Frequently Asked Questions
نماز / جمعہ و عیدین
الجواب وباللّٰہ التوفیق: ’’اللہم صلی علی محمد وعلی آل محمد‘‘ تک بھی پڑھنا سنت ہے اور پورا درود شریف اور اس کے بعد کی دعاء مستحب ہے، پڑھنے پر ثواب ہے اور نہ پڑھنے پر گناہ نہیں ہے۔(۱)
(۱) وسننہا … والصلاۃ علی النبي صلی اللّٰہ علیہ وسلم أو ہو قول عامۃ السلف والخلف والدعاء۔ (ابن نجیم، البحر الرائق، ’’کتاب الصلاۃ: باب صفۃ الصلاۃ‘‘: ج ۱، ص: ۵۳۰، مکتبہ: زکریا دیوبند)
فإذا أتم التشہد إلی قولہ عبدہ ورسولہ یصلي علی النبي صلی اللّٰہ علیہ وسلم وہي سنۃ في الصلوٰۃ عندنا وعند الجمہور۔ (إبراہیم الحلبي، غنیۃ المستملي: ص: ۲۹۰، مکتبہ: دار الکتاب دیوبند)
وإذا فرغ من قراء ۃ التشہد ینظر بفکرہ إن علم أنہ إن زاد علیہ یثقل علی القوم لا یزید الدعوات الماثورۃ، وفي تخصیصہ الدعوات إشارۃ إلی أنہ یزید الصلوٰۃ علی ما قدمناہ إلا أنہ یقتصر فیہا علی قولہ: ’’اللہم صل علی محمد وعلی آل محمد‘‘ لأنہ ہو المفروض عند الشافعي، وبہ تتأدی السنۃ عندنا فلا یزید إلی تمامہا إن کان یثقل علیہم۔ (إبراہیم الحلبي، غنیۃ المستملي: ص: ۳۵۴، مکتبہ: دار الکتاب دیوبند)
فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج4 ص374
نماز / جمعہ و عیدین
الجواب وباللّٰہ التوفیق: مذکورہ صورت میں تشہد پڑھتے وقت ’’أن‘‘ پر شہادت کی انگلی اٹھانا اور ’’إلا اللّٰہ‘‘ پر گرا دینا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے ثابت ہے، جو مسنون ہے اس کے خلاف کرنے والے کا قول بالکل غلط ہے۔
’’کان عبد اللّٰہ بن عمر رضي اللّٰہ عنہ إذا جلس في الصلاۃ وضع یدیہ علیٰ رکبتیہ وأشار بإصبعہ وأتبعہا بصرہ، ثم قال: قال رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم: لہی أشد علی الشیطان من الحدید، یعني السبابۃ‘‘(۱)
’’أن النبي صلی اللّٰہ علیہ وسلم کان یشیر بأصبعہ إذا دعا، ولا یحرکہا‘‘(۲)
(۱) أخرجہ أحمد بن حنبل، في مسندہ، ’’مسند عبداللّٰہ بن عمر‘‘: ج ۱۰، ص: ۲۰۴، رقم: ۶۰۰۰۔
(۲) أخرجہ أبوداود، في سننہ، ’’کتاب الصلاۃ: باب الإشارۃ في التشہد‘‘: ج ۱، ص: ۱۴۲، رقم:۹۸۹)۔
فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج6 ص73
طہارت / وضو و غسل
Ref. No. 40/867
الجواب وباللہ التوفیق
بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ نجاست کا جِرم اگر مکمل طور پر زائل ہوگیا ہے تو صرف دھبہ کے باقی رہنے سے اور اس پر ہاتھ یا پیر کے مَس ہونے سے نماز میں کوئی فرق نہیں آئے گا۔
واللہ اعلم بالصواب
دارالافتاء
دارالعلوم وقف دیوبند
Hajj & Umrah
Ref. No. 41/998
In the name of Allah the most Gracious the most Merciful
The answer to your question is as follows:
It is in a Sahih Hadith that a prayer in Masjid Haram is equal to 100000 and a prayer in Masjid Nabawi is equal to 1000 prayers. The hadith which indicates the increase in Masjid e Nabawi being fifty thousand times has been deemed weak. The increase in reward relates to the whole area that is considered Masjide Nabawi or Masjide Haram in our times. So, the increase in reward is not confined to a specific area. Moreover, the increase in reward relates to only obligatory prayers not optional prayers. For, optional prayers are recommended to be offered at home. Women had better offer the prayers at home, room and in seclusion. The Prophet of Allah (saws) preferred for women to pray in their houses and said that their reward for doing so is greater than their reward for praying in the masjid.
ومعلوم أنه قد زيد في المسجد النبوي؛ فقد زاد فيه عمر ثم عثمان ثم الوليد ثم المهدي، والإشارة بهذا إلى المسجد المضاف المنسوب إليه - صلى الله عليه وسلم -، ولا شك أن جميع المسجد الموجود الآن يسمى مسجده - صلى الله عليه وسلم - فقد اتفقت الإشارة والتسمية على شيء واحد، فلم تلغ التسمية، فتحصل المضاعفة المذكورة في الحديث فيما زيد فيه. وخصها الإمام النووي بما كان في زمنه - صلى الله عليه وسلم - عملا بالإشارة(فتاوی شامی مطلب فی سترالعورۃ ١/٤٢٦)قوله: (إِلا المَسْجِدَ الحَرَامَ) وفي المفاضَلَة بين المسجدِ الحرامِ والمسجد النبوِيّ كلامٌ. وحقّق في الحاشيةِ أن الاستثناءَ لزيادةِ الأجْرِ في المسجد الحرام. ثم ادعى العلماءُ بتضعيفِ أجْر المَسْجِد النبوي بعده، إلا أنَّ ما استدلوا به لا يُوازي روايةَ الصحيح. بقي أَنَّ الفَضْل يَقْتَصِر على المسجدِ الذي كان في عَهْدِ صاحبِ النُّبوة خاصَّةً أو يَشْمَل كُلَّ بناءٍ بعدَهُ أيضًا؟ فالمختار عند العَيْني رحمه الله تعالى أنه يَشْمَل الكُلَّ، وذلك لأنَّ الحديثَ وَرَدَ بِلَفْظِ: مسجدي هذا». فاجتمع فيه الإِشارةُ والتسميةُ. وفي مِثْله يُعْتبر بالتسميةِ، كما يظهَرُ من الضابطةِ التي ذكرها صاحِبُ «الهداية».تنبيه: قال الطحاوي رحمه الله تعالى: إنَّ الفضيلة في الحَرَمين تَخْتَصُّ بالفرائضِ، أما النوافل فالفَضْلُ فيها في البيت. قلت: وهو الصواب، فإِنَّ النبيَّ صلى الله عليه وسلّم لم يؤدِّها إِلا في البيت مع كونِه بِجَنْب المَسْجِد ). فيض الباري باب في مسجد قبا3/589) ،
And Allah knows best
Darul Ifta
Darul Uloom Waqf Deoband
زیب و زینت و حجاب
Ref. No. 892/41-18B
الجواب وباللہ التوفیق
بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ یہ بال بھی داڑھی کے حکم میں ہے، اور اس کا رکھنا واجب ہے۔ جو لوگ اپنا عمل اس کے خلاف رکھتے ہیں وہ بدعت کے مرتکب ہیں۔
حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ رَجَاءٍ حَدَّثَنَا إِسْرَائِيلُ عَنْ أَبِى إِسْحَاقَ عَنْ وَهْبٍ أَبِى جُحَيْفَةَ السُّوَائِىِّ قَالَ رَأَيْتُ النَّبِىَّ - صلى الله عليه وسلم - وَرَأَيْتُ بَيَاضًا مِنْ تَحْتِ شَفَتِهِ السُّفْلَى الْعَنْفَقَةَ. (فیض الباری 4/434) نتف الفنبكين بدعة وهما جانبا العنفقة وهي شعر الشفة السفلى۔ (الدرالمختار 6/407)
واللہ اعلم بالصواب
دارالافتاء
دارالعلوم وقف دیوبند
تجارت و ملازمت
Ref. No. 984/41-144
الجواب وباللہ التوفیق
بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ مذکورہ شخص اگر قرآن کریم حفظ پڑھانے کی صلاحیت رکھتا ہے، قرآن کریم اچھی طرح پڑھنا جانتا ہے تو حفظ پڑھانے کے لئے اس کا تقرر درست ہے۔ حفظ پڑھانے کے لئے خود حافظ ہونا ضروری نہیں ہے، ہاں اگر خود بھی حافظ ہو تو زیادہ بہتر ہے۔ باقی تین سال میں حفظ مکمل کرلینے کا وعدہ ہے تو محنت کرنی چاہئے، لیکن اگر حفظ مکمل نہ کرسکے تو بھی اس کا عہدہ پر بحال رہنا اور تنخواہ لینا جائز ہے۔
واللہ اعلم بالصواب
دارالافتاء
دارالعلوم وقف دیوبند
زیب و زینت و حجاب
Ref. No. 1427/42-864
الجواب وباللہ التوفیق
بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ اگر کالے نشان کو بلاؤں اور مصیبتوں سے بچانے والا تصور کیا جائے اور اس عقیدہ کے ساتھ لگایا جائے تو جائز نہیں ہے۔ لیکن اگر ایسا عقیدہ نہ ہو بلکہ محض تحسین مقصود ہو تو پھر اس کی گنجائش ہے۔
کما فی مرقاۃ المفاتیح: روي أن عثمان - رضي الله عنه - رأى صبيا مليحا فقال: دسموا نونته كيلا تصيبه العين، ومعنى دسموا: سودوا، والنونة النقرة التي تكون في ذقن الصبي الصغير (ج: 7، ص: 2807، ط: دار الفکر) وفی حجۃ الله البالغۃ: والعين حق وحقيقتها تأثير إلمام نفس العائن وصدمة تحصل من إلمامها بالمعين، وكذا نظرة الجن وكل حديث فيه نهي عن الرقى والتمائم والتولة محمولة على ما فيه شرك أو انهماك في التسبب بحيث يغفل عن البارى جل شأنه.(ج: 2، ص: 300، ط: دار الجیل)
واللہ اعلم بالصواب
دارالافتاء
دارالعلوم وقف دیوبند
سیاست
Ref. No. 1553/43-1084
بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ شریعت میں کسی کو بھی برا بھلا کہنا منع ہےاور اس میں مسلم و غیرمسلم سب برابر ہیں۔ اور لعن و طعن سے بھی کسی کو بھی فائدہ نہیں ہوتاہے۔البتہ جس کے کرتوت غلط ہوں اس کو سمجھانا چاہئے اور اس کے کاموں کو برا کہنا بھی جائز ہے۔
واللہ اعلم بالصواب
دارالافتاء
دارالعلوم وقف دیوبند
اسلامی عقائد
الجواب وباللّٰہ التوفیق:قرآن کریم کی کسی بھی آیت کا اس طرح انکار کہ اسے اللہ کا کلام یا برحق نہ مانا جائے اور بلا کسی تاویل کے اس کا بالکلیہ انکار کر دیا جائے، یہ موجب ارتداد ہے اور قرآن کریم کے مطابق عمل نہ کرنا، موجب فسق ہے؛ اس لئے بشرط صحت سوال مذکورہ شخص دائرۂ اسلام سے خارج ہوگیا، اس کے ساتھ کسی طرح کا اسلامی تعلق، اسے کسی مدرسہ کا ذمہ دار بنانا اور اس سے اخوت کا برتاؤ جائز نہیں رہا۔ اس شخص پر واجب ہے کہ فوری طور پر اللہ تعالیٰ سے اپنے اس عظیم گناہ کی سچی توبہ کرے اور کلمہ توحید پڑھ کر اسلام میں داخل ہو؛ نیز لوگوں میں اپنی سچی توبہ کا اعلان کرے، اس کے بعد اس سے تعلقات جائز ہو جائیں گے۔ (۱)
نوٹ: اگر مذکورہ شخص کو کوئی شبہ ہو، تو قریبی علماء اس کے شبہ کو دور کرنے کی کوشش کریں اور ہر صورت میں اسے سمجھائیں۔
(۱) إذا أنکر آیۃ من القرآن واستخف بالقرآن أو بالمسجد أو بنحوہ مما یعظم في الشرع، أو عاب شیأ من القرآن کفر۔ (عبد الرحمن بن محمد، مجمع الأنہر، ’’کتاب السیر والجہاد: باب المرتد، ثم إن ألفاظ الکفر أنواع‘‘: ج ۲، ص: ۵۰۷)
إذا أنکرالرجل آیۃ من القرآن أو تسخر بآیۃ من القرآن، وفي الخزانۃ أو عاب فقد کفر، کذا في التاتار خانیۃ۔ (جماعۃ من علماء الہند، الفتاویٰ الہندیۃ، ’’کتاب السیر: الباب السابع: في أحکام المرتدین، موجبات الکفر أنواع، ومنہا: ما یتعلق بالقرآن‘‘: ج ۲، ص: ۲۷۹)
ویکفر إذا أنکر آیۃ من القرآن۔ (ابن نجیم، البحر الرائق، ’’کتاب السیر: باب أحکام المرتدین‘‘: ج ۵، ص: ۲۰۵)
ومن جحد القرآن أي کلہ أو سورۃ منہ، أو آیۃ قلت: وکذا کلمۃ أو قراء ۃ متواترۃ، أو زعم أنہا لیست من کلام اللّٰہ تعالیٰ کفر۔ (أبوحنیفۃ رحمہ اللّٰہ، شرح الفقہ الأکبر، ’’فصل في القراء ۃ والصلاۃ‘‘: ص: ۲۷۸)
طہارت / وضو و غسل
Ref. No. 1716/43-1391
الجواب وباللہ التوفیق:
بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ چار مہینے یا اس سے زیادہ کا حمل اگر ساقط ہوجائے تواس کے بعد آنے والا خون نفاس شمار ہوگا، یہی حکم ہے اگر چار مہینہ مکمل ہونے میں کچھ دن کم ہوں اور اعضاء مکمل ہوچکے ہوں اور نفخ روح ہوچکاہو تو بھی اسقاط کے بعد آنےوالا خون نفاس ہوگا۔ اور اگر تین ماہ یا اس سے کم کا حمل ساقط ہوا جبکہ بچہ کی تخلیق مکمل نہیں ہوئی تھی تو اب یہ نفاس کا خون شمار نہیں ہوگا، بلکہ اگر یہ خون عورت کی حیض کی جو عادت تھی ان دنوں میں شروع ہوا تو اب یہ حیض کا خون شمار کیا جائے گا۔ اور اگر عادت کے دنوں میں شروع ہوا لیکن دس دن سے تجاوز کرگیا تو اب یہ استحاضہ کا خون ہوگا، اسی طرح اگر خون شروع ہو کر تین سے پہلے بند ہوگیا تو بھی استحاضۃ کا خون ہوگا۔ عورت حیض و نفاس کے ایام میں نماز نہیں پڑھے گی، اور بعد میں اس کی قضاء بھی نہیں کرے گی، البتہ استحاضہ کے دنوں میں عورت ہر نماز کے وقت وضو کرکے نماز ادا کرے گی۔
نعم نقل بعضہم أنہ اتفق العلماء علی أن نفخ الروح لا یکون إلاّ بعد أربعة أشہر أي عقبہا کما صرّح بہ جماعة--- ولا ینافي ذلک ظہور الخلق قبل ذلک؛ لأن نفخ الروح إنّما یکون بعد الخلق، وتمام الکلام في ذلک مبسوط في شرح الحدیث الرابع من الأربعین النوویة (شامی،۱/۵۰۱، مطلب في أحوال السقط وأحکامہ، ط: زکریا)--- والسقط إن ظہر بعضہ فہو ولد تصیر بہ نفساء والأمة أم الولد---؛ لأنہ ولد لکنہ ناقص الخلقة ونقصان الخلقة لا یمنع أحکام الولادة، وفي قولِ صاحب التبیین: لا یستبین خلقہ إلا في مأة وعشرین یومًا، نظر، تأمل․ (مجمع الأنہر مع ملتقی الأبحر، ۱/ ۸۴، ط: دار الکتب العلمیة، بیروت) دیکھیں: (امداد الفتاوی: ۱/۱۰۱، سوال: ۷۶، ۷۷، ۷۸، ط: کراچی۔ احسن الفتاوی: ۱۰/ ۱۷۴، ط: زکریا)
واللہ اعلم بالصواب
دارالافتاء
دارالعلوم وقف دیوبند