Frequently Asked Questions
زکوۃ / صدقہ و فطرہ
Ref. No. 2307/44-3470
بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ مذکورہ صورت میں صدقہ کرنا واجب ہے، اس لئے کہ صدقہ ان چیزوں میں سے ہے جس کی نذرماننا درست ہے، اور دشمن کی موت کی تمنا کرنا کوئی معصیت نہیں ہے۔
واللہ اعلم بالصواب
دارالافتاء
دارالعلوم وقف دیوبند
اسلامی عقائد
الجواب وباللّٰہ التوفیق:افطار کے وقت اس طرح اجتماعی دعاء وایصال ثواب کا ثبوت کہیں دیکھا نہیں(۱) اگر اتفاق سے اس طرح دعاء کی گئی تو کوئی حرج نہیں، لیکن اس کو سنت سمجھ کر اس کا التزام نہ کیا جائے۔(۲)
(۱) عن عائشۃ رضي اللّٰہ عنہا، قالت: قال رسول اللّٰہ علیہ وسلم: من أحدث في أمرنا ہذا ما لیس فیہ فہو رد۔ (أخرجہ البخاري، في صحیحہ، ’’کتاب الصلح: باب إذا اصطلحوا علی صلح جور‘‘: ج ۱، ص: ۳۷۱، رقم: ۲۶۹۷)
(۲) من أحدث حدثا أو آوي محدثا فعلیہ لعنۃ اللّٰہ والملائکۃ والناس أجمعین لا یقبل اللّٰہ منہ صرفاً ولا عدلاً۔ (فتاویٰ عزیزی فارسي، رسالہ بیع کنیزان: ص: ۷۵؛ بحوالہ کفایت المفتي: ج ۲، ص: ۲۹۷)
فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج1ص420
مساجد و مدارس
Ref. No. 2577/45-3951
بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ طالب علم کو سبق پڑھانا اور سبق یاد کرانے کے لئے اس سے پوچھنا اور تنبیہ کرنا استاذ کی اخلاقی ذمہ داری ہے،بچہ کے دماغ میں بٹھانا اس کی ذمہ داری نہیں ہے۔ اور ذمہ داروں کی پوچھ گچھ کا یہ مطلب نہیں کہ آپ پر کوئی الزام لگانا مقصود ہے، چنانچہ جو بچہ غبی ہے، کئی بار یاد کرانے پر بھی وہ یاد نہیں رکھ پاتاہے تو ذمہ داران اس کی بابت کوئی سوال نہیں کرتے ہیں۔ لیکن جو طالب علم ذہنی طور پر ٹھیک ہے اور پھر بھی فیل ہورہاہے اس کا ایک رخ یہ بھی ہے کہ استاذ کی مکمل توجہ اور تنبیہ نہ ہونے کی وجہ سے بچہ نے سستی کی، اگر متعلقہ استاذ تھوڑی سختی سے پیش آتے تو بچہ فیل نہ ہوتا۔ تاہم اگر استاذ نے اپنے طور پر سبق سن کر ، تنبیہ اور سختی سے پیش آکر سبق یاد کرانے کی کوشش کی لیکن پھر بھی بچہ فیل ہوا تو استاذ پر کوئی الزام نہیں۔ اگر استاذ نے پڑھانے میں کوئی کوتاہی نہیں کی، اپنی ذمہ ادری کو مکمل طور پر پورا کیا، اور کلاس کے اکثر بچے پاس ہوئے پھر ایک دو بچے فیل ہوجائیں تو یہ استاذ کی غلطی متصور نہ ہوگی، اور اس طالب علم کے حوالہ سے استاذ مسئول نہ ہوگا۔
واللہ اعلم بالصواب
دارالافتاء
دارالعلوم وقف دیوبند
حدیث و سنت
اسلامی عقائد
Ref. No. 2633/45-4040
بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ ڈاکٹر کے لئے مخصوص لیب والوں سے ٹیست کرانے پر بالخصوص میڈیکل اسٹور سے دوا خریدنے پر مجبور کرنا اور کمیشن لینا شرعاً ناجائز ہے، کیونکہ ڈاکٹر مریض کو دیکھنے اور دوا تجویز کرنے کی فیس لینا ہے اس پر لازم ہے کہ مریض کے ساتھ ہمدردی وخیرخواہی کرے اس لئے ڈاکٹروں کا کمیشن لینا خیر خواہی کے خلاف ہے جب کہ شرعی حکم ہے:’’وینصح لہ اذا غاب أو شہد‘‘ (ترمذی: رقم: ٢٧٣٧)
حکم خدا وندی ہے:
یا ایہا الذین آمنوا لاتأکلوا أموالکم بینکم بالباطل‘‘ اس کی تفسیر میں علامہ آلوسی نے فرمایا ’’والمعنی لا یأکل بعضکم أموال بعض والمراد بالباطل ما یخالف الشرع کالربا والقمار البخس والظلم‘‘ (تفسیر روح المعانی: ج ٥، ص: ١٧، النساء: ٢٩)
صورت مسئولہ میں ڈاکٹر کی طرف سے کوئی ایسا عمل نہیں پایا گیا جس پر شرعاً معاوضہ لینا جائز ہو، بلکہ کمیشن کے نام پر لینا رشوت ہے، جس پر لینے اوردینے والے دونوں گناہگار ہوں گے، البتہ اگر کمیشن نہ دینے پر لیب کے بند ہونے کا یقین ہو تو کمیشن دینے کی گنجائش ہوگی البتہ لینا ناجائز ہی ہوگا۔
لأن الدلالۃ والاشارۃ لیست بعمل یستحق بہ الاجر‘‘ (الدر المختار مع رد المحتار، ’’کتاب الاجارۃ‘‘: ج ٩،ص: ٠٣١)
وکذلک اذا قال ہذا لقول شخص معین فدلہ علیہ بالقول بدون عمل فلیس لہ اجرۃ لأن الدلالۃ والاشارۃ لیستا مما یؤخذ علیہما اجر‘‘ (درر الاحکام شرح مجلۃ الاحکام: ج ١، ص: ٥٠٢، ٥٠٣)
واللہ اعلم بالصواب
دارالافتاء
دارالعلوم وقف دیوبند
طہارت / وضو و غسل
الجواب وباللّٰہ التوفیق: نجاست صاف کرنے کے لئے کپڑے یا ٹیشو پیپر کا استعمال کرنا چاہئے، لکھنے کے قابل کاغذ سے استنجا کرنا یا نجاست زائل کرنا درست نہیں، انگریزی اخبار پر موجود انگریزی حروف بھی قابل احترام ہیں ان کی توہین کرنا اور ان سے نجاست صاف کرنا درست نہیں ہے؛ کیونکہ انگریزی میں بھی کوئی قابل احترام جملہ لکھا ہوا ہو سکتا ہے۔
’’إن للحروف حرمۃ ولو مقطعۃ … ومفادہ الحرمۃ بالمکتوب مطلقاً وإذا کانت العلۃ في الأبیض کونہ آلۃ للکتابۃ کما ذکرناہ یؤخذ منہا عدم الکراہۃ فیما لا یصلح لہا إذا کان قالعاً للنجاسۃ غیر متقوم کما قدمناہ من جوازہ بالخرق البوالي‘‘(۲)
’’ولو قطع الحرف من الحرف أو خیط علی بعض الحروف حتی لم تبق الکلمۃ متصلۃ لا تزول الکراہۃ لأن للحروف المفردۃ حرمۃ وکذا لو کان علیہا الملک أو الألف وحدہا أو اللام‘‘(۱)
(۲) ابن عابدین، الدر المختار مع رد المحتار، ’’کتاب الطہارۃ: فصل الاستنجاء‘‘: ج ۱، ص: ۳۴۰۔
(۱) ابن عابدین، الدر المختار مع رد المحتار، ’’فصل في االلبس‘‘: ج ۶، ص: ۳۶۴۔
فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج3ص45
طہارت / وضو و غسل
الجواب وباللّٰہ التوفیق:سوال میں جن چیزوںکا ذکر کیا گیا ہے، ان سے وضو نہیں ٹوٹتا؛ البتہ وضو کرلینا مستحب ہے: الوضوء ثلاثۃ أنواع فرض علی المحدث للصلوۃ، و واجب للطواف بالکعبۃ، ومندوب بعد غیبۃ وکذب، و نمیمۃ و انشاد شعر الخ(۱)
ولا ینقض الکلام الفاحش الوضوء الخ۔(۲)
والکلام الفاحش لا ینقض الوضوء و إن کان في الصلوٰۃ! لأن الحدث اسم لخارج نجس، ولم یوجد ہذا الحدث في الکلام الفاحش۔(۳)
(۱)محمد بن فرامرز، دررالحکام شرح غرر الأحکام ، ’’باب نواقض الوضوء،‘‘ ج۱، ص:۱۲
(۲) السرخسي، المبسوط، ’’ باب الوضوء والغسل،‘‘ج۱، ص:۷۹۲
(۳)أبوالمعالي، المحیط البرہاني، ’’کتاب الطہارۃ، الفصل الثاني في بیان ما یوجب الوضوء و مالا یوجب، نوع آخر من ھذا الفصل،‘‘ ج۱، ص:۷۵
فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج3 ص158
طہارت / وضو و غسل
الجواب وباللّٰہ التوفیق :مستحبات درج ذیل ہیں:(۱) ہاتھ سے مسح کرنا (۲) مسح کے وقت ہاتھ کی انگلیوں کو کشادہ رکھنا (۳) مسح کے وقت موزوں پر انگلیاں اس طرح کھینچنا کہ موزوں پر نشان کھنچ جائیں (۴) مسح کوپیر کی انگلیوں کی طرف سے شروع کرنا ہے (۵) پنڈلی کی جڑ تک مسح کرنا (۶) دونوں موزوں پر ایک ساتھ مسح کرنا (۷) دائیں موزے کا دائیں ہاتھ سے اور بائیں کا بائیں ہاتھ سے مسح کرنا (۸) ہاتھ کی ہتھیلیوں کی طرف سے مسح کرنا۔(۱)
(۱)والسنۃ أن یخطہ خطوطاً بأصابع ید مفرجۃ قلیلا یبدأ من قبل أصابع رجلہ متوجھا إلی أصل ساق و محلہ علی ظاھر خفیہ من رؤوس أصابعہ، ذکرہ قاضی خان في شرح الجامع الصغیر: أن یضع أصابع یدہ الیمنی علی مقدم خفہ الأیمن، و أصابع یدہ الیسری علی مقدم خفہ الأیسر من قبل الأصابع، فإذا تمکنت الأصابع یمدھا حتی ینتھی إلی أصل الساق فوق الکعبین، لأن الکعبین یلحقھما فرض الغسل و یلحقھما سنۃ المسح، و إن وضع الکفین مع الأصابع کان أحسن۔ (ابن عابدین، رد المحتار علی الدر المختار،’’کتاب الطہارۃ، باب المسح علی الخفین مطلب: اعراب قولہم إلا أن یقال،‘‘ ج۱، ص:۴۴۸)؛ و عن المغیرۃ بن شعبۃ قال رأیت رسول اللّٰہ ﷺ بال ثم جاء حتی توضأ و مسح علی خفیہ و وضع ید الیمنی علی خفہ الأیمن و یدہ الیسری علی خفہ الأیسر ثم مسح أعلاھما مسحۃ واحدۃ حتی کأنی أنظر إلی أصابع رسول اللّٰہ علی الخفین ۔ (أخرجہ ابن أبي شیبہ، مصنف ابن ابی شیبہ، من کان لا یری المسح، ج۱، ص:۱۷۰، رقم : ۱۹۵۷)؛ وعن ھشام عن الحسن قال المسح علی الخفین خطا بالأصابع۔ (أخرجہ ابن أبي شیبہ، في مصنفہ، ’’باب في المسح علی الخفین،‘‘ ج۱، ص:۱۶۶، رقم:۱۹۰۶، بیروت: دارالکتب العلمیۃ، لبنان)
فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج3 ص261
طہارت / وضو و غسل
الجواب وباللّٰہ التوفیق:اس صورت میں تیمم کرکے نماز ادا کرے قضا نہ ہونے دے؛ اور تیمم پڑھی ہوئی نماز کے اعادہ کی ضرورت نہیں ہے : ومن الأعذار: برد یخاف منہ بغلبۃ الظن التلف لبعض الأعضاء أو المرض۔(۱) أو برد أي إن خاف الجنب أو المحدث إن اغتسل أو توضأ أن یقتلہ البرد أو یمرضہ تیمم، سواء کان خارج المصر أو فیہ۔(۲) قال الکاساني في بدائع الصنائع في ترتیب الشرائع: ولو أجنب في لیلۃ باردۃ یخاف علی نفسہ الہلاک لو اغتسل ولم یقدر علی تسخین الماء، ولا أجرۃ الحمام في المصر أجزاہ التیمم في قول أبي حنفیۃ الخ۔(۳)
(۱)حسن بن عمار، مراقي الفلاح شرح نورالإیضاح، ’’باب التیمم‘‘ (ج۱، ص:۴۸)
(۲) ابن نجم، البحر الرائق، ’’باب التیمم‘‘ ج۱، ص:۲۴۶
(۳) الکاساني، بدائع الصنائع في ترتیب الشرائع، ’’فصل في شرائط رکن التیمم‘‘ ج۱ص:۱۷۱
فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج3 ص361
نماز / جمعہ و عیدین
الجواب وباللّٰہ التوفیق: قعدہ اخیرہ میں درود شریف سنت ہے، اگر درود نہ پڑھے تب بھی نماز اداہو جائے گی؛ البتہ سنت کا ترک لازم آئے گا، امام کی اقتدا اور منفرداً نماز پڑھنے میں حکم برابر ہے۔(۱)
(۱) وسنۃ في الصلاۃ ومستحبۃ في کل أوقات الإمکان (قولہ سنۃ في الصلاۃ) أي في قعود اخیر مطلقاً وکذا في قعود أول في النوافل غیر الرواتب تأمل، وفي صلوٰۃ الجنازۃ۔ (ابن عابدین، رد المحتار، ’’کتاب الصلاۃ: باب صفۃ الصلاۃ، مطلب ہل نفع الصلاۃ عائد للمصلي أم لہ وللمصلي علیہ‘‘: ج۲، ص: ۲۳۰، ۲۳۱)
ترک السنۃ لا یوجب فساداً ولا سہوا بل إساء ۃ لو عامداً غیر مستخف … فلو غیر عامد فلا إساء ۃ ایضاً بل تندب إعادۃ الصلوٰۃ کما قد مناہ في أول بحث الواجبات، (ابن عابدین، رد المحتار، ’’کتاب الصلاۃ: واجبات الصلاۃ، مطلب في قولہم الإساء ۃ دون الکراہۃ ‘‘: ج۲، ص: ۱۷۰)
فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج4 ص379