Islamic Creed (Aqaaid)

Ref. No. 41/976

In the name of Allah the most Gracious the most Merciful

The answer to your question is as follows:

In this situation, the woman should wait until she is pure. However, if the days of Hajj started and she is still on her menses, she should go through all rituals except Tawaf. She must delay the Tawaf till she gets pure. Nevertheless, if she is still in menses and the departure time has arrived then she should wear sanitary pads and perform Tawafe Ziyarat which is Fard. Doing Tawafe Ziyarat in the state of menses is a Jinayat, so she must also slaughter an animal, such as camel or cow etc. in the Haram premises. She should leave all other Tawafs. And there shall be no penalty upon her for leaving Tawaf.

And Allah knows best

Darul Ifta                        

Darul Uloom Waqf Deoband

 

اسلامی عقائد

Ref. No. 41/7B

الجواب وباللہ التوفیق 

بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ یہ تمام نظریات سراسر غلط اور تاریخ سے عدم واقفیت پر مبنی ہیں۔ ان نظریات کا حامل شخص گمراہ  اور  صراط مستقیم سے ہٹا ہوا ہے۔ اس کی باتوں پر بالکل  توجہ نہ دی جائے۔   ان نظریات کی کوئی بنیاد نہیں ہے، بلکہ سب اٹکل ہے جو اس شخص نے خود سے گھڑ لئے ہیں۔ یہ نظریات  حدیث و اجماع کے خلاف ہونے کی وجہ سے مردود ہیں۔ اس شخص سے ہی ان نظریات پر ثبوت طلب کرلیں تو اس کی حقیقت سامنے آجائے گی۔  

صحاح ستہ کے حوالہ سے شیخ عبدالحق محدث دہلوی فرماتے ہیں: "چھ کتابیں جو کہ اسلام میں مشہور ہیں، محدثین کے مطابق وہ صحیح بخاری، صحیح مسلم، جامع ترمذی، سنن ابی داؤد، سنن نسائی، سنن ابن ماجہ ہیں۔ ان کتابوں میں حدیث کی جتنی قسمیں ہیں صحیح، حسن اور ضعیف، سب موجود ہیں اور ان کو صحاح کہنا تغلیب کے طور پر ہے۔" (اشعة اللمعات)۔ حاصل یہ ہے کہ نہ صحاح ستہ کی ہر حدیث صحیح ہے اور نہ اُن سے باہر کی ہر حدیث ضعیف ہے۔  لہذا چند روایات کے ضعیف ہونے کی وجہ سے سب کا انکار کردینا غلط ہے۔ 

يقول: لقد قتل عثمان وما أعلم أحدًا يتهم عليًا في قتله (اسمی المطالب فی سیرۃ علی بن ابی طالب ض1 ص440) (تاریخ ابن عساکر، ترجمۃ عثمان ص35)۔ لقد أنكر علي رضي الله عنه قتل عثمان رضي الله عنه وتبرأ من دمه، وكان يقسم على ذلك في خطبه وغيرها أنه لم يقتله ولا أمر بقتله ولا مالأ ولا رضي، وقد ثبت ذلك عنہ بطریق تفید القطع (اسمی المطالب فی سیرۃ علی بن ابی طالب ض1 ص534) (البدایۃ والنھایۃ ج7ص202)۔

حضرت معاویہ اور تاریخی حقائق کا مطالعہ مفید ہوگا۔

 واللہ اعلم بالصواب

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند

احکام میت / وراثت و وصیت

Ref. No. 977/41-133

الجواب وباللہ التوفیق 

بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔  اس سلسلہ میں اصول یہ ہے کہ صحت کے زمانے کے جتنے قرض خواہ ہیں، ان سب کو ان کے قرض  کے تناسب سے ادائیگی کیجائے گی ۔  کسی ایک کا پورا قرض چکانا اور دوسروں کو بالکل محروم کردینا درست نہیں ہے۔ اس لئے مرحومہ کی بیوی کا قرض اور اجنبی شخص کا قرض جو بھی ہو اسی تناسب سے ان دونوں میںمرحوم کا ترکہ تقسیم کردیا  جائے۔ مثلا مرحومہ کا حق مہر   دس ہزار ہے اور اجنبی کا قرض بھی دس ہزار ہے جبکہ کل ترکہ دس ہزار ہی ہے تو دونوں کو پانچ پانچ ہزار ادا کردئے جائیں گے۔ اگر وارثین میں صاحب استطاعت لوگ ہوں تو ان کو مکمل قرض کی ادائیگی میں  از راہ ہمدردی تعاون کرنا چاہئے، گوتعاون کرنا لازم نہیں۔

واللہ اعلم بالصواب

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند

سیاست

Ref. No. 1079/42-482

الجواب 
واللہ الموفق:  سیاست شریعت سے الگ کوئی چیز نہیں ہے؛ بلکہ سیاست بھی دین کا حصہ ہے اور حضرات ا نبیاء دین وسیاست کا جامع ہوتے تھے، آپ ﷺ معلم بھی تھے ، پیغامبر بھي ، ہادی ورسول اور کمانڈر بھی اس کے ساتھ مدینہ کے حاکم اور امت مسلمہ کے قائد بھی تھے ،اسلام اس معاملہ میں خصوصی امتیاز رکھتا ہےاس کی ابتدائی منزل ہی سیاست سے شروع ہوتی ہے اور اس کی تعلیم دینی و سیاسی زندگی کے ہر پہلو کو حاوی ہے، علماء کرام انبیاء کے وارث ہیں اور یہ وراثت انہیں دینی مسائل کے ساتھ ساتھ سیاسی مسائل میں بھی حاصل ہے، اس لیے علماء کو سیاست میں حصہ لینا چاہیے۔ مفتی تقی عثمانی صاحب فقہی مقالات میں لکھتے ہیں :موجودہ دور کی گندی سیاست نے الیکشن اور ووٹ کے لفظوں کو اتنا بدنام کردیا ہے کہ ان کے ساتھ مکر و فریب، جھوٹ رشوت اور دغابازی کا تصور لازم ذات ہوکر رہ گیا ہے، اسی لیے اکثر شریف لوگ اس جھنجھٹ میں پڑنے کو مناسب ہی نہیں سمجھتے اور یہ غلط فہمی تو بے حد عام ہے کہ الیکشن اور ووٹوں کی سیاست کا دین و مذہب سے کوئی واسطہ نہیں، یہ غلط فہمی سیدھے سادے لوگوں میں اپنی طبعی شرافت کی وجہ سے پیدا ہوئی ہے، اس کا منشاء اتنا برا نہیں ہے لیکن نتائج بہت برے ہیں، یہ بات صحیح ہے کہ موجودہ دور کی سیاست بلاشبہ مفاد پرست لوگوں کے ہاتھوں گندگی کا ایک تالاب بن چکی ہے، لیکن جب تک کچھ صاف ستھرے لوگ اسے پاک کرنے کے لیے آگے نہیں بڑھیں گے اس گندگی میں اضافہ ہی ہوتا چلا جائے گا، اس لیے عقلمندی کا تقاضہ یہ ہے کہ سیاست کے میدان کو ان لوگوں کے ہاتھوں سے چھیننے کی کوشش کی جائے جو مسلسل اسے گندا کررہے ہیں۔ حدیث شریف میں ہے: إن الناس إذا رأوا الظالم فلم یأخذوا علی یدیہ أوشک أن یعمہم اللّہ بعقاب (أبوداوٴد شریف: ۲/۵۹۶) اگر لوگ ظالم کو دیکھ کر اس کا ہاتھ نہ پکڑیں تو کچھ بعید نہیں کہ اللہ تعالیٰ ان سب پر اپنا عذاب عام نازل فرمائیں، اگر آپ کھلی آنکھوں دیکھ رہے ہیں کہ ظلم ہورہا ہے اور انتخابات میں حصہ لے کر اس ظلم کو کسی نہ کسی درجہ میں مٹانا آپ کی قدرت میں ہے تو اس حدیث کی رو سے یہ آپ کا فرض ہے کہ خاموش بیٹھنے کے بجائے ظالم کا ہاتھ پکڑکر اس ظلم کو روکنے کی مقدور بھر کوشش کریں۔ (فقہی مقالات ملخصاً: ۲/۲۸۵-۲۸۶) 
۔مفتی تقی عثمانی صاحب کی تحریر بہت واضح ہے کہ علماء اور سنجیدہ فکر اورسماج کی خدمت کرنے والوں کو سیاست میں حصہ لینا چاہیےتاکہ اس کے ذریعہ ظلم کو روکا جاسکے اور مظلوموں کی مدد کی جاسکے۔
جہاں تک اس کا سوال کا تعلق ہے کہ سیاست میں کس طرح آئیں تو اس سلسلے میں عرض ہے کہ زمینی سطح پر محنت کی جائے، خدمت خلق کے میدان میں بڑھ چڑ ھ کر حصہ لیا جائے ان شاء اللہ مستقبل میں بہترنتائج سامنے آئیں گے۔
واللہ اعلم بالصواب
دارالافتاء
دارالعلوم وقف دیوبند

طلاق و تفریق

Ref. No. 1454/42-904

الجواب وباللہ التوفیق

بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ ایسی عورت کے لئے شریعت نے خلع کی گنجائش دی ہے، تاہم اگربچوں کی خاطر وہ مظالم  کو برداشت کرے اور صبر کرکے اس کے ساتھ رہے اور خلع نہ لے تو یہ زیادہ  بہتر ہے اور دوراندیشی کی بات ہے۔  خاندان کے لوگوں کو چاہئے کہ لڑکے کو سمجھائیں اور اگر عورت خلع ہی لینا چاہے تو اس پر زبردستی نہ کریں ، خلع لینے میں اس کی مدد کریں ۔

واللہ اعلم بالصواب

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند

نکاح و شادی
تفسیر مظہری میں سورہ نساء کی آیت نمبر 22 کی تفسیر میں ایک حدیث بیان کی گئی ہے کہ کسی عورت کو اگر کسی نے ہاتھ سے بھی دبایا ہو تو اس مرد کو اس عورت کی بیٹی سے نکاح نہیں کرنا چاہئے یہ حدیث کو قاضی ثناءاللہ پانی پتی نے اپنی تفسیر مظہری میں بیان کی ہے اسے مرسل منقطع کہا ہے . کیا یہ ضعیف ہے ؟

اسلامی عقائد

الجواب وباللّٰہ التوفیق:جس وقت وہ دوبارہ مسلمان ہونا چاہے، اس کو مسلمان کرلیا جائے، اسلام میں کوئی تنگی نہیں ہے، اللہ کی رحمت بہت وسیع ہے؛ بلکہ اس کو سمجھانے کی پوری کوشش کرنی چاہئے، دل کے اعتقاد کے ساتھ کلمۂ طیبہ پڑھ لینے سے مسلمان ہو جائیگا۔(۲)

(۲) {فَإِنْ عَلِمْتُمُوْھُنَّ مُؤْمِنٰتٍ فَلاَ تَرْجِعُوْھُنَّ إِلَی الْکُفَّارِط لاَھُنَّ حِلٌّ لَّھُمْ وَلَاھُمْ یَحِلُّوْنَ لَھُنَّطوَأٰتُوْھُمْ مَّآ أَنْفَقُوْاط وَلَا جُنَاحَ عَلَیْکُمْ أَنْ تَنْکِحُوْ ھُنَّ إِذَآ أٰتَیْتُمُوْھُنَّ أُجُوْرَھُنَّ ط وَلَا تُمْسِکُوْا بِعِصَمِ الْکَوَافِرِ} (سورۃ الممتحنۃ: ۱۰)

وإسلامہ أن یتبرأ عن الأدیان سوی الإسلام أو عما انتقل إلیہ الخ۔ (ابن عابدین، الدر المختار مع رد المحتار، ’’کتاب الجہاد: باب المرتد، مطلب: ما یشک أنہ ردۃ لا یحکم بہا‘‘: ج ۶، ص: ۳۶۱)

 وإسلامہ أن یأتي بکلمۃ الشہادۃ ویتبرأ عن الأدیان کلہا سوی الإسلام، وإن تبرأ عما انتقل إلیہ کفی، کذا في المحیط۔ (جماعۃ من علماء الہند، الفتاویٰ الہندیۃ، ’’الباب التاسع: في أحکام المرتدین، ومنہا: الطوع‘‘: ج ۲، ص: ۲۶۷)

طہارت / وضو و غسل

Ref. No. 1818/43-1673

بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ اگر آپ نے پھنسی سے نکلنے والے مواد کو پانی سے دھولیا اور چہرہ یا ہاتھ پر اس کےاثرات نہیں ہیں تو پاکی حاصل ہوگئی، اوروضو درست ہوگئی، بلاوجہ کے شک یا وسوسہ میں مبتلا ہونے کی ضرورت نہیں ہے۔

واللہ اعلم بالصواب

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند

 

تجارت و ملازمت

Ref. No. 2017/44-1977

بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ اجیر کو اجرت دینے میں وسعت ظرفی سے کام لینا چاہئے۔ جتنے دن اجیر نے کام کیا ہے اتنے دنوں کی اجرت دینی لازم ہے  یہ اس کا حق ہے۔ مثلاکسی نے 25 دن کام کئے، اور مہینہ پورا ہونے سے پہلے چھوڑنا چاہتاہے تو اس کے 25 دن کی اجرت نہ دینا ظلم ہے۔

والثاني وہوالأجیر الخاص ویسمی أجیر وحد وہو من یعمل لواحدٍ عملاً موقتاً بالتخصیص ویستحق الأجر بتسلیم نفسہ في المدۃ وإن لم یعمل کمن استؤجر شہراً للخدمۃ أو شہراً لرعي الغنم المسمی بأجر مسمی ۔۔۔۔ ولیس للخاص أن یعمل لغیرہ ، ولو عمل نقص من أجرتہ بقدر ما عمل ۔۔۔۔۔ وإن لم یعمل أي إذا تمکن من العمل فلو سلم نفسہ ولم یتمکن منہ لعذر کمطر ونحوہ لا أجر لہ". (رد المحتار: ۹/۸۲ ، کتاب الإجارۃ ، وکذا فی البحر الرائق : ۸ /۵۲ ، کتاب الإجارۃ)

 واللہ اعلم بالصواب

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند

 

Business & employment

Ref. No. 2112/44-2187

In the name of Allah the most Gracious the most Merciful

The answer to your question is as follows:

The money, you receive for answering the survey from the company is halal, and the commission you get for referring is also halal for you. You are directly involved in both of them and are working hard, therefore this amount is halal. However, if you get money in any other way, explain it and post your question again in details.

And Allah knows best

Darul Ifta

Darul Uloom Waqf Deoband