اسلامی عقائد

الجواب وباللّٰہ التوفیق:بیشک کرامات اولیاء حق ہیں؛ مگر یہ بھی یاد رکھنا چاہئے کہ شرارتِ شیطان بھی حق ہے۔ اور بزرگانِ دین کی کرامت اور شیطان کی شرارت میں امتیاز کرنا ہر کس و ناکس کا کام نہیں ہے، اس لئے پوری ہوشیاری اور شرعی روشنی میں جانچ کر دیکھنا چاہئے کہ واقعی اولیاء کی کرامت ہے یا شیطان کی شرارت ہے۔ (۱)

۱) وکرامات الأولیاء حق، والولی ہو العارف باللّٰہ تعالیٰ وصفاتہ حسب ما یمکن المواظب علی الطاعات المجتنب عن المعاصي المعرض عن الانہماک في اللذات والشہوات، وکرامتہ ظہور أمر خارق من قبلہ غیر مقارن لدعوی النبوۃ فما لا یکون مقرونا بالإیمان والعمل الصالح یکون استدراجا۔ (علامہ سعد الدین تفتازاني، شرح العقائد النسفیۃ، ’’مبحث کرامات الأولیاء حق‘‘: ص:۱۴۴)
الکرامۃ خارق للعادۃ إلا أنہا غیر مقرونۃ بالتحدي وہو کرامۃ للولي۔ (أبو حنیفۃ رحمہ اللّٰہ، شرح الفقہ الأکبر، ’’مبحث في أن خوارق العادات للأنبیاء -علیہم السلام- والکرامات للأولیاء حق‘‘: ص: ۹۵)

  فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج1ص292

اسلامی عقائد

الجواب وباللّٰہ التوفیق:مذکورہ صورت میں جو ایسے مواقع پر کھانا پکاکر کھلایا جاتا ہے، یہ سب رسم ورواج کے پیش نظر ہوتا ہے، جیسا کہ اوپر سوال سے ظاہر ہے کہ شرمندگی دور کرنے اور ناک رکھنے کے لئے ایسا کیا جا رہا ہے؛ حالانکہ اسلام اس قسم کے رسم ورواج کو مٹانے کے لئے آیا تھا، تاکہ مسلمانوں کی اصلاح ہوجائے؛ پس ایسے رسم ورواج اور بدعات میں شرکت کرنے سے پرہیز کرنا ضروری ہے، اور اگر یہ کھانا میت کے ترکہ سے ہے تو کھانا پکانا ہی ناجائز ہوگا، اور اس کا کھانا بھی جائز نہیں ہوگا اس میں شرکت سے پرہیز ضروری ہے البتہ قرآن پاک پڑھ کر ایصال ثواب کردینے میں کوئی حرج نہیں درست اور جائز ہے۔ خواہ مدرسہ میں ہو یا گھر پر ہو۔(۱)

(۱) عن عائشۃ رضي اللّٰہ عنہا قالت: قال رسول اللّٰہ علیہ وسلم: من أحدث في أمرنا ہذا ما لیس فیہ فہو رد۔ (أخرجہ البخاري، في صحیحہ، ’’کتاب الصلح: باب إذا اصطلحوا علی صلح جور‘‘: ج ۱، ص: ۳۷۱، رقم: ۲۶۹۷)
ویکرہ اتخاذ الضیافۃ من الطعام من أہل المیت لأنہ شرع في السرور لا في الشرور، وہي بدعۃ مستقبحۃ۔ (ابن الہمام، فتح القدیر، ’’کتاب الصلاۃ: فصل في الدفن‘‘: ج ۲، ص: ۱۵۱)
ویکرہ اتخاذ الطعام في الیوم الأول والثالث وبعد الأسبوع ونقل الطعام إلی القبر في المواسم۔ (ابن عابدین، الدر المختار مع رد المحتار، ’’کتاب الصلاۃ: باب صلاۃ الجنازۃ، مطلب في کراہۃ الضیافۃ من أہل المیت‘‘: ج ۳، ص: ۱۴۸)
عن قیس بن أبي حازم، عن جریر بن عبد اللّٰہ البجلي، قال: کنا نری الاجتماع إلی أہل المیت وصنعۃ الطعام من النیاحۃ۔ (أخرجہ ابن ماجہ، في سننہ، ’’أبواب ما جاء في الجنائز، باب ما جاء في النہي عن الاجتماع‘‘: ج ۱، ص: ۵۱۴، رقم: ۱۶۱۲)
ویقرء من القرآن ما تیسر لہ من الفاتحۃ وأول البقرۃ إلی المفلحون، وآیۃ الکرسي وآمن الرسول، وسورۃ یٰس، وتبارک الملک، وسورۃ التکاثر، والإخلاص إثنی عشر مرۃ أو إحدی عشر أو سبعاً أو ثلاثا، ثم یقول: اللہم أوصل ثواب ما قرأناہ إلی فلان أو إلیہم۔ (ابن عابدین، الدر المختار، ’’کتاب الصلاۃ: باب صلاۃ الجنائز، مطلب في زیارۃ القبور‘‘: ج ۳، ص: ۱۵۱)


فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج1ص404

اسلامی عقائد

الجواب وباللّٰہ التوفیق:عورتوں کایہ مسئلہ بالکل غلط ہے۔ غسل صحیح ہوجائے گا۔ (۱)

(۱) عن معاذۃ أن امرأۃ سألت عائشۃ رضي اللّٰہ عنہا قالت: تختضب الحائض، فقالت: فقد کنا عند النبي صلی اللّٰہ علیہ وسلم ونحن نختضب فلم یکن ینہانا عنہ۔ (أخرجہ ابن ماجہ، في سننہ، ’’کتاب الطہارۃ، باب الحائض نختضب‘‘: ج ۱، ص: ۲۱۵، رقم: ۶۵۶)
جنب اختضب واختضب امرأتہ بذلک الخضاب قال أبو یوسف لا بأس بہ۔ (ابن عابدین، الدر المختار مع رد المحتار، ’’کتاب الکراہیۃ‘‘: ج ۵، ص:
۳۵۹)

فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج1ص525

بدعات و منکرات

الجواب وباللّٰہ التوفیق:حسب ضرورت دیگر دینی کتب تعلیم کے لئے پڑھ کر سنانا بلاشبہ درست ہے کسی ایک ہی کتاب پر اصرار کرنا درست نہیں ہے، علم حاصل کرنے کا جو مناسب طریقہ ہو اختیار کیا جانا چاہئے۔(۱)

(۱) عن أبي سعید رضي اللّٰہ عنہ، قال: قال رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم: یقول الرب عز وجل: من شغلہ القرآن عن ذکري و مسألتي أعطیتہ أفضل ما أعطی السائلین، وفضل کلام اللّٰہ علی سائر الکلام کفضل اللّٰہ علی خلقہ۔ (أخرجہ الترمذي، في سننہ، ’’أبواب فضائل القرآن، باب‘‘: ج ۲، ص: ۱۱۷، رقم: ۲۹۲۶)
عن أبي ذر رضي اللّٰہ عنہ، قال: قال لي رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم یا أبا ذر، لأن تغدو فتعلم آیۃ من کتاب اللّٰہ، خیرٌ لک من أن تصلی مائۃ رکعۃ ولأن تغدو فتعلم باباً من العلم، عمل بہ أو لم یعمل، خیرٌ لک من أن تصلی ألف رکعۃ۔ (أخرجہ ابن ماجہ، في سننہ، ’’المقدمۃ، باب فضل من تعلم القرآن وعملہ‘‘: ج ۱، ص: ۷۹، رقم: ۲۱۹)


----------------

 فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج2ص343

طہارت / وضو و غسل

الجواب وباللہ التوفیق:مذکورہ صورت میں مسجد کے کنویں کا پانی ناپاک نہیں ہوگا، کیونکہ یہ بات بالاتفاق ثابت ہے کہ ایک کنویں کے پانی کے ناپاک ہونے سے دوسرے کنویں کا  پانی ناپاک نہیں ہوتا، جب کہ اس کی کوئی تحدید بھی نہیں ہے، اس لیے اس سے وضو وغیرہ درست ہے، تاہم احتیاط کی جائے اور جو کنواں ہمیشہ ناپاک رہتا ہے اسے پاک رکھنے کی کوشش کی جائے تاکہ طبعی کراہت نہ ہو۔(۱)

(۱) بئر الماء إذا کانت بقرب البئر النجسۃ فھي طاھرۃ مالم یغیر طعمہ أو لونہ أو ریحہ۔ (جماعۃ من علماء الہند، الفتاویٰ الھندیۃ، الباب الثالث في المیاہ، الفصل الأول في ما یجوز بہ التوضؤ، النوع الثالث: ماء الآبار، ج۱، ص:۷۳)
 

فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج2ص481

طہارت / وضو و غسل

الجواب وباللّٰہ التوفیق:آدمی جو چادر سردی میں اوڑھ کر مسجد آتا ہے بظاہر وہ پاک ہوتی ہے اور اگر پاک چادر کو وضو کے دوران ممبر پر رکھ دیا جائے، تو اس میں کوئی حرج معلوم نہیں ہوتا ہے، اس کو بلا وجہ انتشار کا سبب نہیں بنانا چاہیے۔(۱)

(۱) عن أبي ھریرۃ قال: قال رسول اللّٰہ ﷺ: من حسن إسلام المرء ترکہ مالا یعنیہ۔(أخرجہ الترمذي، في سننہ، أبواب الزہد، باب ما جاء من تکلم بالکلمۃ لیضحک الناس، ج۲، ص:۵۸)؛ و أن رسول اللّٰہ ﷺ : نھی عن قیل و قال وکثرۃ السوال۔ (أخرجہ الإمام مالک في الموطا، ’’باب التعفف عن المال الحرام،‘‘   … ج۱، ص:۲۶،رقم:۲۹۹

 

فتاوی ٰ دارالعلوم وقف دیوبند ج3 ص148


 

طہارت / وضو و غسل

الجواب وباللّٰہ التوفیق:سوال میں مذکورہ ڈائیلیسس کی تفصیل سے وضو ٹوٹ جائے گا؛ اس لیے کہ جسم کے کسی حصے سے اس قدر خون کا نکلنا کہ وہ خود بخود بہہ پڑے یہ ناقض وضو ہے، خواہ بیماری کی وجہ سے از خود نکلے یا نکالا جائے دونوں صورتوں میں خون کا نکلنا ناقض وضو ہے۔
’’ولذا أطلقوا في الخارج من غیر السبیلین کالدم والقیح والصدید أنہ ینقض الوضوء ولم یشترطوا سوی التجاوز إلی موضع یلحقہ حکم التطہیر، ولم یقیدوہ في المتون ولا في الشروح بالألم ولا بالعلۃ‘‘(۱)
’’(ومنہا) ما یخرج من غیر السبیلین ویسیل إلی ما یظہر من الدم والقیح والصدید والماء لعلۃ وحد السیلان أن یعلو فینحدر عن رأس الجرح۔ کذا في محیط السرخسي وہو الأصح‘‘(۲)
’’واعلم أن الخارج النجس من غیر السبیلین ینقض الوضوء عند علمائنا وہو قول العشرۃ المبشرۃ بالجنۃ، وعبد اللّٰہ بن مسعود، وعبد اللّٰہ بن عمر، وزید بن ثابت، وأبي موسی الأشعری، وأبي الدرداء وثوبان، وصدور التابعین، وقال ابن عبد البر روی ذلک عن علی وابن مسعود، وعلقمۃ والأسود وعامر الشعبي وعروۃ بن الزبیر وإبراہیم‘‘(۳)

(۱) ابن عابدین، الدر المختار مع رد المحتار، ’’کتاب الطہارۃ: مطلب …في ندب مراعاۃ الخلاف إذا لم یرتکب مکروہ مذہبہ‘‘: ج ۱، ص: ۲۷۹۔
(۲) جماعۃ من علماء الہند، الفتاوی الہندیۃ، ’’کتاب الطہارۃ: الباب الأول في الوضوء، الفصل الخامس في نواقض الوضوء ومنہا ما یخرج من غیر السبیلین‘‘: ج ۱، ص: ۶۱۔
(۳) بدر الدین العیني، البنایۃ شرح الہدایۃ، ’’کتاب الطہارات: فصل في نواقض الوضوء، الدم والقیح من نواقض الوضوء‘‘: ج ۱، ص: ۲۵۹۔

 

فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج3 ص251

طہارت / وضو و غسل

الجواب وباللّٰہ التوفیق:کنڈوم کااستعمال کثرتِ اولاد کے خوف اور فقر وفاقہ کی بنا پر کرتے ہیں؛ حالانکہ اسلام نے اولاد کی تعلیم وتربیت اور انہیں انسانی معاشرے کا صالح عنصر بنانے کی بڑی تاکید کی ہے۔ اسلام اولاد کو اللہ تعالیٰ کی ایک نعمت قرار دیتا ہے اس نعمت کی تمنا اور خواہش صرف عام انسانوں کو ہی نہیں ہوتی؛ بلکہ انبیاء علیہم السلام بھی اس کی تمنا کرتے رہے ہیں (جیسا کہ حضرت زکریا علیہ السلام کا ذکر سورہ مریم میں مذکورہ ہے) فقر وفاقہ اور مفلسی کے ڈر سے اپنی اولاد کو قتل کرنا اللہ تعالیٰ کی صفت رزاقیت پر بالواسطہ یا بلا واسطہ حملہ کی دلیل ہے؛ اس لیے اگر کنڈوم (Condom) کا استعمال بغیر ضرورتِ شرعی فقر وفاقہ اور فکرِ معاش کی وجہ سے ہو تو اس پر سخت وعید آئی ہے۔
جیسا کہ قول باری ہے: {ولا تقتلوا أولادکم خشیۃ إملاق نحن نرزقہم وإیاکم}(۱)
اپنی اولاد کو قتل مت کرو فقر وفاقہ کے ڈر سے ہم ان کو بھی رزق دیتے ہیں اور تم کو بھی۔
{وما من دابۃ في الأرض إلا علی اللّٰہ رزقہا}(۲)
روئے زمین پر چلنے والے جو بھی جاندار ہیں ان کا رزق اللہ تعالیٰ کے ذمہ ہے؛ نیز مذکورہ عمل خواہشِ نبوی صلی اللہ علیہ وسلم کے بھی خلاف ہے حدیث پاک میں آیا ہے:
’’تزوجوا الولود الودود فإني مکاثربکم الأمم یوم القیامۃ‘‘(۳) زیادہ محبت کرنے والی اور زیادہ بچے جننے والی عورت سے نکاح کرو؛ کیونکہ میں قیامت کے دن تم لوگوں کی زیادتی کی وجہ سے دوسری امتوں پر فخر کروں گا؛ البتہ اگر عورت کی صحت خراب ہونے کا خطرہ ہو، حمل برداشت  کرنے کی طاقت نہ ہو، یا استقرار حمل میں ایسی تکلیف کا اندیشہ ہو جو ناقابل تحمل ہو، یا گود کے بچے کے لیے مضر ہو، تو ایسی صورت میں کسی مسلمان دین دار ڈاکٹر کے مشورہ سے عارضی طور پر کنڈوم (Condom) کا استعمال عذر کی وجہ سے کر سکتے ہیں اس میں شرعاً کوئی حرج نہیں ہے۔ ’’أفاد وضع المسألۃ أن العزل جائز بالإذن وھذا ھو الصحیح عند عامۃ العلماء لما في البخاري عن جابر رضي اللّٰہ عنہ،: کنا نعزل والقرآن ینزل، الخ‘‘(۱)
’’فإذا أذن فلا کراھۃ في العزل عند عامۃ العلماء وھو الصحیح وبذلک تضافرت الأخبار، وفي الفتح: وفي بعض أجوبۃ المشایخ: الکراھۃ وفي بعض عدمھا، نھر الخ‘‘(۲)
نیز کسی بھی وجہ سے اگر جماع کے وقت کنڈوم استعمال کیا تو چوں کہ کنڈوم کا غلاف اتنا باریک ہوتا ہے کہ اس کے ساتھ بھی عورت کی فرج داخل (شرمگاہ کا اندرونی حصہ) کی حرارت محسوس ہوتی
ہے اور دونوں کو لذت کا احساس بھی ہوتی ہے؛ لہٰذا کنڈوم چڑھے عضو مخصوص کا سر عورت کی شرم گاہ میں داخل ہوتے ہی شوہر وبیوی دونوں پر غسل واجب ہو جائے گا چاہے انزال ہو یا نہ ہو، جیسا کہ مراقی الفلاح میں مذکور ہے:
’’ولو لف ذکرہ بخرقۃ وأو لجہ ولم ینزل فالأصح أنہ إن وجد حرارۃ الفرج واللذۃ وجب الغسل وإلا فلا، والأحوط وجوب الغسل في الوجہین لقولہ علیہ السلام: إذا التقی الختانان وغابت الحشفۃ وجب الغسل أنزل أو لم ینزل‘‘(۳)

(۱) سورۃ الإسراء: ۳۱۔
(۲) سورۃ ہود: ۶۔
(۳) أخرجہ النسائي، في سننہ، ’’کتاب النکاح: باب کراہیۃ تزویج العقیم‘‘: ج ۲، ص: ۵۹، رقم: ۳۲۲۷۔(مکتبہ نعیمیہ دیوبند)
(۱) ابن نجیم، البحر الرائق، ’’کتاب النکاح: باب نکاح الرقیق‘‘: ج ۳، ص: ۳۴۸۔
(۲) ابن عابدین، الدر المختار مع رد المحتار، ’’کتاب النکاح: باب نکاح الرقیق، مطلب في حکم العزل‘‘: ج ۴، ص: ۳۳۵۔

(۳)  الطحطاوي، مراقي الفلاح، ’’کتاب الطہارۃ: فصل ما یجب فیہ الاغتسال‘‘: ج ۱، ص: ۴۳۔
 

 فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج3 ص342

نماز / جمعہ و عیدین

الجواب وباللّٰہ التوفیق: مذکورہ فی السوال صورت میں جو رقم امام کو تنخواہ میں دی جاتی ہے اگر وہ یقنی طور پر سود کی رقم ہے۔ تو دینے والوں کے لیے وہ رقم امام صاحب کو دینی جائز نہیں ہے۔(۱) البتہ اگر امام صاحب مستحق زکوٰۃ ہیں اور بہت غریب ہیں تو ان کے لیے بینک کی سودی رقم لینا جائز ہے تاہم اس سے تنخواہ ادا نہیں ہوگی۔ مسجد والوں پر لازم ہے کہ امام صاحب کے لیے محلہ والوں سے چندہ کرکے ان کی تنخواہ ادا کریں ورنہ سخت گنہگار ہوں گے اور آخرت میں جواب دہ ہوگے، تنخواہ امام صاحب کا حق ہے۔(۲)
(۱) ویردونہا علی أربابہا إن عرفوہم وإلا تصدقوا بہا لأن سبیل الکسب الخبیث التصدق إذا تعذر الرد علی صاحبہ۔ (ابن عابدین، رد المحتار، ’’کتاب الحظر والإباحۃ، باب الاستبراء وغیرہ، فصل في البیع‘‘: ج۹، ص: ۶۲۵)
والحاصل أنہ إن علم أرباب الأموال وجب ردہ علیہم وإلا فإن علم عین الحرام لایحل لہ ویتصدق بہ بنیۃ صاحبہ۔ (أیضًا:)
(۲) عن أبي ہریرۃ عن النبي صلی اللّٰہ علیہ وسلم قال: قال اللّٰہ تعالیٰ: ثلاثۃ أنا خصمہم یوم القیامۃ رجل أعطي بي ثم غدر ورجل باع حرا فأکل ثمنہ ورجل استاجر أجیرا فاستوفی منہ ولم یعط أجرہ۔ (أخرجہ البخاري، في صحیحہ، ’’کتاب البیوع، باب إثم من باع حرا‘‘: ج۲، ص: ۶۸۲، رقم: ۲۲۲۷)

 فتاویٰ دارالعلوم وقف دیوبند ج5 ص329

 

نماز / جمعہ و عیدین

الجواب وباللہ التوفیق: نمازی کے سامنے سے گزرنا سخت منع ہے(۱) لیکن اگر کوئی شخص عین پیچھے نماز کی نیت باندھ کر کھڑا ہوجائے تو اگلا شخص وہاں سے اپنی ضرورت کے لیے ہٹ جائے تو یہ ممنوع نہیں ہے(۲) حضرت عائشہؓ کی روایت میں ہے کہ میرے پیچھے حضور صلی اللہ علیہ وسلم نماز ادا فرماتے اور میں کھسک جایا کرتی تھی۔(۳)

(۱) قال رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم: لویعلم الماربین یدي المصلي ماذا علیہ لکان أن یقف أربعین خیرالہ من أن یمربین یدیہ، قال أبوالنضرلاأدري، قال أربعین یوما أوشہرا أوسنۃ۔ (أخرجہ البخاري، في صحیحہ، ’’کتاب الصلاۃ: باب إثم الماربین یدي المصلي‘‘: ج۱، ص: ۷۴،رقم: ۵۱۰)
إن کعب الأحبارقال لویعلم الماربین یدي المصلي ماذا علیہ لکان أن یخسف بہ خیرالہ من أن یمربین یدیہ (موطا إمام مالک،کتاب الصلاۃ،التشدید في أن یمر أحدبین یدي المصلي، ص: ۱۵۳، مطبوعہ کراچی)۔
(۲) أراد المرور بین یدی المصلی فإن کان معہ شییٔ یضعہ بین یدیہ ثم یمر ویأخذہ، ولو مر إثنان یقوم أحدہما أمامہ ویمر الآخر ویفعل الآخر، ہکذا یمران۔ (ابن عابدین، رد المحتار، ’’کتاب الصلاۃ: باب ما یفسد الصلاۃ وما یکرہ فیہا‘‘: ج۲، ص: ۴۰۱)
(۳) عن عائشۃ، قالت: أعدلتمونا بالکلب والحمار لقد رأیتني مضطجعۃ علی السریر، فیجيء النبي صلی اللّٰہ علیہ وسلم، فیتوسط السریر، فیصلي، فأکرہ أن أسنحہ، فأنسل من قبل رجلي السریر حتی أنسل من لحافي۔ (أخرجہ البخاري، في صحیحہ، ’’کتاب الصلاۃ، باب إلی السریر‘‘: ج۱، ص: ۱۰۷، رقم: ۵۰۸)

 

فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج5 ص445