طہارت / وضو و غسل

الجواب وباللّٰہ التوفیق: اگر کوئی شخص باوضو ہو اور تبرک کے لیے وضو یا غسل کرے یا آب زمزم کو اپنے جسم پر ملے، تو یہ جائز ہے؛ لیکن ناپاکی کی حالت میں اس سے وضویا غسل کرنا یا ناپاکی دور کرنا درست نہیں ہے۔تاہم اگر وضو یا غسل کرلیا، تو وضو اور غسل درست ہوجائے گا۔

یجوز الاغتسال والتوضوء بماء زمزم إن کان علی طھارۃ للتبرک (۱) و کذا إزالۃ النجاسۃ الحقیقیۃ من ثوبہ أو بدنہ، حتی ذکر بعض العلماء تحریم ذلک۔ و یستحب حملہ إلی البلاد، فقد روی الترمذي۔ عن عائشۃ- رضي اللّٰہ عنھا- أنھا کانت تحملہ و تخبر أن رسول اللّٰہ ﷺ کان یحملہ (وفي غیر الترمذي) أنہ کان یحملہ، و کان یصبہ علی المرضي و یسقیھم۔ و أنہ حنک بہ الحسن والحسین رضي اللّٰہ عنھما (۲) فلا ینبغی أن یغتسل بہ جنب ولا محدث ولا في مکان نجس ولا یستنجي بہ ولا یزال بہ نجاسۃ حقیقیۃ۔ (۳)
(۱) طحطاوي، حاشیۃ الطحطاوي، ’’کتاب الطہارۃ،‘‘ ج۱، ص:۲۲
(۲) ابن عابدین، رد المحتار ’’مطلب في الاستنجاء بماء زمزم،‘‘ ج۲، ص:۶۲۵
(۳) طحطاوي، حاشیۃ الطحطاوي،’’کتاب الطہارۃ،‘‘ ج۱، ص:۲۲

 

 فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج3 ص155


 

طہارت / وضو و غسل

الجواب وباللّٰہ التوفیق:وضو کرنا ضروری نہیں ہے، صرف تیمم بھی کافی ہے۔(۲)

(۲) لو کان مع الجنب ما یکفی للوضوء، یتیمم، ولا یجب التوضؤ بہ۔ (جماعۃ من علماء الہند، الفتاویٰ الہندیہ، ’’کتاب الطہارۃ، باب التیمم، الفصل الثالث: في المتفرقات‘‘ ج۱،ص:۸۴) ؛ وجنب وجد من الماء قدر ما یکفی للوضوء دون الاغتسال، فإنہ یتیمم، ولا یلزمہ استعمال ذلک الماء عندنا۔ (عالم بن العلاء، الفتاویٰ التاتارخانیہ، ’’فصل في التیمم‘‘ج۱، ص:۳۹۴) إذا وجد مائً یکفیہ للوضوء فقط، إنما یتوضأ بہ إذا أحدث بعد تیممہ عن الجنابۃ، أما لو وجدہ وقت التیمم قبل الحدث لا یلزمہ عندنا الوضوء بہ عن الحدث الذي مع الجنابۃ، لأنہ عبث، إذ لا بد لہ من التیمم (ابن عابدین، ردالمحتار علی الدر، ’’باب التیمم، مطلب: فاقد الطہورین‘‘ ج۱، ص:۴۲۶)
 

فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج3 ص357

Business & employment

Ref. No. 2713/45-4215

In the name of Allah the most Gracious the most Merciful

The answer to your question is as follows:

It is not permissible to take commission on collecting donation, but if the committee of the masjid gives you some money as a reward for your hard work and dedication, it will be permissible to take it and the money is halal.

And Allah knows best

Darul Ifta

Darul Uloom Waqf Deoband

 

نماز / جمعہ و عیدین

الجواب و باللہ التوفیق: امام سے پہلے مقتدی کے سلام پھیرنے سے نماز ہو جائے گی؛ البتہ مقتدی کے لیے ایسا کرنا مکروہ تحریمی ہے اور نماز کا اعادہ واجب نہیں ہے، ہاں اگر سہوا یا کسی عذر کی وجہ سے سلام پھیرا تو مکروہ نہیں ہے۔(۱)
’’عن أنس رضي اللّٰہ عنہ قال صلی بنا رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم ذات یوم  فلما  قضی  صلاتہ  أقبل  علینا  بوجہہ  فقال  أیہا الناس  إني  إمامکم  فلا تسبقوني بالرکوع ولا بالسجود ولا بالقیام إلا بالانصراف فإني أراکم أمامي ومن خلفي‘‘(۲)

(۱) ولو أتمہ قبل إمامہ جاز وکرہ، قولہ ولو أتمہ … أي لو أتم المؤتم التشہد بأن أسرع فیہ وفرغ منہ قبل إتمام إمامہ فأتي بما یخرجہ من الصلاۃ کسلام وکلام أو قیام جاز أي صحت صلاتہ لحصولہ بعد تمام الأرکان، لأن الإمام وإن لم یکن أتم التشہد وقد حصل وإنما کرہ للمؤتم ذلک لترک متابعۃ الإمام بلا عذر فلو بہ کخوف حدث أو خروج وقت جمعۃ أو مرور مار بین یدیہ فلا کراہۃ۔ (ابن عابدین،  رد المحتار، ’’کتاب الصلاۃ:  باب الإمامۃ، مطلب في وقت إدراک فضیلۃ الافتتاح‘‘: ج ۲، ص:۲۴۰)
(۲) أخرجہ مسلم  في صحیحہ، ’’کتاب الصلاۃ، باب تحریم سبق الإمام برکوع أو سجود ونحوہما‘‘: ج ۱، ص:۱۸۰، رقم: ۴۲۶۔

فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج5 ص469

 

نماز / جمعہ و عیدین

الجواب وباللہ التوفیق:عصر کی نماز سے لے کر غروب آفتاب تک ہر طرح کے نوافل ادا کرنا ممنوع ہے، البتہ اگر کوئی عصر کے بعد قضاء نمازوں میں سے کوئی نماز ادا کرنا چاہتا ہے سورج کی زردی مائل ہونے سے پہلے تک قضاء نماز پڑھ سکتا ہے، سورج کی زردی مائل ہونے کے بعد سے لے کر غروب آفتاب تک آج کی عصر کے علاوہ کوئی نماز ادا نہیں کر سکتا ہے۔(۱)

(۱) تسعۃ أوقات یکرہ فیہا النوافل وما في معناہا لا الفرائض … فیجوز فیہا قضاء الفائتۃ وصلاۃ الجنازۃ وسجدۃ التلاوۃ … ومنہا: ما بعد صلاۃ العصر قبل التغیر۔ (جماعۃ من علماء الہند، الفتاویٰ الہندیۃ، ’’کتاب الصلاۃ: الباب الاول في المواقیت وما یتصل بہا : الفصل الثالث: في بیان الأوقات التي لاتجوز فیہا الصلاۃ وتکرہ فیہا، ج ۱، ص: ۱۰۹، زکریا دیوبند)
یجوز قضاء الفائتۃ وصلاۃ الجنازۃ وسجدۃ التلاوۃ في ہذا الوقت بلا کراہۃ۔ (ابن عابدین، رد المحتار، ’’کتاب الصلاۃ‘‘:  مطلب یشترط العلم بدخول الوقت، ج ۲، ص: ۳۸ )
وجمیع أوقات العمر وقت القضاء إلا الثلاثۃ المنہیۃ۔ (الحصکفي، الدر المختار مع رد المحتار، ’’کتاب الصلاۃ، باب قضاء الفوائت‘‘: ج۲، ص: ۵۲۴، زکریا دیوبند)

 

 فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج4 ص116

نماز / جمعہ و عیدین

الجواب وباللّٰہ التوفیق: صورت مسئولہ میں اگر دانتوں کے درمیان کی چیز ایک چنے کے دانہ کی مقدار کے برابر یا اس سے کم ہے، تو نماز فاسد نہیں ہوگی اور اگر چنے کے دانہ سے بڑی ہے، تو نماز فاسد ہوجائے گی۔(۱)

(۱) وأکل شيء من خارج فمہ ولو قل أو أکل مابین أسنانہ وہو قدر الحمصۃ۔ (الشرنبلالي، نورالایضاح، ’’باب مایفسد الصلاۃ‘‘: ص: ۸۱)
ویفسدہا أکل شيء من خارج فمہ ولو قل کسمسمۃ لإمکان الاحتراز عنہ ویفسدہا أکل مابین أسنانہ إن کان کثیرا وہو أي الکثیر ’’قدر الحمصۃ‘‘ ولو بعمل قلیل لإمکان الاحتراز عنہ بخلاف القلیل بعمل قلیل لأنہ تبع لریقہ وإن کان بعمل کثیر فسد بالعمل۔ (أحمد بن محمد، حاشیۃ الطحطاوي علی مراقي الفلاح، ’’باب مایفسد الصلاۃ‘‘: ج ۱، ص: ۳۲۳، ۳۲۴)
وأکلہ وشربہ مطلقا ولو سمسمۃ ناسیا إلا إذا کان بین أسنانہ مأکول دون الحمصۃ کما في الصوم ہو الصحیح، قالہ الباقانی فابتلعہ، أما المضغ فمفسد کسکر في فیہ یبتلع ذوبہ۔ (الحصکفي،  الدرالمختار مع رد المحتار، ’’باب مایفسد الصلاۃ و ما یکرہ فیھا‘‘: ج۲، ص: ۳۸۲،۳۸۳، زکریا دیوبند)

 

فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج6 ص86

نماز / جمعہ و عیدین

الجواب وباللہ التوفیق: وتر کی نماز امام صاحبؒ کے نزدیک واجب ہے اور صاحبینؒ کے نزدیک سنت ہے، سنت فرض کے تابع ہوتی ہے،اگر فرض نماز نہیں ہوئی تو فرض کے ساتھ سنت کا بھی اعادہ کرنا ہوتا ہے،واجب فرض کے تابع نہیں ہوتی ہے؛ اس لیے اگر فرض کا اعادہ کرنا ہو، تو واجب کے ا عادہ کی ضرورت نہیں ہے۔ اس اصول کی روشنی میں اگر کسی کی عشاء کی نماز کسی وجہ سے فاسد ہو جائے اور وتر کی نماز صحیح ہو، تو صاحبینؒ کے مذہب کے مطابق صبح صادق سے پہلے اگر عشاء کا اعادہ کرے، تو وتر کا بھی اعادہ کرنا ہوگا اور اگر صبح صادق کے بعد عشاء کی قضاء کرے، تو سنت کے اعادہ کی ضرورت نہیں ہے، لیکن امام صاحب کے مذہب کے مطابق کسی صورت میں وتر کے اعادہ کی ضرورت نہیں ہے اور متاخرین نے امام صاحب کے قول پر فتوی دیا ہے؛ اس لیے اگر کسی نے عشاء کی نماز بلا وضو کے یا ناپاکی کی حالت میں پڑھی، پھر اس نے پاکی کی حالت میں وتر کی نماز پڑھی، بعد میں معلوم ہوا کہ عشاء کی نماز نہیں ہوئی ہے، تو صرف عشاء کی نماز لوٹانی ہوگی وتر لوٹانے کی ضرورت نہیں ہے۔
’’وعند أبي حنیفۃ وقتہ وقت العشاء؛ لأن الوتر عندہ فرض عملا، والوقت إذا جمع بین صلاتین واجبتین کان وقتا لہما جمیعا کالفائتۃ والوقتیۃ۔ فإن قیل: لو کان وقت الوتر وقت العشاء لجاز تقدیمہ علی العشاء۔ أجاب بقولہ (إلا أنہ لا یقدم علیہ عند التذکر) یعني إذا لم یکن ناسیا (للترتیب) وعلی ہذا: إذا أوتر قبل العشاء متعمدا أعاد الوتر بلا خلاف، وإن أوتر ناسیا للعشاء، ثم تذکر لا یعیدہ عندہ؛ لأن النسیان یسقط الترتیب ویعیدہ عندہما؛ لأنہ سنۃ العشاء کرکعتي العشاء، فلو قدم الرکعتین علی العشاء لم یجز عامدا کان أو ناسیا، فکذلک الوتر‘‘(۱)
’’إن أوتر في وقت العشاء قبل أن یصلی العشاء و ہو ذاکر لذلک لم یجز بالاتفاق، و في  الکافي: ولو صلی العشاء بلا وضو ثم توضأ و صلی السنۃ و الوتر، ثم علم أنہ صلی العشاء بلا وضوء، یعید العشاء عندہ۔ و السنۃ و لایعید الوتر وعندہما یعید الوتر، أیضاً‘‘(۲)

(۱) محمد بن محمد أکمل الدین البابرتي، العنایۃ شرح الہدایۃ: ج ۲، ص: ۲۲۴۔
(۲) فرید الدین، الفتاوی التاتارخانیۃ: ج ۲، ص: ۲۹۵۔

 

فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج6 ص307

نماز / جمعہ و عیدین

الجواب وباللّٰہ التوفیق: اگر نماز عشاء کے بعد سونے سے قبل ہی تہجد کی نیت سے نماز تہجد پڑھنا چاہتا ہے تو پہلے نماز وتر ادا کرے اور پھر بہ نیت تہجد جو کچھ پڑھنا ہو پڑھے اور اگر آخر شب میں بیدا ر ہوکر نماز تہجد ادا کرنا چاہتا ہے تو پھر اگر وقت کم ہو تو وتر پہلے پڑھنی چاہئے اور وقت زیادہ ہو تو پہلے تہجد پڑھے اور پھر آخر میں وتر کی نماز ادا کرے اور حسب موقع جیسا بھی کرے درست اور جائز ہے۔(۱)

(۱) عن عبداللّٰہ، عن النبي صلی اللّٰہ علیہ وسلم قال: اجعلوا آخر صلاتکم باللیل وتراً۔ (أخرجہ البخاري، في صحیحہ، ’’أبواب الوتر، باب لیجعل آخر صلاتہ وتراً‘‘:ج۱،ص۱۳۶، رقم۹۹۸)
وتاخیر الوتر إلی آخر اللیل لو اثق بالانتباہ، والا فقبل النوم۔
قولہ: فان فاق الخ۔ أي اذا أوتر قبل النوم ثم استیقظ یصلي ما کتب لہ، ولا کراہۃ فیہ بل ہو مندوب، ولا یعید الوتر، لکن فاتہ الأفضل المفاد بحدیث الصحیحین۔ (الحصکفي، الدر مختار مع رد المحتار، ’’کتاب الصلاۃ: مطلب طلوع الشمس من مقربہا‘‘: ج ۲، ص: ۲۸، زکریا دیوبند)

 

فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج6 ص417

Prayer / Friday & Eidain prayers

Ref. No. 1275

In the name of Allah the most Gracious the most Merciful


The answer to your question is as it follows:

Women should not go to Masjid for performing Taravih Salah. It is preferable for woman to perform salah in her home. However, if anyone leads Taravih at home with some men while the women are following him behind a proper curtain, their Salah would be valid if there is no fear of fitna and immorality.

And Allah knows best

Darul Ifta

Darul Uloom Waqf Deoband

بدعات و منکرات

Ref. No. 40/860

الجواب وباللہ التوفیق 

بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ مزار پر سجدہ تعظیمی بھی جائز نہیں ہے، سخت گناہ ہے، تاہم آدمی ایمان سے خارج نہیں ہوتا ہے، اس لئے نکاح باقی ہے۔

واللہ اعلم بالصواب

 

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند