Frequently Asked Questions
طلاق و تفریق
اسلامی عقائد
الجواب وباللّٰہ التوفیق:اگر راستہ میں مذکورہ شخص کا واقعۃً حق تھا تو اس کو اپنے حق کا مطالبہ کرنا اور حق نہ ملنے پر عدالت سے رجوع کرنے میں کوئی حرج نہیں؛ لیکن اس کے لئے مذہب تبدیل کرنے کی دھمکی جائز نہیں ہے مذہب کی بنیاد اس پر نہیں ہے کہ کسی نے حق دبا لیا ہو یا ادا کردیا وغیرہ بہر حال مذکورہ شخص اور اس کی تائید کرنے والوں پر توبہ و استغفار لازم ہے؛ لیکن وہ خارج از اسلام نہیں ہے۔ (۱)
۱) {وَمَنْ یَّبْتَغِ غَیْرَ الْإِسْلَامِ دِیْنًا فَلَنْ یُّقْبَلَ مِنْہُ ج وَھُوَ فِي الْأٰخِرَۃِ مِنَ الْخٰسِرِیْنَ ہ۸۵} (سورۃ آل عمران: ۸۵)
{وَلَا تَنَازَعُوْا فَتَفْشَلُوْا وَتَذْھَبَ رِیْحُکُمْ وَاصْبِرُوْاط} (سورۃ الأنفال: ۴۶)
{وَاعْتَصِمُوْا بِحَبْلِ اللّٰہِ جَمِیْعًا وَّلَا تَفَرَّقُوْا ص} (سورۃ آل عمران: ۱۰۳)
Business & employment
Ref. No. 2111/44-2186
In the name of Allah the most Gracious the most Merciful
The answer to your question is as follows:
The animals slaughtered according to the Shariah method got tanned and are pure, and the animals slaughtered in the non-Shariah ways must be tanned to get purified. Until they are purified, their sale is not permissible. If the people, from where and whom you buy the skins tell you that it is impure then it is not allowable to sell it, but if it is not known at all and no major guess can be made, then it is considered to be pure. It will be permitted to act as an intermediary in buying and selling it and your earnings will be lawful.
All kinds of skins except pigs’ can be sold after tanning, just as it is tanned with drugs and clay, it can also be tanned by just sprinkling salt. If you don't tan the skins at all, they would be at high risk of damage.
And Allah knows best
Darul Ifta
Darul Uloom Waqf Deoband
اسلامی عقائد
الجواب وباللّٰہ التوفیق:سوال میں حور کی جو تفصیل ذکر کی گئی ہے وہ درست ہے، جنتی حوروں کے سینے ابھرے ہوئے ہوں گے۔ (۱) یہ قرآن میں ہے اور حدیث میں آتا ہے کہ شہید کو جو انعام دیا جائے گا اس میں ایک یہ ہے کہ ستر حوروں سے اس کی شادی کرائی جائے گی۔(۲)
(۱) {وکواعب أترابا} الکواعب: جمع کاعبۃ، وہي الناہدۃ، یقال: کعبت الجاریۃ تکعب تکعیبا وکعوبا، ونہدت تنہد نہودا، والمراد أنہم نساء کواعب تکعبت ثدیہن وتفلکت، أي: صارت ثدیہنّ کالکعب في صدورہن۔ (محمد بن علی، فتح القدیر: ج ۲، ص: ۹۴۰)
(۲) قال رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم: للشہید عند اللّٰہ ست خصال: یغفر لہ في أول دفعۃ، ویری مقعدہ من الجنۃ، ویجار من عذاب القبر، ویأمن من الفزع الأکبر، ویوضع علی رأسہ تاج الوقار، الیاقوتۃ منہا خیر من الدنیا وما فیہا، ویزوج اثنتین وسبعین زوجۃ من الحور العین، ویشفع في سبعین من أقاربہ، قال أبو عیسیٰ: ہذا حدیث صحیح غریب۔ (أخرجہ الترمذي، في سننہ، ’’أبواب فضائل الجہاد: باب ما جاء أي الناس أفضل، باب منہ‘‘: ج ۱، ص: ۲۹۵، رقم: ۱۶۶۳)
فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج1ص296
طہارت / وضو و غسل
Ref. No. 2415/44-3647
بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ دہ در دہ کے لئے حوض کی لمبائی اور چوڑائی کا برابر دس دس ہاتھ کا ہونا ضروری نہیں ہے، بلکہ کل پیمائش کا دہ در دہ ہونا کافی ہے۔ اس لئے سوال میں مذکور حوض، حوض کبیر ہے، اگر اس کا مجموعی رقبہ 225 فٹ ہے۔
ولولہ طول لا عرض لکنہ یبلغ عشرا فی عشر جاز تیسیرا (شامی 1/341)
واللہ اعلم بالصواب
دارالافتاء
دارالعلوم وقف دیوبند
اسلامی عقائد
حدیث و سنت
الجواب وباللّٰہ التوفیق:حسب تصریح سیرت خاتم الانبیاء حضرت آدم علیہ السلام کو دنیا میں تشریف لائے ہوئے تقریباً ۶۸۴۸؍ چھے ہزار آٹھ سو اڑتالیس سال ہوگئے(۲)۔ حضرت آدم علیہ السلام حسب تصریح النور المبین: ۹۳۰؍(۳) سال اور حسب تصریح حیات الحیوان ۹۴۰؍ سال بقید حیات رہے۔ تاہم اس پر کوئی صحیح حدیث نہیں ملتی، مگر امام ابن عساکر کی عبارت سے مذکورہ وضاحت ملتی ہے۔
(۲) محمد بن إسحاق بن یسار قال: کان من آدم إلی نوح ألف ومائتا سنۃ ومن نوح إلی إبراہیم ألف ومائۃ واثنتان وأربعون سنۃ وبین إبرہیم إلی موسیٰ خمسمائۃ وخمس وستون سنۃ ومن موسیٰ إلی داؤد خمسمائۃ تسعۃ وستون سنۃ ومن داؤد إلی عیسیٰ ألف وثلاثۃ مائۃ وست وخمسون سنۃ ومن عیسیٰ إلی محمد علیہ السلام ستمائۃ سنۃ فذلک خمسۃ آلاف وأربعمائۃ واثنان وثلاثون سنۃ، ہذا الأجمال صحیح۔ (تاریخ دمشق الابن عساکر: ج ۱، ص: ۳۱)
(۳)أحمد بن محمد الصاوي، تفسیر الصاوي: ج ۱، ص: ۴۹۔
فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج2ص225
بدعات و منکرات
الجواب وباللّٰہ التوفیق:تبلیغی جماعت کے اصل ذمہ دار ان معتمد علماء دین ہیں ضمناً کام کرنے والوں میں بھی علماء ہوں تو بہتر ہے لیکن سفر کرکے تبلیغ کرنے والی بعض جماعتوں میں علماء نہ بھی ہوں تو ان کو ذمہ دار کہہ کر نااہلوں کے ہاتھ میں باگڈور اور انتظامی قباحت کی بات کہنا درست نہیں ہے جب کہ اصل ذمہ دار علماء ہی ہیں اور ہر آدمی مکلف ہے کہ جس قدر جانتا ہو اس کو دوسروں تک پہونچائے۔(۱)
(۱) عن عبد اللّٰہ ابن عمرو رضي اللّٰہ عنہما، قال: قال رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم: بلغوا عني ولو آیۃ وحدثوا عن بني إسرائیل ولا حرج ومن کذب علي متعمداً فلیتبوأ مقعدہ من النار، رواہ البخاري۔ (مشکوٰۃ المصابیح، ’’کتاب العلم: الفصل الأول‘‘: ج ۱، ص: ۳۲، رقم: ۱۹۸)
عن أبي ہریرۃ رضي اللّٰہ عنہ قال: قال رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم: من دعا إلی ہدی کان لہ من الأجر مثل أجور من یتبعہ لا ینقص ذلک من أجورہم شیئاً ومن دعا إلی ضلالۃ کان علیہ من الإثم مثل آثام من یتبعہ لا ینقص ذلک من آثامہم شیئاً، ہذا حدیث حسن صحیحٌ۔ (أخرجہ الترمذي، في سننہ، ’’أبواب العلم، باب ما جاء في من دعاء إلی ہدی الخ‘‘: ج ۲، ص: ۹۶، رقم: ۲۶۷۴)
-----------
فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج2ص347
طہارت / وضو و غسل
الجواب وباللہ التوفیق: جب دیکھا گیا کہ اس مردہ جانور کی ہڈی اور پر وغیرہ ٹنکی سے نکلے ہیں شرعاً اسی وقت سے ٹنکی کے ناپاک ہونے کا حکم ہوگا اور اس سے پہلے ناپاک ہونے کا حکم شرعاً نہیں ہوگا، اس سے جو وضو بنا کر نمازیں پڑھی گئی ہیں، سب درست ہوںگی۔ (۱)
(۱) إذا وقعت نجاسۃ في بئر دون القدر الکثیر أو مات فیھا حیوان دموي وانتفخ أوتمعط أو تفسخ أي تفرقت أعضاؤہ عضوا عضوا، ولا فرق بین الصغیر والکبیر کالفأرۃ ۔۔۔ ینزح الماء کلہ۔ (ابن عابدین، ردالمحتار، کتاب الطہارۃ، باب المیاہ، فصل في البئر، ج۱، ص:۳۶۶)؛ و یحکم بنجاستھا مغلظۃ من وقت الوقوع إن علم و إلا فمذ یوم و لیلۃ إن لم ینتفخ ولم یتفسخ (ایضا، ج۱، ص:۳۷۵)،… و قالا من وقت العلم فلا یلزمھم شيء قبلہ قیل و بہ یفتی۔ (ایضاً، ج۱، ص:۳۷۸)، فإن أخرج الحیوان غیر منتفخ و متفسخ۔۔۔ نزح کلہ ۔۔۔ و إن کان کعصفور و فارۃ فعشرون إلی ثلاثین کما مر و ھذا یعم المعین وغیرھا بخلاف نحو صھریج وحب حیث یھراق الماء کلہ لتخصیص الآبار بالآثار بحر و نھر۔۔۔ و مذ ثلاثۃ أیام بلیالیھا إن انتفخ أو تفسخ استحسانا۔ (ایضاً ،ص:۳۷۲- ۳۷۷)
فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج2ص483
طہارت / وضو و غسل
الجواب وباللّٰہ التوفیق:ہاتھ و پیر کے ناخنوں میں جو میل یا مٹی جم جاتی ہے اسے چھڑائے بغیر بھی وضو ہوجائے گا۔(۱)
(۱) ولا یمنع الطھارۃ و نیم و حناء و درن و وسخ و کذا دھن و دسومۃ و تراب و طین ولو في ظفر مطلقا أي قرویا أو مدنیا في الأصح، (ابن عابدین الدر المختار مع رد المحتار، ’’کتاب الطہارۃ، مطلب في أبحاث الغسل،‘‘ ج ۱،ص:۲۸۸)؛ وفي الجامع الصغیر: سئل أبوالقاسم، عن وافر الظفرالذي یبق في أظفارہ الدرن أو الذي یعمل عمل الطین أو المرأۃ التي صبغت أصبعھا بالحناء أوالصرام أوالصباغ؟ قال: کل ذلک سواء یجزیھم و ضوئھم إذ لا یستطاع الامتناع عنہ إلا بحرج، والفتوی علی الجواز من غیر فصل بین المدني والقروي کذا في الذخیرۃ، (جماعۃ من علماء الہند، الفتاویٰ الہندیہ؛ ’’کتاب الطہارۃ، الباب الأول في الوضوء، الفرض الثاني، غسل الیدین،‘‘ ج۱، ص:۵۴)؛ ولو بقي الدرن أي الوسخ في الأظفار جاز الغسل والوضوء لتولدہ من البدن یستوی فیہ أي في الحکم المذکور المدن أي ساکن المدینۃ والقروي أي ساکن القریۃ لما قلنا۔ (ابراہیم، حلبي کبیري، باب في آداب الوضوء، ص: ۴۲، دارالکتاب دیوبند)، وفي الجامع الصغیر إن کان وافر الأظفار و فیھا درن أو طین أو عجین أو المرأۃ تضع الحناء جاز في القروي والمدني۔ (ابن الہمام، فتح القدیر،’’کتاب الطہارۃ،‘‘ ج۱،ص:۱۲)
فتاوی ٰ دارالعلوم وقف دیوبند ج3 ص151