Frequently Asked Questions
نماز / جمعہ و عیدین
الجواب وباللّٰہ التوفیق: نماز شروع کرنے کے بعد سورہ فاتحہ سے پہلے ثناء کے بعد تعوذ و تسمیہ سنت ہے؛ لیکن یہ سنت مؤکدہ ہے یا غیر مؤکدہ اس کی صراحت مجھے نہیں ملی؛ البتہ فقہاء کی تعبیرات سے معلوم ہوتاہے کہ بسم اللہ پڑھنا سنت مؤکدہ ہے؛ اس لیے کہ بہت سے فقہاء نے اسے واجب قرار دیا ہے اگر چہ ترجیح سنت کو دی ہے؛ لیکن واجب کا قول اس کے سنت مؤکدہ ہونے کی طرف مشیر ہے۔
’’عن ابن عباس رضي اللّٰہ عنہ، قال: کان النبي صلی اللّٰہ علیہ وسلم یفتتح صلاتہ ببسم اللّٰہ الرحمن الرحیم‘‘(۲)
’’وکما تعوذ سمی سراً في أول کل رکعۃ وذکر في ’’المصفی‘‘ أن الفتوی علی قول أبي یوسف أنہ یسمي في أول کل رکعۃ ویخفیہا‘‘(۱)
’’فتجب في ابتداء الذبح، و في ابتداء الفاتحۃ في کل رکعۃ قیل ہو قول الأکثر؛ لکن الأصح أنہا سنۃ، قال العلامۃ ظفر أحمد العثماني: نقلا عن الشرنبلالي و تسن التسمیۃ أول رکعۃ قبل الفاتحۃ لأنہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم کان یفتتح صلاتہ ببسم اللّٰہ الرحمن الرحیم‘‘(۲)
(۲) أخرجہ الترمذي، في سننہ، ’’أبواب الصلوٰۃ: باب من رأي الجہر ببسم اللّٰہ الرحمٰن الرحیم‘‘: ج ۱، ص: ۵۷، کتب خانہ اشرفی دیوبند۔
(۱) ابن عابدین، رد المحتار، ’’کتاب الصلاۃ: باب صفۃ الصلاۃ‘‘: مطلب لفظ الفتویٰ أکدو أبلغ ، ج ۲، ص: ۲۹۱، ۲۹۲، زکریا دیوبند؛ وابن نجیم، البحر الرائق، ’’والثناء والتعوذ والتسمیۃ والتأمین سراً‘‘: ج ۱، ص: ۵۲۸، زکریا دیوبند
(۲) ابن عابدین، رد المحتار، ’’مقدمۃ الکتاب: عنوان، تقدیم المؤلف حول البسملۃ والحمد لہ‘‘: ج ۱، ص: ۶۲۔
فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج4 ص378
نماز / جمعہ و عیدین
الجواب وباللّٰہ التوفیق: عمل کثیر کی مختلف تعریفیں کی گئی ہیں۔ مفتی بہ اورراجح قول یہ ہے کہ نماز میں ایسا کام کرے کہ دور سے دیکھنے والے کو یقین ہوجائے کہ یہ نماز میں نہیں ہے۔
دوسرا قول یہ ہے کہ جو کام عام طور پر دوہاتھوں سے کیا جاتا ہے مثلاً عمامہ باندھنا ایسا کام کرنا عمل کثیر شمار ہوتا ہے اور جو کام عام طور پر ایک ہاتھ سے کیا جاتا ہے وہ عمل قلیل ہے، تیسرا قول یہ ہے کہ تین حرکات متوالیہ یعنی تین بار سبحان ربی الاعلی کہنے کی مقدار وقت میں تین دفعہ ہاتھ کو حرکت دی تو یہ عمل کثیر ہے ورنہ قلیل۔
اگر کسی شخص نے ایک رکن (قعدہ، سجدہ، یا تشہد) میں تین بار حرکت کی تو اس سے نماز فاسد نہیں ہوتی ہاں اگر ہردفعہ حرکت کرنے کے لیے ہاتھ اٹھایا اور تینوں حرکات متوالیہ ہوں یعنی ہاتھ اٹھانے کی درمیانی مدت تین دفعہ سبحان ربی الاعلی کہنے کی مقدار سے کم ہو تو نماز فاسد ہوجائے گی۔
’’ویفسدہا کل عمل کثیر لیس من أعمالہا ولا لإصلاحہا وفیہ أقوال خمسۃ أصحہا مالایشک بسبہ الناظر من بعید في فاعلہ أنہ لیس فیہا وإن شک أنہ فیہا أم لا فقلیل‘‘(۱)
’’الثالث: الحرکات الثلاث المتوالیۃ کثیر وإلا فقلیل وقیل یفوض إلی رأي المصلي إن استکثرہ فکثیر وإلا فلا وعامۃ المشائخ علی الأول وقال الحلواني: إن الثالث أقرب علی مذہب أبي حنیفۃ لأن مذہبہ التفویض إلی رأي المبتلی بہ في کثیر من المواضع ولکن ہذا غیر مضبوط وتفویض مثلہ إلی رأي العوام مما لاینبغي وأکثر الفروع أو جمیعہا مخرج علی أحد الطریقین الأولین والظاہر أن ثانیہا لیس خارجا عن الأول لأن ما یقام بالیدین عادۃ یغلب ظن الناظر أنہ لیس في الصلاۃ وکذا قول من اعتبر التکرار إلی الثلاث متوالیۃ في غیرہ فإن التکرار یغلب الظن بذلک فلذا اختارہ جمہور المشائخ‘‘(۲)
(۱) الحصکفي، الدر المختار مع رد المحتار’’باب ما یفسد الصلاۃ و مایکرہ فیھا‘‘: ج۲، ص: ۳۸۴، ۳۸۵)۔
(۲) إبراہیم الحلبي، غنیۃ المستملي شرح منیۃ المصلی، ’’مطلب في التعریف بالعمل الکثیر وحکمہ‘‘: ج۲، ص: ۳۷۵)۔
فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج6 ص 79
Islamic Creed (Aqaaid)
Ref. No. 2795/45-4379
In the name of Allah the most Gracious the most Merciful
The answer to your question is as follows:
Everything is not considered as a currency, for that local government and the state authority should recognize the value of this currency and give it the status of exchange, in general transactions and people accept such currency willingly. It is also notable that in the recent era, external existence is not necessary for the currency; rather, due to legal status and practice among people, it is recognized as valuable currency, as nowadays there is no external existence of currency in online transactions, but it is accepted among the people, if someone transfers, and in exchange, wants external currency he may receive and give it to others.
This is not the case with crypto currency, nor it is commonly practiced, nor it is legal everywhere, but experts are of the opinion that crypto currency does not conform to the rules of currency; rather it is a fictitious currency. That is why its daily price varies very much, while the normal currency does not vary to this extent.
Moreover, experts also say that everyone can create crypto currency, while everyone does not have the right to make currency. It is mostly used in speculation; its value is in the hands of a few people. Crypto-currency itself has no worth and value, so its materiality is doubtful. Hence, it is not valid to buy and sell through crypto-currency.
مطلب في النبهرجة والزيوف والستوقة وفي التتارخانية الدراهم أنواع أربعة: جياد، ونبهرجة، وزيوف، وستوقة. واختلفوا في تفسير النبهرجة، قيل هي التي تضرب في غير دار السلطان والزيوف: هي المغشوشة. والستوقة: صفر مموه بالفضة. وقال عامة المشايخ: الجياد فضة خالصة تروج في التجارات وتوضع في بيت المال. والزيوف ما زيفه بيت المال: أي يرده، ولكن تأخذه التجار في التجارات لا بأس بالشراء بها، ولكن يبين للبائع أنها زيوف. والنبهرجة: ما يرده التجار. والستوقة: أن يكون الطاق الأعلى فضة والأسفل كذلك وبينهما صفر وليس لها حكم الدراهم(فتاوي شامي " مطلب في النبهرية و الزيوف" 5/233) وفي الكشف الكبير المال ما يميل إليه الطبع ويمكن ادخاره لوقت الحاجة والمالية إنما ثبت بتمول الناس كافة أو بتقوم البعض والتقوم يثبت بها وبإباحة الانتفاع له شرعا فما يكون مباح الانتفاع بدون تمول الناس لا يكون مالا كحبة حنطة وما يكون مالا بين الناس ولا يكون مباح الانتفاع لا يكون متقوما كالخمر، وإذا عدم الأمر إن لم يثبت واحد منهما كالدم. اهـ(البحر الرائق‘كتاب البيع" 5/277)
And Allah knows best
Darul Ifta
Darul Uloom Waqf Deoband
نماز / جمعہ و عیدین
الجواب وباللہ التوفیق: صورت مسئول عنہا میں زید کو چاہئے کہ وتر بھی باجماعت ادا کرے اس میں ثواب زیادہ ہے تاہم اگر اس نے بوقت تہجد وتر تنہا پڑھ لیا تو ادا ہوگیا اس لیے کہ ایسا کرنا بھی ثابت ہے۔(۱)
(۱) ویوتر بجماعۃ) استحباباً (في رمضان فقط) علیہ إجماع المسلمین؛ لأنہ نفل من وجہ والجماعۃ في النفل في غیر التراویح مکروہۃ، فالاحتیاط ترکہا في الوتر خارج رمضان، وعن شمس الأئمۃ أن ہذا فیما کان علی سبیل التداعي، أما لو اقتدی واحد بواحد أو اثنان بواحد لایکرہ، وإذا اقتدی ثلاثۃ بواحد اختلف فیہ، وإن اقتدی أربعۃ بواحد کرہ اتفاقاً۔ (وصلاتہ) أي الوتر (مع الجماعۃ في رمضان أفضل من أدائہ منفرداً آخر اللیل في اختیار قاضي خان ، قال قاضي خان رحمہ اللّٰہ: (ہو الصحیح) لأنہ لما جازت الجماعۃ کان أفضل ولأن عمر رضي اللّٰہ عنہ کان یؤمہم في الوتر (وصححہ غیرہ) أي غیر قاضي خان۔ (أحمد بن محمد، مراقي الفلاح مع حاشیۃ الطحطاوي، ’’کتاب الصلاۃ: باب الوتر و أحکامہ‘‘: ج۱، ص: ۳۸۶)
فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج6 ص301
اسلامی عقائد
الجواب وباللہ التوفیق۔ تمام اہل سنت والجماعت کا عقیدہ ہے کہ اللہ تعالی ہر جگہ موجود ہے، اور ہر چیز اس کے علم میں ہے، لایعزب عنہ مثقال ذرة فی السموات والارض ولااصغر من ذلک ولا اکبر الا فی کتاب مبین۔ اللہ تعالی کے لئے کوئی مخصوص جگہ متعین نہیں، ، وہ ذات کسی مکان کی محتاج نہیں وہ تو واجب الوجود اور قدیم ہے، اور مکان وزمان وغیرہ حادث ہیں، اور بعض نصوص میں جو کسی خاص مکان کا ذکر ہے، تو اس سے مراد اس جگہ پر اللہ تعالی کی کسی خاص صفت کا غلبہ ہونا ہے، یا یہ کہ وہ جگہ اللہ تعالی کی خصوصی تجلیات کا مظہر ہے- وھو اللہ فی السموات وفی الارض – انہ سبحانہ وتعالی لکمال علمہ بمافیھا کٲنہ فیھا ﴿بیضاوی شریف﴾ استواء علی العرش سے بھی وہاں پراللہ تعالی کی خصوصی تجلی کا ہونا ہی مراد ہے، نہ یہ کہ وہ جگہ اللہ تعالی کے لئے محیط ہے، شرح عقائد نسفی۔ واللہ اعلم
اجماع و قیاس
Ref. No. 40/884
الجواب وباللہ التوفیق
بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ اجماع حجت شرعی فرعی ہے، اسے ماننا ضروری ہے لیکن منکر خارج از ایمان نہیں ہے، اور اہل حدیث کو بھی خارج از ایمان کہنا غلط ہے۔
واللہ اعلم بالصواب
دارالافتاء
دارالعلوم وقف دیوبند
Hajj & Umrah
Ref. No. 41/981
In the name of Allah the most Gracious the most merciful
The answer to your question is as follows:
The above mentioned hadith is a weak hadith (daeef) but as per the rules of Muhaddithin it is reliable in the chapter of fazail.
And Allah knows best
Darul Ifta
Darul Uloom Waqf Deoband
اعتکاف
Ref. No. 894/41-16B
الجواب وباللہ التوفیق
بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ بشرط صحت سوال پشاور والوں کو اپنی ہی تاریخ کے اعتبار سے ایک دن پہلے ہی کربوغہ میں اعتکاف کے لئے بیٹھنا چاہئے، اور اختتام کربوغہ کی تاریخ کے اعتبار سے کرنا چاہئے احتراما للوقت و موافقا للمسلمین۔ تاہم بہتر یہ ہے کہ پشاور والوں کو کربوغہ میں نفلی اعتکاف کی نیت کرنی چاہئے، اور اگر اعتکاف مسنون ہی کرنا چاہیں تو اپنے علاقوں میں کریں۔
وقالا: يتشبه) بالمصلين ای احتراما للوقت ۔۔۔ قوله كالصوم) أي في مثل الحائض إذا طهرت في رمضان، فإنها تمسك تشبها بالصائم لحرمة الشهر ثم تقضي (الدرالمختار 2/253)
واللہ اعلم بالصواب
دارالافتاء
دارالعلوم وقف دیوبند
نکاح و شادی
Ref. No. 988/41-143
الجواب وباللہ التوفیق
بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔صرف وسوسہ آنے سے نکاح پر کوئی اثر نہیں پڑے گا۔ زبان پر کنٹرول رکھے اور زبان سے کوئی بات ایسی نہ کہے جس سے نکاح ٹوٹ جاتا ہے۔
ورکنہ لفظ مخصوص ھو ماجعل دلالۃ علی معنی الطلاق من صریح او کنایۃ (ردالمحتار رکن الطلاق 3/230- نظام الفتاوی 2/144)
واللہ اعلم بالصواب
دارالافتاء
دارالعلوم وقف دیوبند
Islamic Creed (Aqaaid)
Ref. No. 1317/42-688
In the name of Allah the most Gracious the most Merciful
The answer to your question is as follows:
According to our custom, the money given on such occasions is the assets of the parents, even if it is given to the child. If those things are given by the relatives of the mother, then the mother is their owner, and if they are given by the relatives of the father, then the father will be the owner of them. However, if the giver specifies it for the child or the custom is such that the money or necklace is for the girl only, then it will now belong to the girl only, the parents can neither give it to any other child nor sell it.
بخلاف التصرف في المال؛ لأنه یتکرر فلایمکن تدارک الخلل، فلاتفید الولایة إلا ملزمة". (الهدایة، کتاب النکاح، باب في الأولیاء والأکفاء)
وما داما في الحجر فالولي في مالهما الأب، ثم وصيه، ثم الحاكم، ولا ولاية عليهما في المال لغير من ذكرنا، ولا يجوز لوليهما أن يتصرف في مالهما إلا على وجه الحط لهما، فإن تبرع أو باع بدون ثمن المثل، أو أنفق عليهما أو على من يلزمه نفقته زيادة على النفقة بالمعروف ضمن، وكذلك إن صالح بشيء من مالهما لمن لا بينة له بما يدعيه، ولا يجوز للوصي ولا للحاكم أن يشتري من مالهما شيئا لنفسه ويجوز ذلك للأب (الھدایۃ علی مذھب الامام احمد 1/275)
And Allah knows best
Darul Ifta
Darul Uloom Waqf Deoband