Frequently Asked Questions
نماز / جمعہ و عیدین
Ref. No. 2162/44-2272
بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ قرآت قرآن کے وقت بعض الفاظ میں ہونٹ کی جنبش ضروری ہے، ہونٹ کی حرکت کے بغیر وہ الفاظ ادا نہیں ہوتے، تاہم ہونٹ کی حرکت کا محسوس ہونا دوسری چیز ہے، ہلکی سی حرکت میں دوسروں کو ممکن ہے محسوس نہ ہو، اس لئے اگر امام صاحب کہتے ہیں کہ میں قرات کرتاہوں تو اس میں ان کی ہی بات درست مانی جائے گی، اس لئے آپ ان کے پیچھے نماز پڑھ سکتے ہیں اور باقی لوگ بھی ان کے پیچھے نماز پڑھیں۔ سب کی نماز درست ہوگی اور اگر خدانخواستہ امام صاحب ہی غلطی پر ہیں تو ان کی بھی نماز خراب ہو گی اور تمام مصلین کی بھی، اور سب کا گناہ ان کے سر ہوگا۔ اس لئے امام صاحب بھی اس میں احتیاط برتیں اور قرات میں اس قدر آواز پیداکریں کہ وہ خود سن سکیں تو بہتر ہے۔
واللہ اعلم بالصواب
دارالافتاء
دارالعلوم وقف دیوبند
Islamic Creed (Aqaaid)
Ref. No. 2237/44-2372
In the name of Allah the most Gracious the most Merciful
The answer to your question is as follows:
One must keep in mind that whispers are usually caused by satanic influences, the devil makes the believer suffer from various and doubts, and you need not worry about the whispers which are not in your control. When a whisper comes, do not give it a space, rather repel it immediately and get engaged in the remembrance of Allah. Where there is wealth of faith, Satan's attack will also be there. So, the occurrence of whispers in this way has been described as a sign of faith in the hadith. So when a whisper comes, do not pay attention to it at all, do not act on it, and do not express it to people. However, Performing the prayers in congregation on time with all etiquettes, frequent remembrance of Allah and Durood Sharif, following the Sunnah in every action, reciting the holy Qur'an morning and evening, meditation and accounting are the key foundations of loving God and following the Prophet (saws).
And Allah knows best
Darul Ifta
Darul Uloom Waqf Deoband
حج و عمرہ
Ref. No. 2417/45-3667
بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ دوران حج اگر کسی کا انتقال ہوجائے اور اس نے کوئی وصیت نہ کی ہو تو اس کی طرف سے حج بدل لازم وضروری نہیں ہے۔ اگر اولاد میں سے کوئی اس کی طرف سے حج بدل کرنا چاہے تو مستقل حج کی نیت سے کرے گا، حج افراد، حج تمتع و قران میں سے کوئی بھی کرے۔ لیکن سوال میں مذکور صورت کہ باپ جو ارکان اداکرچکاہے اس کے بعد کے ارکان کوئی ادا کرے یہ درست نہیں ہے۔ مثلا وقوف عرفہ کے بعد کسی کا انتقال ہوگیا اور آپ اس کے بعد کے ارکان اداکریں تو یہ حج بدل نہیں کہلائے گا۔
واللہ اعلم بالصواب
دارالافتاء
دارالعلوم وقف دیوبند
ربوٰ وسود/انشورنس
Ref. No. 2460/45-3771
بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ پینشن کی رسیدیں اور بینک کے چیک خریدنے سے کیا مراد ہے، اور خریداری کے بعد کمیشن لینے کا کیا مطلب ہے، یہ چیزیں سوال میں واضح نہیں ہیں، سائل پر لازم ہے کہ پہلے اس کاروبار کی مکمل تفصیل تحریر کرے، پھر تفصیلی جواب لکھاجائےگا۔
واللہ اعلم بالصواب
دارالافتاء
دارالعلوم وقف دیوبند
بدعات و منکرات
الجواب وباللّٰہ التوفیق:صورت مسئول عنہا میں اگر لوگ اتنی دیر مسجد میں رہتے ہیں کہ امام صاحب کی نیند میں خلل ہوتا ہے، تو امام صاحب پر لوگوں کے ساتھ بیٹھنا لازم نہیں ہے تاکہ وہ فجر کی نماز کے وقت بآسانی بیدار ہوسکیں، امام کے سونے کے لئے الگ سے جگہ کا نظم کر دیا جائے۔(۱)
(۱) حامل القرآن رایۃ الإسلام فمن أکرمہ فقد أکرمہ اللّٰہ ومن أہانہ فعلیہ لعنۃ اللّٰہ۔ (علاؤ الدین علي بن حسام الدین، کنز العمال: ج ۳، ص: ۱۳۹)
فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج2ص351
طہارت / وضو و غسل
الجواب وباللّٰہ التوفیق: گوشت پر اگر خون لگا ہوا تھا اور اس کو پانی میں ڈالا تو پانی ناپاک ہو جائے گا، اس سے وضو وغسل درست نہیں اور اس سے کپڑا دھونا بھی درست نہیں ہے؛ تاہم اگر اس پر خون نہیں تھا، تو گوشت پاک ہے اس کو پانی میں ڈالنے سے پانی ناپاک نہیں ہوگا۔
’’الدم الملتزق باللحم إن کان ملتزقاً من الدم السائل بعد ما سال کان نجساً وإن لم یکن ملتزقاً من الدم السائل لم یکن نجساً وروی المعلی عن أبي یوسف: أن غسالۃ الدم إذا أصابت الثوب لم تجز الصلوٰۃ فیہ وإن صب في بئر یفسد الماء یرید بہ الدم الذي بقی في اللحم ملتزماً بہ ولو طبخ اللحم‘‘ (۱)
’’لا یفسد الثوب الدم الذي یبقی في اللحم لأنہ لیس بمسفوح‘‘(۲)
(۱) برہان الدین محمود بن أحمد، المحیط البرہاني في الفقہ النعماني، ’’کتاب الطہارات: الفصل السابع: في النجاسات وأحکامہا، الأول في معرفۃ الأعیان النجسۃ، وحدہا‘‘: ج ۱، ص: ۱۸۹۔(بیروت، دارالکتب العلمیۃ، لبنان)
(۲) جماعۃ من علماء الہند، الفتاویٰ الہندیۃ، ’’کتاب الطہارۃ، الفصل الأول: في تطہیر الأنجاس‘‘: ج ۱، ص: ۴۶۔
فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج3ص38
طہارت / وضو و غسل
الجواب وباللّٰہ التوفیق:مسلمان حکیم کی طرف رجوع کیجئے، اگر وہ یہ کہے کہ وضو کرنے سے تکلیف بڑھ سکتی ہے، پانی نقصان دے گا تو تیمم کر سکتے ہیں، وضو بیٹھ کر کرنا مشکل ہے، تو اس کا حل یہ ہے کہ دوسرا آدمی وضو کرا دے۔(۱)
(۱) من عجز عن استعمال الماء لبعدہ میلاً أو لمرض یشتد أو یمتد بغلبۃ ظن أو قول حاذق مسلم ولو بتحرک، أو لم یجد من یوضّئہ، فإن وجد ولو بأجرۃ مثل، ولہ ذلک لا یتیمم في ظاھر المذھب۔ (ابن عابدین، الدرالمختار مع الرد، ’’باب التیمم‘‘ج ۱، ص:۹۷-۹۶-۳۹۵) ؛ والثانی: المرض، و رخصہ کثیرۃ: التیمم عند الخوف علی نفسہ، أو علی عضوہ أو من زیادۃ المرض أو بطوء ہ۔ (ابن نجیم، الأشباہ والنظائر، ’’القاعدۃ الرابعہ: ألمشقۃ تجلب التیسیر‘‘ص:۲۲۷) ؛ ویتیمم المسافر ومن ھو خارج المصر لبعدہ عن الماء میلاً أو لمرض خاف زیادتہ أو بطء برئہ۔(ابراہیم بن محمد، ملتقی الأبحر، ’’باب التیمم‘‘ج۱، ص:۵۸، بیروت: دارالکتب العلمیۃ، لبنان)؛و فإن وجد خادما أو ما یستأجر بہ أجیراً، أو عندہ من لو استعانہ بہ أعانہ، فعلی ظاھر المذھب: أنہ لا یتیمم؛ لأنہ قادر۔ ( جماعۃ من علماء الہند، الفتاویٰ الہندیہ، کتاب الطہارۃ، الباب الرابع: في التیمم، ومنھا عدم القدرۃ علی الماء، ج۱، ص: ۸۱)
فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج3 ص356
نماز / جمعہ و عیدین
الجواب وباللہ التوفیق: صفوف کو پُر کرنا مسنون ہے اور سوال میں ذکر کردہ صورت انفصال کی نہیں ہے اس لیے نماز تیسری منزل والوں کی بھی درست ہوگئی البتہ ایسا کرنا خلافِ سنت ہے۔(۲)
(۲) عن النبي صلی اللّٰہ علیہ وسلم قال: سوّوا صفوفکم فإن تسویۃ الصفوف من إقامۃ الصلاۃ۔ (أخرجہ البخاري في صحیحہ، ’’کتاب الأذان، باب إقامۃ الصف من تمام الصلاۃ‘‘: ص: ۱۵۰، رقم:۷۲۳)
عن أنس بن مالک رضی اللّٰہ عنہ قال: قال رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم: سوّوا صفوفکم فإن تسویۃ الصف من تمام الصلاۃ۔ (أخرجہ المسلم في صحیحہ، کتاب الصلاۃ، باب تسویۃ الصفوف و إقامتھا، و فضل الأوّل فالأوّل منھا، ج۱، ص۱۸۲، رقم:۴۳۳)
فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج5 ص467
نماز / جمعہ و عیدین
الجواب وباللہ التوفیق:صورت مسئولہ میں جب آفتاب طلوع ہو جائے اور زردی زائل ہو جائے یعنی سورج کم از کم ایک نیزہ کی مقدار بلند ہو جائے جس کا اندازہ فقہاء کرام نے تقریباً دس منٹ سے لگایا ہے اور سورج میں اتنی روشنی آ جائے کہ نظر اس پر ٹھہر نہ سکے تو مکروہ وقت ختم ہو جاتا ہے اس کے بعد پڑھی جانے والی نماز درست ہو جاتی ہے؛ البتہ بہتر ہے کہ جب سورج دو نیزے کی مقدار بلند ہو جائے یعنی سورج طلوع ہونے سے بیس منٹ کے بعد نماز پڑھی جائے۔ نیز طلوع آفتاب کے وقت پڑھی گئی نفل نماز تو کراہتِ تحریمی کے ساتھ ادا ہو جاتی ہے؛ البتہ اگر فرض یا واجب نماز پڑھی گئی تو اعادہ لازم ہے۔
’’وقت الفجر من الصبح الصـادق وہو البیاض المنتشر فی الأفق إلی طلوع الشمس‘‘(۱)
’’ثلاثۃ أوقات لا یصح فیہا شيء من الفرائض والواجبات التي لزمت في الذمۃ قبل دخولہا أي الأوقات المکروہۃ أولہا عند طلوع الشمس إلی أن ترتفع وتبیض قدر رمح أو رمحین‘‘(۲)
’’والإسفار بالفجر مستحب سفرا وحضرا للرجال‘‘(۳)
’’ثلاث ساعات لاتجوز فیہا المکتوبۃ ولا صلاۃ الجنازۃ ولا سجدۃ التلاوۃ، إذا طلعت الشمس حتی ترتفع، وعند الانتصاف إلی أن تزول، وعند إحمرارہا إلی أن تغیب إلا عصر یومہ ذلک، فإنہ یجوز أداؤہ عند الغروب۔ ہکذا في فتاوی قاضي خان قال الشیخ الإمام أبو بکر محمد بن الفضل: ما دام الإنسان یقدر علی النظر إلی قرص الشمس فہي في الطلوع۔ کذا في الخلاصۃ۔ ہذا إذا وجبت صلاۃ الجنازۃ وسجدۃ التلاوۃ في وقت مباح وأخرتا إلی ہذا الوقت، فإنہ لا یجوز قطعا، أما لو وجبتا في ہذا الوقت وأدیتا فیہ جاز؛ لأنہا أدیت ناقصۃ کما وجبت۔ کذا في السراج الوہاج وہکذا في الکافي والتبیین، لکن الأفضل في سجدۃ التلاوۃ تأخیرہا وفي صلاۃ الجنازۃ التأخیر مکروہ۔ ہکذا في التبیین ولایجوز فیہا قضاء الفرائض والواجبات الفائتۃ عن أوقاتہا کالوتر۔ ہکذا في المستصفی والکافي‘‘(۱)
(۱) جماعۃ من علماء الہند، الفتاویٰ الہندیۃ، ’’کتاب الصلاۃ، الباب الأول في المواقیت ومایتصل بہا، الفصل الأول: في أوقات الصلاۃ‘‘: ج ۱، ص: ۱۰۷۔
(۲) أحمد بن محمد، حاشیۃ الطحطاوي علی مراقي الفلاح، ’’کتاب الصلاۃ، فصل في الأوقات المکروہۃ‘‘: ج ۱، ص: ۱۸۵، ۱۸۶۔
(۳) حسن بن عمار، مراقي الفلاح شرح نور الایضاح، ’’کتاب الصلاۃ‘‘: ص: ۷۱۔
(۱) جماعۃ من علماء الہند، الفتاویٰ الہندیۃ، ’’کتاب الصلاۃ، الباب الأول في المواقیت وما یتصل بہا، الفصل الثالث: في بیان الأوقات التي لاتجوز فیہا الصلاۃ وتکرہ فیہا‘‘: ج ۱، ص: ۱۰۸۔
فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج4 ص113
نماز / جمعہ و عیدین
الجواب وباللّٰہ التوفیق: اگر نمازی نے امام کی اقتدا میں بھول کر تشہد کے بجائے درود پڑھ لیا ہے توبھی امام کے ساتھ اپنی نماز پوری کرے، اس کی نماز بلا کراہت درست ہوگئی ہے مقتدی کی غلطی سے مقتدی یا امام پر سجدۂ سہو لازم نہیں ہوتا۔(۲)
(۱) لا یلزم سجود السہو بسہو المقتدي لاعلیہ ولا علی إمامہ۔ (الحلبي، الأنہر في شرح ملتقی الأبحر،’’کتاب الصلاۃ، باب سجود السھو‘‘ ج۱، ص: ۲۲۲)
ومقتد بسہو إمامہ إن سجد إمامہ لوجوب المتابعۃ لاسہوہ أصلاً۔ (ابن عابدین، رد المحتار، ’’ باب سجود السھو‘‘: ج۲، ص: ۵۴۶)
فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج6 ص84