اسلامی عقائد

الجواب وباللّٰہ التوفیق:حدیث شریف میں ہے کہ: ایک صحابیؓ فرماتے ہیں کہ: میرا ہاتھ آں حضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے دونوں مبارک ہاتھوں میں تھا(۲)، اس سے ثابت ہوتا ہے کہ: دونوں ہاتھوں سے مصافحہ کرنا مسنون ہے، بدعت نہیں ہے، جو بات حدیث سے ثابت ہو اس کو بدعت کہنا غلط ہے۔ (۳)

(۲) سمعت ابن مسعود رضي اللّٰہ عنہما یقول: علمني رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم وکفي بین کفیہ التشہد کما یعلمني السورۃ من القرآن۔ (أخرجہ البخاري، في صحیحہ، ’’کتاب الاستئذان: باب المصافحۃ‘‘: ج ۲ ص: ۹۲۶، رقم: ۶۲۶۵)
(۳) والحق أن مصافحتہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم ثابتۃ بالید وبالیدین إلا أن المصافحۃ بید واحدۃ لما کانت شعار أہل الفرنج وجب ترکہ کذلک۔ (علامہ رشید أحمد، گنگوہی، (الہند) الکوکب الدري: ج ۳، ص: ۳۹۲)

 

فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج1ص532

عائلی مسائل

Ref. No. 2535/45-3878

بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ اپنے والدین سے اگر وہ ایسی بات کرے گا تو توہین ہوگی، اور بے شرمی پر محمول ہوگا، اس لئے اگر ممکن ہو تو والدین کو غیرمحرم سے  تعلقات کی حرمت کی عمومی بات کرے ، ان پر کوئی الزام نہ لگائے اور اپنے شبہہ کا اظہار نہ کرے۔ اور اگر ایسا نہ کرسکے اور خاموشی اختیار کرنے میں ہی عافیت ہو تو اس پر کوئی گناہ نہ ہوگا۔

واللہ اعلم بالصواب

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند

 

مساجد و مدارس

Ref. No. 2578/45-3952

بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔  لڑکیوں کی تعلیم کا مسئلہ بڑا نازک ہے، ایک طرف ان کی دینی تعلیم بھی ضروری ہے دوسری طرف ان کی عفت و عصمت کی حفاظت کا انتظام کامل بھی ضروری ہے۔ اس لئے اولا تو بچیوں کو گھروں میں  کسی خاتون کے ذریعہ تعلیم دینے کی کوشش کی جائے لیکن اگر ایسا ممکن نہ ہو تو مجبوری میں لڑکیوں کے مدرسہ میں داخل کیاجاسکتاہے جہاں پڑھانے والی خواتین ہوں۔ اور ایسے مدرسے بھی  قائم کئے جاسکتے ہیں ۔  اور اس سلسلہ میں بہتر یہ ہے کہ مدرسہ غیراقامتی ہو کہ لڑکیاں محرم کے ساتھ  پڑھنے جائیں اورمحرم کے ساتھ  گھر واپس آئیں، اور  مردوں سے بالکل اختلاط نہ ہو اور پردہ کا پورا اہتمام رہے۔  اور اگر اقامتی ادارہ کی سخت  ضرورت ہو تو مکمل احتیاطی تدابیر کے ساتھ اس کی گنجائش ہوگی، اور مہتمم وغیرہ سب پر معقول اور مناسب پردہ لازم ہوگا۔ مہتمم نیک طبیعت ہو اور پورے طور چوکنا اور محتاط رہے کہ کہیں کوئی بے احتیاطی نہ ہونے پائے اور کسی فتنے کا دروازہ نہ کھلے۔

واللہ اعلم بالصواب

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند

 

طہارت / وضو و غسل

الجواب وباللّٰہ التوفیق:اگر گوبر سے لیپا ہوا فرش ایسا ہو کہ اس پر چلنے سے نجاست کا اثر پاؤں میں نہیں لگتا، تو اس پر چلنے سے پاؤں ناپاک نہیں ہوگا، اگرچہ چلنے کی وجہ سے فرش پر پیروں کے نشان پڑ جائیں اور اگر فرش ایسا گیلا ہو کہ اس پر چلنے سے گوبر کے اثرات پاؤں میں لگ  جائیں تو پاؤں ناپاک ہو جائے گا اور اس کو دھونا ضروری ہوگا۔
’’في غنیۃ المستملی: وکذا إن مشی علی أرض نجسۃ بعد ما غسل رجلیہ فابتلت الأرض من بلل رجلیہ واسود وجہ الأرض، أي: بالنسبۃ إلی لونہ الأول؛ لکن لم یظہر أثر البلل المتصل بالأرض في رجلیہ لم تتنجس رجلہ، وجازت صلاتہ بدون إعادۃ غسلہا لعدم ظہور عین النجاسۃ في جمیع ذلک، والطاہر بیقین لایصیر نجساً إلا بیقین مثلہ‘‘(۱)
’’غسل رجلہ ومشی علی أرض نجسۃ أو قام علی فراش نجس فعرق ولم یظہر أثرہ لا یتنجس۔ خانیۃ‘‘(۲)
’’ولو وضع رجلہ المبلولۃ علی أرض نجسۃ أو بساط نجس لا یتنجس وإن وضعہا جافۃ علی بساط نجس رطب إن ابتلت تنجست ولا تعتبر النداوۃ ہو المختار کذا في السراج الوہاج ناقلا عن الفتاوی۔ وإذا جعل السرقین في الطین فطین بہ السقف فیبس فوضع علیہ مندیل مبلول لا یتنجس‘‘(۳)
’’نام أو مشی أي وقدمہ مبتلۃ علی نجاسۃ إن ظہر عینہا المراد بالعین ما یشمل الأثر لأنہ دلیل علی وجودہا تنجس وإلا لا‘‘(۴)
(۱) إبراہیم حلبي، غنیۃ المستملي، ’’ ‘‘: ص: ۱۵۳۔
(۲) ابن عابدین، الدر المختار مع رد المحتار، ’’مسائل شتی‘‘: ج ۶، ص: ۷۳۳۔
(۳) جماعۃ من علماء الہند، الفتاویٰ الہندیۃ، ’’کتاب الطہارۃ: الفصل الثاني في الأعیان النجسۃ، النوع الثاني المخففۃ‘‘: ج ۱، ص: ۱۰۲۔
(۴) ابن عابدین، رد المحتار، ’’کتاب الطہارۃ: باب الأنجاس، مطلب في الفرق بین الاستبراء والاستنقاء والاستنجاء‘‘: ج ۱، ص: ۵۶۱۔

 

فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج3ص51

طہارت / وضو و غسل

الجواب وباللّٰہ التوفیق:پاؤں اعضائے مغسولہ میں سے ہے، وضو کے وقت پاؤں کو دھونا ضروری ہے، ان پر مسح نہیں کیا جائے گا، نیز ’’و أرجلکم إلی الکعبین‘‘ کا عطف اعضائے مغسولہ، یعنی: چہرہ اور ہاتھ پر ہو رہا ہے؛ اس لیے ان کو دھونا فرض ہے، صرف روافض (امامیہ وغیرہ) کے نزدیک مسح کرنا فرض ہے۔(۱)

 (۱) ولنا قراء ۃ النصب و أنہا تقتضي کون وظیفۃ الأرجل الغسل، لأنہا تکون معطوفۃ علی المغسولات، و ہي الوجہ والیدان، و المعطوف علی المغسول یکون مغسولاً تحقیقاً لمقتضی العطف۔ (الکاساني، ’’کتاب الطہارۃ،‘‘ بدائع الصنائع في ترتیب الشرائع: ج۱، ص:۷۲)؛ ویایھا الذین آمنوا إذا قمتم الی الصلٰوۃ فاغسلوا الخ الآیۃ۔ قال الآلوسی: جمہور الفقہاء المفسرین: فرضھما الغسل۔ (علامہ آلوسي، روح المعاني، ج۳، ص:۲۴۶)
 

فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج3 ص162

طہارت / وضو و غسل

الجواب وباللّٰہ التوفیق :صورت مسئولہ میں مسح صحیح اور درست ہے، شرط یہ ہے کہ وہ مہندی ہی ہو۔(۳)

(۳)المرأۃ التي صبغت أصبعھا بالحناء أو الصرام أوالصباغ قال :کل ذلک سواء یجزیھم وضوئھم۔ (جماعۃ من علماء الہند، ’’کتاب الطہارۃ، الباب الأول: في الوضوء، الفرض الثاني، غسل الیدین،‘‘ ج۱، ص:۵۴)؛ و لا یمنع الطھارۃ کالطعام بین الأسنان وضوء ًا کان أو غسلا لأنھا لا تمنع نفوذ الماء (عليحیدر، درر الحکام شرح غرر الأحکام، ’’فرائض‘‘،ج۱،ص:۹)
 

فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج3 ص265

نماز / جمعہ و عیدین

الجواب وباللّٰہ التوفیق: بلا شرعی ثبوت کے کسی شخص کے متعلق بدگمانی کرنا گناہ کبیرہ ہے، قرآن حکیم میں ارشاد خداوندی ہے {اِنَّ بَعْضَ الظَّنِّ اِثْمٌ وَّلَا تَجَسَّسُوْا}(۲) کہ کسی کے عیوب کو تلاش مت کرو اور خوامخواہ بد گمانی مت کرو، تاہم اگر شرعی ثبوت کے ساتھ اس کی بد فعلی ثابت ہو جائے، تو وہ شخص گناہ کبیرہ کا مرتکب ہے۔ اس کی امامت مکروہ تحریمی ہوگی، تا وقتیکہ وہ شخص اللہ تعالیٰ کے دربار میں اپنے اس جرم عظیم کی سچی پکی توبہ کرے اور آئندہ گناہ عظیم سے پر ہیز کرے  اس کے بعد اس کی امامت بلا کراہت درست ہو سکتی ہے۔

(۲) {ٰٓیاَیُّھَاالَّذِیْنَ اٰمَنُوا اجْتَنِبُوْا کَثِیْرًا مِّنَ الظَّنِّز اِنَّ بَعْضَ الظَّنِّ اِثْمٌ وَّلَا تَجَسَّسُوْا وَلَا یَغْتَبْ بَّعْضُکُمْ بَعْضًاط اَیُحِبُّ اَحَدُکُمْ اَنْ یَّاْکُلَ لَحْمَ اَخِیْہِ مَیْتًا فَکَرِھْتُمُوْہُط وَاتَّقُوا اللّٰہَط اِنَّ اللّٰہَ تَوَّابٌ رَّحِیْمٌہ۱۲} (سورۃ الحجرات: ۱۲)
 یقول تعالیٰ ناہیا عبادہ المؤمنین عن کثیر من الظن، وہو التہمۃ والتخون …للأہل والأقارب والناس في غیر محلہ لأن بعض ذلک یکون إثما محضا، فلیجتنب کثیر منہ احتیاطاً وروینا عن أمیر المؤمنین عمر بن الخطاب رضي اللّٰہ عنہ أنہ قال: ولا تظنن بکلمۃ خرجت من أخیک المسلم إلا خیراً، وأنت تجد لہا في الخیر محملا، وقال أبو عبداللّٰہ بن ماجہ، حدثنا أبوالقاسم بن أبي ضمرۃ نصر بن محمد بن سلیمان الحمصي، حدثنا أبي، حدثنا عبداللّٰہ بن أبي، حدثنا عبداللّٰہ بن أبي قیس النضري، حدثنا عبداللّٰہ بن عمر رضي اللہ عنہما قال: رأیت النبي صلی اللّٰہ علیہ وسلم یطوف بالکعبۃ ویقول: ما أطیبک وأطیب ریحک ما أعظمک وأعظم حرمتک، والذي نفس محمد بیدہ لحرمۃ المؤمن أعظم عند اللّٰہ تعالیٰ حرمۃ منک، مالہ ودمہ وأن یظن بہ إلا خیراً۔ (ابن کثیر، تفسیر ابن کثیر، ’’سورۃ الحجرات: ۱۲‘‘ ج۷، ص: ۳۵۲)

 

فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج5 ص138

 

نماز / جمعہ و عیدین

الجواب وباللّٰہ التوفیق: صورت مسئولہ میں مذکورہ دوکان کی جو کیفیت سوال میں لکھی ہے اس کے اعتبار سے اس دوکان میں باجماعت نماز ادا کرنا بلا شبہ جائز ہے، شک کرنے کی کوئی گنجائش نہیں ہے؛ البتہ ثواب مسجد جیسا نہیں ملے گا۔(۲)

(۲) وعن أبي سعید -رضي اللّٰہ عنہ-، قال: قال رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم:…الأرض کلہا مسجد إلا المقبرۃ والحمام، رواہ أبوداود والترمذي والدارمي۔ (مشکاۃ المصابیح، کتاب الصلاۃ ’’باب المساجد، الفصل الثاني‘‘: ج ۱، ص:۱۳۱، رقم:۷۳۷،یاسر ندیم دیوبند)
وأشار بإطلاق قول: ویأذن للناس في الصلاۃ أنہ لا یشترط أن یقول أذنت فیہ بالصلاۃ جماعۃ أبداً بل الإطلاق کاف لکن لو قال: صلوا فیہ جماعۃ صلاۃ أو صلاتین یوماً أو شہراً لا یکون مسجداً۔ (ابن نجیم، البحر الرائق، ’’کتاب الوقف: فصل في أحکام المساجد‘‘: ج ۵، ص: ۴۱۷، زکریا دیوبند)

 

فتاویٰ دارالعلوم وقف دیوبند ج5 ص345

 

نماز / جمعہ و عیدین

الجواب وباللہ التوفیق:الصلاۃ والسلام علی النبي الکریم صلی اللّٰہ علیہ وسلم قبل الأذان غیر مشروعۃ وأما الصلاۃ والسلام علی النبي الکریم صلی اللّٰہ علیہ وسلم بعد الأذان فمستحبۃ لقول النبي صلی اللّٰہ علیہ وسلم: إذا سمعتم مؤذنا فقولوا مثل ما یقول، ثم صلوا علي،  فإنہ من صلی علي صلاۃ صلی اللّٰہ علیہ بہا عشرا، ثم سلوا لی الوسیلۃ۔ فإنہا منزلۃ في الجنۃ لا تنبغي إلا لعبد من عباد اللّٰہ، وأرجو أن أکون أنا۔ فمن سأل لي الوسیلۃ حلت لہ الشفاعۃ‘‘(۱)
أما إذا کان المؤذن یقول ذلک برفع صوت کالأذان فذلک بدعۃ؛ لأنہ یوہم أنہا جزء من الأذان، والزیادۃ في الأذان لا تجوز؛ ولو کان ذلک خیرا لسبق إلیہ السلف الصالح في القرون المشہود لہا بالخیر ولم یوجد ذلک فیہا۔ فعلینا أن نحافظ علی ما کان علیہ العمل أیام الرسول صلی اللّٰہ علیہ وسلم وصحابتہ ومن بعدہم من عدم رفع المؤذن صوتہ بہا، فلذا رفع الصوت بالصلاۃ علی النبي صلی اللّٰہ علیہ وسلم غیر مشروعۃ، وعلینا أن نصلي ونسلم علی النبي الکریم صلی اللّٰہ علیہ وسلم سرا، وأما الصلاۃ والسلام علی النبي الکریم بعد الصلوات الخمسۃ سرا، وقبل ابتداء المدرسۃ و انتہائہا فلا بأس بہ مالم یعتقد لزومہا ولم یلم أحدا علی ترکہا۔ وفي جمیع الأحوال، لا یجوز تحویل ہذہ المسألۃ الفرعیۃ إلی سبب للشقاق والنزاع في مساجد المسلمین فالأصل احترام العمل والعاملین والمجادلۃ بالتي ہي أحسن۔

(۱) أخرجہ أحمد، في مسندہ، أول مسند عبداللّٰہ بن عمرو بن العاص، ج۶، ص: ۱۴۱،رقم: ۶۵۶۹۔
 

فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج4 ص242

نماز / جمعہ و عیدین

الجواب وباللّٰہ التوفیق: حالت سجدہ میں انگلیوں کو ملا کر رکھنا مسنون ہے، انگلیوں کو بہت کھول کر رکھنا خلاف سنت ہے۔(۱)

(۱) (قولہ ضاما أصابع یدیہ) أي ملصقا جنبات بعضہا ببعض قہستاني وغیرہ، ولا یندب الضم إلا ہنا ولا التفریج إلا في الرکوع کما في الزیلعي وغیرہ (قولہ لتتوجہ للقبلۃ) فإنہ لو فرجہا یبقی الإبہام والخنصر غیر متوجہین، وہذا التعلیل عزاہ في ہامش الخزائن إلی الشمني وغیرہ۔ (ابن عابدین، رد المحتار، ’’کتاب الصلاۃ: باب صفۃ الصلاۃ، مطلب في إطالۃ الرکوع للجائي‘‘: ج ۲، ص: ۲۰۳)
(وجہہ بین کفیہ ضاما أصابع یدیہ) فإن الأصابع تترک علی العادۃ فیما عدا الرکوع والسجود۔ (عبد الرحمن بن محمد، مجمع الأنہر، ’’کتاب الصلاۃ: صفۃ الشروع في الصلاۃ‘‘: ج ۱، ص: ۹۷)

 

فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج4 ص384