اسلامی عقائد

الجواب وباللّٰہ التوفیق:قبر پر پہونچتے ہی فوراً پڑھنا شروع کردیں یا وقفہ سے پڑھیں دونوں صورتیں جائز اور درست ہیں اور سلام کرنا حدیث سے ثابت ہے۔ ’’السلام علیکم  یا أہل القبور‘‘۔(۱)

(۱) مشکوٰۃ المصابیح، ’’کتاب الجنائز: باب زیارۃ القبور، الفصل الثاني: ج ۱، ص: ۱۵۴، رقم: ۱۷۶۵۔
قولہ ویقرأ یٰس لما ورد: من دخل المقابر فقرأ سورۃ یٰس خفف اللّٰہ عنہم یومئذ وکان لہ بعدد من فیہا حسنات۔ بحر وفي شرح اللباب ویقرأ من القرآن ما تیسر لہ من الفاتحۃ وأول البقرۃ إلی المفلحون إلخ۔ (ابن عابدین، الدر المختار، مع رد المحتار، ’’کتاب الصلاۃ: باب صلاۃ الجنائز، مطلب في زیارۃ القبور‘‘: ج ۳، ص: ۱۵۱ )
عن أنس رضي اللّٰہ عنہ، أنہ قال: قال رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم: من دخل المقابر فقرأ سورۃ یٰس یعني أہدی ثوابہا للأموات خفف اللّٰہ عنہم یومئذ العذاب ورفعہ۔ (مراقي الفلاح مع حاشیۃ الطحطاوي، ’’کتاب الصلاۃ: فصل في زیارۃ القبور‘‘: ج ۱، ص: ۶۲۱)


فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج1ص414

اسلامی عقائد

Ref. No. 2526/45-3927

بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔  آپ نے ثافی لکھا ہے، اس کا معنی معلوم نہیں ہے، کوئی دوسرا نام جس کا اچھا معنی ہو ، رکھ لیں۔

واللہ اعلم بالصواب

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند

 

حدیث و سنت

الجواب وباللّٰہ التوفیق:قرآن کریم میں اللہ تبارک وتعالیٰ نے حضرت یحییٰ علیہ السلام کی صفت کو بیان کیا ہے {اَنَّ اللّٰہَ یُبَشِّرُکَ بِیَحْیٰی مُصَدِّقًام بِکَلِمَۃٍ مِّنَ اللّٰہِ وَسَیِّدًا وَّحَصُوْرًا وَّنَبِیًّا مِّنَ الصّٰلِحِیْنَہ۳۹}(۱) اللہ تبارک وتعالیٰ آپ کو بشارت دیتا ہے یحییٰ علیہ السلام کی جن کے احوال یہ ہوں گے کہ وہ کلمۃ اللہ یعنی حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی نبوت کی تصدیق کرنے والے ہوں گے اور مقتدائے دین ہوںگے اپنے نفس کو لذات سے روکنے والے (عورت کے پاس نہیں جائیں گے) نبی اور صالحین میں سے ہوں گے، علامہ آلوسی رحمۃ اللہ علیہ لفظ ’’حصور‘‘ کی تشریح کرتے ہوئے لکھتے ہیں:
’’وحصورا‘‘ عطف علی ما قبلہ ومعناہ الذي لا یأتي النساء مع القدرۃ علی ذلک والإشارۃ إلی عدم انتفاعہ علیہ السلام بما عندہ لعدم میلہ للنکاح لما أنہ في شغل شاغل عن تلک‘‘(۲)
مذکورہ عبارت سے معلوم ہوا کہ حضرت یحییٰ علیہ السلام کو نکاح کرنے کی قدرت تھی؛ لیکن آخرت کا خیال ان پر اس قدر غالب تھا کہ نہ ان کو بیوی کی ضرورت محسوس ہوئی اور نہ ہی بیوی بچوں کے حقوق ادا کرنے کی فرصت ملی؛ اس لیے حضرت یحییٰ علیہ السلام نے نکاح نہیں کیا، صاحب مرقاۃ ملا علی قاری رحمۃ اللہ نے حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے بارے میں ایک روایت نقل کی ہے:
’’عن عبد اللّٰہ بن عمرو رضي اللّٰہ عنہما قال: قال رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ سلم: ینزل عیسیٰ بن مریم إلی الأرض فتزوج ویولد لہ‘‘(۱)
حضرت عیسیٰ علیہ السلام جب قرب قیامت میں نازل ہوں گے تو نکاح کریں گے۔
الحاصل: قرآن وحدیث کی روشنی میں معلوم ہوتا ہے کہ ان دو پیغمبروں نے نکاح نہیں کیا ہے، مولانا صاحب نے دورانِ تقریر جو بات کہی ہے وہ صحیح ہے۔
(۱) سورۃ آل عمران: ۳۹۔
(۲) علامہ آلوسي، روح المعاني، ’’آل عمران: ۳۹-۴۰‘‘: ج ۳،ص: ۱۴۸۔

(۱) ملا علي قاري، مرقاۃ المفاتیح، ’’کتاب الفتن: باب نزول عیسیٰ علیہ السلام، الفصل الأول‘‘: ج ۸، ص: ۴۱۸۔

فتاوی دارالعلوم، وقف دیوبند ج2ص233

اسلامی عقائد

Ref. No. 2631/45-4042

بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔   ماہ رجب یا شعبان ؁ ٢ ہجری کو نماز ظہر میں تحویل قبلہ کا حکم اس جگہ آیا جہاں آج مسجد قبلتین موجود ہے، حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی بنو حارثہ سے تعلق رکھنے والے انصاری صحابی حضرت بشر بن البراء بن معرور کے گھر دعوت تھی حضرت بشر کے والد براء اور الدہ ام بشر کو بھی صحابیت کا شرف حاصل ہے ظہر کی دو رکعت پڑھا چکے تھے کہ سورہ بقرہ کی آیت ’’قد نری تقلب وجہک فی السماء الخ‘‘ نازل ہوئی، اس وقت آپ نے دوران نماز اپنا رخ تبدیل فرمایا۔

حضرت ابو بشر البراء بن معرور کہا کرتے تھے کہ خدا گواہ ہے کہ میں حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ وہ نماز پڑھی ہے جس کے آغاز میں قبلہ بیت المقدس تھا اور اختتام پر بیت اللہ قبلہ بن چکا تھا۔ (طبقات ابن سعد: ج ١،ص: ٢٤١،٢٤٢)

واللہ اعلم بالصواب

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند

 

طہارت / وضو و غسل

الجواب وباللہ التوفیق:قرآن کریم کی آیات کو قرآن کی حیثیت سے پڑھنا جنبی کے لیے حرام ہے۔(۲)

(۲)عن ابن عمر عن النبي ﷺ قال: لا تقرأ الحائض ولا الجنب شیئا من القرآن الخ۔ (أخرجہ محمد بن عیسیٰ الترمذي، في سننہ، باب ما جاء في الجنب والحائض أنھما لا یقرآن القرآن، …(ج۱،ص:۳۴، رقم: ۱۳۱)؛ و قال صاحب المرقاۃ: اتفقوا علی أن الجنب لا یجوز لہ قراء ۃ القرآن۔ (علی بن محمد، مرقاۃ المفاتیح،  باب مخالطۃ الجنب و یباح لہ، ج۱، ص۱۴۸)؛ ویحرم بہ تلاوۃ قرآن ولو دون آیۃ علی المختار بقصدہ و مسہ، (ابن عابدین، ردالمحتار، کتاب الطہارۃ، یطلق الدماء علی ما یشمل الثناء، ج۱، ص:۳۱۳)؛ و لا تقرأ الحائض والنفساء والجنب شیئا من القرآن، والآیۃ وما دونھا سواء في  التحریم علی الأصح، (جماعۃ من علماء الہند، الفتاویٰ الہندیۃ، کتاب الطھارۃ، الباب السادس في الدماء المختصۃ بالنساء،الفصل الرابع في أحکام الحیض والنفاس والاستحاضۃ: ومنھا حرمۃ قراء ۃ القرآن، ج۱، ص:۹۲)
 

فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج2ص441

طہارت / وضو و غسل

الجواب وباللّٰہ التوفیق: نظر آنے والی نجاست مٹی یا کسی بھی چیز سے رگڑ کر اس طرح صاف کردی جائے کہ نجاست کا کوئی اثر باقی نہ رہے، تو وہ چیز پاک ہو جائے گی؛ لہٰذا گوبر کو اگر اچھی طرح گھاس پر رگڑ کر صاف کر دیا تھا، تو نماز درست ہو گئی۔
’’وعن أبي یوسف رحمہ اللّٰہ أنہ إذا مسحہ في التراب أو الرمل علی سبیل المبالغۃ یطہر وعلیہ فتویٰ من مشائخنا للبلویٰ والضرورۃ‘‘(۲)
(۲) جماعۃ من علماء الہند، الفتاویٰ الہندیۃ، ’’کتاب الطہارۃ‘‘: ج ۱، ص: ۴۲۔

 

فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج3ص34

نکاح و شادی

Ref. No. 2704/45-4169

بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ کم از کم مہر کی مقدار دس درہم ہے، اگر اس سے کم مہر مقرر ہوا تو بھی دس درہم ہی دینا لازم ہوگا۔اور دس درہم کی موجودہ قیمت دینا بھی کافی ہوگا۔

وأما بيان أدنى المقدار الذي يصلح مهرا فأدناه عشرة دراهم أو ما قيمته عشرة دراهم، وهذا عندنا".  ((ولنا) قوله تعالى: {وأحل لكم ما وراء ذلكم أن تبتغوا بأموالكم} [النساء: 24] شرط سبحانه وتعالى أن يكون المهر مالا.

والحبة والدانق ونحوهما لا يعدان مالا فلا يصلح مهرا، وروي عن جابر - رضي الله عنه - عن رسول الله - صلى الله عليه وسلم - أنه قال: «لا مهر دون عشرة دراهم» ، وعن عمر وعلي وعبد الله بن عمر - رضي الله عنهم - أنهم قالوا: لا يكون المهر أقل من عشرة دراهم، والظاهر أنهم لأنه باب لا يوصل إليه بالاجتهاد والقياس؛ ولأنه لما وقع الاختلاف في المقدار يجب الأخذ بالمتيقن وهو العشرة. وأما الحديث ففيه إثبات الاستحلال، إذا ذكر فيه مال قليل لا تبلغ قيمته عشرة. (بدائع الصنائع: (276/2، ط: دار الکتب العلمیة)

واللہ اعلم بالصواب

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند

 

طہارت / وضو و غسل

الجواب وباللّٰہ التوفیق:پریشانی ومجبوری کی وجہ سے تیمم کی اجازت ہے، تیمم واجب نہیں، اس لیے اگر کوئی شخص رخصت سے فائدہ نہ اٹھائے، تب بھی کوئی گناہ نہیں۔(۱)

(۱)فإن لم تجدوا مائً فتیمموا صعیداً طیباً۔ (مائدۃ)  إعلم أن التیمم لم یکن مشروعاً لغیر ھذہ الأمۃ، و إنما شرع رخصۃً لنا۔ (عالم بن العلاء الحنفي، الفتاویٰ تاتارخانیہ، ’’الفصل الخامس في التیمم‘‘ج۱، ص:۳۶۰)
 

فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج3 ص353

نماز / جمعہ و عیدین

الجواب وباللہ التوفیق: (۱، ۲) اقتداء کے لیے ضروری ہے کہ مقتدی کو امام کے احوال سے واقفیت ہو تاکہ مقتدی حضرات ارکان میں امام کی مکمل اتباع کرسکیں اسی لیے پہلے جب کہ مائک وغیرہ کا نظم نہیں ہوتا تھا، تو مسجدکی دوسری منزل پہ نماز کے لیے پہلی منزل کی چھت کے سامنے کا حصہ  کھلا رکھاجاتا تھا تاکہ امام صاحب کی آواز اس کھلے حصے سے اوپر آجائے اور مقتدی حضرات ارکان میں امام کی پیروی کرسکیں اس کے علاوہ کھلا حصہ رکھنے کا بظاہر کوئی مقصد سمجھ میں نہیں آتا ہے؛ اب جب مائک کے ذریعہ آواز دوسری منزل میں پہونچ جاتی ہے، تو وہ حصہ کھلا رکھنے کی کوئی ضرورت نہیں ہے۔ اگر اوپر کا حصہ مکمل بند ہوجائے او رمقتدی حضرات کو امام کے احوال کا علم ہوجائے، تو نماز بلا کراہت ہوجائے گی۔(۱)
(۳) اقتداء کی شرطوں میں سے ایک اہم شرط امام او رمقتدی کے مکان کا متحد ہوناہے۔ یہ اتحاد مکان حقیقی ہو یا حکمی ہو۔ مثلاً مسجد میں امام ہے اور اسی مسجد میں مقتدی ہے تو یہ اتحاد مکان حقیقی ہے اور نیچے کی منزل میں امام ہے اور اوپر کی منزل میں مقتدی ہے تو یہ اتحادِ مکان حکمی ہے؛ لیکن مسجد میں امام صاحب ہوں اور دوسرے مکان میں مقتدی ہو، تو اگر چہ اسپیکر کے ذریعہ آواز پہونچ رہی ہو لیکن اقتدا درست نہیں ہے ہاں! اگر مسجد میں جگہ پرُ ہوجائے اور مسجد سے متصل جگہ میں لوگ نماز پڑھیں اور درمیان میں گاڑی وغیرہ گزرنے کے بقدر فاصلہ نہ ہو، تو نماز درست ہے۔(۱)
(۴) اپنی نماز سے فارغ ہونے کے بعد پیچھے راستہ ملنے کا انتظار کرنا چاہیے؛ لیکن کھڑے ہوکر مسجد سے نکلنے کا انتظار کرنا مناسب نہیں؛ اس لیے کہ اس سے سامنے والے کی نماز میں خلل واقع ہوتاہے۔
(۵) عمل کثیر اور عمل قلیل کی متعدد تعریفیں کی گئی ہیں، اکثر علما کے نزدیک راجح تعریف یہ ہے کہ دور سے دیکھنے والا شخص نمازی کو اس عمل کی وجہ سے یقین یا غالب گمان کے درجہ میں یہ سمجھے کہ یہ نماز میں نہیں، نماز سے باہر ہے تو وہ عمل کثیر ہے، اور اگر اسے محض شک ہو یا شک بھی نہ ہو؛ بلکہ اس عمل کے باوجود دیکھنے والا اسے نماز ہی میں سمجھے تو وہ عمل قلیل ہے۔(۲)
(۶) عمل کثیر سے نماز فاسد ہوجاتی ہے۔(۳)

(۱) (والحائل لا یمنع) الاقتداء (إن لم یشتبہ حال إمامہ) بسماع أو رؤیۃ ولو من باب مشبک یمنع الوصول في الأصح (ولم یختلف المکان) حقیقۃ کمسجد وبیت في الأصح قنیۃ، ولا حکما عند اتصال الصفوف؛ ولو اقتدی من سطح دارہ المتصلۃ بالمسجد لم یجز لاختلاف المکان۔ (ابن عابدین، رد المحتار، ’’کتاب الصلاۃ: باب الإمامۃ، مطلب الکافي للحاکم جمع کلام محمد في کتبہ‘‘: ج۲، ص: ۳۴-۳۳۳)
(۱) قد تحرر بما تقرر أن اختلاف المکان مانع من صحۃ الاقتداء و لو بلا اشتباہ و لا یصح الاقتداء و إن اتحد المکان ثم رأیت الرحمتي قد قرر ذلک فاغتنم ذلک۔ (ابن عابدین، رد المحتار، ’’کتاب الصلاۃ: باب الإمامۃ، مطلب الکافي للحاکم جمع کلام محمد في کتبہ‘‘: ج۲، ص: ۳۳۵)
من کان بینہ و بین الإمام نہر أو طریق أو صف من النساء فلا صلاۃ لہ۔ (الکاساني، بدائع الصنائع، ’’کتاب الصلاۃ، فصل شرائط أرکان الصلاۃ‘‘: ج۱، ص:۳۰۵)
(۲) والثالث أنہ لو نظر إلیہ ناظر من بعید إن کان لایشک أنہ في غیر الصلاۃ فہو کثیر مفسد، وإن شک فلیس بمفسد، وہذا ہو الأصح، ھکذا في التبیین، وھو أحسن کذا محیط السرخسي، وھو اختیار العامۃ کذا في فتاویٰ قاضي خان والخلاصۃ۔ (جماعۃ من علماء الہند، الفتاویٰ الھندیۃ، ’’کتاب الصلاۃ: الباب السابع فیما یفسد الصلاۃ وما یکرہ فیھا، الفصل الثاني‘‘: ج۱، ص: ۱۵۶)  وفیہ أقوال، أصحہا مالایشک بسببہ الناظر من بعید في فاعلہ أنہ لیس فیہا وإن شک أنہ فیھا فقلیل۔ (ابن عابدین،  رد المحتار، ’’کتاب الصلاۃ: باب ما یفسد الصلاۃ وما یکرہ فیھا‘‘: ج۲، ص: ۳۸۵، ط مکتبہ زکریا دیوبند)
(۳) (و) یفسدہا (کل عمل کثیر) لیس من أعمالہا ولا لإصلاحہا، وفیہ أقوال خمسۃ أصحہا (ما لایشک) بسببہ (الناظر) من بعید (في فاعلہ أنہ لیس فیہا) وإن شک أنہ فیہا أم لا فقلیل۔ (ابن عابدین، رد المحتار، ’’کتاب الصلاۃ، باب مایفسد الصلاۃ ومایکرہ فیہا، مطلب في التشبہ بأہل الکتاب‘‘: ج۲، ص:۳۸۴)

 

فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج5 ص462

 

نماز / جمعہ و عیدین

الجواب وباللہ التوفیق: اوقات ثلاثہ میں پڑھی ہوئی قضاء نمازیں واجب الاعادہ ہیں(۲)؛ کیوں کہ ان تین اوقات میں ہر قسم کی نماز ممنوع ہے(۳) خواہ فرض نماز ہو یا نفل، اداء نماز ہو یا قضا، جیسا کہ فتاویٰ عالمگیری میں لکھا ہے:
’’ثلاث ساعات لا تجوز فیہا المکتوبۃ ولا صلاۃ الجنازۃ ولا سجدۃ التلاوۃ‘‘(۱)

(۲) ولو قضی فیہا فرضا أي صلوٰۃ مفروضۃ یعیدہا أي یلزمہ إعادتہا لعدم صحتہا لما قدمناہ من أنہا وجبت بسبب کامل فلا تتأدی بالسبب الناقص۔ (إبراہیم الحلبي، الحلبي الکبیري: ص: ۲۰۸)
(۳) وکرہ تحریماً وکل ما لا یجوز مکروہ صلاۃ مطلقا ولو قضاء أو واجبۃ أو نفلاً أو علی جنازۃ وسجدۃ تلاوۃ وسہو لا شکر، قنیۃ مع شروق… وسجدۃ تلاوۃ وصلاۃ جنازۃ تلیت الآیۃ في کامل وحضرت الجنازۃ قبل لوجوبہ کاملاً فلا یتأدی ناقصا فلو وجبتا فیہا لم یکرہ فعلہما أي تحریماً وفي التحفۃ: الأفضل أن لا تؤخر الجنازۃ۔ (ابن عابدین، رد المحتار، ’’کتاب الصلاۃ‘‘: مطلب: یشترط العلم بدخول الوقت، ج۲، ص: ۳۰- ۳۵)
(۱)  جماعۃ من علماء الہند، الفتاویٰ الہندیۃ، ’’کتاب الصلاۃ، الباب الأول في المواقیت ومایتصل بہا‘‘: الفصل الثالث: في بیان الأوقات التي لا تجوز فیہا الصلاۃ وتکرہ فیہا: ج ۱، ص: ۱۰۸۔

 

 فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج4 ص108