Frequently Asked Questions
حدیث و سنت
الجواب وباللّٰہ التوفیق:جس وقت آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم مدینہ منورہ تشریف لائے اس وقت حضرت سلمان فارسی رضی اللہ عنہ نے اسلام قبول کیا، اسلام سے قبل آپ آتش پرست تھے اور آپ کا پہلا نام مابہ ابن بوزخشاں تھا ۔(۱)
(۱) قال حدثني سلمان الفارسي: من فیہ قال: کنت رجلا فارسیاً من أہل قریۃ یقال لہا جی (اسم المدینۃ) وکان أبي دہقان قریتہ وکنت أحب خلق اللّٰہ إلیہ لم یزل حبہ إیاي حتی حبسني في بیتہ کما تحبس الجاریۃ واجتہدت في المجوسیۃ حتی کنت قطن النار التی یوقدہا لا یترکہا تخبو ساعۃ الخ۔ (أبو الفداء ابن کثیر، البدایۃ والنہایۃ، إسلام سلمان الفارسي: ج ۳، ص: ۳۸۰)
فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج2ص237
طہارت / وضو و غسل
الجواب وباللّٰہ التوفیق: مذکورہ صورت میں کپڑے کے نوچے ہوئے اور پھٹے ہوئے حصہ پر کتے کا لعاب ضرور لگا ہوگا؛ اگر وہ ایک درہم سے کم ہے تو مانع نماز نہیں ہے اور جب تک لعاب کے کثیر ہونے پر کوئی دلیل نہ ہو قلیل پر محمول کیا جائے گا اور اس کپڑے کو پہن کر پڑھی گئی نماز درست ہوگی اعادہ کی ضرورت نہیں، اگر کثیر ہونے کا اندازہ ہو تو نماز کا اعادہ کیا جائے۔
’’والأصح أنہ إن کان فمہ مفتوحا لم یجز لأنہ لعابہ لبس فی کمہ فینجس لو أکثر من قدر الدر ہم‘‘(۱)
’’الکلب إذا أخذ عضو إنسان أو ثوبہ لا ینجس ما لم یظہر فیہ أثر البلل راضیا کان أو غضبان‘‘(۲)
’’وعفا الشارع عن قدر الدرہم وإن کرہ تحریماً فیجب غسلہ وما دونہ تنزیہا فیسن وفوقہ مبطل فیفرض … أشارہ إلی أن العفو عنہ بالنسبۃ إلی صحۃ الصلاۃ بہ فلا ینافي الإثم‘‘(۳)
(۱) ابن عابدین، رد المحتار مع الدر المختار، ’’کتاب الطہارۃ: مطلب في أحکام الدباغۃ، باب المیاہ‘‘: ج ۱، ص: ۳۶۳۔
(۲) جماعۃ من علماء الہند، الفتاویٰ الہندیۃ، ’’کتاب الطہارۃ: الباب السابع في النجاسۃ وأحکامہا، الفصل الثاني: في الأعیان النجسۃ، النوع الثاني الخففۃ‘‘: ج ۱، ص: ۱۰۳۔
(۳) ابن عابدین، رد المحتار مع الد المختار، ’’کتاب الطہارۃ: باب الأنجاس‘‘: ج ۱، ص: ۵۲۰۔
فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج3ص43
طہارت / وضو و غسل
الجواب وباللہ التوفیق: اٹیچ باتھ روم کا رواج آج کل عام ہے اور بظاہر غسل خانہ میں نجاست بھی نہیں ہوتی؛ اس لیے اس طرح کے باتھ روم میںوضو کرنا اور اس وضو سے نماز ادا کرنا بالکل درست ہے: کما قال ابن نجیم : أن لا یتوضأ في المواضع النجسۃ لأن لماء الوضوء حرمۃً کذا في المضمرات (۲) والتوضؤ في مکان طاہر لأن لماء الوضوء حرمۃ۔(۳)
(۲) ابن نجیم، البحر الرائق شرح کنز الدقائق، باب سنن الوضوء، ج۱، ص:۳۰
(۳) جماعۃ من علماء الہند، الفتاویٰ الہندیۃ،’’کتاب الطہارۃ، الباب الأول في الوضوء، الفصل الثالث في المستحبات، و من الأدب،‘‘ ج۱، ص:۵۹
فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج3 ص157
طہارت / وضو و غسل
الجواب وباللہ التوفیق :مذکورہ شخص کے لیے پیر دھونا تو مشکل ہے، پاؤں کو دھونے کے بجائے، اس پر ہاتھ بھگو کر مسح کر نا چاہیے۔(۱)
(۱) و یمسح نحو مفتصد وجریح علی کل عصابۃ مع فرجتھا في الأصح، قولہ علی کل عصابۃ أي علی کل فرد من أفرادھا، سواء کانت تحتھا جراحۃ وھي بقدرھا، أو زائدۃ علیھا کعصابۃ المفتصد أو لم یکن تحتھا جراحۃ أصلا بل کسرا وکي، و ھذا معنی قول الکنز کان تحتھا جراحۃ أولا، لکن إذا کانت زائدۃ علی قدر الجراحۃ فإن ضرہ الحل والغسل مسح الکل تبعاً، و إلا فلا۔ (ابن عابدین، رد المحتار، ’’کتاب الطہارۃ، باب المسح علی الخفین، مطلب في لفظ کل إذا دخلت علی منکر أو معروف،‘‘ ج۱، ص:۴۷۱مکتبۃ زکریا دیوبند)؛ و یجوز أي یصح مسحھا کالغسل إن ضر و إلا لایترک وھو أي مسحھا مشروط بالعجز عن مسح نفس الموضع، فإن قدر علیہ فلا مسح علیھا۔ والحاصل لزم غسل المحل ولو بماء حار، فإن ضر مسحہ، فإن ضر مسحھا، فإن ضر سقط أصلاً۔۔۔ والرجل والمرأۃ والجنب في المسح علیھا و علی توابعھما سواء۔ (ابن عابدین ردالمحتار، ’’کتاب الطہارۃ، باب المسح علی الخفین، مطلب الفرق بین الفرض العملي والقطعي والواجب،‘‘ج۱، ص:۴۷۰-۴۷۲)
فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج3 ص260
طہارت / وضو و غسل
الجواب وباللّٰہ التوفیق:ایسا شخص جس کو پانی ملنے کی امید ہو اس کے لیے مستحب ہے کہ نماز کو اخیر وقت تک موخر کرے، لیکن اگر اس نے تیمم کرکے نماز پڑھ لی تو تیمم کی اہلیت ہونے کی وجہ سے نماز درست ہوجائے گی بشرطیکہ مصلی اور پانی کے درمیان کم از کم ایک میل یا زیادہ کا فاصلہ ہو۔
و ندب لراجیہ رجاء قویا آخر الوقت المستحب ولو لم یؤخر و تیمم و صلی جاز، إن کان بینہ و بین الماء میل و إلا لا۔(۲)
(۲)ابن عابدین، الدر المختار مع الرد، ’’کتاب الطہارۃ، باب التیمم، مطلب في الفرق بین الظن و غلبۃ الظن‘‘ ج۱، ص:۱۸-۴۱۷؛ و الطحطاوي، حاشیۃ الطحطاوي علی المراقي،’’ کتاب الطہارۃ، باب التیمم‘‘ ج۱، ص:۱۲۲
فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج3 ص359
نماز / جمعہ و عیدین
الجواب و باللہ التوفیق: مذکورہ صورت میں جن لوگوں نے رکوع کیا ہی نہیں؛ بلکہ بغیر رکوع امام کے ساتھ سجدے میں چلے گئے ان حضرات کی نماز نہیں ہوئی از سرِ نو اپنی اپنی نماز ادا کریں(۱) ان لوگوں میں جو مسافر ہیں وہ جب قضا کریں تو قصر قضا کریں۔(۲)
(۱) لورکع إمامہ فرکع معہ مقارنا أو معاقباً وشارکہ فیہ أو بعدما رفع منہ فلو لم یرکع أصلا أو رکع ورفع قبل أن یرکع إمامہ ولم یعدہ معہ أو بعدہ بطلت صلاتہ۔ (ابن عابدین، رد المحتار علی الدر المختار، ’’کتاب الصلاۃ، باب صفۃ الصلاۃ، واجبات الصلاۃ، مطلب مہم في تحقیق متابعۃ الإمام‘‘: ج۲، ص: ۱۶۶)
(۲)وإن اقتدی مسافر بمقیم أتم أربعا وان أفسدہ یصلي رکعتین۔ (جماعۃ من علماء الہند، الفتاویٰ الہندیۃ، ’’کتاب الصلاۃ، الباب الخامس عشر في صلاۃ المسافر‘‘: ج۱، ص: ۲۰۲)
فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج5 ص472
نماز / جمعہ و عیدین
الجواب وباللہ التوفیق: وتر کے بعد جو چاہے نماز پڑھے کوئی مخالفت نہیں ہے، ہاں صبح صادق کے بعد طلوع آفتاب تک نوافل مکروہ ہیں۔(۱)
(۱) لا صلاۃ بعد الصبح حتی ترتفع الشمس۔ (أخرجہ البخاري في صحیحہ، ’’کتاب مواقیت الصلاۃ: باب لا تتحری الصلاۃ قبل غروب الشمس،‘‘:ج۱، ص ۸۲، ۸۳ رقم، ۵۶۱)
فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج6 ص310
نماز / جمعہ و عیدین
الجواب وباللّٰہ التوفیق: عشاء کے فرض کے بعد دو سنت مؤکدہ ہیں اس کے بعد چار رکعت یا دو رکعت نفل مستحب ہیں اس کے بعد وتر پڑھے وتر کے بعد نفل نہیں ہے جیسا کہ متوارث ہے۔ یعنی ان کے پڑھنے کا حکم نہیں ہے اگر پڑھنا چاہے تو پڑھ لے۔(۲)
(۲)(الوتر إلی آخر اللیل لواثق بالانتباہ) وإلا فقبل النوم، فإن فاق وصلی نوافل والحال أنہ، أول اللیل) فإنہ الأفضل قولہ: وتأخیر الوتر إلخ) أی یستحب تأخیرہ، لقولہ صلی اللہ علیہ وسلم: من خاف أن لایوتر من آخر اللیل فلیوتر أولہ،) ومن طمع أن یقوم آخرہ فلیوتر آخر اللیل، فإن صلاۃ آخر اللیل مشہودۃ وذلک أفضل)، رواہ مسلم والترمذی وغیرہا۔
وتمامہ فی الحلیۃ. وفی الصحیحین: اجعلوا آخر صلاتکم باللیل وترا والأمر المندب بدلیل ما قبلہ، بحر۔
قولہ: فإن فاق إلخ) أی إذا أوتر قبل النوم ثم استیقظ یصلی ما کتب لہ، ولاکراہۃ فیہ بل ہو مندوب، ولا یعید الوتر،) لکن فاتہ الأفضل المفاد تحدیث الصحیحین، إمداد۔
ولا یقال: إن من لا یثق بالانتباہ فالتعجیل في حقہ أفضل، کما فی الحانیۃ، فإذا انتبہ بعدما عجل یتنقل ولاتفوتہ الأفضلیۃ: لأن نقول: المراد بالأفضلیۃ فی الحدیث السابق ہی المترتبۃ علی ختم الصلاۃ بالوتر وقد فاتت، والتی حصلہا ہی أفضلیۃ التعجیل عند خوف القوات علی التأخیر، فافہم وتأمل۔ (ابن عابدین، رد المحتار، ج۱، ص۳۶۹)
فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج6 ص419
طہارت / وضو و غسل
Ref. No. 874 Alif
الجواب وباللہ التوفیق
بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ 1۔ مقیم (غیرمسافر) کے لئے ایک دن ایک رات (24 گھنٹے) اور مسافر شرعی کے لئے تین دن تین رات خفین پر مسح کرنے کی شرعا اجازت ہے۔ عن المغیرۃ قال آخرغزوۃ غزونا مع رسول اللہ ﷺ امرنا ان نمسح علی خفافنا للمسافر ثلثلۃ ایام ولیالیھن وللمقیم یوم و لیلۃ (الطبرانی) الدرایۃ فی تخریج احادیث الھدایۃ ج 1 ص56
2۔ جن چیزوں سے وضو ٹوٹ جاتا ہے ان تمام چیزوں سے مسح بھی ٹوٹ جاتا ہے اس لئے جب سوگیا تو وضو کے ساتھ مسح بھی ٹوٹ گیا، اگر وضو کیا مسح نہیں کیا تو وضو درست نہیں ہوگا۔ وینقض المسح کل شیئ ینقض الوضوء لانہ بعض الوضوء ۔ الھدایۃ ج1 ص59
3۔ جو موزہ چمڑے کا نہ ہو لیکن ایسا موٹا اور دبیز ہو کہ پیر کی کھال نظر نہ آتی ہو، اور اس میں پانی نہ چھنتاہو اور اس کو پہن کر بغیرجوتے کےمیل بھر چلنا بھی دشوار نہ ہو تو ایسے موزہ پر بھی مسح کرنے کی شرعا اجازت ہے۔ کیونکہ اصل میں چمڑے کے موزے پر مسح کرنا جائز ہے اسلئے یہ شرطیں اگر کسی اور موزے میں پائی جائیں تو وہ خفین کے مشابہ ہوگا اور اس پر بھی مسح درست ہوگا۔ ولایجوز المسح علی الجوربین عند ابی حنیفۃ الاان یکونا مجلدین او منعلین وقالا یجوز اذا کانا ثخینین لایشفان لماروی ان النبی ﷺ مسح علی جوربیہ۔۔۔۔۔۔۔ وعنہ انہ رجع الی قولھما وعلیہ الفتوی ۔ الھدایہ ج1 ص 61
4۔ جوتا نکالے بغیر جوتے پر مسح کرنے سے خفین پر مسح شمار نہ ہوگا، کیونکہ جوتا پیر وں کا بدل کا نہیں بن سکتا۔لہذا جوتا نکال کر خفین پر ہی مسح کرنا ضروری ہوگا۔ اگر کوئی خفین پر مسح کرکے جوتے پر بھی مسح کرلے تو اس میں حرج نہیں لیکن صرف جوتوں پر مسح کرنا اور خفین پر مسح ترک کردینا درست نہیں۔ عن المغیرۃ ابن شعبۃ قال توضآ النبی ﷺ ومسح علی الجوربین والنعلین۔ ترمذی ج1ص29،۔ ولوکان الجرموق (الخف الذی یلبس فوق الخف) من کرباس لایجوز المسح علیہ لانہ لایصلح بدلا عن الرجل الا ان تنفذ البلۃ الی الخف ۔ الھدایۃ ج1 ص 61۔
واللہ اعلم بالصواب
دارالافتاء
دارالعلوم وقف دیوبند
زکوۃ / صدقہ و فطرہ
Ref. No. 37 / 1069
الجواب وباللہ التوفیق
بسم اللہ الرحمن الرحیم: مزدوری وغیرہ سب کچھ کی ادائیگی کے بعد جو غلہ بچ جاتا ہے اس میں سے عشر نکالا جائے گا۔ اور دوسرے مسئلہ میں زید اپنی زمین کا کرایہ دس ہزار وصول کرے گا، اور اس کی زکوۃ نکالے گا اگر وہ صاحب نصاب ہوگیا۔ اور عمر اس زمین میں سے جو کچھ کمائے گا، وہ کرایہ وغیرہ ادا کرنے کے بعد جو اس کا مال بچے گا اس میں زکوۃ نکالے گا۔ لہذا صورت مسئولہ میں عمر صرف بیس ہزار کا عشر نکالے گا نہ کہ کل پیداوار کا۔ واللہ اعلم بالصواب
دارالافتاء
دارالعلوم وقف دیوبند