Frequently Asked Questions
بدعات و منکرات
Ref. No. 2604/45-4121
بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ مساجد عبادت اور ذکراللہ کے لئے خاص ہیں ، مسجد میں ایسا کوئی عمل جس سے عبادت و ذکراللہ میں خلل ہو اور نمازیوں کو دشواری ہو، جائز نہیں ہے۔ خیال رہے کہ مسافر اور معتکف کے علاوہ افراد کے لیے مسجد میں کھانا، پینا اور سونا مکروہ ہے؛ اس لئے کھانے وغیرہ کا نظم مساجد کی حدودسے باہر ہونا چاہئے، یا پھر مسجد شرعی کے باہری حصہ میں نظم ہو تو نمازوں کے اوقات کا خیال رکھ کر اس کی ترتیب بنائی جائے۔
’’ وأكل، ونوم إلا لمعتكف وغريب. (قوله: وأكل ونوم إلخ) وإذا أراد ذلك ينبغي أن ينوي الاعتكاف، فيدخل ويذكر الله تعالى بقدر ما نوى، أو يصلي ثم يفعل ما شاء، فتاوى هندية.‘‘ (الدر المختار وحاشية ابن عابدين (رد المحتار) 1/ 661)
’’ويكره النوم والأكل فيه لغير المعتكف، وإذا أراد أن يفعل ذلك ينبغي أن ينوي الاعتكاف فيدخل فيه ويذكر الله تعالى بقدر ما نوى أو يصلي ثم يفعل ما شاء، كذا في السراجية (الفتاوى الهندية 5/ 321)
واللہ اعلم بالصواب
دارالافتاء
دارالعلوم وقف دیوبند
بدعات و منکرات
الجواب وباللّٰہ التوفیق:تقریر کے معنی کسی بات کو بیان کرنا ہے اور وعظ نصیحت آمیز باتوں کا بیان کرنا ہے مگر عرف عام میں دونوں کے ایک ہی معنی ہوتے ہیں کہ دین کی بات کا بیان کرنا۔ جو حضرات اتنی صلاحیت رکھتے ہوں کہ دین کی بات کو صحیح صحیح طریقہ پر بیان کردیں تو ان کا وعظ کہنا جائز ہے اگر ایسی صلاحیت اس میں نہیں ہے تو اس کا وعظ کہنا جائز نہیں ہے۔(۱)
(۱) وعن عبد اللّٰہ بن عمرو رضي اللّٰہ عنہما، قال: قال رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم: إن اللّٰہ لا یقبض العلم انتزاعاً ینتزعہ من العباد ولکن یقبض العلم بقبض العلماء حتی إذا لم یبق عالماً اتخذ الناس رؤوساً جہالا فسئلوا فأفتوا بغیر علم فضلوا وأضلوا، متفق علیہ۔ (مشکوٰۃ المصابیح، ’’کتاب العلم: الفصل الأول‘‘: ج ۱، ص: ۳۳، رقم: ۲۰۶)
وعن الأعمش قال: قال رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم: آفۃ العلم النسیان وإضاعتہ أن تحدث بہ غیر أہلہ، رواہ الدارمي مرسلاً۔ (مشکوٰۃ المصابیح، ’’کتاب العلم: الفصل الثالث‘‘: ج ۱، ص: ۳۷، رقم: ۲۶۵)
وعن ابن سیرین قال: إن ہذا العلم دین فانظروا عمن تأخذون دینکم، رواہ مسلم، المراد الأخذ من العدول والثقات۔ (ملا علي قاري، مرقاۃ المفاتیح، ’’کتاب العلم: الفصل الثالث‘‘: ج ۱، ص: ۳۱۴، رقم: ۲۷۳)
--------
فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج2ص345
طہارت / وضو و غسل
الجواب وباللہ التوفیق:مینڈھک جس کی انگلیوں کے درمیان سترہ، یعنی: کھال نہ ہو وہ بری ہے، کیوںکہ اس میں دم سائل ہوتا ہے، اس کے مرنے سے پانی نجس ہو جاتا ہے، یعنی: کنواں ناپاک ہو جائے گا اور دریائی مینڈھک کے مرنے سے کنواں ناپاک نہیں ہوگا، سمندری مینڈھک وہ ہے کہ اس کی انگلیوں میں کھال ہوتی ہے، جس سے انگلیاں جڑی رہتی ہیں۔(۱)
(۱) و إن مات فیہ غیر دموي و مائي مولد کسمک و سرطان و ضفدع، فلو تفتت فیہ نحو ضفدع جاز الوضوء بہ لا شربہ، لحرمۃ لحمہ۔ (ابن عابدین، الدرالمختار مع رد المحتار، کتاب الطہارۃ، باب المیاہ مطلب، مسئلۃ الوضوء في الفساقی، ج۱، ص:۲۹؍۳۳۱)؛ و ضفدع إلا بریّا لہ دم سائل وھو مالا سترۃ لہ بین أصابعہ۔ أیضاً:
فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج2ص481
طہارت / وضو و غسل
الجواب وباللّٰہ التوفیق:اگر کسی طرح بھی وضو یا تیمم کرنے کی کوئی شکل نہ ہو، تو وہ شخص بغیر طہارت کے ہی نماز ادا کرے جب تک طہارت ممکن نہ ہو، طہارت کے بغیر نماز ادا کرے۔(۱)
(۱) مقطوع الیدین والرجلین إذا کان بوجھہ جراحۃ، یصلي بغیر طھارۃ ولا یعید وھو الأصح (الشرنبلالي، نورالإیضاح مع مراقی والطحطاوي، قبیل ’’باب المسح علی الخفین‘‘ ص:۴۴) ؛ وقال في البحر : و لو قُطعت یدہ أو رجلہ، فلم یبق من المرفق والکعب شيء، سقط الغسل۔ (الدر المختار مع رد المحتار، ’’کتاب الطہارۃ، أرکان الوضوء أربعۃ،‘‘ج۱، ص:۲۱۷)؛ و قال الشیخ الإمام محمد بن الفضل: رأیت في الجامع الصغیر للکرخي أن مقطوع الیدین والرجلین، إذا کان بوجھہ جراحۃ، یصلی بغیر طھارۃ ولا یتمم، ولا یعید، وھذا ھو الأصح، کذا في الظھیریۃ۔(جماعۃ من علماء الہند، الفتاویٰ الہندیہ، ’’کتاب الطہارۃ، الباب الرابع في التیمم، الفصل الثالث في التفرقات،‘‘ ج۱، ص:۸۴)
فتاوی ٰ دارالعلوم وقف دیوبند ج3 ص149
طہارت / وضو و غسل
الجواب وباللّٰہ التوفیق:تاش کھیلنے سے وضو نہیں ٹوٹتا؛ البتہ ایسے شخص کو وضو کر لینا چاہئے یعنی ایسے شخص کے لیے وضو کرنا مستحب ہے۔
طحطاوی میں ہے:
’’والقسم الثالث: وضوء مندوب … بعد کلام غیبۃ وکذب ونمیمۃ وبعد کل خطیئۃ وإنشاد شعر الخ‘‘ (۲)
عالمگیری میں ہے:
’’ومنہا الوضوء بعد الغیبۃ وبعد إنشاد الشعر‘‘(۳)
(۲) الطحطاوي، طحطاوي علی مراقي الفلاح، ’’کتاب الطہارۃ: …الوضوء علی ثلاثۃ اقسام‘‘: ج۱ ، ص: ۸۴۔
(۲) جماعۃ من علماء الہند، الفتاویٰ الہندیۃ، ’’کتاب الطہارۃ: الباب الأول في الوضوء، الفصل الثالث: في المستحبات‘‘: ج ۱، ص: ۶۰۔
فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج3 ص253
طہارت / وضو و غسل
الجواب وباللّٰہ التوفیق:اگر نابالغ لڑکے نے بالغہ عورت سے جماع کر لیا، تو اس صورت میں بالغہ عورت پر غسل واجب ہوگا اور نابالغ پر غسل واجب نہیں ہوگا؛ لیکن اگر لڑکا اس قابل ہے کہ جماع کرسکتا ہے یا قریب البلوغ ہے اور اس کو شہو ت بھی ہوتی ہے، تو ایسی حالت میں اس پر بھی غسل واجب ہے، علی ہذا القیاس اگر بالغ مرد نابالغہ سے جماع کرے، تو مرد پر غسل واجب ہے اور نابالغہ پر غسل واجب نہیں ہے؛ لیکن اگر لڑکی مرا ہقہ (قریب البلوغ) ہے اور اس کو شہوت ہوتی ہے تو اس پر بھی غسل واجب ہے۔ یہ مسئلہ منیۃ المصلی ، ہدایہاور قدوری وغیرہ میں تفصیل کے ساتھ مذکور ہے۔
نابالغ بچہ یا بچی احکام شرع کے مکلف نہیں ہوتے ہیں؛ اس لیے نابالغ لڑکی یا لڑکے پر صحبت کی وجہ سے غسل واجب نہ ہوگا، امام بخاریؒ نے ایک روایت نقل کی ہے: ’’ان القلم رفع عن المجنون حتی یفیق وعن الصبي حتی یدرک وعن النائم حتی یستیقظ‘‘(۱)
’’والمعاني المو جبۃ للغسل إنزال المني علی وجہ الدفق والشھوۃ من الرجل والمرأۃ حالۃ النوم والیقظۃ‘‘(۱)
’’ولا (یجب الغسل) عند إدخال إصبع ونحوہ کذکر غیرآدمي وذکر خنثی ومیت وصبي لا یشتھی وما یصنع من نحو خشب في الدبر أو القبل علی المختار‘‘(۲)
’’صبي ابن عشر جامع امرأتہ البالغۃ علیھا الغسل لوجود مواراۃ الحشفۃ بعد توجہ الخطاب ولا غسل علی الغلام لانعدام الخطاب إلا أنہ یؤمر بہ تخلقا
کما یؤمر بالوضوء والصلوٰۃ ولو کان الزوج بالغا والزوجۃ صغیرۃ تشتھی فالجواب علی العکس‘‘(۳)
(۱) أخرجہ البخاري، في صحیحہ، ’’باب لا یرجم المجنون والمجنونۃ‘‘: ج ۸، ص: ۱۶۵، رقم: ۶۸۱۵۔(مکتبہ نعیمیہ دیوبند)
(۱) المرغیناني، الہدایۃ، ’’کتاب الطہارۃ: فصل في الغسل‘‘: ج ۱، ص: ۱۹۔
(۲) ابن عابدین، الدر المختار مع ردالمحتار، ’’کتاب الطہارۃ: مطلب في تحریر الصاع والمد والرطل‘‘: ج۱، ص: ۳۰۴۔
(۳) إبراہیم الکبیري، غنیۃ المستملي معروف بہ کبیري، ’’کتاب الطہارۃ: في بیان فضیلۃ المسواک، بحث غسل‘‘: ج ۱، ص: ۴۰۔
فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج3 ص345
نماز / جمعہ و عیدین
الجواب وبا للّٰہ التوفیق: ہر مقررہ امام کے لیے یہ ضروری نہیں کہ وہ محراب سنائے اور اگر امام صاحب اپنی کسی ذاتی مجبوری کی وجہ سے تراویح میں قرآن پاک نہیں پڑھ سکتے تھے تو ان کو مطعون کرنے والے یا ان کے خلاف اس سلسلہ میں آواز اٹھانے والے اور فتنہ برپا کرنے والے سخت غلطی پر ہیں اور فتنہ پردازی کی وجہ سے گنہگار بھی ہوتے ہیں اور ضروری ہے کہ ایسی حرکت سے باز آئیں۔ اور صورت مسئول عنہا میں امام مذکور کی امامت بلا شبہ بلا کراہت جائز و درست ہے۔(۱)
(۱) ولو أم قوما وہم لہ کارہون، إن) الکراہۃ لفساد فیہ أو لأنہم أحق بالإمامۃ یکرہ لہ ذلک تحریما؛ لحدیث أبي داؤد: لا یقبل اللّٰہ صلاۃ من تقدم قوما وہم لہ کارہون، (وإن ہو أحق لا)، والکراہۃ علیہم۔ (ابن عابدین، رد المحتار، ’’کتاب الصلاۃ: باب الإمامۃ، مطلب في تکرار الجماعۃ في المسجد‘‘: ج۲، ص: ۲۹۷)
رجل أم قوما وہم لہ کارہون إن کانت الکراہۃ لفساد فیہ أو لأنہم أحق بالإمامۃ یکرہ لہ ذلک، وإن کان ہو أحق بالإمامۃ لا یکرہ، ہکذا في المحیط۔ (جماعۃ من علماء الہند، الفتاویٰ الہندیۃ، ’’کتاب الصلاۃ، الباب الخامس في الإمامۃ، الفصل الثالث في بیان من یصلح إماماً لغیرہ‘‘:ج۱، ص: ۸۷)
فتاویٰ دارالعلوم وقف دیوبند ج5 ص331
نماز / جمعہ و عیدین
الجواب وباللہ التوفیق: اگر شدید عذر وتقاضا ہو تو جا سکتا ہے جیسے مسافر کی ٹرین چھوٹ جانے کا اندیشہ، یا پیشاب وپاخانہ کا شدید تقاضا ہو، آگ لگ گئی وغیرہ، بلا عذر ایسا کرنا جائز نہیں، نمازی کے آگے سے گزرنے پر سخت وعید ہے۔(۱)
(۱) قال رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم: لویعلم الماربین یدي المصلي ماذا علیہ لکان أن یقف أربعین خیرالہ من أن یمربین یدیہ، قال أبوالنضرلاأدري، قال أربعین یوما أوشہرا أوسنۃ۔ (أخرجہ البخاري، في صحیحہ، ’’کتاب الصلاۃ: باب إثم الماربین یدی المصلي‘‘: ج۱، ص: ۷۴، رقم: ۵۱۰)
إن کعب الأحبارقال: لویعلم الماربین یدي المصلي ماذا علیہ لکان أن یخسف بہ خبرالہ من أن یمربین یدیہ۔ (أخرجہ مالک، في الموطأ، ’’کتاب الصلاۃ: التشدید في أن یمر أحد بین یدي المصلي‘‘: ص: ۱۵۳، مطبوعہ کراچی)
فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج5 ص447
نماز / جمعہ و عیدین
الجواب وباللّٰہ التوفیق: اگر مقتدی امام کے ساتھ رکوع میں اتنی دیر تک شامل ہوگیا کہ کم از کم ایک بار ’’سبحان ربي العظیم‘‘ کہا جا سکے، تو اس مقتدی کو رکوع مل گیا اور رکعت بھی مل گئی؛ بلکہ اگر نفس شرکت بھی پائی گئی کہ مقتدی رکوع میں گیا اور امام رکوع میں تھا پھر فوراً امام اٹھ گیا، تو بھی رکعت پانے والا کہلائے گا اور اگر رکوع میں شرکت بالکل نہیں پائی گئی تو رکعت نہیں ملی۔(۱)
(۱) ومن انتہی إلی الإمام في رکوعہ فکبر ووقف حتی رفع الإمام رأسہ لا یصیر مدرکاً لتلک الرکعۃ خلافاً لزفر ہو یقول أدرک الإمام فیما لہ حکم القیام فصار کما لو أدرکہ في حقیقۃ القیام ولنا۔ أن الشرط ہو المشارکۃ في أفعال الصلاۃ ولم یوجد لا في القیام ولا في الرکوع۔ (المرغیناني، الہدایۃ، ’’کتاب الصلاۃ: باب إدراک الفریضۃ‘‘:ج۱، ص: ۱۵۳، مکتبہ: دار الکتاب دیوبند)
قال النبي صلی اللّٰہ علیہ وسلم إنما جعل الإمام لیؤتم بہ فإذا کبر فکبروا وإذا رکع فارکعوا وإذا رفع فارفعوا۔ (أخرجہ الترمذي، في سننہ، ’’أبواب الصلاۃ، باب ما جاء إذا صلی الإمام قاعدًا فصلوا قعودًا‘‘: ج ۱، ص: ۸۳)
فتاویٰ دارالعلوم وقف دیوبند ج4 ص361
نماز / جمعہ و عیدین
الجواب وباللہ التوفیق: صورت مسئلہ میں نیز محدث شخص وضو کرنے بعد جب دیکھے کہ امام صاحب نماز سے فارغ ہوچکے ہیں تو بنا کرنے والا اپنی اصل جگہ واپس آکر یا کسی جگہ اس طرح چھوٹی ہوئی رکعت یا رکعتیں پڑھے گا جس طرح امام کے پیچھے پڑھتا ہے، یعنی: قرأت نہیں کرے گا، صرف اندازے سے امام صاحب کے قیام کے بہ قدر قیام کرے گا اور رکوع اور سجدہ وغیرہ حسب معمول کرے گا اور اس طرح چھوٹی رکعت یا رکعتیں ادا کرکے نماز مکمل کرے گا۔ جیسا کہ کتب فقہ میں اس کی تفصیل مذکور ہے۔
فتاویٰ ہندیہ میں مذکور ہے: جو شخص پہلی رکعت میں امام کے ساتھ شریک ہو، لیکن بعد میں کسی رکعت میں مثلاً سوتے رہ جانے، یا وضو ٹوٹ جانے وغیرہ کی وجہ سے شریک نہ ہو سکے، اسے لَاحِق کہا جاتا ہے۔
’’اللاحق وہو الذي أدرک أولہا وفاتہ الباقي لنوم أو حدث أو بقي قائما للزحام‘‘(۱)
’’واللاحق من فاتتہ الرکعات کلھا أو بعضھا لکن بعد اقتدائہ بعذر کغفلۃ وزحمۃ وسبق حدث الخ‘‘(۲)
’’فلو نام في الثالثۃ واستیقظ في الرابعۃ فإنہ یأتي بالثالثۃ بلا قراء ۃ۔ فإذا فرغ منھا صلی مع الإمام الرابعۃ، وإن فرغ منھا الإمام صلاھا وحدہ بلا قراء ۃ أیضاً‘‘(۳)
(۱) جماعۃ من علماء الہند، الفتاویٰ الہندیۃ، ’’کتاب الصلاۃ، الباب الخامس ……في الإمامۃ، الفصل السابع في المسبوق واللاحق‘‘: ج ۱، ص: ۱۵۰، مکتبہ فیصل دیوبند۔
(۲) الحصکفي، الدرالمختار مع رد المحتار، ’’کتاب الصلاۃ: آخر باب الإمامۃ‘‘: ج ۲، ص: ۳۴۳، ۳۴۴، ط: مکتبہ زکریا دیوبند۔
(۳) ابن عابدین، رد المحتار، ’’کتاب الصلاۃ: آخر باب الإمامۃ‘‘: ج ۲، ص: ۳۴۵، ط: مکتبہ زکریا دیوبند نقلاً عن البحر۔
فتاویٰ دارالعلوم وقف دیوبند ج6 ص60