اسلامی عقائد

الجواب وباللّٰہ التوفیق:مزارات پر جو چیزیں شیرنی وغیرہ چڑھائی جاتی ہیں وہ غیر اللہ کے نام پر ہونے کی وجہ سے حرام وناجائز ہوں گی(۱) بہتر یہ ہے کہ ان چیزوں کو مالکوں کو واپس کردیا جائے؛ لیکن اگر مالکوں کا پتہ نہ چل سکے تو ان چیزوں کو بدرجہ مجبوری غیر مسلموں کو فروخت کردی جائے اور اس کی قیمت کسی غریب کو بلا نیت ثواب دیدیں یا یہی سامان غریبوں کو دیدیں۔(۲)

(۱) {وَ مَا أُہِلَّ بِہِ لِغَیْرِ اللّٰہِ} (سورۃ البقرۃ: ۱۷۳)
إن النذر الذي یقع للأموات من أکثر العوام وما یؤخذ من الدراہم والشمع والزیت ونحوہا إلی ضرائح الأولیاء العظام تقرباً إلیہم فہو بالاجماع باطل وحرام۔ (ابن عابدین، الدر المختار مع رد المحتار، ’’کتاب الصوم: باب ما یفسد الصوم ومالا یفسدہ، مطلب في النذر الذي یقع للأموات من أکثر العوام‘‘: ج ۳،ص: ۴۲۷)
(۲) وإلا تصدقوا بہا لأن سبیل الکسب الخبیث التصدق إذا تعذر الرد علی صاحبہ۔ (ابن عابدین، الدر المختار مع رد المحتار، ’’کتاب الحظر والإباحۃ: باب الاسبراء وغیرہ، فصل في البیع‘‘: ج۹، ص: ۵۵۳)


فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج1ص362

اسلامی عقائد

Ref. No. 2480/45-3770

بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ ہر شخص کو شرعی طور پر اس کا اختیار ہوتاہے کہ وہ اپنی مملوکہ چیز کوجس قیمت پر چاہے گاہک کے ساتھ باہمی رضامندی سے فروخت کرے، شرعا نفع کی کوئی حد متعین نہیں ہے،تاہم مارکیٹ ریٹ سے زیادہ مہنگے داموں پر فروخت کرنا مناسب نہیں ہے۔ البتہ اگر کوئی میڈیکل اسٹور کسی کمپنی کا ڈیلر ہے یا کسی کمپنی سے کوئی معاہدہ ہے تو پھر وہ کمپنی کی طرف سے مقرر کردہ قیمت پرہی بیچنے کا پابندہے،  معاہدہ کی خلاف ورزی کرتے ہوئے زیادہ قیمت پر بیچنے کی صورت میں گنہگار ہوگا۔ البتہ اضافی نفع  کو ناجائز نہیں کہاجائے گا، بشرطیکہ حرمت کی کوئی اور وجہ نہ پائی جائے۔

والثمن ما تراضی علیہ المتعاقدان سواء زاد علی القیمة أو نقص (درمختار مع الشامي: ۷/۱۲۲، ط: زکریا)

وللبائع ان یبیع بضاعتہ بما شاء من ثمن، ولا یجب علیہ ان یبیعھا بسعر السوق دائما. (بحوث فی قضایا فقھیة معاصرۃ: (13/1، ط: دار القلم)
المسلمون علی شروطھم الا شرطا حرم حلالا او احل حراماً (سنن الترمذی: (ابواب الاحکام، 251/1، ط: مکتبة بلال دیوبند)

لا ينبغي مخالفة هذا السعر، إما لأن طاعة الإمام فيما ليس بمعصية واجب، وإما لأن كل من يسكن دولة فإنه يلتزم قولا أو عملا بأنه يتبع قوانينها، و حينئذ يجب عليه اتباع أحكامها، مادامت تلك القوانين لا تجبر على معصیة دينية. (بحوث في قضايا فقهية معاصرة: (ص: 169، ط: دار القلم)
فإن كان أرباب الطعام يتحكمون ويتعدون عن القيمة تعديا فاحشا، وعجز القاضي عن صيانة حقوق المسلمين إلا بالتسعير فحينئذ لا بأس به بمشورة من أهل الرأي والبصيرة، فإذا فعل ذلك وتعدى رجل عن ذلك وباع بأكثر منه أجازه القاضي. (الهداية: (378/4، ط: دار احیاء التراث العربی)
وَاَوْفُوْا بِالْعَهْدِ ۖ اِنَّ الْعَهْدَ كَانَ مَسْئُوْلًاo (القرآن الکریم: (الاسراء، الایة: 34)

واللہ اعلم بالصواب

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند

 

حدیث و سنت

الجواب وباللّٰہ التوفیق:جو حدیث سوال میں مذکورہ ہے، وہ بعض کے نزدیک متکلم فیہ ہے؛ تا ہم مذکورہ صورت میں حدیث شریف سے مؤمن کا جھوٹا پینے کا وجوب ثابت نہیں ہوتا؛ بلکہ اباحت واستحباب کا ثبوت ہے۔ اور وہ بھی کمالِ ایمان کے ساتھ؛ اس لئے کہ ’’المؤمن‘‘ پر ’’الف، لام‘‘ سے کمالِ ایمان پر دلالت ہے، اور اس صورت میں واضح ہے کہ اگر دیگر عوارض بیڑی، سگریٹ یا کسی اور مرض وغیرہ کی وجہ سے کراہت ہو، تو اس کے جھوٹے سے احتراز میں کوئی حرج نہیں ہے اور اگر کوئی صاحبِ ایمان ایسا ہے کہ اس میں کراہت کی کوئی وجہ نہ ہو، تو خوامخواہ اس کے جھوٹے سے کراہت بھی درست نہیں؛ بلکہ کسی صاحب نسبت کا جھوٹا ہو، تومستحسن ہے۔(۱)

(۱) وأما حدیث (سؤر المؤمن شفاء) فغیر معروف۔ (ملا علي قاري،  مرقاۃ المفاتیح، ’’کتاب الحج: باب خطبۃ یوم النحر ورمي أیام التشریق‘‘: ج ۵، ص: ۱۸۳۹، رقم: ۲۶۶۶)
حدیث ریق المؤمن شفاء کذا سؤر المؤمن شفاء لیس لہ اصل مرفوع۔ (ملا علي القاري، المصنوع، في معرفۃ الحدیث الموضوع: ج ۱، ص: ۱۰۶، رقم: ۱۴۴)
عبد اللّٰہ بن عمر رضي اللّٰہ عنہما، قال: سمعت أبي یقول: سمعت عمر بن الخطاب یقول: قال رسول اللّٰہ علیہ وسلم: (کلوا جمیعاً، ولا تفرقوا، فإن البرکۃ مع الجماعۃ)۔ (أخرجہ ابن ماجہ، في سننہ، ’’أبواب الأطعمۃ: باب الاجتماع علی الطعام‘‘: ج ۱، ص: ۲۳۶، رقم: ۳۲۸۷)
عن ابن عباس رفعہ من التواضع أن یشرب الرجل مع سؤر أخیہ۔ (شمس الدین ابن محمد، المقاصد الحسنۃ: ج ۱، ص: ۲۷۳)

 

فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج2ص88

طہارت / وضو و غسل

الجواب وباللّٰہ التوفیق:جس ڈھیلے سے استنجا کر لیا گیا ہے، پھر دوبارہ اسی سے استنجا کرنا درست نہیں ہے؛ البتہ اگر اس کے دوسرے کنارے سے استنجا کرے، تو پاکی حاصل ہوجائے گی۔(۲)

(۲) وکرہ تحریما بعظم و طعام و روث یابس کعذرۃ یابسۃ و حجر استنجی بہ إلابطرف آخر أي لم تصبہ النجاسۃ۔ (ابن عابدین، ردالمحتار، ’’کتاب الطہارۃ، باب الأنجاس، مطلب إذا دخل المستنجي في ماء قلیل،‘‘ ج۱، ص:۵۵۱)؛  ولا یستنجی بالأشیاء النجسۃ، و کذا لا یستنجی بحجر استنجی بہ مرۃ ھو أو غیرہ إلا إذا کان حجراً لہ أحرف، لہ أن یستنجي کل مرۃ بطرف لم یستنج بہ فیجوز من غیر کراھۃ۔ (جماعۃ من علماء الہند، الفتاویٰ الہندیہ، ’’کتاب الطہارۃ، الفصل الثالث في الاستنجاء،‘‘ ج۱،ص:۱۰۵)
 

فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج3 ص91

طلاق و تفریق

Ref. No. 2707/45-4184

بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ "جا میں نے تجھے چھوڑدیا" یہ جملہ طلاق کے لئے صریح ہے، اس لئے بشرط صحت سوال صورت مسئولہ میں اس جملہ سے بیوی پر طلاق واقع ہوگئی، اگر ایک مرتبہ بولا تو ایک طلاق،اور دو مرتبہ بولا تو دو طلاقیں رجعی واقع ہوگئیں۔  اب اگر عورت عدت میں ہے اور تین ماہواری ابھی پوری نہیں گزری ہے تو شوہر رجعت کرسکتاہے، اس کا طریقہ یہ ہے کہ شوہر بیوی سے  کہے کہ میں نے تجھ کو اپنی نکاح میں واپس لے لیا یا میاں بیوی والا تعلق قائم کرلے۔پھر یہ دونوں میاں بیوی ایک ساتھ رہ سکتے ہیں اور نکاح وغیرہ کی ضرورت نہیں  ہوگی ۔ البتہ شوہر  آئندہ طلاق دینے میں بہت احتیاط کرے کیونکہ اگر یہ دو طلاق ہوچکیں تو آئندہ صرف ایک طلاق دینے سے عورت بالکل حرام ہوجائے گی اور نکاح بھی نہیں ہوسکے گا۔

وإذا قال رہا کردم أي سرحتک یقع بہ الرجعي مع أن أصلہ کنایة أیضًا وما ذاک إلا لأنہ غلب في عرف الفرس استعمالہ في الطلاق وقد مر أن الصریح ما لم یستعمل إلا في الطلاق من أي لغةٍ کانت،( فتاوی شامی، كتاب الطلاق)

"(هي استدامة الملك القائم) بلا عوض ما دامت (في العدة) ... (بنحو) متعلق باستدامة (رجعتك) ورددتك ومسكتك بلا نية لأنه صريح (و) بالفعل مع الكراهة ( بكل ما يوجب حرمة المصاهرة) كمس.

(قوله: بنحو راجعتك) الأولى أن يقول بالقول نحو راجعتك ليعطف عليه قوله الآتي وبالفعل ط، وهذا بيان لركنها وهو قول، أو فعل... (قوله: مع الكراهة) الظاهر أنها تنزيه كما يشير إليه كلام البحر في شرح قوله والطلاق الرجعي لا يحرم الوطء رملي، ويؤيده قوله في الفتح - عند الكلام على قول الشافعي بحرمة الوطء -: إنه عندنا يحل لقيام ملك النكاح من كل وجه، وإنما يزول عند انقضاء العدة فيكون الحل قائماً قبل انقضائها. اهـ. ... (قوله: كمس) أي بشهوة، كما في المنح". الدر المختار وحاشية ابن عابدين (رد المحتار) (3/ 397):

"وإن كان الطلاق ثلاثًا في الحرة وثنتين في الأمة لم تحل له حتى تنكح زوجًا غيره نكاحًا صحيحًا ويدخل بها ثم يطلقها أو يموت عنها، كذا في الهداية". (الفتاوی الهندیة، ج:3، ص: 473، ط: ماجدية)

واللہ اعلم بالصواب

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند

 

نماز / جمعہ و عیدین

الجواب وباللّٰہ التوفیق: مذکورہ امام کے پیچھے شرعاً نماز جائز و درست ہے۔(۲)

(۲) وإن قدموا غیر الأولیٰ فقد أساؤا ولکن لا یأثمون وفیہ لوأمّ قوماً وہم لہ کارہون فہو علی ثلاثۃ أوجہ: إن کانت الکراہۃ لفساد فیہ أو کانوا أحق بالإمامۃ منہ یکرہ: وإن کان ہو أحق بہا منہم ولافساد فیہ ومع ہذا یکرہونہ لایکرہ لہ التقدم۔ (أحمد بن محمد، حاشیۃ الطحطاوي علی مراقي الفلاح، ’’کتاب الصلاۃ: باب الإمامۃ‘‘: ص: ۳۰۱، مکتبہ شیخ الہند دیوبند)
 

 فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج5 ص55

نماز / جمعہ و عیدین

الجواب و باللّٰہ التوفیق: متعہ معتبر علماء وفقہاء کرام کے نزدیک حرام ہے(۴) جس کی حرمت صریح حدیث سے ثابت ہے(۵) اس لیے متعہ کے جواز کا قائل و فاعل فاسق ہے جس کی امامت و تقلید مکروہ تحریمی ہے، ایسے شخص کے بہکائے میں قطعاً نہ آئیں۔(۱)

(۴) ونکاح المتعۃ باطل وہو أن یقول لإمرأۃ أتمتع بک کذا مدۃ بکذا من المال۔ (المرغیناني،  ہدایۃ، ’’فصل في بیان المحرمات‘‘: ج ۱، ص: ۱۹۰)
(۵) عن علي بن أبي طالب: أن رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم نہی عن متعۃ النساء یوم خیبر وعن لحوم الحمر الإنسیۃ۔ (أخرجہ ابن ماجۃ،  في سننہ، ’’باب النہي عن نکاح المتعۃ‘‘: رقم: ۱۹۶۱)
(۱) قال الحصکفي ویکرہ إمامۃ عبد ومبتدع أي صاحب بدعۃ وہی اعتقاد خلاف المعروف عن الرسول لایکفر بہا وإن کفر بہا فلایصح الاقتداء بہ أصلا، قال ابن عابدین: قولہ وہي اعتقاد الخ، عزا ہذا التعریف في ہامش الخزائن إلی الحافظ ابن حجر في شرح النخبۃ ولایخفی أن الاعتقاد یشمل ماکان معہ عمل أولا فإن من تدین بعمل لابد أن یعتقدہ۔ (ابن عابدین،  رد المحتار، ’’کتاب الصلوۃ، باب الإمامۃ‘‘: ج۲، ص: ۲۸۰- ۲۸۱)

 

فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج5 ص183

نماز / جمعہ و عیدین

الجواب وبا للّٰہ التوفیق: ایسے امام کے پیچھے متقی پرہیز گار لوگوں کی نماز یعنی فریضہ تو ادا ہو جائے گا، مگر اس کی امامت مکروہ تحریمی ہوگی، اس صورت میں کسی دیندار پرہیز گار مستحق امامت شخص کو امام مقرر کیا جائے تاکہ نماز جیسے اہم فریضہ کی ادائیگی سنت کے مطابق ہو جائے۔(۱)

(۱) وذکر الشارح وغیرہ أن الفاسق إذا تعذر منعہ یصلي الجمعۃ خلفہ وفي غیرہا ینتقل إلی مسجد آخر، وعلل لہ في المعراج بأن في غیر الجمعۃ یجد إماما غیرہ۔ (ابن نجیم، البحر الرائق، ’’کتاب الصلاۃ، باب الإمامۃ‘‘: ج۱، ص: ۶۱۱)
وکرہ إمامۃ العبد والأعرابي والفاسق والمبتدع فالحاصل أنہ یکرہ الخ، قال الرملي: ذکر الحلبي في شرح منیۃ المصلي أن کراہۃ تقدیم الفاسق والمبتدع کراہۃ التحریم۔ (أیضًا:)
ویکرہ إمامۃ عبد وأعرابي وفاسق وأعمی ومبتدع أي صاحب بدعۃ، وفي النہر عن المحیط صلی خلف فاسق أو مبتدع نال فضل الجماعۃ أفاد أن الصلاۃ خلفہما أولٰی من الإنفراد لکن لاینال کما ینال خلف تقي ورع لحدیث من صلی خلف عالم تقي فکأنما صلی خلف نبي۔ (ابن عابدین،  ردالمحتار، ’’کتاب الصلاۃ: باب الإمامۃ، مطلب في تکرار الجماعۃ في المسجد‘‘: ج۲، ص: ۲۹۸)

فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج5 ص273

 

نماز / جمعہ و عیدین

الجواب وباللہ التوفیق: اذان کے بعد جو دعا پڑھی جاتی ہے، اسے زبانی پڑھنا چاہئے ہاتھ اٹھا کر دعاء پڑھنا ثابت نہیں ہے، اس لیے ہاتھ اٹھائے بغیر دعاء کرنی چاہئے۔
’’المسنون في ہذا الدعاء أن لاترفع الأیدی لأنہ لم یثبت عن النبي صلی اللّٰہ علیہ وسلم رفعہا‘‘(۱)
اذان کے وقت انگوٹھے چومنے اور آنکھوں سے لگانے کی کوئی صحیح دلیل نہیں ہے، نہ ہی احادیث سے یہ ثابت ہے اور نہ ہی خیر القرون میں اس کا ثبوت ملتا ہے، کفایت المفتی میں ہے: حضور کا نام سننے پر ابہام کو چومنا اور آنکھوں سے لگانا سنت نہیںہے، حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے کوئی ایسا حکم نہیں دیا ہے اور نہ ہی صحابہ ؓسے یہ عمل در آمد ہوا۔
’’الأحادیث التي رویت في تقبیل الأنامل وجعلہا علی العینین عند سماع اسمہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم من المؤذن في کلمۃ الشہادۃ کلہا موضوعات‘‘ (۲)

(۱) الکشمیري، فیض الباري شرح البخاري، ’’کتاب الأذان: باب الدعاء عند النداء‘‘: ج ۲، ص: ۲۱۴۔
(۲) مفتی کفایت اللہ، پانی پتی، کفایت المفتی: ج ۲، ص: ۱۶۶

 

فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج4 ص160

نماز / جمعہ و عیدین

الجواب وباللّٰہ التوفیق: فرائض کے بعد دعاء سے فارغ ہوکر مقتدیوں کو متفرق ہو جانا چاہئے، سنن ونوافل کے بعد اجتماعی دعا کا التزام ثابت نہیں ہے، کیوں کہ آں حضرت صلی اللہ علیہ وسلم اور صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین اکثر وبیشتر سنتیں گھر جاکر اداء فرماتے تھے؛ لہٰذا سنن ونوافل کے بعد اجتماعی دعا سے اجتناب کیا جائے۔
’’قیل لرسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم أي الدعاء أسمع؟ قال جوف اللیل الآخر ودبر الصلوٰت المکتوبۃ(۱)، قال: کان رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم یطیل القرأۃ في الرکعتین بعد المغرب حتی یتفرق أہل المسجد‘‘(۲)

(۱) أخرجہ الترمذي، في سننہ، أبواب الدعوات، باب،: ج ۱، ص: ۲۸۰، رقم: ۳۴۹۹۔
(۲) أخرجہ أبوداود في سننہ، ’’کتاب الصلاۃ: باب تفریع أبواب التطوع ورکعات السنۃ، باب رکعتي المغرب أین تصلیان‘‘: ج۱، ص:۱۸۴، رقم: ۱۳۰۱۔

 

فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج4 ص429