Frequently Asked Questions
متفرقات
Ref. No. 2405/44-3627
بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ والدین کی قبر پر جاکر سورہ فاتحہ پڑھنے اور ایصال ثواب کرنے سے امید ہے کہ وہ راضی ہوجائیں، لیکن اس طرح والدین کی قبر پر کھڑے ہوکر ان سے معافی مانگنا، یا ان سے مخاطب ہو کر دعا کے لئے کہنا درست نہیں ہے۔ جو کچھ دعا کرنی ہے، اللہ سے دعا کرے اور اللہ سے ہی مانگے۔
والتفسیر فی المسئلة أن التوسل بالمخلوق لہ تفاسیر ثلاثة: الأول: دعاوٴہ واستغاثتہ کدیدن المشرکین وہو حرام إجماعاً۔ الثانی: طلب الدعاء منہ ولم یثبت فی المیت بدلیل فیختص ہٰذا المعنی بالحی۔ والثالث: دعاء اللّٰہ ببرکة ہٰذا المخلوق المقبول، وہٰذا قد جوّزہ الجمہور۔ (بوادر النوادر ۲/۷۰۶-۷۰۸،زمزم دیوبند)
قال العلامة الآلوسي في روح المعاني (۶:۱۲۸، ۱۲۹، سورة المائدة، الآیة: ۳۵):إن الناس قد أکثروا من دعاء غیر اللہ تعالی من الأولیاء الأحیاء منھم والأموات وغیرھم ، مثل: یا سیدي فلان أغثني،ولیس ذلک من التوسل المباح في شییٴ، واللائق بحال الموٴمن عدم التفوہ بذلک وأن لا یحوم حماہ،وقد عدہ أناس من العلماء شرکا، وإن لایکنہ فھو قریب منہ ولا أری أحداً ممن یقول ذلک إلا وھو یعتقد أن المدعو الحي الغائب أو المیت المغیب یعلم الغیب أو یسمع النداء ویقدر بالذات أو بالغیر علی جلب الخیر ودفع الأذی وإلا لما دعاہ ولا فتح فاہ وفي ذلک بلاء من ربکم عظیم، فالحزم التجنب عن ذلک وعدم الطلب إلا من اللہ تعالی القوي الغني الفعال لما یرید الخ ۲،۳)
فتاوی محمودیہ، باب ما یتعلق باحوال القبور والارواح، ج: 1، صفحہ: 611 و612، ط: مکتبہ الفاروق کراچی)
واللہ اعلم بالصواب
دارالافتاء
دارالعلوم وقف دیوبند
متفرقات
Ref. No. 2522/45-3923
بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ اگر آپ شرعی معذور نہیں ہیں اور نماز کی حالت میں پیشاب کے قطرے یا مذی کا خروج ہو جاءے تو آپ کا وضو ٹوٹ گیا نماز سے نکل کر ناپاک جگہ کو دھونا اور دوبارہ وضو کر کے نماز میں شریک ہونا ضروری ہے، جہاں تک ہو سکے پیشاب کے قطرے سے بچنے کی پوری کوشش کریں اور تمام تر ضروری تدبیر اختیار کرنے کے بعد بھی اگر چھینٹیں کپڑے پر لگ جائیں تو ان شاء اللہ مؤاخذہ نہیں ہوگا، ہاں طہارت کے شرعی احکام لاگو ہوں گے۔
واللہ اعلم بالصواب
دارالافتاء
دارالعلوم وقف دیوبند
بدعات و منکرات
الجواب وباللّٰہ التوفیق:اولیٰ اور بہتر یہ ہے کہ سنن و نوافل گھر پر پڑھی جائے (۱) لیکن نماز سے غفلت کے اس دور میں سنن ونوافل مسجد میں پڑھی جائیں؛ اس لئے کہ گھر میں جاکر آدمی دوسرے کاموں میں لگ جاتا ہے اور عموماً نوافل وسنن چھوٹ جاتی ہیں؛ لہٰذا مسجد میں سنن ونوافل سے روکنے کی اجازت نہیں (۲) نیز ذکر اللہ کے لئے کسی متعین کتاب کو مخصوص کرنے کی کوئی وجہ نہیں ہے، کسی مقررہ کتاب کو پڑھنے کے لئے اس قدر اہتمام کہ سنن ونوافل سے بھی لوگوں کو روک دیا جائے، اس کی بھی اجازت نہیں ہے۔
(۱) عن ابن عمر رضي اللّٰہ عنہ، قال: قال رسول اللّٰہ علیہ وسلم: إجعلوا في بیوتکم من صلاتکم ولا تتخذوہا قبورا، قولہ: من صلاتکم قال القرطبي: من للتبعیض والمراد النوافل بدلیل ما رواہ مسلم من حدیث جابر مرفوعاً إذا قضی أحدکم الصلاۃ في مسجدہ فیجعل لبیتہ نصیبا من صلاتۃ۔ (ابن حجر العسقلاني، فتح الباري، ’’کتاب الصلاۃ: باب کراہیۃ الصلاۃ في المقابر‘‘: ج ۱، ص: ۶۸۵، رقم: ۴۳۲)
والأفضل في النفل غیر التراویح المنزل إلا لخوف شغل عنہا والأصح أفضلیتہ ما کان أخشع وأخلص۔ (ابن عابدین، الدر المختار مع رد المحتار، ’’کتاب الصلاۃ، باب الوتر والنوافل‘‘: ج ۲، ص: ۴۳۲)
(۲) حضرت تھانوی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں: ’’في نفسہ أفضل‘‘ یہ ہے کہ سنن مؤکدہ گھر پر پڑھی جائیں، لیکن ایک امر عارض کی وجہ سے اب افضل یہ ہے کہ سنن مؤکدہ مسجد میں ہی پڑھی جائیں۔ (ملفوظات حکیم الامت: ج ۸، ص: ۲۲۷، رقم الملفوظ: ۲۵)
فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج2ص350
طہارت / وضو و غسل
الجواب وباللّٰہ التوفیق: باتھ روم میں جمع شدہ ناپاک پانی سے جوتا ناپاک ہو گیا اور ناپاکی جوتے کے اندر سرایت کر گئی، اس جوتے کو تین مرتبہ پانی سے دھو دیا جائے تو جوتا پاک ہو جائے گا، دھوپ میں خشک کرنے سے پاکی حاصل نہ ہوگی۔
’’وطہارۃ المرئي بزوال عینہ ویعفی أثر شق زوالہ وغیر المرئي بالغسل ثلاثا والعصر کل مرۃ إن أمکن عصرہ‘‘(۱)
’’إذا تشربت النجاسۃ … یطہر بالغسل ثلاثاً‘‘(۲)
(۱) عبد الرحمن بن محمد، مجمع الأنہر، ’’کتاب الطہارۃ: باب الأنجاس‘‘: ج ۱، ص: ۹۱۔
(۲) جماعۃ من علماء الہند، الفتاویٰ الہندیۃ، ’’کتاب الطہارۃ: الفصل الأول: في تطہیر الأنجاس‘‘: ج ۱، ص: ۴۲۔
فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج3ص38
طہارت / وضو و غسل
الجواب وباللّٰہ التوفیق:مسجد کی دیوار پر تیمم کرنا خلافِ اولیٰ ہے؛ کیونکہ مسجد وقف ہے، اور مال وقف کو غیر مصرف میں صرف کرنا نا پسندیدہ ہے، تاہم تیمم صحیح ہو جائے گا، اور اس سے جو نماز ادا کی ہے وہ بھی صحیح ہو جائے گی۔ (۲)
(۲)منھا منع أخذ شئ من أجزائہ۔ قالو في ترابہ۔۔۔ ان کان مجتمعاً جاز الأخذ منہ و مسح الرجل منہ و إلا لا۔ انتھی۔ (ابن نجیم، الأشباہ والنظائر، ’’الفن الثالث: القول في أحکام المساجد‘‘ج۴، ص:۵۴) ؛ولو مشی في الطین کرہ أن یمسحہ بحائط المسجد أو باسطوانتہ، و إن مسح بحصیر المسجد لا بأس بہ، و الأولی لہ أن لا یفعل۔(جماعۃ من علماء الہند، الفتاویٰ الہندیہ، ’’کتاب الصلوٰۃ، الباب السابع : فیما یفسد الصلاۃ، وما یکرہ فیھا، فصل کرہ غلق باب المسجد‘‘ ج۱،ص:۱۶۹) ؛ و یکرہ مسح الرجل من طین الروغۃ بأسطوانۃ المسجد أو بحائطہ۔ (جماعۃ من علماء الہند، الفتاویٰ الہندیہ،’’کتاب الطہارۃ، فصل في المسجد‘‘ج۱، ص:۴۳)
فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج3 ص355
نماز / جمعہ و عیدین
الجواب وباللہ التوفیق: بوقت جماعت اس طرح مسجد کے اندرونی کواڑوں کو بند کرلینا کہ آواز تکبیرات و قرأت امام کی باہر مقتدیوں کو نہ سنائی دے سکے درست اور جائز نہیں ہے کہ اس سے باہر کے مقتدی پریشان ہوں گے اور ان کی نماز میں خلل آسکتا ہے۔ لیکن اگر کواڑ بند ہوکر بھی تکبیرات انتقالیہ کی آواز باہر آتی ہے اور مقتدیوں کو اپنی نماز میں کوئی دشواری نہیں ہوتی تو ان مقتدیوں کی نماز صحیح ہوجائے گی۔(۱)
(۱) وأما إذا کان الحائط صغیراً یمنع ولکن لایخفیٰ حال الإمام فمنہم من یصح الاقتداء وہو الصحیح۔۔۔ وإن کان في الحائط باب سروداً قیل لایصح لأنہ یمنعہ من الوصول وقیل یصح لأن وضع الباب للوصول لیکون المسدود کالمفتوح۔ (جماعۃ من علماء الہند، الفتاویٰ الہندیۃ، ’’کتاب الصلاۃ، الباب الخامس في الإمامۃ، الفصل الرابع في بیان مایمنع صحۃ الاقتداء ومالایمنع‘‘: ج۱، ص: ۱۴۶، زکریا دیوبند)
والحائل لایمنع الاقتداء إن لم یشبہ حال إمامہ بسماع أو رؤیۃ ولو من باب مشبک یمنع الوصول في الأصح ولم یختلف المکان حقیقۃ کمسجد وبیت في الأصح۔ (ابن عابدین، رد المحتار، ’’کتاب الصلاۃ: باب الإمامۃ، مطلب الکافي للحاکم جمع کلام محمد في کتبہ‘‘: ج۲، ص: ۳۳۳)
فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج5 ص466
نماز / جمعہ و عیدین
الجواب وباللّٰہ التوفیق:واضح رہے کہ مذکورہ مسئلے میں قدرے تفصیل ہے: اگر اوقاتِ مکروہہ ہی میں سجدہ تلاوت واجب ہو جائے یا جنازہ تیار ہو جائے تو اس صورت میں مکروہ اوقات میں سجدہ تلاوت کرنا یا نماز جنازہ پڑھنا بلا کراہت جائز ہے؛ لیکن نماز جنازہ پہلے سے تیار ہو یا سجدہ تلاوت پہلے سے واجب ہو چکا ہو تو ایسی صورت میں اوقاتِ مکروہہ میں سجدہ تلاوت کرنا یا نماز جنازہ کا پڑھنا مکروہ تحریمی ہے۔
’’عن علي رضي اللّٰہ عنہ: أن النبي صلی اللّٰہ علیہ وسلم قال لہ: یا علي! ثلاث لاتؤخرہا: الصلاۃ إذا آنت، والجنازۃ إذا حضرت، والأیم إذا وجدت لہا کفوًا ‘‘(۱)
فتاویٰ ہندیہ میں ہے:
’’إذا وجبت صلاۃ الجنازۃ وسجدۃ التلاوۃ في وقت مباح وأخرتا إلی ہذا الوقت فإنہ لا یجوز قطعا أما لو وجبتا في ہذا الوقت وأدیتا فیہ جَاز‘‘(۱)
علامہ حصکفی رحمۃ اللہ علیہ نے لکھا ہے:
’’(وکرہ) تحریماً … (صلاۃ) مطلقاً (ولو) قضائً أو واجبۃً أو نفلًا أو (علی جنازۃ وسجدۃ تلاوۃ وسہو) (مع شروق) (واستواء) … (وغروب، إلا عصر یومہ) فلایکرہ فعلہ لأدائہ کما وجب‘‘(۲)
(۱) أخرجہ الترمذي، في سننہ، ’’أبواب الصلوۃ، باب ما جاء في الوقت الأول من الفضل‘‘: ج ۱، ص: ۴۳، رقم: ۱۷۱۔
(۱) جماعۃ من علماء الہند، الفتاویٰ الہندیۃ، ’’کتاب الصلاۃ: الباب الأول في المواقیت وما یتصل بہا، الفصل الثالث: في بیان الأوقات التي لا تجوز فیہا الصلاۃ‘‘: ج ۱، ص: ۱۰۸۔
(۲) ابن عابدین، ردالمحتار، ’’کتاب الصلاۃ: مطلب یشترط العلم بدخول الوقت‘‘: ج۲، ص: ۳۰-۳۳۔
فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج4 ص112
احکام سفر
Ref. No. 2780/45-4349
بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ اللہ کے راستہ میں نکلنے کا مصداق اصل جہاد فی سبیل اللہ ہے، لیکن حقوق اللہ وحقوق العباد کی ادائیگی کی خاطر جد وجہد کرنا ہر طرح کے وجوہ خیر کو اختیار کرنا، نیز گناہوں سے بچنے کی صورتیں اختیار کرنا بھی اس کا مصداق ہے۔ سوال میں مذکور تمام صورتیں اگر خالص اللہ تعالیٰ کی رضا کے لئے ہیں تو یہ بھی اللہ کے راستہ میں نکلنے کا مصداق ہیں۔
واللہ اعلم بالصواب
دارالافتاء
دارالعلوم وقف دیوبند
نماز / جمعہ و عیدین
الجواب وباللّٰہ التوفیق: اس صورت میں جو سجدہ واجب ہوا تھا وہ تلاوت کا سجدہ تھا(۳) نماز کا نہیں تھا؛ پس اگر سجدہ تلاوت نماز میں واجب ہوا تو نماز میں اس کو ادا کرنا چاہئے لیکن اگر بھول جائے تو بھی سجدہ سہو واجب نہیں اس لیے سجدہ سہو تو نماز کے کسی واجب کے سہواً ترک سے واجب ہوتا ہے اور یہ واجب نماز کا واجب نہیں تلاوت کا ہے پس اگر چھوٹ جائے تو بھی نماز درست ہوگئی۔(۱)
(۳) والسجدۃ واجبۃ في ہذہ المواضع علی التالی والسامع سواء قصد سماع القرآن أولم یقصد۔ (المرغیناني، ہدایۃ، ’’باب في سجدۃ التلاوۃ‘‘: ج۱، ص: ۱۶۳)
(۱) وفي التجنیس: وہل یکرہ تاخیرہا عن وقت القراء ۃ ذکر في بعض المواضع أنہ إذا قرأہا في الصلاۃ فتاخیرہا مکروہ، وإن قرأہا خارج الصلاۃ لایکرہ تاخیرہا۔ وذکر الطحاوي: أن تاخیرہا مکروہ مطلقاً وہو الأصح اھـ۔ وہي کراہۃ تنزیہیۃ في غیر الصلاتیہ لأنہا لو کانت تحریمیۃ لکان وجوبہا علی الفور ولیس کذلک۔ (ابن نجیم، البحرالرائق، ’’باب سجود التلاوۃ‘‘: ج۲، ص: ۲۱۱)
فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج6 ص83
نماز / جمعہ و عیدین
الجواب وباللہ التوفیق: اس کا کوئی ثبوت نہیں ہے کتب حدیث میں اس کی کوئی اصل نہیں ملتی ہے ؛اس لئے اس پر اعتماد نہ کرنا چاہئے۔ (۱)
(۱) عن عائشۃ قالت: قال رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم: من أحدث في أمرنا ہذا ما لیس منہ فہو رد۔ (أخرجہ البخاري، في صحیحہ، ’’کتاب الصلح، باب إذا اصطلحوا علی صلح جود‘‘: ج ۱، ص:۳۷۱ رقم: ۲۶۹۷)
فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج6 ص305