Frequently Asked Questions
طہارت / وضو و غسل
الجواب وباللہ التوفیق:(۱) یہ جو بھی ہے بغیر شہوت کے ہے، ایسی صورت میں وضو کرے، غسل کی ضرورت نہیں ہے، ’’ولیس في المذي والودي غسل وفیہما الوضوء‘‘(۱)
(۲) شہوت کے ساتھ آہستہ آہستہ جو پانی نکلتا ہے، جس میں چپچپاہٹ ہوتی ہے، اس کو مذی کہتے ہیں، مذی نکلتی ہے، تو شہوت اور بڑھتی ہے۔ اور شہوت کے ساتھ ایک ہیجانی کیفیت کے بعد جو پانی نکلتا ہے، ایسا محسوس ہوتا ہے کہ پانی ایک جگہ سے دوسری جگہ منتقل ہوا ہے اور اس کے بعد شہوت کم ہوجاتی ہے، اس کو منی کہتے ہیں۔ اس تعریف سے فرق بھی واضح ہو گیا۔(۱)
(۱) ابن عابدین، رد المختار علی الدر المختار،کتاب الطہارۃ، باب الأنجاس، مطلب في حکم الوشم، ج۱، ص:۵۴۱)
(۲)ابن الہمام، فتح القدیر، کتاب الطہارات، فصل في الغسل، ج۱، ص:۷۱
(۱)قال: ولیس في المذي والودي غسل و فیھما الوضوء لقولہ علیہ السلام: ’’کل فحل یمذي و فیہ الوضوء‘‘ والودي الغلیظ من البول یتعقب الدقیق منہ خروجا، فیکن معتبراً بہ، والمني حاثر أبیض ینکسر منہ الذکر، والمذي رقیق یضرب إلی البیاض یخرج عند ملاعبۃ الرجل أھلہ والتفسیر مأثور عن عائشۃ رضی اللّٰہ عنہا۔ (المرغینانی، الہدایۃ، کتاب الطہارۃ، قبیل ’’باب الماء الذي یجوز بہ الوضو الخ، ج ۱، ص:۳۳)؛ وھو (أي المذي) ماء أبیض رقیق یخرج عند شھوۃ لا بشھوۃ ولا دفق، ولا یعقبہ فتور، و ربما لا یحس بخروجہ، وھو أغلب في النساء من الرجال - وھو (الودي) ماء أبیض کدر ثخین یشبہ المني في الثخانہ و یخالفہ في الکدورۃ ولا رائحہ لہ و یخرج عقیب البول إذا کانت الطبیعۃ مستمسکۃ، و عند حمل شيء ثقیل، و یخرج قطرۃ أو قطرتین و نحوھما۔ و أجمع العلماء علی أنہ لا یجب الغسل بخروج المذي والودي۔ (ابن نجیم، البحر الرائق، کتاب الطہارۃ، ج۱، ص:۱۱۵)
فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج2ص440
طہارت / وضو و غسل
الجواب وباللّٰہ التوفیق:صحیح قول کے مطابق کپڑے کے ہر حصہ کا چوتھائی مراد ہے جیسے کپڑے کی آستین، کرتے کی کلی ودامن وغیرہ، اسی طرح اگر نجاست خفیفہ بدن پر لگ جائے تو قلیل مقدار معاف ہے اور کثیر معاف نہیں پھر قلیل اور کثیر کے بارے میں فقہاء میں اختلاف ہے، صحیح یہ ہے کہ ربع سے کم معاف ہے اور احناف کے یہاں صحیح قول کے مطابق بدن کے اعضاء میں سے ہر عضو کا چوتھائی مراد ہے۔
’’وقال الشامي رحمہ اللّٰہ: ربع طرف أصابتہ النجاسۃ کالذیل والکم والدخریص إن کان المصاب ثوبا وربع العضو المصاب کالید والرجل إن کان بدناً وصححہ في التحفۃ والمحیط والمجتبی والسراج وفي الحقائق وعلیہ الفتویٰ‘‘(۱)
’’وقیل: ربع الموضع المصاب کالذیل والکم قال في التحفۃ ہو الأصح وفي الحقائق وعلیہ الفتویٰ‘‘(۲)
’’وعنہ ش: أي عن أبي حنیفۃ رضي اللّٰہ عنہ، م: (ربع أدنیٰ ثوب تجوز فیہ الصلاۃ المئزر) ش: لأنہ أقصر الثیاب وفیہ الاحتیاط ویقرب منہ ما قال أبوبکر الرازي یعتبر السراویل احتیاطاً، م: (وقیل ربع الموضع الذي أصابہ کالذیل والدخریص) ش: قال في المحیط: وہو الأصح وکذا قال في التحفۃ‘‘(۳)
’’ربع العضو المصاب کالید والرجل إن کان بدنا وصححہ في التحفۃ والمحیط والمجتبیٰ والسراج وفي الحقائق وعلیہ الفتویٰ‘‘ (۴)
وہکذا في الہدایۃ:
’’وربع العضو المصاب کالید والرجل إن کان بدناً وصححہ صاحب التحفۃ والمحیط والبدائع والمجتبیٰ والسراج الوہاج وفي الحقائق وعلیہ الفتویٰ‘‘(۱)
(۱) ابن عابدین، الدر المختار مع رد المحتار، ’’کتاب الطہارۃ: باب الأنجاس، مبحث في بول الفارۃ وبعرہا‘‘: ج ۱، ص: ۵۲۶۔
(۲) طحطاوي، حاشیۃ الطحطاوي علی مراقي الفلاح، ’’کتاب الطہارۃ: باب الأنجاس والطہارۃ عنہا‘‘: ج ، ص: ۱۵۷۔
(۳) بدر الدین العیني، البنایۃ شرح الہدایۃ، ’’کتاب الطہارۃ: باب الأنجاس وتطہیرہا‘‘: ج ۱، ص: ۷۲۹۔
(۴) ابن عابدین، الدر المختار مع رد المحتار، ’’کتاب الطہارۃ: باب الأنجاس، مبحث في بول الفارۃ وبعرہا‘‘: ج ۱، ص: ۵۲۶۔
(۱) جماعۃ من علماء الہند، الفتاویٰ الہندیۃ، ’’کتاب الطہارۃ: الباب السابع في النجاسۃ وأحکامہا: الفصل الثاني‘‘: ج ۱، ص: ۱۰۱۔
فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج3ص32
طہارت / وضو و غسل
Ref. No. 2703/45-4167
بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ دوران حیض مدینہ منورہ میں اپنے ہوٹل میں یا مسجد نبوی ﷺ کے باہر رہ کر درود شریف یا ذکر واذکار کرسکتی ہے۔ البتہ مسجد نبوی ﷺ یا ریاض الجنۃ میں جانا ممنوع ہے۔
واللہ اعلم بالصواب
دارالافتاء
دارالعلوم وقف دیوبند
طہارت / وضو و غسل
الجواب وباللّٰہ التوفیق:ایسے ڈھیلے سے تیمم جائز نہیں۔(۲)
(۲)الأرض تطھر بالیبس و ذہاب الأثر للصلاۃ، لا للتیمم… الأجرّۃ إذا کانت مفروشۃ، فحکمھا حکم الأرض، تطھر بالجفاف و إن کانت موضوعۃ تنقل و تحول، لا بد من الغسل ھکذا في المحیط و کذا الحجر واللبنۃ۔ (جماعۃ من علماء الہند، الفتاویٰ الہندیۃ، ’’الباب السابع في النجاسۃ و أحکامہا، و منھا الجفاف و زوال الأثر‘‘ج ۱، ص:۹۹) ؛ و لو تیمم بأرض قد أصابتھا نجاسۃ فجفت و ذھب أثرھا، لم یجز في ظاھر الروایۃ۔ (الکاسانی، بدائع الصنائع في ترتیب الشرائع،’’کتاب الطہارۃ، فصل في بیان ما یتیمم بہ‘‘ ج۱، ص:۱۸۰) ؛ والأرض إذا أصابتھا النجاسۃ فجفت ولم یر أثرھا جازت الصلاۃ فوقھا… أما التیمم عنھا روایتان۔ والصحیح أنہ لایجوز۔ (عالم بن العلاء الحنفی، الفتاویٰ التاتارخانیہ، تطہیر النجاسات ، ج۱۰، ص:۴۶۱)
فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج3 ص352
نماز / جمعہ و عیدین
الجواب و باللہ التوفیق: مذکورہ امام کی اقتداء بلا کراہت درست ہے، کراہت کی کوئی شرعی وجہ موجود نہیں ہے، تاہم کسی دوسرے شخص کو امام بنانا بہتر ہے۔(۱)
(۱) وکذلک أعرج یقوم ببعض قدمہ فالاقتداء بغیرہ أولیٰ تاترخانیۃ، وکذا أجذم، بیرجندي، ومجبوب وحاقن ومن لہ ید واحدۃ، فتاویٰ الصوفیۃ عن التحفۃ، والظاہر أن العلۃ النفرۃ ولذا قید الأبرص بالشیوع لیکون ظاہراً ولعدم إمکان إکمال الطہارۃ أیضاً في المفلوج والأقطع والمجبوب۔ (ابن عابدین، رد المحتار، ’’کتاب الصلاۃ، باب الإمامۃ، مطلب في إمامۃ الأمرد‘‘: ج۲، ص:۳۰۲)
ولو کان لقدم الإمام عوج وقام علی بعضہا یجوز وغیرہ أولٰی کذا في التبیین۔ (جماعۃ من علماء الہند، الفتاویٰ الہندیۃ، ’’کتاب الصلاۃ، الباب الخامس في الإمامۃ، الفصل الثالث في بیان من یصلح إمامًا لغیرہ‘‘: ج۱، ص: ۱۴۲)
فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج5 ص234
نماز / جمعہ و عیدین
الجواب وباللّٰہ التوفیق: ذمہ داران مسجد اور امام صاحب کے درمیان جو ذمہ داریاں امام نے خوشی سے قبول کرلی ہیں اور وعدہ کر لیا کہ ان فرائض کو پورا کروں گا تو ان کا امام صاحب کے ذمہ پورا کرنا ضروری ہے تب ہی وہ تنخواہ کا مستحق ہوگا۔(۱)
اور جن باتوں کو طے نہیں کیا گیا ان کو کرنا امام صاحب کے ذمہ ضروری نہیں ہے، اگر امام صاحب وہ کام کر دیں تو ان کا احسان اور تبرع ہے اور اس کا اجر وثواب اس کو ملے گا، اس صورت میں صرف امامت اس کی ذمہ داری ہوگی۔ بہتر یہ ہے کہ امام کو صرف امامت کے عہدے پر تقرر کیا جائے اور دیگر کاموں کے لیے دوسرا آدمی رکھ لیا جائے، کیوں کہ منصب عظیم ہے، اس کا بھی خیال رکھا جانا چاہئے(۲) اگر امام مذکورہ کام کرے، تو اس کی امامت درست ہے۔(۳)
(۱) والثاني وہو الأجیر الخاص ویسمیٰ أجیر وحد وہو من یعمل لواحد عملاً موقتاً بالتخصیص ویستحق الأجر بتسلیم نفسہ في المدۃ وإن لم یعمل الخ۔ اعلم أن الأخیر للخدمۃ أو لرعی الغنم إنما یکون یکون أجبراً خاصاً إذا شرط علیہ أن لا یخدم غیرہ أو لا یرعیٰ لغیرہ أو ذکر المدۃ أولا نحو أن یستأجر راعیاً شہراً لیرعیٰ لہ غنماً مسماۃ بأجر معلوم فإنہ أجیر خاص بأول الکلام۔ (ابن عابدین، رد المحتار، ’’کتاب الوقف، مطلب لیس للأجیر الخاص أن یصلي النافلۃ‘‘: ج۹، ص: ۹۴)
(۲) لأن مبنی الإمامۃ علی الفضیلۃ، ولہذا کان رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم یؤم غیرہ ولا یؤمہ غیرہ وکذا کل واحد من الخلفاء الراشدین رضي اللّٰہ تعالیٰ عنہم فی عصرہ۔ (الکاسانی، بدائع الصنائع في ترتیب الشرائع، ’’کتاب الصلاۃ: باب بیان من یصلح للإمامۃ‘‘: ج ۱، ص: ۳۸۶، زکریا دیوبند)
(۳) فرع: أراد رب الغنم أن یزید فیہا ما یطیق الراعي لہ ذلک لو خاصاً لأنہ في حق الرعي بمنزلۃ العبد ولہ أن یکلف عبدہ من الرعي ما یطیق۔ (ابن عابدین، رد المحتار، ’’کتاب الوقف، مطلب لیس للأجیر الخاص أن یصلي النافلۃ‘‘: ج ۹، ص: ۹۴)
فتاویٰ دارالعلوم وقف دیوبند ج5 ص339
نماز / جمعہ و عیدین
الجواب وباللہ التوفیق: اس صورت میں نماز دونوں کی صحیح اور درست ہوگئی ہے کیوں کہ امام کے لیے مقتدیوں کی نہ نیت ضروری ہے اور نہ زور سے تکبیر کہنا ضروری ہے۔(۱)
(۱) بیان ذلک أن الإمام لایصیر إماما إلا إذا ربط المقتدي صلاتہ بصلاتہ فنفس ہذا الارتباط ہو حقیقۃ الإمامۃ وہو غایۃ الاقتداء الذي ہو الربط۔ (ابن عابدین، رد المحتار علی الدر المختار، ’’کتاب الصلاۃ: باب الإمامۃ‘‘: ج۲، ص: ۲۸۴)
فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج5 ص461
نماز / جمعہ و عیدین
الجواب وباللہ التوفیق: عصر کی نماز پڑھنے کے بعد نفل و سنت نماز پڑھنا مکروہ ہے چوں کہ فرض عصر کی ادائیگی کے بعد غروب آفتاب تک کا پورا وقت فرض میں شمار ہوتا ہے پس اگر نفل نماز پڑھی جائے گی تو اعلیٰ کو چھوڑ کر ادنیٰ پر اکتفاء کرنا لازم آئے گا، اس لیے نوافل کو مکروہ قرار دیا ہے لیکن اگر کسی نے نفل نماز پڑھی، تو کراہت کے ساتھ نفل ادا ہوگئی۔(۱)
(۱) والتطوع في ہذہ الأوقات یجوز ویکرہ، کذا في الکافي وشرح الطحاوي حتی لو شرع في التطوع عند طلوع الشمس أو غروبہا … ولو أتمہ خرج عن عہدۃ ما لزمہ بذلک الخ۔۔۔۔ وقد أساء ولا شيء علیہ، کذا في شرح الطحاوی۔ (جماعۃ من علماء الہند، الفتاویٰ الہندیۃ، ’’کتاب الصلاۃ: الباب الأول في المواقیت وما یتصل بہا‘‘: الفصل الثالث: في بیان الأوقات التي لاتجوز الصلاۃ وتکرہ فیہا، ج ۱، ص: ۱۰۸، ۱۰۹)
وینعقد نفل بشروع فیہا بکراہۃ التحریم۔ (ابن عابدین، رد المحتار، ’’کتاب الصلاۃ‘‘: مطلب: یشترط العلم بدخول الوقت، ج ۱، ص: ۳۴، زکریا دیوبند)
فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج4 ص107
نماز / جمعہ و عیدین
الجواب وباللّٰہ التوفیق: تکبیر تحریمہ فرض وشرط ہے اور دیگر تکبیرات مسنون ہیں صورت مسئولہ میں نماز تو ادا ہوگئی، لیکن ’’سمع اللّٰہ لمن حمدہ‘‘ کہنا ہی مسنون ہے۔(۲)
(۲) فرائض الصلاۃ ستۃ التحریمۃ لقولہ تعالیٰ: {وربک فکبر} (المدثر: ۳) والمراد تکبیرۃ الافتتاح۔ (ابن الہمام، فتح القدیر، ’’کتاب الصلاۃ: باب صفۃ الصلاۃ‘‘: ج ۱، ص: ۸۰)
وإذا اطمأن راکعا رفع رأسہ وقال: سمع اللّٰہ لمن حمدہ ولم یرفع یدیہ فیحتاج فیہ إلی بیان المفروض والمسنون۔
أما المفروض فقد ذکرناہ وہو الانتقال من الرکوع إلی السجود لما بینا أنہ وسیلۃ إلی الرکن، فأما رفع الرأس وعودہ إلی القیام فہو تعدیل الانتقال وأنہ لیس بفرض عند أبي حنیفۃ ومحمد بل ہو واجب أو سنۃ عندہما وعند أبي یوسف والشافعي فرض علی ما مر۔
وروي عن أبي حنیفۃ مثل قولہما، احتجوا بما روي عن عائشۃ رضي اللّٰہ عنہا أنہا قالت: کان رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم ’’إذا رفع رأسہ من الرکوع قال: سمع اللّٰہ لمن حمدہ ربنا لک الحمد‘‘ وغالب أحوالہ کان ہو الإمام، وکذا روي أبو ہریرۃ رضي اللّٰہ عنہ؛ ولأن الإمام منفرد في حق نفسہ والمنفرد یجمع بین ہذین الذکرین فکذا الإمام، ولأن التسمیع تحریض علی التحمید فلا ینبغي أن یأمر غیرہ بالبر وینسي نفسہ کي لا یدخل تحت قولہ تعالی: {أتأمرون الناس بالبر وتنسون أنفسکم وأنتم تتلون الکتاب} (البقرۃ: ۴۴) (الکاساني، بدائع الصنائع في ترتیب الشرائع، ’’کتاب الصلاۃ: باب صفۃ الصلاۃ‘‘: ج ۱، ص: ۲۰۹) (شاملہ)
فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج4 ص377
نماز / جمعہ و عیدین
الجواب وباللہ التوفیق: نماز درست ہوگئی عمداً ایسا کرنا غلط ہے نیز صحیح ادائیگی کی کوشش کرنی چاہئے۔(۱)
(۱) السنۃ في تسبیح الرکوع سبحان ربي العظیم، إلا إذا کان لایحسن الظاء فیبدل بہ الکریم، لئلا یجری علی لسانہ العزیم، فتفسد بہ الصلاۃ۔ (ابن عابدین، رد المحتار، ’’باب صفۃ الصلاۃ، مطلب: قراء ۃ البسملۃ بین الفاتحۃ و السورۃ حسن ‘‘: ج۲، ص: ۱۹۸)
لو قرأ في الصلاۃ الحمد للّٰہ بالہاء مکان الحاء أو کل ہواللّٰہ أحد بالکاف مکان القاف والحال أنہ لایقدر علی غیرہ کما في الأتراک وغیرہم تجوز صلاتہ ولاتفسد۔ (إبراہیم الحلبي، الحلبي الکبیري: ص: ۴۸۱)
فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج6 ص79