حدیث و سنت

الجواب وباللّٰہ التوفیق:حدیث کی کتابوں میں ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جب رفع حاجت کے لئے بیت الخلاء میں داخل ہوتے تو دعا پڑھتے جیسا کہ امام ابو داؤد رحمۃ اللہ علیہ نے ایک روایت نقل کی ہے:
’’عن أنس بن مالک -رضي اللّٰہ عنہ- قال: کان رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم إذا دخل الخلاء قال: عن حماد قال: ’’اللہم إني أعوذ بک‘‘ وقال: عن عبد الوارث قال: ’’أعوذ باللّٰہ من الخبث والخبائث‘‘(۱)

آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :جب تم میں سے کوئی بیت الخلاء میں داخل ہو تو کہے: ’’أعوذ باللّٰہ من الخبث والخبائث‘‘ اے اللہ میں گندگی اور شیاطین سے تیری پناہ چاہتا ہوں۔
مذکورہ دعاء اور ’’اللہم إني أعوذ بک من الخبث والخبائث‘‘ کو بھی حدیث کی کتابوں میں حضرات محدثین نے ذکر کیا ہے آپ صلی اللہ علیہ وسلم بول وبراز سے پہلے اس کو پڑھا کرتے تھے۔
’’إن رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم، کان إذا دخل الکنیف، قال: اللہم إني أعوذ بک من الخبث والخبائث، وعن عبد العزیز بہذا الإسناد وقال: أعوذ باللّٰہ من الخبث والخبائث‘‘(۱)

(۱) أخرجہ أبوداود، في سننہ، ’’کتاب الطہارۃ: باب ما یقول الرجل إذا دخل الخلاء‘‘: ج ۱، ص: ۲، رقم: ۴۔
(۱) أخرجہ مسلم، في صحیحہ، ’’کتاب الحیض: باب ما یقول إذا أراد الخلاء‘‘: ج ۱، ص: ۱۶۳، رقم: ۳۷۵۔

 

فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج2ص140

بدعات و منکرات

الجواب وباللّٰہ التوفیق:حسب موقع ومحل نصیحت کی شرعاً اجازت ہے، خواہ بڑی مسجد کے امام نصیحت کریں یا چھوٹی مسجد کے؛ بلکہ ان دونوں میں جو عالم، دینداری ہو؛ نیز لوگوں کو سمجھانے میں بہتر ہو، وہی نصیحت کرے؛ اس لئے کہ یہ موقع دیر تک سمجھانے کا نہیں؛ البتہ اگر کوئی شخص کوئی بات غلط بتائے، تو اس کی اصلاح کرنے میں مضائقہ نہیں ہے۔(۲)

(۲) التذکیر علی المنابر للوعظ والاتعاظ سنۃ الأنبیاء والمرسلین۔ (ابن عابدین، الدر المختار مع رد المحتار، ’’یکرہ إعطاء سائل المسجد‘‘: ج ۶، ص: ۴۲۱)
الأحق بالإمامۃ الأعلم بأحکام الصلاۃ ثم الأحسن تلاوۃ للقرأۃ ثم الأورع أي الأکثر اتقاء للشبہات۔ (ابن عابدین، الدر المختار مع رد المحتار، ’’کتاب الصلاۃ: باب الإمامۃ‘‘: ج ۲، ص: ۲۹۴)

فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج2ص349

طہارت / وضو و غسل

الجواب وباللّٰہ التوفیق: نجاست حقیقیہ کے جسم پر باقی رہتے ہوئے نماز پڑھنا درست نہیں؛ بلکہ نجاست حقیقیہ زائل کر کے تیمم کے ساتھ نماز پڑھ سکتا ہے۔
’’تطہیر النجاسۃ واجب من بدن المصلی … ویجوز تطہیرہا بالماء وبکل مائع طاہر‘‘(۱)
’’ہي طہارۃ بدنہ من حدث وخبث وثوبہ ومکانہ … أما طہارۃ بدنہ من الحدث فبآیۃ الوضوء والغسل والخبث فبقولہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم: تنزہو من البول فإن عامۃ عذاب القبر منہ، والحدیث فاطمۃ بنت أبي حبیش اغسلي منک الدم وصلی‘‘(۲)
(۱) المرغیناني، الہدایۃ، ’’کتاب الطہارۃ: باب الأنجاس وتطہیرہا‘‘: ج ۱، ص: ۷۱۔(مکتبۃ الاتحاد، دیوبند)
(۲) ابن نجیم، البحر الرائق، ’’کتاب الصلاۃ: باب شروط الصلوٰۃ‘‘: ج ۱، ص: ۴۶۳۔(دارالکتاب دیوبند)


 

فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج3ص37

 

طہارت / وضو و غسل

الجواب وباللّٰہ التوفیق:شیخ فانی کے لیے کسی خاص عمر کی تحدید نہیں ہے، بلکہ شیخ فانی اس بوڑھے کو کہتے ہیں جو قریب المرگ ہو گیا ہو اور اس کی قوت جسمانی روز بروز زوال اور کمی کی طرف جا رہی ہو، ایسے شیخ فانی کے لیے روزے میں بھی یہ حکم ہے کہ وہ روزوں کا فدیہ دیدے، مگر نماز کے لیے کوئی خاص حکم شیخ فانی کے لیے نہیں ہے، بلکہ نماز کے متعلق حکم یہی ہے کہ کوئی شخص خواہ کتنی عمر کا ہو جب تک کھڑے ہو کر نماز پڑھ سکے تو بیٹھ کر نماز پڑھنا جائز نہیں، اسی طرح جب تک بیماری وغیرہ کا کوئی  عذر نہ ہو تیمم اس کے لیے درست نہیں ہے، اور اگر ٹھنڈے پانی سے موسم سرما میں ضرر (بیماری بڑھنے یا اعضاء کا تلف ہونے) کا اندیشہ ہو، تو اگر پانی گرم کرنے کی قدرت ہے، تو پانی گرم کرا کر وضوئکرے تیمم ایسی حالت میں درست نہیں ہے اور اگر پانی گرم کرنے کی قدرت نہ ہو، تو تیمم درست ہے۔(۱)

(۱)من عجز مبتدأ خبرہ تیمم۔ عن استعمال الماء المطلق الکافي لطہارتہ لصلاۃ تفوت إلی الخلف۔۔۔ إلی۔۔۔۔ أو لمرض یشتد أو یمتد بغلبۃ ظن أو قول حاذق مسلم و لو بتحرک۔ (ابن عابدین، الدرالمختار مع الرد، ’’کتاب الطہارۃ، باب التیمم‘‘ج۱، ص:۹۷-۹۶-۳۹۵) ؛ ویتمم المسافر ومن ھو في خارج المصر لبعدہ عن الماء میلاً أو لمرض خاف زیادتہ۔ (إبراہیم بن محمد، ملتقی الأبحر، ’’کتاب الطہارۃ، باب التیمم‘‘ ج۱، ص:۵۸) ؛ ومن عجز من استعمال الماء لبعدہ … أو برد) یھلک الجنب أو یمرضہ۔ ولو في المصر… قولہ : (یھلک الجنب أو یمرضہ) قید بالجنب، لأن المحدث لا یجوز لہ التیمم للبرد في الصحیح۔۔۔۔ تیمم لھذہ الأعذار کلھا۔ (ابن عابدین، رد المحتار، ’’کتاب الطہارۃ، باب التیمم‘‘ج۱،ص:۴۰۱-۳۹۵)
 

فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج3 ص354

نماز / جمعہ و عیدین

الجواب وباللہ التوفیق: مذکورہ امام کے پیچھے صحیح قرآن پڑھنے والے عالم کی نماز درست نہیں واجب الاعادہ ہے۔
’’ولا غیر الألثغ بہ أي بالألثغ علی الأصح کما في البحر عن المجتبیٰ، وحرر الحلبی وابن الشحنۃ أنہ بعد بذل جہدہ دائماً حتماً کالأمي فلا یؤم إلا مثلہ۔ قولہ فلا یؤم إلا مثلہ! یحتمل أن یراد المثلیۃ في مطلق اللثغ فیصح اقتداء من یبدل الراء المہملۃ غینا معجمۃ بمن یبدلہا لاماً … إذا فسد الاقتداء … بأي وجہ کان لا یصح شروعہ في صلاۃ نفسہ‘‘(۱)
’’ولا حافظ آیۃ من القرآن بغیر حافظ لہا وہو الأمي … قولہ بغیر حافظ …
شمل من یحفظہا أو أکثر منہا لکن بلحن مفسد للمعنیٰ لما في البحر: الأمي عندنا من لا یحسن القراء ۃ المفروضۃ‘‘(۲)

 

(۱) ابن عابدین،  رد المحتار، ’’کتاب الصلاۃ: باب الإمامۃ، مطلب إذا کانت اللثغۃ یسیرۃ‘‘: ج ۲، ص: ۳۲۷، ۳۲۹، زکریا۔
(۲) أیضًا: ’’مطلب الواجب کفایۃ ہل یسقط بفعل الصبي وحدہ‘‘:ص: ۳۲۴، زکریا۔
ولا یجوز إمامۃ الألثغ الذي لایقدر علی التکلم ببعض الحروف إلا لمثلہ إذا لم یکن في القوم من یقدر علی التکلم بتلک الحروف فامّا إذا کان في القوم من یقدر علی التکلم بہا فسدت صلاتہ وصلاۃ القوم۔ ومن یقف في غیر مواضعہ ولا یقف في مواضعہ لاینبغي لہ أن یؤم۔ (جماعۃ من علماء الہند، الفتاویٰ الہندیۃ، ’’کتاب الصلاۃ: الباب الخامس في الإمامۃ، الفصل الثالث في بیان من یصلح إماماً لغیرہ‘‘: ج۱، ص: ۱۴۴، زکریا دیوبند)


فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج5 ص465

 

 

نماز / جمعہ و عیدین

الجواب وباللہ التوفیق:  فجر کی نماز کے بعد طلوعِ آفتاب مکمل ہونے سے پہلے اور ایسے ہی عصر کی نماز کے بعد غروبِ آفتاب سے پہلے نفل نماز پڑھنا ممنوع ہے جو حضرات ایسا کرتے ہیں ان کو چاہئے کہ ان دو اوقات کے بعد نفل نمازپڑھیں۔(۱)

(۱)عن أبي ہریرۃ رضي اللّٰہ عنہ أن رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم نہی عن بیعتین و عن لبستین و عن صلاتین نہی عن الصلاۃ بعد الفجر حتی تطلع الشمس وبعد العصر حتی تغرب الشمس الخ (أخرجہ البخاري، في صحیحہ، ’’کتاب مواقیت الصلاۃ، باب الصلاۃ، بعد الفجر حتی ترتفع الشمس‘‘: ج ۱، ص: ۸۲، رقم: ۵۶۳)
عن ابن عمر رضي اللّٰہ عنہ، أن رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم قال: لا صلاۃ بعد الفجر إلا سجدتین۔ … وہو ما أجمع علیہ أہل العلم: کرہوا أن یصلي الرجل بعد طلوع الفجر إلا رکعتي الفجر ومعنی ھذا الحدیث إنما یقول لا صلاۃ بعد طلوع الفجر إلا رکعتي الفجر۔ (أخرجہ الترمذي، في سننہ، أبواب الصلاۃ،  ’’باب ما جاء لا صلاۃ بعد طلوع الفجر إلا رکعتین‘‘: ج ۱، ص: ۹۶، رقم: ۴۱۹)
عن یسار مولی عبد اللّٰہ بن عمر رضي اللّٰہ عنہ، قال: رآني ابن عمر وأنا أصلي بعد ما طلع الفجر، فقال: یا یسار کم صلیت؟ قلت: لا أدري، قال: لا دریت إن رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم خرج علینا ونحن نصلي ہذہ الصلاۃ فقال: ألا لیبلغ شاہدکم غائبکم،  ان لا صلاۃ بعد الصبح إلا سجدتان۔ (أخرجہ أحمد، في مسندہ مسند عبد اللّٰہ بن عمر رضي اللّٰہ عنہما: ج ۱۰،ص: ۷۳، رقم: ۵۸۱۱)
تسعۃ أوقات یکرہ فیہا النوافل وما في معناہا لا الفرائض۔ ہکذا في النہایۃ والکفایۃ، فیجوز فیہا قضاء الفائتۃ وصلاۃ الجنازۃ وسجدۃ التلاوۃ۔ کذا في فتاوی قاضي خان۔ منہا: ما بعد طلوع الفجر قبل صلاۃ الفجر۔کذا في النہایۃ والکفایۃ، یکرہ فیہ التطوع بأکثر من سنۃ الفجر۔ ومنہا: ما بعد صلاۃ العصر قبل التغیر۔ ہکذا في النہایۃ والکفایۃ، لو افتتح صلاۃ النفل في وقت مستحب ثم أفسدہا فقضاہا بعد صلاۃ العصر قبل مغیب الشمس لا یجزیہ ہکذا في محیط السرخسي، ومنہا: ما بعد غروب الشمس قبل صلاۃ المغرب۔ (جماعۃ من علماء الہند، الفتاویٰ الہندیۃ، ’’کتاب الصلاۃ:  الباب الأول في المواقیت وما یتصل بہا،  الفصل الثالث،  في بیان الأوقات التي لا تجوز فیہا الصلاۃ وتکرہ فیہا‘‘: ج ۱، ص: ۱۰۹، مکتبہ: رشیدیہ دیوبند)
(وکرہ نفل) قصدا ولو تحیۃ مسجد (وکل ما کان واجبا) لا لعینہ بل (لغیرہ) وہو ما یتوقف وجوبہ علی فعلہ (کمنذور، ورکعتي طواف) وسجدتي سہو (والذي شرع فیہ) في وقت مستحب أو مکروہ (ثم أفسدہ و) لو سنۃ الفجر (بعد صلاۃ فجر و) صلاۃ (عصر)۔ (ابن عابدین، رد المحتار، ’’کتاب الصلاۃ: مطلب یشترط العلم بدخول الوقت‘‘: ج ۲، ص: ۳۶،۳۷)

 فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج4 ص111

 

نماز / جمعہ و عیدین

الجواب وباللہ التوفیق: قرأت میں غلطی سے متعلق ایک اصول یا د رکھیں کہ اگر کسی سے نماز کی حالت میں قرأت میں فحش غلطی ہو جائے اور وہ غلطی اس نوعیت کی ہو کہ اس سے معنی بالکل تبدیل اور فاسد ہو جائے تو اس صورت میں نماز فاسد ہوجاتی ہے، چاہے مقدارِ واجب قرأت کی جا چکی ہو یا نہیں، تاہم اگر کوئی غلطی ہو جائے اور اس کی اصلاح اسی رکعت میں کرلی جائے یا ایسی غلطی ہو جس سے معنی میں کوئی ایسی تبدیلی نہ ہو جس سے نماز میں فساد پیدا ہو تو اس صورت میں نماز ادا ہو جاتی ہے۔
صورتِ مسئولہ میں {لیکونا من الأسفلین} کی جگہ ’’لیکونا من المسلمین‘‘ پڑھا گیا ہے، چوں کہ یہ فحش غلطی ہے اور معنی بالکل تبدیل ہوگئے ہیں، نیزقاری نے نماز میں یہ غلطی درست بھی نہیں کی اور دوسرے مقام سے قرائت شروع کردی تو اس صورت میں نماز فاسد ہوگئی، نماز کا اعادہ کرنا اس پر لازم ہے۔
جیسا کہ فتاویٰ الہندیہ میں ہے:
’’أما إذا لم یقف ووصل إن لم یغیر المعنی نحو أن یقرأ ’’إن الذین آمنوا وعملوا الصالحات فلہم جزاء الحسنی‘‘ مکان قولہ ’’کانت لہم جنات الفردوس نزلا‘‘ لاتفسد۔ أما إذا غیر المعنی بأن قرأ ’’إن الذین آمنوا وعملوا الصالحات أولئک ہم شر البریۃ، إن الذین کفروا من أہل الکتاب‘‘ إلی قولہ ’’خالدین فیہا أولئک ہم خیر البریۃ‘‘ تفسد عند عامۃ علمائنا وہو الصحیح، ھکذا في الخلاصۃ۔(۱)
’’ذکر في الفوائد لو قرأ في الصلاۃ بخطأ فاحش، ثم رجع وقرأ صحیحاً، قال: عندي صلاتہ جائزۃ، وکذلک الإعراب، ولو قرأ النصب مکان الرفع، والرفع مکان النصب، أو الخفض مکان الرفع أو النصب لاتفسد صلاتہ‘‘(۲)

(۱) جماعۃ من علماء الہند، الفتاویٰ الہندیۃ، ’’الباب الرابع في صفۃ الصلاۃ، و منہا ذکر آیۃ مکان آیۃ‘‘: ج ۱، ص: ۱۳۸۔)
(۲) المرجع السابع ’’الباب الرابع: في صفۃ الصلاۃ، و منہا : إدخال التأنیث في أسماء اللّٰہ تعالیٰ‘‘ ج۱، ص۱۴۰۔)

 

فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج6 ص82

نماز / جمعہ و عیدین

الجواب وباللہ التوفیق: اس صورت میں اگر تمام لوگوں نے وتر کی نماز پڑھ لی تھی تو تراویح کے بعد وتر کی جماعت نہ کی جائے کیوں کہ وتر کی نمازپہلے ادا ہوچکی ہے۔(۴)

(۴) وإذا صلی الوتر قبل النوم، ثم تہجد لا یعید الوتر لقولہ صلی اللہ علیہ وسلم: لا وتران في لیلۃ۔ (أحمد بن أحمد الطحطاوي، حاشیۃ الطحطاوي علی المراقي، ’’باب الوتر وأحکامہ‘‘: ص: ۳۸۶، ط: دار الکتاب، دیوبند)
 

فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج6 ص304

نماز / جمعہ و عیدین

الجواب وباللّٰہ التوفیق: تینوں نمازیں الگ الگ ہیں اور اور ان کے اوقات مختلف ہیں او ران کی فضیلتیں احادیث میں علیحدہ علیحدہ مذکور ہیں اشراق کا وقت سورج طلوع ہونے کے تقریباً ۲۰؍ منٹ بعد شروع ہوجاتا ہے اور نصف النہار تک رہتا ہے، مگر شروع میں پڑھنا افضل ہے اور چاشت کا وقت سورج خوب روشن ہوجانے (دس گیارہ بجے) کے بعد سے شروع ہوکر نصف النہار تک رہتا ہے۔ اور اوابین کا وقت مغرب کی نماز کے بعد سے شروع ہوتا ہے؛ البتہ احادیث میں دو وقت کی نوافل پر اطلاق اوابین کا آیا ہے، ایک چاشت کی نماز پر اور دو سرے نوافل بعد المغرب پر پس مغرب کے بعد کی چھ رکعتوں کے علاوہ چاشت کو بھی صلاۃ اوابین کہہ سکتے ہیں اس معنی میں اوابین اور چاشت دونوں ایک نماز ہوسکتی ہیں۔
’’قال العلامۃ سراج أحمد في شرح الترمذي لہ: إن المتعارف في أول النہار صلاتان: الأولی بعد طلوع الشمس وارتفاعہا قدر رمحٍ أو رمحین، یقال لہا صلاۃ الاشراق۔ والثانیۃ عند ارتفاع الشمس، قدر ربع النہار إلی ما قبل الزوال ویقال لہا صلاۃ الضحی۔ واسم الضحی في کثیر من الأحادیث شامل لکلیہما، وقد ورد في بعضہا لفظ الإشراق أیضًا‘‘(۱)

(۱) ظفر أحمد العثماني، إعلاء السنن، ’’کتاب الصلاۃ: باب النفل والسنن‘‘: ج ۷، ص: ۳۰، مکتبہ اشرفیہ دیوبند۔)
عن عاصم بن ضمرۃ السلولي، قال: سألنا علیّاً عن تطوع رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ تعالیٰ علیہ وسلم بالنہار، فقال: إنکم لاتطیقونہ۔ فقلنا: أخبرنا بہ نأخذ ما استطعنا قال: کان رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم إذا صلی الفجر یمہل حتی إذا کانت الشمس من ہاہنا یعني: من قبل المشرق بمقدارہا من صلاۃ العصر من ہاہنا یعنی: من قبل المغرب قام فصلی أربعاً۔ (أخرجہ ابن ماجۃ، في سننہ، ’’کتاب إقامۃ الصلاۃ والسنۃ فیھا، باب ما جاء فیما یستحب من التطوع بالنھار‘‘: ج ۱، ص: ۸۱)

 

فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج6 ص413

طہارت / وضو و غسل

Ref. No. 865 Alif

الجواب وباللہ التوفیق

بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔  دھوبی سے کپڑا دھلوانے میں کوئی حرج نہیں ہے، بشرطیکہ ناپاک پانی سے نہ دھوئے اور پاک کرنے کا پورا خیال رکھے۔ واللہ اعلم بالصواب

 

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند