احکام میت / وراثت و وصیت

Ref. No. 899/41-

الجواب وباللہ التوفیق      

بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ بشرط صحت  سوال، صورت مسئولہ میں سفور کی کل جائداد کو بارہ حصوں پر تقسیم کیاجائے گاجس میں سے دوتہائی یعنی آٹھ حصے دونوں بیٹوں کو دئے جائیں گے  اور باقی چار حصوں  میں سے دو حصے اس بھائی کو جو زندہ ہے  اور ایک ایک حصہ دونوں بہنوں کو ملے گا۔ وہ لوگ جن کا انتقال سفور کی  زندگی میں ہوگیا تھا ان کو وراثت میں  حصہ  نہیں ملے گا۔ اور بھتیجوں کو بھی نہیں ملے گا۔ البتہ اگر ضرورتمند ہوں تو از راہ صلہ رحمی  تمام وارثین کو چاہئے کہ ان کی مدد کریں۔  کذا فی السراجی

واللہ اعلم بالصواب

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند

حدیث و سنت

Ref. No. 1449/42-909

الجواب وباللہ التوفیق

بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ جو شخص قرآن مجید کی تلاوت میں مشغول ہو یا کسی اور کام میں مشغول ہو کہ جواب نہ دے سکتاہو تو ایسے شخص کو سلام کرنا مکروہ ہے۔ اگر کسی نے ایسے شخص کو سلام کیا تو اس پر جواب دینا ضروری نہیں ہے۔  تاہم بہتر ہے کہ تلاوت روک کر سلام کا جواب دیدے۔

یکره السلام علی العاجز عن الجواب حقیقةً کالمشغول بالأکل أو الاستفراغ، أو شرعاً کالمشغول بالصلاة وقراءة القرآن، ولو سلم لایستحق الجواب".  (شامی، کتاب الصلاۃ، باب ما یفسد الصلاۃ وما یکرہ فیہا1/617)

کما یکرہ علی عاجزٍ عن الرد حقیقةً کأکل أو شرعاً کمصلٍّ وقارئٍ ولو سلّم لا یستحق الجواب (در مختار) وفي الشامي: ولو سلم لا یستحق الجواب أقول: في البزازیة وإن سلم في حال التلاوة فالمختار أنہ یجب الرد بخلاف حال الخطبة والأذان وتکرار الفقہ․․․ وإن سلّم فہو آثم․․․ وفیہا والصحیح أنہ لا یرد في ہذہ المواضع (شامي: 9/595)

واللہ اعلم بالصواب

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند

Hadith & Sunnah

Ref. No. 1552/43-1085

In the name of Allah the most Gracious the most Merciful

The answer to your question is as follows:

The above mentioned Ahadith are reported in Hadith Books with chain. The first Hadith is ‘Hasan Ghareeb’ and the second one is ‘Sahih’. Here are the hadiths:

عَنْ عَائِشَةَ، أَنَّ جِبْرِيلَ، جَاءَ بِصُورَتِهَا فِي خِرْقَةِ حَرِيرٍ خَضْرَاءَ إِلَى النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَقَالَ: «هَذِهِ زَوْجَتُكَ فِي الدُّنْيَا وَالآخِرَةِ» هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ غَرِيبٌ [حكم الألباني] : )صحيح الترمذي، في سننه، ج5ص704، رقم الحديث 3880(

2. عَائِشَةُ، رَضِيَ اللَّهُ عَنْهَا أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ ذَكَرَ فَاطِمَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهَا قَالَتْ: فَتَكَلَّمْتُ أَنَا فَقَالَ: «أَمَا تَرْضَيْنَ أَنْ تَكُونِي زَوْجَتِي فِي الدُّنْيَا وَالْآخِرَةِ؟» قُلْتُ: بَلَى وَاللَّهِ، قَالَ: «فَأَنْتِ زَوْجَتِي فِي الدُّنْيَا وَالْآخِرَةِ» أَبُو الْعَنْبَسِ هَذَا: سَعِيدُ بْنُ كَثِيرٍ مَدَنِيٌّ ثِقَةٌ وَالْحَدِيثُ صَحِيحٌ وَلَمْ يُخَرِّجَاهُ " [التعليق - من تلخيص الذهبي] 6729 – صحيح )المستدرك على الصحيحين، ج4، ص11، رقم الحديث 6729(

حدثنا محمد بن بشار قال: حدثنا عبد الرحمن بن مهدي قال: حدثنا أبو بكر بن عياش، عن أبي حصين، عن عبد الله بن زياد الأسدي، قال: سمعت عمار بن ياسر، يقول: «هي زوجته في الدنيا والآخرة»، يعني عائشة «هذا حديث حسن صحيح» (تحفۃ الاحوذی، باب فضل عائشۃ 10/262)

And Allah knows best

Darul Ifta

Darul Uloom Waqf Deoband

متفرقات

Ref. No. 2090/44-2129

بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ اس میں اشارہ ہے کہ خواب دیکھنے والے سے بھلائی کا ظہور ہوگا، اس سے خَلق خدا کو دینی فائدہ حاصل ہوگا، اور بہت سے لوگوں کے لئے ہدایت کا ذریعہ بنے گا، ان شاء اللہ

واللہ اعلم بالصواب

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند

 

اسلامی عقائد

Ref. No. 2367/44-3578

بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔   اس تنظیم کے عقائد و نظریات سے واقفیت نہیں ہے، بہتر ہے کہ مقامی  مفتیان کرام وعلماء عظام کی طرف رجوع کیاجائے، اور ان کے فتوی پر عمل کیا جائے۔

واللہ اعلم بالصواب

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند

 

نماز / جمعہ و عیدین

Ref. No. 2404/44-3628

بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔  عیدین کی نماز عیدگاہ میں  اداکرنا مسنون اور  افضل ہے، البتہ اگر  عید گاہ میں ابھی عید کی نماز نہ پڑھی گئی ہو اور شہر کی مسجد میں نماز عید پہلےپڑھ لی جائے تو نمازاداہوجائے گی، گوکہ عیدگاہ کا ثواب حاصل نہ ہوگا۔ ایسا ضروری نہیں ہے کہ عید گاہ میں نماز ہونے کے بعد ہی تمام مساجد میں عید کی نماز پڑھی جائے۔

ولو صلی العید فی الجامع ولم یتوجہ إلی المصلی فقد ترک السنة ۔ (البحرالرائق: ۲/۲۷۸) ۔

واللہ اعلم بالصواب

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند

 

طلاق و تفریق

Ref. No. 2461/45-3779

بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔  شوہر کا قول " میں نے چھوٹ دیدی ہے تو کہیں بھی شادی کرسکتی ہے" یہ طلاق کے کنائی الفاظ ہیں، اگر شوہر  قسم کھاکر کہتاہے کہ اس کی نیت اس جملہ سے طلاق کی نہیں تھی تو طلاق واقع نہیں ہوگی، مذکورہ خاتون کا نکاح اپنے شوہر سے برقرار رہے گا اور اگر اس جملہ سے شوہر کی نیت طلاق کی تھی  تو بیوی پر ایک  طلاقِ بائن واقع ہوگئی اور نکاح ختم ہوگیا، شوہر کو رجوع کا اختیار نہیں ہوگا۔ طلاق کے بعد مذکورہ خاتون  عدت  گزارکر دوسری جگہ نکاح کرسکتی ہے۔

" اذهبي وتزوجي تقع واحدة بلا نية.۔ ۔(قوله: تقع واحدة بلا نية) لأن تزوجي قرينة، فإن نوى الثلاث فثلاث بزازية، ويخالفه ما في شرح الجامع الصغير لقاضي خان: ولو قال: اذهبي فتزوجي وقال: لم أنو الطلاق لايقع شيء؛ لأن معناه إن أمكنك اهـ إلا أن يفرق بين الواو والفاء وهو بعيد هنا بحر، على أن تزوجي كناية مثل اذهبي فيحتاج إلى النية فمن أين صار قرينة على إرادة الطلاق باذهبي مع أنه مذكور بعده والقرينة لا بد أن تتقدم كما يعلم مما مر في اعتدي ثلاثا فالأوجه ما في شرح الجامع، ولا فرق بين الواو والفاء، ويؤيده ما في الذخيرة اذهبي وتزوجي لايقع إلا بالنية وإن نوى فهي واحدة بائنة، وإن نوى الثلاث فثلاث." (الدر المختار وحاشية ابن عابدين (رد المحتار) (3/ 314)

"ولو قال: (اذهبي) فتزوجي وقال: لم أنو لم يقع لأن معناه إن أمكنك، قاله قاضي خان والمذكور في (الحافظية) وقوعه بالواو بلا نية، ولو قال: إلى جهنم وقع إن نوى، كما في (الخلاصة) والله الموفق، (ابتغي الأزواج) إن قدرت أو لأني طلقتك ومثله تزوجي." (النهر الفائق شرح كنز الدقائق (2/ 360)

"ولو قال لها: اذهبي فتزوجي تقع واحدة إذا نوى فإن نوى الثلاث تقع الثلاث.(الفتاوى الهندية (1/ 376)

واللہ اعلم بالصواب

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند

 

متفرقات

Ref. No. 2521/45-3852

بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ انسان  کو اللہ نے قابل احترام بنایا ہے،اس کے تمام اعضاء  محترم ہیں،ا س کے کسی عضو کی بھی بے حرمتی   مناسب نہیں ہے۔  اس لئے  اپنے ناخن یا بال کاٹ کر اس کو دفن کردینا  مناسب ہے، لیکن پھینکنا بھی جائز ہے اور اس میں کوئی گناہ نہیں ہوگا۔  تاہم ٹوائلٹ اور نالی میں ڈالنا مکروہ ہے۔  

قال اللہ تعالی: ولقد کرمنا بني آدم الآیة (الإسراء، رقم الآیة: ۷۰) ، فإذا قلم أظفارہ أو جز شعرہ ینبغي أن یدفنہ، فإن رمی بہ فلا بأس، وإن ألقاہ فی الکنیف أو فی المغتسل کرہ؛ لأنہ یورث داء۔ خانیة۔ ویدفن أربعة: الظفر والشعر وخرقة الحیض والدم۔ عتابیة۔ ط (رد المحتار، کتاب الحظر والإباحة، باب الاستبراء وغیرہ، فصل فی البیع وغیرہ ۹: ۵۸۰، ط: مکتبة زکریا دیوبند) ، وکل عضو لا یجوز النظر إلیہ قبل الانفصال لا یجوز بعدہ ولو بعد الموت کشعر عانة وشعر رأسھا وعظم ذراع حرة میتة وساقھا وقلامة ظفر رجلھا دون یدھا مجتبی (الدر المختار مع الرد ، کتاب الحظر والإباحة، فصل فی النظر والمس ۹: ۵۳۴۵۸۰، ۵۳۵) ۔

واللہ اعلم بالصواب

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند

 

فقہ

الجواب وباللّٰہ التوفیق:’’أنظر إلی ما قال ولا تنظر إلی من قال‘‘۔ یہ مقولہ حضرت علی رضی اللہ عنہ کی طرف منسوب ہے اور بہت سی کتابوں میں ہے۔(۱)
عموماً قائل کی بات دوسروں کے لئے مفید ہوتی ہے جب کہ بعض اوقات بات کہنے والا اچھا آدمی نہیں ہوتا؛ اس لئے قائل کے قول کی طرف دھیان دینا چاہئے، اگر کوئی مفید بات ہو، تو خواہ کوئی بھی کہے اختیار کرلینی چاہئے؛ اس لئے ضروری ہے کہ اختیار کرنے والا یہ جان سکتا ہو کہ کون سی بات مفید ہے اور کون سی بات غیر مفید ہے؛ لہٰذا جن امور میں کوئی فرق کر سکتا ہو ان امور میں سب کی بات سنے اور مفید کو اختیار کرے اور جن امور میں فرق ہی نہ کرسکتا ہو ان امور میں انہیں لوگوں کی بات پر عمل کرے جن کو قابل اعتماد اور ان امور میں ماہر سمجھتا ہو۔ اسی طرح امور شرعیہ میں قابل اعتماد ماہر علماء ہی کی بات پر عمل کیا جائے۔(۲)

(۱) ملا علي قاري، مرقاۃ المفاتیح، ’’کتاب العلم: الفصل الأول‘‘: ج ۱، ص: ۳۰۰، رقم: ۲۱۶۔
(۲) إن الواجب علی من أراد أن یعمل لنفسہ أو یفتی غیرہ أن یتبع القول الذي رجحہ علماء مذہبہ۔ (محمد أمین بن عمر بن عبدالعزیز، رسم المفتی: ص: ۵)

فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج2ص142

بدعات و منکرات

الجواب وباللّٰہ التوفیق:اسلام میں دعوت وتبلیغ اپنی اور دوسروں کی اصلاح اور اسلام واحکام اسلام کو عام وتام کرنے کا کوئی طریقہ متعین نہیں ہے؛ بلکہ زمانہ، علاقہ، ماحول، وعرف وعادات کے لحاظ سے جو بھی طریقہ بہتر ومؤثر معلوم ہو؛ اسی کو اختیار کیا جانا چاہئے۔
قرآن کریم میں {أُدْعُ إِلٰی سَبِیْلِ رَبِّکَ بِالْحِکْمَۃِ وَالْمَوْعِظَۃِ الْحَسَنَۃِ وَجَادِلْھُمْ بِالَّتِيْ ھِيَ أَحْسَنُط} (۱)
کسی ایک طریقہ کو لازم ومتعین سمجھنا اسلام کی وسعت وہمہ گیری کے ساتھ انتہائی نا انصافی ہے۔ مروجہ تبلیغی جماعت کا طریقہ بھی خصوصاً عوام کے لئے کافی مفید ہے، لیکن کچھ لوگ اس میں غلو وشدت سے کام لینے لگے ہیں، جس سے کافی نقصان ہو رہا ہے۔(۲)

(۱) سورۃ النحل: ۱۲۵۔
(۲){کُنْتُمْ خَیْرَ أُمَّۃٍ أُخْرِجَتْ لِلنَّاسِ تَأْمُرُوْنَ بِالْمَعْرُوْفِ وَتَنْھَوْنَ عَنِ الْمُنْکَرِ وَتُؤْمِنُوْنَ بِاللّٰہِط} (سورۃ آل عمران: ۱۱۰)
عن سالم بن عبد اللّٰہ بن عمر عن أبیہ رضي اللّٰہ عنہم، قال: قال رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم: أیہا الناس أو مروا بالمعروف وأنہوا عن المنکر قبل أن تدعوا اللّٰہ فلا یستجیب لکم، وقبل أن تستغفروہ فلا یغفر لکم۔ (إسماعیل بن محمد، الترغیب والترہیب، ’’فصل‘‘: ج ۱، ص: ۲۱۸، رقم: ۳۰۶)
{تِلْکَ حُدُوْدُ اللّٰہِ فَلاَ تَعْتَدُوْھَاج وَمَنْ یَّتَعَدَّ حُدُوْدَ اللّٰہِ فَأُولٰٓئِکَ ھُمُ الظّٰلِمُوْنَہ۲۲۹} (سورۃ البقرۃ: ۲۲۹)
{وَکَذٰلِکَ جَعَلْنٰکُمْ أُمَّۃً وَّسَطًا} (سورۃ البقرۃ: ۱۴۳)
وأنا أری أن ’’الوسط‘‘ في ہذا لموضع، ہو ’’الوسط‘‘ اللذي بمعنی: الجزء اللذي ہو بین الطرفین، … وأری أن اللّٰہ تعالیٰ ذکرہ إنما وصفہم بأنہم ’’وسط‘‘ لتوسطہم في الدین، فلا ہم أہل غلو فیہ، غلو النصاری اللذین غلوا بالترہب، وقیل لہم في عیسیٰ ما قالوا فیہ، ولاہم أہل تقصیر فیہ، تقصیر الیہود اللذین بدلو کتاب اللّٰہ، وقتلوا أنبیاء ہم، وکذبوا علی دینہم، وکفروا بہ، ولکنہم أہل توسط واعتدال فیہ، فوصف اللّٰہ بذلک، إذ کان أحب الأمور إلی اللّٰہ أوسطہا۔ (محمد بن جریر، جامع البیان في تأویل القرآن، ’’سورۃ البقرۃ: ۱۴۳‘‘: ج ۳، ص: ۱۴۲)


 

فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج2ص351