Frequently Asked Questions
طہارت / وضو و غسل
Ref. No. 2603/45-4122
بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ زخم سے خون بہا اور آپ نے اس کو پونچھ دیا یا دھولیا ، پھر اس کے بعد زخم سے خون بہا تو دھونے سے پہلے اور دھونے کے بعد بہنے والے خون کے مجموعہ کو دیکھاجائے گا اگر وہ مجموعی طور پر اتنی مقدار میں ہو کہ اگر پونچھا نہ جاتا تو جمع ہو کر بہہ پڑتا تو اس سے وضو ٹوٹ جائے گا، اور اس خون سے جو پانی میں لگے گا وہ بھی ناپاک ہوگا۔
وينقضه) خروج منه كل خارج (نجس) بالفتح ويكسر (منه) أي من المتوضئ الحي معتادا أو لا، من السبيلين أو لا (إلى ما يطهر) بالبناء للمفعول: أي يلحقه حكم التطهير.ثم المراد بالخروج من السبيلين مجرد الظهور وفي غيرهما عين السيلان ولو بالقوة، لما قالوا: لو مسح الدم كلما خرج ولو تركه لسال نقض وإلا لا، كما لو سال في باطن عين أو جرح أو ذكر ولم يخرج." (رد المحتار) 1/ 134)
واللہ اعلم بالصواب
دارالافتاء
دارالعلوم وقف دیوبند
نماز / جمعہ و عیدین
الجواب وباللہ التوفیق: اگلی صف میں خالی جگہ کا پر کرنا ضروری ہے اور جو لوگ دوسری صف میں کھڑے ہوگئے باوجود پہلی صف میں جگہ ہونے کے، تو اس کو پر کرنے کے لیے دوسری صف والوں کے آگے سے گزرنا اور پہلی صف میں خالی جگہ پر جاکر کھڑا ہونا درست اور جائز ہے۔
’’إلا أن یجد الداخل فرجۃ في الصف الأول فلہ أن یمر بین یدي الصف الثاني لتقصیر أہل الصف الثاني ذکرہ الطیبي‘‘(۱)
’’لو وجد فرجۃ في الأول لاالثاني لہ خرق الثاني لتقصیرہم‘‘(۲)
(۱) ابن عابدین، رد المحتار، ’’کتاب الصلاۃ، باب الإمامۃ، مطلب إذا تردد قولہ جدک بدون ألف لاتفسد‘‘: ج ۲، ص:۴۰۲۔
(۲) أیضًا۔
فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج5 ص452
نماز / جمعہ و عیدین
الجواب وباللّٰہ التوفیق:اگر زید نے کسی وجہ سے دوسرے آدمی سے بچہ کے کان میں اذان و تکبیر کہلوائی تو اس میں کوئی قباحت نہیں ہے اور اس میں اس امام صاحب کی بھی کوئی توہین نہیں ہے، جنہوں نے پہلے اذان و تکبیر پڑھی تھی۔ اس کو توہین پر محمول کرنا درست نہیں۔ ہاں! پہلی اذان سے سنیت ادا ہوگئی ہے۔ (۱)
(۱) إذا کان في المسجد أکثر من مؤذن واحد أذنوا واحدا بعد واحد فالحرمۃ للأول، کذا في الکفایۃ۔ (جماعۃ من علماء الہند، الفتاویٰ الہندیۃ، ’’کتاب الصلاۃ: الباب الثاني في الأذان‘‘: الفصل الثاني في کلمات الأذان والإقامۃ وکیفیتہما، ج ۱، ص: ۱۱۴، زکریا دیوبند)
إذا أذن واحد بعد واحد علی المنارۃ یوم الجمعۃ، قال شمس الأئمۃ الحلواني رحمۃ اللّٰہ علیہ: الصحیح أن الموجب للسّعي وترک التجارۃ ہو الأذان الأول لیس للثاني من الحرمۃ ما یکون للأول۔ (فتاویٰ قاضي خان علی الہندیۃ، المجلد السابع، ’’کتاب الصلاۃ: باب الأذان، مسائل الأذان‘‘: ج ۱، ص: ۵۱، زکریا)
فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج4 ص221
نماز / جمعہ و عیدین
الجواب وباللّٰہ التوفیق: صورت مسئولہ میں حنفی مسلک کے مفتی بہ قول کے مطابق تعدیل ارکان نماز میں واجب ہے سنت کا قول بھی اگرچہ امام اعظم رحمۃ اللہ علیہ سے منقول ہے؛ لیکن فقہاء احناف کا اس پر فتویٰ نہیں ہے۔ مذکورہ امام صاحب نے جو قول بیان کیا وہ غیر مفتی بہ ہے۔(۲)
(۲) ویجب الإطمینان وہو التعدیل في الأرکان بتسکین الجوارح في الرکوع والسجود حتی تطمئن مفاصلہ في الصحیح۔ (أحمد بن محمد، حاشیۃ الطحطاوي علی مراقي الفلاح، ’’کتاب الصلاۃ: فصل في بیان واجب الصلاۃ‘‘: ص: ۲۴۹، مکتبہ شیخ الہند دیوبند)
وتعدیل الأرکان ہو تسکین الجوارح حتی تطمئن مفاصلہ وأدناہ قدر تسبیحۃ۔ (جماعۃ من علماء الہند، الفتاویٰ الہندیۃ، ’’کتاب الصلاۃ: الباب الرابع، في صفۃ الصلاۃ، الفصل الثانيفي واجبات الصلاۃ ‘‘: ج۱، ص: ۱۲۹، زکریا دیوبند)
ثم القومۃ والجلسۃ سنۃ عندہما وکذا الطمأنینۃ في تخریج الجرجاني وفي تخریج الکرخي واجبۃ حتی تجب سجدتا السہو بترکہا عندہ۔ (المرغیناني، الہدایۃ، ’’کتاب الصلاۃ: باب صفۃ الصلاۃ‘‘: ج۱، ص: ۱۰۷، ۱۰۸، دار الکتاب دیوبند)
فتاویٰ دارالعلوم وقف دیوبند ج4 ص365
نماز / جمعہ و عیدین
الجواب وباللّٰہ التوفیق: عشاء کے بعد سے ہی تہجد کا وقت شروع ہو جاتا ہے، البتہ افضل یہ ہے کہ آدھی رات کے بعد تہجد پڑھی جائے، لیکن اگر کوئی سونے سے پہلے دو رکعت یا چاریا آٹھ رکعت پڑھ کر اس نیت سے سو گیا کہ تہجد میں بھی اٹھ کر نماز پڑھوں گا، لیکن بیدار نہیں ہو سکا تو اس کو اسی دو رکعت پر تہجد کا ثواب مل جائے گا۔
’’أن رسول اللّٰہ علیہ وسلم قال: لا بد من صلاۃ بلیل ولو ناقۃ ولو حلب شاۃ وما کان بعد صلاۃ العشاء الآخرۃ فہو من اللیل‘‘(۱)
(۱) وماکان بعد صلاۃ العشاء فہو من اللیل أخرجہ الطبراني في الکبیر، ج ۱، ص: ۲۴۵، وہذا یفید أن ہذہ السنۃ تحصل بالتنفل بعد صلاۃ العشاء قبل النوم۔ (الحصکفي، رد المحتار علی الدرالمختار، ’’کتاب الصلاۃ، باب الوتر والنوافل، مطلب في صلاۃ اللیل‘‘: ج ۲، ص: ۴۶۷، زکریا دیوبند)
فینبغي القول بأن اقل التہجد رکعتان، وأوسطہ أربع وأکثرہ ثمان واللّٰہ اعلم۔ (أیضاً، ’’مطلب في صلاۃ اللیل‘‘: ج ۲، ص: ۴۶۸، زکریا دیوبند)
فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج6 ص409
زکوۃ / صدقہ و فطرہ
Ref. No.2842/45-4482
بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ جو زمین آپ نے تجارت کے مقصد سے خریدی ہے، اس پر زکوٰۃ واجب ہے، اور اس میں جو کچھ پیداوار ہوگی اس کی مالیت پر بھی زکوۃ کا حساب ہوگا۔ ہر سال اس کی جو قیمت بڑھتی رہتی ہے ، اس کو دیکھاجائے گا، حکومت کا طے کردہ قیمت کا اعتبار نہیں ہوگا، بلکہ اس علاقہ میں لوگوں کے درمیان اس زمین کی جو مالیت اور قیمت ہو گی اس کا اعتبار کرتے ہوئے زکوۃ نکالی جائے گی۔ اگر گذشتہ سالوں کی زکوۃ آپنے ادانہیں کی ہے تو ہر سال کا حساب کرکے زکوۃ نکالنی لازم ہے۔
ومن اشترى جارية للتجارة ونواها للخدمة بطلت عنها الزكاة) لاتصال النية بالعمل وهو ترك التجارة (وإن نواها للتجارة بعد ذلك لم تكن للتجارة حتى يبيعها فيكون في ثمنها زكاة) لأن النية لم تتصل بالعمل إذ هو لم يتجر فلم تعتبر.(فتح القدير،كتاب الزكاة،ج:2،ص:168)
ولو اشترى الرجل دار أو عبداً للتجارة ثم أجره يخرج من أن يكون للتجارة لأنه لما آجره فقد قصد المنفعة.(فتاوى قاضي خان،فصل في مال التجارة،ج:1،ص:155)
ولو اشترى قدورا من صفر يمسكها ويؤاجرها لا تجب فيها الزكاة كما لا تجب في بيوت الغلة.(الفتاوى الهندية،مسائل شتى في الزكاة،ج:1،ص:180)
واللہ اعلم بالصواب
دارالافتاء
دارالعلوم وقف دیوبند
The Holy Qur’an & Interpretation
Ref. No. 1267 Alif
In the name of Allah the most Gracious the most Merciful
The answer to your question is as it follows:
In-sha Allah you will live long. May Allah give you long and prosperous life! Adhere to Islamic teachings, do good deeds for yourself and others and act upon all that benefits you in both the worlds. Allah will make a way for you if you try your level best.
And Allah knows best
Darul Ifta
Darul Uloom Waqf Deoband
Usury / Insurance
Ref. No. 37 / 1038
In the name of Allah the most Gracious the most Merciful
The answer to your question is hereunder:
It includes interest and usury that’s why it is not allowed, hence you have to abstain from it.
And Allah knows best
Darul Ifta
Darul Uloom Waqf Deoband
اسلامی عقائد
Ref. No. 38 / 1130
الجواب وباللہ التوفیق
بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ محلہ کے لوگوں نے جب عالم صاحب کو آگے بڑھادیا تو اب امام صاحب سے اجازت لینے کی ضرورت نہیں ہے۔ نماز بہرصورت درست ہوگی۔ واللہ اعلم بالصواب
دارالافتاء
دارالعلوم وقف دیوبند
Usury / Insurance
Ref. No.
In the name of Allah the most gracious the most merciful
The answer to your question is as follows:
Taking loan is not allowed in normal conditions. However, if one takes loan in a dire need, or to protect oneself from falling prey to transgressors etc., it may be allowable. But it requires much caution before proceeding ahead. If you think it is necessary to take loan, then you have to write your necessities to Darul Ifta so that we can suggest if you can take interest-based loan or not. You must not name your desire as a necessity.
And Allah knows best
Darul Ifta
Darul Uloom Waqf Deoband