قرآن کریم اور تفسیر

Ref. No. 2011/44-1987

بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ سوال میں مذکور مضمون قرآن کریم کی مختلف آیتوں میں بیان کیاگیاہے۔ تفسیر معارف القرآن میں سورۃ الانعام کی آیت نمبر 162  کی تفسیری عبارت ملاحظہ فرمائیں:

کسی کے گناہ کا بھار دوسرا نہیں اٹھا سکتا

چوتھی آیت میں مشرکین مکہ ولید بن مغیرہ وغیرہ کی اس بات کا جواب ہے جو وہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اور عام مسلمانوں سے کہا کرتے تھے کہ تم ہمارے دین میں واپس آجاؤ ، تو تمہارے سارے گناہوں کا بھار ہم اٹھالیں گے، اس پر فرمایا (آیت) قُلْ اَغَيْرَ اللّٰهِ اَبْغِيْ رَبًّا وَّهُوَ رَبُّ كُلِّ شَيْءٍ، اس میں رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو ارشاد ہے کہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ان سے کہہ دیجئے کہ کیا تم مجھ سے یہ چاہتے ہو کہ تمہاری طرح میں بھی اللہ کے سوا کوئی اور رب تلاش کر لوں، حالانکہ وہی سارے جہان اور ساری کائنات کا رب ہے، اس گمراہی کی مجھ سے کوئی امید نہ رکھو، باقی تمہارا یہ کہنا کہ ہم تمہارے گناہوں کا بھار اٹھالیں گے یہ خود ایک حماقت ہے، گناہ تو جو شخص کرے گا اسی کے نامہ اعمال میں لکھا جائے گا، اور وہی اس کی سزا کا مستحق ہوگا، تمہارے اس کہنے سے وہ گناہ تمہاری طرف کیسے منتقل ہوسکتا ہے، اور اگر خیال ہو کہ حساب اور نامہ اعمال میں تو انہی کے رہے گا لیکن میدان حشر میں اس پر جو سزا مرتب ہوگی وہ سزا ہم بھگت لیں گے، تو اس خیال کو بھی اس آیت کے اگلے جملہ نے رد کر دیا، وَلَا تَزِرُ وَازِرَةٌ وِّزْرَ اُخْرٰي ، ”یعنی قیامت کے روز کوئی شخص دوسرے کا بھار گناہ نہیں اٹھائے گا“۔

اس آیت نے مشرکین کے بیہودہ قول کا جواب تو دیا ہی ہے، عام مسلمانوں کو یہ ضابط بھی بتلا دیا کہ قیامت کے معاملہ کو دنیا پر قیاس نہ کرو کہ یہاں کوئی شخص جرم کرکے کسی دوسرے کے سر ڈال سکتا ہے، خصوصاً جب کہ دوسرا خود رضا مند بھی ہو، مگر عدالت الٓہیہ میں اس کی گنجائش نہیں، وہاں ایک کے گناہ میں دوسرا ہرگز نہیں پکڑا جا سکتا، اسی آیت سے استدلال فرما کر رسول کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ارشاد فرمایا کہ ولد الزنا پر والدین کے جرم کا کوئی اثر نہیں ہوگا، یہ حدیث حاکم نے بسند صحیح حضرت عائشہ سے روایت کی ہے۔

اور ایک میّت کے جنازہ پر حضرت عبداللہ بن عمر (رض) نے کسی کو روتے ہوئے دیکھا تو فرمایا کہ زندوں کے رونے سے مردہ کو عذاب ہوتا ہے، ابن ابی ملیکہ کہتے ہیں کہ میں نے یہ قول حضرت عائشہ (رض) کے سامنے نقل کیا تو انہوں نے فرمایا کہ تم ایک ایسے شخص کا یہ قول نقل کر رہے ہو جو نہ کبھی جھوٹ بولتا ہے اور نہ ان کی ثقاہت میں کوئی شبہ کیا جاسکتا ہے، مگر کبھی سننے میں بھی غلطی ہو جاتی ہے، اس معاملہ میں تو قرآن کا ناطق فیصلہ تمھارے لئے کافی ہے : (آیت) وَلَا تَزِرُ وَازِرَةٌ وِّزْرَ اُخْرٰي، ”یعنی ایک کا گناہ دوسرے پر نہیں پڑ سکتا، تو کسی زندہ آدمی کے رونے سے مردہ بےقصور کس طرح عذاب میں ہوسکتا ہے (درمنثور)

آخر آیت میں ارشاد فرمایا کہ ”پھر تم سب کو بالآخر اپنے رب ہی کے پاس جانا ہے، جہاں تمہارے سارے اختلاف کا فیصلہ سنا دیا جائے گا“۔ مطلب یہ ہے کہ زبان آوری اور کج بحثی سے باز آؤ ، اپنے انجام کی فکر کرو ۔  (تفسیر معارف القرآن از مفتی شفیع صاحب ، سورۃ الانعام آیت 162)

 واللہ اعلم بالصواب

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند

 

Taharah (Purity) Ablution &Bath

Ref. No. 2107/44-2128

In the name of Allah the most Gracious the most Merciful

The answer to your question is as follows:

The way to purify impure clothes is to wash the cloth three times with pure water and squeeze the cloth each time until the water stops dripping from the cloth. Even after washing three times in this way, if there is a visible stain of impurity, it is not necessary to remove it, but the cloth is considered pure; and it is correct to pray in it.

"و إن کانت شیئًا لایزول أثرہ إلا بمشقة بأن یحتاج في أزالته إلی شيء آخر سوی الماء کالصابون لایکلف بإزالته ... و یشترط العصر في کل مرة ویبالغ في المرة الثالثة." (الھندیۃ الباب السابع في النجاسة وأحکامها، ج:1، ص:96، ط:مكتبه رشيديه)

 

And Allah knows best

Darul Ifta

Darul Uloom Waqf Deoband

 

قرآن کریم اور تفسیر

Ref. No. 2218/44-2348

بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ درسِ تفسیر سننے کے لئے  عشرہ یا چلہ لگانایا مدرسہ و مسجد کی کوئی شرط کسی جگہ مذکور نہیں ہے۔ لوگوں کی اس طرح کی  بے سند باتیں جہالت کی بناء پر ہوتی  ہیں، انکا شریعت سے کوئی تعلق نہیں ہے۔ کسی مدرسہ یا مسجد یا کسی ہال میں جہاں یکسوئی کے ساتھ  تفسیر سن سکتے ہوں وہاں درس تفسیر کا انعقاد درست ہے اور جگہ جگہ تفسیری پروگرام منعقد ہونے چاہئیں۔ مردوں کی طرح عورتوں کے لئے بھی ضروری ہے کہ وہ قرآن کے پیغام کو سنیں اور سمجھیں اور اپنی زندگی میں ایک قابل قدر تبدیلی لائیں اور آخرت کو سنواریں۔ اور آج کل جبکہ اکثر مرد حضرات دنیوی مشاغل میں الجھے ہیں اور دینی علوم سے بہت دور ہیں، اگر عورتوں کو بھی علم دین سے اس طرح دور کردیا گیا تو مفاسد میں اضافہ ہوگا، تاہم عورتوں کا کسی جگہ جمع ہونے کے لئے ضروری احتیاطی تدابیر بروئے کار لانا اہم ذمہ داری ہے، اس میں کوتاہی بالکل نہ برتی جائے۔

واللہ اعلم بالصواب

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند

 

طہارت / وضو و غسل

Ref. No. 2334/44-3497

بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ ہوا خارج ہونے کے بعد اگر اعضاء وضو پر پانی بہایا تو وضو ہوگیا،  اور پورے بدن پر پانی بہایا تھا تو غسل  بھی ہوگیا۔ ہوا خارج ہونے سے غسل واجب نہیں ہوتاہے، اس لئے غسل یا وضو لوٹانے کی ضرورت نہیں ہے۔

الفقه على المذاهب الأربعة (1/ 49):

’’ومنها: أن لا يوجد من المتوضئ ما ينافي الوضوء مثل أن يصدر منه ناقض للوضوء في أثناء الوضوء. فلو غسل وجهه ويديه مثلاً ثم أحدث فإنه يجب عليه أن يبدأ الوضوء من أوله. إلا إذا كان من أصحاب الأعذار

 

واللہ اعلم بالصواب

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند

 

طلاق و تفریق

Ref. No. 2362/44-3569

بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔     بی پی اور لقوے کا مریض  پورے طور پر اپنے ہوش و حواس میں ہوتاہے،اس کے تمام اقوال و افعال معتبر ہوتے ہیں؛ اس لئے شخص مذکور کی بیوی پر شرعا تینوں طلاقیں واقع ہوگئیں۔ یہ مطلقہ اب عدت میں ہے، اور اجنبیہ  بن چکی ہے،اس لئے اپنے سابق شوہر کی خدمت بھی نہیں کرسکتی ہے۔ لہذا بیٹے اور بیٹیوں پرلازم ہے کہ اپنے  والد کی خدمت  کریں اور اس بڑھاپے میں ان کا سہارا بنیں۔

عورت اس گھر میں ہی  اپنے بچوں کے ساتھ رہ سکتی ہے، لیکن شوہر سے علاحدہ رہنا ضروری ہے، کھانا پکانا وغیرہ خدمات انجام دے سکتی ہے لیکن جسمانی خدمت اور مردوزن کے تعلقات درست نہیں ۔

﴿ الطَّلَاقُ مَرَّتَانِ فَإِمْسَاكٌ بِمَعْرُوفٍ أَوْ تَسْرِيحٌ بِإِحْسَانٍ ﴾ [البقرة: 229] ۔۔۔﴿ فَإِنْ طَلَّقَهَا فَلَا تَحِلُّ لَهُ مِنْ بَعْدُ حَتَّى تَنْكِحَ زَوْجًا غَيْرَهُ﴾ [البقرة: 230]

' عَنْ سَهْلِ بْنِ سَعْدٍ، فِي هَذَا الْخَبَرِ، قَالَ: فَطَلَّقَهَا ثَلَاثَ تَطْلِيقَاتٍ عِنْدَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَأَنْفَذَهُ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، وَكَانَ مَا صُنِعَ عِنْدَ النَّبِيِّ صلّىالله عليه وسلم سُنَّةٌ''۔ (سنن ابی داؤد ، 1/324، باب فی اللعان، ط: رحمانیه)

فتاوی شامی میں ہے:

"ولهما أن يسكنا بعد الثلاث في بيت واحد إذا لم يلتقيا التقاء الأزواج، ولم يكن فيه خوف فتنة انتهى.

وسئل شيخ الإسلام عن زوجين افترقا ولكل منهما ستون سنة وبينهما أولاد تتعذر عليهما مفارقتهم فيسكنان في بيتهم ولا يجتمعان في فراش ولا يلتقيان التقاء الأزواج هل لهما ذلك؟ قال: نعم، وأقره المصنف.

(قوله: وسئل شيخ الإسلام) حيث أطلقوه ينصرف إلى بكر المشهور بخواهر زاده، وكأنه أراد بنقل هذا تخصيص ما نقله عن المجتبى بما إذا كانت السكنى معها لحاجة، كوجود أولاد يخشى ضياعهم لو سكنوا معه، أو معها، أو كونهما كبيرين لا يجد هو من يعوله ولا هي من يشتري لها، أو نحو ذلك."

(كتاب الطلاق، باب  العدۃ، فصل في الحداد، 3 /538، ط: سعید)

واللہ اعلم بالصواب

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند

 

نماز / جمعہ و عیدین

Ref. No. 2450/45-3713

بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔  ظہیر اور نکیر کے معنی میں تفاوت فاحش ہے، اس لئے مذکورہ صورت میں نماز درست نہیں ہوئی۔ نماز کا اعادہ واجب ہے۔  اگلے روز نماز کے بعد اعلان کردیا جائے تاکہ لوگ اپنی اپنی نماز دوہرالیں۔

واللہ اعلم بالصواب

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند

 

حدیث و سنت

الجواب وباللّٰہ التوفیق:جی یہ حدیث بخاری شریف کی ہے اور صحیح روایت ہے؛ البتہ حضرات محدثین نے اس کا مفہوم یہ بیان کیا ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانہ میں سب سے اہم مسئلہ جہاد کا تھا، کھیتی میں مشغولی یہ جہاد سے اعراض کا باعث بنتاہے، اور جہاد سے اعراض یہ ذلت کا باعث ہے؛ اس لیے کھیتی کے آلات کے گھر میں ہو نے کو ذلت کا باعث قرار دیا گیا ہے، ورنہ کھیتی ایسی چیز ہے جس پر دنیاکی بنیاد ہے، کھیتی کی چیزیں ہی لوگ کھاتے ہیں؛ اس لیے مطلقاً اس کو ذلت کا باعث نہیں کہا جاسکتا ہے۔ ہاں بعض اعتبار سے کھیتی میں مشغول لوگ خیر کے کاموں سے محروم رہ جاتے ہیں۔ جیسے وعظ ونصیحت کی مجلس یا صلحاء کی صحبت سے محروم ہوتے ہیں، اس اعتبار سے بھی یہ بات کہی جاسکتی ہے۔ فیض البار ی میں علامہ کشمیری رحمۃ اللہ علیہ لکھتے ہیں:
’’واعلم أن الحرث والمزارعۃ ملاک العالم، لا یتم نظامہ إلا بہ، ومع ذلک ترد الأحادیث في کراہتہ، فیتحیر منہ الناظر۔ وما ذکرناہ في الحجامۃ لا ینفع ہہنا، فإن الحجام الواحد یکفي لجماعات، بخلاف الحرث۔ وأجیب أن الأہم في عہدہ صلی اللّٰہ علیہ وسلّم کان الجہاد، والاشتغال بالحرث یوجب الاشتغال عنہ، فذمَّہ(۱) لہذا۔ ثم إن مخالب السلطنۃ تنشب بالمزارع، أکثر مما تنشب بالتاجر۔ وکذا المزارع یحرم من الخیر کثیرًا، فلا یجد فرصۃ لاستماع الوعظ، وصحبۃ الصلحاء۔ والحاصل: أن الشيء إذا دار بین خیر وشر، لا یحکم علیہ بالخیریۃ مطلقا، أو الکراہۃِکذلک۔ ولتجاذب الأطراف، فترد الأحادیثُ فیہ بالنحوین لذلک، فأفہم(۲) ولما ذکر فضل الزرع والغرس في الباب السابق أراد الجمع بینہ وبین حدیث ہذا الباب، لأن بینہما منافاۃ بحسب الظاہر۔ وأشار إلی کیفیۃ الجمع بشیئین أحدہما: ہو قولہ: ما یحذر من عواقب الاشتغال بآلۃ الزرع، وذلک إذا اشتغل بہ فضیع بسببہ ما أمر بہ۔ والْآخر: ہو قولہ: أو مجاوزۃ الحد، وذلک فیما إذا لم یضیع، ولکنہ جاوز الحد فیہ۔ وقال الداوردي: ہذا لمن یقرب من العدو فإنہ إذا اشتغل بالحرث لا یشتغل بالفروسیۃ ویتأسد علیہ العدو، وأما غیرہم فالحرث محمود لہم۔ وقال عزوجل: {وأعدوا لہم ما استطعتم} (الأنفال:۶) ولا یقوم إلا بالزراعۃ۔ ومن ہو بالثغور المتقاربۃ للعدو لا یشتغل بالحرث، فعلی المسلمین أن یمدوہم بما یحتاجون إلیہ۔(۱)
 

(۱) عن أبي أمامۃ الباہلي قال: ورأی سکۃ وشیئاً من آلۃ  الحرث فقال سمعت النبي رسول اللّٰہ علیہ وسلم یقول: لا یدخل ہذا بیت قوم إلا أدخلہ الذل۔ (بدر الدین العیني، عمدۃ القاري، ’’باب ما یحذر من عوقب‘‘: ج ۱۲، ص: ۱۵۶)
ما ذکر من آلۃ الحرث بیت قومٍ إلا أدخلہ أي: اللّٰہ کما في نسخۃ صحیحۃ (الذل) بضم أولہ أي: المذلۃ بأداء الخراج والعشر، والمقصود الترغیب والحث علی الجہاد۔ قال التوربشتي: و إنما جعل آلۃ الحرث مذلۃ للذل لأن أصحابہا یختارون ذلک إما بالجبن في النفس، أو قصور في الہمۃ، ثم إن أکثرہم ملزومون بالحقوق السلطانیۃ في أرض الخراج ولو آثروا الخراج لدرت علیہم الأرزاق واتسعت علیہم المذاہب، وجبی لہم الأموال مکان ما یجبی عنہم۔ قیل: قریب من ہذا المعنی حدیث۔ (ملا علي قاري، مرقاۃ المفاتیح شرخ مشکاۃ المصابیح، ’’باب المساقاۃ والمزارعۃ‘‘: ج ۵، ص: ۱۹۸۹، رقم: ۲۹۷۸)


فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج2ص126

طہارت / وضو و غسل

الجواب وباللہ التوفیق:مذکورہ کنویں کا پورا پانی نکال کر کنواں پاک کیا جائے۔(۳)

(۳)فإن انتفخ الحیوان فیھا أو تفسخ نزح جمیع مافیھا صغر الحیوان أو کبر (العینی، البنایہ، فصل في البئر، ج۱، ص:۴۵۷)؛ و تنزح (البئر) و بانتفاخ حیوان ولو کان صغیرا لانتشار النجاسۃ۔(الطحطاوی، حاشیۃ الطحطاوی، فصل في مسائل الآبار، ج۱، ص:۳۷)
 

فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج2ص478

طہارت / وضو و غسل

الجواب وباللّٰہ التوفیق:ایک وضو سے متعدد نمازیں پڑھنا درست ہے، ہر نماز کے لیے علاحدہ وضو ضروری نہیں۔ ’’رویٰ أحمد بإسناد حسن مرفوعاً لو لا أن أشق علی أمتي لأمر تہم عند کل صلوۃ بوضوء، یعني ولو کانوا غیر محدثین‘‘(۱)۔ صورت مسئولہ میں نماز جنازہ کے لیے جو وضو بنایا گیا ہے، وہ بھی مکمل وضو ہے اور وہ ایسی عبادت کے لیے ہے، جو وضو کے بغیر درست نہیں۔ نیز نماز جنازہ سے وضو پر کوئی اثر نہیں پڑتا؛ اس لیے ایسے وضو سے دوسری نمازیں پڑھنا درست ہے۔(۲)

(۱)ابن عابدین، رد المحتار،  ’’کتاب الطہارۃ، أرکان الوضوء أربعۃ،‘‘ج۱، ص:۲۰۳
(۲) وعن بریدۃ أن النبي ﷺ صلی الصلوات یوم الفتح بوضوء واحد، و مسح علی خفیہ، فقال لہ عمر: لقد صنعت الیوم لم تکن تصنعہ، فقال عمدا صنعتہ یا عمر! (ملا علي قاري، مرقاۃ المفاتیح، ’’کتاب الطہارۃ، باب ما یوجب الوضوء،‘‘ ج۲، ص:۳۱، مکتبۃ فیصل دیوبند)

 

فتاوی ٰ دارالعلوم وقف دیوبند ج3 ص145

طہارت / وضو و غسل

الجواب وباللّٰہ التوفیق:بیوی کو برہنہ دیکھنے کی شرعا گنجائش ہے؛ لیکن بیوی کے علاوہ کسی مرد یا اجنبی عورت کو قصدا برہنہ دیکھنا باعث گناہ ہے۔ تاہم بیوی یاکسی کو بھی برہنہ دیکھنے یا چھونے سے اگر مذی خارج نہ ہو، تو وضو نہیں ٹوٹتااور اگر دیکھنے کی وجہ سے مذی کا خروج ہو، تو وضو ٹوٹ جائے گا؛ اس لیے کہ وضو کے ٹوٹنے کا مدار نجاست کے خروج پر ہے۔ کشف عورت یعنی ستر کھلنا یا دیکھنا نواقض وضو میں سے نہیں ہے، اس مسئلہ میں بیوی یا اجنبی عورت کے برہنہ جسم کو دیکھنے سے کوئی فرق نہیں پڑتا ہے؛ بلکہ وضو کے ٹوٹنے نہ ٹوٹنے کا تعلق خروج مذی کے ساتھ ہے۔
’’فصل في نواقض الوضوء: المعاني الناقضۃ للوضوء کل کا یخرج من السبیلین‘‘(۱)
’’ینقضہ خروج نجس منہ أي ینقض الوضوء خروج نجس من  المتوضي‘‘(۲)

(۱)  المرغیناني، ہدایۃ، ’’کتاب الطہارات: فصل في نواقض الوضوء‘‘: ج ۱، ص: ۲۲۔
(۲)   ابن نجیم، البحر الرائق، ’’کتاب الطہارۃ‘‘: ج ۱، ص: ۵۸۔

 

فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج3 ص247