نماز / جمعہ و عیدین

الجواب و باللہ التوفیق: بشرط صحت سوال اگر مقتدی نے امام کے ساتھ سلام نہیں پھیرا اور سوتا رہا اور جوں ہی بیدار ہو سلام پھیر دیا تو اس پر سجدہ سہو نہیں ہوگا۔(۱)(۱) وقولہ مع الإمام: بیان للأفضل یعنی الأفضل للمأموم المقارنۃ في التحریمۃ والسلام عند أبي حنیفۃ، وعندہما الأفضل عدمہا؛ للاحتیاط، ولہ أن الاقتداء عقد موافقۃ، وإنہا في القران لا في التأخیر، وإنما شبہ السلام بالتحریمۃ؛ لأن المقارنۃ في التحریمۃ باتفاق الروایات عن أبي حنیفۃ، وأما في السلام ففیہ روایتان، لکن الأصح ما في الکتاب، کما في الخلاصۃ۔ (ابن نجیم، البحر الرائق، ’’کتاب الصلاۃ: باب صفۃ الصلاۃ‘‘: ج ۱، ص: ۵۸۱)…ومنہا) أنہ لو سلم ساہیا أو قبلہ لایلزمہ سجود السہو، وإن سلم بعدہ لزمہ، کذا في الظہیریۃ، ہو المختار، کذا في جواہر الأخلاطي، وإن سلم مع الإمام علی ظن أن علیہ السلام مع الإمام فہو عمد فتفسد، کذا في الظہیریۃ۔ (جماعۃ من علماء الہند، الفتاویٰ الہندیۃ، ’’کتاب الصلاۃ: الباب الخامس: في الإمامۃ، الفصل السابع: في المسبوق واللاحق‘‘: ج ۱، ص: ۱۴۹)ولو أتمہ قبل إمامہ فتکلم جاز وکرہ۔ قولہ: (لو أتمہ إلخ) أي لو أتم المؤتم التشہد، بأن أسرع فیہ وفرغ منہ قبل إتمام إمامہ فأتي بما یخرجہ من الصلاۃ کسلام أو کلام أو قیام جاز: أي صحت صلاتہ؛ لحصولہ بعد تمام الأرکان؛ لأن الإمام وإن لم یکن أتم التشہد لکنہ قعد قدرہ؛ لأن المفروض من القعدۃ قدر أسرع ما یکون من قراء ۃ التشہد وقد حصل، وإنما کرہ للمؤتم ذلک؛ لترکہ متابعۃ الإمام بلا عذر، فلو بہ کخوف حدث أو خروج وقت جمعۃ أو مرور مار بین یدیہ فلا کراہۃ، کما سیأتي قبیل باب الاستخلاف، (قولہ: فلو عرض مناف) أي بغیر صنعہ کالمسائل الأثنی عشریۃ وإلا بأن قہقہ أو أحدث عمدا فلا تفسد صلاۃ الإمام أیضا کما مر۔ (الحصکفي، الدر المختار مع رد المحتار، ’’کتاب الصلاۃ: باب صفۃ الصلاۃ، مطلب: في خلف الوعید وحکم الدعاء بالمغفرۃ للکافر ولجمیع المؤمنین‘‘: ج ۲، ص: ۲۴۰)

فتاوى دار العلوم وقف ديوبند: ج 7، ص: 263

نماز / جمعہ و عیدین

الجواب و باللہ التوفیق: صورت مسئولہ میں طبعی عذر چھینک ڈکار وغیرہ کی وجہ سے جو تاخیر ہو رہی ہے اس سے سجدہ سہو لازم نہیں آتا۔(۳)(۳) أما مالا یمکن الامتناع عنہ فلا یفسد عند الکل کالمریض إذا لم یملک نفسہ من الأمین والتاؤہ لأنہ حینئذ کالعطاس والجشاء إذا حصل بہما حروف۔ (ابن نجیم، البحرالرائق، … ’’کتاب الصلاۃ: باب ما یفسد الصلاۃ وما یکرہ فیہا‘‘: ج ۲، ص: ۷)(والتنحنع) بحرفین (بلا عذر) أما بہ بأن نشأ من طبعہ فلا (أو) بلا (غرض صحیح) فلو لتحسین صوتہ أو یہتدی إمامہ للإعلام أنہ في الصلاۃ فلا فساد علی الصحیح …… قولہ: (إلا لمریض) قال في المعراج: ثم إن کان الأنین من وجع مما یمکن الإمتناع عنہ، فعن أبي یوسف یقطع الصلا، وإن کان مما لا یمکن لا یقطع۔ (الحصکفي، الدر المختار مع رد المحتار، ’’کتاب الصلاۃ: باب ما یفسد الصلاۃ: وما یکرہ فیہا، مطلب: المواضع التي لا یجب فیہا رد السلام‘‘: ج ۲، ص: ۳۷۶، تا ۳۷۸)

فتاوى دار العلوم وقف ديوبند: ج 7، ص: 262

نماز / جمعہ و عیدین

الجواب و باللہ التوفیق: نماز میں اگر ثنا چھوٹ جائے تو نماز نہ قابل اعادہ ہے اور نہ ہی کوئی فساد نماز میں آیا بلکہ صرف ترک سنت ہوا اگر بھول کر ہوا تو وہ معاف ہے اور اگر دانستہ ایسا  کیا تو اچھا نہیں کیا، بہر صورت سجدہ سہو واجب نہیں ہے۔(۱)اگر سورت ملانا بھول جائے تو سجدۂ سہو سے اس کی تلافی ہوجاتی ہے اور اگر سجدۂ سہو بھی نہیں کیا تو نماز واجب الاعادہ ہے ترک واجب کی بنا پر۔(۲)(۱) ولایجب بترک التعوذ والبسملۃ في الأولیٰ والثناء۔ (جماعۃ من علماء الہند، الفتاویٰ الہندیۃ، ’’کتاب الصلاۃ: الباب الثاني عشر: في سجود السہو‘‘: ج ۱، ص: ۱۸۵)(۲) لو قرأ الفاتحۃ وحدہا وترک السورۃ یجب علیہ سجود السہو۔ (أیضاً: ص: ۱۸۶)

فتاوى دار العلوم وقف ديوبند: ج 7، ص: 261

نماز / جمعہ و عیدین

الجواب و باللہ التوفیق: صورت مسئولہ میں اگر امام نے سجدۂ سہو کرلیا تو نماز درست ہوجائے گی اس لیے کہ قعدۂ اولیٰ واجب ہے فرض نہیں اور واجب کے ترک کی تلافی سجدۂ سہو سے ہوجاتی ہے۔(۱)(۱) ولا یجب السجود إلا بترک واجب، أو تاخیرہ، أو تاخیر رکن، أو تقدیمہ، أو تکرارہ، أو تغییر واجب بأن یجہر فیما یخافت وفي الحقیقۃ وجوبہ بشيء واحد وہو ترک الواجب کذا في الکافي۔ (جماعۃ من علماء الہند، الفتاویٰ الہندیۃ، ’’کتاب الصلاۃ: الباب الثاني عشر: في سجود السہو‘‘: ج ۱، ص: ۱۸۵)

فتاوى دار العلوم وقف ديوبند: ج 7، ص: 261

نماز / جمعہ و عیدین

الجواب و باللہ التوفیق: جس کی امام کے ساتھ کوئی رکعت چھوٹ جائے اس کو مسبوق کہتے ہیں، مسبوق اپنی چھوٹی ہوئی رکعت اسی طرح پوری کرتا ہے جس طرح کہ منفرد اپنی نماز پوری کرتا ہے، یعنی قرأت وغیرہ امور انجام دیتا ہے، اس میں کبھی سجدہ سہو کی بھی ضرورت پیش آجاتی ہے، پس مسبوق کے لیے سجدہ سہو ضروری نہیں ہے، لیکن اگر چھوٹی ہوئی رکعت کے پورا کرنے کے دوران ایسی غلطی ہوگئی جس پر سجدہ سہو واجب ہوتا ہے، تو مسبوق کو بھی سجدہ سہو کرنا پڑتا ہے۔’’(والمسبوق من سبقہ الإمام بہا أو ببعضہا وہو منفرد) حتی یثنی ویتعوذ ویقرأ، وإن قرأ مع الإمام لعدم الإعتداد بہا لکراہتہا مفتاح السعادۃ (فیما یقضیہ) أي: بعد متابعتہ لإمامہ، فلو قبلہا فالأظہر الفساد، ویقضی أول صلاتہ في حق قراء ۃ، وآخرہا في حق تشہد؛ (في الشامیہ)، ویلزمہ السجود إذا سہا فیما یقضیہ کما یأتي، وغیر ذلک مما یأتي متنا وشرحا‘‘(۱)(۱) الحصکفي، الدر المختار مع رد المحتار، ’’کتاب الصلاۃ: باب الإمامۃ، مطلب: فیما لو أتی بالرکوع والسجود أو بہما مع الإمام أو قبلہ أو بعدہ‘‘: ج ۲، ص: ۳۴۶، ۳۴۷۔

فتاوى دار العلوم وقف ديوبند: ج 7، ص: 259

نماز / جمعہ و عیدین

الجواب و باللہ التوفیق: اگر امام صاحب کچھ نہیں بولے تھے بلکہ سن کر چپ چاپ چوتھی رکعت کے لئے کھڑے ہوئے اور ایسے ہی جو مقتدی نہیں بولے بلکہ چپ چاپ امام کے ساتھ کھڑے ہوکر چوتھی رکعت پوری کرلی تو ان سب کی نماز ہوگئی اور جو مقتدی بولے اور بات کی ان کی نماز نہیں ہوئی ان پر اعادہ لازم اور فرض ہے۔(۱)(۱) (سلم مصلي الظہر) مثلا (علی) رأس (الرکعتین توہما) إتمامہا (أتمہا) أربعا (وسجد للسہو) لأن السلام ساہیا لایبطل لأنہ دعاء في وجہ۔ (الحصکفي، الدر المختار مع رد المحتار، ’’کتاب الصلاۃ: باب سجود السہو‘‘: ج ۲، ص: ۵۵۹)

فتاوى دار العلوم وقف ديوبند: ج 7، ص: 259

نماز / جمعہ و عیدین

الجواب و باللہ التوفیق: سجدہ سہو اس صورت میں بھی کرنا درست ہے۔(۲)(۲) وقیل: یأتی بالتسلیمتین، وہو اختیار شمس الأئمۃ وصدر الإسلام أخی فخر الإسلام، وصححہ في الہدایۃ والظہیریۃ والمفید والینابیع، کذا في شرح المنیۃ، قال في البحر: وعزاہ أي: الثاني في البدائع إلی عامتہم الخ۔ (ابن عابدین، رد المحتار، ’’کتاب الصلاۃ: باب سجود السہو‘‘: ج ۲، ص: ۵۴۰) ویأتي بالصلاۃ علی النبي صلی اللّٰہ علیہ وسلم والدعاء في القعود الأخیر في المختار، وقیل: فیہما احتیاطاً۔ (الحصکفي، الدر المختار مع رد المحتار، ’’کتاب الصلاۃ: باب سجود السہو‘‘: ج ۲، ص: ۵۴۲)ولم یذکر حکم الصلاۃ علی رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم في القعدتین …والأدعیۃ للاختلاف، فصحح في البدائع والہدایۃ أنہ یأتي بالصلاۃ والدعاء في قعدۃ السہو لأن الدعاء موضعہ آخر الصلاۃ، ونسبۃ الأول إلی عامۃ المشایخ بما وراء النہر وقال: فخر الإسلام: إن اختیار عامۃ أہل النظر من مشایخنا وہو المختار عندنا، واختار الطحاوي أنہ یأتي بہا فیہا، وذکر قاضي خان وظہیر الدین أنہ الأحوط وجزم بہ في منیۃ المصلي في الصلاۃ ونقل الاختلاف في الدعاء، وقیل: إنہ یأتي بہا في الأول فقط وصححہ الشارح معزیا إلی المفید؛ لأنہا للختم۔ (ابن نجیم، البحر الرائق، ’’کتاب الصلاۃ: باب سجود السہو‘‘: ج ۲، ص: ۱۶۵)

فتاوى دار العلوم وقف ديوبند: ج 7، ص: 258

نماز / جمعہ و عیدین

الجواب و باللہ التوفیق: مذکورہ صورت میں اس مقتدی کو کھڑے ہونے کے بعد بھی لوٹ کر امام کے ساتھ شریک ہوجانا چاہئے تھا اس سے اس کی نماز درست ہوجاتی مگر وہ امام کے ساتھ سجدہ سہو میں شریک نہیں ہوا بلکہ کھڑے ہوکر اپنی نماز پوری کرلی اس امام کے ساتھ نمازکے ایک جز میں شرکت ختم ہوگئی جس کی وجہ سے اس کی نماز درست نہیں ہوئی اس نماز کا اعادہ اس پر ضروری ہوگا۔(۱)

(۱) (والمسبوق یسجد مع إمامہ مطلقاً) سواء کان السہو قبل الاقتداء أو بعدہ (ثم یقضي مافاتہ) ولو سہا فیہ سجد ثانیاً۔قولہ: (ولو سہا فیہ) أي فیہا: بقضیۃ بعد فراغ الإمام یسجد ثانیا لأنہ منفرد فیہ والمنفرد یسجد لسہوہ وإن کان لم یسجد مع الإمام لسہوہ ثم سہا ہو أیضا کفتہ سجدتان عن السہوین لأن السجود لایتکرر۔ (الحصکفي، الدر المختار مع رد المحتار، ’’کتاب الصلاۃ: باب سجود السہو‘‘: ج ۲، ص: ۵۴۶، ۵۴۷)(۲) وقیل: یأتی بالتسلیمتین، وہو اختیار شمس الأئمۃ وصدر الإسلام أخی فخر الإسلام، وصححہ في الہدایۃ والظہیریۃ والمفید والینابیع، کذا في شرح المنیۃ، قال في البحر: وعزاہ أي: الثاني في البدائع إلی عامتہم الخ۔ (ابن عابدین، رد المحتار، ’’کتاب الصلاۃ: باب سجود السہو‘‘: ج ۲، ص: ۵۴۰)

فتاوى دار العلوم وقف ديوبند: ج 7، ص: 257

نماز / جمعہ و عیدین

الجواب و باللہ التوفیق: تشہد ابن مسعود واجب نہیں؛ بلکہ اولیٰ ہے اور بعض تشہدات میں بسم اللہ بھی منقول ہے۔ لہٰذا سجدہ سہو کا وجوب صورت مسئولہ میںنہ ہوگا، البتہ ایسا کرنا اچھا نہیںہے۔(۲)(۲) تشہد ابن مسعود رضي اللّٰہ عنہ واجب نہیں بلکہ اولی ہے پس اگر تشہد دوسرے طریق مرویہ کے مطابق پڑھ لے تو یہ بھی جائز ہے اور بعض طرف میں بسم اللہ کی زیادتی بھی ہے لہٰذا سجدہ سہو تو نہ ہوگامگر ایسا کرنا اچھا نہیں اب اگر محض بسم اللہ زیادہ کیا تو جائز تکونہ وارداً اور اگر بسم اللہ الرحمن الرحیم زیادہ کیا تو اسمیں کراہت تنزیہی ہوگی لکونہ غیر وارد اور سجدہ سہو نہ ہوگا لکنہ زیادۃ في التشہد لا علی التشہد واللہ اعلم۔ وفی شرح معنی الآثار۔حدثا أبوبکرۃ قال ثنا ابو عاصم قال ثنا ابن جریج قال قلت لنافع کان ابن عمر رضي اللّٰہ عنہا بتشہد قال کان قول بسم اللّٰہ استحیان للہ والصلوات للّٰہ والزاکیات للّٰہ السلام علیک ایہا النبي ورحمۃ اللّٰہ وبرکاتہ السلام علینا وعلی عباد اللّٰہ الصالحین ثم بتشہد فیقول شہدت ان لا الہ الا اللّٰہ شہدت ان محمد رسول اللّٰہ کتاب الصلاۃ باب التشہد في الصلاۃ کیف ہو، ج۱، ص: ۲۶۱، ط: عالم الکثیر۔وفي حاشیۃ الطحطاوي علی مراقي الفلاح۔ ذکرہا الجلال السیوطي في الدر المنثور بالفاظ مختلفۃ قولہ أن یقول اللہم الخ، ذکر السیوطي ان دعاء القنوت من جملۃ الذي انزلہ اللّٰہ علی النبي صلی اللّٰہ علیہ وسلم وکانا سورتین کل سورۃ ببسملۃ وفواصل إحداہما تسمی سورۃ الخلع وہي بسم اللّٰہ الرحمن الرحیم اللہم إنا نستعینک إلی قولہ من بلفرک والاخری تسمی سورۃ الہذ وہي بسم اللّٰہ الرحمن الرحیم اللہم إیاک بعبد إلی ملحق باب الوتر وأحکامہ۔ (أحمد بن إسماعیل، حاشیۃ الطحطاوي، ’’کتاب الصلاۃ: باب سجود السہو‘‘: ص: ۳۷۸)وفي بدائع الصنائع في ترتیب الشرائع ویکرہ أن یقرأ في غیر حال القیام لأنہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم نہي عن القراء ۃ في الرکوع والسجود وقال إمام الرکوع یعظموا فیہ الرب وأما السجود فالشرو فیہ عن الدعا، فإنہ فمن أن یستجالکم فصل بیان ما تستحب في الصلاۃ وما یکرہ۔ (الکاساني، بدائع الصنائع في ترتیب الشرائع، ’’کتاب الصلاۃ: باب سجود السہو‘‘: ج ۱، ص: ۲۱۵)

فتاوى دار العلوم وقف ديوبند: ج 7، ص: 256

نماز / جمعہ و عیدین

الجواب و باللہ التوفیق: در مختار میں ایک قول کی بنا پر یہ ہے کہ اگر دونوں طرف سلام پھیر دیا تو سجدہ سہو ساقط ہوگیا مگر یہ قول مفتی بہ نہیں ہے؛ بلکہ فتویٰ اس پر ہے کہ سجدہ سہو کے لیے  اصل سلام تو ایک ہی طرف پھیرے لیکن اگر کسی وجہ سے دونوں طرف پھیر دیا تب بھی سجدہ سہو کرسکتا ہے اعادہ اس کا واجب نہیں ہے۔’’لکن الأحوط الاحتراز عن التسلیمتن خروجا من الخلاف فقط قال بعض من قال بتسلیمۃ واحدۃ فقط لسقوطہ بہما قال قلت وعلیہ فیجب ترک التسلیمۃ الثانیۃ‘‘(۱)(۱) ابن عابدین، الدر المختار مع رد المحتار، ’’‘‘: ج ۱، ص: ۷۷۳۔والصواب أن یسلم تسلیمۃ واحدۃ وعلیہ الجمہور وإلیہ إشار في الأصل، کذا في الکافي ویسلم عن یمینہ، کذا في الزاہدي وکیفیۃ أن یکبر بعد سلامہ الأوّل ویخر ساجداً ویسبح في سجودہ ثم یفعل ثانیا کذلک ثم یتشہد ثانیاً ثم یسلم، کذا في المحیط۔ (جماعۃ من علماء الہند،…  الفتاویٰ الہندیۃ، ’’کتاب الصلاۃ: الباب  الثاني عشر: في سجود السہو‘‘: ج ۱، ص: ۱۸۵)

فتاوى دار العلوم وقف ديوبند: ج 7، ص: 255