نماز / جمعہ و عیدین

الجواب و باللّٰہ التوفیق:  صورت مسئولہ میں عصر اور فجر کی نماز کے بعد رخ پھیر کر بیٹھنا جائز ہے اور یہ حدیث سے ثابت ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم جب نماز پڑھ لیتے تھے تو اپنا رخِ انور مقتدیوں کی طرف کر لیا کرتے تھے۔ تاہم دائیں طرف رخ کر کے بیٹھنا اولیٰ اور افضل ہے مگر اس پر مداومت نہ کی جائے کبھی دائیں طرف اور کبھی بائیں طرف مڑ کر امام کو بیٹھنا چاہئے تاکہ عوام دائیں رخ کر کے بیٹھنے کو ضروری نہ سمجھ لیں ایسے ہی اگر کوئی مقتدی نماز نہ پڑھ رہا ہو تو اس صورت میں مقتدیوں کی طرف رخ کر کے بیٹھنا بھی جائز ہے۔
’’عن سمرۃ بن جندب، قال: کان النبي صلی اللّٰہ علیہ وسلم إذا صلی صلاۃ  أقبل علینا بوجہہ‘‘(۱)
’’عن البراء قال: کنا إذا صلّینا خلف رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم أحببنا أن نکون عن یمینہ؛ یقبل علینا بوجہہ۔ قال: فسمعتہ یقول: ’’ربّ قني عذابک یوم تبعث أو تجمع عبادک‘‘(۲)
’’وعقب الفرض إن لم یکن بعدہ نافلۃ یستقبل (الناس) إن شاء إن لم یکن في مقابلۃ مصل؛ لما في الصحیحین کان النبي صلی اللّٰہ علیہ وسلم إذا صلی أقبل علینا بوجہہ، وإن شاء الإمام انحرف عن یسارہ جعل القبلۃ عن یمینہ وإن شاء انحرف عن یمینہ وجعل القبلۃ عن یسارہ، وہذا أولٰی؛ لما في مسلم: کنا إذا صلّینا خلف رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم أحببنا أن نکون عن یمینہ حتی یقبل علینا بوجہہ … الخ‘‘(۳)
’’و یستحب أن یستقبل بعدہ أي بعد التطوع وعقب الفرض إن لم یکن بعدہ نافلۃ یستقبل الناس إن شاء إن لم یکن في مقابلۃ مصل لما في الصحیحین کان النبي صلی اللّٰہ علیہ وسلم إذا صلی أقبل علینا بوجہہ وإن شاء الإمام انحرف عن یسارہ وجعل القبلۃ عن یمینہ وإن شاء انحرف عن یمینہ وجعل القبلۃ عن یسارہ وہذا أولٰی لما في مسلم: کنا إذا صلینا خلف رسول اللّٰہ أحببنا أن نکون عن یمینہ حتی یقبل علینا بوجہہ‘‘(۴)

(۱)عن أنس بن مالک، قال: أخَّرَ رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم الصلاۃ ذات لیلۃ إلی شطر اللیل، ثم خرج علینا، فلما صلی أقبل علینا بوجہہ، فقال: إن الناس قد صلوا ورقدوا، وإنکم لن تزالوا في صلاۃ ما انتظرتم الصلاۃ، (أخرجہ البخاري، في صحیحہ، ’’کتاب الأذان: باب یستقبل الإمام الناس إذ ا سلم‘‘: ج۱، ص: ۱۱۷، رقم: ۸۴۷)
(۲) أخرجہ مسلم، في صحیحہ، ’’کتاب الصلاۃ: باب استحباب یمین الإمام‘‘: ج ۱، ص: ۲۴۷، رقم: ۷۰۹۔
(۳) حسن بن عمار، مراقي الفلاح مع الطحطاوی، ’’کتاب الصلاۃ، فصل في الأذکار الواردۃ بعد الفرض‘‘: ص: ۱۱۷۔
(۴) أیضاً: ص: ۱۱۸۔

 

فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج4 ص431

 

نماز / جمعہ و عیدین

الجواب و باللہ التوفیق: اس صورت میں نفل نماز نہ توڑے اور جس نے قرآن پاک بلند آواز سے پڑھنا شروع کردیا اس کو یہ کام آہستہ کرنا چاہئے تاہم نفلی نماز والے کو بھی اپنی نماز نہ توڑنی چاہئے کہ گناہگار وہ شخص ہے جو بلند آواز سے پڑھتا ہے نفل نماز نہ توڑنے والا گناہگار نہیں ہوگا۔(۱)

(۱) وفي حاشیۃ الحموي عن الإمام الشعراني: أجمع العلماء سلفا وخلفا علی استحباب ذکر الجماعۃ في المساجد وغیرہا إلا أن یشوش جہرہم علی نائم أو مصل أو قارئ إلخ۔ (ابن عابدین، رد المحتار، ’’کتاب الصلاۃ: باب مایفسد الصلاۃ و مایکرہ فیہا، مطلب في رفع الصوت بالذکر‘‘: ج ۲، ص: ۴۳۴)
 

فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج6 ص229

نماز / جمعہ و عیدین

الجواب وباللّٰہ التوفیق: قضاء واجب کے اسقاط کو کہتے ہیں سنت نمازیں وقت پر ادا نہ کرنے کی وجہ سے نفل ہو جاتی ہیں اور سنت ونوافل کی قضاء نہیں ہے، اس لیے فجر کی سنت کی بھی قضاء نہیں ہے، ہاں اگر فجر کی نماز کے ساتھ سنت بھی فوت ہو جائے تو زوال سے پہلے پہلے فرض کے ساتھ سنت کی قضاء کرنے کا حکم تبعاً للفرض ہے اور اگر زوال کے بعد فجر کی قضاء کرے تو صرف فجر کی قضاء ہے سنت کی قضاء نہیں ہے اسی طرح اگر صرف فجر کی سنت رہ گئی ہے تو امام محمد نے طلوع شمس کے بعد زوال سے پہلے پہلے سنت کی قضاء کو بہتر کہا ہے۔
’’ولم تقض سنۃ الفجر إلا بفوتہا مع الفرض إلی الزوال‘‘(۱)
’’وإذا فاتتہ رکعتا الفجر لا یقضیہما قبل طلوع الشمس لأنہ یبقی نفلا مطلقا وہو مکروہ بعد الصبح ولا بعد ارتفاعہا عند أبي حنیفۃ وأبي یوسف وقال محمد: أحب إلی أن یقضیہا إلی وقت الزوال‘‘(۲)

(۱) الطحطاوي، حاشیۃ الطحطاوي علی مراقي الفلاح، ’’کتاب الصلاۃ، باب إدراک الفریضۃ‘‘: ص: ۴۵۳، دارالکتاب دیوبند۔)
(۲) المرغیناني، ھدایۃ، ’’باب إدراک الفریضۃ‘‘: ج ۱، ص: ۱۵۲۔   أي لا یقضي سنۃ الفجر إلا إذا فاتت مع الفجر فیقضیہا تبعاً لقضائہ لو قبل الزوال، وأما إذا فاتت وحدہا فلا تقضی قبل طلوع الشمس بالإجماع، لکراہۃ النفل بعد الصبح، وأما بعد طلوع الشمس فکذلک عندہما۔ وقال محمد: أحب إلي أن یقضیہا إلی الزوال کما في الدرر۔ قیل ہذا قریب من الاتفاق، لأن قولہ: أحب إلي دلیل علی أنہ لو لم یفعل لا لوم علیہ، وقالا: لایقضي، وإن قضی فلا بأس بہ، کذا في الخبازیۃ۔ (ابن عابدین، رد المحتار ’’باب ادراک الفریضۃ، مطلب ہل الإسائۃ دون الکراہۃ أو أفحش‘‘: ج ۲، ص: ۵۱۲)
ولم تقض سنۃ الفجر إلا بفوتہا مع الفرض إلی الزوال، وقال محمد: تقضی منفردۃ بعد الشمس قبل الزوال فلا قضاء لہا قبل الشمس، ولا بعد الزوال إتفاقا،ً وسواء صلی منفرداً أو بجماعۃ۔ (الطحطاوي، حاشیۃ الطحطاوي، ’’باب ادراک الفریضۃ‘‘: ج ۱، ص: ۴۵۳، مکتبہ شیخ الہند دیوبند)

فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج6 ص356

 

اسلامی عقائد

Ref. No. 1107 Alif

الجواب وباللہ التوفیق

بسم اللہ الرحمن الرحیم۔  تحقیق نہیں ہے۔

واللہ تعالی اعلم

 

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند

Usury / Insurance

Ref. No. 38/ 898

In the name of Allah the most Gracious the most Merciful

The answer to your question is as follows:

It is not allowed to give interest money in paying a legal penalty, while it may be used in paying illegal penalties. However, one must follow the traffic rules.

And Allah knows best

Darul Ifta

Darul Uloom Waqf Deoband

طہارت / وضو و غسل

Ref. No. 41/862

الجواب وباللہ التوفیق 

بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔  جائز نہیں۔ لایمسہ الا المطہرون (القرآن)۔ لا يمس القرآن إلا طاهر  (ابوداؤد)

واللہ اعلم بالصواب

 

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند

 

بدعات و منکرات

Ref. No. 1031/41-200

الجواب وباللہ التوفیق 

بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔   اللہ تعالی کی بارگاہ میں اعمال پیش کئے جانے کی جو ترتیب سوال میں مذکور ہے وہ غلط اور خلاف واقعہ ہے۔ اللہ تعالی کی بارگاہ میں بندوں کے اعمال بغیر کسی واسطہ کے پیش ہوتے ہیں۔ البتہ اہل سنت والجماعت کا عقیدہ ہے کہ رسول اللہ ﷺ پر اپنی امت کے اعمال پیش ہوتے ہیں ، اسی طرح تمام انبیاء کرام علیہم السلام پر بھی ان کی امتوں کے اعمال پیش ہوتے ہیں۔

عن ابی ھریرۃ ان رسول اللہ ﷺ قال تعرض الاعمال یوم الاثنین والخمیس فیغفر لمن لایشرک باللہ شیئا الا رجلا بینہ وبین اخیہ  شحناء یقول دعوا ھذین  حتی یصطلحا۔ (مسند ابی داؤد الطیالسی رقم 2525)۔

عن ابی ھریرۃ ان رسول اللہ ﷺ قال تعرض الاعمال یوم الاثنین والخمیس فاحب ان یعرض عملی وانا صائم۔  (سنن الترمذی رقم 747)

عن عبداللہ ابن  مسعود  قال قال رسول اللہ ﷺ حیاتی خیرلکم تحدثون وتحدث لکم ووفاتی خیرلکم تعرض علی اعمالکم فمارایت من خیر حمدت اللہ علیہ  ومارایت من شر استغفرت اللہ لکم۔ (رواہ البزار – مجمع الزوائد – باب مایحصل لامتھا من استغفارہ بعد وفاتہ 9/24 دارالکتاب بیروت)

واللہ اعلم بالصواب

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند

Innovations

Ref. No. 1242/42-567

In the name of Allah the most Gracious the most Merciful

The answer to your question is follows:

A woman cannot become an imam for men in prayer whether it is an obligatory prayer or a voluntary prayer. A man's prayer will not be valid if he followed a woman. In the same way, it is Makrooh Tahreemi (an impermissible sinful act) for a woman to be an imam for women. So women should not arrange congregation at all, but they should pray alone.

فعلم ان جماعتھم وحدھن مکروھۃ (اعلاء السنن 4/242، باب کراھیۃ جماعۃ النساء، مکتبہ اشرفیہ دیوبند) وعن علی بن ابی طالب انہ قال لاتؤم المرآۃ قلت رجالہ کلھم ثقات (اعلاء السنن 4/243، باب کراھیۃ جماعۃ النساء، مکتبہ اشرفیہ دیوبند) ویکرہ تحریما جماعۃ النساء ولو فی التراویح الی قولہ فان فعلن تقف الامام وسطھن فلوقدمت اثمت، قال الشامی افاد ان الصلوۃ صحیحۃُ وانھا اذا توسطت لاتزول الکراھۃ وانما ارشد والی التوسط لانہ اقل کراھۃ التقدم ، وفیہ ایضا قولہ ویکرہ تحریما صرح بہ فی الفتح والبحر  قولہ ولو فی التراویح افاد ان الکراھۃ فی کل ما تشرع فیہ جماعۃ الرجال فرضا او نفلا (ردالمحتار ، کتاب الصلوۃ، باب الامامۃ 2/305-306، زکریا دیوبند)

First explain in detail what is meant by Munajat, and then the answer will be written accordingly.

And Allah knows best

Darul Ifta

Darul Uloom Waqf Deoband

اسلامی عقائد

Ref. No. 1483/42-946

الجواب وباللہ التوفیق

بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔1۔ آسمانی بجلی سے ہلاک ہونے والے شخص پر بھی شہید کا اطلاق ہوگا اور اخروی اعتبار سے اس کو شہید کہاجائے گا۔

لو مات حتف أنفه أو بترد أو حرق أو غرق أو هدم لم يكن شهيدا في حكم الدنيا، وإن كان شهيدا في الآخرة )شامی، باب الشھید 2/248)

فالحاصل أنه إذا وجب بقتله القصاص وإن سقط لعارض أو لم يجب بقتله شيء أصلا فهو شهيد كما علمته. أما إذا وجب به المال ابتداء فلا؛ وذلك بأن كان قتله شبه العمد كضرب بعصا، أو خطإ كرمي غرض فأصابه أو ما جرى مجراه كسقوط نائم عليه، وكذا إذا وجب به القسامة لوجوب المال بنفس القتل شرعا.( شامی، باب الشھید 2/249)

ومن قتل مدافعا عن نفسه أو ماله أو عن المسلمين أو أهل الذمة بأي آلة قتل بحديد أو حجر أو خشب فهو شهيد، كذا في محيط السرخسي. ولو كان المسلمون في سفينة فرماهم العدو بالنار فاحترقوا من ذلك وتعدى إلى سفينة أخرى فيها المسلمون فاحترقوا كلهم شهداء، كذا في الخلاصة (الھندیۃ الفصل السابع فی الشہید 1/168)

2۔یہ فطری خوف ہے یہ ایمان کے منافی نہیں ہے۔ مذکورہ وظائف کے علاوہ  "الذین آمنوا وتطمئن قلوبھم بذکر اللہ ، الا بذکر اللہ تطمئن القلوب" اور  "یا قوی قونی و قلبی"  بھی کثرت سے سینے پر ہاتھ رکھ کر پڑھا کریں،یہ ہمارے بڑوں کا مجرب وظیفہ ہے، ان شاء اللہ اس سے گھبراہٹ میں افاقہ ہوگا اور  کمی آئے گی۔

واللہ اعلم بالصواب

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند

ربوٰ وسود/انشورنس

Ref. No. 2269/44-2426

بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ صورت مسئولہ میں ملازمین کی تنخواہ سے جو رقم کاٹی گئی، اور اس پر ادارہ نے اپنی جانب سے جو اضافہ کیا اس کا لینا جائز ہے، اور یہ حلال آمدنی ہےجس میں اپنا پیسہ اور حکومت کا تحفہ شامل ہے،  البتہ ان دونوں رقموں پر بینک کی طرف سے جو انٹرسٹ (سود) ملتاہے، اس رقم  کا لیناجائزنہیں ہے۔

قوله: بل بالتعجيل أو بشرطه أو بالاستيفاء أو بالتمكن) يعني لايملك الأجرة إلا بواحد من هذه الأربعة، والمراد أنه لايستحقها المؤجر إلا بذلك، كما أشار إليه القدوري في مختصره، لأنها لو كانت دينًا لايقال: إنه ملكه المؤجر قبل قبضه، وإذا استحقها المؤجر قبل قبضها، فله المطالبة بها وحبس المستأجر عليها وحبس العين عنه، وله حق الفسخ إن لم يعجل له المستأجر، كذا في المحيط. لكن ليس له بيعها قبل قبضها". (البحر الرائق ج:7،ص:300،ط: دارالكتاب الإسلامي)

واللہ اعلم بالصواب

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند