عائلی مسائل
سوال واضح کرکے لکھیں

Usury / Insurance

Ref. No. 2239/44-2383

In the name of Allah the most Gracious the most Merciful

The answer to your question is as follows:

Whether the rate of interest is low or high, whether the interest is given by a private institution or by the government, the interest will be unlawful and haram in Islamic Shariah.

And Allah knows best

Darul Ifta

Darul Uloom Waqf Deoband

 

اسلامی عقائد

الجواب وباللّٰہ التوفیق:اگرگھر کے لوگ جمع ہوں اور ساتھ میں کوئی فرد یا چند افرادبھی جمع ہوکر تلاوت وغیر ہ کریں اور یہ لوگ میت کے لیے ایصال ثواب کریں اور کسی کی طرح اجرت وغیرہ کی کوئی بات نہ ہو تو درست ہے اور جو کھانا ان کے لیے تیار کیا گیا ہے اس کا کھانادرست ہے (۱) اور مالدار لوگ اجرت کے طور پر پڑھنے کے لیے نہیں آئے ہیںاور نہ ہی وہ کھانا صدقہ و خیرات کا ہے؛ بلکہ لوگ جمع ہیں تو کھانا بھی تیار کر لیا گیا ہے۔ ہاں اگر اکثر غرباء ہوتے تو شبہ ہوتا کہ کھانا صدقہ کے طور پر ہے یا پڑھنے والے اجرت کے طور پر پڑھ رہے ہیں۔ تاہم اس میں ثواب کی نیت معلوم نہیں ہوتی؛ بلکہ دکھاوا معلوم ہوتا ہے اس سے پرہیز ہی کرنا بہتر ہے۔ (۲) ہاں اگر بطور اجرت ہے، جیسا کہ عام طور پر ایصال ثواب کے لیے قرآن خوانی کے موقع پر ہوتا ہے تو مالداروں کے لیے کھانا ناجائز ہے۔

(۱) یکرہ اتخاذ الطعام في الیوم الأول والثالث وبعد الأسبوع ونقل الطعام إلی المقبرۃ في المواسم واتخاذ الدعوۃ بقراء ۃ القرآن وجمع الصلحاء والقراء للختم أو لقراء ۃ سورۃ الأنعام أو الإخلاص۔ قال البرہان الحلبي: ولا یخلو عن نظر لأنہ لا دلیل علی الکراہۃ إلا حدیث جریر المتقدم۔ (الطحطاوي علی مراقي الفلاح، ’’کتاب الصلوٰۃ: فصل في حملہا ودفنہا: ص: ۶۱۷)
(۲) والحاصل أن اتخاذ الطعام عند قرائۃ القرآن لأجل الأکل یکرہ۔ وفیہا من کتاب الاستحسان: وإن اتخذ طعاما للفقراء کان حسنا۔ وأطال في ذلک في المعراج۔ وقال: وہذہ الأفعال کلہا للسمعۃ والریاء فیحترز عنہا، لأنہم لا یریدون بہا وجہ اللّٰہ تعالی۔ (ابن عابدین، الدر المختار مع رد المحتار، ’’کتاب الصلاۃ: باب صلاۃ الجنازۃ، مطلب في کراہۃ الضیافۃ من أہل المیت‘‘: ج ۳، ص: ۱۴۸)
قال تاج الشریعۃ في شرح الہدایۃ: إن القرآن بالأجرۃ لا یستحق الثواب لا للمیت ولا للقارء۔ وقال العیني: في شرح الہدایۃ: ویمنع القارئ للدنیا، والآخذ والمعطی آثمان۔ فالحاصل أن ما شاع في زماننا من قراء ۃ الأجزاء بالأجرۃ لا یجوز؛ لأن فیہ الأمر بالقراء ۃ وإعطاء الثواب للآمر والقراء ۃ لأجل المال؛ فإذا لم یکن للقارئ ثواب لعدم النیۃ الصحیحۃ فأین یصل الثواب إلی المستأجر ولولا الأجرۃ ما قرأ أحد لأحد في ہذا الزمان بل جعلوا القرآن العظیم مکسبا ووسیلۃ إلی جمع الدنیا ’’إنا للّٰہ وإنا إلیہ راجعون‘‘۔ (ابن عابدین، الدر المختار مع رد المحتار، ’’کتاب الإجارۃ: باب الإجارۃ الفاسدۃ، مطلب: تحریر مہم في عدم جواز الاستئجار علی التلاوۃ، مطلب في الاستئجار علی المعاصي‘‘: ج ۹، ص: ۷۷)۔

فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج1ص415

زیب و زینت و حجاب

Ref. No. 2527/45-3996

بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ہماری معلومات کے مطابق 'بوٹوکس' ایک طرح کا  پروٹین والا انجکشن ہے؛ جس کو جلد کے اوپری حصہ میں لگایا جاتاہے تاکہ پٹھوں کو محدود وقت کے لیے حرکت کرنے سے روکا جا سکے اور چہرے کی سکڑی ہوئی جلد کو چکنا اور برابر کرکے جھریوں کو مٹایاجاسکے، یعنی  یہ انجکشن چہرے پر جھریوں کو ہموار کرنے کے لیے استعمال ہوتا ہے۔ یہ بوٹوکس انجکشن یا اس مقصد کے لئے استعمال ہونے والے دیگر انجکشن   کا کام یہ ہوتاہے کہ وہ نیوروٹرانسمیٹر ایسٹیلکولین کے اخراج کو روک دیتے ہیں  اور بعض نسوں میں روغن کی آمد و رفت کو روک دیتے ہیں ۔

 ظاہر ہے یہ طریقہ علاج غیرفطری ہے، اس میں بہت سارے مضرات  کا اندیشہ ہے ،۔ جو بیکٹریا ہمارے اجسام اور جلد کی حفاظت کے لئے ہیں ان کو مارنا یا ان کی فعالیت کو ختم کردیناکئی بیماریوں (جیسے بوٹولزم، فلیکسڈ فالج)  کا پیش خیمہ ہوسکتا ہے۔

انسان کو اللہ تعالی نے جس خلقت پر بنایا ہے اسی کو باقی رہنے میں اس کی بھلائی ہے، اس میں چھیڑچھاڑ سے ناقابل برداشت امراض کا سامنا کرنا پڑسکتاہے۔ اس لئے خوبصورتی کے لئے مذکورہ  طریقہ علاج اختیار کرنا درست نہیں ہے۔

واللہ اعلم بالصواب

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند

 

حدیث و سنت

الجواب وباللّٰہ التوفیق:حضرت حلیمہ سعدیہ ایام رضاعت میں یعنی حضور صلی اللہ علیہ وسلم کو دودھ پلانے کے زمانے میں مسلمان نہیں تھیں مگر موحد ہوسکتی ہیں، اگرچہ یہ بات کہیں نظر سے نہیں گزری اور غالباً وہ غزوۂ حنین کے بعد اسلام لائی ہیں۔(۱)

(۱) عن برۃ بنت أبي تجراۃ قالت: أول من أرضع رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم ثویبۃ بلبن ابن لہا یقال لہ: مسروح أیاماً قبل أن تقدم حلیمۃ وکانت قد أرضعت قبلہ حمزۃ بن عبد المطلب وأرضعت بعدہ أبا سلمۃ بن عبد الأسد المخزومي۔
عن ابن عباس رضي اللّٰہ عنہ، قال: کانت ثویبۃ مولاۃ أبي لہب قد أرضعت رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم أیاماً قبل أن تقدم حلمیۃ وأرضعت أبا سلمۃ بن عبد الأسد معہ فکان آخاہ من الرضاعۃ۔ (أبو عبد اللّٰہ محمد بن سعد، الطبقات الکبری: ج ۱، ص: ۱۰۸)
وصحح ابن حبان وغیرہ حدیث إسلام حلیمۃ وانتہا الشیماء۔ (أبو مدین: بن أحمد: ج ۱، ص: ۸۵)


فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج2ص236

طہارت / وضو و غسل

الجواب وباللّٰہ التوفیق: جو رطوبت داد یا زخم سے نکلتی ہے اگر اپنی جگہ سے بہہ پڑے، تو ناپاک اور نجس مغلظ ہے اور نجس مغلظ ایک درہم تک معاف ہے؛ اس لئے اگر وہ داغ ودھبہ پھیلاؤ میں ایک درہم سے زائد نہ ہو، تو ایسے کپڑے میں نماز درست ہو جائے گی اور اگر ایک درہم سے زائد ہو، تو اس کپڑے میں نماز درست نہیں ہوگی؛ بلکہ کپڑے کو دھونا ضروری ہے۔ اور اگر پانی یا  پیپ زخم کے منہ پر ہو اور کپڑا اس پر بار بار لگنے کی وجہ سے وہ پانی کپڑے پر پھیل گیا، تو مبتلا بہ کو اگر معلوم ہو کہ زخم پر اگر کپڑا نہ لگتا تو بہہ پڑتا، تو اس صورت میں کپڑا ناپاک ہے اس کا دھونا واجب ہے اور اگر ایسا معلوم ہو کہ کپڑا نہ لگتا، تو نہ بہتا، اس صورت میں کپڑا ناپاک نہیں ہے نہ اس کا دھونا واجب ہے، اگر ایسے کپڑے میں نماز پڑھ لی تو درست ہوگی۔
’’الدم والقیح والصدید وماء الجرح والنقطۃ وماء البثرۃ والثدي والعین والأذن لعلۃ سواء علی الأصح‘‘(۱)
’’وکذا کل ما خرج منہ موجبا لوضوء أو غسل مغلظ‘‘(۲)
’’کل ما یخرج من بدن الإنسان مما یوجب خروجہ الوضوء أو الغسل فہو مغلظ … فإذا أصاب الثوب أکثر من قدر الدرہم یمنع جواز الصلوٰۃ‘‘(۳)
’’إن مسح الدم عن رأس الجرح بقطنہ ثم خرج فمسح ثم وثم … ینظر إن کان بحال لو ترک لسال ینتقض وإلا لا‘‘(۴)
(۱) ابن عابدین، رد المحتار مع الدر المختار، ’’کتاب الطہارۃ: مطلب نوم الأنبیاء غیر ناقض‘‘: ج ۱، ص: ۲۸۰؛ وجماعۃ من علماء الہند، الفتاویٰ الہندیۃ، ’’کتاب الطھارۃ ‘‘: ج ۱، ص: ۶۱۔
(۲) ابن عابدین، رد المحتار مع الدر المختار، ’’کتاب الطہارۃ: باب الأنجاس، مطلب في طہارۃ بولہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم‘‘: ج ۱، ص: ۵۲۲؍ ۵۲۳۔
(۳) جماعۃ من علماء الہند، الفتاویٰ الہندیۃ، ’’کتاب الطہارۃ: الباب السابع: في النجاسۃ وأحکامہا، الفصل الثاني في الأعیان النجسۃ، النوع المغلظۃ‘‘: ج ۱، ص: ۱۰۰۔
(۴) إبراہیم الحلبي، غنیۃ المستملی في شرح منیۃ المصلی: ج ۱، ص: ۱۳۲۔

 

فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج3ص41

طہارت / وضو و غسل

الجواب وباللّٰہ التوفیق: جب تک اس وضو سے کم از کم دو رکعت نہ پڑھ لی جائے یا کوئی دوسری عبادت جس میںوضو شرط ہے، ادا نہ کرلی جائے یا کافی وقت نہ گزر جائے دوبارہ وضو کرنا مکروہ ہے۔
أن الوضوء عبادۃ غیر مقصودۃ لذاتھا، فإذا لم یؤدّ بہ عمل مما ھو المقصود من شرعیتہ کالصلاۃ و سجدۃ التلاوۃ و مس المصحف، ینبغي أن لا یشرع تکرارہ قربۃ لکونہ غیر مقصود لذاتہ، فیکون إسرافاً محضاً۔ (۲) و مقتضی ھذا کراھتہ و إن تبدل المجلس مالم یودّ بہ صلاۃ أو نحو۔(۱)
(۲) ابن عابدین، رد المحتار، ’’کتاب الطہارۃ، مطلب في الوضوء علی الوضوء،‘‘ ج۱، ص:ـ۲۴۱
(۱) ابن عابدین، رد المحتار، ’’کتاب الطہارۃ، مطلب في الوضوء علی الوضوء،‘‘ ج۱، ص:ـ۲۴۱

 

 فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج3 ص156

طہارت / وضو و غسل

الجواب وباللہ التوفیق:اگر مہلک مرض ایسا ہو کہ پانی سے غسل کرنے سے بھی مرض بڑھتا ہو، یا گرم پانی میسر نہیں آ سکتا ہو، تو تیمم کر کے نماز پڑھنا جائز ہے؛ لیکن صرف نزلہ کے بڑھنے کے خوف سے غسل نہ کرنا اور تیمم کرنا جائز نہیں ہے۔
’’من عجز عن استعمال الماء المطلق الکافي لطہارتہ لصلاۃ تفوت إلی خلف لبعدہ أو لمرض یشتد أو یمتد بغلبۃ ظن أو قول حاذق مسلم‘‘(۳)
 ’’ولو کان یجد الماء إلا أنہ مریض فخاف إن استعمل الماء اشتد مرضہ یتیمم‘‘ (۴)
’’لا یجوز التیمم في المصر إلا لخوف فوت جنازۃ أو صلاۃ عید أو للجنب الخائف من البرد‘‘ (۱)

(۳)ابن عابدین، الدر المختار مع رد المحتار، ’’کتاب الطہارۃ، باب التیمم‘‘ج ۱، ص:۳۹۵تا۳۹۷
(۴)بدرالدین العیني، البنایۃ شرح الہدایۃ، ’’کتاب الطہارۃ، باب التیمم: ألعجز من استعمال الماء لمرض‘‘ ج۱، ص: ۵۱۶
(۱) ابن نجیم، البحر الرائق، ’’باب التیمم‘‘ ج۱، ص:۲۴۴

 

فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج3 ص358

تجارت و ملازمت

Ref. No. 2730/45-4259

بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔  صورت مذکورہ میں مسلمان قصائی کا اجرت پر ایسا عمل کرنا اگرچہ جائز اور درست ہے تاہم اس سے پرہیز کرنا بہتر ہے، اور جو اجرت لی ہے وہ حلال ہے۔

واللہ اعلم بالصواب

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند

 

نماز / جمعہ و عیدین

الجواب و باللہ التوفیق: وہ جماعت میں شریک نہیں کہلائے گا اوراسے جماعت کا ثواب نہیں ملے گا۔(۲)

(۲) فلما قال: السلام جاء رجل واقتدی بہ قبل أن یقول علیکم لایصیر داخلا في صلاتہ۔ (ابن عابدین، رد المحتار علی الدر المختار، ’’کتاب الصلاۃ، باب صفۃ الصلاۃ، مطلب لاینبغي أن یعدل عن الدرایۃ إذا وافقتہا روایۃ‘‘: ج۲، ص: ۱۶۲)
 

فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج5 ص471