اسلامی عقائد

Ref. No. 986/41-147

الجواب وباللہ التوفیق 

بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔  نام و نمود سے بچتے ہوئے اپنی حیثیت کے مطابق بچی کو منگنی کے موقع پر خوشی کی وجہ سے کچھ ہدیہ کے طور پر دینا ، ایسے ہی شادی کے موقع پر ضرورت کا سامان دینا جائز ہے، اور اس کا لینا بھی جائز ہے۔ لیکن لڑکے والوں کا جہیز یا تلک کا مطالبہ کرنا یا نام و نمود کی خاطر یا اپنی حیثیت سے زیادہ محض معاشرتی دباؤ کی وجہ سے جہیز یا تلک  کے طور پر دینا شرعا جائز نہیں ہے۔ اور لڑکے والوں کا لڑکی والوں کو جہیز پر مجبورکرنا قطعا جائز نہیں ہے۔ ایسی شادی جس میں مال مقصود ہو مزید تنگدست بنادے گی۔ حدیث میں ہے: من تزوج لمالھا لم یزدہ الا فقرا۔

لہذا آپ کو چاہئے کہ اس سے بہرصورت بچیں، کیونکہ جس عمل سے خالق ناراض ہوں اس میں مخلوق کی اطاعت جائز نہیں چاہے وہ والدین ہی کیوں نہ ہوں۔ اور اگر والدین مذکورہ صورت میں ہی نکاح پر بضد ہوں تو بعد میں آپ اُسے لوٹادیں۔ (نظام الفتاوی 2/156)۔ اخذ اھل المراۃ عندالتسلیم فللزوج ان یستردہ لانہ رشوۃ (فتاوی دارالعلوم دیوبند، مائل جہیز 8/364)  ۔

واللہ اعلم بالصواب

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند

ربوٰ وسود/انشورنس

Ref. No. 1091/42-280

الجواب وباللہ التوفیق     

بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔  اس طرح ہوم لون لینے کی گنجائش معلوم ہوتی ہے کیونکہ بینک سے حاصل شدہ سود کی رقم  وہ شخص لون کی وجہ سے لازم ہونے والے سود کی رقم میں ادا کررہا ہے اور بینک بھی ایک ہی ہے۔ البتہ اگر شدید مجبوری نہ ہو تو ہوم لون سے احتراز کرنا چاہئے۔ (نظام الفتاوی)

واللہ اعلم بالصواب

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند

نماز / جمعہ و عیدین

Ref. No. 1315/42-681

الجواب وباللہ التوفیق

بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ مذکورہ طریقہ سے چھوٹی ہوئی رکعتیں پڑھنا بھی درست ہے، اس میں کوئی حرج نہیں ہے۔افضل  طریقہ یہ ہے کہ ایک رکعت پڑھ کر بیٹھ جائے ، تشہد پڑھے، پھر تیسری رکعت پڑھے اور نماز پوری کرے۔

وأما وجوب القعدة بعد قضاء الأوليين من الركعتين اللتين سبق بهما فنقول القياس أن يقضي الركعتين ثم يقعد إلا أنا استحسنا وتركنا القياس بالأثر وهو ما روي أن جندبا ومسروقا ابتليا بهذا فصلى جندب ركعتين ثم قعد وصلى مسروق ركعة ثم قعد ثم صلى ركعة أخرى فسألا ابن مسعود عن ذلك فقال كلاكما أصاب ولو كنت أنا لصنعت كما صنع مسروق، وإنما حكم بتصويبهما لما أن ذلك من باب الحسن – الی - وأما حكم القراءة في هذه المسألة فنقول: إذا أدرك مع الإمام ركعة من المغرب ثم قام إلى القضاء يقضي ركعتين ويقرأ في كل ركعة بفاتحة الكتاب وسورة. (بدائع، فصل الکلام فی مسائل السجدات یدور علی اصول 1/249)

ثم قضى أي المأموم الركعتين بتشهدين، لما قدمنا من أن المسبوق يقضي آخر صلاته من حيث الأفعال، فمن هذه الحيثية ما صلاه مع الإمام آخر صلاته، فإذا أتى بركعة مما عليه كانت ثانية صلاته فيقعد ثم يأتي بركعة ويقعد (ردالمحتار، واجبات الصلوۃ-  1/466)

 واللہ اعلم بالصواب

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند

اسلامی عقائد

Ref. No. 1452/42-911

الجواب وباللہ التوفیق

بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ یتیم بچوں کی اعانت  کرنے میں کوئی حرج نہیں ہے۔ایسا کرنا جائز ہے۔

واللہ اعلم بالصواب

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند

اسلامی عقائد
DewaCash merupakan daftar situs agen idn slot and poker online terpercaya. Daftar Dewa Cash link judi terbaik and dapatkan bonus menarik, Minimal deposit Rp.10.000 http://bb-9ku.top

مساجد و مدارس

Ref. No. 2169/44-2275

بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ اگر مدرسہ والے سرکاری محکمہ سے  اس کی اجازت  لے لیں تو ایسا کرنا درست ہوگا،  ورنہ اس سے احتراز کیاجائے۔  فریج صحیح ہے یا خراب وہ بہر حال سرکار کی پراپرٹی ہے، کسی دوسرے کے لئے اس کا ذاتی استعمال بغیر اجازت کے جائز نہیں ہے۔ 

واللہ اعلم بالصواب

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند

 

اسلامی عقائد

الجواب وباللّٰہ التوفیق:قبر پر پہونچنے پر معلوم ہوتا ہے۔ نیز یہ بھی پتہ چلتا ہے کہ کون رشتہ دار ہے۔(۱)

(۱) اعلم أن مسئلۃ سماع الموتی وعدمہ من المسائل التی وقع الخلاف فیہا بین الصحابۃ رضي اللّٰہ تعالیٰ عنہم فہذا عبد اللّٰہ بن عمر رضي للّٰہ تعالیٰ عنہما یثبت سماع الموتیٰ وہذہ أم المؤمنین عائشۃ رضي اللّٰہ عنہا تنفیہ وإلی کل مالت طائفۃ من علماء الصحابۃ والتابعین۔ (أشرف علي تھانوي، أحکام القرآن: ج ۱، ص: ۱۶۳)
وقال ابن القیم رحمہ اللّٰہ: الأحادیث والأثار تدل علی أن الزائر متی جاء علم بہ المزور سمع سلامہ، وأنس بہ ورد علیہ، وہذا عام في الشہداء، وغیرہم۔ وأنہ لا توقیت في ذلک قال: وأصح من أثر الضحاک الدال علی التوقیت۔ (حاشیۃ الطحطاوي علی مراقي الفلاح، ’’کتاب الصلوٰۃ: فصل في زیارۃ القبور‘‘: ص: ۶۲۰)
قولہ وقال: قال رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم: ما من أحد یمر بقبر أخیہ المؤمن کان یعرفہ في الدنیا فیسلم علیہ إلا عرفہ ورد علیہ السلام۔ (’’أیضاً:‘‘، ص: ۶۲۱)


فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج1ص413

اسلامی عقائد

Ref. No. 2392/44-3623

بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ حج وعمرہ کے لئے احرام باندھنا شرط ہے، اور یہ ایسا ہی ہے جیسے نماز کے لئے تکبیر تحریمہ، اس لئے احرام باندھتے وقت حج یا عمرہ کی نیت کرنے کے بعد تلبیہ پڑھنا یا اس کے قائم مقام کوئی ذکر کرنا فرض ہے، صرف نیت کرنے سے یا صرف تلبیہ پڑھنے سے آدمی محرم نہیں ہوتاہے، بلکہ نیت کے ساتھ تلبیہ یا بطور تعظیم کوئی ذکر مثلا لاالہ الا اللہ ، سبحان اللہ، الحمد للہ وغیرہ کہنا ضروری ہے، اس کے بغیر آدمی محرم نہیں ہوگا۔ اگر اسی حالت میں میقات میں داخل ہوا تو اس پر دم لازم ہوگا، البتہ اگر محرم احرام باندھتے وقت تلبیہ پڑھنا بھول جائےاور بعد میں میقات میں داخل ہونے سے پہلے تلبیہ پڑھ لے یا کوئی ذکر کرلے تو اس کا احرام درست ہوجائے گا، اور دَم لازم نہ ہوگا۔ اس لئے صورت مسئولہ میں اگر آپ نے نہ تلبیہ پڑھا اور نہ کوئی ذکر کیا جو اس کے قائم مقام ہو تو حج درست نہ ہو گا۔

واللہ اعلم بالصواب

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند

 

متفرقات

Ref. No. 2519/45-3851

بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ انسان اپنےجسم اور اعضاء  کاامین ہے،  مالک نہیں  ہے کہ جیسا چاہے ویسا تصرف کرسکے، اس لیے اپنےکسی عضو کو ہبہ کرنا یا بعد مرنے کے دوسرے کو دینے کی وصیت کرنا  وغیرہ امورجائز نہیں ہیں۔ لہذا کسی انسانی عضوکا دوسرے انسان کے جسم میں استعمال کرنا خواہ معاوضہ کے ساتھ ہو یا بغیر معاوضہ کے ہو ، جائز نہیں ہے۔

"وَأَمَّا حُكْمُهَا فَوُجُوبُ الْحِفْظِ عَلَى الْمُودَعِ وَصَيْرُورَةُ الْمَالِ أَمَانَةً فِي يَدِهِ وَوُجُوبُ أَدَائِهِ عِنْدَ طَلَبِ مَالِكِهِ، كَذَا فِي الشُّمُنِّيِّ".

(4/338، کتاب الودیعہ، ط؛رشیدیہ)

"وَالْآدَمِيُّ مُحْتَرَمٌ بَعْدَ مَوْتِهِ عَلَى مَا كَانَ عَلَيْهِ فِي حَيَاتِهِ. فَكَمَا يَحْرُمُ التَّدَاوِي بِشَيْءٍ مِنْ الْآدَمِيِّ الْحَيِّ إكْرَامًا لَهُ فَكَذَلِكَ لَا يَجُوزُ التَّدَاوِي بِعَظْمِ الْمَيِّتِ. قَالَ  صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ : «كَسْرُ عَظْمِ الْمَيِّتِ كَكَسْرِ عَظْمِ الْحَيِّ»" .

( شرح السیر الکبیر(1 /89)

"الِانْتِفَاعُ بِأَجْزَاءِ الْآدَمِيِّ لَمْ يَجُزْ، قِيلَ: لِلنَّجَاسَةِ، وَقِيلَ: لِلْكَرَامَةِ، هُوَ الصَّحِيحُ، كَذَا فِي جَوَاهِرِ الْأَخْلَاطِيِّ".

(5 / 354، الباب الثامن عشر في التداوي والمعالجات، ط: رشیدیة)

واللہ اعلم بالصواب

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند

 

حدیث و سنت

الجواب وباللّٰہ التوفیق:حضرت آدم علیہ السلام سے اب تک کتنا عرصہ گزرا ہے تاریخ اس کی صحیح نشادہی کرنے سے عاجز ہے، نیز یہ بات ایمانیات اور معتقدات کے قبیل سے نہیں اس لئے زیادہ چھان بین کی بھی ضرورت نہیں، اور صحیح نشان دہی مشکل اور دشوار ہے۔ (۱)

(۱) قال ابن عابدین: ولیست من المسائل التي یضر جہلہا أو سأل عنہا۔ (ابن عابدین، رد المحتار، ’’کتاب الجہاد: باب المرتد، مطلب في الکلام علي أبوی النبي وأہل الفترۃ‘‘: ج ۳، ص: ۱۸۵)
(أشرف علي التھانويؒ، أشرف الجواب: ص: ۱۱۹)

فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج2ص232