نماز / جمعہ و عیدین

الجواب وباللّٰہ التوفیق: حالت قیام سے رکوع میں آتے وقت، رکوع میں جاتے جاتے تکبیر مکمل ہونی چاہئے۔ اسی طرح ہر رکن سے دوسرے رکن کی طرف منتقل ہوتے ہوئے تکبیرات کہی جائیں، سجدے میں جاتے ہوئے بھی سجدہ میں سر رکھنے پر تکبیر پوری ہو جانی چاہئے  لیکن اگر پیشانی ٹکنے پر آواز مکمل ہوئی، تو بھی نماز میں کوئی خلل واقع نہیں ہوا۔(۱)

(۱) ولو ترک التسمیع حتی استوی قائماً لا یأتی بہ کما لو لم یکبر حالۃ الانحطاط حتی رکع أو سجد ترکہ ویجب أن یحفظ ہذا ویراعی کل شيء في محلہ وہو صریح في أن القومۃ لیس فیہا ذکر مسنون۔ (ابن نجیم، البحر الرائق، ’’کتاب الصلاۃ: باب صفۃ الصلاۃ‘‘: ج۱، ص: ۵۳۹)
 

فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج4 ص382

نماز / جمعہ و عیدین

الجواب وباللہ التوفیق: اگر تہجد میں اٹھنے کا عزم ہو اور آنکھ کھل جاتی ہو یا تہجد پڑھنے کی عادت ہو، تو وتر بھی تہجد ہی کے وقت میں اور وہ نفل بھی اسی وقت پڑھنے چاہئیں۔(۲)

(۲) عن أبي سلمۃ، قال: سألت عائشۃ،  عن صلاۃ رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم، فقالت: کان یصلي ثلاث عشرۃ رکعۃ؛ یصلی ثمان رکعات، ثم یوتر، ثم یصلي رکعتین وہو جالس، فإذا أراد أن یرکع قام، فرکع، ثم یصلي رکعتین بین النداء والإقامۃ من صلاۃ الصبح۔ (أخرجہ مسلم، في صحیحہ، ’’کتاب الصلاۃ، باب صلاۃ اللیل‘‘: ج۱، ص: ۲۵۴)
 عن عبد اللّٰہ عن النبي صلی اللّٰہ علیہ وسلم قال: اجعلوا آخر صلاتکم باللیل وترا۔ (أخرجہ البخاري في صحیحہ، ’’باب لیجعل آخر صلاتہ وتراً‘‘:ج۱، ص۱۳۶، رقم: ۹۹۸)

فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج6 ص315

 

نماز / جمعہ و عیدین

الجواب وباللّٰہ التوفیق: استخارہ جب چاہیں کرسکتے ہیں ایک دو روز قبل بھی درست ہے اور اس سے پہلے بھی درست ہے ؛ لیکن یہ خیال رہے کہ استخارہ ایک امر مباح ہے، کریں تو بہتر ہے نہ کریں تو بھی گناہ نہیں ہے؛ لیکن اگر استخارہ کرلیا تو پھر اس کے خلاف نہیں کرنا چاہئے۔(۱)

(۱) روی ابن السني: یا أنس إذا ہممت بأمر فاستخربک فیہ سبع مرات، ثم انظر إلی الذي سبق إلی قلبک فإن الخیر فیہ، ولو تعذرت علیہ الصلاۃ استخار بالدعاء …… والمسموع من المشائخ أنہ ینبغي أن ینام علی طہارۃ مستقبل القبلۃ بعد قراء ۃ الدعاء المذکور، فإن رأی في منامہ بیاضاً او خضرۃ فذلک الأمر خیر، وإن رأی فیہ سواداً او حمرۃ فہو شر ینبغي أن یجتنب۔ (ابن عابدین، رد المحتار، ’’باب الوتر والنوافل، مطلب في رکعتي الاستخارۃ‘‘: ج ۲، ص: ۴۷۰، زکریا)
 

فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج6 ص424

نماز / جمعہ و عیدین

راجع الی فتوی رقم  943

ذبیحہ / قربانی و عقیقہ

Ref. No. 38 / 1182

الجواب وباللہ التوفیق                                                                                                                                                        

بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ قربانی ہر اس شخص پر واجب ہے جو قربانی کے دنوں میں نصاب کا مالک ہو۔ آج کے حساب سے 612 گرام چاندی یا اس کی قیمت موجود ہو تو اس پر قربانی واجب ہے۔   واللہ اعلم بالصواب

 

 

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند

Hadith & Sunnah

Ref. No. 39/1104

In the name of Allah the most Gracious the most merciful

The answer to your question is as follows:

It is allowable for you to do so but you must be very honest.

And Allah knows best

Darul Ifta

Darul Uloom Waqf Deoband

 

اسلامی عقائد

Ref. No. 992/41-157

الجواب وباللہ التوفیق 

بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ مسجد شرعی تحت الثری سے آسمان کی فضا تک مسجد کے حکم میں ہوتی ہے۔ وحاصلہ ان شرط کونہ مسجد ا ان یکون سفلہ وعلوہ مسجدا ینقطع حق العبد عنہ  لقولہ تعالی وان المساجد للہ ۔  (شامی)

سوال میں مذکور دونوں صورتوں میں بنائی گئی عمارت مسجد شرعی کے حکم میں نہیں ہے، بلکہ مصلی یا جماعت خانہ کہلائے گا۔

ایک صورت یہ ہوسکتی ہے کہ پورے حصہ کو یا کچھ حصہ کو مکمل طور پر مسجد بنادیا جائے  اور پھر حسب ضرورت وہاں مسجد ہی میں دینی تعلیم بھی ہوجایا کرے۔

واللہ اعلم بالصواب

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند

فقہ

Ref. No. 1098/42-292

الجواب وباللہ التوفیق     

بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔  سیف اللہ کی پہلی بیوی اگر اپنے میکہ رہتی ہے یا شوہر کے گھر کو چھوڑ کر کہیں بھی رہتی ہے تو از روئے شرع سیف اللہ پر اس کا نان و نفقہ لازم نہیں ہوگا۔ شوہر کے پاس رہے گی تو شوہر کی ذمہ داری ہے کہ اس کے مکمل خرچہ کا بار اٹھائے۔   تاہم اگر تبرعا وہ خرچ برداشت کرے تو بہتر ہے اور باعث اجروثواب ہے۔

واللہ اعلم بالصواب

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند

اسلامی عقائد

Ref. No. 2171/44-2285

بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ اگر وہ جگہ سرکاری نہیں تھی بلکہ برادری کے لوگوں کے پیسے سے خریدی گئی تھی، تو اگر ان کے مالکان کا علم ہے تو ان کو لوٹادیا جائے۔ اور اگر اس کا علم نہیں ہوسکتاہے اور تمام منہیاران رہتواروں میں تقسیم کرنے کا فیصلہ ہوگیا ہے تو جو لوگ اس پنچایتی جگہ کے بننے کے وقت وہاں تھے اور اب وہاں نہیں رہتے ہیں تو ان کا بھی حصہ ہوگا، اور اگر وہ پیسے والد کو مل رہے ہیں تو بھائی کے ساتھ بہنوں کا بھی حصہ ہوگا۔

اگر معاملات کو سمجھنے یا طے کرنے میں دشواری ہو تو کسی شرعی دارالقضاء سے یا کسی ماہر مفتی سے معاملہ طے کرالیا اور تقسیم کرالی جائے۔

واللہ اعلم بالصواب

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند

 

اسلامی عقائد

الجواب وباللّٰہ التوفیق:(۱) اہل سنت و الجماعت کا عقیدہ ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے لیے حیات برزخی ثابت ہے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم قبر اطہر میں اپنے جسد مبارک کے ساتھ تشریف فرما ہیں۔ الحاوی للفتاوی میں اس کی تفصیل موجود ہے۔
حیاۃ النبي صلی اللّٰہ علیہ وسلم في قبرہ ہو وسائر الأنبیاء معلومۃ عندنا علما قطعیا لما قام عندنا من الأدلۃ في ذلک وتواترت (بہ) الأخبار، وقد ألف البیہقي جزئا في حیاۃ الأنبیاء في قبورہم، فمن الأخبار الدالۃ علی ذلک ما أخرجہ مسلم عن أنس أن النبي صلی اللّٰہ علیہ وسلم لیلۃ أسري بہ مر بموسی علیہ السلام وہو یصلي في قبرہ، وأخرج أبو نعیم في الحلیۃ عن ابن عباس أن النبي صلی اللّٰہ علیہ وسلم مر بقبر موسی علیہ السلام وہو قائم یصلي فیہ، وأخرج أبو یعلی في مسندہ، والبیہقي في کتاب حیاۃ الأنبیاء عن أنس أن النبي صلی اللّٰہ علیہ وسلم قال: الأنبیاء أحیاء في قبورہم یصلون، وأخرج أبو نعیم في الحلیۃ عن یوسف بن عطیۃ قال: سمعت ثابتا البناني یقول لحمید الطویل: ہل بلغک أن أحدا یصلي في قبرہ إلا الأنبیاء؟ قال: لا، وأخرج أبو داود والبیہقي عن أوس بن أوس الثقفي عن النبي صلی اللّٰہ علیہ وسلم أنہ قال: من أفضل أیامکم یوم الجمعۃ فأکثروا علي الصلاۃ فیہ، فإن صلاتکم تعرض علي، قالوا: یا رسول اللّٰہ وکیف تعرض علیک صلاتنا وقد أرمت؟ یعني: بلیت، فقال: إن اللّٰہ حرم علی الأرض أن تأکل أجسام الأنبیاء، وأخرج البیہقي في شعب الإیمان، والأصبہاني في الترغیب عن أبي ہریرۃ قال: قال رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم: من صلی عليّ عند قبري سمعتہ ومن صلی علي نائیا بلغتہ۔
’’وأخرج البخاري في تاریخہ عن عمار سمعت النبي صلی اللّٰہ علیہ وسلم یقول: إن للّٰہ تعالیٰ ملکا أعطاہ أسماع الخلائق قائم علی قبري فما من أحد یصلي علي صلاۃ إلا بلغتہا، وأخرج البیہقي في حیاۃ الأنبیاء، والأصبہاني في الترغیب عن أنس قال: قال رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم: من صلی علی مائۃ في یوم الجمعۃ ولیلۃ الجمعۃ، قضی اللّٰہ لہ مائۃ حاجۃ سبعین من حوائج الأخرۃ وثلاثین من حوائج الدنیا، ثم وکل اللّٰہ بذلک ملکا یدخلہ عليَّ في قبري کما یدخل علیکم الہدایا‘‘(۱)

(۲) آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے وسیلے سے اللہ تعالیٰ سے دعا مانگنا احادیث سے ثابت ہے؛بلکہ خود حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے اس طرح دعا مانگنے کی ترغیب و تعلیم دی ہے، اس لیے آپ کے وسیلے سے دعا مانگنے کا انکار اور اسے شرک قرار دینا غلط ہے۔
’’عن عثمان بن حنیف، أن رجلا ضریر البصر أتی النبي صلی اللّٰہ علیہ وسلم فقال: أدع اللّٰہ أن یعافیني قال: إن شئت دعوت، وإن شئت صبرت فہو خیر لک۔ قال: فادعہ، قال: فأمرہ أن یتوضّأ فیحسن وضوئہ ویدعو بہذا الدعاء: اللہم إني أسألک وأتوجہ إلیک بنبیک محمد نبي الرحمۃ، إني توجہت بک إلی ربي في حاجتي ہذہ لتقضی لي، اللہم فشفعہ في قال أبو عیسیٰ ہذا حدیث حسن صحیح غریب‘‘۔(۱)
ومن أداب الدعاء تقدیم الثناء علی اللّٰہ والتوسل بنبي اللّٰہ، لیستجاب الدُّعَاء،(۲) وقال الشوکاني في ’’ تحفۃ الذاکرین‘‘: وفي الحدیث دلیل علی جواز التوسل برسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم إلی اللّٰہ عز وجل، مع اعتقاد أن الفاعل ہو اللّٰہ سبحانہ وتعالی، وأنہ المعطی والمانع، ما شاء اللّٰہ کان، وما لم یشأ لم یکن‘‘(۳)

(۳) صحابہ کرام تمام کے تمام عادل اور معیار حق ہیں، صحابہ کرام نے حضرت نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے جس قدر دین برحق سیکھا وہ دوسروں کو اسی طرح پہنچایا اس میں اپنی طرف سے اضافہ نہیں کیا، کوئی حکم نہیں بدلا، کوئی بات آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف غلط منسوب نہیں کی جس بات کو صحابہ کرام نے یہ فرمایا کہ یہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے وہ بالکل صحیح ہے اس کو صحیح ماننا لازم ہے، صحابہ کرام پراگر اعتماد نہ ہو او ران کے نقل دین کو حق تسلیم نہ کیا جائے تو پھر سارے دین سے اعتماد ختم ہوجائے گا اور صحیح دین دوسرے تک پہونچانے کی صورت نہیں رہے گی جیسا کہ روافض نے صحابہ کرام پر اعتماد نہیں کیا تو ان کے نزدیک نہ احادیث قابل اعتماد ہیں اور نہ قرآن پر ان کو اعتماد ہے، ان کے پاس دین برحق پہنچنے کی کوئی صورت نہیں ہے اور وہ اس نعمت الٰہی اور ذریعہ نجات سے محروم ہیں لہٰذا نقل دین میںصحابہ معیار حق ہیں جن حضرات کے یہ خیالات ہیںوہ غلط ہیں ان کو اس سے توبہ کرنا چاہیے تاہم وہ مسلمان ہیں ان کو سلام کرنا، ان کی دعوت قبول کرنا، ان کے پیچھے نماز پڑھنے کی گنجائش ہے اگرچہ کراہت ضرور ہے اسی طرح نکاح بھی درست ہے تاہم اگر مصلحت نکاح کے خلاف ہو تو احتراز بہتر ہے۔(۱)

۱) الحاوي للفتاویٰ، ’’أنباء الأذکیاء بحیاۃ الأنبیاء‘‘: ج ۲، ص: ۱۷۸۔

(۱) أخرجہ الترمذي، في سننہ، ’’أبواب الدعوات، باب ما جاء في جامع الدعوات، باب منہ‘‘: ج ۲، ص: ۱۹۸، رقم: ۳۵۷۸۔
(۲) الشاہ ولي اللّٰہ، حجۃ اللّٰہ البالغۃ:ج ۲، ص: ۱۰۔
(۳) علامہ شوکاني، تحفۃ الذاکرین، ’’باب: صلاۃ الضرر والحاجۃ‘‘: ج ۱، ص: ۲۱۲۔

(۱) ویکف عن ذکر الصحابۃ إلا بخیر لما ورد عن الأحادیث الصحیحۃ في مناقبہم، ووجوب الکف عن الطعن فیہم کقولہ علیہ السلام: لا تسبوا أصحابي فلو أن أحدکم أنفق مثل أحد ذہبا ما بلغ مد أحد ہم ولا نصیفہ إلخ۔ (علامہ سعد الدین تفنازاني، شرح العقائد النسفیۃ، ’’مبحث یجب الکف عن الطعن في الصحابۃؓ‘‘: ص: ۱۶۱)

فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج1 ص 205