بھی ہوتا ہے؛ لہٰذا عمومی استدلال، فتن، ادعیہ، اعتصام بالکتاب، اسماء حسنی، فضائل ونوافل اور ترغیب وترہیب وغیرہ کے لیے اس سے استدلال بالکل درست ہے اور معاملہ عقائد وواجبات وغیرہ کا ہو، تو اس پر استدلال کے لیے حوالہ موجود ہے کہ حدیث کے مراتب کو معلوم کرکے ضروری ہو، تو مرجع کی طرف رجوع کرلیا جائے؛ بالکلیہ یہ کہہ دینا کہ اس سے استدلال درست نہیں ہے یہ غلط ہے۔
(۲) پندرہ شعبان کے روزے کی فضیلت ثابت ہے کتب حدیث میں اس کا ذکر ہے اور کتب فقہ میں بھی وضاحت ہے، روزہ رکھنا افضل ہے اور ثواب ہے؛ اگر کوئی روزہ نہ رکھے، تو بھی کوئی برائی نہیں ہے، افضلیت کا انکار بھی درست نہیں ہے اور پھر مذکورہ فی السوال شدت تو بالکل ہی غلط ہے، ایسی شدت اختیار نہ کرنی چاہئے۔ (۱)
(۱) عن علي ابن أبي طالب رضي اللّٰہ عنہ، قال: قال رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم: إذا کانت لیلۃ النصف من شعبان فقوموا لیلہا وصوموا نہارہا۔ (أخرجہ ابن ماجہ، في سننہ، ’’کتاب إمامۃ الصلاۃ والسنۃ فیہا: باب ماجاء في لیلۃ النصف من شعبان‘‘: ج ۱، ص: ۲۵۳، رقم: ۱۳۸۸)
إذا روینا عن رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم في الحلال والحرام والسنن والأحکام تشددنا في الأسانید وإذا روینا عن النبي في فضائل الأعمال وما لا یضع حکما ولایرفعہ تساہلنا في الأسانید۔ (الخطیب البغوي، الکفایۃ في علم الروایۃ، ’’باب التشدید في أحادیث الأحکام‘‘: ج ۱، ص: ۱۳۴)
فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج2ص132
حدیث و سنت
الجواب وباللّٰہ التوفیق:پانچ نبیوں کے نام ان کی پیدائش سے قبل رکھے گئے ہیں:
(۱) نبی آخرالزماں محمد عربی صلی اللہ علیہ وسلم جیسے کہ ارشاد باری {مبشرا برسول یأتي من بعدي، إسمہ أحمد}(۲)
(۲) حضرت یحییٰ علیہ السلام جن کا ذکر قرآن پاک میں {یٰزکر یا إنا نبشرک بغلام إسمہ یحیی}(۱)
(۳) حضرت عیسیٰ علیہ السلام جن کا ذکر قرآن پاک میں {بکلمۃ منہ اسمہ المسیح عیسی ابن مریم}(۲)
(۴) حضرت اسحاق علیہ السلام۔ (۵) حضرت یعقوب علیہ السلام۔
جن کا ذکر قرآن پاک میں ہے {فبشرناہ بإسحاق ومن وراء إسحاق یعقوب}(۳)
(۲) {وَإِذْ قَالَ عِیْسَی ابْنُ مَرْیَمَ ٰیبَنِیْٓ إِسْرَآئِیْلَ إِنِّيْ رَسُوْلُ اللّٰہِ إِلَیْکُمْ مُّصَدِّقًا لِّمَا بَیْنَ یَدَيَّ مِنَ التَّوْرٰئۃِ وَ مُبَشِّرًام بِرَسُوْلٍ یَّأْتِيْ مِنْ م بَعْدِی اسْمُہٗٓ أَحْمَدُط فَلَمَّا جَآئَھُمْ بِالْبَیِّنٰتِ قَالُوْاھٰذَا سِحْرٌ مُّبِیْنٌ ہ۶ } (سورۃ الصف: ۶)
(۱) {ٰیزَکَرِیَّآ إِنَّا نُبَشِّرُکَ بِغُلٰمِ نِ اسْمُہٗ یَحْیٰی لا لَمْ نَجْعَلْ لَّہٗ مِنْ قَبْلُ سَمِیًّاہ۷ } (سورۃ مریم: ۷)
(۲) {إِذْ قَالَتِ الْمَلٰٓئِکَۃُ یٰمَرْیَمُ إِنَّ اللّٰہَ یُبَشِّرُکِ بِکَلِمَۃٍ مِّنْہُ صلے ق اسْمُہُ الْمَسِیْحُ عِیْسَی ابْنُ مَرْیَمَ وَجِیْھًا فِي الدُّنْیَا وَالْأٰخِرَۃِ وَمِنَ الْمُقَرَّبِیْنَہلا ۴۵} (سورۃ آل عمران: ۴۵)
(۳) {وَامْرَاَتُہٗ قَآئِمَۃٌ فَضَحِکَتْ فَبَشَّرْنٰھَا بِإِسْحٰقَ لا وَمِنْ وَّرَآئِ إِسْحٰقَ یَعْقُوْبَہ۷۱} (سورۃ ہود:۱ ۷)
الإتقان: ج ۲، ص: ۳۴۹۔
فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج2ص231
خوردونوش
Ref. No. 2626/45-4001
بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ کولڈڈرنک پینا فی نفسہ جائز ہے، البتہ نقصان دہ اور مضر ہونے کا شبہ بھی ہے اس لئے بچنا چاہئے۔ آپ کے ذہن میں اس سوال کے پیداہونے کی وجہ کیا ہے، اگرآپ اس خاص وجہ کو بھی سوال میں بیان کرتے تو شاید صحیح حکم تک رسائی آسان ہوتی۔
واللہ اعلم بالصواب
دارالافتاء
دارالعلوم وقف دیوبند
طہارت / وضو و غسل
الجواب وباللہ التوفیق: اگر کوئی ظاہری نجاست نہیں لگی تو وہ جگہ پاک ہے۔(۲)
(۲)کما لا ینجس ثوب جاف طاھر لف في ثوب نجس رطب لا ینعصر الرطب … …لو عصر… إلا أن یظھر أثرھا فیہ۔ (الشرنبلالي، نورالإیضاح، باب الأنجاس، ص:۵۳)؛ ولو مس کلباً أو خنزیراً أو وطیٔ نجاسۃ لا وضوء علیہ لإنعدام الحدث حقیقۃ و حکما إلاّ أنہ إذا التزق بیدہ شيء من النجاسۃ یجب غسل ذلک الموضع و إلا فلا۔ ( الکاساني،بدائع الصنائع ،باب نواقض الوضوء، ج۱،ص:۳۹؍۱۴۰)
فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج2ص434
طہارت / وضو و غسل
الجواب وباللّٰہ التوفیق:شاور، ٹونٹی، نل اور ٹب وغیرہ کے ذریعے غسل کرنے کے لیے اگر اچھی طرح کلی کرلی گئی اور ناک میں نرم ہڈی تک پانی پہونچایا گیا اور پھر پورے بدن پر کم از کم ایک مرتبہ اس طرح پانی بہا لیا گیا کہ بدن کا کوئی حصہ بال برابر بھی خشک نہ رہا، تو غسل کے واجبات ادا ہو جائیں گے، صاحب نور الایضاح نے بیان کیا ہے: ’’وغسل نجاسۃ لو کانت بانفراد ہا‘‘ اگر بدن پر نجاست حقیقیہ لگی ہو، تو اولا نجاست کو دور کرے دونوں ہاتھوں کو اچھی طرح دھوئے پھر وضو کرے اور اگر روزہ کی حالت نہ ہو تو کلی کے ساتھ غرغرہ بھی کرے اور اگر کسی ایسے مقام پر غسل کر رہا ہے جہاں غسل کا پانی جمع ہوتا ہے، تو ایسی صورت میں غسل سے فارغ ہونے کے بعد دوسری جگہ ہٹ کر پیر دھوئے۔
’’وعن عائشۃ زوج النبي صلی اللّٰہ علیہ وسلم أن النبي صلی اللّٰہ علیہوسلم: کان إذا اغتسل من الجنابۃ بدأ فغسل یدیہ ثم یتوضأ کما یتوضأ للصلاۃ ثم یدخل أصابعہ في الماء فیخلل بہا أصول شعرہ ثم یصب علی رأسہ ثلاث غرف بیدیہ ثم یفیض الماء علی جلدہ کلہ‘‘ (۱)
نیز جسم پر پانی کسی بھی چیز سے ڈالا جائے خواہ شاور سے ہو یاکسی اور چیز سے اس میں کوئی حرج نہیں؛ البتہ کھڑے ہوکر غسل کرنے کے بجائے بیٹھ کر غسل کرنا زیادہ پسندیدہ ہے؛ کیوں کہ اس میں پردہ زیادہ ہے۔
’’(ویجب) أي یفرض (غسل) کل ما یمکن من البدن بلا حرج مرۃ کأذن و (سرۃ وشارب وحاجب و) أثناء (لحیۃ) وشعر رأس ولو متلبداً لما في {فاطہروا} (سورۃ المائدۃ: ۶) من المبالغۃ (وفرج خارج) لأنہ کالفم لا داخل؛ لأنہ باطن، ولا تدخل
أصبعہا في قبلہا بہ یفتی۔ (لا) یجب (غسل ما فیہ حرج کعین) وإن اکتحل بکحل نجس (وثقب انضم و) لا (داخل قلفۃ)‘‘(۲)
(۱) أخرجہ البخاري، في صحیحہ، ’’کتاب الغسل: باب الوضوء قبل الغسل‘‘: ج ۱، ص: ۵۹، رقم: ۲۴۸۔
(۲) ابن عابدین، الدر المختار مع رد المحتار، ’’کتاب الطہارۃ: مطلب في أبحاث الغسل‘‘: ج ۱، ص: ۲۸۵۔
فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج3 ص348