خوردونوش

Ref. No. 880 Alif

الجواب وباللہ التوفیق

بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ خنزیر  کے کسی بھی جز سے بالواسطہ اور بلاواسطہ ہر طرح انتفاع حرام ہے۔  ولاشک فی حرمتھا لمافیھا من ضیاع المال والاشتغال  بمالایفید۔ شامی ج1 ص 135۔  واللہ اعلم بالصواب

 

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند

روزہ و رمضان

Ref. No. 1283

الجواب وباللہ التوفیق۔ اگر صراحةً یا عرفاً اجرت طے نہ ہو بلکہ تحفہ وہدیہ کے طور پر رقم یا کپڑے وغیرہ دیئے گئے ہوں تو ان کا استعمال درست ہے، ورنہ نہیں۔ کذا فی رسم المفتی۔ واللہ اعلم

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند

Family Matters

Ref. No. 38 / 1198

In the name of Allah the most Gracious the most Merciful
The answer to your question is as follows:

Celebrating birthday is the way of non-Muslims. It has no basis in the shariah and sunnah. So you have to abstain from it. You have to create awareness about this false and baseless act. Muslims must understand that we are obliged to follow only the way and sunnah of our beloved prophet Muhammad (saws). Sahaba didn’t celebrate Prohpet’s birthday and Tabieen didn’t celebrate Sahaba’s birthdays. So how dare we celebrate our birthdays?

May Allah guide you to the right path! And give you taufeeq to follow only the Sunnah of our Prophet Muhammad (saws).

And Allah knows best

Darul Ifta

Darul Uloom Waqf Deoband

اسلامی عقائد

Ref. No. 41/1007

الجواب وباللہ التوفیق 

بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ کرایہ کے مکان وغیرہ میں اصلاح و مرمت کی اصل ذمہ داری مالک مکان کی ہوتی ہے اس لیے کہ کرایہ دار نفع وصول کرتا ہے اور اس نفع کے عوض وہ اجرت دیتاہے اس لیے کرایہ کے سامان میں اگر کوئی خرابی ہوتی ہے اس کی ذمہ داری مالک کے اوپر ہوتی ہے۔تاہم اگر دونوں باہم مشورہ سے یہ طے کرلیں کہ کرایہ کے سامان میں اصلاح و مرمت کی ذمہ داری کرایہ دار پر ہوگی اور جن چیزوں کے اصلاح کی بات کی گئی ہے وہ متعین بھی ہے تواس طرح کی شرط لگانا درست ہے اور خراب ہونےکی صورت میں اصلاح کی ذمہ داری کرایہ دار پر ہوگی ۔تاہم مذکورہ مسئلہ میں جو خرابی ہوئی ہے اس کی ذمہ داری مالک پر ہوگی کرایہ دار پر نہیں ہوگی اس لیے کہ کرایہ دار پر اصلاح و مرمت کی ذمہ ڈالنے کا مطلب ہوتا ہے کہ اگر کرایہ دار کی کوتاہی اور غلطی سے سامان خراب ہوا تو اس کی اصلاح کی ذمہ داری کرایہ دار پر ہوگی جب کی یہاں پر جو سامان خراب ہوا ہے اس میں کرایہ دار کی کوئی غلطی نہیں ہے اس لیے ان چیزوں کی اصلاح کی ذمہ داری مالک مکان پر ہوگی۔"وإن تكارى داراكل شهر بعشرة على أن يعمرها ويعطي أجر حارسها ونوابها فهذا فاسد؛ لأن ما يعمر به الدار على رب الدار والثانيةكذلك عليه فهي الجباية بمنزلة الخ راج فهي مجهولة فقد شرط لنفسه شيئاً مجهولا مع العشرة. وضم المجهول إلى المعلوم يجعل الكل مجهولا "(السرخسي: المبسوط ( ١٥/١٤٩)فإن قلت: «نهى - صلى الله عليه وسلم - عن بيع وشرط» فيلزم أن يكون العرف قاضيا على الحديث.قلت: ليس بقاض عليه، بل على القياس؛ لأن الحديث معلوم بوقوع النزاع المخرج للعقد عن المقصود به وهو قطع المنازعة، والعرف ينفي النزاع فكان موافقا لمعنى الحديث، فلم يبق من الموانع إلا القياس. والعرف قاض عليه اهـ ملخصا. قلت: وتدل عبارة البزازية والخانية، وكذا مسألة القبقاب على اعتبار العرف الحادث، ومقتضى هذا أنه لو حدث عرف في شرط غير الشرط في النعل والثوب والقبقاب أن يكون معتبرا إذا لم يؤد إلى المنازعة،(فتاوی شامی ٥/٨٨)

 واللہ اعلم بالصواب

 

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند

فقہ

Ref. No. 990/41-146

الجواب وباللہ التوفیق 

بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ طلاق کے لئے لفظ طلاق یا اس کے ہم معنی الفاظ کو زبان سے ادا کرنا ضروری ہے۔ محض وسوسہ سے طلاق واقع نہیں ہوتی ہے۔ لفظ "جا" سے اگر طلاق کی نیت نہ ہو تو طلاق  واقع نہیں ہوتی، جبکہ یہاں پر "جا" کے بولنے کا بھی یقین نہیں ہے۔ اس لئے مذکورہ صورت میں کوئی طلاق واقع نہیں ہوئی۔

ورکنہ لفظ مخصوص ھو ماجعل دلالۃ علی معنی الطلاق من صریح او کنایۃ  فخرج الفسوخ الخ (ردالمحتار رکن الطلاق 3/230- نظام الفتاوی 2/144)

واللہ اعلم بالصواب

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند

احکام میت / وراثت و وصیت

Ref. No. 1197/42-488

الجواب وباللہ التوفیق 

بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔  اس سے مہر کی ادائیگی نہیں ہوگی، کیونکہ یہ جو کچھ مل رہا ہے وہ سرکار کی طرف سے بطور تبرع  اس کی بیوی کو مل رہا ہے جس کی مالک خود اس کی بیوی ہے، اس میں شوہرمرحوم کا کوئی حق نہیں ہے۔تاہم اگر شوہر نے کوئی ترکہ نہیں چھوڑا ہے جس سے بیوی کا مہرادا کیا جاسکے تو بیوی کو چاہئے کہ شوہر کو مہر سے بری کردے، خاص طور پر جب کہ عورت شوہر کی وجہ سے پینشن بھی پارہی ہے۔ عورت کے مہر معاف کرنے سے بھی شوہر کے ذمہ سے مہر کا دین ساقط ہوجائے گا۔ اور ان شاء اللہ آخرت میں مواخذہ کا باعث بھی نہیں ہوگا۔

(قوله وصح حطها) أي حط المرأة من مهرها؛ لأن المهر في حالة البقاء حقها والحط يلاقيه حالة البقاء والحط في اللغة الإسقاط كما في المغرب أطلقه فشمل حط الكل أو البعض وشمل ما إذا قبل الزوج أو لم يقبل (البحرالرائق باب المھر 3/161)

واللہ اعلم بالصواب

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند

زکوۃ / صدقہ و فطرہ

Ref. No. 1318/42-687

الجواب وباللہ التوفیق

بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔  وقتی طور پر سرکار نے جو کرایہ بڑھایا، اور آنے کی اجازت دی اس کا آپ نےفائدہ اٹھایا۔ اس میں جو کچھ خرچ کئے وہ آپ کے ذاتی پیسے خرچ ہوئے۔  سود کی رقم آپ کی ذاتی رقم نہیں ہے، اس لئے سودی رقم کو اس میں لگانا یا سودی رقم سے اس کی تلافی کرنا جائز نہیں ہے۔ سود کی رقم غریبوں پر بلا نیت ثواب صدقہ کرنا لازم ہے۔ اس سے کسی طرح استفادہ جائز نہیں ہے۔

ولا يأخذون منه شيئا وهو أولى بهم ويردونها على أربابها إن عرفوهم، وإلا تصدقوا بها لأن سبيل الكسب الخبيث التصدق إذا تعذر الرد على صاحبه (شامی  فصل فی البیع 6/385)

 واللہ اعلم بالصواب

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند

احکام میت / وراثت و وصیت

Ref. No. 1446/42-910

الجواب وباللہ التوفیق

بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ فقہ حنفی کی رو سے، میمونہ کا کل ترکہ 18 حصوں میں تقسیم کریں گے، جن میں سے میمونہ کی والدہ کو 3 حصے اور بھائی کو دس اور بہن کو پانچ حصے ملیں گے۔  بھتیجے، بھتیجی اور بھانجی کو کچھ نہیں ملے گا۔

وَ لِاَبَوَیْهِ لِكُلِّ وَاحِدٍ مِّنْهُمَا السُّدُسُ مِمَّا تَرَكَ اِنْ كَانَ لَهٗ وَلَدٌ١ۚ فَاِنْ لَّمْ یَكُنْ لَّهٗ وَلَدٌ وَّ وَرِثَهٗۤ اَبَوٰهُ فَلِاُمِّهِ الثُّلُثُ١ۚ فَاِنْ كَانَ لَهٗۤ اِخْوَةٌ فَلِاُمِّهِ السُّدُسُ مِنْۢ بَعْدِ وَصِیَّةٍ یُّوْصِیْ بِهَاۤ اَوْ دَیْنٍ (سورۃ النساء 11)

واللہ اعلم بالصواب

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند

متفرقات

Ref. No. 1550/43-1124

بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔انڈیا اور دیگر کسی بھی ملک سے محبت اور اس کی ترقی کی خواہش کرنا ، اور ملک میں امن و امان قائم رہے اس کی دعا کرنا ایمانی جذبہ  ہے، اسلام اس کی مخالفت نہیں کرتا ہے۔ انڈیا کے جھنڈے میں کوئی ایمان کے منافی چیز نہیں ہے اس لئے اس کی تصویر لینے میں کوئی حرج نہیں ہے۔  ایمان کے لوازمات کو برتتے ہوئے ، انسانیت سے محبت اور انسانیت کی ترقی کے لئے کوشاں رہنا ضروری ہے۔ اللہ تعالی انڈیا اور دنیا کے تمام ممالک میں امن و سلامتی اور انصاف قائم فرمائے۔

واللہ اعلم بالصواب

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند

اسلامی عقائد

Ref. No. 2029/44-1999

بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ طلاق دینے کا اختیار صرف مرد کو ہے۔ عورت کو طلاق کا اختیار بالکل نہیں ہے۔ اگر عورت اپنے شوہر کو طلاق دے گی تو طلاق واقع نہیں ہوگی۔ تاہم شریعت نے عورت کے لئے خلع رکھا ہے۔ عورت اپنے شوہرسے  مہر کی معافی یا کچھ پیسوں کے عوض شوہر سے طلاق لے سکتی ہے۔  اگر شوہر کسی صورت طلاق دینے کے لئے تیار نہ ہو تو عورت دارالقضاء سے رجوع کرسکتی ہے؛ قاضی  اپنے اعتبار سے مناسب سمجھے گا تو نکاح کو فسخ  کردے گا۔  

 واللہ اعلم بالصواب

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند