نماز / جمعہ و عیدین

الجواب وباللّٰہ التوفیق: رات میں ایک سلام سے آٹھ رکعت تک پڑھنے کی اجازت ہے مگر حضرات صاحبینؒ کے نزدیک رات میں بھی دو دو رکعت ایک سلام سے پڑھنا افضل ہے۔(۱)

(۱) وتکرہ الزیادۃ علی أربع في نفل النہار، وعلی ثمان لیلاً بتسلیمۃ، لأنہ لم یرد، والأفضل فیہما الرباع بتسلیمۃ وقالا: في اللیل المثنی أفضل، قیل وبہ یفتی۔ (الحصکفي، الدر المختار مع رد المحتار، ’’کتاب الصلاۃ: باب الوتر والنوافل‘‘: ج ۲، ص:۴۵۵، زکریا دیوبند)
وکرہ الزیادۃ علی أربع في نوافل النہار، وعلی ثمان لیلاً بتسلیمۃ واحدۃ، والأفضل فیہما رباع۔ (جماعۃ من علماء الہند، الفتاویٰ الہندیۃ، ’’کتاب الصلاۃ: الباب التاسع في النوافل‘‘: ج ۱، ص: ۱۷۲، زکریا دیوبند)

 

فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج6 ص415

Marriage (Nikah)

Ref. No. 872 Alif

الجواب وباللہ التوفیق

بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔   اگر سوال میں مذکورتفصیلات ہی رکھیں اورغیرشرعی امور مثلا تصاویر  وغیرہ سے احتراز کریں تو گنجائش ہے۔  تاہم  اس میں کوئی دوسرا ذریعہ معاش اپنائیں تو  بہترہوگا۔کیونکہ ممکن  ہے کہ اندراج کرنے والےبعض  لوگ اپنی صحیح معلومات نہ  ڈالیں اورلوگ  دھوکہ میں پڑجائیں جس کا ذریعہ آپ بنیں گے۔

 واللہ اعلم بالصواب

 

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند

Marriage (Nikah)
In the name of Allah the most Gracious the most Merciful The answer to your question is as it follows: If girl agreed and got married with the person only for the sake of her mother’s happiness, the Nikah will take place. In this case, preferring mother’s happiness over her own is also worthy of reward. And Allah knows best Darul Ifta Darul Uloom Waqf Deoband

Family Matters

Ref. No. 41/995

In the name of Allah the most gracious the most merciful

The answer to your question is as follows:

You may consult a skilled doctor for the same. If he suggests aborting it, it may be allowed at this moment in time. But if there is no harm, you should avoid abortion.

And Allah knows best

Darul Ifta

Darul Uloom Waqf Deoband

 

اعتکاف

Ref. No. 896/41-14B

الجواب وباللہ التوفیق 

بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ جس زمین پر ایک مرتبہ مسجد بن جائے وہ زمین کی آخری تہہ  اور آسمان تک قیامت تک کے لئے مسجد ہی رہتی ہے۔ لہذا مذکورہ کمرے اب بھی مسجد ہی ہیں۔ اس حصہ میں جانے سے اعتکاف نہیں ٹوٹے گا، اذان اور جنازہ کے لئے ان کا استعمال درست نہیں ہے،۔

(ولو خرب ما حوله واستغني عنه يبقى مسجدا عند الإمام والثاني) أبدا إلى قيام الساعة (وبه يفتي) (الدرالمختار 4/358)

 واللہ اعلم بالصواب

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند

ذبیحہ / قربانی و عقیقہ

Ref. No. 989/41-141

الجواب وباللہ التوفیق 

بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔بال کاٹنے کی ضرورت نہیں ، عقیقہ درست ہوجائے گا۔ ولادت سے ساتویں دن کے بعد  اگر عقیقہ کرے تو بال کٹوانا ضروری نہیں ہے۔  

يستحب لمن ولد له ولد أن يسميه يوم أسبوعه ويحلق رأسه ويتصدق عند الأئمة الثلاثة بزنة شعره فضة أو ذهبا ثم يعق عند الحلق عقيقة إباحة على ما في الجامع المحبوبي، أو تطوعا على ما في شرح الطحاوي  (شامی 6/336)

واللہ اعلم بالصواب

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند

قرآن کریم اور تفسیر

Ref. No. 1443/42-945

الجواب وباللہ التوفیق

بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ وباللہ التوفیق:۔مذکورہ سوال کے تین اجزاء ہیں:

(۱) تفسیر بالرائے: تفسیر بالرائے کا مطلب یہ ہوتا ہے کہ قرآن کریم کی کسی آیت،جملہ یا کلمہ کی تشریح توضیح محض ذاتی رائے اور سمجھ کی بنیاد پر کی جائے، قرآن فہمی کے جو اصول وشرائط ہیں ان کی رعایت اور پاسداری نہ کی جائے اس سلسلے میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد گرامی ہے:جس نے قرآن میں اپنی رائے سے کوئی بات کہی تو وہ اپنا ٹھکانا جہنم میں بنا لے،ایک اور روایت ہے: فرمایا جس نے علم کے بغیر قرآن میں کوئی بات کہی تو اپنا ٹھکانہ جہنم میں بنالے،ایک جگہ اور ارشاد ہے:جس نے قرآن کریم میں اپنی رائے سے کچھ کہا اور درست کہا، تب بھی اس نے غلطی کی، (مرقاۃ المفاتیح: ج ۱، ص: ۵۴۴) مذکورہ احادیث سے معلوم ہوا کہ بغیر علم کے قرآن کی تفسیر یا مفہوبیان کرناتکلیف دہ اور جرأت کی بات کے ساتھ ساتھ انتہائی غیر ذمہ دارانہ اقدام ہے اس لئے آئندہ اس کا خاص خیال رکھا جائے۔

(۲) دونوں آیتوں کا صحیح مفہوم: (وقالوا أإذا کنا عظاما الخ) یہ لوگ کہتے ہیں کہ جب ہم مر کر ہڈیاں اور چورا یعنی ریزہ ریزہ ہوجائیں گے تو کیا اس کے بعد قیامت میں ہم از سر نو پیدا اور زندہ کئے جائیں گے اول تو مر کر زندہ ہونا مشکل ہے، (قل کونوا حجارۃ أو حدیدا) اللہ تبارک وتعالیٰ نے فرمایا:آپ فرما دیجئے کہ تم ہڈیوں سے حیات کو بعید کہتے ہو اور ہم کہتے ہیں کہ تم پتھر، لوہا یا اور کوئی ایسی مخلوق ہو کر دیکھ لو جو تمہارے ذہن میں قبول حیات سے بعید ہو دیکھو زندہ کئے جاؤ گے یا نہیں؟ یعنی یقینا تم ضرور دوبارہ زندہ کئے جاؤ گے۔ (مفتی محمد شفیع، بیان القرآن: ج 2، ص: 150)

(یا معشر الجن والإنس إن ستطعتم الخ) اس آیت کا مطلب یہ ہے کہ اے جنات اور انسانوں اگر تمہیں یہ گمان ہو کہ ہم کہیں بھی بھاگ جائیں اور ملک الموت کے تصرف سے بچ جائیں گے یا میدان حشر سے بھاک کر نکل جائیں گے اور حساب و کتاب سے بچ جائیں گے تو تم اپنی قوت آزمالو اگر تمہیں اس پر قدرت ہے کہ آسمان و زمین کے دائروں سے باہر نکل جاؤگے تو نکل کر دکھلاؤیہ کوئی آسان کام نہیں ہے اس کے لئے تو بہت بڑی قوت وقدرت درکار ہے جو جناتوں اور انسانوں کی کی دونوں قوموں کو حاصل نہیں ہے، اس آیت کے مفہوم سے ان خلائی سفروں اور سیارات پر پہونچنے کے واقعات کا کوئی تعلق نہیں ہے۔(معارف القرآن ص:255،ج:8)

(۳) دونوں آیتوں (قل کونوا حجارۃ الخ) اور (یا معشر الجن والإنس الخ) کی تفسیر جو آپ نے کی ہے وہ آپ کے سوال سے ظاہر ہے کہ دونوں آیتوں کا صحیح مفہوم جواب کا دوسرا جز میں ذکر ہو چکا ہے اس لئے آئندہ کے لئے احتیاط برتیں، کسی بھی آیت کا مطلب بغیر علم کے خود سے ہر گز نہ بتائیں،کسی عالم دین سے سمجھ لیں پھر بیان کریں،آپ نے جن دوستوں کو غلط مطلب بتا یا ہے ان سے اب دونوں آیتوں کا صحیح مفہوم کی وضاحت کردیں (إن شاء اللّٰہ) مواخذہ نہیں ہوگا۔

واللہ اعلم بالصواب

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند

Islamic Creed (Aqaaid)

Ref. No. 1534/43-1043

In the name of Allah the most Gracious the most Merciful

The answer to your question is as follows:

The verses of the holy Quran, commentaries and Ahadith declare that Ummul Mumineen Hazrat Ayesha (ra) is in Paradise.

وعن أبي سلمة أن عائشة قالت: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: «يا عائش هذا جبريل يقرئك السلام» . قالت: وعليه السلام ورحمة الله. قالت: وهو يرى [ص:1744] ما لا أرى متفق عليه (مشکوۃ المصابیح، باب مناقب ازواج 3/1743) وعن عائشة أن جبريل جاء بصورتها في خرقة حرير خضراء إلى رسول الله صلى الله عليه وسلم فقال: «هذه زوجتك في الدنيا والآخرة» . رواه الترمذي (مشکوۃ المصابیح، باب مناقب ازواج 3/1745)

حدثنا عثمان، قال: أخبرنا يونس، عن الزهري، عن أبي سلمة، أن عائشة، قالت: لما أمر رسول الله صلى الله عليه وسلم بتخيير أزواجه، بدأ بي، فقال: «يا عائشة إني أذكر لك أمرا، ولا عليك أن لا تستعجلي حتى تذاكري أبويك» قالت: وقد علم أن أبوي لم يكونا ليأمراني بفراقه، ثم قال: إن الله عز وجل يقول: {يا أيها النبي قل لأزواجك إن كنتن تردن الحياة الدنيا وزينتها} [الأحزاب: 28] حتى بلغ: {أعد للمحسنات منكن أجرا عظيما} [الأحزاب: 29] فقلت: في أي هذا أستأمر أبوي؟ فإني قد اخترت الله ورسوله والدار الآخرة. قالت: ثم فعل أزواج النبي صلى الله عليه وسلم ما فعلت (مسند احمد مخرجا، مسند الصدیقۃ عائشۃ 43/212) حدثنا أبو نعيم، حدثنا ابن أبي غنية، عن الحكم، عن أبي وائل، قام عمار، على منبر الكوفة، فذكر عائشة، وذكر مسيرها، وقال: «إنها زوجة نبيكم صلى الله عليه وسلم في الدنيا والآخرة، ولكنها مما ابتليتم»  (صحیح البخاری، باب الفتنۃ التی تموج کموج البحر 9/56)

And Allah knows best

Darul Ifta

Darul Uloom Waqf Deoband

طلاق و تفریق

Ref. No. 1720/43-1408

بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ بشرط صحت سوال صورت مسئولہ میں  عورت پر فقہ حنفی کی روشنی میں تینوں طلاقیں واقع ہوگئیں، اور نکاح ختم ہوگیا، اب دونوں اجنبی ہوگئے۔ عورت عدت گزرنے کے بعد کسی دوسرے مرد سے اگر چاہے تو نکاح کرسکتی ہے۔

﴿ الطَّلَاقُ مَرَّتَانِ فَإِمْسَاكٌ بِمَعْرُوفٍ أَوْ تَسْرِيحٌ بِإِحْسَانٍ ﴾ [البقرة: 229] ﴿ فَإِنْ طَلَّقَهَا فَلَا تَحِلُّ لَهُ مِنْ بَعْدُ حَتَّى تَنْكِحَ زَوْجًا غَيْرَهُ﴾ [البقرة: 230]

عن عائشة، أن رجلا طلق امرأته ثلاثا، فتزوجت فطلق، فسئل النبي صلى الله عليه وسلم: أتحل للأول؟ قال: «لا، حتى يذوق عسيلتها كما ذاق الأول». صحيح البخاري(2/791، ط:قدیمی) مطابقته  للترجمة في قوله: طلق امراته ثلاثاً فإنه ظاهر في كونها مجموعة. عمدة القاری (2/336، ط؛ رشیدیه) فالتمسك بظاهرقوله طلقها ثلاثا فإنه ظاهر في كونها مجم وعة. (فتح الباري لابن حجر (9 / 367)

أن عائشة، أخبرته: أن امرأة رفاعة القرظي جاءت إلى رسول الله صلى الله عليه وسلم، فقالت: يا رسول الله، إن رفاعة طلقني فبت طلاقي، وإني نكحت بعده عبد الرحمن بن الزبير القرظي، وإنما معه مثل الهدبة، قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: «لعلك تريدين أن ترجعي إلى رفاعة؟ لا، حتى يذوق عسيلتك وتذوقي عسيلته»۔ (صحيح البخاري (2/791، ط:قدیمی) قوله فبت طلاقي فإنه ظاهر في أنه قال لها أنت طالق ألبتة ويحتمل أن يكون المراد أنه طلقها طلاقا حصل به قطع عصمتها منه وهو أعم من أن يكون طلقها ثلاثا مجموعة أو مفرقة ويؤيد الثاني أنه سيأتي في كتاب الأدب من وجه آخر أنها قالت طلقني آخر ثلاث تطليقات۔ فتح الباري لابن حجر (9 / 367، دار المعرفة – بيروت)

 فَاخْتَلَفَ الْعُلَمَاءُ فِي جَوَابِهِ وَتَأْوِيلِهِ فَالْأَصَحُّ أَنَّ مَعْنَاهُ أَنَّهُ كَانَ فِي أَوَّلِ الْأَمْرِ إِذَا قَالَ لَهَا أَنْتِ طَالِقٌ أَنْتِ طَالِقٌ أَنْتِ طَالِقٌ وَلَمْ يَنْوِ تَأْكِيدًا وَلَا اسْتِئْنَافًا يُحْكَمُ بِوُقُوعِ طَلْقَةٍ لِقِلَّةِ إِرَادَتِهِمُ الِاسْتِئْنَافَ بِذَلِكَ فَحُمِلَ عَلَى الْغَالِبِ الَّذِي هُوَ إِرَادَةُ التَّأْكِيدِ فَلَمَّا كَانَ فِي زَمَنِ عُمَرَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ وَكَثُرَ اسْتِعْمَالُ النَّاسِ بِهَذِهِ الصِّيغَةِ وَغَلَبَ مِنْهُمْ إِرَادَةُ الِاسْتِئْنَافِ بِهَا حُمِلَتْ عِنْدَ الْإِطْلَاقِ عَلَى الثَّلَاثِ عَمَلًا بِالْغَالِبِ السَّابِقِ إِلَى الْفَهْمِ مِنْهَا فِي ذَلِكَ الْعَصْرِ۔ (شرح النووي على مسلم (1/478، ط: قدیمی)

واللہ اعلم بالصواب

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند

متفرقات

Ref. No. 1921/43-1823

بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔   اگر دینےوالے نکاح خواں کو پیسے دیتے ہیں تو اس کی مرضی کے بغیر رسید بنالینا جائز نہیں ہے، البتہ اگر وہ خوشی سے مسجد کو دیدے تو اس میں کوئی حرج نہیں ہے۔ اور اگر دینےوالوں  نے رقم  مسجد میں دی ہے تو وہ رقم مسجد کی ہی ہے، کسی کو اپنے ذاتی استعمال میں لانا جائز نہیں ہے۔ الحاصل دینے والے جس کو رقم دیں گے وہی اس کا مالک ہوگا، اور مالک کی مرضی کے بغیر اس سے چندہ لینا یا رسید بنادینا جائز نہیں ہے۔

وَفِي فَتَاوَى النَّسَفِيِّ: إذَا كَانَ الْقَاضِي يَتَوَلَّى الْقِسْمَةَ بِنَفْسِهِ حَلَّ لَهُ أَخْذُ الْأُجْرَةِ، وَكُلُّ نِكَاحٍ بَاشَرَهُ الْقَاضِي وَقَدْ وَجَبَتْ مُبَاشَرَتُهُ عَلَيْهِ كَنِكَاحِ الصِّغَارِ وَالصَّغَائِرِ فَلَايَحِلُّ لَهُ أَخْذُ الْأُجْرَةِ عَلَيْهِ، وَمَا لَمْ تَجِبْ مُبَاشَرَتُهُ عَلَيْهِ حَلَّ لَهُ أَخْذُ الْأُجْرَةِ عَلَيْهِ، كَذَا فِي الْمُحِيطِ. وَاخْتَلَفُوا فِي تَقْدِيرِهِ، وَالْمُخْتَارُ لِلْفَتْوَى أَنَّهُ إذَا عَقَدَ بِكْرًا يَأْخُذُ دِينَارًا وَفِي الثَّيِّبِ نِصْفَ دِينَارٍ وَيَحِلُّ لَهُ ذَلِكَ هَكَذَا قَالُوا، كَذَا فِي الْبُرْجَنْدِيِّ"( كتاب أدب القاضي، الْبَابُ الْخَامِسَ عَشَرَ فِي أَقْوَالِ الْقَاضِي وَمَا يَنْبَغِي لِلْقَاضِي أَنْ يَفْعَل، ٣ / ٣٤٥)

عن أبي حرة الرقاشي عن عمہ رضي اللّٰہ عنہ قال: قال رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم: ألا لا تظلموا! ألا لا یحل مال امرء إلا بطیب نفس منہ۔ (مشکاة المصابیح / باب الغصب والعاریة، الفصل الثاني ۲۵۵)

واللہ اعلم بالصواب

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند