نماز / جمعہ و عیدین

الجواب وباللہ التوفیق: قرأت میں غلطی سے متعلق ایک اصول یا د رکھیں کہ اگر کسی سے نماز کی حالت میں قرأت میں فحش غلطی ہو جائے اور وہ غلطی اس نوعیت کی ہو کہ اس سے معنی بالکل تبدیل اور فاسد ہو جائے تو اس صورت میں نماز فاسد ہوجاتی ہے، چاہے مقدارِ واجب قرأت کی جا چکی ہو یا نہیں، تاہم اگر کوئی غلطی ہو جائے اور اس کی اصلاح اسی رکعت میں کرلی جائے یا ایسی غلطی ہو جس سے معنی میں کوئی ایسی تبدیلی نہ ہو جس سے نماز میں فساد پیدا ہو تو اس صورت میں نماز ادا ہو جاتی ہے۔
صورتِ مسئولہ میں {لیکونا من الأسفلین} کی جگہ ’’لیکونا من المسلمین‘‘ پڑھا گیا ہے، چوں کہ یہ فحش غلطی ہے اور معنی بالکل تبدیل ہوگئے ہیں، نیزقاری نے نماز میں یہ غلطی درست بھی نہیں کی اور دوسرے مقام سے قرائت شروع کردی تو اس صورت میں نماز فاسد ہوگئی، نماز کا اعادہ کرنا اس پر لازم ہے۔
جیسا کہ فتاویٰ الہندیہ میں ہے:
’’أما إذا لم یقف ووصل إن لم یغیر المعنی نحو أن یقرأ ’’إن الذین آمنوا وعملوا الصالحات فلہم جزاء الحسنی‘‘ مکان قولہ ’’کانت لہم جنات الفردوس نزلا‘‘ لاتفسد۔ أما إذا غیر المعنی بأن قرأ ’’إن الذین آمنوا وعملوا الصالحات أولئک ہم شر البریۃ، إن الذین کفروا من أہل الکتاب‘‘ إلی قولہ ’’خالدین فیہا أولئک ہم خیر البریۃ‘‘ تفسد عند عامۃ علمائنا وہو الصحیح، ھکذا في الخلاصۃ۔(۱)
’’ذکر في الفوائد لو قرأ في الصلاۃ بخطأ فاحش، ثم رجع وقرأ صحیحاً، قال: عندي صلاتہ جائزۃ، وکذلک الإعراب، ولو قرأ النصب مکان الرفع، والرفع مکان النصب، أو الخفض مکان الرفع أو النصب لاتفسد صلاتہ‘‘(۲)

(۱) جماعۃ من علماء الہند، الفتاویٰ الہندیۃ، ’’الباب الرابع في صفۃ الصلاۃ، و منہا ذکر آیۃ مکان آیۃ‘‘: ج ۱، ص: ۱۳۸۔)
(۲) المرجع السابع ’’الباب الرابع: في صفۃ الصلاۃ، و منہا : إدخال التأنیث في أسماء اللّٰہ تعالیٰ‘‘ ج۱، ص۱۴۰۔)

 

فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج6 ص82

نماز / جمعہ و عیدین

الجواب وباللہ التوفیق: اس صورت میں اگر تمام لوگوں نے وتر کی نماز پڑھ لی تھی تو تراویح کے بعد وتر کی جماعت نہ کی جائے کیوں کہ وتر کی نمازپہلے ادا ہوچکی ہے۔(۴)

(۴) وإذا صلی الوتر قبل النوم، ثم تہجد لا یعید الوتر لقولہ صلی اللہ علیہ وسلم: لا وتران في لیلۃ۔ (أحمد بن أحمد الطحطاوي، حاشیۃ الطحطاوي علی المراقي، ’’باب الوتر وأحکامہ‘‘: ص: ۳۸۶، ط: دار الکتاب، دیوبند)
 

فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج6 ص304

نماز / جمعہ و عیدین

الجواب وباللّٰہ التوفیق: تینوں نمازیں الگ الگ ہیں اور اور ان کے اوقات مختلف ہیں او ران کی فضیلتیں احادیث میں علیحدہ علیحدہ مذکور ہیں اشراق کا وقت سورج طلوع ہونے کے تقریباً ۲۰؍ منٹ بعد شروع ہوجاتا ہے اور نصف النہار تک رہتا ہے، مگر شروع میں پڑھنا افضل ہے اور چاشت کا وقت سورج خوب روشن ہوجانے (دس گیارہ بجے) کے بعد سے شروع ہوکر نصف النہار تک رہتا ہے۔ اور اوابین کا وقت مغرب کی نماز کے بعد سے شروع ہوتا ہے؛ البتہ احادیث میں دو وقت کی نوافل پر اطلاق اوابین کا آیا ہے، ایک چاشت کی نماز پر اور دو سرے نوافل بعد المغرب پر پس مغرب کے بعد کی چھ رکعتوں کے علاوہ چاشت کو بھی صلاۃ اوابین کہہ سکتے ہیں اس معنی میں اوابین اور چاشت دونوں ایک نماز ہوسکتی ہیں۔
’’قال العلامۃ سراج أحمد في شرح الترمذي لہ: إن المتعارف في أول النہار صلاتان: الأولی بعد طلوع الشمس وارتفاعہا قدر رمحٍ أو رمحین، یقال لہا صلاۃ الاشراق۔ والثانیۃ عند ارتفاع الشمس، قدر ربع النہار إلی ما قبل الزوال ویقال لہا صلاۃ الضحی۔ واسم الضحی في کثیر من الأحادیث شامل لکلیہما، وقد ورد في بعضہا لفظ الإشراق أیضًا‘‘(۱)

(۱) ظفر أحمد العثماني، إعلاء السنن، ’’کتاب الصلاۃ: باب النفل والسنن‘‘: ج ۷، ص: ۳۰، مکتبہ اشرفیہ دیوبند۔)
عن عاصم بن ضمرۃ السلولي، قال: سألنا علیّاً عن تطوع رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ تعالیٰ علیہ وسلم بالنہار، فقال: إنکم لاتطیقونہ۔ فقلنا: أخبرنا بہ نأخذ ما استطعنا قال: کان رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم إذا صلی الفجر یمہل حتی إذا کانت الشمس من ہاہنا یعني: من قبل المشرق بمقدارہا من صلاۃ العصر من ہاہنا یعنی: من قبل المغرب قام فصلی أربعاً۔ (أخرجہ ابن ماجۃ، في سننہ، ’’کتاب إقامۃ الصلاۃ والسنۃ فیھا، باب ما جاء فیما یستحب من التطوع بالنھار‘‘: ج ۱، ص: ۸۱)

 

فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج6 ص413

طہارت / وضو و غسل

Ref. No. 865 Alif

الجواب وباللہ التوفیق

بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔  دھوبی سے کپڑا دھلوانے میں کوئی حرج نہیں ہے، بشرطیکہ ناپاک پانی سے نہ دھوئے اور پاک کرنے کا پورا خیال رکھے۔ واللہ اعلم بالصواب

 

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند

Innovations

Ref. No 1280

In the name of Allah the most Gracious the most Merciful

The answer to your question is as it follows:

The mention of the holy birth day of Imamul Anbiya and the final Prophet of Allah, his high conducts and behaviors, and his pure biography with great feeling of love for our Prophet (saws) is indeed a virtue and sign of Faith. But the existing way of celebrating birthday of the Prophet of Allah (saws) is baseless and innovation. One has to abstain from it at any cost. As it is written in fatawa books.

And Allah knows best

Darul Ifta

Darul Uloom Waqf Deoband

Taharah (Purity) Ablution &Bath

Ref. No. 37 / 1059

الجواب وباللہ التوفیق                                                                                                                                                        

بسم اللہ الرحمن الرحیم: بے بنیاد وسوسوں کا خیال نہ کریں، شک کی صورت میں غالب ظن کا اعتبار ہوتا ہے۔ رکعتوں کی تعداد میں شک ہونے پر جو تعداد یقینی ہو اس کااعتبار کرکے باقی رکعتیں پوری کرلیا کریں۔   واللہ اعلم بالصواب

 

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند

Islamic Creed (Aqaaid)
Ref. No. 41/996 In the name of Allah the most gracious the most merciful The answer to your question is as follows: It makes a room to take a loan when needed complying with the laws of the country. And Allah knows best Darul Ifta Darul Uloom Waqf Deoband

زیب و زینت و حجاب

Ref. No. 897/41-

الجواب وباللہ التوفیق 

بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ بشرط صحت سوال خواتین کے لئے ہر قسم کے زیورات کا استعمال درست ہے سوائے انگوٹھی کے۔ انگوٹھی اور دیگر زیورات میں نص کی وجہ سے فرق ہے۔ انگوٹھی کے متعلق احادیث میں صراحت ہے کہ سونے اور چاندی کے علاوہ نہ ہو، لہذا خواتین کے لئے صرف سونے اور چاندی کی انگوٹھی جائز ہے اور مَردوں کے لئے صرف چاندی کی۔ سونے اور چاندی کے علاوہ کسی اور دھات کی انگوٹھی استعمال کرنے  پر احادیث میں سخت وعید آئی ہے؛ اسے جہنمیوں کا زیور قراردیا ہے۔

عن عبدِ الله بنِ بُريدة عن أبيه: أن رجلاً جاء إلى النبيِّ -صلَّى الله عليه وسلم- وعليه خاتِمٌ من شَبَهٍ، فقال له: "ما لي أجِدُ مِنْكَ رِيحَ الأصنامِ؟ " فطرحه، ثم جاء وعليه خاتِمٌ من حديدٍ، فقال: "ما لي أرى عليكَ حِليةَ أهلِ النارِ؟ " فطرحَهَ، فقال: يا رسولَ الله - صلَّى الله عليه وسلم -، مِن أيِّ شيءٍ أتَّخِذُه؟ قال: اتَّخِذْهُ من وَرِقٍ، ولا تُتِمَّهُ مِثقالاً" (سنن ابی داؤد 6/281)

 واللہ اعلم بالصواب

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند

قرآن کریم اور تفسیر

Ref. No. 1450/42-928

الجواب وباللہ التوفیق

بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ قرآن کریم کتابِ ہدایت اور دستور حیات ہے، اس لئے ہر شخص کی ذمہ داری ہے کہ قرآن کریم سمجھنے اور اس پر عمل کرنے کی کوشش کرے، تاہم سمجھ کر تلاوت کرے یا بغیر سمجھے تلاوت کرے دونوں صورتوں میں ثواب ملتاہے۔

واللہ اعلم بالصواب

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند

متفرقات

Ref. No 1558/43-1082

بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ راستہ بند کرنے سے لوگوں کو کافی دشواری پیش آتی ہے۔ لوگوں کے لئے آسانی پیدا کرنے کا حکم ہے، راستہ بند کرکے نماز کا اجتماع یا جلسہ وغیرہ کرنا نامناسب عمل ہےالا یہ کہ کوئی مجبوری ہو۔ حدیث میں راستے کے جو حقوق بیان کئے گئے ہیں ان کی بھی خلاف ورزی ہے۔ اس لئے کسی بھی دینی ، سیاسی و سماجی اجتماع کے لئے راستہ ہرگز نہ بند کریں، اس سے دوسرے بدگمان بھی ہوتے ہیں اور شرپسندوں کو مواقع بھی فراہم ہوجاتے ہیں۔ البتہ اگر دوسرا راستہ موجود ہو اور ایک راستہ بند کرنے سے زیادہ دشواری نہ ہوتی ہو اور راستہ بند کرنے کا کوئی معقول عذر ہو تو اس کی موقع ومناسبت کو دیکھتے ہوئے گنجائش نکل سکتی ہے۔ مجبوری میں بھی ایسی صورت اختیار کرنی چاہیے جس سے گزرنے والوں کی آمد ورفت میں  کم سے کم خلل  ہو اور انھیں تکلیف نہ پہنچے۔

قال رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم " الإیمان بضع وسبعون شعبة فأفضلہا: قول لا إلہ إلا اللہ وأدناہا: إماطة الأذی عن الطریق الخ (مشکاة، ۱۲) وفي حدیث آخر: قال صلی اللہ علیہ وسلم قال: إیاکم والجلوس بالطرقات․ فقالوا: یا رسول اللہ ما لنا من مجالسنا بد نتحدث فیہا․ قال: فإذا أبیتم إلا المجلس فأعطوا الطریق حقہ قالوا: وما حق الطریق یا رسول اللہ قال: غض البصر وکف الأذی ورد السلام والأمر بالمعروف والنہی عن المنکر۔ متفق علیہ (مشکاة: 398)

بینما رجل یمشی بطریق وجد غصن شوک علی الطریق فاخرہ فشکر اللہ لہ فغفرلہ (بخاری ومسلم) قال رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم: لقد رأیت رجلا تتقلب فی الجنة فی شجرة قطعھا من ظہر الطریق کانت توذی الناس (مسلم) قال رسول اللّٰہ: نزع رجل لم یعمل خیرا قط: غصن شوک عن الطریق أما کان فی شجرة فقطعہ والقاہ واما کان موضوعا فأماطہ فشکر اللہ لہ بھا فأدخلہ الجنة (ابوداوٴد524) عن ابی طلحہ قال کنا قعودا بالأفینہ نتحدث فجاء رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فقام علینا فقال: ما لکم ولمجالس الصعدات اجتنبوا مجالس الصعدات فقلنا انما قعدنا لغیر ما بأس، قعدنا نتذاکرا ونتحدث قال: اما لا، فادوا حقھا: غض البصر ورد السلام وحسن الکلام (مسلم:5610) قال النبي صلی اللہ علیہ وسلم اتقوا اللعانین قالوا: وما اللعانان یا رسول اللہ! قال الذي یتخلی في طریق الناس أو في ظلہم (مسلم: 571) ن سہل بن معاذ عن أبیہ قال: غزونا مع النبي صلی اللہ علیہ وسلم فضیق الناس المنازل وقطعوا الطریق فبعث النبي صلی اللہ علیہ وسلم منادیا ینادي فی الناس: من ضیق منزلا أو قطع طریقا فلا جہاد لہ (أبو داوٴد: 3920)

واللہ اعلم بالصواب

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند