Frequently Asked Questions
اسلامی عقائد
الجواب وباللّٰہ التوفیق:اگر قبر کھودی گئی اور اس میں میت کی تدفین عمل میں نہ آسکے تو قبر کو بند کردیا جائے، اس میں مٹی بھر کر جگہ کو ہموار کردیا جائے۔ یہ عقیدہ رکھنا کہ خالی قبر کو بند نہیں کرسکتے اور اس میں کسی چیز کے دفن کرنے کو ضروری سمجھنا غلط ہے، اور ایسے عقیدہ کا ترک کرنا ضروری ہے۔ (۱) جو مرغ اس قبر میں دفن کیا گیا یہ مال کا ضائع اور ہلاک کرنا ہوا، یہ بھی شرعاً جائز نہیں ہے۔ (۲) صورت مسئولہ میں توبہ واستغفار لازم ہے۔ (۳)
(۱) عن عائشۃ رضي اللّٰہ عنہا، قالت: قال رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم من أحدث في أمرنا ہذا ما لیس منہ فہو ردٌّ، متفق علیہ۔ (مشکوٰۃ المصابیح، ’’کتاب الإیمان: باب الاعتصام بالکتاب والسنۃ، الفصل الأول‘‘: ج ۱، ص: ۲۷، رقم: ۱۴۰)
(۲) وإن إضاعۃ المال والتبذیر بأي وجہ کان کالرشوۃ والقمار والربوا وغیر ذلک حرام إجماعاً، قال اللّٰہ تعالیٰ: {إِنَّ الْمُبَذِّرِیْنَ کَانُوْا إِخْوَانَ الشَّیَاطِیْنَ} (المظہري، ’’سورۃ البقرۃ: ۲۱۹‘‘: ج ۱، ص: ۲۶۹)
(۳) {ثُمَّ یَسْتَغْفِرِ اللّٰہَ یَجِدِ اللّٰہَ غَفُوْرًا رَّحِیْمًاہ۱۱۰} (سورۃ النساء: ۱۱۰)
فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج1ص524
طلاق و تفریق
Ref. No. 2590/45-4088
بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ بشرط صحت سوال صورت مذکورہ میں کوئی طلاق واقع نہیں ہوئی۔ البتہ آئندہ اس طرح کے کلمات بولنے میں احتیاط کریں تاکہ کوئی دشواری کا سامنا نہ کرنا پڑے۔
وَلَوْ قَالَ لَهَا لَا نِكَاحَ بَيْنِي وَبَيْنَك أَوْ قَالَ لَمْ يَبْقَ بَيْنِي وَبَيْنَك نِكَاحٌ يَقَعُ الطَّلَاقُ إذَا نَوَى۔ (الفتاویٰ الہندیۃ : ۱؍۳۷۵)
وَالْقَوْلُ قَوْلُ الزَّوْجِ فِي تَرْكِ النِّيَّةِ مَعَ الْيَمِينِ۔ (الفتاویٰ الہندیۃ : ١/٣٧٥)
واللہ اعلم بالصواب
دارالافتاء
دارالعلوم وقف دیوبند
طہارت / وضو و غسل
الجواب وباللہ التوفیق:جب کوئی اور نجاست مرغی کے اوپر ظاہر نہ ہو، تو چالیس سے پچاس ڈول تک نکالنے سے کنواں پاک ہو جائے گا۔(۱)
(۱) و إذا وقعت فیھا دجاجۃ أو سنور نزح منھا أربعون (النتف في الفتاویٰ،مطلب في السؤر۔ص:۱۰)؛ دجاجۃ وقعت في بئر فماتت قال: ینزح منھا قدر أربعین دلواً أو خمسین دلوا ثم یتوضأ منھا۔ (اللباب في الجمع بین السنۃ۔ باب إذا وقع في البئر حیوان،ج۱، ص:۹۲)؛ و قال في الدجاجۃ: إذا ماتت في البئر نزح منھا أربعون دلوا و ھذا لبیان الإیجاب۔ والخمسون بطریق الاستحباب۔(ابن الھمام، فتح القدیر، کتاب الطہارۃ، فصل في البئر، ج۱،ص:۱۰۹)
فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج2ص480
طہارت / وضو و غسل
الجواب وباللّٰہ التوفیق:آج کل جو بالوں کو مختلف رنگوں سے رنگا اور خضاب لگایا جاتا ہے، وہ دو طرح کا ہوتا ہے ایک یہ کہ وہ خضاب ذی جرم ہوتا ہے، جس کی پرتیں ہوتی ہیں جو بالوں پر جم جاتی ہیں اور پانی کے بالوں تک پہنچنے میں مانع (رکاوٹ)ہے؛ ایسے خضاب پر نہ تو مسح درست ہوگا اور نہ ہی غسل صحیح ہوگا۔
دوسری قسم کا خضاب جوصرف رنگ ہوتا ہے، اس میں کوئی جرم نہیں ہوتا جیسے کہ مہندی لگانے کے بعد بالوں کا رنگ بدل جاتا ہے؛ لیکن اس کی وجہ سے بالوں پر کوئی پرت نہیں جمتی ہے، اس صورت میں وضو اور غسل درست ہوگا۔(۱)
(۱)إن کان ممضوغاً مضغاً متأکداً، بحیث تداخلت أجزاء ہ و صار لزوجۃ و علاکۃ کالعجین۔ شرح المنیۃ۔ قولہ: وھو الأصح صرح بہ في شرح المنیۃ و قال: لإمتناع نفوذ الماء مع عدم الضرورۃ والحرج۔ (ابن عابدین، رد المحتار، ’’کتاب الطہارۃ، مطلب في أبحاث الغسل‘‘ج۱، ص:۲۸۹)؛ والخضاب إذا تجسد و یبس یمنع تمام الوضوء والغسل۔ (جماعۃ من علماء الہند، الفتاویٰ الہندیۃ، ’’کتاب الطہارۃ، الباب الأول في الوضوء والفرض الثاني، غسل الیدین،‘‘ج۱،ص۵۴)؛ أو کان فیہ یعني المحل المفروض غلسہ ’’ما‘‘ أي شيء ’’یمنع الماء‘‘ أن یصل إلی الجسد کعجین و شمع و رمص بخارج العین بتغمیضھا ’’وجب‘‘ أي افترض ’’غسل ماتحتہ‘‘ بعد إزالۃ المانع۔ (طحطاوي، حاشیۃ الطحطاوي، ’’کتاب الطہارۃ، فصل في تمام أحکام الوضوء،‘‘ ج۱،ص:۶۳)
فتاوی ٰ دارالعلوم وقف دیوبند ج3 ص147
طہارت / وضو و غسل
الجواب وباللّٰہ التوفیق:صورت مذکورہ میں آپ کا وضو ٹوٹ جائے گا کیوں کہ پائپ نجاست کے مقام میں داخل ہوتا ہے جس سے پائپ پر کچھ نجاست لگ ہی جاتی ہے اور سبیلین سے ذرا سی بھی نجاست کا نکلنا ناقض وضو ہے۔
عالمگیری میں ہے:
’’إذا خرج دبرہ إن عالجہ بیدہ أو بخرقۃ حتی أدخلہ تنتقض طہارتہ لأنہ یلتزق بیدہ شيء من النجاسۃ‘‘(۱)
اسی طرح البحر الرائق میں ہے:
’’وفي التوشیع: باسوري خرج من دبرہ فإن عالجہ بیدہ أو بخرقۃ حتی أدخلہ تنتقض طہارتہ لأنہ یلتزق بیدہ شيء من النجاسۃ‘‘(۲)
(۱) جماعۃ من علماء الہند، الفتاویٰ الہندیۃ، ’’کتاب الطہارۃ: الباب الأول في الوضوء، الفصل الخامس في نواقض الوضوء‘‘: ج ۱، ص: ۶۰۔
(۲) ابن نجیم، البحر الرائق، ’’کتاب الطہارۃ‘‘: ج ۱، ص: ۶۱۔
فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج3 ص250
طہارت / وضو و غسل
الجواب وباللّٰہ التوفیق:آپریشن میں جو خون نکلتا ہے اس سے غسل واجب نہیں ہوتا ہے؛ بلکہ وضو کر لینا کافی ہے آپریشن کوئی بھی ہو اس سے غسل واجب نہیں ہوتا ہے۔
’’قال رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم الوضوء من کل دم سائل‘‘(۱)
’’و (ینقض الوضوء) الدم والقیح إذا خرجا من البدن فتجاوزا إلی موضع یلحقہ حکم التطہیر‘‘(۲)
(۱) أخرجہ الدار قطني، في سننہ، ’’کتاب الطہارۃ: باب في الوضوء من الخارج‘‘: ج ۱، ص: ۲۸۷۔(بیروت: دارابن حزم، لبنان)
(۲) المرغیناني، الہدایۃ، ’’کتاب الطہارات: فصل في نواقض الوضوء‘‘: ج ۱، ص: ۱۷۔
فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج3 ص341
نماز / جمعہ و عیدین
الجواب وباللّٰہ التوفیق: (۱) نجدیوں کے بارے میں جو بات آپ نے لکھی ہے اگر واقعی ایسا ہے تو ان کو عاصی اور گنہگار تو کہا جاسکتا ہے، لیکن کافر کہنا گناہ ہوگا، اس لیے کہ جو کافر نہ ہو اس کو کافر کہنا بہت بڑا گناہ ہے احادیث میں اس پر سخت وعید وارد ہوئی ہے۔(۱) نجدی عبدالوہاب نجدی کے پیروکار ہیں اور اس کے عقائد غیر مقلدوں سے ملتے جلتے ہیں اگرچہ وہ اپنے کو حنبلی یعنی امام احمد بن حنبل کے پیرو کار کہتے ہیں۔ بہر حال ان پر کفر کا فتویٰ لگانا حماقت ہے ان کے پیچھے نماز ہوجاتی ہے۔
(۲) مفتی کے لیے ضروری ہے کہ وہ اچھا عالم ہو فقہ اور قانون اسلامی کی کتابیں اس نے پڑھی ہوں حالات زمانہ اور عرف سے واقفیت رکھتا ہو۔ جو صرف حافظ ہو اس کو فتویٰ دینے کا حق نہیں ہے اور اس سے فتویٰ لینا بھی درست نہیں ہے جو مسلمانوں کے عقائد خراب کرتا ہے اور ان میں فساد کراتا ہے یا اختلاف پیدا کرتا ہے یا اس کی کوشش کرتا ہے وہ اس بات کا اہل نہیں کہ اس کو امام رکھا جائے اس کو الگ کردینا ہی مناسب ہے۔(۲)
(۱) لایرمی رجل رجلا بالفسوق ولایرمیہ بالکفر إلا ارتدت علیہ إن لم یکن صاحبہ کذلک، (أخرجہ البخاری في صحیحہ، ’’کتاب الأدب، باب ماینہی عن السباب واللعن‘‘:ج۲، ص: ۸۹۳، رقم ۶۰۴۵)
(۲) وقد رأیت في فتاویٰ العلامۃ ابن حجر سئل في شخص یقرأ ویطالع في الکتب الفقہیۃ بنفسہ ولم یکن لہ شیخ ویفتی ویعتمد علی مطالعتہ في الکتب فہل یجوز لہ ذلک ام لا، فأجاب بقولہ: لایجوز لہ الافتاء بوجہ من الوجوہ، (شرح عقود رسم المفتی، ص: ۴۴، المکتبۃ العبدیۃ)
عن ابن مسعود قال: قال رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم ثلاثۃ لایقبل اللّٰہ منہم صلاۃ، من تقدم قوما وہم لہ کارہون۔ (أخرجہ أبوداؤد، في سننہ، ’’کتاب الصلاۃ، باب الرجل یؤم القوم وہم لہ کارہون‘‘:ج۱، ص: ۸۲، رقم: ۵۹۳)
فتاویٰ دارالعلوم وقف دیوبند ج5 ص327
نماز / جمعہ و عیدین
الجواب وباللہ التوفیق: خطبہ شروع ہونے کے بعد اگر کوئی آئے تو اس کو جہاں جگہ بآسانی ملے وہیں بیٹھ جائے لوگوں کی گردنوں کو پھلانگتے ہوئے اور صفوں کو چیرتے ہوئے آگے پہنچنا مکروہ ہے، اس سے احتراز کرنا چاہئے۔(۱)
(۱) عن سہل بن معاذ بن انس الجھني، عن أبیہ، قال: قال رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم: '' من تخطی رقاب الناس یوم الجمعۃ اتخذ جسرا إلی جہنم۔ (أخرجہ الترمذي، في سننہ، ’’أبواب الجمعۃ، کتاب الجمعۃ عن رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم، باب ما جاء في کراہیۃ التخطي یوم الجمعۃ‘‘: ج ۲، ص: ۹۷، رقم: ۵۱۳)
ولا یتخطی رقاب الناس للدنو من الإمام وذکر الفقیہ أبو جعفر عن أصحابنا رحمہم اللہ تعالٰی أنہ لا بأس بالتخطی ما لم یأخذ الإمام في الخطبۃ ویکرہ إذا أخذ؛ لأن للمسلم أن یتقدم ویدنوا من المحراب إذا لم یکن الإمام في الخطبۃ لیتسع المکان علی من یجيء بعدہ وینال ……فضل القرب من الإمام فإذا لم یفعل الأول فقد ضیع ذلک المکان من غیر عذر فکان للذي جاء بعدہ أن یأخذ ذلک المکان، وأما من جاء والإمام یخطب فعلیہ أن یستقر في موضعہ من المسجد؛ لأن مشیہ وتقدمہ عمل في حالۃ الخطبۃ، کذا في فتاوی قاضي خان۔ (جماعۃ من علماء الہند، الفتاویٰ الہندیۃ، ’’کتاب الصلاۃ، الباب السادس عشر في صلاۃ الجمعۃ‘‘: ج۱، ص: ۱۲۱)
فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج5 ص444
نماز / جمعہ و عیدین
الجواب وباللہ التوفیق: اگر پہلی نماز کسی فرض وغیرہ کے چھوٹنے سے باطل ہوگئی اور دوبارہ نماز پڑھی جا رہی ہے، تو اس میں وہ بھی شریک ہوسکتے ہیں جو پہلی نماز میں شریک نہیں تھے، لیکن اگر پہلی نماز کسی واجب وغیرہ کے چھوٹنے سے فاسد ہوئی ہے، تو دوسری نماز میں اس کی شرکت درست نہیں جو پہلی نماز میں شریک نہیں تھا اور اگر یہ تفصیل معلوم ہی نہ ہو، تو بھی اس دوسری نماز جماعت میں شرکت کافی نہیں ہے الگ سے نماز پڑھی جائے۔(۱)
(۱) والمختار أن المعادۃ لترک واجب نفل جابر والفرض سقط بالأولیٰ لأن الفرض لایتکرر کما في الدر۔ (أحمد بن محمد، حاشیۃ الطحطاوي علی مراقي الفلاح، ’’کتاب الصلاۃ: فصل في بیان واجب الصلاۃ‘‘: ص: ۲۴۸، مکتبہ شیخ الہند دیوبند)
فتاویٰ دارالعلوم وقف دیوبند ج6 ص57
نماز / جمعہ و عیدین
الجواب وباللّٰہ التوفیق: کچھا پاک ہو تو نماز کچھے میں ادا ہوجاتی ہے البتہ اگر وہ اتنا سخت اور ٹائٹ ہے کہ نماز کے رکوع وسجدہ میں تنگی ہوتی ہے تو ایسے کچھے میں نماز مکروہ ہے۔(۱)
(۱) وتکرہ بحضرۃ کل مایشغل البال کزینۃ وبحضرۃ ما یخل بالخشوع کلہو ولعب ولذا نہی النبي صلی اللّٰہ علیہ وسلم عن الإتیان للصلاۃ سعیا بالہرولۃ۔ (أحمد بن محمد، حاشیۃ الطحطاوي علی المراقي، ’’کتاب الصلاۃ، فصل في المکروہات‘‘: ص: ۳۶۰)
والجائز من غیر کراہۃ أن یصلي في ثوب واحد متوشحا أو قمیص ضیق لوجود ستر العورۃ واصل الزینۃ والمکروہ أن یصلي في سراویل أو إزار لاغیر۔ (فخر الدین عثمان بن علي، تبیین الحقائق، ’’باب مایفسد الصلاۃ الخ‘‘: ج۱، ص: ۱۶۲)
فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج6 ص183