حدیث و سنت

الجواب وباللّٰہ التوفیق:یہ حدیث موضوع نہیں ہے؛ ہاں ایک روای کے نام میں اضطراب کی وجہ سے ضعیف ہے۔ امام ترمذی، امام احمد اور ابن حبان وغیرہ نے اپنی کتابوں میں اس کو نقل کیا ہے، امام ترمذی نے اس حدیث کو نقل کرکے ’’ہذا حدیث غریب لا نعرفہ إلا من ہذا الوجہ‘‘ کا حکم لگایا ہے؛ اس لیے یہ حدیث موضوع نہیں ہے۔ جمعہ کے خطبہ وغیرہ میں اس کا پڑھنا درست ہے۔
’’عن عبد اللّٰہ بن مغفل، قال: قال رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم اللّٰہ اللّہ في أصحابي، لا تتخذوہم غرضا من بعدي، فمن أحبہم فبحبي أحبہم، ومن أبغضہم فببغضي أبغضہم، ومن آذاہم فقد أٓذاني، ومن أٓذاني فقد آذی اللّٰہ، ومن آذی اللّٰہ فیوشک أن یأخذہ ہذا حدیث غریب لا نعرفہ إلا من ہذا الوجہ۔(۱) إسنادہ ضعیف۔ عبد اللّٰہ بن عبد الرحمن، ویقال: عبد الرحمن بن زیاد، ویقال عبد الرحمن بن عبد اللّٰہ، وقال الذہبي: لا یعرف۔ وجاء في ’’التہذیب‘‘ في ترجمۃ عبد الرحمن بن زیاد: قیل إنہ أخو عبید اللّٰہ بن زیاد بن أبیہ، وقیل: عبد اللّٰہ بن عبد الرحمن۔(۲)

 (۱) أخرجہ الترمذي، في سننہ، ’’أبواب المناقب، باب في من سب أصحاب النبي صلی اللّٰہ علیہ وسلم‘‘: ج ۲، ص: ۲۲۵، رقم: ۳۸۶۲۔
(۲) أخرجہ محمد بن حبان بن أحمد، في صحیح ابن حبان، ’’باب ذکر الزجر عن اتخاذ المرء أصحاب رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم غرضاً بالتنقص‘‘: ج ۸، ص: ۲۴۴، رقم: ۷۲۵۶۔
إسنادہ ضعیف لجہالۃ عبد الرحمن بن زیاد أو عبد الرحمن بن عبد اللّٰہ، أخرجہ أحمد، في مسندہ: ج ۳۴، ص: ۱۶۹، رقم: ۲۰۵۴۸۔

 

 فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج2ص128

اسلامی عقائد

Ref. No. 2617/45-3990

بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔  اگر کپڑا مس ہونے پر پسینہ کپڑے میں جذ ب ہوگیا تو کپڑا ناپاک ہوجائے گا، اور اگر صرف ٹھنڈک محسوس ہوئی تواس سے کپڑا ناپاک نہیں ہوگا۔

ولو ابتل فراش أو تراب نجسا" وكان ابتلالهما "من عرق نائم" عليهما "أو" كان من "بلل قدم وظهر أثر النجاسة" وهو طعم أو لون أو ريح "في البدن والقدم تنجسا" لوجودها بالأثر "وإلا" أي وإن لم يظهر أثرها فيهما "فلا" ينجسان.

وله: "من عرق نائم" قيد اتفاقي فالمستيقظ كذلك كما يفهم من مسألة القدم ولو وضع قدمه الجاف الطاهر أو نام على نحو بساط نجس رطب إن إبتل ما أصاب ذلك تنجس وإلا فلا ولا عبرة بمجرد النداوة على المختار كما في السراج عن الفتاوى (حاشية الطحطاوي على مراقي الفلاح: (باب الأنجاس و الطهارة عنها، ص: 158، ط: دار الكتب العلمية))

واللہ اعلم بالصواب

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند

 

نماز / جمعہ و عیدین

الجواب وباللّٰہ التوفیق: اس کا یہ عقیدہ قطعی طور پر باطل ہے اور اس پر اصلاح لازم ہے اگر وہ اصلاح نہ کرے، تو اس کی امامت مکروہ تحریمی ہے۔ عقائد صحیحہ کا حامل یا پابند احکام امام مقرر کرنا چاہئے۔(۱)

(۱) (ومبتدع) أي صاحب بدعۃ وہي اعتقاد خلاف المعروف عن الرسول لا بمعاندۃ بل بنوع شبہۃ وکل من کان من قبلتنا (لا یکفر بہا) حتی الخوارج الذین یستحلون دمائنا وأموالنا وسب الرسول، وینکرون صفاتہ تعالٰی وجواز رؤیتہ لکونہ عن تأویل وشبہۃ بدلیل قبول شہادتہم، إلا الخطابیۃ ومنا من کفرہم (وإن) أنکر بعض ما علم من الدین ضرورۃ (کفر بہا) کقولہ إن اللّٰہ تعالیٰ جسم کالأجسام وإنکارہ صحبۃ الصدیق (فلا یصح الاقتداء بہ أصلا) فلیحفظ۔ (الحصکفي، رد المحتار مع الدرالمختار، ’’کتاب الصلاۃ، باب الإمامۃ، مطلب في تکرار الجماعۃ في المسجد‘‘: ج۲، ص: ۲۹۹-۳۰۱)

(قولہ وکرہ إمامۃ العبد والأعرابي والفاسق والمبتدع والأعمی وولد الزنا) بیان للشیئین الصحۃ والکراہۃ أما الصحۃ فمبنیۃ علی وجود الأہلیۃ للصلاۃ مع أداء الأرکان وہما موجودان من غیر نقص في الشرائط والأرکان، وأطلق المصنف في المبتدع فشمل کل مبتدع ہو من أہل قبلتنا، وقیدہ في المحیط والخلاصۃ والمجتبی وغیرہا بأن لا تکون بدعتہ تکفرہ، فإن کانت تکفرہ فالصلاۃ خلفہ لا تجوز، وعبارۃ الخلاصۃ ہکذا۔ وفي الأصل الاقتداء بأہل الأہواء جائز    إلا الجہمیۃ والقدریۃ والروافض الغالي ومن یقول بخلق القرآن والخطابیۃ والمشبہۃ وجملتہ أن من کان من أہل قبلتنا ولم یغل في ہواہ حتی یحکم بکفرہ تجوز الصلاۃ خلفہ وتکرہ، ولا تجوز الصلاۃ خلف من ینکر شفاعۃ النبي صلی اللّٰہ علیہ وسلم أو ینکر الکرام الکاتبین أو ینکر الرؤیۃ؛ لأنہ کافر۔ (ابن نجیم، البحر الرائق، ’’کتاب الصلاۃ، الأحق بالإمامۃ في الصلاۃ‘‘: ج ۱، ص: ۶۱۰، ۶۱۱)
قال المرغیناني: تجوز الصلاۃ خلف صاحب ہوی وبدعۃ ولا تجوز خلف الرافضي والجہمي والقدري والمشبہۃ ومن یقول بخلق القرآن، وحاصلہ إن کان ہوی لا یکفر بہ صاحبہ تجوز الصلاۃ خلفہ مع الکراہۃ وإلا فلا، ہکذا في التبیین والخلاصۃ وہو الصحیح۔ (جماعۃ من علماء الہند، الفتاویٰ الہندیۃ، ’’کتاب الصلاۃ، الباب الخامس في الإمامۃ، الفصل الثالث في بیان من یصلح إماما لغیرہ‘‘: ج ۱، ص: ۱۴۱)
 

فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج5 ص119

 

طہارت / وضو و غسل

الجواب وباللّٰہ التوفیق:اگر پیمپرپر قدرِ درہم سے زیادہ نجاست لگی ہو، تو اس کے ساتھ نماز پڑھنا شرعاً جائز نہیں ہے؛ البتہ قطرہ آنے کی شکایت اتنی زیادہ ہو کہ ایک پیمپر یا کپڑا ہٹا تے ہی دوسرا ناپاک ہوجاتا ہو بغیر قطرے کے نماز کا وقت نہ ملتا ہو اور اس حالت میں نماز کے پانچ اوقات سے زیادہ گزر جائیں تو اسے معذور قرار دیا جائے گا اور پھر اس عذر کی وجہ سے ناپاک پیمپر کے ساتھ بھی نماز پڑھنے کی گنجائش ہے۔
’’مریض تحتہ ثیاب نجسۃ وکلما بسط شیئا تنجّس من ساعتہ یصلّی علی حالہ وکذا لو لم یتنجس الثانی لکن یلحقہ زیادۃ مشقّۃ بالتحویل کذا فی فتاوی قاضی خان‘‘(۱)
’’المستحاضۃ ومن بہ سلس البول أو استطلاق البطن أو انفلات الریح أو رعاف دائم أو جرح لا یرقأ یتوضؤن لوقت کل صلاۃ ویصلون بذلک الوضوء ما شاؤا من الفرائض والنوافل‘‘(۲)

(۱) جماعۃ من علماء الہند، الفتاویٰ الہندیہ، ’’ ‘‘: ج ۱، ص: ۱۳۷۔
(۲) جماعۃ من علماء الہند، الفتاویٰ الہندیۃ، ’’مما یتصل بذلک أحکام المعذور‘‘: ج ۱، ص: ۹۵، زکریا دیوبند۔

فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج3 ص422

 

نماز / جمعہ و عیدین

الجواب وباللہ التوفیق: سترہ کے لغوی معنی ہیں: وہ چیز جس کے ذریعہ انسان خود کو چھپا سکے، شریعت کی اصطلاح میں نماز کے باب میں ’’سترہ‘‘ سے مراد وہ لاٹھی یا چھڑی وغیرہ ہے جو کم از کم ایک گز شرعی کے برابر اونچی اور کم از کم ایک انگلی کے برابرموٹی ہو جسے نمازی نماز پڑھتے وقت اپنے سامنے کھڑا کردیتا ہے۔ جیسا کہ علامہ ابن عابدینؒ نے لکھا ہے:
’’(سترۃ بقدر ذراع) طولاً (وغلظ أصبع)؛ لتبدو للناظر‘‘(۱)
مزید آگے لکھتے ہیں:
’’(أو) مرورہ (بین یدیہ) إلی حائط القبلۃ (فی) بیت و (مسجد) صغیر، فإنہ کبقعۃ واحدۃ (مطلقاً) الخ‘‘
سترہ کی کم سے کم مقدار یہ ہے کہ: نمازی کے سامنے ایک ذراع، ایک ہاتھ (یعنی ہاتھ کی بڑی انگلی سے لے کر کہنی تک، دو بالشت) کے برابر لمبائی اور اس کی موٹائی کم سے کم ہاتھ کی ایک چھوٹی انگلی کے برابر ہونی چاہیے۔ اس کی لمبائی فٹ کے اعتبار سے تقریباً ڈیڑھ فٹ بنتی ہے۔
امام مسلم رحمۃ اللہ علیہ نے روایت نقل کی ہے:
’’حدثنا أبو الأحوص، عن سماک، عن موسی بن طلحۃ، عن أبیہ، قال: قال رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم: إذا وضع أحدکم بین یدیہ مثل مؤخرۃ الرحل فلیصل، ولایبال من مر وراء ذلک‘‘(۳)
فتاویٰ شامی میں ہے:
’’(ویغرز) ندبا بدائع … (الإمام) وکذا المنفرد (في الصحراء) ونحوہا (سترۃ بقدر ذراع) طولا (وغلظ أصبع) لتبدو للناظر (بقربہ) (قولہ بقدر ذراع) بیان لأقلہا ط۔ والظاہر أن المراد بہ ذراع الید کما صرح بہ الشافعیۃ، وہو شبران (قولہ وغلظ أصبع) کذا في الہدایۃ‘‘(۱)

(۱) ابن عابدین، رد المحتار علی الدر المختار، ’’ ‘‘: ج ۱، ص: ۶۳۷۔
(۲) أیضاً:
(۳) أخرجہ مسلم، في صحیحہ، ’’کتاب الصلاۃ: باب سترۃ المصلی‘‘: ج ۱، ص: ۳۵۸، رقم: ۲۴۱، ط: دار إحیاء التراث العربي بیروت۔
(۱) ابن عابدین، رد المحتار علی الدر المختار، ’’کتاب الصلاۃ: باب مایفسد الصلاۃ ومایکرہ فیہا‘‘: ج ۱، ص: ۶۳۶، ۶۳۷، ط: ایچ، ایم، سعید۔

 

فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج5 ص456

نماز / جمعہ و عیدین

الجواب وباللہ التوفیق:صورت مسئولہ میں قدیم نقشہ جات کے مطابق جو عمل پہلے سے چلا آرہا ہے وہ جید و معتمد علماء اور ماہرین و تجربہ کار مفتیان کرام کی تحقیق پر مبنی ہے جو ہر لحاظ سے راجح اور قابل اعتماد ہے چناںچہ علماء کا اس پر اتفاق اور زمانہ دراز سے اس پر عمل ہے اس لیے اس کے مطابق عمل جاری رکھنا چاہئے اور بعض حضرات کی منفردانہ رائے یا تحقیق کی وجہ سے اس کو چھوڑنا درست نہیں ہے۔البتہ اگر کوئی قابل ذکر تحقیق سامنے آئے تو اس کو مفصل تحریر کرکے سوال کرلیا جائے۔(۱)

(۱) ومحل الاستحباب ما إذا لم یشک في بقاء اللیل، فإن شک کرہ الأکل في الصحیح کما في البدائع أیضاً۔ (ابن عابدین، رد المحتار، ’’کتاب الصوم، باب ما یفسد الصوم ومالا یفسدہ‘‘: ج ۳، ص: ۴۰۰، ط: مکتبہ: زکریا، دیوبند)
ویکرہ تأخیرہ إلی وقت یقع فیہ الشک، ھندیۃ۔ (أحمد بن محمد، حاشیۃ الطحطاوي علی المراقي: ص: ۶۸۳، دارالکتاب، دیوبند)

 فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج4 ص93

 

نماز / جمعہ و عیدین

الجواب وباللہ التوفیق: مذکورہ عمل درست؛ بلکہ مستحسن اورلائق ثواب ہے،جیسا کہ ابن الہمامؒ نے فتح القدیر میں لکھا ہے:
’’والتثویب في الفجر حي علی الصلاۃ، حي علی الفلاح مرتین بین الأذان والإقامۃ حسن لأنہ وقت نوم وغفلۃ‘‘(۱)
’’التثویب الذي یصنعہ الناس بین الأذان والإقامۃ في صلاۃ الفجر ’’حي علی الصلاۃ، حي علی الفلاح‘‘ مرتین حسن، وإنما سماہ محدثا لأنہ أحدث في زمن التابعین، ووصفہ بالحسن لأنہم استحسنوہ۔ وقد قال صلی اللّٰہ علیہ وسلم: ما رآہ المؤمنون حسنا فہو عند اللّٰہ حسن، وما رآہ المؤمنون قبیحا فہو عند اللّٰہ قبیح‘‘(۲)

’’]فرع[ لایجب انتباہ النائم في أول الوقت، ویجب إذا ضاق الوقت، نقلہ البیری في شرح الأشباہ عن البدائع من کتب الأصول، وقال: ولم نرہ في کتب الفروع فاغتنمہ‘‘(۱)
آپ نے مختلف فتاوی کے حوالے سے نقل کیا ہے کہ ان میں مذکورہے کہ مذکورہ عمل میں نقصانات نفع سے کہیںزیادہ ہیں، میں نے ان میں سے کئی فتاوی کا مطالعہ کیا ان میں زیادہ تر فتاوی میں مطلق تثویب کے تعلق سے بات لکھی ہے یعنی عام نمازوں میں تثویب کا تذکرہ ہے خاص فجر میں تثویب کا تذکرہ نہیں ہے؛ چناںچہ فتاوی رشیدیہ میں ہے: ا گر احیانا کسی کو بعد اذان بوجہ ضرورت بلوا لیں تو درست ہے، مگر اس کی عادت ڈالنی اور ہمیشہ اس کا التزام کرنا درست نہیں ہے۔(۲)
خلاصہ یہ کہ تثویب کو متاخرین نے جائز قرار دیا ہے، اور خاص طورپر فجر میں تثویب کی اجازت ہے۔(۳) حضرات اکابر نے صرف اس بنیاد پر کہ ایک غیر ضروری امر کو ضروری نہ سمجھ لیا جائے احتیاطاً منع کیا ہے، اس میں عام طورپر فجر کی نماز کا تذکرہ نہیں ہے، جب کہ فجر کا نوم وغفلت کا وقت ہے؛ اس لیے اگر فجر کی نماز میں کسی مناسب انداز سے لوگوں کو نماز کی دعوت دی جائے، تو اس میں کوئی حرج نہیں ہے۔(۴)

(۱) ابن الہمام، فتح القدیر، ’’کتاب الصلاۃ، باب الأذان‘‘: ج ۱، ص: ۲۴۵۔
(۲) الکاساني، بدائع الصنائع، ’’کتاب الصلاۃ، باب الأذان، فصل بیان کیفیۃ الأذان‘‘: ج ۱، ص: ۳۶۷۔
(۱) ابن عابدین،رد المحتار، ’’کتاب الصلاۃ، مطلب في تعبدہ علیہ الصلاۃ والسلام قبل البعثۃ‘‘: ج ۲، ص: ۱۳۔
(۲) فتاوی رشیدیہ، تحقیق وتعلیق: مفتی محمد یوسف صاحب: ج ۲، ص: ۴۵۴۔
(۳) ابن عابدین، الدر المختار مع رد المحتار، ’’کتاب الصلاۃ، باب الأذان، مطلب في أول من بني المنائر للأذان،‘‘: ج ۲، ص: ۵۶، مطبع زکریا۔
(۴) قال الزہري: وزاد بلال في نداء صلاۃ الفجر: الصلاۃ خیر من النوم، فأقرہا نبي اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم، وقال عمر رضي اللّٰہ عنہ، أما إني قد رأیت مثل الذي رأي، ولکنہ سبقني۔ (مسند أبي یعلی، مسند عبد اللّٰہ بن عمر: ج ۹، ص: ۳۷۹، رقم ۵۵۰۴)

أخبرنا مالک، أخبرنا ابن شہاب، عن عطاء بن یزید اللیثي، عن أبي سعید الخدري، أن رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم، قال: إذا سمعتم النداء، فقولوا مثل ما یقول المؤذن (ص: ۵۵) قال مال:) بلغنا أن عمر بن الخطاب رضي اللّٰہ عنہ جاء ہ المؤذن یؤذنہ لصلاۃ الصبح، فوجدہ نائماً فقال المؤذن: الصلاۃ خیر من النوم، فأمرہ عمر أن یجعلہا في نداء الصبح۔ (أخرجہ مالک، في الموطأ، ’’کتاب الصلاۃ، باب الأذان والتثویب‘‘: ج ۱، ص: ۵۴، رقم: ۹۱؛ ومسند ابن أبي شیبۃ، ’’من کان یقول في الأذان الصلاۃ خیر من النوم‘‘: ج ۱، ص: ۱۸۹)
 محمد، قال: أخبرنا أبو حنیفۃ، عن حماد، عن إبراہیم، قال: سألتہ عن التثویب، قال: ہو مما أحدثہ الناس، وہو حسن مما أحدثوا وذکر أن تثویبہم کان حین یفرغ المؤذن من أذانہ: الصلاۃ خیر من النوم قال محمد: وبہ نأخذ، وہو قول أبي حنیفۃ رضي اللّٰہ عنہ۔ (الآثار لمحمد بن الحسن، ’’کتاب الصلاۃ، باب الأذان‘‘: ج ۱، ص: ۱۰۱، رقم: ۹۱(شاملہ)

 فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج4 ص225

 

نماز / جمعہ و عیدین

الجواب و باللّٰہ التوفیق: واضح رہے کہ نماز کے ہر قعدہ میں التحیات پڑھنا واجب ہے خواہ نماز فرض ہو یا نفل اگر امام صاحب قعدہ اخیرہ میں سلام پھر دیں یا قعدہ اولیٰ ہو اور تیسری رکعت کے لیے امام کھڑا ہو جائے اس صورت میں التحیات مکمل کر کے ہی تیسری رکعت یا بقیہ نماز کی تکمیل کے لیے کھڑا ہونا چاہئے؛ البتہ اگر التحیات پڑھے بغیر ہی کھڑا ہو گیا تو اس صورت میں کراہت کے ساتھ نماز ادا ہو جائے گی اعادہ کی ضرورت نہیں۔ جیسا کہ علامہ حصکفیؒ نے در مختار میں لکھا ہے:
’’(بخلاف سلامہ) أو قیامہ لثالثۃ (قبل تمام المؤتم التشہد) فإنہ لا یتابعہ بل یتمہ لوجوبہ، ولو لم یتم جاز؛ ولو سلم والمؤتم في أدعیۃ التشہد تابعہ لأنہ سنۃ والناس عنہ غافلون۔ (قولہ: فإنہ لا یتابعہ إلخ) أي ولو خاف أن تفوتہ الرکعۃ الثالثۃ مع الإمام کما صرح بہ في الظہیریۃ، وشمل بإطلاقہ ما لو اقتدی بہ في أثناء التشہد الأول أو الأخیر، فحین قعد قام إمامہ أو سلم، ومقتضاہ أنہ یتم التشہد ثم یقوم ولم أرہ صریحا، ثم رأیتہ في الذخیرۃ ناقلا عن أبي اللیث: المختار عندي أنہ یتم التشہد وإن لم یفعل أجزأہ۔ اھـ۔ وللّٰہ الحمد (قولہ: لوجوبہ) أي لوجوب التشہد کما في الخانیۃ وغیرہا، ومقتضاہ سقوط وجوب المتابعۃ کما سنذکرہ وإلا لم ینتج المطلوب فافہم (قولہ ولو لم یتم جاز) أي صح مع کراہۃ التحریم کما أفادہ ح، ونازعہ ط والرحمتی، وہو مفاد ما في شرح المنیۃ حیث قال: والحاصل أن متابعۃ الإمام في الفرائض والواجبات من غیر تأخیر واجبۃ فإن عارضہا واجب لا ینبغي أن یفوتہ بل یأتي بہ ثم یتابعہ لأن الإتیان بہ لا یفوت المتابعۃ بالکلیۃ وإنما یؤخرہا، والمتابعۃ مع قطعہ تفوتہ بالکلیۃ، فکان تأخیر أحد الواجبین مع الإتیان بہما أولیٰ من ترک أحدہما بالکلیۃ‘‘(۱)
’’إذا أدرک الإمام في التشہد وقام الإمام قبل أن یتم المقتدي أو سلم الإمام في آخر الصلاۃ قبل أن یتم المقتدي التشہد فالمختار أن یتم التشہد۔ کذا في الغیاثیۃ وإن لم یتم أجزأہ‘‘(۱)
’’(والتشہدان) ویسجد للسہو بترک بعضہ ککلہ وکذا في کل قعدۃ في الأصح إذ قد یتکرر عشراً۔ (قولہ: والتشہدان) أي تشہد القعدۃ الأولی وتشہد الأخیرۃ‘‘(۲)

(۱) ابن عابدین، رد المحتار، ’’کتاب الصلاۃ، باب صفۃ الصلاۃ، مطلب في إطالۃ الرکوع للجائي‘‘:ج ۲، ص:۱۹۹،۲۰۰۔
(۱) جماعۃ من علماء الہند، الفتاویٰ الہندیۃ، ’’کتاب الصلاۃ، الباب الخامس في الإمامۃ، الفصل السادس فیما یتابع الإمام وفیما لایتابع‘‘: ج ۱، ص: ۱۴۷۔
(۲) ابن عابدین، رد المحتار، ’’کتاب الصلاۃ، باب صفۃ الصلاۃ، مطلب لاینبغي أن یعدل عن الدرایۃ إذا وقفتہا روایۃ ‘‘: ج ۲، ص:۱۵۷، ۱۵۸۔

 

فتاویٰ دارالعلوم وقف دیوبند ج4 ص370

 

نماز / جمعہ و عیدین

الجواب وباللّٰہ التوفیق: امام اور لقمہ دینے والے مقتدی دونوں کی نماز صورت مسئول عنہا میں درست ہوگئی اور اس صورت میں سجدۂ سہو کی ضرورت بھی نہیں تھی؛ لیکن اگر غلطی سے سجدۂ سہو کرلیا گیا تب بھی نماز درست ہوگئی۔
بخلاف فتحہ علی إمامہ فإنہ لا یفسد مطلقاً لفاتح وآخذ بکل حال الخ(۱)

(۱) الحصکفي، الدر المختار مع رد المحتار، ’’کتاب الصلاۃ: باب ما یفسد الصلاۃ وما یکرہ فیہا، مطلب: المواضع التي لا یجب فیہا رد السلام‘‘: ج ۲، ص: ۳۸۱، ۳۸۲، ط: زکریا۔
والصحیح أن ینوي الفتح علی إمامہ دون القراء ۃ۔ قالوا : ہذا إذا أرتج علیہ قبل أن یقرأ قدر ما تجوز بہ الصلاۃ، أو بعدما قرأ ولم یتحول إلی آیۃ أخری۔ وأما إذا قرأ أو تحول، ففتح علیہ، تفسد صلاۃ الفاتح، والصحیح: أنہا لا تفسد صلاۃ الفاتح بکل حال ولا صلاۃ الإمام لو أخذ منہ علی الصحیح ہکذا في الکافی۔ (جماعۃ من علماء الہند، الفتاویٰ الہندیۃ، ’’کتاب الصلاۃ، الباب السابع فیما یفسد الصلاۃ و ما یکرہ فیھا، الفصل الأول فیما یفسدھا‘‘: ج ۱، ص: ۱۵۷)

فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج6 ص289

 

آداب و اخلاق

Ref. No. 816 Alif

الجواب وباللہ التوفیق

بسم اللہ الرحمن الرحیم: غیرمحرم جوان عورتوں کو سلام کرنا جائز نہیں ۔ البتہ ایسی بوڑھی عورتیں جن کو سلام کرنے سے کسی فتنہ کا اندیشہ نہیں ان کو سلام کرنے کی گنجائش ہے، پھر بھی احتیاط اولی ہے۔  کذا فی الشامی۔ واللہ اعلم بالصواب

 

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند