Frequently Asked Questions
اسلامی عقائد
Ref. No. 41/861
الجواب وباللہ التوفیق
بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ اگروہ صدق دل سے آئیں اور ان کے ہدایت کی امید ہو یا ان کے شر کا اندیشہ نہ ہو تو ان کو قرآن کی تعلیم دینے میں حرج نہیں ہے، اور ان کو تعلیم دینے کے کے لئے کسی ماہر اور سنجیدہ عالم کا ہونا ضروری ہے۔ تاہم اگر ان کی بدنیتی واضح ہوجائے یا ان سے کسی شر کا اندیشہ ہ ہو تو گریز کرنا چاہئے۔
واللہ اعلم بالصواب
دارالافتاء
دارالعلوم وقف دیوبند
طلاق و تفریق
Ref. No. 1023/41-192
الجواب وباللہ التوفیق
بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ صورت مسئولہ میں شادی کرتے ہی ایک طلاق بائن واقع ہوچکی ہے۔ اب اگر وہ اس لڑکی کو رکھنا چاہتا ہے تو نکاح ثانی کرنا ضروری ہے۔ نکاح اول کافی نہ ہوگا۔ نیز چودہ سال کا لڑکا مراہق ہوتا ہے جو بالغ کے حکم میں ہے۔ اس لئے نکاح صحیح ہے۔
ان نکحتک فانت طالق وکذا کل امراۃ ویکفی معنی الشرط الا فی المعینۃ باسم او نسب او اشارۃ۔ (ردالمحتار زکریا دیوبند 4/594)
لان المراھق والمراھقۃ کل واحد منھما مشتھی کالبالغ والبالغۃ۔ (فتاوی عثمانی 4/410) (المحیط البرہانی 2/320)
واللہ اعلم بالصواب
دارالافتاء
دارالعلوم وقف دیوبند
طلاق و تفریق
Ref. No. 1485/42-947
الجواب وباللہ التوفیق
بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ فقہ حنفی میں نشہ کی حالت میں دی گئی طلاق زجرا واقع ہوجاتی ہے۔ اگر بہت زیادہ نشہ تھا کہ ہوش وحواس گم تھے تو پھر اس کو طلاق ہی کیوں سوجھی، اس لئے صورت مسئولہ میں ایسی حالت نہیں پائی گئی کہ اس کو بالکل ہی کچھ خبر نہ ہو۔ اگر کوئی شخص اپنی حالت اس طرح بیان کرے تو بھی فقہاء نے زجرا شرابی کی طلاق کو واقع گردانا ہے۔ اس لئے مذکورہ صورت میں جبکہ لفظ جواب آپ کے علاقہ میں بمنزلہ لفظ طلاق کے صریح ہے تو شریعت کی روشنی میں تین طلاقیں واقع ہوگئیں ، اب میاں بیوی کا رشتہ باقی نہیں رہا، عورت اپنا نکاح دوسری جگہ کرنے میں آزاد ہے۔
وفي الذخيرة ": طلاق السكران واقع إذا سكر من الخمر والنبيذ، ولو أكره على الشرب فسكر أو شرب للضرورة فذهب عقله يقع طلاقه. وفي جوامع الفقه عن أبي حنيفة: يقع، وبه أخذ شداد ولو ذهب عقله بدواء أو أكل البنج لايقع. (البنایۃ، طلاق السکران 5/300) ولا يقع طلاق السكران منه بمنزلة النائم ومن ذهب عقله بالبنج ولبن الرماك۔ وعن محمد أنه حرام ويحد شاربه ويقع طلاقه إذا سكر منه كما في سائر الأشربة المحرمة (فتح القدیر للکمال، فصل فی الدعوی ولاختلاف والتصرف فیہ 10/99) واختار الكرخي والطحاوي أن طلاق السكران لا يقع؛ لأنه لا قصد له كالنائم، وهذا لأن شرط صحة التصرف العقل، وقد زال فصار كزواله بالبنج وغيره من المباحات ولنا أنه مخاطب شرعا لقوله تعالى {لا تقربوا الصلاة وأنتم سكارى} [النساء: 43] فوجب نفوذ تصرفه؛ ولأنه زال عقله بسبب هو معصية فيجعل باقيا زجرا له بخلاف ما إذا زال بالمباح حتى لو صدع رأسه وزال بالصداع لا يقع طلاقه (تبیین الحقائق شرح کنز الدقائق، کتاب الطلاق 2/196)
وروى الطحاوي عن أبي سنان قال: سمعت عمر بن عبد العزيز يقول طلاق السكران والمكره واقع ولأنه قصد إيقاع الطلاق في منكوحته حال أهليته فلا يعرى عن قضيته وهذا لأنه عرف الشرين فاختار أهونهما وهذا علامة القصد والاختيار لأنه غير راض بحكمه وذلك غير مانع من وقوع الطلاق كالهازل. (الغرۃ المنیفۃ فی تحقیق بعض مسائل الامام، کتاب الطلاق 1/153)
واللہ اعلم بالصواب
دارالافتاء
دارالعلوم وقف دیوبند
اسلامی عقائد
الجواب وباللّٰہ التوفیق:جس دارالقضاء میں مقدمہ دائر کیا تھا اس پر اعتمادنہ کیا ہوگا ۔ اب اگر فیصلہ خلاف ہوگیا تو قاضی صاحب پر تہمت دھر نا اوران کو برا بھلا کہنا اور رشوت کا الزام لگانا قطعاً غلط اور خلاف شریعت ہے، جو شخص ایسا کرتا ہے اس پر توبہ لازم ہے باقی اس کی وجہ سے وہ شخص دائرہَ اسلام سے خارج نہیں ہوا صرف گنہگار ہوا لیکن کفر کا اندیشہ ہے ۔
ویخاف علیہ الکفر ;202;ذا شتم عالماً اَو فقیہاً م غیر سبب ۔ (جماعۃ م علماء الہ د، الفتاویٰ الہ دیۃ، ’’کتاب السیر: الباب السابع: ف;184; اَحکام المرتدی ، موجبات الکفر اَ واع، وم ہا: ما یتعلق بالعلم والعلماء‘‘:ج ۲، ص: ۲۸۲) وم بغض عالماً م غیر سبب ظاہر خیف علیہ الکفر، ولو شتم فم عالم فقیہ اَو علوی یکفر ۔ (عبد الرحم ب محمد، مجمع الاَ ہر، ’’کتاب السیر والجہاد: ثم ;202; اَلفاظ الکفر اَ واع‘‘: ج ۲، ص: ۹۰۵)
نماز / جمعہ و عیدین
Ref. No. 184/43-1662
بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ جو لوگ رکوع وسجدہ پر قادر نہ ہوں، ان سے قیام کی فرضیت ساقط ہوجاتی ہے۔ ایسے لوگوں کو زمین پر بیٹھ کر ہی نماز پڑھنی چاہئے۔ البتہ اگر زمین پر بیٹھنے میں دشواری ہو تو کرسی پر بیٹھ کر نماز ادا کرسکتے ہیں۔ ایسے لوگ کرسی کا پچھلا پایہ اپنی صف میں کھڑے مقتدیوں کے ایڑیوں کے برابر لکیر پر رکھے، اپنی صف سے تجاوز نہ کرے۔ ورنہ دوسری صف والوں کو تکلیف ہوگی یا ان کی صف میں خلل پیدا ہوگا، اور یہ دونوں چیزیں ممنوع ہیں۔
عن أبی مسعود، قال: کان رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم یمسح مناکبنا فی الصلاة، ویقول: استووا، ولا تختلفوا، فتختلف قلوبکم، لیلنی منکم أولو الأحلام والنہی ثم الذین یلونہم، ثم الذین یلونہم(صحیح مسلم 1/ ۱۸۱،باب تسویة الصفوف، وإقامتہا...الخ)
"(قوله: بل تعذر السجود كاف) نقله في البحر عن البدائع وغيرها. وفي الذخيرة: رجل بحلقه خراج إن سجد سال وهو قادر على الركوع والقيام والقراءة يصلي قاعداً يومئ؛ ولو صلى قائماً بركوع وقعد وأومأ بالسجود أجزأه، والأول أفضل؛ لأن القيام والركوع لم يشرعا قربة بنفسهما، بل ليكونا وسيلتين إلى السجود" )الدر المختار وحاشية ابن عابدين (رد المحتار) (2/ 97(
قولہ: ( فلو قدر علیہ) أي: علی القیام وحدہ أو مع الرکوع کما فی المنیة ۔ قولہ: (ندب إیماوٴہ قاعداً) أي: لقربہ من السجود ، وجاز إیماوٴہ قائماً کما فی البحر ، وأوجب الثاني زفر والأئمة الثلاثة ؛ لأن القیام رکن، فلا یترک مع القدرة علیہ۔ ولنا أن القیام وسیلة إلی السجود للخرور، والسجود أصل ؛لأنہ شرع عبادة بلا قیام کسجدة التلاوة، والقیام لم یشرع عبادة وحدہ، حتی لو سجد لغیر اللہ تعالی یکفر بہ بخلاف القیام۔ وإذا عجز عن الأصل سقطت الوسیلة کالوضوء مع الصلاة والسعي مع الجمعة۔ وما أوردہ ابن الھمام أجاب عنہ في شرح المنیة الخ (رد المحتار، کتاب الصلاة، باب صفة الصلاة، مطلب بحث القیام،۲: ۱۳۲، ط: ط: مکتبة زکریا دیوبند)۔
واللہ اعلم بالصواب
دارالافتاء
دارالعلوم وقف دیوبند
حدیث و سنت
Ref. No. 1964/44-1885
بسم اللہ الرحمن الرحیم: مذکور مولوی صاحب کا یہ کہنا کہ حضرت معاویہ کی فضیلت سے تعلق رکھنے والی تمام احادیث غلط ہیں درست نہیں ہے۔ حضرت معاویہ ایک جلیل القدر صحابی ء رسول ﷺ ہیں، جن کے بارے میں متعدد حدیثیں وارد ہوئی ہیں، جن میں صحیح سند کے ساتھ حضرت امام احمد بن حنبل کے واسطہ سے یہ حدیث بھی ہے۔
حدثنا علي بن بحر، حدثنا الولید بن مسلم، حدثنا سعید بن عبد العزیز عن ربیعۃ بن یزید عن عبد الرحمن بن أبي عمیرۃ الأزدي عن النبي ﷺأنہ ذکر معاویۃ وقال: اللھم اجعلہ ھادیاً مھدیاً وأھد بہ ‘‘ (مسند احمد: الرقم 17895) مشکوۃ المصابیح 2/579 جامع المناقب)
واللہ اعلم بالصواب
دارالافتاء
دارالعلوم وقف دیوبند
اسلامی عقائد
Ref. No. 2045/44-2184
بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ امام صاحب کا تعویذپر پیسے لینا جائز ہےبشرطیکہ تعویذ کے مشمولات درست ہوں اور اس کو تجارت نہ بنایاجائے، پھر ان کے پیچھے نماز پڑھنے میں کوئی حرج نہیں ہے۔ نماز درست ہوجائے گی۔
واللہ اعلم بالصواب
دارالافتاء
دارالعلوم وقف دیوبند
اسلامی عقائد
Ref. No. 2194/44-2396
بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ اگر آسمان ابر آلود نہ ہو تو حضرات فقہا نے رویت ہلال کے لئے جم غفیر کی رویت کو ضروری قرار دیا ہے، البتہ جم غفیر کی تفسیر کیا ہے، اس سلسلہ میں مختلف اقوال ہیں، اور صحیح قول یہ ہے کہ جن لوگوں کی خبر پر امام یا کمیٹی کو اعتماد ہو اس کے مطابق فیصلہ کیا جا سکتا ہے۔ لہذا اگر رویت ہلال کی خبر دینے والوں میں کبھی اتفاق ایسا ہو کہ صرف عورتیں ہی ہوں، اور وہاں یا تو مرد نہ ہوں یا مردوں نے کسی مصروفیت کی بنا پر چاند دیکھنے کا اہتمام نہ کیا ہو، تو تنہا عورتوں کی خبر پر اعتماد کیا جا سکتا ہے، جس طرح کہ آسمان کے ابر آلود ہونے کی صورت میں تنہا ایک عورت کی خبر بھی قبول کر لی جاتی ہے۔
وإذالم تكن بالسماءعلة لم تقبل الشهادة حتى يراه جمع كثير يقع العلم بخبرهم"
لأن التفردبالرؤية في مثل هذه الحالة يوهم الغلط فيجب التوقف فيه حتى يكون جمعاكثيرا ثم قيل في الكثيرأهل المحلة وعن أبي يوسف رحمه الله خمسون رجلا اعتبارا بالقسامة (بداية، 216/1)
فإن كانت السماء مصحية ورأى الناس الهلال صاموا وإن شهد واحد برؤية الهلال لاتقبل شهادته ما لم تشهد جماعة يقع العلم للقاضي بشهادتهم، في ظاهرالرواية ولم يقدرفي ذلك تقديرا- وجه رواية الحسن – رحمه الله تعالى – أن هذامن باب الإخبارلامن باب الشهادة، بدليل أنه تقبل شهادةالواحدإذاكان بالسماءعلة ولوكان شهادةلما قبل- لأن العدد شرط في الشهادات وإذاكان إخبارا لاشهادة فالعدد ليس بشرط في الإخبارعن الديانات، وإن كانت السماء متغيمة تقبل شهادة الواحد بلاخلاف بين أصحابنا، سواءكان حرا،أوعبدا رجلاأوامرأة غيرمحدود في قذف أومحدودا تائبا، بعدأن كان مسلماعاقلا بالغا عدلا (بدائع، 220/2)
واللہ اعلم بالصواب
دارالافتاء
دارالعلوم وقف دیوبند
طہارت / وضو و غسل
Ref. No. 2268/44-2427
بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ پاک پانی میں اگر کسی محدث نے( جس کا وضو نہیں تھایا غسل نہیں تھا) ہاتھ ڈال دیا اس حال میں کہ اس کے ہاتھ پر کوئی نجاست نہیں تھی تو وہ پانی ناپاک نہیں ہوگااور وہ مستعمل پانی کےحکم میں نہیں ہوگا۔ ماء مستعمل اس قلیل پانی کو کہتے ہیں جس کو حدث دور کرنے کے لئے یا قربت کی نیت سے استعمال کیاگیا ہو۔
الدر المختار مع رد المحتار: (197/1، ط: دار الفکر)
(ولايجوز)۔۔۔۔بماء (استعمل ل) أجل (قربة) أي ثواب ولو مع رفع حدث أو من مميز أو حائض لعادة۔۔۔۔(وهو طاهر) ولو من جنب وهو الظاهر۔۔۔(و) حكمه أنه (ليس بطهور) لحدث بل لخبث على الراجح المعتمد.
(قوله: على الراجح) مرتبط بقوله بل لخبث: أي نجاسة حقيقية، فإنه يجوز إزالتها بغير الماء المطلق من المائعات۔
واللہ اعلم بالصواب
دارالافتاء
دارالعلوم وقف دیوبند
اسلامی عقائد
Ref. No. 2289/44-3455
بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ والد کی حیات میں والد کےساتھ کام کرنے والے درحقیقت والدکا تعاون کرتے ہیں اور اصل مالک اس کاروبار کے والد ہی ہوتے ہیں ، اولاد کی شرکت والد کے کام میں از راہ تبرع ہوتی ہے، اس لئے والد کی حیات میں جو بھی زمین خریدی گئی جو والد کی جانب منسوب ہے تو اس کی تقسیم میں پانچواں بھائی بھی برابر کا شریک ہوگا، البتہ جس زمین یا مکان یا دوکان کو والد نے خاص طور پر کسی لڑکے یا لڑکی کو دے کر مالک بنادیا ہو تو وہ اس کا اپنا ذاتی ہوگا جس میں دوسروں کا کوئی حصہ نہیں ہوگا۔
سئل في رجل مات عن ثلاثۃ أولاد ذکور وکان في حیاتہ معہ من الثلاثۃ إثنان في کسبٍ واحدٍ ومعیشۃ واحدۃٍ والثالث من حَمَلَۃِ القرآن في معیشۃ علی حدتہٖ وجمیع کسب المیت والولدین لا یتمیز الخ أجاب: جمیع ما ترکہ الأب المذکور یقسم بین أولادہ الثلاثۃ بالسویۃ حیث لا وارث لہ سواہم ولیس للاثنین الذین ہما في عائلۃ أبیہم ومعیناہُ لہ منع أخیہما عما یخصہ في ترکۃ والدہ بدون وجہ شرعي۔ (فتاویٰ مہدیہ (۲/۳۱۴ مصر)
واللہ اعلم بالصواب
دارالافتاء
دارالعلوم وقف دیوبند