Frequently Asked Questions
Business & employment
Ref. No. 2796/45-4381
In the name of Allah the most Gracious the most Merciful
The answer to your question is as follows:
Usury is forbidden in the Islamic Shari'ah, and it is clearly proven in the holy Quran and Hadith. It is a matter of great danger to make any kind of flexibility. In the Holy Qur'an, Allah Almighty has ordered us to avoid usurious transactions with strict words, and also in the hadiths, it has also been strongly condemned; therefore it is not permissible to take usurious loans. If there is a strong reason to do so, point it out and send your query again.
وَ اَحَلَّ اللّٰہُ الۡبَیۡعَ وَ حَرَّمَ الرِّبٰوا....الخ (القرآن الکریم: (البقرۃ، الآیة: 275)
يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا لَا تَأْكُلُوا الرِّبَا أَضْعَافًا مُّضَاعَفَةً ۖ وَاتَّقُوا اللَّهَ لَعَلَّكُمْ تُفْلِحُونَ۔ (و قوله تعالیٰ: آل عمران، الآیة: 130)
"عَنْ جَابِرٍ، قَالَ: «لَعَنَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ آكِلَ الرِّبَا، وَمُؤْكِلَهُ، وَكَاتِبَهُ، وَشَاهِدَيْهِ» ، وَقَالَ: «هُمْ سَوَاءٌ»". (الصحیح لمسلم، 3/1219، کتاب المساقات،دار احیاء التراث ، بیروت۔مشکاۃ المصابیح، باب الربوا، ص: 243، قدیمی)
"وعن أبي هريرة قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: «الربا سبعون جزءا أيسرها أن ینکح الرجل أمه۔ (مشكاة المصابيح:1/246، باب الربوا)
And Allah knows best
Darul Ifta
Darul Uloom Waqf Deoband
نماز / جمعہ و عیدین
الجواب وباللہ التوفیق: ایسا کرنا جائز اور درست ہے؛ البتہ کبھی کبھی کوئی دوسری سورت پڑھ لیں تاکہ التزام نہ ہو کیوں کہ التزام بدعت ہے۔ البتہ سنت طریقہ یہ ہے کہ وتر کی نماز میں سورۂ اعلی، سورہ کافرون اوراخلاص پڑھی جائے۔(۲)
(۲) والسنۃ السور الثلاث، أي؛ الأعلی: والکفرون: والإخلاص: لکن في النہایۃ أن التعیین علی الدوام یفضي إلی اعتقاد بعض الناس أنہ واجب، وہو لایجوز، فلو قرأ بما ورد بہ الآثار أحیاناً بلا مواظبۃ یکون حسناً۔ (الحصکفي، رد المحتار مع الدرالمختار،’’باب الوتر والنوافل، مطلب في منکر الوتر الخ‘‘: ج ۲، ص: ۴۴۱، زکریا)
عن ابن عباس رضي اللّٰہ عنہما قال: کان رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم یقرأ في الوتر بسبح اسم ربک الأعلی، وقل یٰأیہا الکافرون، وقل ہو اللّٰہ أحد۔ (أخرجہ الترمذي، في سننہ، ’’أبواب الوتر، باب ما جاء ما یقرأ في الوتر‘‘: ج۱، ص:۱۰۶ ، رقم:۴۶۲؛ و أخرجہ النسائي ، في سننہ،ج۳، ص۱۱۸رقم: ۱۷۰۱)
فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج6 ص300
احکام میت / وراثت و وصیت
Ref. No. 853 Alif
الجواب وباللہ التوفیق
بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ اس طرح کی چادر استعمال کرنا چونکہ سنت سے ثابت نہیں ہے اور اس میں بے حرمتی کا اندیشہ بھی ہے اس لئے اس سے بچنا اور ایسی چادر جس پر قرآنی آیات نہ ہوں استعمال کرنا احوط ہے۔ واللہ اعلم بالصواب
دارالافتاء
دارالعلوم وقف دیوبند
اسلامی عقائد
Ref. No. 39 / 1019
الجواب وباللہ التوفیق
بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ صرف دیکھ لینے سے دوبارہ نکاح میں نہیں آجائے گی۔ شہوت کے ساتھ شرمگاہ دیکھنے یا بو س و کنار کرنے سے رجعت ہوتی ہے۔
واللہ اعلم بالصواب
دارالافتاء
دارالعلوم وقف دیوبند
ربوٰ وسود/انشورنس
Ref. No. 987/41-146
الجواب وباللہ التوفیق
بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔سود کی رقم رفاہی کاموں میں استعمال کرنا درست نہیں ہے،۔ سود کا مصرف بھی وہی ہے جو زکوۃ کا ہے اور اس میں تملیک ضروری ہے ۔ اس لئے کسی مستحق اور غریب کو سود کی رقم دیدی جائے ۔
وإلا تصدقوا بها لأن سبيل الكسب الخبيث التصدق إذا تعذر الرد على صاحبه اهـ (شامی 6/385)
واللہ اعلم بالصواب
دارالافتاء
دارالعلوم وقف دیوبند
احکام میت / وراثت و وصیت
Ref. No. 1090/42/281
الجواب وباللہ التوفیق
بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ مذکورہ حدیث درست ہے، لہذا اگر کوئی غیرمسلم مسلمان ہوجائے تو اس کی وراثت میں غیرمسلم رشتہ داروں کا کوئی حصہ نہیں ہوگا، اسی طرح ان کے مال میں اس کا بھی کوئی حصہ نہیں ہوگا۔ اگر کوئی مسلمان ہوجائے تو بھی اس کے لئے جائز نہیں ہے کہ اپنے والد کا نام تبدیل کرے۔ اس کو اپنے باپ کی طرف ہی نسبت کرنی چاہئے۔ اگر کوئی مسلمان اپنے مسلمان باپ کانام بدل کر کسی دوسرے کا نام لکھ دے تو بھی اپنے باپ کی وراثت سے محروم نہیں ہوگا۔ غیر کی طرف نسبت کرنے سے اس غیر کا یہ وارث نہیں بنے گا۔ اگر آپ کا مقصد کچھ اور معلوم کرنا تھا تو دوبارہ وضاحت کے ساتھ لکھیں۔
واللہ اعلم بالصواب
دارالافتاء
دارالعلوم وقف دیوبند
نماز / جمعہ و عیدین
Ref. No. 1316/42-680
الجواب وباللہ التوفیق
بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ نماز کے بعد اگر کوئی منافئ صلوۃ کام نہیں کیا بلکہ اسی جگہ نماز کی ہیئت پر رہتے ہوئے استغفراللہ پڑھتے ہوئے یاد آیا اور سجدہ سہو کرلیا تو سجدہ سہو معتبر ہوگا اور نماز درست ہوجائے گی۔ لیکن اگر کوئی عمل کثیر کرلیا تھا یا اور کوئی منافئ نماز کام کرلیا تو پھر سجدہ سہو کی بناء درست نہیں ہوگی اور وقت کے اندرنماز لوٹانی ہوگی۔
ویسجد للسہو ولو مع سلامہ ناویا للقطع لأن نیة تغییر المشروع لغو ما لم یتحول عن القبلة أو یتکلم۔۔۔ (شامی 2/558) "ويسجد للسهو" وجوبا "وإن سلم عامدا" مريدا "للقطع" لأن مجرد نية تغيير المشروع لا تبطله ولا تعتبر مع سلام غير مستحق وهو ذكر فيسجد للسهو لبقاء حرمة الصلاة "ما لم يتحول عن القبلة أو يتكلم" لإبطالهما التحريمة وقيل التحول لا يضره ما لم يخرج من المسجد أو يتكلم (حاشیۃ الطحطاوی علی المراقی، باب سجود السھو 1/472)
واللہ اعلم بالصواب
دارالافتاء
دارالعلوم وقف دیوبند
Zakat / Charity / Aid
Ref. No. 1919/43-1813
In the name of Allah the most Gracious the most Merciful
The answer to your question is as follows:
If you have 87 grams of gold or 612 grams of silver or rupees equal to 612 grams of silver, then Zakat will be obligatory on you at the end of the year, otherwise not.
And Allah knows best
Darul Ifta
Darul Uloom Waqf Deoband
نماز / جمعہ و عیدین
Ref. No. 2234/44-2375
بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ صحراء میں جمعہ کی نماز درست نہیں، اس لئے آپ لوگ صحراء میں ظہر کی نماز ادا کریں۔ جمعہ کی نماز کے صحیح ہونے کے لیے شرط یہ ہے کہ وہ قصبہ، بڑے گاؤں، شہر یا فنائے شہر میں ادا کی جائے۔
إعلاء السنن: (1/8، ط: ادارۃ القرآن)
عن علی رضی الله تعالی عنه قال : لا جمعة ولا تشریق ولا صلاة فطر ولا اضحي الا في مصر جامع أو مدينة عظيمة.
رد المحتار: (537/1، ط: سعید)
"وتقع فرضاً في القصبات والقرى الكبيرة التي فيها أسواق،.... وفيما ذكرنا إشارة إلى أنها لاتجوز في الصغيرة".
و فيه أيضًا: (138/2، ط: سعید)
"لاتجوز في الصغيرة التي ليس فيها قاض ومنبر وخطيب، كذا في المضمرات".
بدائع الصنائع: (260/2، ط: سعید)
"عن أبي حنيفة رحمه الله: أنه بلدة كبيره فيها سكك وأسواق ولها رساتيق، وفيها وال يقدر على إنصاف المظلوم من الظالم مجشمته وعلمه أو علم غيره، والناس يرجعون إليه فيما يقع من الحوادث، وهذا هو الأصح"
الھندیة: (145/1)
ولا جمعۃ بعرفات اتفاقاً کذا في الکافي۔
واللہ اعلم بالصواب
دارالافتاء
دارالعلوم وقف دیوبند
اسلامی عقائد
الجواب وباللّٰہ التوفیق:نفس قرأت قرآن کریم کے ذریعہ ایصال ثواب مستحسن ہے(۱)؛ لیکن چنوں اور دانوں پر فاتحہ کا التزام بلا شبہ بدعت ہے، ان کا ترک لازم ہے، پڑھے ہوئے چنے اگر نذر ومنت کے ہوں، تو مالداروں کو ان کا کھانا جائز نہیں ہے۔ (۲)
(۱) من صام أو صلی أو تصدق وجعل ثوابہ لغیرہ من الأموات والأحیاء جاز وثوابہا إلیہم عند أہل السنۃ والجماعۃ۔ (ابن عابدین، الدر المختار مع رد المحتار، ’’کتاب الصلاۃ: باب صلاۃ الجنازۃ، مطلب: في القرأۃ للمیت وإہداء ثوابہا لہ‘‘: ج ۳، ص: ۱۵۲)
فالحاصل أن ما شاء في زماننا من قراء ۃ الأجزاء بالأجرۃ لا یجوز: لأن فیہ الأمر بالقراء ۃ وإعطاء الثواب للآمر والقراء ۃ لأجل المال، فإذا لم یکن للقاري ثواب لعدم النیۃ الصحیحۃ فأین یصل الثواب إلی المستأجر، ولو لا الأجرۃ ما قرأ أحد لأحد في ہذا الزمان، بل جعلوا القرآن العظیم مکسباً ووسیلۃ إلی جمع الدنیا۔ (ابن عابدین، الدر المختار مع رد المحتار، ’’کتاب الإجارۃ، باب الإجارۃ الفاسدۃ، مطلب: تحریر مہم في عدم جواز الاستئجار علی التلاوۃ‘‘: ج ۹، ص: ۷۷)
(۲) أشرف علي تھانوي -رحمۃ اللّٰہ علیہ-، إمداد الفتاویٰ: ج ۵، ص: ۳۶۳)
فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج1ص308