نماز / جمعہ و عیدین

الجواب وباللہ التوفیق: دو صف کے فاصلہ کی مقدار چھوڑ کر گزر سکتا ہے۔(۲)

(۲) أو مرور بین یدیہ إلی حائط القبلۃ في بیت ومسجد صغیر فإنہ کبقعۃ واحدۃ مطلقاً، قال ابن عابدین، قولہ في بیت ظاہرہ ولو کبیراً وفي القہستاني وینبغي أن یدخل فیہ أي في حکم المسجد الصغیر الدار والبیت، قولہ ومسجد صغیر ہوا قل من ستین ذراعاً وقیل من أربعین وہو المختار کما أشار إلیہ في الجواہر، قہستاني۔ (ابن عابدین، رد المحتار، ’’کتاب الصلاۃ: باب الإمامۃ، مطلب إذا قرأ قولہ -تعالٰی- جدک بدون ألف لاتفسد‘‘: ج۲، ص: ۳۹۸)
قولہ: ظاہرہ ولو کبیراً لکن ینبغي تقییدہ بالصغیر کما تقدم في الإمامۃ تقیید الدار بالصغیر حیث لم یجعل قدر الصفین مانعا من الاقتداء بخلاف الکبیرۃ۔ (تقریرات الرافعي: ج ۱، ص: ۸۳)

 

فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج5 ص450

نماز / جمعہ و عیدین

الجواب وباللّٰہ التوفیق: صورت مسئول عنہا میں نماز بلا کراہت درست ہے، شبہ نہ کیا جائے؛ کیوں کہ تعدیل ارکان واجب ہے، نماز اطمنان سے ہی پڑھنی چاہئے۔
’’وتعدیل الأرکان أي تسکین الجوارح قدر تسبیحۃ في الرکوع والسجود وکذا في الرفع منہما علی ما اختارہ الکمال‘‘(۱) أي یجب التعدیل أیضاً في القومۃ من الرکوع والجلسۃ بین السجدتین‘‘ (۲)

(۱) ابن عابدین، رد المحتار، ’’کتاب الصلاۃ: باب صفۃ الصلاۃ‘‘: مطلب کل شفع من النفل صلاۃ، ج۲، ص: ۱۵۷، زکریا دیوبند۔
(۲) أیضًا۔
ویجب الاطمئنان وہو التعدیل في الأرکان بتسکین الجوارح في الرکوع والسجود حتی تطمئن مفاصلہ في الصحیح۔ (أحمد بن محمد، حاشیۃ الطحطاوي علی مراقي الفلاح، ’’کتاب الصلاۃ: فصل في بیان واجب الصلاۃ‘‘: ص: ۲۴۹۔

 

فتاویٰ دارالعلوم وقف دیوبند ج4 ص364

نماز / جمعہ و عیدین

الجواب وباللہ التوفیق: صورت مسئلہ میں اگر نماز کی حالت میں وضو ٹوٹ جائے اور وہ تنہا نماز پڑھ رہا ہے تو اس کو استیناف یعنی ازسرنو نماز ادا کرنا افضل ہے۔
اور اگر وہ جماعت کے ساتھ نماز ادا کر ہاتھا اور اسی دوران اس کو حدث لاحق ہو جائے تو وضو کرنے کے بعد اس کو جماعت ملنا ممکن ہو تو ازسرنو پڑھنا افضل ہے اور اگر وضو کے بعد جماعت ملنا ممکن نہ تو بنا کرنا افضل ہے، جیسا کہ فتاویٰ ھندیہ میں لکھا ہے۔
’’من سبقہ حدث توضأ وبنی، کذا في الکنز، والرجل والمرأۃ في حق حکم البناء سواء، کذا في المحیط۔ ولایعتد بالتي أحدث فیہا، ولا بد من الإعادۃ، ہکذا في الہدایۃ والکافي۔ والاستئناف أفضل، کذا في المتون۔ وہذا في حق الکل عند بعض المشایخ، وقیل: ہذا في حق المنفرد قطعًا، وأما الإمام والمأموم إن کانا یجدان جماعۃً فالاستئناف أفضل أیضًا، وإن کانا لایجدان فالبناء أفضل؛ صیانۃً لفضیلۃ الجماعۃ، وصحح ہذا في الفتاوی، کذا في الجوہرۃ النیرۃ‘‘(۱)

(۱) جماعۃ من علماء الہند، الفتاوی الہندیۃ، ’’کتاب الصلاۃ، الباب السادس في الحدث في الصلاۃ‘‘: ج ۱، ص:۱۵۲۔

 

فتاویٰ دارالعلوم وقف دیوبند ج6 ص65

نماز / جمعہ و عیدین

الجواب وباللہ التوفیق: اگر نمازی کے سامنے ڈریسنگ ٹیبل (سنگہار میز) الماری، کھڑکی یا دیوار میں شیشے لگے ہوئے ہوں اور اس میں نمازی کا عکس نظر آتا ہو تو نماز بلا کراہت درست ہوجائے گی، کیوں کہ عکس تصویر کے حکم میں نہیں ہے۔
البتہ اگر شیشے اور آئینہ کی وجہ سے نمازی کی نماز میں خلل ہوتا ہو اور نمازی کی توجہ اس جانب سے ہٹ جائے،تو ایسی صورت میں شیشے کے سامنے نماز پڑھنا مکروہِ تنزیہی ہے، البتہ ان شیشوں میں جو عکس نظر آتا ہے اس کا حکم تصویر کا نہیں ہے۔ہمارے فقہاء نے قبلہ کی جانب دیوار اور محراب میں نقش ونگار کو مکروہ فرمایا،سبب یہی ہے کہ نمازی کی توجہ ہٹ جاتی ہے۔ ایسی صورت میں نماز پڑھتے وقت شیشے پر کپڑا وغیرہ ڈال دیا کریں۔
’’ولا بأس بنقشہ خلا محرابہ فإنہ یکرہ لأنہ یلہي المصلي… وظاہرہ أن المراد بالمحراب جدار القبلۃ‘‘(۱)
’’وتکرہ بحضرۃ کل ما یشغل البال کزینۃ و بحضرۃ ما یخل بالخشوع کلہو ولعب ولذا نہی النبي صلی اللّٰہ علیہ وسلم عن الإتیان للصلاۃ سعیا بالہرولۃ‘‘(۲)
’’ویکرہ الصلاۃ وقت مدافعۃ البول أو الغائط، ووقت حضور الطعام إذا کانت النفس تائقۃ إلیہ والوقت الذی یوجد فیہ ما یشغل البال من أفعال الصلاۃ، ویخل بالخشوع، کائنا ما کان الشاغل‘‘(۳)
فتاویٰ شامی میں ہے:
’’بقي في المکروہات أشیاء أخر ذکرہا في المنیۃ ونور الإیضاح وغیرہما: منہا الصلاۃ بحضرۃ ما یشغل البال ویخل بالخشوع کزینۃ ولہو ولعب، لذلک کرہت بحضرۃ طعام تمیل إلیہ نفسہ، وسیأتي في کتاب الحج قبیل باب القرآن: یکرہ للمصلي جعل نحو نعلہ خلفہ لشغل قلبہ‘‘(۱)

(۱) الحصکفي، الدر المختار مع رد المحتار، ’’قبیل مطلب: في أفضل المساجد‘‘: ج ۲، ص: ۴۳۰، ۴۳۱، ط: زکریا۔
(۲) حسن بن عمار، مراقي الفلاح مع حاشیۃ الطحطاوي، کتاب الصلاۃ، فصل في المکروھات: ص: ۳۶۰۔
(۳) جماعۃ من علماء الہند، الفتاویٰ الہندیۃ: ج ۱، ص: ۱۰۹۔
(۱) الحصکفي، الدر المختار مع ردالمحتار: ج۲، ص:۴۲۵۔

 

فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج6 ص189

 

نماز / جمعہ و عیدین

الجواب وباللّٰہ التوفیق: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے ایسا بھی ثابت ہے کہ آپ نے بارش کی دعاء الٹے ہاتھ کی ہے۔(۱)
’’عن أنس رضي اللّٰہ عنہ قال: أن رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم استسقی فأشار بظہر کفیہ إلی السماء‘‘(۲)

(۱) ثم السنۃ في کل دعاء لسوال شیء، وتحصیلہ أن یجعل بطون کفیہ نحو السماء، ولرفع بلاء کالقحط یجعل بطونہما إلی الأرض، وذلک معنی قولہ تعالی ویدعوننا رغبا ورہبا۔ کذا في شرح البدر العیني علی الصحیح۔ (حاشیۃ الطحطاوي علی المراقي، ’’کتاب الاستسقاء‘‘: ص: ۵۵۱،دارالکتاب دیوبند)
(۲)  أخرجہ مسلم، في صحیحہ، ’’کتاب صلاۃ الاستسقاء، فصل في الرفع البلیغ للأیدي في الاستسقایء و جعل ظہور الیدین إلی السماء‘‘: رقم: ۸۹۵۔

 

فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج6 ص408

Usury / Insurance

Ref. No. 37 / 1033

In the name of Allah the most Gracious the most Merciful

The answer to your question is hereunder:

Medical insurance is based on interest and gambling. So, one is not allowed to benefit from such as interest-based scheme.

And Allah knows best

Darul Ifta

Darul Uloom Waqf Deoband

متفرقات
Mera zahen kaafi muntashir rahta hai. Aur apni baat per confidence nhi rahta. Aur apni baat ko saabit nhi kar pata hu. Barahe maherbani rahnumai farmaiye

Islamic Creed (Aqaaid)

Ref. No. 41/976

In the name of Allah the most Gracious the most Merciful

The answer to your question is as follows:

In this situation, the woman should wait until she is pure. However, if the days of Hajj started and she is still on her menses, she should go through all rituals except Tawaf. She must delay the Tawaf till she gets pure. Nevertheless, if she is still in menses and the departure time has arrived then she should wear sanitary pads and perform Tawafe Ziyarat which is Fard. Doing Tawafe Ziyarat in the state of menses is a Jinayat, so she must also slaughter an animal, such as camel or cow etc. in the Haram premises. She should leave all other Tawafs. And there shall be no penalty upon her for leaving Tawaf.

And Allah knows best

Darul Ifta                        

Darul Uloom Waqf Deoband

 

اسلامی عقائد

Ref. No. 41/7B

الجواب وباللہ التوفیق 

بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ یہ تمام نظریات سراسر غلط اور تاریخ سے عدم واقفیت پر مبنی ہیں۔ ان نظریات کا حامل شخص گمراہ  اور  صراط مستقیم سے ہٹا ہوا ہے۔ اس کی باتوں پر بالکل  توجہ نہ دی جائے۔   ان نظریات کی کوئی بنیاد نہیں ہے، بلکہ سب اٹکل ہے جو اس شخص نے خود سے گھڑ لئے ہیں۔ یہ نظریات  حدیث و اجماع کے خلاف ہونے کی وجہ سے مردود ہیں۔ اس شخص سے ہی ان نظریات پر ثبوت طلب کرلیں تو اس کی حقیقت سامنے آجائے گی۔  

صحاح ستہ کے حوالہ سے شیخ عبدالحق محدث دہلوی فرماتے ہیں: "چھ کتابیں جو کہ اسلام میں مشہور ہیں، محدثین کے مطابق وہ صحیح بخاری، صحیح مسلم، جامع ترمذی، سنن ابی داؤد، سنن نسائی، سنن ابن ماجہ ہیں۔ ان کتابوں میں حدیث کی جتنی قسمیں ہیں صحیح، حسن اور ضعیف، سب موجود ہیں اور ان کو صحاح کہنا تغلیب کے طور پر ہے۔" (اشعة اللمعات)۔ حاصل یہ ہے کہ نہ صحاح ستہ کی ہر حدیث صحیح ہے اور نہ اُن سے باہر کی ہر حدیث ضعیف ہے۔  لہذا چند روایات کے ضعیف ہونے کی وجہ سے سب کا انکار کردینا غلط ہے۔ 

يقول: لقد قتل عثمان وما أعلم أحدًا يتهم عليًا في قتله (اسمی المطالب فی سیرۃ علی بن ابی طالب ض1 ص440) (تاریخ ابن عساکر، ترجمۃ عثمان ص35)۔ لقد أنكر علي رضي الله عنه قتل عثمان رضي الله عنه وتبرأ من دمه، وكان يقسم على ذلك في خطبه وغيرها أنه لم يقتله ولا أمر بقتله ولا مالأ ولا رضي، وقد ثبت ذلك عنہ بطریق تفید القطع (اسمی المطالب فی سیرۃ علی بن ابی طالب ض1 ص534) (البدایۃ والنھایۃ ج7ص202)۔

حضرت معاویہ اور تاریخی حقائق کا مطالعہ مفید ہوگا۔

 واللہ اعلم بالصواب

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند

احکام میت / وراثت و وصیت

Ref. No. 977/41-133

الجواب وباللہ التوفیق 

بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔  اس سلسلہ میں اصول یہ ہے کہ صحت کے زمانے کے جتنے قرض خواہ ہیں، ان سب کو ان کے قرض  کے تناسب سے ادائیگی کیجائے گی ۔  کسی ایک کا پورا قرض چکانا اور دوسروں کو بالکل محروم کردینا درست نہیں ہے۔ اس لئے مرحومہ کی بیوی کا قرض اور اجنبی شخص کا قرض جو بھی ہو اسی تناسب سے ان دونوں میںمرحوم کا ترکہ تقسیم کردیا  جائے۔ مثلا مرحومہ کا حق مہر   دس ہزار ہے اور اجنبی کا قرض بھی دس ہزار ہے جبکہ کل ترکہ دس ہزار ہی ہے تو دونوں کو پانچ پانچ ہزار ادا کردئے جائیں گے۔ اگر وارثین میں صاحب استطاعت لوگ ہوں تو ان کو مکمل قرض کی ادائیگی میں  از راہ ہمدردی تعاون کرنا چاہئے، گوتعاون کرنا لازم نہیں۔

واللہ اعلم بالصواب

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند