Frequently Asked Questions
اسلامی عقائد
Ref. No. 2340/44-3521
بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔اگر مدرسہ میں غریب اور نادار طلبہ تعلیم حاصل کرتے ہیں اورمدرسہ ان کے کھانے پینے اور رہائش کا انتظام کرتاہے اور سرکاری رقم ان کے اخراجات کےلئے ناکافی ہے تو ان اخراجات کو پورا کرنے کے لئے عوام سے چندہ کرنا جائز ہے۔ اور ایسے مدرسہ میں چندہ دینا بھی جائز ہے۔ البتہ زکوۃ کی رقم بغیر شرعی حیلہ تملیک کے، تعمیرات اور تنخواہوں میں استعمال کرنا جائز نہیں ہے۔
لايجوز أن يبنی بالزكاة المسجد، وكذا القناطر والسقايات، وإصلاح الطرقات، وكري الأنهار والحج والجهاد، وكل ما لا تمليك فيه، ولايجوز أن يكفن بها ميت، ولايقضى بها دين الميت، كذا في التبيين". (فتاوی عالمگیری(1/ 188، کتاب الزکاۃ، الباب السابع فی المصارف، ط: رشیدیہ)
واللہ اعلم بالصواب
دارالافتاء
دارالعلوم وقف دیوبند
اسلامی عقائد
الجواب وباللّٰہ التوفیق:مہروں کی معافی کا تعلق دل اور زبان سے ہے، میت کے کان میں کہنا کوئی ضرری نہیں، محض رسم ورواج بنا رکھا ہے، اگر مہر اداء یا معاف نہیں کیا گیا تو اس صورت میں مہر شوہر کے ذمہ واجب الاداء ہے، اور شوہر کے ترکہ میں سے پہلے بیوی کو مہر اور دیگر قرض کی ادائیگی ہوگی اس کے بعد وراثت تقسیم ہوگی اور دودھ معاف کرنے کی بھی رسم ہے، اس کی کوئی اصل شریعت اسلامیہ میں نہیں ہے اور نہ ہی اس کی معافی ہی شرعاً ضروری ہے؛ بلکہ ایسا کرنا جس سے کہ عورت پر ایک قسم کا دبائو ہو، جائز ہی نہیں ہے۔(۱)
(۱) {وَأٰتُوا النِّسَآئَ صَدُقٰتِھِنَّ نِحْلَۃً} (سورۃ النساء: ۴)
وتجب … عند وطء أو خلوۃ صحت من الزوج أو موت أحد ہما أو تزوج ثانیاً في العدۃ۔ (ابن عابدین، الدر المختار مع رد المحتار، ’’کتاب النکاح: باب المہر‘‘: ج ۴، ص: ۲۳۳)
وإذا تأکد المہر بما ذکر لا یسقط بعد ذلک، وإن کانت الفرقۃ من قبلہا لأن البدل بعد تأکدہ لا یحتمل السقوط إلا بالإبراء۔ (’’أیضاً:‘‘)
والمہر یتأکد بأحد معان ثلاثۃ الدخول، والخلوۃ الصحیحۃ، وموت أحد الزوجین، سواء کان مسمی أو مہر المثل حتی لا یسقط منہ شيء بعد ذلک إلا بالإبراء من صاحب الحق، کذا في البدائع۔ (جماعۃ من علماء الہند، الفتاویٰ الہندیۃ، ’’کتاب النکاح: الباب السابع في المہر، الفصل الثاني‘‘: ج ۱، ص: ۳۷۰)
فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج1ص410
ذبیحہ / قربانی و عقیقہ
Ref. No. 2394/44-3623
بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ قربانی کے گوشت کی طرح ، قربانی کی کھال آدمی خود استعمال کرسکتاہے، اور کسی کو ہدیہ میں دے سکتاہے، اور اس کے ضائع ہونے پر اس پر کوئی تاوان نہیں آتا، تاہم کھال کو بیچ کر پیسے اپنے استعمال میں لانا جائز نہیں ہے، اس لئے اگر کسی نے بیچا تو اس کی قیمت کا کسی مستحق زکوۃ شخص کو صدقہ کرنا لازم ہوگا، اور اگر کھال کو نہیں بیچا بلکہ اس کو ضائع کردیا تو اس پر کھال کی قیمت کے بقدر صدقہ کرنا لازم نہیں ہوگا۔
امداد الاحکام میں ہے:
"قربانی کے جانور کی جو اشیاء قابلِ استعمال ہوں، مثلاً گوشت، کھال وغیرہ، اگر خود استعمال نہ کرنی ہوں تو کسی اور کو دے دیا جائے، اسے دفن کرنا ضیاعِ مال ہونے کی وجہ سے ناجائز ہے؛ لہذا چمڑا دفن کرنے کی بجائے کسی کو ہدیہ دے دیا جائے یا دینی مدارس کو دے دی جائے یا اس کو فروخت کرکے اس کی رقم کسی مستحقِ زکوٰۃ کو دے دی جائے۔(امداد الاحکام ، کتاب، ج: 4، صفحہ: 200، ۴/۲۰۰،کتاب الصید)
لابأس بأن ینتفع بإہاب الأضحیۃ۔ (قاضیخان، کتاب الأضحیۃ، فصل فی الانتفاع بالأضحیۃ، زکریا جدید ۳/۲۴۹، وعلی ہامش الہندیۃ ۳/۳۵۴)
واللحم بمنزلۃ الجلد فی الصحیح۔ (ہندیہ، کتاب الأضحیۃ، الباب السادس، زکریا قدیم ۵/۳۰۱، جدید ۵/۳۴۷، حاشیۃ الطحطاوی علی الدر کوئٹہ ۴/۳۲۵)
واللہ اعلم بالصواب
کتبہ: محمد اسعد
دارالافتاء
دارالعلوم وقف دیوبند
اسلامی عقائد
Ref. No. 2671/45-4216
بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ اگر آپ کے شوہر نے آپ کو اور چار بچوں کو چھوڑا ہے اور والد کا بھی انتقال ہو چکا ہے تو صورت مذکورہ میں شوہر کی جائیداد میں آٹھواں حصہ آپ کا ہوگا اور اگر آپ کے شوہر کے والد زندہ ہیں تو ترکہ میں سے ان کا چھٹا حصہ اور آپ کے آٹھویں حصہ کے بعد مابقیہ کے پانچ حصے کرلئے جائیں، جن میں سے دو حصہ بیٹا کو اور ایک ایک حصہ تینوں بیٹیوں کو ملے گا پی ایف، گریجویٹی اور انشورنس کی رقم بھی مرحوم کا ترکہ ہے اس کو بھی باقی جائیداد میں شامل کر کے تقسیم کیا جائے گا، انشورنس میں جو رقم جمع کیا ہے وہ ترکہ ہوگا اور زائد رقم بلا نیت ثواب صدقہ کرنا ضروری ہے، نومنی میں بیوی کا نام ہے تو صرف بیوی تمام پیسوں کی مالک نہیں ہوگی، بلکہ تمام ورثہ اس میں شریک ہوں گے۔
واللہ اعلم بالصواب
دارالافتاء
دارالعلوم وقف دیوبند
طہارت / وضو و غسل
الجواب وباللہ التوفیق:دھوبی سے کپڑا دھلوانے میں کوئی حرج نہیں ہے، بشرطیکہ ناپاک پانی سے نہ دھوئے اور پاک کرنے کا پورا خیال رکھے۔ (۲)
(۲)و إن کانت شیئا لا یزول أثرہ إلا بمشقۃ بأن یحتاج في إزالتہ إلی شيء آخر سوی الماء کالصابون لا یکلف بإزالتہ۔ (جماعۃ من علماء الہند، الفتاوی الھندیۃ، الباب السابع في النجاسۃ و أحکامھا، ج۱، ص:۹۶)؛ و أما لو غسل في غدیر أو صب علیہ ماء کثیرا، أو جری علیہ الماء طھر مطلقا بلا شرط عصر و تجفیف و تکرار غمس ھو المختار۔ (ابن عابدین، ردالمحتار مع الدر المختار، کتاب الطہارۃ، باب الأنجاس، مطلب في حکم الوشم، ج۱، ص:۴۲-۵۴۳)
فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج2ص437
طہارت / وضو و غسل
الجواب وباللّٰہ التوفیق:پرنالے کے پانی کو کسی برتن وغیرہ میں روک کر استعمال کرنا درست ہے، شرط یہ ہے کہ اس میں کوئی نجاست نہ ہو جیسا کہ فتاویٰ ہندیہ میں ہے:
’’ولو کان علی السطح عذرۃ فوقع علیہ المطر فسأل المیزاب إن کانت النجاسۃ عند المیزاب وکان الماء کلہ یلاقي العذرۃ أو أکثرہ أو نصفہ فہو نجس وإلا فہو طاہر‘‘(۲)
’’قال في المنیۃ: وعلی ہذا ماء امطر إذا جری في المیزاب وعلی السطح عذرات فالماء طاہر وإن کانت العذرۃ عند المیزاب أو کان الماء کلہ أو نصفہ أو أکثرہ یلاقي العذرۃ فہو نجس و إلا طاہر قال في الحلیۃ: ینبغي أن لا یعتبر في مسألۃ السطح سوی تفسیر أحد الأوصاف‘‘ (۱)
(۲) جماعۃ من علماء الہند، الفتاویٰ الہندیۃ، ’’کتاب الطہارۃ: الباب الثالث في المیاہ الفصل الأول: فیما یجوز بہ الوضوء، النوع الأول: الماء الجاري‘‘: ج ۱، ص: ۶۹۔(مکتبۃ فیصل، دیوبند)
(۱) ابن عابدین، رد المحتار علی الدر المختار، ’’باب المیاہ‘‘: ج ۱، ص: ۱۸۹۔
فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج3ص29
طہارت / وضو و غسل
Ref. No. 2701/45-4213
بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ صراط مستقیم پر گامزن ہونے، ایمان مضبوط ہونے، اور آپ کے ساتھ خاندان کے بھی حالات بہتر ہونے کی طرف اشارہ ہے۔ نیز آپ پر اللّٰه تعالیٰ کا خاص فضل ہونے کی علامت کے ساتھ ساتھ خوش بختی، خدا ترسی، اعمال صالحہ کی توفیق، رضاء الٰہی اور حق کی سربلندی کے لئے اپنے آپ کو قربان کرنے کی دلیل ہے۔ اور یہ کہ سماج میں بڑا مرتبہ حاصل ہوگا، عوام میں یک گونہ شان و شوکت نصیب ہوگی، اور عزت و وقار میں اضافہ ہوگا، آپ کے ارد گِرد قدر شناسوں کا ہجوم ہوگا۔ان شاء اللہ
واللہ اعلم بالصواب
دارالافتاء
دارالعلوم وقف دیوبند
نماز / جمعہ و عیدین
الجواب و باللّٰہ التوفیق: بزرگوں کے ناموں کی منت ماننا اور پھر ان کے ناموں سے بکرے ذبح کرنا اور ان کا کھانا یہ سب باتیں حرام اور ناجائز ہیں ۔ {ولا تأکلوا مما لم یذکراسم اللہ علیہ} اور {ما أہل لغیراللّٰہ} پس اس شخص کی امامت مکروہ تحریمی ہے؛ کیوں کہ وہ شخص گناہگار ہے۔(۱)
(۱) فہو کالمبتدع تکرہ إمامتہ بکل حال بل مشی في شرح المنیۃ علی أن کراہۃ تقدیمہ کراہۃ تحریم لما ذکرنا۔ (ابن عبادین، رد المحتار علی الدر المختار، ’’کتاب الصلاۃ، باب الإمامۃ، مطلب خمسۃ أقسام‘‘: ج۲، ص: ۲۹۹)
وحاصلہ إن کان ہوی لایکفر صاحبہ تجوز الصلاۃ خلفہ مع الکراہۃ وإلا فلا۔ (جماعۃ من علماء الہند، الفتاویٰ الہندیۃ، ’’کتاب الصلاۃ، الباب الخامس في الإمامۃ، الفصل الثالث في بیان من یصلح إمامًا لغیرہ‘‘: ج۱، ص: ۱۴۱)
فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج5 ص136
نماز / جمعہ و عیدین
الجواب و باللّٰہ التوفیق: زید اگرلنگڑا ہے؛ لیکن رکوع سجدہ کرنے پر قادر ہے رکوع سجد ہ اشارہ سے نہیں کرتا ہے، تو اس کی امامت درست ہے، تاہم دوسرے حضرات اگر امامت کے اہل موجود ہوں جو امامت کے فرائض سے اچھی طرح واقف ہوں تو ان کی امامت مکروہ ہے۔ بہتر ہے کہ دوسرے شخص کو امام بنادیا جائے یعنی افضلیت میں کراہت ہے جواز میں نہیں۔
’’وکذا تکرہ خلف أمرد وسفیہ ومفلوج، وأبرص شاع برصہ وکذلک أعرج یقوم ببعض قدمہ، فالاقتداء بغیرہ أولی‘‘(۱)
(۱) ابن عابدین، رد المحتار، ’’کتاب الصلاۃ، باب الإمامۃ، مطلب في إمامۃ الأمرد‘‘: ج ۲، ص:۳۰۲، ۳۰۱۔
ولا قادر علی رکوع وسجود بعاجز عنہما؛ لبناء القوي علی الضعیف (قولہ بعاجز عنہما) أي بمن یومیٔ بہما قائماً أو قاعداً ۔۔۔۔۔ کما سیأتي، قال: والعبرۃ للعجز عن السجود، حتی لو عجز عنہ وقدر علی الرکوع أومأ۔ (أیضًا: ’’مطلب: الواجب کفایۃ ہل یسقط بفعل الصبي وحدہ‘‘: ص: ۳۲۴)
وصح اقتداء قائم بأحدب وإن بلغ حدبہ الرکوع علی المعتمد، وکذا بأعرج وغیرہ أولٰی۔ (أیضًا: ’’مطلب الکافي للحاکم جمع کلام محمد في کتبہ‘‘: ص: ۳۳۶، ۳۳۸)
فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج5 ص232
نماز / جمعہ و عیدین
الجواب وبا للّٰہ التوفیق: وہ بھنگی جس کو عرف عام میں حلال خور مسلمان کہتے ہیں ان کی نماز جنازہ پڑھنا درست ہے اور ان کے بچہ کے کان میں اذان پڑھنا بھی درست ہے لہٰذا اس پر اعتراض نہ کیا جائے مذکورہ شخص کی امامت بھی درست اور جائز ہے۔(۱)
(۱) والأحق بالإمامۃ الأعلم بأحکام الصلاۃ فقط صحۃ وفسادا بشرط اجتنابہ للفواحش الظاہرۃ وحفظہ قدر فرض ثم (الأحسن تلاوۃ وتجویداً للقرأۃ ثم الأورع ثم الأسن ثم الأحسن۔ الخ۔ (ابن عابدین، رد المحتار، ’’کتاب الصلاۃ، باب الإمامۃ، مطلب في تکرار الجماعۃ في المسجد‘‘: ج۲، ص:۲۹۴)
فتاویٰ دارالعلوم وقف دیوبند ج5 ص336