Islamic Creed (Aqaaid)

Ref. No. 41/1066

In the name of Allah the most gracious the most merciful

The answer to your question is as follows:

The extra reward of 100000 or 50000 for one fardh would be gained when performing Fardh Namaz in congregation in Haramain only and it will not be multiplied by 25 or 27 times. And if a person offers fardh namaz individually then he will not get the same reward as he gets in congregation.

And Allah knows best

Darul Ifta            

Darul Uloom Waqf Deoband

اسلامی عقائد

Ref. No. 895/41-15B

الجواب وباللہ التوفیق 

بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ جو غیرمسلم ہمیں ہماری عید وغیرہ کے موقع پر مبارکبادی دیتے ہیں، ان کو ان کے تہوار میں رسمی طور پر مبارکباردی پیش کرنے  کی گنجائش ہے۔  تاہم ان کے مذہبی رسومات میں کسی قسم کی شرکت یا اس سے رضامندی کا اظہار درست نہیں ہے۔

ویھدی المجوس یوم النیروز من اطعمتھم الاشراف ومن کان لھم معرفۃ لایحل اخذ ذلک علی وجہ الموافقۃ معھم وان اخذہ لاعلی ذلک الوجہ لاباس بہ والاحتراز اسلم۔ (الفتاوی البزازیۃ علی ھامشۃ الھندیۃ 333)

 واللہ اعلم بالصواب

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند

اسلامی عقائد

Ref. No. 1451/42-937

الجواب وباللہ التوفیق:

بسم اللہ الرحمن ا لرحیم:۔خواب میں سانپ کو دیکھنا عاطور پر دشمنی کی علامت ہوتی ہے سانپ دیکھنے والے کا کوئی دشمن ہے جو نقصان پہونچانا چاہتا ہے،لیکن آپ کی بیوی کو خواب میں سانپ نے کوئی نقصان نہیں پہونچایا، اس سے اشارہ اس جانب ہے کہ دشمن کا آپ کی بیوی پر غلبہ نہیں ہوگا،آئندہ جب کبھی براخواب دیکھیں تو "اعوذ باللہ من شرھا" یا "اعوذ باللہ من الشیطان الر جیم" پڑھ لیا کریں،نیز بڑوں سے منقول ہے کہ ایسے موقع پر صدقات وغیرہ بھی کردئیے جائیں تو بہتر ہے۔

واللہ اعلم بالصواب

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند

احکام میت / وراثت و وصیت

Ref. No. 1815/43-1575

بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ فقہ اسلامی کی رو سے، مرحوم کا کل ترکہ اور جوامانت آپ کے پاس، ان کے  والد صاحب کے لئے بطورامانت  موجود ہے ، سب میں وراثت جاری ہوگی۔   جن لوگوں کو وراثت میں حصہ ملتاہے ان کے لئے وصیت باطل ہے، البتہ مسجد ومدرسہ کے لئے وصیت  ایک تہائی مال میں نافذ ہوگی۔اس لئے اب  مرحوم کے کل ترکہ کے ایک تہائی  سے مسجد یا مدرسہ کے لئے  وصیت کے بقدر مال  نکال لیا جائے اور باقی مال صرف بیوی اور والد کے درمیان  اس طرح تقسیم ہوگا کہ مرحوم کی بیوی کو اس کا  چوتھائی  اور باقی سارا  مال مرحوم کے والد کو  بطور عصبہ  دیدیاجائےگا۔ مرحوم کے بھائی بہنوں کو وراثت میں حصہ نہیں ملے گا۔

مدرسہ میں دینے کی کیا وصیت کی تھی اور کس قدر کی وصیت کی تھی اس کی وضاحت سوال میں نہیں ہے۔

"أن الوصية للوارث لاتجوز بدون إجازة الورثة؛ لقوله عليه السلام: «لا وصية لوارث إلى أن يجيزه الورثة (المبسوط للسرخسي (27 / 175)

(قوله ولا وصية وميراث) فمن يستحق الوصية لا يستحق الميراث وكذا بالعكس (شامی 1/259، فروع صلی المحبوس بالتیمم)

"ثم تصح الوصية للأجنبي بالثلث من غير إجازة الوارث، و لاتجوز بما زاد على الثلث". (تبيين الحقائق شرح كنز الدقائق وحاشية الشلبي (6/ 182)

واللہ اعلم بالصواب

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند

نکاح و شادی

Ref. No. 2026/44-1993

بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔  ڈاکٹر سے رابطہ کریں،  اپنا اور اہلیہ کا چیک اپ کرائیں اور علاج کرائیں۔ بعض مرتبہ بہت معمولی کمی ہوتی ہے ڈاکٹر  سے ہی اس مسئلہ کو حل کیاجاسکتاہے۔  ڈاکٹر جو مشورہ دے، اس کو دوبارہ لکھ کر  دارالافتاء سے پوچھ لیجئے کہ ایسی صورت اختیار کرنا شرعا جائز  ہے یا نہیں، اور اس سلسلہ میں شرعی ہدایات کیا ہیں وغیرہ۔

 واللہ اعلم بالصواب

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند

 

اسلامی عقائد

الجواب وباللّٰہ التوفیق:مروجہ قرآن خوانی خود بدعت ہے(۱)، البتہ اگر بلاالتزام واہتمام کچھ حضرات بغیر لالچ طعام وغیرہ کے محض اخلاصِ قلب کے ساتھ قرآن پاک پڑھ کر ایصال ثواب کردیں تو مضائقہ نہیں(۲)، جمعہ کے لئے بلانے کا التزام بھی نہ کرنا چاہئے کہ اذانِ جمعہ اس کے لئے کافی ہے۔(۳)

(۱) (یکرہ) اتخاذ الدعوۃ لقراء ۃ القرآن وجمع الصلحاء والقرآن للختم أو لقراء ۃ سورۃ الأنعام الخ۔ (ابن عابدین، الدر المختار مع رد المحتار، ’’کتاب الصلاۃ: باب صلاۃ الجنازۃ، مطلب: في کراہۃ الضیافۃ من أہل المیت‘‘: ج ۳، ص: ۱۴۸)
(۲) للإنسان أن یجعل ثواب عملہ لغیرہ صلاۃ أو صوماً أو صدقۃ أو غیرہا۔ (أیضاً: مطلب: في القراء ۃ للمیت وإہداء ثوابہا لہ‘‘: ج ۳، ص: ۱۵۱)
(۳) لا ینبغي لأحد أن یقول لمن فوقہ في العلم والجاہ حان وقت الصلاۃ سوی المؤذن، لأنہ استفضال لنفسہ، قلت: وہذا خاص بالتثویب للأمیر ونحوہ علی قول أبي یوسف رحمہ اللہّٰ فأفہم۔ (أیضاً: ’’باب الأذان، مطلب: في أول من بنی المنائر للأذان‘‘: ج ۲، ص: ۵۶)


فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج1ص310

تجارت و ملازمت

Ref. No. 2391/44-3625

بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ سودی قرض لینا جائز نہیں ہے، سودی لین دین پر بڑی سخت وعید آئی ہے، البتہ اس سے  حلال کاروبار کرکے کمایا ہوا نفع حرام نہیں ہے، بلکہ حلال ہے،  تاہم سودی قرض لینے کی وجہ سے جو  گناہ ہوا اس سے توبہ استغفار کرنا ضروری ہے ۔ 

"(قوله: اكتسب حراما إلخ) توضيح المسألة ما في التتارخانية حيث قال: رجل اكتسب مالًا من حرام ثم اشترى فهذا على خمسة أوجه: أما إن دفع تلك الدراهم إلى البائع أولا ثم اشترى منه بها أو اشترى قبل الدفع بها ودفعها، أو اشترى قبل الدفع بها ودفع غيرها، أو اشترى مطلقا ودفع تلك الدراهم، أو اشترى بدراهم أخر ودفع تلك الدراهم. قال أبو نصر: يطيب له ولا يجب عليه أن يتصدق إلا في الوجه الأول، وإليه ذهب الفقيه أبو الليث، لكن هذا خلاف ظاهر الرواية فإنه نص في الجامع الصغير: إذا غصب ألفا فاشترى بها جارية وباعها بألفين تصدق بالربح. وقال الكرخي: في الوجه الأول والثاني لا يطيب، وفي الثلاث الأخيرة يطيب، وقال أبو بكر: لا يطيب في الكل، لكن الفتوى الآن على قول الكرخي دفعا للحرج عن الناس اهـ. وفي الولوالجية: وقال بعضهم: لا يطيب في الوجوه كلها وهو المختار، ولكن الفتوى اليوم على قول الكرخي دفعا للحرج لكثرة الحرام اهـ وعلى هذا مشى المصنف في كتاب الغصب تبعا للدرر وغيرها." (فتاوی شامی، كتاب البيوع، باب المتفرقات من ابوابها، مطلب إذا اكتسب حراما ثم اشترى فهو على خمسة أوجه، ٥ / ٢٣٥، ط: دار الفكر)

واللہ اعلم بالصواب

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند

 

Miscellaneous

Ref. No. 2524/45-3853

In the name of Allah the most Gracious the most Merciful

The answer to your question is as follows:

You are a Muslim and bound by Shariah, it is not permissible for you and all Muslim participants to take fixed profit, similarly it is not permissible to give fixed profit to a person be it a Muslim or non-Muslim; since, both taking and giving interest are forbidden for a Muslim, therefore a Muslim cannot give a fixed interest to even a non-Muslim.

And Allah knows best

Darul Ifta

Darul Uloom Waqf Deoband

حدیث و سنت

الجواب وباللّٰہ التوفیق:مندرجہ ذیل حدیث میں ادنی درجہ کے جنتی کو دس گنا بڑی جنت ملنے کی صراحت موجود ہے۔
عن عبد اللّٰہ بن مسعود رضي اللّٰہ عنہ قال: قال رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم ’’إني لأعلم آخر أہل النار خروجاً منہا، وآخر أہل الجنۃ دخولاً الجنۃ، رجل یخرج من النار حبواً، فیقال لہ: إذہب فأدخل الجنۃ فیأتیہا فیخیل إلیہ أنہا ملأی، فیرجع فیقول: یا رب، وجدتہا ملأی، فیقول اللّٰہ عز وجل: إذہب فأدخل الجنۃ، فإن لک مثل الدنیا، وعشرۃ أمثالہا أو إن لک مثل عشرۃ أمثال الدنیا، فیقول: أتسخر بي أو أتضحک بي وأنت الملک؟ قال: فلقد رأیت رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم ضحک حتی بدت نواجذہ، فکان یقال: ذلک أدنی أہل الجنۃ منزلۃ‘‘(۱)۔
ترجمہ: حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول خدا صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: کہ میں اس شخص کو جانتا ہوں، جو سب سے آخر میں دوزخ سے نکلے گا اور سب سے آخر میں جنت میں جائے گا۔ یہ ایک ایسا شخص ہو گا، جو اوندھے منہ دوزخ سے نکلے گا، پھر اللہ اس سے فرمائے گا کہ جا کر جنت میں داخل ہو جا؛ پس وہ جنت کے پاس آئے گا، تو اس کا یہ خیال ہو گا کہ یہ تو بھری ہوئی ہے؛ چنانچہ وہ واپس لوٹ جائے گا اور عرض کرے گا کہ اے میرے رب میں نے تو اسے بھری ہوئی پایا، اس پر اللہ تعالیٰ فرمائے گا، جا کر جنت میں داخل ہو جا، پھر وہ اس کی طرف آئے گا، تو اسے یہی خیال گزرے گا کہ جنت بھری ہوئی ہے؛ پس وہ جا کر پھر عرض کرے گا، کہ اے میرے رب میں نے تو اسے بھری ہوئی پایا، اس پر اللہ تعالیٰ (تیسری بار) فرمائے گا، کہ جا کر جنت میں داخل ہو جا، تیرے لیے تو وہاں دنیا کے برابر جگہ ہے اور اس سے دس گنا زیادہ ہے۔ (اسے یقین نہ آئے گا اور سمجھے گا کہ شاید اس سے مذاق کیا جا رہا ہے)؛ چنانچہ وہ عرض کرے گا کہ اے خدا تو بادشاہ ہو کر مجھ سے مذاق کر رہا ہے (اس حدیث کے راوی بتاتے ہیں کہ) پھر میں نے رسول خدا صلی اللہ علیہ وسلم کو دیکھا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم ہنسے، یہاں تک کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے دندان مبارک ظاہر ہو گئے، (راوی یہ بھی بتاتے ہیں کہ) کہا جاتا تھا کہ یہ شخص اہل جنت میں سب سے کم رتبے والا ہو گا۔
(۱) أخرجہ البخاري، في صحیحہ، ’’کتاب الرقاق: باب صفۃ الجنۃ والنار‘‘: ج ۲، ص: ۹۶۹، رقم: ۶۵۷۱؛ وأخرجہ مسلم، في صحیحہ، ’’کتاب الإیمان: باب آخر أہل النار خروجا‘‘: ج ۱، ص: ۱۷۳، رقم: ۱۸۶ - ۳۰۸۔

 فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج2ص139

بدعات و منکرات

الجواب وباللّٰہ التوفیق:مذکورہ صورت میں سعید کو چاہئے کہ اپنے گھر میں بھی تبلیغ دین کرے؛ اس لئے کہ اللہ تعالیٰ نے اپنے رسول صلی اللہ علیہ وسلم سے فرمایا تھا کہ {وأنذر عشیرتک الأقربین} (۲)  کہ اپنوں کو خدا سے ڈراؤ؛ پس سعید کو چاہئے کہ اپنوں کو نظر انداز نہ کرے کہ وہ احق ہیں۔ (۱)

(۲) سورۃ الشعراء: ۲۱۴۔
(۱) ومعنی الآیۃ أن الإنسان إذا بدأ بنفسہ أولا وبالأقرب فالأقرب من أہلہ ثانیا لم یکن لأحد علیہ طعن البتۃ۔ (تفیسر خازن، سورۃ الشعراء: ج ۳، ص: ۳۳۳)
{قُوْٓا أَنْفُسَکُمْ وَأَھْلِیْکُمْ نَارًا} (سورۃ التحریم: ۶)


 فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج2ص348