مذاہب اربعہ اور تقلید

الجواب وباللّٰہ التوفیق:ہماری معلومات کے مطابق غالی شیعہ اثنا عشریہ کی معتبر کتابوں میں جو ان کے عقائد مذکور ہیں ان کی وجہ سے وہ دائرہ اسلام سے خارج ہیں، ان کی لڑکیوں سے نکاح وغیرہ سے گریز لازم ہے۔(۱)

(۱) یجب إکفار الروافض في قولہم برجعۃ الأموات إلی الدنیا وبتناسخ الأرواح وبانتقال روح الإلٰہ إلی الأئمۃ وبقولہم في خروج إمام باطن وہؤلاء القوم خارجون عن ملۃ الإسلام۔ (جماعۃ من علماء الہند، الفتاویٰ الہندیۃ، کتاب السیر: الباب التاسع: في أحکام المرتدین، موجبات الکفر أنواع، ومنہا: ما یتعلق بالأنبیاء علیہم السلام‘‘: ج ۲، ص: ۲۷۷)

فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج2ص283

نماز / جمعہ و عیدین

الجواب وباللّٰہ التوفیق:(۱) حدیث سے معلوم ہوتا ہے کہ قضاء حاجت کی جگہ شیطان کا بسیرا ہوتا ہے اور دعا پڑھ کر بیت الخلاء جانے سے آدمی شیطان کے وساوس سے محفوظ رہتا ہے؛ اس لیے اگر گھر میں اٹیچ بیت الخلاء ہو، تو بیت الخلاء میں شیطان کا بسیرا ہوسکتا ہے، لیکن اس کا اثر گھر پر نہیں پڑتا ہے اور جولوگ بیت الخلاء دعا پڑھ کر جاتے ہیں، وہ بھی شیطانی وساوس سے محفوظ رہتے ہیں۔
’’عن أنس بن مالک رضي اللّٰہ عنہ، أن رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم قال: إن ہذہ الحشوش محتضرۃ، فإذا دخلہا أحدکم فلیقل: أللہم إني أعوذ بک من الخبث والخبائث)۔ فأخبر في ہذا الحدیث أن الحشوش مواطن للشیاطین، فلذلک أمر بالاستعاذۃ عند دخولہا، (۱) ومن ہذا قول رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم إن ہذہ الحشوش محتضرۃ أي: یصاب الناس فیہا وقد قیل إن ہذا أیضا قول اللّٰہ عز وجل {کُلُّ شِرْبٍ مُّحْتَضَرٌ ہ۲۸}(۲) أي: یصیب منہ صاحبہ۔
مالک عن یحیي بن سعید أنہ قال أسری برسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم فرأی عفریتا من الجن یطلبہ بشعلۃ من نار کلما التفت رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم رآہ فقال لہ جبریل أفلا أعلمک کلمات تقولہن إذا قلتہن طفئت شعلتہ وخر لفیہ فقال رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم بلی فقال جبریل: فقل أعوذ بوجہ اللّٰہ الکریم وبکلمات اللّٰہ التامات اللاتي لا یجاوزہن بر ولا فاجر من شر ما ینزل من السماء وشر ما یعرج فیہا وشر ما ذرأ في الأرض وشر ما یخرج منہا ومن فتن اللیل والنہار ومن طوارق اللیل والنہار إلا طارقا یطرق بخیر یا رحمن۔ (۳)

(۲) روایت سے معلوم ہوتا ہے کہ جب انسان گھر میںداخل ہوتے وقت دعا پڑھ لیتا ہے، تو اللہ تعالی کے ضمان میں آجاتا ہے اور شیطان کہتا ہے کہ اب میں تمہارے ساتھ رات نہیں گزار سکتا لیکن جب آدمی بغیر دعا کے گھر میں داخل ہوتا ہے، تو شیطان کہتا ہے کہ میں تمہارے ساتھ رات گزاروں گا؛ اس لیے گھر میں داخل ہوتے وقت دعا کا اہتمام کرنا چاہیے۔
’’عن أبي أمامۃ الباہلي، عن رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم قال:  ثلاثۃ کلہم ضامن علی اللّٰہ عز وجل: رجل خرج غازیا في سبیل اللّٰہ عز وجل فہو ضامن علی اللّٰہ عز وجل حتی یتوفاہ فیدخلہ الجنۃ أو یردہ بما نال من أجر وغنیمۃ، ورجل راح إلی المسجد فہو ضامن علی اللّٰہ تعالی حتَّی یتوفاہ فیدخلہ الجنۃ أو یردہ بما نال من أجر وغنیمۃ، ورجل دخل بیتہ بسلام فہو ضامن علی
اللّٰہ سبحانہ وتعالی حدیث حسن،(۱) ورواہ آخرون۔ ومعنی ضامن علی اللّٰہ تعالی: أي صاحب ضمان، والضمان: الرعایۃ للشیئ، کما یقال: تَامِرٌ، ولاَبنٌ: أي صاحب تمر ولبن۔ فمعناہ: أنہ في رعایۃ اللّٰہ تعالی، وما أجزل ہذہ العطیۃ، اللہمَّ ارزقناہا۔
وروینا عن جابر بن عبد اللّٰہ رضی اللّٰہ عنہما قال: سمعت النبی صلی اللّٰہ علیہ وسلم یقول: إذا دخل الرجل بیتہ فذکر اللّٰہ تعالی عند دخولہ وعند طعامہ قال الشّیطان: لا مبیت لکم ولا عشاء، وإذا دخل فلم یذکر اللّٰہ تعالی عند دخولہ، قال الشیطان: أدرکتم المبیت، وإذا لم یذکر اللّٰہ تعالی عند طعامہ قال: أدرکتم المبیت والعشاء۔ (۲)

(۳) بیت الخلاء کے لٹکے کپڑے یا وہاں گرے خواتین کے با لوں پرشیطان کا جادو کرنا کوئی ضروری نہیں ہے؛ بلکہ جو لوگ اس طرح کا عمل کراتے ہیں وہ اس طرح کی چیزوں کو استعمال کرتے ہیں اس لیے بہتر ہے کہ بال وغیرہ کو محفوظ مقام پر دفن کردیا جائے لیکن شیطان کا ان بالوں پر تصرف کرنا کوئی ضروری نہیں ہے اس لیے کہ شیطان، جنات اس کے بغیر بھی تصرف پر قادر ہوتے ہیں۔

(۴) میاں بیوی کے درمیان نااتفاقی اگر رہتی ہے تو ضروری نہیں کہ یہ جادو ہی کا اثر ہو۔ گھر میں حضرت شیخ الحدیث مولانا زکریا صاحب رحمۃ اللہ علیہ کی منزل اسی طرح معوذتین اور سورہ بقرہ کا اہتمام کریں اگر جادو وغیرہ کا کوئی اثر ہوگا تو زائل ہوجائے گااور اگر اس کے بعد بھی نااتفاقی ختم نہ تو بہتر ہوگا کہ دونوں خاندانوں کے بزرگوں کے سامنے مسئلہ کو پیش کیا جائے وہ حضرات طرفین کی بات کو سن کر جو فیصلہ کریں اس پر دونوں حضرات عمل کریں انشاء اللہ نااتفاقی ختم ہوجائے گی۔

(۱) ابن بطال شرح صحیح البخاري لابن بطال: ج ۱۰، ص: ۹۰۔
(۲) سورۃ القمر: ۲۸۔                     (۳) ابن عبد البر، الاستذکار: ج ۸، ص: ۴۴۳۔

(۱) أخرجہ أبو داود، في سننہ، ’’کتاب الجہاد: باب فضل الغزو‘‘: ج ۱، ص: ۳۳۷، رقم: ۱۱۳۲۔
(۲) أخرجہ مسلم، في صحیحہ۔ ’’کتاب الأذکار للنووي‘‘: ج ، ص: ۲۴، رقم: ۱۳۱۴۔

فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج2ص381
 

طہارت / وضو و غسل

الجواب وباللّٰہ التوفیق:مغربی طرز کے بنے ہوئے استنجا خانے جس میں کھڑے ہو کر پیشاب کرنا ہوتا ہے، ان کا استعمال مکروہ ہے؛ اس لیے کہ کھڑے ہو کر پیشاب کرنے کو فقہاء نے مکروہ قرار دیا ہے؛ ہاں عذر کی بنا پر یا اس وجہ سے کہ کوئی متبادل نہ ہو اور دوسری جگہ جا کر استنجا کرنا دشوار ہو، تو عارضی طور پر اس طرح کے پیشاب خانے کو استعمال کیا جاسکتا ہے۔  وأن یبول قائما أو مضطجعا أو مجردا من ثوبہ بلا عذر۔(۲)

(۲)ابن عابدین، الدر المختار مع رد المحتار، ’’کتاب الطہارۃ، باب الأنجاس، مطلب: القول المرجح علی الفعل،‘‘ ج۱، ص:۵۵۷ )؛ و یکرہ البول قائما لتنجسہ غالبا إلا من عذر کوجع بصلبہ۔ (طحطاوی،حاشیۃ الطحطاوي علی المراقي، فصل فیما یجوز بہ الاستنجاء، ج۱، ص:۵۴، دارالکتاب دیوبند)
 

فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج3 ص93

نماز / جمعہ و عیدین

الجواب وباللّٰہ التوفیق: اگر امامت کی اہلیت ہے، تو مستقل امام بننا یا کبھی کبھی امام بننا یا صرف تراویح میں امام بننا جائز اور کارِ ثواب ہے۔(۱)

(۱) الأولیٰ بالإمامۃ أعلمہم بأحکام الصلاۃ ہکذا في المضمرات وہو الظاہر ہکذا في البحر الرائق، ہذا إذا علم من القراء ۃ قدر ما تقوم بہ سنۃ القراء ۃ ہکذا في التبیین، ولم یطعن في دینہ … ویجنب الفواحش الظاہرۃ۔ (جماعۃ من علماء الہند،الفتاویٰ الہندیۃ، ’’کتاب الصلاۃ: الباب الخامس في الإمامۃ، الفصل الثاني في بیان من ہو أحق بالإمامۃ‘‘: ج ۱، ص: ۱۴۱، زکریا دیوبند)
(فالأعلم) بأحکام الصلاۃ الحافظ ما بہ سنۃ القراء ۃ ویجتنب الفواحش الظاہرۃ۔ (أحمد بن محمد، حاشیۃ الطحطاوي علی مراقی الفلاح، ’’کتاب الصلاۃ: فصل في بیان الأحق بالإمامۃ‘‘: ج ، ص: ۲۹۹، ۳۰۰، شیخ الہند دیوبند)
والأحق بالإمامۃ: تقدیماً بل نصباً مجمع الأنہر الأعلم بأحکام الصلاۃ۔ (ابن عابدین،  رد المحتار، ’’کتاب الصلوۃ، باب الإمامۃ، مطلب في تکرار الجماعۃ في المسجد‘‘: ج ۲، ص: ۲۹۴
، زکریا دیوبند)
 
 فتاویٰ دارالعلوم وقف دیوبندج 5 ص:33

نماز / جمعہ و عیدین

الجواب وباللّٰہ التوفیق: لوگ اگر امام سے بغیر وجہ شرعی کے ناراض ہوں، تو شرعاً امامت بلاکراہت درست ہے اور اگر کسی شرعی وجہ سے ناراض ہوں، تو وہ وجہ تحریر کی جائے اس کے بعد جواب تحریر کیا جا سکتا ہے۔(۱)

(۱) ولو أم قوماً وہم لہ کارہون إن الکراہۃ لفساد فیہ أولأنہم أحق بالإمامۃ منہ کرہ لہ ذلک تحریما لحدیث أبي داؤد، لایقبل صلاۃ من تقدم قوما وہم لہ کارہون وإن ہو أحق لاوالکراہۃ علیہم۔ (الحصکفي، الدر المختار، ’’کتاب الصلوۃ، باب الإمامۃ، مطلب في تکرار الجماعۃ في المسجد‘‘: ج۲، ص: ۲۹۷)
رجل أم قوماً وہم لہ کارہون إن کانت الکراہۃ لفساد فیہ أولأنہم أحق بالإمامۃ یکرہ لہ ذلک وإن کان ہو أحق بالإمامۃ لایکرہ۔ (جماعۃ من علماء الہند، الفتاویٰ الہندیۃ، ’’کتاب الصلاۃ، الباب الخامس في الإمامۃ، الفصل الثالث في بیان من یصلح إماماً لغیرہ‘‘: ج۱، ص: ۱۴۴)۔

 فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج5 ص58

 

نماز / جمعہ و عیدین

الجواب و باللّٰہ التوفیق: بشرط صحت سوال مذکورہ شخص گناہ کبیرہ کا مرتکب ہے اور اس کی امامت مکروہ تحریمی ہے۔(۱)

(۱) کرہ إمامۃ العبد والأعرابي والفاسق والمبتدع، فالحاصل أنہ یکرہ الخ، قال الرملي ذکر الحلبي في شرح منیۃ المصلي أن کراہۃ تقدیم الفاسق والمبتدع کراہۃ التحریم۔ (ابن نجیم، البحرالرائق، ’’کتاب الصلوۃ، باب الإمامۃ العبد والأعرابي والفاسق‘‘: ج۱، ص: ۶۱۰)
ویکرہ إمامۃ عبد وأعرابي وفاسق وأعمی ومبتدع أي صاحب بدعۃ، وفي النہر عن المحیط، صلی خلف فاسق أو مبتدع نال فضل الجماعۃ أفاد أن الصلاۃ خلفہا أولی من الإنفراد؛ لکن لاینال کما ینال خلف تقي ورع لحدیث من صلی خلف عالم تقي فکأنما صلی خلف نبي ۔ (ابن عابدین، رد المحتار، ’’کتاب الصلوٰۃ: باب الإمامۃ، مطلب في تکرار الجماعۃ في المسجد‘‘: ج۲، ص: ۲۹۴، ۲۹۹)
ونکاح المنکوحۃ لایحل احد من الادیان۔ (أیضاً: ج۱۰، ص: ۱۶۳)
فصل ومنہا: أن لاتکون منکوحۃ الغیر لقولہ تعالیٰ: ’’والمحصنات من النساء‘‘ والمحصنات معطوفا علی قولہ عز وجل حرمت علیکم أمہاتکم إلی قولہ من النساء وہن ذوات الأزواج وسواء کان زوجہا مسلماً أو کافراً۔ (الکاساني، بدائع الصنائع في ترتیب الشرائع، ’’کتاب النکاح، فصل أن لاتکون منکوحۃ الغیر، عدم جواز منکوحۃ الغیر‘‘: ج۲، ص:۵۴۸)

 

فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج5 ص186

نماز / جمعہ و عیدین

الجواب وباللّٰہ التوفیق: نماز ہو جاتی ہے، مگر دل کو بھی صاف کرنا چاہئے۔(۱)

(۱) نظام الألفۃ وتعلم الجاہل من العالم (قولہ نظام الألفۃ) بتحصیل التعاہد باللقاء في أوقات الصلوات بین الجیران۔ (ابن عابدین، رد المحتار، ’’کتاب الصلاۃ: باب الإمامۃ‘‘: ج ۲، ص: ۲۸۷)
أم قوما وہم لہ کارہون إن کانت الکراہۃ لفساد فیہ أو لأنہم أحق بالإمامۃ یکرہ لہ ذلک وإن کان ہو أحق بالإمامۃ لا یکرہ، ہکذا في المحیط۔ (جماعۃ من علماء الہند، الفتاویٰ الہندیۃ، ’’کتاب الصلاۃ: الباب الخامس في الإمامۃ، الفصل الثالث في بیان من یصلح إماماً لغیرہ‘‘: ج ۱، ص: ۱۴۴)
(وإمام قوم) أي: الإمامۃ الکبری، أو إمامۃ الصلاۃ (وہم لہ): وفي نسخۃ: لہا، أي الإمامۃ (کارہون) أي: لمعنی مذموم في الشرع، وإن کرہوا لخلاف ذلک، فالعیب علیہم ولا کراہۃ، قال ابن الملک، أي کارہون لبدعتہ أو فسقہ أو جہلہ، أما إذا کان بینہ وبینہم کراہۃ وعداوۃ بسبب أمر دنیوي، فلا یکون لہ ہذا الحکم۔ في شرح السنۃ قیل: المراد إمام ظالم، وأما من أقام السنۃ فاللوم علی من کرہہ، وقیل: ہو إمام الصلاۃ ولیس من أہلہا، فیتغلب فإن کان مستحقا لہا فاللوم علی من کرہہ، قال أحمد: إذا کرہہ واحد أو إثنان أو ثلاثۃ، فلہ أن یصلي بہم حتی یکرہہ أکثر الجماعۃ۔ (رواہ الترمذي وقال: ہذا حدیث غریب): قال ابن حجر: ہذا حدیث حسن غریب۔ (ملا علي قاري، مرقاۃ المفاتیح، ’’کتاب الصلاۃ، باب الإمامۃ، الفصل الثاني‘‘: ج ۳، ص: ۱۷۹، رقم: ۱۱۲۲)

 

فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج5 ص275

نماز / جمعہ و عیدین

الجواب وباللہ التوفیق: صورت مسئولہ میں مذکورہ شخص کو محلہ کی مسجد ہی میں جمعہ پڑھنا چاہئے اور اختلافات کو حکمت عملی سے محلہ سے دور کرنے کی کوشش کرنی چاہئے؛ البتہ جو نمازیں دوسری مسجدوں میں جاکر پڑھی ہیں وہ درست ہو گئی ہیں۔(۱)

(۱) في الجامع الصغیر إذا کان إمام الحي زانیاً أو آکل الربا لہ أن یتحول إلی مسجد آخر۔ (خلاصۃ الفتاویٰ: ج ۱، ص: ۲۲۸، مکتبہ رشیدیہ، پاکستان)
رجل یصلی في الجامع لکثرۃ الجمع ولایصلي في مسجد حیّہ فإنہ یصلي في مسجد منزلہ وإن کان قومہ أقل وإن لم یکن لمسجد منزلہ مؤذن فإنہ یؤذن ویصلي … فالأفضل أن یصلي في مسجدہ ولا یذہب إلی مسجد آخر۔ (خلاصۃ الفتاویٰ، ’’کتاب الصلاۃ‘‘: ج ۱، ص: ۲۲۸، مکتبہ رشیدیہ، پاکستان)
لأن لمسجد منزلہ حقاً فیؤد حقہ۔ (فتاویٰ قاضي خاں علی ہامش، ’’کتاب الصلاۃ‘‘: ج ۱، ص: ۲۷، مکتبہ حقانیہ)

 

فتاویٰ دارالعلوم وقف دیوبند ج5 ص379

Hadith & Sunnah

Ref. No. 2759/45-4306

In the name of Allah the most Gracious the most Merciful

The answer to your question is as follows:

Dyeing white hair is preferable and leaving white hair undyed is also correct. It is recommended to dye hair with colors other than pure black. Dyeing with red colour or henna is masnoon.

You can dye your beard and hair or leave it white, but the hair should be well-groomed and tidy.

And Allah knows best

Darul Ifta

Darul Uloom Waqf Deaband

 

نماز / جمعہ و عیدین

الجواب وباللہ التوفیق:وقت سے پہلے اذان دینا درست نہیں ہے، وقت کے داخل ہونے سے قبل اذان غلطی سے دی گئی ہو یا جان بوجھ کر دونوں صورتوں میں اگر نماز نہیں ہوئی ہے تو اذان کا اعادہ کرنا پڑے گا؛ البتہ اذان کے لوٹائے بغیر ہی اگر وقت پر نماز پڑھ لی گئی تو نماز ہو جائے گی لیکن سنت کو ترک کرنے کی وجہ سے گناہگار ہوگا؛ اس لیے کہ فقہاء کرام نے لکھا ہے اذان نماز کے لیے سنت مؤکدہ ہے، نماز کے لئے شرط نہیں ہے، جیسا کہ امام سرخسی نے مبسوط میں لکھا ہے:
’’وإن أذن قبل دخول الوقت لم یجزہ ویعیدہ في الوقت) لأن المقصود من الأذان إعلام الناس بدخول الوقت فقبل الوقت یکون تجہیلا لا إعلاما‘‘(۱)
’’لأنہ سنۃ  للصلاۃ‘‘(۲)
نیز وہ اذان جو وقت سے قبل شروع ہوئی اور وقت کے داخل ہونے کے بعد ختم ہوئی ہو، تو اس صورت میں وہ اذان تو ہو گئی؛ لیکن یہ احتیاط کے خلاف ہے اور اگر وقت کے دخول سے کچھ دیر قبل ختم ہوئی، تو اس اذان کو بھی لوٹانا چاہئے ورنہ مؤذن گناہگار ہوگا۔
’’فیعاد أذان وقع بعضہ قبلہ کالإقامۃ۔ تنویر مع الدر۔ قال الشامي رحمہ اللّٰہ تعالی: قولہ: (وقع بعضہ) وکذا کلہ بالأولی‘‘(۳)
علامہ ابن نجیم نے البحرالرائق میں لکھا ہے:
’’قولہ: (ولا یؤذن قبل وقت ویعاد فیہ) أي في الوقت إذا أذن قبلہ، لأنہ یراد للإعلام بالوقت فلا یجوز قبلہ بلا خلاف في غیر الفجر ۔‘‘(۴)
فتاوی تاتارخانیہ میں لکھا ہے:
’’إذا أذن قبل الوقت یکرہ الأذان والإقامۃ ولا یؤذن لصلاۃ قبل الوقت … وأجمعوا أن الإقامۃ قبل الوقت لا یجوز‘‘(۵)
علامہ کاسانی  ؒنے بدائع الصنائع میں بیان کیا ہے:
’’حتی لو أذن قبل دخول الوقت لا یجزئہ ویعیدہ إذا دخل الوقت في الصلوات کلہا في قول أبي حنیفۃ ومحمد (رحمہما اللّٰہ)‘‘(۱)

(۱) السرخسي، المبسوط ، ’’کتاب الصلاۃ، باب الأذان‘‘: ج ۱، ص: ۲۷۸۔
(۲) ابن عابدین، رد المحتار، ’’کتاب الصلاۃ: باب الأذان‘‘: ج ۲، ص: ۴۹، زکریا، دیوبند۔
(۳) ابن عابدین، مع رد المحتار، ’’کتاب الصلاۃ، باب الأذان: مطلب في المواضع التي یندب لہا الأذان في غیر الصلاۃ‘‘: ج ۲، ص: ۵۰۔
(۴) ابن نجیم، البحر الرائق، ’’کتاب الصلاۃ، باب الأذان‘‘: ج ۱، ص: ۴۵۶، ۴۵۷۔
(۵) عالم بن علاء، فتاویٰ تاتارخانیۃ، ’’کتاب الصلاۃ، الأذان نوع آخر في بیان الصلوات التي لہا أذان والتي لا أذان لہا، وفي بیان في أي حال یوتی بہا‘‘: ج ۱، ص: ۱۴۸۔
(۱) الکاساني، بدائع الصنائع في ترتیب الشرائع، ’’کتاب الصلاۃ، فصل في بیان وقت الأذان‘‘: ج ۱، ص: ۳۸۱۔

 

فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج4 ص163