نماز / جمعہ و عیدین

الجواب و باللہ التوفیق: علماء مقتدمین کے نزدیک اس صورت میں نماز فاسد ہوجائے گی۔ فتاویٰ قاضی خان میں ہے ’’فصل لربک وانحر قرأ وانہر تفسد صلاتہ‘‘ اس لیے کہ معنی میں نمایاں تبدیلی ہوگی مگر عموم بلوی کی وجہ سے متاخرین علماء وفقہاء حضرات فساد کا حکم نہیں لگاتے ہیں کہ امتیاز مشکل ہے اور ابتلائے عوام ہے۔(۱)

(۱) ولا یجوز إمامۃ الألثغ الذي لا یقدر علی التکلم ببعض الحروف إلا لمثلہ، إذا لم یکن في القوم من یقدر علی التکلم بتلک الحروف؛ فأما إذا کان في القوم من یقدر علی التکلم بہا فسدت صلاتہ وصلاۃ القوم۔ (جماعۃ من علماء الہند، الفتاوی الہندیۃ، ’’کتاب الصلاۃ: الباب الخامس في الإمامۃ، الفصل الثالث في بیان من یصلح إماما لغیرہ‘‘: ج ۱، ص: ۸۶، جدید، ج ۱، ص: ۱۴۴)
(قولہ بالألحان) أي بالنغمات، وحاصلہا کما في الفتح إشباع الحرکات لمراعاۃ النغم (قولہ إن غیر المعنی) کما لو قرأ {الحمد للّٰہ رب العالمین} (سورۃ الفاتحۃ: ۲) وأشبع الحرکات حتی أتی بواو بعد الدال وبیاء بعد اللام والہاء وبألف بعد الراء، ومثلہ قول المبلغ: رابنا لک الحامد بألف بعد الراء، لأن الراب ہو زوج الأم کما في الصحاح والقاموس، وابن الزوجۃ یسمی ربیبا۔ (قولہ وإلا لا إلخ) أي وإن لم یغیر المعنی فلا فساد، إلا في حرف مد ولین إن فحش فإنہ یفسد، وإن لم یغیر المعنی۔ (الحصکفي، الدر المختار مع رد المحتار، ’’کتاب الصلاۃ: باب ما یفسدالصلاۃ الخ، مطلب في المشي في الصلاۃ‘‘: ج ۱، ص: ۲۹۲، ۲۹۳)

 

فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج6 ص287

نماز / جمعہ و عیدین

الجواب وباللّٰہ التوفیق: نصف شب کے بعد ہی پڑھنی چاہئے البتہ اگر آنکھ نہ کھلنے کا اندیشہ ہو اور عشاء کے بعد پڑھ کر سو جائے تو بھی ان شاء اللہ تہجد کا ثواب ملے گا۔(۱)

(۱) وفي تفسیر ابن عباس: قم اللیل یعنی کلہ إلا قلیلاً، فاشتد ذلک علی النبي صلی اللّٰہ تعالیٰ علیہ وسلم، وعلی أصحابہ، وقاموا اللیل کلہ، ولم یعرفوا ماحد القلیل، فأنزل اللّٰہ تعالی نصفہ، أو أنقص منہ قلیلاً، أو زد علیہ یعني أنقص من النصف الی الثلث الخ۔ (الطحطاوي، حاشیۃ الطحطاوي علی مراقي الفلاح، ’’کتاب الصلاۃ: فصل في تحیۃ المسجد وصلاۃ الضحی وإجماع اللیالی‘‘: ص: ۳۹۶، شیخ الہند دیوبند)
أقول: الظاہر أن حدیث الطبراني الأوّل بیان لکون وقتہ بعد صلاۃ العشاء، حتی لو نام ثم تطوع قبلہا لایحصل السنۃ … ولأن التہجد إزالۃ النوم بتکلف مثل تأثم: أي تحفظ عن الإثم؛ نعم صلاۃ اللیل وقیام اللیل أعم من التہجد … والظاہر أن تقییدہ بالتطوع بناء علی الغالب وأنہ یحصل بأي صلاۃ کانت، لقولہ علیہ السلام في الحدیث المار: وماکان بعد صلاۃ العشاء فہو من اللیل … لکن ذکر آخر عنہ، علیہ السلام: من استیقظ من اللیل وأیقظ أہلہ فصلیا رکعتین کتبا من الذاکرین اللّٰہ کثیراً والذاکرات۔ (ابن عابدین، رد المحتار، ’’کتاب الصلاۃ: باب الوتر والنوافل‘‘: ج ۲، ص: ۶۸، ۴۶۷، زکریا دیوبند)

 

فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج6 ص403

خوردونوش

Ref. No. 811 Alif

الجواب وباللہ التوفیق

بسم اللہ الرحمن الرحیم: اگر اس کی شکل و صورت گائے کی ہے اور غذا بھی  وہی  ہے تو گائے کا ہی حکم  ہے۔

 

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند

زکوۃ / صدقہ و فطرہ

Ref. No. 1243 Alif

الجواب وباللہ التوفیق                                                                                           

بسم اللہ الرحمن الرحیم-: خود سعودی میں فطرہ ادا کریں یا والدین کسی دوسرے ملک میں اداکریں بہرصورت درست ہے۔ ہر صورت میں فطرہ ادا ہوجائے گا۔ واللہ اعلم

 

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند

بدعات و منکرات

Ref. No. 39 / 973

الجواب وباللہ التوفیق    

بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ اس کی گنجائش ہے، اورمؤثر حقیقی اللہ تعالی کو ہی سمجھنا لازم ہے۔

واللہ اعلم بالصواب

 

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند

طلاق و تفریق

Ref. No. 976/41-112

الجواب وباللہ التوفیق 

بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔  صورت مذکورہ میں کوئی حرمت ثابت نہیں ہوئی۔ البتہ اس طرح کےمذاق سے گریز کرنا لازم ہے۔

واللہ اعلم بالصواب

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند

Islamic Creed (Aqaaid)

Ref. No. 1178/42-431

الجواب وباللہ التوفیق 

بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ اس طرح کے حلف اٹھانے میں  بظاہرکوئی حرج نہیں ہے۔

واللہ اعلم بالصواب

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند

فقہ
کیا فقہ حنفی میں یہ مسلہ ہے کہ ایک آدمی الحمد اللہ کہنا چاہتا تھا منہ سے انت طالق نکل گیا تو بیوی کو طلاق واقع ہو جائے گی جبکہ امام بخاری اور تینوں امام اہل سنت امام شافعی امام مالک اور امام احمد بن حنبل کے نزدیک نہیں ہوگی اسی طرح ایک مسلہ ہے کہ ایک آدمی کے بیٹے کا نام طلال ہو اور وہ کہنا چاہتا ہو کہ میں اپنی بیوی کو طلال دیتا ہوں منہ سے نکل جائے میں اپنی بیوی کو طلاق دیتا ہوں تو کیا طلاق واقع ہو جائے گی جبکہ نیت نہ تھی اس بارے میں جمہور آئمہ کے مسلک پر عمل کرنا کیسا ہے اور باقی اماموں کی رائے کیا ہے

اسلامی عقائد

الجواب وباللّٰہ التوفیق:بیشک کرامات اولیاء حق ہیں؛ مگر یہ بھی یاد رکھنا چاہئے کہ شرارتِ شیطان بھی حق ہے۔ اور بزرگانِ دین کی کرامت اور شیطان کی شرارت میں امتیاز کرنا ہر کس و ناکس کا کام نہیں ہے، اس لئے پوری ہوشیاری اور شرعی روشنی میں جانچ کر دیکھنا چاہئے کہ واقعی اولیاء کی کرامت ہے یا شیطان کی شرارت ہے۔ (۱)

۱) وکرامات الأولیاء حق، والولی ہو العارف باللّٰہ تعالیٰ وصفاتہ حسب ما یمکن المواظب علی الطاعات المجتنب عن المعاصي المعرض عن الانہماک في اللذات والشہوات، وکرامتہ ظہور أمر خارق من قبلہ غیر مقارن لدعوی النبوۃ فما لا یکون مقرونا بالإیمان والعمل الصالح یکون استدراجا۔ (علامہ سعد الدین تفتازاني، شرح العقائد النسفیۃ، ’’مبحث کرامات الأولیاء حق‘‘: ص:۱۴۴)
الکرامۃ خارق للعادۃ إلا أنہا غیر مقرونۃ بالتحدي وہو کرامۃ للولي۔ (أبو حنیفۃ رحمہ اللّٰہ، شرح الفقہ الأکبر، ’’مبحث في أن خوارق العادات للأنبیاء -علیہم السلام- والکرامات للأولیاء حق‘‘: ص: ۹۵)

  فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج1ص292

اسلامی عقائد

الجواب وباللّٰہ التوفیق:مذکورہ صورت میں جو ایسے مواقع پر کھانا پکاکر کھلایا جاتا ہے، یہ سب رسم ورواج کے پیش نظر ہوتا ہے، جیسا کہ اوپر سوال سے ظاہر ہے کہ شرمندگی دور کرنے اور ناک رکھنے کے لئے ایسا کیا جا رہا ہے؛ حالانکہ اسلام اس قسم کے رسم ورواج کو مٹانے کے لئے آیا تھا، تاکہ مسلمانوں کی اصلاح ہوجائے؛ پس ایسے رسم ورواج اور بدعات میں شرکت کرنے سے پرہیز کرنا ضروری ہے، اور اگر یہ کھانا میت کے ترکہ سے ہے تو کھانا پکانا ہی ناجائز ہوگا، اور اس کا کھانا بھی جائز نہیں ہوگا اس میں شرکت سے پرہیز ضروری ہے البتہ قرآن پاک پڑھ کر ایصال ثواب کردینے میں کوئی حرج نہیں درست اور جائز ہے۔ خواہ مدرسہ میں ہو یا گھر پر ہو۔(۱)

(۱) عن عائشۃ رضي اللّٰہ عنہا قالت: قال رسول اللّٰہ علیہ وسلم: من أحدث في أمرنا ہذا ما لیس فیہ فہو رد۔ (أخرجہ البخاري، في صحیحہ، ’’کتاب الصلح: باب إذا اصطلحوا علی صلح جور‘‘: ج ۱، ص: ۳۷۱، رقم: ۲۶۹۷)
ویکرہ اتخاذ الضیافۃ من الطعام من أہل المیت لأنہ شرع في السرور لا في الشرور، وہي بدعۃ مستقبحۃ۔ (ابن الہمام، فتح القدیر، ’’کتاب الصلاۃ: فصل في الدفن‘‘: ج ۲، ص: ۱۵۱)
ویکرہ اتخاذ الطعام في الیوم الأول والثالث وبعد الأسبوع ونقل الطعام إلی القبر في المواسم۔ (ابن عابدین، الدر المختار مع رد المحتار، ’’کتاب الصلاۃ: باب صلاۃ الجنازۃ، مطلب في کراہۃ الضیافۃ من أہل المیت‘‘: ج ۳، ص: ۱۴۸)
عن قیس بن أبي حازم، عن جریر بن عبد اللّٰہ البجلي، قال: کنا نری الاجتماع إلی أہل المیت وصنعۃ الطعام من النیاحۃ۔ (أخرجہ ابن ماجہ، في سننہ، ’’أبواب ما جاء في الجنائز، باب ما جاء في النہي عن الاجتماع‘‘: ج ۱، ص: ۵۱۴، رقم: ۱۶۱۲)
ویقرء من القرآن ما تیسر لہ من الفاتحۃ وأول البقرۃ إلی المفلحون، وآیۃ الکرسي وآمن الرسول، وسورۃ یٰس، وتبارک الملک، وسورۃ التکاثر، والإخلاص إثنی عشر مرۃ أو إحدی عشر أو سبعاً أو ثلاثا، ثم یقول: اللہم أوصل ثواب ما قرأناہ إلی فلان أو إلیہم۔ (ابن عابدین، الدر المختار، ’’کتاب الصلاۃ: باب صلاۃ الجنائز، مطلب في زیارۃ القبور‘‘: ج ۳، ص: ۱۵۱)


فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج1ص404