Frequently Asked Questions
تجارت و ملازمت
Ref. No. 1083/41-255
الجواب وباللہ التوفیق
بسم اللہ الرحمن الرحیم :۔ مدت اجارہ میں جو تنخواہ ملازم کو دی جارہی ہے اس سے زائد کے مطالبہ کا وہ شرعا مستحق نہیں ہے، البتہ اضافہ کی درخواست کرنے میں حرج بھی نہیں ہے۔ تاہم اجارہ کی مدت پورا ہونے کے بعد اگلے دورانیہ کے لئے تنخواہ میں اضافہ کا مطالبہ کرنا درست ہے۔
واللہ اعلم بالصواب
دارالافتاء
دارالعلوم وقف دیوبند
زکوۃ / صدقہ و فطرہ
Ref. No. 1304/42-661
الجواب وباللہ التوفیق
بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ دو لاکھ روپئے کی زکوۃ پانچ ہزار روپئے ہوتے ہیں (زکوۃ ڈھائی فی صدواجب ہوتی ہے)۔ عورت کے زیورات کی زکوۃ کی ادائیگی خودعورت پر لازم ہے، تاہم اگر اس کا شوہر ادا کردے توبھی ادائیگی درست ہوجائے گی ۔ اگر نقد روپئے کا نظم نہیں ہے تو سونا یا چاندی میں سے تھوڑا سا بیچ کر زکوۃ ادا کریں۔ اور اس کی آسان صورت یہ ہوسکتی ہے کہ سال پورا ہونے پر جو مقدار زکوۃ واجب ہوئی ہے اس کو لکھ لیا جائے اور جب کبھی سو پچاس کسی مانگنے والے یا غریب کو دے تو اس میں زکوۃ کی نیت کرلے اور اس کو لکھ لے اس طرح سال کے پورا ہونے پر دیکھے کہ کس قدر رقم زکوۃ میں ادا ہوچکی ہے۔ اور جو باقی رہ جائے اس وقت ادا کردی جائے، اس طرح آسانی سے زکوۃ ادا ہوجائے گی۔
(وشرطه) أي شرط افتراض أدائها (حولان الحول) وهو في ملكه (وثمنية المال كالدراهم والدنانير) لتعينهما للتجارة بأصل الخلقة فتلزم الزكاة كيفما أمسكهما ولو للنفقة (أو السوم) بقيدها الآتي (أو نية التجارة) في العروض (شامی 2/267)
واللہ اعلم بالصواب
دارالافتاء
دارالعلوم وقف دیوبند
طلاق و تفریق
متفرقات
Ref. No. 2225/44-2360
بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ حضرت جابر ؓ کی روایت ہے جس میں ایک انصاری صحابی کو تیر لگنے کا واقعہ مذکور ہے۔ اور وہ انصاری صحابی 'عبادہ بن بشر یا عمارہ بن حزم ہیں۔ اور مہاجر صحابی کا نام عمار بن یاسر ۔ یہ روایت حضرت جابر ؓسے مروی ہے اور ابوداؤد میں موجود ہے ، اور محشی نے نام کی صراحت کی ہے۔ ۔ دیکھئے سنن ابی داؤد، باب الوضوء من الدم،ص 26 مکتبہ نعیمیہ دیوبند۔
واللہ اعلم بالصواب
دارالافتاء
دارالعلوم وقف دیوبند
کھیل کود اور تفریح
Ref. No. 2412/44-3637
بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ اگرزمین خالی پڑی ہے اور گزرنے سے زمین والے کا کوئی نقصان نہیں ہے، تو عرفا اس کی زمین سے گزرنے کی اجازت ہوتی ہے، اس لئے مختصر راستہ اپناتے ہوئے اس زمین سے گزرنے میں کوئی حرج نہیں ہے، اور اگر کسی طرح کا نقصان ہو یا صاحب زمین کی طرف سے عدم اجازت کی صراحت ہو تو پھر اس زمین سے گزرنا درست نہیں ہوگا۔
العادۃ محکمة: )جلال الدین سیوطی ،الاشباہ والنظائر۱؍۷،دارلکتب العلمیہ،بیروت،۱۴۱۱ھ)
الثابت بالعرف کالثابت بالنص : (محمد عمیم الاحسان،قواعد الفقہ۱/۷۴،صدف پبلیشرز،کراچی،۱۴۰۷ھ)
التعيين بالعرف كالتعيين بالنص : (محمد مصطفیٰ الزخیلی،القواعد الفقہیۃ وتطبیقاتھا فی المذاھب الاربعۃ۱/۳۴۵، دارالفکر،دمشق،۱۴۲۷ھ)
لا یجوز لأحد أن یتصرف في ملک غیرہ بلا إذنہ۔ (شرح المجلۃ لسلیم رستم باز ۱؍۶۱رقم المادۃ: ۹۶، وکذا في قواعد الفقہ ۱۱۰)
لایجوز التصرف فی مال غیرہ بغیر إذنہ ولا ولایتہ (الاشباہ و النظائر: کتاب الغصب، 98/2)
واللہ اعلم بالصواب
دارالافتاء
دارالعلوم وقف دیوبند
حدیث و سنت
الجواب وباللّٰہ التوفیق:یہ حدیث ترمذی شریف میں موجود ہے۔ امام ترمذی نے اس حدیث کو سندا ’’حسن صحیح‘‘ کہا ہے۔(۱) اس حدیث میں کلونجی کے استعمال کی ترغیب ہے۔کاروبار کے لیے اگر اس کے فضائل وترغیب کو بیان کردیا جائے، تو کوئی مضائقہ نہیں۔(۲)
(۱) أخرجہ الترمذي، في سننہ، ج۲، ص:۲۵، رقم:۱۳۸۳
(۲)عن أبي ہریرۃ رضي اللّٰہ عنہ، أن النبي صلی اللّٰہ علیہ وسلم قال: علیکم بہذہ الحبۃ السوداء، فإن فیہا شفاء من کل داء إلا السام، والسام الموت۔ (أخرجہ الترمذي، في سننہ، ’’أبواب الطب: باب ما جاء في الحبۃ السوداء‘‘: ج ۲، ص: ۲۴، رقم: ۱۳۸۳)
فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج2ص76
نماز / جمعہ و عیدین
الجواب وباللّٰہ التوفیق: مذکورہ فی السوال امام اگر واقعی طور پر ایسا ہی ہے جیسا کہ تحریر سوال میں لکھا گیا ہے، تو وہ شخص بد عقیدہ اور بدعتی ہے اس کی امامت مکروہ تحریمی ہے پس ایسے شخص کو امام نہ بنایا جائے، بلکہ کسی متقی دیندار اور پرہیز گار متبع سنت کو امام بنایا جائے، کیوں کہ مذکورہ شخص اپنی بد اعتقادی اور بدعت کی وجہ سے فاسق وفاجر ہے اور فاسق کو امام بنانا جائز نہیں ہے اور جو نماز یں اس کی امامت میں ادا ہوئی ہیں ان کا اعادہ ضروری نہیں ہے وہ نمازیں کراہت کے ساتھ ادا ہوگئی ہیں۔(۱)
(۱) وذکر الشارح وغیرہ أن الفاسق إذا تعذر منعہ یصلي الجمعۃ خلفہ وفي غیرہا ینتقل إلی مسجد آخر وعلل لہ في المعراج بأن في غیر الجمعۃ یجد إماما غیرہ۔ (ابن نجیم، البحر الرائق، ’’کتاب الصلاۃ، باب الإمامۃ‘‘: ج۱، ص: ۶۱۱)
(وکرہ إمامۃ العبد والأعرابي والفاسق والمبتدع) فالحاصل أنہ یکرہ إلخ قال الرملي: ذکر الحلبي في شرح منیۃ المصلي أن کراہۃ تقدیم الفاسق والمبتدع کراہۃ التحریم۔ (ابن نجیم، البحر الرائق، ’’کتاب الصلاۃ، باب إمامۃ العبد والأعرابي والفاسق‘‘: ج ۱، ص: ۶۱۱، ۶۱۰)
فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج5 ص118
طہارت / وضو و غسل
الجواب وباللّٰہ التوفیق:اگر وہ اس قدر معذور ہیں کہ وضو اور نماز کے بقدر بھی عذر سے خالی وقت نہیں ملتا ہے تو پھر ہر نماز کے لیے وضو کرلیں اور پیمپر بدل لیں، اور اگر پیمپر بدلنے میں کافی دشواری ہو تو بدلنا ضروری نہیں ہے، اسی نجس پیمپر میں نماز صحیح ہوجائے گی؛ لیکن اگر اتنا وقت بغیرعذر کے مل جاتا ہے جس میں وضو کرکے فرض نماز ادا کرسکیں تو پھر وہ معذور کے حکم میں نہیں ہوں گے اور ہر نماز کے لیے وضو کرنے کے ساتھ پیمپر بدلنا لازم ہوگا ورنہ نماز نہیں ہوگی۔
’’مریض تحتہ ثیاب نجسۃ، وکلما بسط شیئا تنجس من ساعتہ صلی علی حالہ وکذا لو لم یتنجس إلا أنہ یلحقہ مشقۃ بتحریکہ‘‘(۱)
(۱) ابن عابدین، الدرالمختار مع رد المحتار، ’’باب سجود التلاوۃ‘‘: ج ۲، ص: ۱۰۳۔
فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج3 ص421
نماز / جمعہ و عیدین
الجواب وباللہ التوفیق: عام حالات میں نمازپڑھنے والے کے آگے سے چھوٹی مسجدیا چھوٹے مکان میں گزرنا ناجائزہے جب تک کہ اس کے آگے کوئی آڑ نہ ہو، اوراگرنمازی کے آگے سترہ ہوتو اس آڑ کے آگے سے گزرنا جائزہے، سترے اور نمازی کے درمیان سے گزرنا جائز نہیں۔
لہٰذا چھوٹی مسجد یا محدود جگہ میں اتنے فاصلے سے بھی گزرنادرست نہیں، بلکہ نمازی کی نماز کے ختم ہونے کاانتظارکیاجائے، اس لیے کہ نمازی کے آگے سے گزرنے پر حدیث شریف میں شدید وعیدیں آئی ہیں۔
سترہ کا زمین سے چپکا ہوا اور متصل ہونا ضروری نہیں ہے، اگر دروازہ زمین سے متصل نہیں ہے اوپر کی طرف اٹھا ہوا ہے اس کو بھی سترہ بنانا درست ہے: جیسا کہ فتاویٰ محمودیہ میں ہے کہ اگر سترہ زمین سے متصل نہ ہو پھر بھی سترہ کا حکم میں ہے۔(۱)
نیز شیشہ کا دروازہ یا پلاسٹک وغیرہ کا پردہ جس سے دیکھنے والے کو بآسانی نظر آسکے تو وہ سترہ کا کام کرے گا اور نمازی کے سامنے اس دروازہ اور پردے کے بعد گزرنا جائز ہوگا۔
’’قال سعدی حلبی: یجوز أن یکون السترۃ ستارۃ معلقۃ إذا رکع أو سجد یحرکھا رأس المصلی ویزیلھا من موضع سجودہ ثم تعود إذا قام أو قعد اھ وصورتہ أن تکون الستارۃ من ثوب أو نحوہ معلقۃ فی سقف مثلاً ثم یصلی قریباً منہ فإذا سجد تقع علی ظھرہ ویکون سجودہ خارجاً عنھا، وإذا قام أو قعد سبلت علی الأرض‘‘(۱)
الدر المختار علی رد المحتار میں ہے:
(أو) مرورہ (بین یدیہ) إلی حائط القبلۃ (في) بیت و (مسجد) صغیر، فإنہ کبقعۃ واحدۃ (مطلقاً) … الخ‘‘
’’قال ابن عابدین رحمہ اللّٰہ: (قولہ: في بیت) ظاہرہ ولو کبیراً۔ وفي القہستاني: وینبغي أن یدخل فیہ أي في حکم المسجد الصغیر الدار والبیت۔ (قولہ: ومسجد صغیر) ہو أقل من ستین ذراعاً، وقیل: من أربعین، وہو المختار کما أشار إلیہ فی الجواہر، قہستاني‘‘(۲)
تقریرات الرافعی میں ہے:
’’(قولہ: ظاہرہ ولو کبیراً الخ) لکن ینبغي تقییدہ بالصغیر، کماتقدم في الإمامۃ تقیید الدار بالصغیرۃ حیث لم یجعل قدر الصفین مانعاً من الاقتداء، بخلاف الکبیرۃ‘‘(۳)
فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج5 ص454
نماز / جمعہ و عیدین
الجواب وباللّٰہ التوفیق:مذکورہ عمل درست؛ بلکہ مستحسن اورلائق ثواب ہے، ایک مرتبہ اذان کے بعد حضرت بلالؓ حضور کے پاس گئے اور دیکھا کہ آپ نیند سے بیدار نہیں ہیں تو حضرت بلالؓ نے ’’الصلاۃ خیر من النوم‘‘ کہہ کر آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو بیدار کیا تھا۔ معلوم ہوا کہ فجر کی نماز کے لیے بیدار کرنا درست ہے؛ لیکن اس کا اس قدر التزام کہ لوگوں کے دلوں سے اذان کا مقصد ہی نکل جائے درست نہیں۔
’’والتثویب في الفجر حي علی الصلاۃ حي علی الفلاح مرتین بین الأذان والإقامۃ حسن لأنہ وقت نوم وغفلۃ‘‘ (۱)
’’التثویب الذي یصنعہ الناس بین الأذان والإقامۃ في صلاۃ الفجر ’’حي علی الصلاۃ، حي علی الفلاح‘‘ مرتین حسن، وإنما سماہ محدثا لأنہ أحدث في زمن التابعین، ووصفہ بالحسن لأنہم استحسنوہ۔ وقد قال صلی اللّٰہ علیہ وسلم: ما رآہ المؤمنون حسنا فہو عند اللّٰہ حسن، وما رآہ المؤمنون قبیحا فہو عند اللّٰہ قبیح‘‘(۲)
’’]فرع[ لایجب انتباہ النائم في أول الوقت، ویجب إذا ضاق الوقت، نقلہ البیری في شرح الأشباہ عن البدائع من کتب الأصول، وقال: ولم نرہ في کتب الفروع فاغتنمہ‘‘(۳)
(۱) ابن الہمام، فتح القدیر، ’’کتاب الصلاۃ: باب الأذان‘‘: ج۱، ص: ۲۴۹، زکریا بکڈپو، دیوبند۔
(۲) الکاساني، بدائع الصنائع، ’’کتاب الصلاۃ: باب الأذان، الکلام في التثویب‘‘: ج ۱ ، ص: ۳۶۷، زکریا۔
(۳) ابن عابدین، رد المحتار، ’’کتاب الصلاۃ: باب الأذان‘‘: مطلب في تعبدہ علیہ السلام قبل البعثۃ، ج ۲، ص: ۱۳)
فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج4 ص224