نماز / جمعہ و عیدین

الجواب وباللہ التوفیق: (۱) حرمین شریفین میں حنفی حضرات کے لیے حنبلی طریقہ کے مطابق جماعت کے ساتھ وتر کی نماز درست ہے، یہ مسئلہ اجتہادی ہے اور بعض ائمہ احناف نے اس کی اجازت دی ہے؛ اس لیے حرمین میں اس پر عمل کرنے کی گنجائش ہے۔
’’لو اقتدی حنفي بشافعي في الوتر وسلم ذلک الشافعي الإمام علی الشفع الأول علی وفق مذہبہ، ثم أتم الوتر، صح وتر الحنفي عند أبي بکر الرازي و ابن وہبان‘‘(۱)
حضرت علامہ انور شاہ کشمیری نے حضرت شیخ الہند کی یہی رائے نقل کی ہے کہ ان کے پیچھے اقتداء کرنا جائز ہے۔
’’و لا عبرۃ بحال المقتدي وإلیہ ذہب الجصاص وھو الذي اختارہ لتوارث السلف اقتداء أحدہم بالأخر بلا نکیر مع کونہ مختلفین في الفروع، وکان مولانا شیخ الہند محمود الحسن، أیضاً: یذہب إلی مذہب الجصاص‘‘(۲)

(۲)حرمین میں جو قیام اللیل کی نماز جماعت کے ساتھ ادا کی جاتی ہے حنفی شخص کے لیے اس میں شامل ہونا درست ہے؛ اس لیے کہ جو ائمہ امامت کرتے ہیں ان کے مذہب میں وہ نماز مشروع ہے مکروہ نہیں۔ ’’أما النوافل فمنہا ما تسن فیہ الجماعۃ وذلک کصلاۃ الاستسقاء والتراویح والعیدین ومنہا ما تباح فیہ الجماعۃ، کصلاۃ التہجد ورواتب الصلوات المفروضۃ‘‘(۱)
(۳) نفل یا تہجد کی نماز رمضان میں یا غیر رمضان میں جماعت کے ساتھ مکروہ ہے؛ اس لیے کہ احناف کے یہاں نفل کی جماعت نہیں ہے ہاں اگر بغیر تداعی کے جماعت ہو اس طور پر کہ دو تین لوگ شریک ہو جائیں، تو درست ہے اور تداعی کے ساتھ نفل کی جماعت مکروہ ہے اور چار یا چار سے زائد افرا د کا ہونا یہ تداعی ہے۔
’’ولا یصلي الوتر و لا التطوع بجماعۃ خارج رمضان، أي یکر ہ ذلک علی سبیل التداعي، بأن یقتدي أربعۃ بواحد۔ و في الشامیۃ: و أما إقتداء واحد بواحد أو اثنین بواحد فلا یکرہ، و ثلاثۃ بواحد فیہ خلاف‘‘(۲)

(۱) البنوري، معارف السنن:’’أبواب الوتر، تفصیل المذاہب في عدد رکعات الوتر‘‘ ج ۴، ص: ۱۷۰، کراچی۔)
(۲) الکشمیري، فیض الباري: ج ۱، ص: ۳۵۲۔)
(۱) الجزیري، الفقہ علی المذاہب الأربعۃ، ’’باب ھل تصح امامۃ الصبي‘‘: ج ۱، ص: ۳۷۱۔
(۲) الحصکفي، الدرالمختار مع رد المحتار، ’’کتاب الصلاۃ: باب الوتر، و النوافل، مطلب في کراہۃ الاقتداء في النفل علی سبیل التداعي الخ‘‘: ج ۲، ص: ۵۰۰۔

 

فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج6 ص316

نماز / جمعہ و عیدین

الجواب وباللّٰہ التوفیق: تہجد کا وقت صبح صادق سے پہلے پہلے رہتا ہے۔
’’وأید بما في معجم الطبراني من حدیث الحجاج بن عمرو رضي اللّٰہ عنہ قال: بحسب أحدکم إذا قام من اللیل یصلي حتی یصبح أنہ قد تہجد، إنما التہجد المرء یصلي الصلاۃ بعد رقدۃ‘‘(۱)

(۱) ابن عابدین، رد المحتار، ’’کتاب الصلاۃ، باب الوتر والنوافل، مطلب في صلاۃ اللیل‘‘: ج ۲، ص: ۴۶۷، زکریا دیوبند۔)

 

فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج6 ص424

 

تجارت و ملازمت

Ref. No. 37/1087

الجواب وباللہ التوفیق                                                                                                                                                        

بسم اللہ الرحمن الرحیم:مکمل پردہ کے ساتھ جس  میں مردوں کے ساتھ اختلاط نہ ہو، راستہ بھی مامون ہو نیز مسافت شرعی سے کم ہو تو اس طرح کی نوکری و تجارت کی گنجائش ہوسکتی ہے۔ تاہم عورتوں کا اس فتنہ کے دور میں گھر سے باہر نکلنا بہت سارے مفاسد کا پیش خیمہ ہے۔ اور ایسے حالات میں حدیث میں عورتوں کو اپنے گھروں میں ہی رہنے کی تاکید  کی گئی ہے۔ واللہ اعلم بالصواب

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند

Islamic Creed (Aqaaid)

Ref. No. 40/865

In the name of Allah the most Gracious the most Merciful

The answer to your question is as follows:

Doing Musafaha with Ghair-Mahram women is totally unacceptable in Islam.

And Allah knows best

Darul Ifta

Darul Uloom Waqf Deoband

 

نماز / جمعہ و عیدین

Ref. No. 993/41-156

الجواب وباللہ التوفیق 

بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ غیر فرض جو بھی نماز ہے وہ شروع کرنے کے بعد اگر فاسد ہوجائے تو اس کی قضاء  لازم ہوتی ہے۔

ولزم نفل شرع فیہ بتکبیرۃ الاحرام او بقیام الثالثۃ شروعا صحیحا (درمختار مع رد المحتار) ای لزم المضی فیہ حتی اذا افسدہ لزم قضاءہ (رد المحتار، باب الوتر والنوافل)

واللہ اعلم بالصواب

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند

زکوۃ / صدقہ و فطرہ

Ref. No. 1099/42-290

الجواب وباللہ التوفیق     

بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔  زکوۃ کی رقم سے کوئی سامان خرید کر مالک بنانے سے بھی تملیک کی ضرورت پوری ہوجاتی ہے۔  البتہ اس طرح خرچ کرنا کہ نہ تو رقم کی تملیک ہو اور نہ سامان کی ، تو یہ صورت درست نہیں ہے۔ بچیوں کی شادی میں جو کچھ بچی کی ملکیت میں دیاجائے وہ درست ہے، مگر زکوۃ کی رقم سے باراتیوں کو کھانا کھلانا وغیرہ امور جس میں بالکل بھی تملیک نہیں ہوتی ہے، درست نہیں ہے۔

واللہ اعلم بالصواب

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند

قرآن کریم اور تفسیر

Ref. No. 1424/42-927

الجواب وباللہ التوفیق

بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔  اس طرح سوچنا غلط نہیں ہے، سمعنا منادیا للایمان کی تفسیر میں بعض مفسرین نے منادی آپﷺ کو قراردیا ہے اور بعض مفسرین نے قرآن کو منادی قراردیاہے ۔ اس طرح علماء وداعیان کو بھی منادی قراردیاجاسکتاہے۔ اور یہ تفسیر تو ماثور ہے اس کو تفسیر بالرائے نہیں کہاجائے گا۔

رَبَّنا إِنَّنا سَمِعْنا مُنادِياً يُنادِي لِلْإِيمانِ قال ابن عباس وأكثر المفسرين المنادي هو محمد صلّى الله عليه وسلّم ويدل على صحة هذا قوله تعالى: ادْعُ إِلى سَبِيلِ رَبِّكَ بِالْحِكْمَةِ وقوله: وَداعِياً إِلَى اللَّهِ بِإِذْنِهِ وقال محمد بن كعب القرظي المنادي هو القرآن قال إذ ليس كل أحد لقي النبي صلّى الله عليه وسلّم ووجه هذا لقول أن كل أحد يسمع القرآن ويفهمه فإذا وفقه الله تعالى للإيمان به فقد فاز به. وذلك لأن القرآن مشتمل على الرشد والهدى وأنواع الدلائل الدالة على الوحدانية فصار كالداعي إليها (تفسیر الخازن، سورۃ آل عمران 1/333)

واللہ اعلم بالصواب

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند

نماز / جمعہ و عیدین

Ref. No. 2033/44-2008

بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ مذکورہ عبارت کا مطلب بالکل درست ہے، مگر چونکہ قرآن  میں نہیں ہے، اس لئے احتیاطا نماز کے فساد کا حکم ہوگا۔ اس لئے نماز لوٹائی جائے گی۔

"ومنها: ذکر کلمة مکان کلمة علی وجه البدل إن کانت الکلمة التي قرأها مکان کلمة یقرب معناها وهي في القرآن لاتفسد صلاته، نحو إن قرأ مکان العلیم الحکیم، وإن کان في القرآن، ولکن لاتتقاربان في المعنی نحو إن قرأ: "وعداً علینا إنا کنا غافلین" مکان {فاعلین} ونحوه مما لو اعتقده یکفر تفسد عند عامة مشایخنا،وهو الصحیح من مذهب أبي یوسف رحمه الله تعالی، هکذا في الخلاصة". (الفتاوی الهندیة، ۱: ۸۰،، ط: المطبعة الکبری الأمیریة، بولاق، مصر)

کما حققہ ابن عابدین فی رد المحتار، باب صفة الصلاة ، قال:ان الإمام رجع إلی قولہما فی اشتراط القراء ة بالعربیة. لأن المأمور بہ قراء ة القرآن، وہو اسم للمنزل باللفظ العربی المنظوم ہذا النظم الخاص، المکتوب فی المصاحف، المنقول إلینا نقلا متواترا.

 واللہ اعلم بالصواب

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند

 

Miscellaneous

Ref. No. 2118/44-2141

In the name of Allah the most Gracious the most Merciful

The answer to your question is as follows:

Read “رب اشرح لي صدري ویسر لی امری واحلل عقدۃ من لسانی  یفقھوا قولي (سورۃ طہ آیت 25-28) “41 times, blow on the baby and then blow on the water to drink. And keep praying, in-sha Allah it will help.

And Allah knows best

Darul Ifta

Darul Uloom Waqf Deoband

 

اسلامی عقائد

الجواب وباللّٰہ التوفیق:سرور کائنات جناب محمد رسول اللہ علیہ وسلم اولادِ آدم سے ہیں اور جس طرح آدم علیہ السلام باعتبار تخلیقی عناصر بشر ہیں اور بشری صفات کھانے پینے سونے جاگنے نکاح وطلاق بیماری وصحت وغیرہ امور سے بے نیاز اور بری نہیں تھے اسی طرح آپ صلی اللہ علیہ وسلم بشر اور مذکورہ صفات سے متصف تھے۔ اور یہ صفات بشریہ نبوت کے منافی نہیں ہیں، ان کو نبوت کے منافی سمجھنا درست نہیں ہے۔ البتہ بشر ہونے کے باوجود حق جل مجدہ نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو بہت سی خصوصیات سے نوازا، اپنا حبیب اور خلیل بنایا، قرآن پاک آپ پر نازل فرمایا، ہر قسم کے گناہوں سے آپ کو معصوم رکھا، آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے صحابہ واہل بیت کو وہ درجہ دیا کہ پیغمبروں کے بعد کسی کو نہیں ملا، اور اپنی رضاء اور نجات کو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی اتباع میں منحصر کر دیا، چنانچہ انسان آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی ہدایت پر عمل کرنے سے گمراہی کی تاریکیوں سے نکل کر صراط مستقیم کی روشنی میں آجاتا ہے پھر نافرمانی کی ہلاکتوں سے بچ کر جہنم سے نجات اور جنت میں دخول کی سعادت حاصل کرتا ہے، اس لئے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم صفت نورانیت سے بھر پور متصف ہیں۔(۱)

(۱) {قُلْ إِنَّمَآ  أَنَا بَشَرٌ مِّثْلُکُمْ یُوْحٰٓی إِلَیَّ أَنَّمَآ إِلٰھُکُمْ  إِلٰہٌ وَّاحِدٌ ج} (سورۃ کہف: ۱۱۰)
{ذٰلِکَ بِأَنَّہٗ کَانَتْ تَأْتِیْہِمْ رُسُلُہُمْ بِالْبَیِّنٰتِ فَقَالُوْٓا أَبَشَرٌ یَّھْدُوْنَنَاز فَکَفَرُوْا وَتَوَلَّوْا وَّاسْتَغْنَی اللّٰہُ ط} (سورۃ التغابن: ۶)
عن أم سلمۃ رضی اللّٰہ تعالیٰ عنہا قالت: قال رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم: إنکم تختصمون إليّ وإنما أنا بشر۔ (أخرجہ الترمذي، في سننہ، ’’أبواب الأحکام، باب ما جاء في الشدید علی من یقضی لہ الخ‘‘: ج ۱، ص: ۲۴۸، رقم:۱۳۳۹)
وقد أرسل اللّٰہ تبارک وتعالیٰ رسلا من البشر إلی البشر مبشرین لأہل الإیمان والطاعۃ بالجنۃ والثواب، ومنذرین لأہل الکفر والعصیان بالنار والعقاب۔ (علامہ سعد الدین تفتازاني، شرح العقائد النسفیۃ، ’’محبث النبوّات‘‘: ص: ۱۳۳)

فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج1 ص 208