Frequently Asked Questions
قرآن کریم اور تفسیر
Ref. No. 1443/42-945
الجواب وباللہ التوفیق
بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ وباللہ التوفیق:۔مذکورہ سوال کے تین اجزاء ہیں:
(۱) تفسیر بالرائے: تفسیر بالرائے کا مطلب یہ ہوتا ہے کہ قرآن کریم کی کسی آیت،جملہ یا کلمہ کی تشریح توضیح محض ذاتی رائے اور سمجھ کی بنیاد پر کی جائے، قرآن فہمی کے جو اصول وشرائط ہیں ان کی رعایت اور پاسداری نہ کی جائے اس سلسلے میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد گرامی ہے:جس نے قرآن میں اپنی رائے سے کوئی بات کہی تو وہ اپنا ٹھکانا جہنم میں بنا لے،ایک اور روایت ہے: فرمایا جس نے علم کے بغیر قرآن میں کوئی بات کہی تو اپنا ٹھکانہ جہنم میں بنالے،ایک جگہ اور ارشاد ہے:جس نے قرآن کریم میں اپنی رائے سے کچھ کہا اور درست کہا، تب بھی اس نے غلطی کی، (مرقاۃ المفاتیح: ج ۱، ص: ۵۴۴) مذکورہ احادیث سے معلوم ہوا کہ بغیر علم کے قرآن کی تفسیر یا مفہوبیان کرناتکلیف دہ اور جرأت کی بات کے ساتھ ساتھ انتہائی غیر ذمہ دارانہ اقدام ہے اس لئے آئندہ اس کا خاص خیال رکھا جائے۔
(۲) دونوں آیتوں کا صحیح مفہوم: (وقالوا أإذا کنا عظاما الخ) یہ لوگ کہتے ہیں کہ جب ہم مر کر ہڈیاں اور چورا یعنی ریزہ ریزہ ہوجائیں گے تو کیا اس کے بعد قیامت میں ہم از سر نو پیدا اور زندہ کئے جائیں گے اول تو مر کر زندہ ہونا مشکل ہے، (قل کونوا حجارۃ أو حدیدا) اللہ تبارک وتعالیٰ نے فرمایا:آپ فرما دیجئے کہ تم ہڈیوں سے حیات کو بعید کہتے ہو اور ہم کہتے ہیں کہ تم پتھر، لوہا یا اور کوئی ایسی مخلوق ہو کر دیکھ لو جو تمہارے ذہن میں قبول حیات سے بعید ہو دیکھو زندہ کئے جاؤ گے یا نہیں؟ یعنی یقینا تم ضرور دوبارہ زندہ کئے جاؤ گے۔ (مفتی محمد شفیع، بیان القرآن: ج 2، ص: 150)
(یا معشر الجن والإنس إن ستطعتم الخ) اس آیت کا مطلب یہ ہے کہ اے جنات اور انسانوں اگر تمہیں یہ گمان ہو کہ ہم کہیں بھی بھاگ جائیں اور ملک الموت کے تصرف سے بچ جائیں گے یا میدان حشر سے بھاک کر نکل جائیں گے اور حساب و کتاب سے بچ جائیں گے تو تم اپنی قوت آزمالو اگر تمہیں اس پر قدرت ہے کہ آسمان و زمین کے دائروں سے باہر نکل جاؤگے تو نکل کر دکھلاؤیہ کوئی آسان کام نہیں ہے اس کے لئے تو بہت بڑی قوت وقدرت درکار ہے جو جناتوں اور انسانوں کی کی دونوں قوموں کو حاصل نہیں ہے، اس آیت کے مفہوم سے ان خلائی سفروں اور سیارات پر پہونچنے کے واقعات کا کوئی تعلق نہیں ہے۔(معارف القرآن ص:255،ج:8)
(۳) دونوں آیتوں (قل کونوا حجارۃ الخ) اور (یا معشر الجن والإنس الخ) کی تفسیر جو آپ نے کی ہے وہ آپ کے سوال سے ظاہر ہے کہ دونوں آیتوں کا صحیح مفہوم جواب کا دوسرا جز میں ذکر ہو چکا ہے اس لئے آئندہ کے لئے احتیاط برتیں، کسی بھی آیت کا مطلب بغیر علم کے خود سے ہر گز نہ بتائیں،کسی عالم دین سے سمجھ لیں پھر بیان کریں،آپ نے جن دوستوں کو غلط مطلب بتا یا ہے ان سے اب دونوں آیتوں کا صحیح مفہوم کی وضاحت کردیں (إن شاء اللّٰہ) مواخذہ نہیں ہوگا۔
واللہ اعلم بالصواب
دارالافتاء
دارالعلوم وقف دیوبند
Islamic Creed (Aqaaid)
Ref. No. 1534/43-1043
In the name of Allah the most Gracious the most Merciful
The answer to your question is as follows:
The verses of the holy Quran, commentaries and Ahadith declare that Ummul Mumineen Hazrat Ayesha (ra) is in Paradise.
وعن أبي سلمة أن عائشة قالت: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: «يا عائش هذا جبريل يقرئك السلام» . قالت: وعليه السلام ورحمة الله. قالت: وهو يرى [ص:1744] ما لا أرى متفق عليه (مشکوۃ المصابیح، باب مناقب ازواج 3/1743) وعن عائشة أن جبريل جاء بصورتها في خرقة حرير خضراء إلى رسول الله صلى الله عليه وسلم فقال: «هذه زوجتك في الدنيا والآخرة» . رواه الترمذي (مشکوۃ المصابیح، باب مناقب ازواج 3/1745)
حدثنا عثمان، قال: أخبرنا يونس، عن الزهري، عن أبي سلمة، أن عائشة، قالت: لما أمر رسول الله صلى الله عليه وسلم بتخيير أزواجه، بدأ بي، فقال: «يا عائشة إني أذكر لك أمرا، ولا عليك أن لا تستعجلي حتى تذاكري أبويك» قالت: وقد علم أن أبوي لم يكونا ليأمراني بفراقه، ثم قال: إن الله عز وجل يقول: {يا أيها النبي قل لأزواجك إن كنتن تردن الحياة الدنيا وزينتها} [الأحزاب: 28] حتى بلغ: {أعد للمحسنات منكن أجرا عظيما} [الأحزاب: 29] فقلت: في أي هذا أستأمر أبوي؟ فإني قد اخترت الله ورسوله والدار الآخرة. قالت: ثم فعل أزواج النبي صلى الله عليه وسلم ما فعلت (مسند احمد مخرجا، مسند الصدیقۃ عائشۃ 43/212) حدثنا أبو نعيم، حدثنا ابن أبي غنية، عن الحكم، عن أبي وائل، قام عمار، على منبر الكوفة، فذكر عائشة، وذكر مسيرها، وقال: «إنها زوجة نبيكم صلى الله عليه وسلم في الدنيا والآخرة، ولكنها مما ابتليتم» (صحیح البخاری، باب الفتنۃ التی تموج کموج البحر 9/56)
And Allah knows best
Darul Ifta
Darul Uloom Waqf Deoband
طلاق و تفریق
Ref. No. 1720/43-1408
بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ بشرط صحت سوال صورت مسئولہ میں عورت پر فقہ حنفی کی روشنی میں تینوں طلاقیں واقع ہوگئیں، اور نکاح ختم ہوگیا، اب دونوں اجنبی ہوگئے۔ عورت عدت گزرنے کے بعد کسی دوسرے مرد سے اگر چاہے تو نکاح کرسکتی ہے۔
﴿ الطَّلَاقُ مَرَّتَانِ فَإِمْسَاكٌ بِمَعْرُوفٍ أَوْ تَسْرِيحٌ بِإِحْسَانٍ ﴾ [البقرة: 229] ﴿ فَإِنْ طَلَّقَهَا فَلَا تَحِلُّ لَهُ مِنْ بَعْدُ حَتَّى تَنْكِحَ زَوْجًا غَيْرَهُ﴾ [البقرة: 230]
عن عائشة، أن رجلا طلق امرأته ثلاثا، فتزوجت فطلق، فسئل النبي صلى الله عليه وسلم: أتحل للأول؟ قال: «لا، حتى يذوق عسيلتها كما ذاق الأول». صحيح البخاري(2/791، ط:قدیمی) مطابقته للترجمة في قوله: طلق امراته ثلاثاً فإنه ظاهر في كونها مجموعة. عمدة القاری (2/336، ط؛ رشیدیه) فالتمسك بظاهرقوله طلقها ثلاثا فإنه ظاهر في كونها مجم وعة. (فتح الباري لابن حجر (9 / 367)
أن عائشة، أخبرته: أن امرأة رفاعة القرظي جاءت إلى رسول الله صلى الله عليه وسلم، فقالت: يا رسول الله، إن رفاعة طلقني فبت طلاقي، وإني نكحت بعده عبد الرحمن بن الزبير القرظي، وإنما معه مثل الهدبة، قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: «لعلك تريدين أن ترجعي إلى رفاعة؟ لا، حتى يذوق عسيلتك وتذوقي عسيلته»۔ (صحيح البخاري (2/791، ط:قدیمی) قوله فبت طلاقي فإنه ظاهر في أنه قال لها أنت طالق ألبتة ويحتمل أن يكون المراد أنه طلقها طلاقا حصل به قطع عصمتها منه وهو أعم من أن يكون طلقها ثلاثا مجموعة أو مفرقة ويؤيد الثاني أنه سيأتي في كتاب الأدب من وجه آخر أنها قالت طلقني آخر ثلاث تطليقات۔ فتح الباري لابن حجر (9 / 367، دار المعرفة – بيروت)
فَاخْتَلَفَ الْعُلَمَاءُ فِي جَوَابِهِ وَتَأْوِيلِهِ فَالْأَصَحُّ أَنَّ مَعْنَاهُ أَنَّهُ كَانَ فِي أَوَّلِ الْأَمْرِ إِذَا قَالَ لَهَا أَنْتِ طَالِقٌ أَنْتِ طَالِقٌ أَنْتِ طَالِقٌ وَلَمْ يَنْوِ تَأْكِيدًا وَلَا اسْتِئْنَافًا يُحْكَمُ بِوُقُوعِ طَلْقَةٍ لِقِلَّةِ إِرَادَتِهِمُ الِاسْتِئْنَافَ بِذَلِكَ فَحُمِلَ عَلَى الْغَالِبِ الَّذِي هُوَ إِرَادَةُ التَّأْكِيدِ فَلَمَّا كَانَ فِي زَمَنِ عُمَرَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ وَكَثُرَ اسْتِعْمَالُ النَّاسِ بِهَذِهِ الصِّيغَةِ وَغَلَبَ مِنْهُمْ إِرَادَةُ الِاسْتِئْنَافِ بِهَا حُمِلَتْ عِنْدَ الْإِطْلَاقِ عَلَى الثَّلَاثِ عَمَلًا بِالْغَالِبِ السَّابِقِ إِلَى الْفَهْمِ مِنْهَا فِي ذَلِكَ الْعَصْرِ۔ (شرح النووي على مسلم (1/478، ط: قدیمی)
واللہ اعلم بالصواب
دارالافتاء
دارالعلوم وقف دیوبند
متفرقات
Ref. No. 1921/43-1823
بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ اگر دینےوالے نکاح خواں کو پیسے دیتے ہیں تو اس کی مرضی کے بغیر رسید بنالینا جائز نہیں ہے، البتہ اگر وہ خوشی سے مسجد کو دیدے تو اس میں کوئی حرج نہیں ہے۔ اور اگر دینےوالوں نے رقم مسجد میں دی ہے تو وہ رقم مسجد کی ہی ہے، کسی کو اپنے ذاتی استعمال میں لانا جائز نہیں ہے۔ الحاصل دینے والے جس کو رقم دیں گے وہی اس کا مالک ہوگا، اور مالک کی مرضی کے بغیر اس سے چندہ لینا یا رسید بنادینا جائز نہیں ہے۔
وَفِي فَتَاوَى النَّسَفِيِّ: إذَا كَانَ الْقَاضِي يَتَوَلَّى الْقِسْمَةَ بِنَفْسِهِ حَلَّ لَهُ أَخْذُ الْأُجْرَةِ، وَكُلُّ نِكَاحٍ بَاشَرَهُ الْقَاضِي وَقَدْ وَجَبَتْ مُبَاشَرَتُهُ عَلَيْهِ كَنِكَاحِ الصِّغَارِ وَالصَّغَائِرِ فَلَايَحِلُّ لَهُ أَخْذُ الْأُجْرَةِ عَلَيْهِ، وَمَا لَمْ تَجِبْ مُبَاشَرَتُهُ عَلَيْهِ حَلَّ لَهُ أَخْذُ الْأُجْرَةِ عَلَيْهِ، كَذَا فِي الْمُحِيطِ. وَاخْتَلَفُوا فِي تَقْدِيرِهِ، وَالْمُخْتَارُ لِلْفَتْوَى أَنَّهُ إذَا عَقَدَ بِكْرًا يَأْخُذُ دِينَارًا وَفِي الثَّيِّبِ نِصْفَ دِينَارٍ وَيَحِلُّ لَهُ ذَلِكَ هَكَذَا قَالُوا، كَذَا فِي الْبُرْجَنْدِيِّ"( كتاب أدب القاضي، الْبَابُ الْخَامِسَ عَشَرَ فِي أَقْوَالِ الْقَاضِي وَمَا يَنْبَغِي لِلْقَاضِي أَنْ يَفْعَل، ٣ / ٣٤٥)
عن أبي حرة الرقاشي عن عمہ رضي اللّٰہ عنہ قال: قال رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم: ألا لا تظلموا! ألا لا یحل مال امرء إلا بطیب نفس منہ۔ (مشکاة المصابیح / باب الغصب والعاریة، الفصل الثاني ۲۵۵)
واللہ اعلم بالصواب
دارالافتاء
دارالعلوم وقف دیوبند
نماز / جمعہ و عیدین
Ref. No. 2162/44-2272
بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ قرآت قرآن کے وقت بعض الفاظ میں ہونٹ کی جنبش ضروری ہے، ہونٹ کی حرکت کے بغیر وہ الفاظ ادا نہیں ہوتے، تاہم ہونٹ کی حرکت کا محسوس ہونا دوسری چیز ہے، ہلکی سی حرکت میں دوسروں کو ممکن ہے محسوس نہ ہو، اس لئے اگر امام صاحب کہتے ہیں کہ میں قرات کرتاہوں تو اس میں ان کی ہی بات درست مانی جائے گی، اس لئے آپ ان کے پیچھے نماز پڑھ سکتے ہیں اور باقی لوگ بھی ان کے پیچھے نماز پڑھیں۔ سب کی نماز درست ہوگی اور اگر خدانخواستہ امام صاحب ہی غلطی پر ہیں تو ان کی بھی نماز خراب ہو گی اور تمام مصلین کی بھی، اور سب کا گناہ ان کے سر ہوگا۔ اس لئے امام صاحب بھی اس میں احتیاط برتیں اور قرات میں اس قدر آواز پیداکریں کہ وہ خود سن سکیں تو بہتر ہے۔
واللہ اعلم بالصواب
دارالافتاء
دارالعلوم وقف دیوبند
Islamic Creed (Aqaaid)
Ref. No. 2237/44-2372
In the name of Allah the most Gracious the most Merciful
The answer to your question is as follows:
One must keep in mind that whispers are usually caused by satanic influences, the devil makes the believer suffer from various and doubts, and you need not worry about the whispers which are not in your control. When a whisper comes, do not give it a space, rather repel it immediately and get engaged in the remembrance of Allah. Where there is wealth of faith, Satan's attack will also be there. So, the occurrence of whispers in this way has been described as a sign of faith in the hadith. So when a whisper comes, do not pay attention to it at all, do not act on it, and do not express it to people. However, Performing the prayers in congregation on time with all etiquettes, frequent remembrance of Allah and Durood Sharif, following the Sunnah in every action, reciting the holy Qur'an morning and evening, meditation and accounting are the key foundations of loving God and following the Prophet (saws).
And Allah knows best
Darul Ifta
Darul Uloom Waqf Deoband
حج و عمرہ
Ref. No. 2417/45-3667
بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ دوران حج اگر کسی کا انتقال ہوجائے اور اس نے کوئی وصیت نہ کی ہو تو اس کی طرف سے حج بدل لازم وضروری نہیں ہے۔ اگر اولاد میں سے کوئی اس کی طرف سے حج بدل کرنا چاہے تو مستقل حج کی نیت سے کرے گا، حج افراد، حج تمتع و قران میں سے کوئی بھی کرے۔ لیکن سوال میں مذکور صورت کہ باپ جو ارکان اداکرچکاہے اس کے بعد کے ارکان کوئی ادا کرے یہ درست نہیں ہے۔ مثلا وقوف عرفہ کے بعد کسی کا انتقال ہوگیا اور آپ اس کے بعد کے ارکان اداکریں تو یہ حج بدل نہیں کہلائے گا۔
واللہ اعلم بالصواب
دارالافتاء
دارالعلوم وقف دیوبند
ربوٰ وسود/انشورنس
Ref. No. 2460/45-3771
بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ پینشن کی رسیدیں اور بینک کے چیک خریدنے سے کیا مراد ہے، اور خریداری کے بعد کمیشن لینے کا کیا مطلب ہے، یہ چیزیں سوال میں واضح نہیں ہیں، سائل پر لازم ہے کہ پہلے اس کاروبار کی مکمل تفصیل تحریر کرے، پھر تفصیلی جواب لکھاجائےگا۔
واللہ اعلم بالصواب
دارالافتاء
دارالعلوم وقف دیوبند
بدعات و منکرات
الجواب وباللّٰہ التوفیق:صورت مسئول عنہا میں اگر لوگ اتنی دیر مسجد میں رہتے ہیں کہ امام صاحب کی نیند میں خلل ہوتا ہے، تو امام صاحب پر لوگوں کے ساتھ بیٹھنا لازم نہیں ہے تاکہ وہ فجر کی نماز کے وقت بآسانی بیدار ہوسکیں، امام کے سونے کے لئے الگ سے جگہ کا نظم کر دیا جائے۔(۱)
(۱) حامل القرآن رایۃ الإسلام فمن أکرمہ فقد أکرمہ اللّٰہ ومن أہانہ فعلیہ لعنۃ اللّٰہ۔ (علاؤ الدین علي بن حسام الدین، کنز العمال: ج ۳، ص: ۱۳۹)
فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج2ص351
طہارت / وضو و غسل
الجواب وباللّٰہ التوفیق: گوشت پر اگر خون لگا ہوا تھا اور اس کو پانی میں ڈالا تو پانی ناپاک ہو جائے گا، اس سے وضو وغسل درست نہیں اور اس سے کپڑا دھونا بھی درست نہیں ہے؛ تاہم اگر اس پر خون نہیں تھا، تو گوشت پاک ہے اس کو پانی میں ڈالنے سے پانی ناپاک نہیں ہوگا۔
’’الدم الملتزق باللحم إن کان ملتزقاً من الدم السائل بعد ما سال کان نجساً وإن لم یکن ملتزقاً من الدم السائل لم یکن نجساً وروی المعلی عن أبي یوسف: أن غسالۃ الدم إذا أصابت الثوب لم تجز الصلوٰۃ فیہ وإن صب في بئر یفسد الماء یرید بہ الدم الذي بقی في اللحم ملتزماً بہ ولو طبخ اللحم‘‘ (۱)
’’لا یفسد الثوب الدم الذي یبقی في اللحم لأنہ لیس بمسفوح‘‘(۲)
(۱) برہان الدین محمود بن أحمد، المحیط البرہاني في الفقہ النعماني، ’’کتاب الطہارات: الفصل السابع: في النجاسات وأحکامہا، الأول في معرفۃ الأعیان النجسۃ، وحدہا‘‘: ج ۱، ص: ۱۸۹۔(بیروت، دارالکتب العلمیۃ، لبنان)
(۲) جماعۃ من علماء الہند، الفتاویٰ الہندیۃ، ’’کتاب الطہارۃ، الفصل الأول: في تطہیر الأنجاس‘‘: ج ۱، ص: ۴۶۔
فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج3ص38