Frequently Asked Questions
طہارت / وضو و غسل
الجواب وباللّٰہ التوفیق:ایسا کرنا درست ہے۔(۲)
(۲)جاز تیمم جماعۃ من محل واحد، (ابن عابدین، الدر المختار مع ردالمحتار، ’’کتاب الطہارۃ، باب التیمم، مطلب فاقد الطہورین‘‘ج ۱، ص:۴۲۴)؛ و لو تیمم إثنان من موضع واحد، جاز کذا في محیط السرخسی، و إذا تیمم مراراً من موضع واحد جاز (جماعۃ من علماء الہند، الفتاویٰ الہندیہ، ’’کتاب الطہارۃ، الباب الرابع: في التیمم، الفصل الثالث: في المتفرقات‘‘ ج۱،ص:۸۵) ولو تیمم جنب أو محدث من مکان، ثم تیمم غیرہ من ذلک المکان، أجزأہ، لأن التراب المستعمل ما التزق بید المتیمم الأول لا ما باقی علی الأرض۔ (الکاساني،بدائع الصنائع في ترتیب الشرائع،’’کتاب الطہارۃ، فصل في بیان یتیمم بہ‘‘ ج۱، ص:۱۸۰)
فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج3 ص353
نماز / جمعہ و عیدین
الجواب وباللہ التوفیق: صورت مسئولہ میں اقتداء درست ہے؛ البتہ پردہ کا معقول نظم اور پورا اہتمام ضروری ہے ورنہ بے پردگی کا سخت گناہ ہوگا۔ تاہم اگر مقتدی سب عورتیں ہوں اور عورتوں میں کوئی عورت امام کی محرم نہ ہو تو ایسی صورت میں عورتوں کی امامت کراہت کے ساتھ جائز ہے۔
’’تکرہ إمامۃ الرجل لہن في بیت لیس معہن رجل غیرہ ولا محرم منہ کأختہ أو زوجتہ أو أمتہ أما إذا کان معہن واحد عن ذکر أو أمہن في المسجد لا یکرہ‘‘(۱)
(۱) ابن عابدین، رد المحتار، ’’کتاب الصلاۃ: باب الإمامۃ، مطلب إذا صلی الشافعي قبل الحنفي ہل الأفضل‘‘: ج۲، ص: ۳۰۷۔
ولو أمہن رجل فلا کراہۃ إلا أن یکون في بیت لیس معہن فیہ رجل أو محرم من الإمام أو زوجتہ فإن کان واحد ممن ذکر معہن فلا کراہۃ کما لو کان في المسجد مطلقاً۔ (أحمد بن محمد، حاشیۃ الطحطاوي، ’’کتاب الصلاۃ: فصل في بیان الأحق بالإمامۃ‘‘: ص: ۳۰۴، شیخ الہند دیوبند)
فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج5 ص464
نماز / جمعہ و عیدین
الجواب وباللہ التوفیق: حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے مذکورہ اوقات میں نماز پڑھنے سے منع فرمایا ہے اور حدیث میں ہے کہ ’’إن الشمس تطلع بین قرنی الشیطان‘‘(۲) کہ سورج شیطان کے دو سینگوں کے درمیان طلوع ہوتا ہے اس وقت نماز پڑھنے سے شیطان کی عبادت کا شائبہ پیدا ہوتا ہے نیز ان اوقات میں مشرکین شیطان کی پرستش کرتے ہیں؛ لہٰذا اس تشبہ سے بچنے کا حکم فرماکر ان اوقات میں نماز پڑھنے کو منع قرار دیا۔
’’لا تجوز الصلوٰۃ عند طلوع الشمس ولا عند قیامہا في الظہیرۃ ولا عند غروبہا لحدیث عقبۃ بن عامر قال ثلثۃ أوقات نہانا رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم أن نصلی وأن نقبر فیہا موتانا عند طلوع الشمس حتی ترتفع وعند زوالہا حتی تزول وحین تضیف للغروب حتی تغرب‘‘(۱)
(۲) أخرجہ ابن ماجہ، في سننہ، ’’کتاب الصلاۃ: إقامۃ الصلاۃ والسنۃ فیہا، باب: ما جاء في الساعات التي تکرہ فیہا الصلاۃ‘‘: ص: ۸۸، رقم: ۱۲۵۳۔
(۱) المرغیناني، الہدایۃ، ’’کتاب الصلاۃ: فصل في الأوقات التي تکرہ فیہا الصلوٰۃ‘‘: ج ۱، ص: ۸۴، ۸۵۔
فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج4 ص109
نماز / جمعہ و عیدین
الجواب وباللّٰہ التوفیق: مذکورہ صورت میں نماز فاسد ہوجائے گی۔(۱)
(۱) والتنحنح بحرفین بلا عذر إما بہ بأن نشأ من طبعہ فلا أو بلا غرض صحیح فلو لتحسین صوتہ أو لیہتدی إمامہ أو للإعلام أنہ في الصلاۃ فلا فساد علی الصحیح۔۔۔۔۔ والتأوہ ہو قولہ آہ بالمد التأفیف أف أو تف والبکاء بصوت یحصل بہ حروف۔ (الحصکفي، الدر المختار مع رد المحتار، ’’باب ما یفسد الصلاۃ و ما یکرہ فیھا‘‘: ج۲، ص: ۳۸۶-۳۸۸)
فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج6 ص81
نماز / جمعہ و عیدین
الجواب وباللہ التوفیق: نماز وتر کا اصل وقت فرائض عشاء کی ادائیگی کے بعد ہوتا ہے اس لیے جو وتر کی نماز فرائض عشاء کی ادائیگی سے پہلے پڑھی ہے وہ ادا نہیں ہوئی البتہ وتر کے بعد جو نماز عشاء ادا کی وہ درست ہوگئی اور وتر بعد میں پھر ادا کرے۔(۱)
(۱) ووقت العشاء والوتر من غروب الشفق إلی الصبح۔ کذا في الکافي۔ ولا یقدم الوتر علی العشاء لوجوب الترتیب، لا لأن وقت الوتر لم یدخل، حتی لو صلی الوتر قبل العشاء ناسیاً، أو صلاہما فظہر فساد العشاء دون الوتر، فإنہ یصح الوتر، ویعید العشا، وحدہا عند أبي حنیفۃ رحمہ اللّٰہ تعالیٰ؛ لأن الترتیب یسقط بمثل ہذا العذر۔ (جماعۃ من علماء الہند، الفتاویٰ الہندیۃ، ’’کتاب الصلاۃ: الباب الأول في المواقیت‘‘: ج ۱، ص:۱۰۸، زکریا دیوبند)
فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج6 ص302
نماز / جمعہ و عیدین
الجواب وباللّٰہ التوفیق: صورت مسئولہ میں سورج گہن کے وقت نفل نماز مسجد میں جمع ہوکر پڑھنا اور امام کا نماز پڑھانا مشروع و سنت ہے۔ دو رکعت نفل نماز کی نیت کی جائے۔(۱)
(۱) سن رکعتان کہیئۃ النفل للکسوف …… ولاجماعۃ فیہا إلا بإمام الجمعۃ أو مامور السلطان دفعاً للفتنۃ، فیصلیہما بلا أذان ولا إقامۃ ولا جہر ولا خطبۃ، قال الطحطاوي: عن سمرۃ صلی بنا رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم في کسوف الشمس لا تسمع لہ صوتاً۔ (الطحطاوي، حاشیۃ الطحطاوي علی المراقي، ’’باب صلاۃ الکسوف‘‘: ص:۵۴۳-۵۴۵، اشرفیہ دیوبند)
فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج6 ص412
Zakat / Charity / Aid
Ref. No. 1281
In the name of Allah the most Gracious the most Merciful
It is necessary to give zakat and other obligatory sadaqat into the ownership of the eligible recipients. Therefore, it is not allowed to spend such money (zakat & obligatory sadaqat) in building a mosque or toilets etc.
And Allah knows best
Darul Ifta
Darul Uloom Waqf Deoband
Ijmaa & Qiyas
نماز / جمعہ و عیدین
Ref. No. 38 / 1155
الجواب وباللہ التوفیق
بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ خوشی کا موقع ہے لہذا عیدگاہ کی صفائی اور تزئین کاری درست ہے تاہم یہ خیال رہے کہ مسجد اور عیدگاہ کی رقم تزئین کاری میں استعمال نہ کی جائے، کوئی شخص انفرادی طور پر کرے تو کوئی حرج نہیں ہے، اورتزئین کاری میں غیروں کی مشابہت سے بھی گریز کیاجائے۔
واللہ اعلم بالصواب
دارالافتاء
دارالعلوم وقف دیوبند
اسلامی عقائد
Ref. No. 39 / 1022
الجواب وباللہ التوفیق
بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ 1۔فرشتے نہ کھاتے ہیں نہ پیتے ہیں، وہ تمام بشری تقاضوں سے پاک ہوتے ہیں۔ 2۔ اس بات کا ہمیں حتمی علم نہیں، قرآن میں فرمایا کہ وعلم آدم الاسماء کلھا کہ ہم نے آدم کو سب چیزوں کے نام سکھائے۔ واللہ اعلم بالصواب
واللہ اعلم بالصواب
دارالافتاء
دارالعلوم وقف دیوبند