Frequently Asked Questions
اسلامی عقائد
Ref. No. 1557/43-1079
بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ عورت عدت وفات چار ماہ دس دن گزارے گی۔ 21 اپریل کو صبح پانچ بجے جو عدت شروع ہوئی وہ 29 اگست بوقت صبح پانچ بجے پوری ہوگی، اس طرح 130 دن پورے ہوں گے۔ عدت وفات حائضہ اور غیر حائضہ دونوں کے لئے چار ماہ دس دن ہے ۔ البتہ اگر حاملہ ہو تو اس کی عدت وضع حمل ہے۔ بچہ کی پیدائش پر عدت پوری ہوجائے گی، اور اس میں ایام کی تعیین نہیں ہے۔
وَالَّذِينَ يُتَوَفَّوْنَ مِنْكُمْ وَيَذَرُونَ أَزْوَاجًا يَتَرَبَّصْنَ بِأَنْفُسِهِنَّ أَرْبَعَةَ أَشْهُرٍ وَعَشْرًا فَإِذَا بَلَغْنَ أَجَلَهُنَّ فَلَا جُنَاحَ عَلَيْكُمْ فِيمَا فَعَلْنَ فِي أَنْفُسِهِنَّ بِالْمَعْرُوفِ وَاللَّهُ بِمَا تَعْمَلُونَ خَبِيرٌ (سورۃ البقرۃ 234)
وَاللَّائِي يَئِسْنَ مِنَ الْمَحِيضِ مِن نِّسَائِكُمْ إِنِ ارْتَبْتُمْ فَعِدَّتُهُنَّ ثَلَاثَةُ أَشْهُرٍ وَاللَّائِي لَمْ يَحِضْنَ وَأُوْلَاتُ الْأَحْمَالِ أَجَلُهُنَّ أَن يَضَعْنَ حَمْلَهُنَّ وَمَن يَتَّقِ اللَّهَ يَجْعَل لَّهُ مِنْ أَمْرِهِ يُسْرًا (سورۃ الطلاق 4)
"وإذا مات الرجل عن امرأة الحرة فعدتها أربعة أشهر و عشرة و هذه العدة لاتجب إلا في نكاح صحيح". (الجوھرۃ النیرۃ، باب العدۃ، 2/154 ط:مكتبة حقاني) العدة (للموت أربعة أشهر) بالأهلة لو في الغرة كما مر (وعشر) من الأيام بشرط بقاء النكاح صحيحا إلى الموت.. (شامی 3/510) "في المحيط: إذا اتفق عدة الطلاق و الموت في غرة الشهر اعتبرت الشهور بالأهلية وإن نقصت عن العدد، وإن اتفق في وسط الشهر، فعند الإمام يعتبر بالأيام، فتعتد في الطلاق بتسعين يوماً، وفي الوفاة بمائة وثلاثين" (شامی 3/509)
واللہ اعلم بالصواب
دارالافتاء
دارالعلوم وقف دیوبند
اسلامی عقائد
الجواب وباللّٰہ التوفیق:مذکورہ افعال کے مرتکب کو خارج از اسلام قرار دیا جائے گا، اگر وہ مسلمان کہلاتا ہے اور یہ افعال کرتا ہے تو وہ مسلمان نہیں، مرتد ہے۔ (۱)
(۱) {مَنْ کَفَرَ بِاللّٰہِ مِنْ م بَعْدِ إِیْمَانِہٖٓ إِلَّا مَنْ أُکْرِہَ وَقَلْبُہٗ مُطْمَئِنٌّم بِالْاِیْمَانِ وَلٰکِنْ مَّنْ شَرَحَ بِالْکُفْرِ صَدْرًا فَعَلَیْھِمْ غَضَبٌ مِّنَ اللّٰہِ ج وَلَھُمْ عَذَابٌ عَظِیْمٌ ہ۱۰۶}(سورۃ النحل، آیۃ: ۱۰۶)
قال تعالیٰ: {وَمَنْ یَّبْتَغِ غَیْرَ الْإِسْلَامِ دِیْنًا فَلَنْ یُّقْبَلَ مِنْہُ وَہُوَ فِيْ الْأٰخِرَۃِ مِنَ الْخَاسِرِیْنَ} (سورۃ آل عمران: ۸۵)
وقال تعالیٰ: {إِنَّ الدِّیْنَ عِنْدَ اللّٰہِ الْإِسْلَامُ} (آل عمران: ۱۹)
روزہ و رمضان
Ref. No. 2170/44-2346
بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ اسلام میں زنا حرام ہے گناہ کبیرہ ہے، اور زانی کی سزا شریعت نے خود متعین کی ہے، اگر زانی غیرشادی شدہ ہے تو اسلامی حکومت میں اس کو ایک سو کوڑے لگائے جائیں گے، اور اگر شادی شدہ ہو تو اس کو پتھر سے مار مار کر ہلاک کردیاجائے گا، اور یہ سب کچھ اسلامی امیر کے حکم سے ہوگا۔ غیراسلامی حکومت میں یہ سزا جاری نہیں ہوسکتی ہے، اس لئے آپ توبہ واستغفار کریں، اور آئندہ اس سے پورے طور پر بچیں اور اس لڑکی سے کسی طرح کا رابطہ نہ رکھیں، اس کا فون نمبر وغیرہ بھی ڈیلیٹ کردیں تاکہ کسی طرح رابطہ نہ ہوسکے۔ زنا کی سزا میں روزے رکھنا کوئی کفارہ شریعت میں وارد نہیں ہواہے۔ اس لئے کفارہ کے طور پر روزہ رکھنا معتبر نہیں ہے۔ خوب استغفار کرے، توبہ کرے، اللہ کے حضور گڑگڑائے تاکہ اس کی معافی ہوسکے، اللہ بڑے معاف کرنے والے ہیں۔
واللہ اعلم بالصواب
دارالافتاء
دارالعلوم وقف دیوبند
Prayer / Friday & Eidain prayers
Ref. No. 2238/44-2382
In the name of Allah the most Gracious the most Merciful
The answer to your question is as follows:
It is permissible for a woman to apply fragrance on prayer mat. This may create modesty in the prayer. Similarly there is no harm in applying fragrance on the special prayer clothes for a woman while praying inside the house. Light fragrance should be used so that its fragrance does not reach a non-mahram and does not cause temptation. However, if there are some non-mahrams in the same house, then she should absolutely avoid using perfume.
۔"عن أبي موسى : عن النبي صلى الله عليه و سلم قال: كل عين زانية، والمرأة إذا استعطرت فمرت بالمجلس فهي كذا وكذا -يعني زانية-". (سنن الترمذي 5 / 106
And Allah knows best
Darul Ifta
Darul Uloom Waqf Deoband
طلاق و تفریق
Ref. No. 2368/44-3577
بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ صورت مذکورہ میں فی الحال کوئی طلاق واقع نہیں ہوئی، تینوں طلاقیں ماں کے گھر جانے پر معلق ہیں ، ماں کے گھر جاتے ہی تینوں طلاقیں واقع ہوجائیں گی۔ ہاں اگر شوہر اپنی بیوی کو ایک طلاق دیدے ، بیوی عدت پوری کرنے کے بعد اپنی ماں کے گھر جائے اور پھر یہ شخص دوبارہ اس سے نکاح کرلے ، پھر یہ عورت اگر اپنی ماں کے گھر جائے گی تو کوئی طلاق واقع نہیں ہوگی۔
ثم الشرط ان کان متاخرا عن الجزاء فالتعلیق صحیح وان لم یذکر حرف الفاء اذا لم یتخلل بین الجزاء وبین الشرط سکوت ۔ الاتری ان من قال لامراتہ ان طالق ان دخلت الدار یتعلق الطلاق بالدخول الخ۔۔۔ (الھندیۃ 1/488 زکریا دیوبند)
واللہ اعلم بالصواب
دارالافتاء
دارالعلوم وقف دیوبند
طہارت / وضو و غسل
Ref. No. 2403/44-3626
بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ تین مرتبہ گوشت کو اس طرح دھوئے کہ ہر مرتبہ گوشت والے برتن کا پورا پانی بہادے، یہاں تک کہ گوشت سے پانی کے قطرے ٹپکنا بند ہوجائیں تو اس طرح کرنے سے گوشت پاک ہوجائے گا۔اسی طرح پانی میں سے گوشت ہاتھ میں اٹھالے اور جب اس میں سے پانی ٹپکنا بند ہوجائے تو اس کو دوسرے پانی میں ڈال دے پھر اسی طرح تین مرتبہ عمل کرے تو وہ گوشت پاک ہوجائے گا، گوشت کو نچوڑنا یا اس کو خشک کرنا ضروری نہیں ہے۔ نجاست غیر مرئیہ کو پاک کرنے کا یہی طریقہ کتب فقہ میں مذکور ہے۔
(الھندیۃ: (42/1، ط: دار الفکر)
وإن كانت غير مرئية يغسلها ثلاث مرات۔۔۔۔وما لا ينعصر يطهر بالغسل ثلاث مرات والتجفيف في كل مرة؛ لأن للتجفيف أثرا في استخراج النجاسة وحد التجفيف أن يخليه حتى ينقطع التقاطر ولا يشترط فيه اليبس.
واللہ اعلم بالصواب
دارالافتاء
دارالعلوم وقف دیوبند
طہارت / وضو و غسل
Ref. No. 2462/45-3760
بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ آنکھوں میں درد کی وجہ سے آنے والاآنسو بھی پاک ہے۔ اس لئے اس موسم میں آنکھ آنے کی جو بیماری چل رہی ہے ، اس میں آنکھ کے آنسو کو پاک قرار دیاجائے گا جب تک کہ آنسو پانی کی طرح صاف و شفاف ہو، اس میں وضو بھی باقی رہے گا اور نماز بھی درست ہوگی۔ البتہ اگر آنکھ میں زخم ہوجائے یا کوئی پھنسی وغیرہ ہوجائے، جس سےپانی نکلے اور پانی گدلا ہویا اس کا رنگ، بو ، ذائقہ اور بہاؤ وغیرہ عام پانی سے مختلف ہو، تو ایسی صورت میں اس کو ناپاک کہاجائے گا اور طہارت کے احکام جاری ہوں گے۔
"الدم و القیح و الصدید و ماء الجرح و النفطۃ والسرۃ والثدی و العین و الاذن لعلۃ سواء علی الاصح" (فتاویٰ عالمگیری، کتاب الطھارۃ، جلد 1، صفحہ 10)
(كما) لا ينقض (لو خرج من أذنه) ونحوها كعينه وثديه (قيح) ونحوه كصديد وماء سرة وعين (لا بوجع) وإن خرج (به) أي بوجع (نقض) لأنه دليل الجرح، فدمع من بعينه رمد أو عمش ناقض، فإن استمر صار ذا عذر مجتبى، والناس عنه غافلون۔۔۔۔.
(قوله: وعمش) هو ضعف لرؤية مع سيلان الدم في أكثر الأوقات درر وقاموس (قوله: ناقض إلخ) قال في المنية: وعن محمد إذا كان في عينيه رمد وتسيل الدموع منها آمره بالوضوء لوقت كل صلاة لأني أخاف أن يكون ما يسيل منها صديدا فيكون صاحب العذر. اه.
قال في الفتح: وهذا التعليل يقتضي أنه أمر استحباب، فإن الشك والاحتمال لا يوجب الحكم بالنقض، إذ اليقين لا يزول بالشك نعم إذا علم بإخبار الأطباء أو بعلامات تغلب ظن المبتلى، يجب. اه. قال في الحلية: ويشهد له قول الزاهدي عقب هذه المسألة: وعن هشام في جامعه إن كان قيحا فكالمستحاضة وإلا فكالصحيح. اه. ثم قال في الحلية: وعلى هذا ينبغي أن يحمل على ما إذا كان الخارج من العين متغيرا اه. أقول: الظاهر أن ما استشهد به رواية أخرى لا يمكن حمل ما مر عليها، بدليل قول محمد لأني أخاف أن يكون صديدا، لأنه إذا كان متغيرا يكون صديدا أو قيحا فلا يناسبه التعليل بالخوف، وقد استدرك في البحر على ما في الفتح بقوله لكن صرح في السراج بأنه صاحب عذر فكان الأمر للإيجاب اه ويشهد له قول المجتبى ينتقض وضوءه (قوله المجتبي) عبارته: الدم والقيح والصديد وماء الجرح والنفطة وماء البثرة والثدي والعين والأذن لعلة سواء على الأصح، وقولهم: العين والأذن لعلة دليل على أن من رمدت عينه فسال منها ماء بسبب الرمد ينتقض وضوءه وهذه مسألة الناس عنها غافلون. اه. وظاهره أن المدار على الخروج لعلة وإن لم يكن معه وجع، تأمل. وفي الخانية الغرب في العين بمنزلة الجرح فيما يسيل منه فهو نجس. قال في المغرب: والغرب عرق في مجرى الدمع يسقي فلا ينقطع مثل الباسور. وعن الأصمعي: بعينه غرب إذا كانت تسيل ولا تنقطع دموعها. والغرب بالتحريك: ورم في المآقي، وعلى ذلك صح التحريك والتسكين في الغرب. اه.أقول: وقد سئلت عمن رمد وسال دمعه ثم استمر سائلا بعد زوال الرمد وصار يخرج بلا وجع، فأجبت بالنقض أخذا مما مر لأن عروضه مع الرمد دليل على أنه لعلة وإن كان الآن بلا رمد ولا وجع خلافا لظاهر كلام الشارح فتدبر۔
(الدر المختار مع رد المحتار، کتاب الطہارۃ، ارکان الوضوء، 147/1، ط: سعید)
واللہ اعلم بالصواب
دارالافتاء
دارالعلوم وقف دیوبند
فقہ
Ref. No. 2520/45-3855
بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ انسان اپنے تمام اعضاء سمیت محترم ہے،ا س کے کسی عضو کی بھی بے حرمتی غیرمناسب ہے۔ عورت کے بال کا پردہ بھی ضروری ہے اس کو ادھر ادھرڈالنا جس پر غیروں کی نظریں پڑیں ، درست نہیں ہے۔ اس لئے مناسب ہوگا کہ بال کاٹنے والوں سے بال لے لیں، اور خود دفن کریں۔
قال اللہ تعالی: ولقد کرمنا بني آدم الآیة (الإسراء، رقم الآیة: ۷۰) ، فإذا قلم أظفارہ أو جز شعرہ ینبغي أن یدفنہ، فإن رمی بہ فلا بأس، وإن ألقاہ فی الکنیف أو فی المغتسل کرہ؛ لأنہ یورث داء۔ خانیة۔ ویدفن أربعة: الظفر والشعر وخرقة الحیض والدم۔ عتابیة۔ ط (رد المحتار، کتاب الحظر والإباحة، باب الاستبراء وغیرہ، فصل فی البیع وغیرہ ۹: ۵۸۰، ط: مکتبة زکریا دیوبند) ، وکل عضو لا یجوز النظر إلیہ قبل الانفصال لا یجوز بعدہ ولو بعد الموت کشعر عانة وشعر رأسھا وعظم ذراع حرة میتة وساقھا وقلامة ظفر رجلھا دون یدھا مجتبی (الدر المختار مع الرد ، کتاب الحظر والإباحة، فصل فی النظر والمس ۹: ۵۳۴۵۸۰، ۵۳۵) ۔
واللہ اعلم بالصواب
دارالافتاء
دارالعلوم وقف دیوبند
فقہ
الجواب وباللّٰہ التوفیق:آقا اگر باندی سے وطی کرے اور اس سے بچہ پیدا ہو اور آقا اس بچہ کے نسب کا دعوی کرے، تو وہ باندی ام ولد ہوجاتی ہے اور اس بچہ کا نسب آقا سے ثابت ہوجاتا ہے، بچہ آزاد شمار ہوتا ہے۔ اور آقا کے لیے اس سے وطی کرنا جائز نہیں ہے؛ اس لیے کہ اس سے اس کا نسب ثابت ہے، البتہ جس باندی سے آقا کو بچہ پیدا ہوا اور وہ ام لد بن گئی ہے، آقا کے لیے اس ام ولد سے وطی کرنا جائز ہے۔ (۱)
(۱) إذا ولدت الأمۃ من مولاہا فقد صارت أم ولد لہ لا یجوز بیعہا ولا تملیکہا ’’لقولہ علیہ الصلاۃ والسلام‘‘ أعتقہا ولدہا أخبر عن إعتاقہا فیثبت بعض مواجبہ وحرمۃ البیع ولأن الجزئیۃ قد حصلت بین الواطئ والموطوئۃ بواسطۃ الولد فإن المائین قد اختلطا بحیث لا یمکن التمیز بینہما علی ما عرف في حرمۃ المصاہرۃ- ولہ وطؤہا واستخدامہا وإجارتہا وتزویجہا ’’لأن الملک فیہا قائم فأشبہت المدبرۃ۔ (المرغیناني، ہدایہ، ’’کتاب العتق: باب الاستیلاد‘‘: ج ۲، ص: ۴۷۳، ۴۷۴)
عن جابر قال إن رجلا أتی رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم فقال إن لي جاریۃ ہی خادمتنا وأنا أطوف علیہا وأکرہ أن تحمل فقال: أعزل عنہا إن شئت فإنہ سیأتیہا ما قدر لہا فلبث الرجل ثم أتاہ فقال: إن الجاریۃ قد حبلت فقال: قد أخبرتک إنہ سیأتیہا ما قدر لہا۔ رواہ مسلم۔ (مشکوۃ المصابیح، ’’کتاب النکاح: باب المباشرۃ، الفصل الأول‘‘: ج ۲، ص: ۲۷۵، رقم: ۳۱۸۵)
فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج2ص143
طہارت / وضو و غسل
الجواب وباللّٰہ التوفیق: حیض ونفاس میں مبتلا عورت حکماً ناپاک ہوتی ہے؛ اس لئے اگر حیض ونفاس والی عورت کے ہاتھوں پر کوئی ظاہری نجاست نہ لگی ہو اور ہاتھ پاک ہوں، تو چھونے سے برتن ناپاک نہیں ہوتے، شبہ نہ کیا جائے۔
’’ولا یکرہ طبخہا ولا استعمال ما مستہ من عجین أو ماء أو نحوہما‘‘ (۱)
(۱) ابن عابدین، رد المحتار مع الدر المختار، ’’ ‘‘: ج ۱، ص: ۴۸۶؛ و ابن نجیم، البحر الرائق، ’’کتاب الطہارۃ: باب الحیض‘‘: ج ۱، ص: ۳۴۵۔
فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج3ص40