Marriage (Nikah)

Ref. No. 2110/44-1230

In the name of Allah the most Gracious the most Merciful

The answer to your question is as follows:

Your Nikah with your wife was valid, and merely her friend's signature will not affect the marriage. The saheli signed the Nikahnama on behalf of your wife not for herself. And you accepted your wife in your marriage but not her friend. Therefore, your marriage with your wife is undoubtedly valid. Because the signature is not important in the marriage, rather the ijab and qabool (proposal and acceptance) are the essential parts of the marriage. In this signature, the saheli was just a representative, not a self doer.

And Allah knows best

Darul Ifta

Darul Uloom Waqf Deoband

اسلامی عقائد

الجواب وباللّٰہ التوفیق:کسی کی روح کے حاضرِ مجلس ہونے کا عقیدہ رکھنا جائز نہیں ہے اور مذکورہ وظیفہ پڑھنا بھی جائز نہیں ہے۔(۱)

(۱) ولیست من المسائل التي یضر جہلہا أو یسئل عنہا في القبر أو في الموقف فحفظ اللسان عن التکلم فیہا إلا بخیر أولیٰ وأسلم۔ (ابن عابدین، الدر المختار مع رد المحتار، ’’کتاب النکاح: باب نکاح الکافر، مطلب في الکلام علی أبوي النبي صلی اللّٰہ علیہ وسلم وأہل الفترۃ‘‘: ج ۴، ص: ۳۵۰)
 مردے کی روح دنیا میں واپس نہیں آتی (تھانوی، اشرف الجواب: ص: ۱۵۶)
ویکفر بقولہ أرواح المشائخ حاضرۃ تعلم۔ (إبراہیم بن محمد، مجمع الأنہر، ’’کتاب السیر والجہاد، ثم إن ویکفر بقولہ أرواح المشائخ حاضرۃ تعلم۔ (إبراہیم بن محمد، مجمع الأنہر، ’’کتاب السیر والجہاد، ثم إن ألفاظ الکفر أنواع‘‘: ج ۲، ص: ۵۰۴)

فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج1ص293

اسلامی عقائد

الجواب وباللّٰہ التوفیق:مردے کو ایصال ثواب کرنے کی شرعاً اجازت ہے؛ لیکن کوئی وقت مقرر کرنا، یا کھانے کی قسم مقرر کرنے کی شرعی اجازت نہیں ہے، جس کام کا آپ نے ذکر کیا ہے اس کی کوئی شرعی اصل نہیں ہے، یہ غلط اور بے اصل ہے، اس رواج کو توڑنا ضروری اور باعث ثواب ہے، مردے کو کچھ پڑھ کر ایصال ثواب کیا جائے، کسی مستحق کو کتابیں کپڑے وغیرہ دیدیئے جائیں، کسی بھوکے کو کھانا کھلادیا جائے؛ ان سب کا ثواب مرحوم کو پہونچا دیا جائے۔(۱)

(۱) فإن من صام أو صلی أو تصدق وجعل ثوابہ لغیرہ من الأموات والأحیاء جاز ویصل ثوابہا إلیہم عند أہل السنۃ والجماعۃ۔ کذا في البدائع، وبہذا علم أنہ لا فرق بین أن یکون المجعول لہ میتاً أو حیًا۔ (ابن نجیم، البحر الرائق، ’’کتاب الحج: باب الحج عن الغیر‘‘: ج ۳، ص: ۱۰۶)
ویکرہ اتخاذ الضیافۃ من الطعام من أہل المیت لأنہ شرع في السرور لا في الشرور، وہي بدعۃ مستقبحۃ۔ (ابن الہمام، فتح القدیر، ’’کتاب الصلاۃ: فصل في الدفن‘‘: ج ۲، ص: ۱۵۱)
ویکرہ اتخاذ الطعام في الیوم الأول والثالث وبعد الأسبوع ونقل الطعام إلی القبر في المواسم۔ (ابن عابدین، الدر المختار مع رد المحتار، ’’کتاب الصلاۃ: باب صلاۃ الجنازۃ، مطلب في کراہۃ الضیافۃ من أہل المیت‘‘: ج ۳، ص: ۱۴۸)
ویقرء من القرآن ما تیسر لہ من الفاتحۃ وأول البقرۃ إلی المفلحون، وآیۃ الکرسي وآمن الرسول، وسورۃ یٰس، وتبارک الملک، وسورۃ التکاثر، والإخلاص إثنی عشر مرۃ أو إحدی عشر أو سبعاً أو ثلاثا، ثم یقول: اللہم أوصل ثواب ما قرأناہ إلی فلان أو إلیہم۔ (ابن عابدین، الدر المختار مع رد المحتار، ’’کتاب الصلاۃ: باب صلاۃ الجنائز، مطلب في زیارۃ القبور‘‘: ج ۳، ص: ۱۵۱)


فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج1ص406

طہارت / وضو و غسل

Ref. No. 2422/44-3652

بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔  مذکورہ صورت میں برش ناپاک ہوگیا، اور اس کے ذریعہ دروازہ کو پینٹ کرنا بھی دروازہ کو ناپاک کردے گا، تاہم اگر نجاست نظر نہ آتی ہو تو بعد میں دروازہ پر تین بار اچھی طرح سے پانی بہاینا کافی ہوگا اور اس طرح دروازہ کا ظاہر پاک ہوجا ئے گا یعنی اب دیوار پر تر ہاتھ لگنے سے ہاتھ ناپاک نہیں ہوگا ۔

ولو موہ الحدید بالماء النجس یموہ بالطاھر ثلاثاً، فیطھر خلافاً لمحمد فعندہ لا یطھر أبداً، وھذا في الحمل في الصلاة، أما لو غسل ثلاثاً ثم قطع بہ نحو بطیخ أو وقع في ماء قلیل لا ینجسہ فالغسل یطھر ظاھرہ إجماعاً، وتمامہ في شرح المنیة (رد المحتار، کتاب الطھارة، باب الأنجاس، ۱: ۵۴۲، ط: مکتبة زکریا دیوبند، ۲: ۴۰۳، ت: الفرفور، ط: دمشق)۔ (احسن الفتاوی، ۲: ۹۴، مطبوعہ: ایچ، ایم سعید، کراچی)

واللہ اعلم بالصواب

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند

اسلامی عقائد

الجواب وباللّٰہ التوفیق:شرعاً نہ آئینہ دیکھنے کی ممانعت ہے رات میں اور نہ ہی جھاڑو دینے کی ممانعت ہے۔ زیادہ تر عورتیں ایسی باتیں کہتی ہیں جو صحیح نہیں ہے۔(۲) صفائی ستھرائی کی جب ضرورت ہو، صفائی کر لینا چاہیے اللہ کو صفائی پسند ہے اور اس کے لئے کسی وقت کی تعیین نہیں ہے۔(۱)

(۲) أشرف علي التھانوي، اغلاط العوام: ص: ۳۱۔          …عن أبي حرۃ الرقاشي عن عمہ رضي اللّٰہ عنہما قال: قال رسول اللّٰہ علیہ وسلم: ألا لا تظلموا ألا لا یحل مال إمرئ إلا بطیب نفس منہ۔ (مشکوٰۃ المصابیح، ’’کتاب البیوع: الفصل الثاني: باب الغصب والعاریۃ‘‘: ج ۱، ص: ۲۵۵، رقم: ۲۹۴۶)
(۱) إن اللّٰہ طیب یحب الطیب، نظیف یحب النظافۃ، رواہ الترمذي۔ (ملا علي قاري، مرقاۃ المفاتیح، ’’باب الترجل‘‘: ج ۷، ص: ۲۸۴۶، رقم: ۴۴۸۷)


فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج1ص525

متفرقات

Ref. No. 2605/45-4120

بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔  یہ آپ نے بہت غلط کیا، آپ کو اس طرح نہیں بولنا چاہئے تھا ، تاہم اس سےیمین منعقد  ہوگئی  اور قسم ٹوٹنے پر کفارہ دینا ہوگا، لیکن اس سے قسم کھانے والا کافر نہیں ہوگا۔ (بہشتی زیور حصہ سوم: ص۵۱قسم کھانے کا بیان)

واللہ اعلم بالصواب

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند

 

بدعات و منکرات

الجواب وباللّٰہ التوفیق:دین کا سیکھنا فرض عین ہے، (۱)خواہ مدرسہ کے ذریعہ ہو یا خانقاہ کے ذریعہ یا جماعت کے ذریعہ؛ البتہ تبلیغ فرض کفایہ ہے جو عالم دین نے تبلیغ کو فرض کہا اس کی مراد یہی ہوگی کہ دین کا سیکھنا فرض ہے، جہاں تک ان کے دلائل ہیں، ان سے تبلیغ کی فرضیت ضرور ثابت ہوتی ہے، لیکن اس کا فرض عین ہونا نہیں ثابت ہوتا ہے، (۲)  تبلیغ یعنی امر بالمعروف اور نہی عن المنکر یہ فرض کفایہ ہے اور اس کے لیے کوئی خاص طریقہ متعین نہیں ہے؛ بلکہ جس طرح بھی یہ کام انجام دیا جائے درست ہے؛ اس لیے سوشل میڈیا کے ذریعہ یا واٹس ایپ وغیرہ کے ذریعہ بھی کوئی امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کا فریضہ انجام دے، یہ جائز ہے؛ اس لیے کہ مقصد لوگوں کو بھلی بات بتانا اور برائی سے روکنا ہے۔
’’قال العلامہ الآلوسی في ہذہ الآیۃ ولتکن منکم أمۃ یدعون إلی الخیر ویأمرون المعروف وینہون عن المنکر؛ إن العلماء اتفقوا علی أن الأمر بالمعروف والنہي عن المنکر من فروض الکفایۃ۔(۱) وأعلم أن تعلم العلم یکون فرض عین وہو بقدر ما یحتاج إلیہ وفرض کفایۃ و ہو ما زاد علیہ لنفع غیرہ(۲) قال العلامي في فصولہ: من فرائض الإسلام تعلمہ ما یحتاج إلیہ العبد في إقامۃ دینہ وإخلاص عملہ للّٰہ تعالی ومعاشرۃ عبادہ وفرض علی کل مکلف ومکلفۃ بعد تعلمہ علم الدین والہدایۃ تعلم علم الوضوء والغسل والصلاۃ والصوم، وعلم الزکاۃ لمن لہ نصاب، والحج لمن وجب علیہ‘‘۔(۳)
(۱) عن أنس بن مالک رضي اللّٰہ عنہ، قال: قال رسول اللّٰہ علیہ وسلم: طلب العلم فریضۃ علی کل مسلم۔ (أخرجہ ابن ماجہ، في سننہ، ’’المقدمۃ، باب فضل العلماء والحث‘‘: ج ۱، ص: ۲۰، رقم: ۲۲۴)
(۲) {کُنْتُمْ خَیْرَ أُمَّۃٍ أُخْرِجَتْ لِلنَّاسِ تَأْمُرُوْنَ بِالْمَعْرُوْفِ وَتَنْھَوْنَ عَنِ الْمُنْکَرِ وَتُؤْمِنُوْنَ بِاللّٰہِط} (سورۃ آل عمران: ۱۱۰)
(۱) علامہ آلوسي، روح المعاني: ج ۴، ص: ۲۱۔
(۲) ابن عابدین، رد المحتار علی الدر المختار، ’’مقدمہ‘‘: ج ۱، ص: ۱۲۵)

(۳) ’’أیضاً‘‘۔

----------

فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج2ص344
 

طہارت / وضو و غسل

الجواب وباللہ التوفیق:کنویں کے بارے میں فقہاء نے لکھا ہے کہ حرام پرندوں کی بیٹ سے کنواں ناپا ک نہیں ہوتا۔(۲)

(۲) ولا نزح في بول فارۃ فی الأصح: ولا بخرء حمام و عصفور، و کذا سباع طیور في الأصح لتعذر صونھا عنہ۔ قولہ: في الأصح راجع إلی قولہ (وکذا سباع طیر) أي مما لایؤکل لحمہ من الطیور۔ (ابن عابدین، الدر المختار مع رد المحتار، کتاب الطہارۃ، باب المیاہ، مطلب مھم في تعریف الاستحسان، ج۱، ص:۳۷۷)؛ و في الخانیۃ وزرق سباع الطیر یفسد الثوب إذا فحش و یفسد ماء الأواني ولا یفسد ماء البئر، و في الفیض و بول الفارۃ لو وقع في البئر قولان أصحھما عدم التنجس۔ (درر الحکام شرح غرر الأحکام، فصل بئر دون عشر في عشر،ج۱، ص:۲۵)

 

فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج2ص481

 

طہارت / وضو و غسل

الجواب وباللہ التوفیق:اس میں راز یہ ہے کہ جس طرح انسان ظاہری اعضاء پر پانی ڈالتا ہے اور اس کی وجہ سے ظاہری اعضا کے گناہ معاف ہو جاتے ہیں، اسی طرح باقی پانی پی کر اس طرف اشارہ ہوتا ہے کہ اے اللہ تونے جس طرح میرے ظاہر کو پاک کر دیا، اسی طرح میرے باطن کو بھی پاک فرما دیں؛ کیوںکہ وضو کے پانی میں ایک خاص تاثیر اور برکت ہوتی ہے۔(۲)

(۲)(ماخوذاز:حضرت تھانویؒ، احکامِ اسلام عقل کی نظر میں ، ص:۳۸)، حاشیہ میں مرقوم ہے ’’اور اس پانی کو کھڑے ہو کر پینا سنت ہے تاکہ اوپر سے نیچے تک پاک ہونے کی دعا ہے۔‘‘، و أن یشرب من فضل الوضوء قائماً، وضو کا بچا ہوا پانی کھڑے ہو کر پینا از قبیل مستحبات ہے۔ کذا في نورالإیضاح لشرنبلالي، فصل من آداب الوضوء، ص:۳۴… و أن یشرب بعدہ من فضل وضوئہ ۔۔۔ والمراد شرب کلہ أو بعضہ۔ (رد المحتار، ’’کتاب الطہارۃ، مطلب في بیان إرتقاء الحدیث الضعیف إلی مرتبۃ الحسن،‘‘ ج۱،ص:۲۵۳)؛ و عن أبي حیۃ قال رأیت علیا توضأ الخ ثم قام فأخذ فضل طھورہ فشربہ و ھو قائم۔(أخرجہ الترمذي، في سننہ، ’’ابواب الطہارۃ، باب في وضوء النبی ﷺ کیف کان،‘‘ ج۱، ص:۱۷، رقم:۲۶)


 

فتاوی ٰ دارالعلوم وقف دیوبند ج3 ص148

طہارت / وضو و غسل

الجواب وباللّٰہ التوفیق:ہاں مردوں کی طرح عورتوں کو بھی مذی وودی آتی ہے۔ مذی پتلی اور سفیدی مائل ہوتی ہے جو منی سے پہلے شہوت کے وقت نکلتی ہے، مگر اس کے نکلنے سے شہوت ختم نہیں ہوتی اور ودی سفید گدلے رنگ کی ہوتی ہے جو پیشاب کے بعد اور کبھی اس سے پہلے اور کبھی جماع یا غسل کے بعد بلا شہوت نکلتی ہے۔
ان دونوں کے نکلنے کی صورت میں وضو ٹوٹ جاتا ہے اور غسل واجب نہیں ہوتا ۔
مراقی الفلاح میں ہے:
’’منہا المذي … وہو ماء أبیض رقیق یخرج عند شہوۃ لا بشہوۃ ولا دفق ولا یعقبہ۔ فتور وربما لا یحس نحو وجہ وہو أغلب في النساء من الرجال ویسمیٰ في جانب النساء قذی بفتح القاف والذال المعجمۃ‘‘
’’ومنہا (وديٌ) … وہو ماء أبیض کدر ثخین لارائحۃ لہ یعقب البول وقد یسبقہ۔ أجمع العلماء علی أنہ لا یجب الغسل بخروج المذي والودي‘‘(۱)
’’منہا ما یخرج من السبیلین من البول والغائط والریح الخارجۃ من الدبر والودي والمذي الخ‘‘(۱)

 

(۱) الطحطاوي، مراقي الفلاح علی حاشیۃ الطحطاوي، ’’کتاب الطہارۃ: فصل عشرۃ أشیاء لا یغسل‘‘: ج ۱، ص: ۱۰۰، ۱۰۱۔
(۱) جماعۃ من علماء الہند، الفتاویٰ الہندیۃ، ’’کتاب الطہارۃ: الباب الأول: في الوضوء، الفصل الخامس: في نواقض الوضوء‘‘: ج ۱، ص: ۶۰۔

 

فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج3 ص252