طہارت / وضو و غسل

الجواب وباللّٰہ التوفیق:ایسی حالت میں کہ کہنی زمین پر ٹکی ہو اور پیٹ بھی رانوں سے مل گیا ہو، تو وضو ٹوٹ جائے گا۔ اور اگر پیٹ رانوں سے نہ ملا ہو، تو وضو نہیں ٹوٹے گا۔

شامی میں ہے:
’’والہیئۃ المسنونۃ بأن یکون رافعاً بطنہ عن فخذیہ مجافیاً عضدیہ عن جنبیہ … وظاہرہ أن المراد الہیئۃ المسنونۃ في حق الرجال لا المرأۃ۔ … واختار في شرح المنیۃ النقض في مسألۃ الذخیرۃ لارتفاع المقعدۃ وزوال التمکن۔ وإذا نقض في التربع مع أنہ أشد تمکنا فالوجہ الصحیح النقض ہنا ثم أیدہ بما في الکفایۃ عن المبسوط من أنہ لو نام قاعداً ووضع ألیتیہ علی عقبیہ وصار شبہ
المنکب علی وجہہ قال أبو یوسف رحمہ اللّٰہ علیہ الوضوء‘‘(۱)
عالمگیری میں ہے:
’’إلا في السجود فإنہ یشترط أن یکون علی الہیئۃ المسنونۃ لہ بأن یکون رافعاً بطنہ عن فخذیہ مجافیا عضدیہ عن جنبیہ وإن سجد علی ہذہ الہیئۃ انتقض وضوئہ‘‘(۲)
 

(۱) ابن عابدین، الدر المختار مع رد المحتار، ’’کتاب الطہارۃ: نواقض الوضوء، مطلب: نوم من بہ انفلات ریح غیر ناقض‘‘: ج ۱، ص: ۲۷۱۔
(۲) جماعۃ من علماء الہند، الفتاویٰ الہندیۃ، ’’کتاب الطہارۃ: الباب الأول، الفصل الخامس: منہا النوم‘‘: ج ۱، ص: ۶۳۔

 

فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج3 ص255

نماز / جمعہ و عیدین

الجواب وباللّٰہ التوفیق: مذکورہ مسجد مدرسہ کی ہے، اس کا نظم مدرسہ سے متعلق ہے لہٰذا اس مسجد میں جو بھی آمدنی ہوگی وہ مدرسہ میں جمع ہوگی اور مدرسہ والے اس کو جس طرح مناسب سمجھیں ضروریات مسجد پر صرف کریں۔ ذمہ داروں کو چاہے کہ امامت و اذان کہنے کے لیے اشخاص مقرر کرکے تنخواہ دی جائے تاکہ جماعت و اذان کے نظم میں خلل نہ پڑے۔(۲)
(۲) لا یجوز الاستیجار علی الأذان والحج وکذا الإمامۃ وتعلیم القرآن والفقہ والأصل أن کل طاعۃ یختص بہا المسلم لا یجوز الاستیجار علیہ عندنا۔ (المرغیناني، ہدایۃ، ’’کتاب الإجارۃ، باب الإجارۃ الفاسدۃ‘‘: ج ۳، ص: ۲۳۸)

قال ابن المنذر: ثبت أن رسول اللّٰہ قال لعثمان بن أبي العاص واتخذوا مؤذناً لا یأخذ علی أذانہ أجرأ وأخرج ابن حبان عن یحیی البکالی قال سمعت رجلا قال لإبن عمر إني لأحبک في اللّٰہ قال لہ ابن عمر إني لأبغضک فی اللّٰہ فقال سبحان اللّٰہ أحبک فی اللّٰہ وتبغضی فی اللّٰہ قال نعم إنک تسئل علی أذانک أجرا وروي عن ابن مسعود انہ قال أربع لا یوخذ علیہن أجر الأذان و قرأۃ القرآن والمقاسم والقضاء۔ (نیل الأوطار، ’’باب النہي عن أخذ الأجرۃ علی الأذان‘‘: ج۱، ص: ۳۷۵)
(إن أحق ما أخذتم علیہ أجرا کتاب اللّٰہ) (أخرجہ البخاري في صحیحہ، کتاب الإجارۃ، باب ما یعطي في الرقیۃ‘‘: ج۱، ص: ۳۰۴)

 فتاویٰ دارالعلوم وقف دیوبند ج5 ص333

نماز / جمعہ و عیدین

الجواب وباللہ التوفیق: عورتوں کے سامنے آنے جانے سے نماز میں کوئی خلل نہیں ہوتا، نماز فاسد نہیں ہوتی؛ لیکن خشوع باقی نہیں رہتا اس لیے ایسی جگہ نماز پڑھے جہاں کسی کا گزر نہ ہو۔(۱)

(۱) والدلیل علی أن مرور المرأۃ لا یقطع الصلاۃ ما روي أن النبي کان یصلي في بیت أم مسلمۃ فأراد عمر بن أبي سلمۃ أن یمر بین یدیہ فأشار فوقف ثم أراد زینب أن تمر بین یدیہ فأشار علیہا فلم تقف فلما فرغ من صلاتہ، قال ہن أغلب صاحبات یوسف یغلبن الکرام ویغلبھن اللئام۔ (السرخسي، المبسوط: ج ۱، ص: ۳۵۰)
وتکرہ بحضرۃ کل ما یشغل البال کزینۃ وبحضرۃ ما یخل بالخشوع کلہو ولعب۔ (أحمد بن محمد، حاشیۃ الطحطاوي علی مراقي الفلاح، ’’کتاب الصلاۃ، باب الإمامۃ، فصل في المکروہات‘‘: ج ۱، ص: ۳۶۰)

 

فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج5 ص449

نماز / جمعہ و عیدین

الجواب وباللّٰہ التوفیق:ترک ضم سورت سے ترک واجب ہونے کی بنا پر سجدہ سہو لازم ہوگا بعد والی رکعت میں اس کی تلاوت کرنے سے سجدۂ سہو ساقط نہیں ہوگا؛ بلکہ سجدہ سہو بہر حال کرنا پڑے گا۔ (۳)

والقراء ۃ واجبۃ في جمیع رکعات النفل وفي جمیع رکعات الوتر۔ (أیضًا: ص: ۱۴۸، مکتبہ: دار الکتاب دیوبند)
وہذا الضم واجب في الأولیین من الفرض وفي جمیع رکعات النفل والوتر۔ (ابن نجیم، البحر الرائق، ’’کتاب الصلاۃ: باب صفۃ الصلاۃ‘‘: ج ۱، ص: ۵۱۶، مکتبہ: زکریا دیوبند)

فتاویٰ دارالعلوم وقف دیوبند ج4 ص362

 

نماز / جمعہ و عیدین

الجواب وباللہ التوفیق: واضح رہے کہ حنفی مسلک میں مقتدی امام کے پیچھے قرأت نہیں کرتا ہے، اس لیے کہ امام کا قرأت کرنا ہی مقتدی کے لیے کافی ہے، جیسا کہ ابن ماجہ شریف میں ایک حدیث ہے:
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے کہ: جو شخص امام کے پیچھے نماز پڑھ رہا ہو تو امام کا قرأت کرنا مقتدی کا قرأت کرنا ہے۔
’’من کان لہ إمام فقراء ۃ الإمام لہ قراء ۃ‘‘(۱)
 مذکورہ بالا حدیث سے معلوم ہوتا ہے کہ امام کی اقتداء میں جو مقتدی ہیں وہ قرأت نہیں کرے گا اور لاحق بھی تقدیراً امام کے پیچھے ہی سمجھا جاتا ہے اور وہ امام کی اقتدا کر رہا ہوتا ہے، اس لیے وہ لاحق بھی قرأت نہیں کرے گا؛ بلکہ سکوت اختیار کئے رہے گا۔
نیز لاحق کی نماز کا شرعی حکم کے بارے میں فقہاء نے لکھا ہے کہ: اگر جماعت کی نماز باقی ہو تو لاحق اس جماعت میں شریک ہو جا ئے ورنہ باقی چھوٹی ہوئی نماز تنہا پڑھ لے۔
لاحق اپنی چھوٹی ہوئی رکعتوں میں بھی مقتدی سمجھا جائے گا یعنی جیسے مقتدی قرأت نہیں کرتا ویسے ہی لاحق بھی قرأت نہ کرے گا، بلکہ سکوت کیے ہوئے کھڑا رہے گا۔ اور جیسے مقتدی کو اگر سہو ہو جائے تو سجدہ سہو کی ضرورت نہیں ہوتی ویسے ہی لاحق کو بھی ضرورت نہیں، جیسا کہ تبیین الحقائق میں ہے:
’’فصار اللاحق فیما یقضي کأنہ خلف الإمام تقدیراً۔  ولہذا لا یقرأ و لایلزمہ السجود بسہوہ الخ‘‘(۱)

(۱) أخرجہ ابن ماجہ، في سننہ، ’’کتاب: إقامۃ الصلاۃ والسنۃ فیہا، باب إذا قرأ الإمام فأنصتوا‘‘: ص: ۶۱، رقم: ۸۵۰۔
(۱) فخر الدین عثمان بن علي، تبیین الحقائق’’کتاب الصلاۃ‘‘: ج ۱، ص: ۳۵۳(زکریا دیوبند)۔

 

فتاویٰ دارالعلوم وقف دیوبند ج6 ص62

 

نماز / جمعہ و عیدین

الجواب وباللّٰہ التوفیق: جب حاکم نے منع کر رکھا ہے کہ ورکشاپ میں کوئی نماز نہ پڑھے؛ بلکہ رخصت لے کر باہر جا کر نماز پڑھے تو باہر ہی جاکر نماز پڑھنی چاہئے؛ کیوں کہ ورکشاپ ان کی مملوک ہے تو ممانعت کے بعد اس میں نماز پڑھنا ایسا ہے جیسا کہ زمین مغصوبہ میں نماز پڑھنا اور وہ مکروہ ہے؛ لہٰذا کیوں اپنی نماز کو مکروہ کیا جائے پھر شکایت ہوجانے پر اندیشہ سزا علاوہ ازیں ہے۔(۱)

(۱) الصلاۃ في أرض معضوبۃ جائزۃ، ولکن یعاقب بظلمہ، فما کان بینہ وبین اللّٰہ تعالیٰ یثاب، وما کان بینہ وبین العباد یعاقب۔ (جماعۃ من علماء الہند، الفتاویٰ الہندیۃ، ’’کتاب الصلاۃ: الباب السابع، فیما یفسد الصلاۃ ومایکرہ فیہا، الفصل الثاني‘‘: ج۱، ص: ۱۶۸، زکریا دیوبند)
وتکرہ في أرض الغیر بلا رضاہ۔ (أحمد بن محمد،  حاشیۃ الطحطاوي علی مراقي الفلاح، ’’کتاب الصلاۃ: فصل في المکروہات‘‘: ص: ۳۵۸، شیخ الہند دیوبند)

 

فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج6 ص187

نماز / جمعہ و عیدین

الجواب وباللّٰہ التوفیق: آںحضور صلی اللہ علیہ وسلم نے چوں کہ اکثر تہجد میں آٹھ رکعت پڑھی ہیں،اور تین رکعت وتر پڑھی ہیں؛ اس لیے فقہائے احناف نے آٹھ رکعت پر مواظبت کو مستحب قرار دیا ہے اور گنجائش نہ ہو، تو چار رکعت بھی کافی ہیں اس سے تہجد کا ثواب مل جائے گا۔(۱)

(۱) وصلاۃ اللیل وأقلہا … قال ویصلی ما سہل علیہ ولو رکعتین، والسنۃ فیہا ثمان رکعات بأربع تسلیمات۔ (الحصکفي، الدرالمختار مع رد المحتار، ’’کتاب الصلاۃ: باب الوتر والنوافل، مطلب في صلاۃ اللیل‘‘: ج ۲، ص:۶۸، ۶۶۷،زکریا دیوبند)
فینبغي القول بأن أقل التہجد رکعتان، و أوسطہ أربع وأکثرہ ثمان۔ (ابن عابدین، رد المحتار ’’باب الوتر والنوافل‘‘: ج ۲، ص: ۴۶۸، زکریا دیوبند)

 

فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج6 ص406

نماز / جمعہ و عیدین

Ref. No. 1254 Alif

الجواب وباللہ التوفیق                                                                                           

بسم اللہ الرحمن الرحیم-: پنجوقتہ نمازیں فرض ہیں وہ بھی اس طرح لازم نہیں کہ عورتیں مسجدوں ہی میں جماعت سے اداکریں، اور عیدین واجب ہیں جو فرض سے کم درجہ ہیں تو اس کے لئے عید گاہ جانے کا حکم کیوں ہوگا۔ پھر اگر مسجدوں میں جماعت کی پابندی عورتوں پر نہ ہونے میں فتنہ و فساد کا خوف ہے تو عیدین میں تو یہ احتمال  و خطرہ اور زیادہ ہے۔ بہرحال عیدگاہ میں نماز عید کے لئے عورتوں کو نہیں جانا چاہئے۔ واللہ اعلم

 

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند

مساجد و مدارس

Ref. No. 38 / 1127

الجواب وباللہ التوفیق                                                                                                                                                        

بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔  مسجد شرعی نیچے سے اوپر تک مسجد ہوتی ہے، اس لئے نیچے کے حصہ کو مسجد کے علاوہ کسی اور کام میں دائمی طور پر استعمال کرنا درست نہیں ہے۔ اس کی مسجدیت ختم کرنے کا کسی کو حق نہیں ہے۔    واللہ اعلم بالصواب

 

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند

فقہ
خَرَجَ دَمٌ مِنْ الْقُرْحَةِ بِالْعَصْرِ وَلَوْلَاهُ مَا خَرَجَ نَقَضَ فِي الْمُخْتَارِ، كَذَا فِي الْوَجِيزِ لِلْكَرْدَرِيِّ وَهُوَ الْأَشْبَهُ، كَذَا فِي الْقُنْيَةِ. وَهُوَ الْأَوْجُهُ، كَذَا فِي شَرْحِ الْمُنْيَةِ لِلْحَلَبِيِّ. وَإِنْ قُشِرَتْ نُقْطَةٌ وَسَالَ مِنْهَا مَاءٌ أَوْ صَدِيدٌ أَوْ غَيْرُهُ إنْ سَالَ عَنْ رَأْسِ الْجُرْحِ نَقَضَ وَإِنْ لَمْ يَسِلْ لَا يَنْقُضُ هَذَا إذَا قَشَرَهَا فَخَرَجَ بِنَفْسِهِ أَمَّا إذَا عَصَرَهَا فَخَرَجَ بِعَصْرِهِ لَا يَنْقُضُ؛ لِأَنَّهُ مُخْرَجٌ وَلَيْسَ بِخَارِجٍ، كَذَا فِي الْهِدَايَا ان دو مسائل میں جو بظاہر تعارض ہے اسکا حل مطلوب ہے