اسلامی عقائد

Ref. No. 2536/45-3892

بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ کسی شخص کے انتقال ہوجانے کے بعد اس کا تمام تر چھوڑا ہوا مال اس کے ورثہ کا ہوجاتاہے اور مرنے والے کی ملکیت اس پر سے ختم ہوجاتی ہےاب قرضوں کی ادائیگی اور وصیت کے نافذ کرنے کے بعد فوری طورپر ان کی جائداد کو تقسیم کرنا ضروری ہے اس میں کسی قسم کی تاخیر ناجائزاورحرام ہے۔خاص طورپر کسی وارث پر تمام جائداد پر قابض رہنا اور دیگر ورثہ کو محروم کرنا حرام ہے۔{وَسَارِعُوا إِلَى مَغْفِرَةٍ مِنْ رَبِّكُمْ وَجَنَّةٍ عَرْضُهَا السَّمَاوَاتُ وَالْأَرْضُ أُعِدَّتْ لِلْمُتَّقِينَ}.. [آل عمران : 133].قرآن کریم کی اس آیت میں اللہ تعالی نے مغفرت کے اعمال کی طرف جلدی کرنے کا حکم دیا ہے ابن عاشور کہتے ہیں اس کا تعلق تمام اسباب مغفرت اور دخول جنت کے اسباب میں حقوق کی ادائیگی ہے خواہ حقوق اللہ ہو یا حقوق العباد ہو اور حقوق الناس میں ترکہ کی تقسیم بھی ہے مَنْ فَرَّ مِنْ مِيرَاثِ وَارِثِهِ، قَطَعَ اللَّهُ مِيرَاثَهُ مِنَ الْجَنَّةِ يَوْمَ الْقِيَامَةِ(ابن ماجہ)عن أبي هريرة رضي الله عنه أن النبي صلى الله عليه وسلم قال: «مَنْ قَطَعَ مِيرَاثًا فَرَضَهُ اللَّهُ، قَطَعَ اللَّهُ مِيرَاثَهُ مِنَ الْجَنَّةِ (بیہقی)قال العلامة المُناوي: "أفاد أن حرمان الوارث حرام، بل قضية هذا الوعيد أنه كبيرة، وبه صَرَّح الذهبي وغيره"
حدیث میں ہے کہ جو کسی کے میراث کو کاٹے گا یا وراثت سے محروم کرنے کی کوشش کرے گااللہ تعالی جنت کے اس کے حصہ کو ختم کردے گا۔ یہ حدیث میراث نہ دینے وا لوں اور دوسروں ورثہ کو محروم کرنے کے سلسلے میں بہت سخت ہے علامہ مناوی نے لکھاہےکہ وارث کو محروم کرنا نہ صرف حرام ہے بلکہ گناہ کبیرہ ہے ۔نیز میراث سے منع کرنایا اس میں بلا عذر کے تاخیر کرنا دوسروں کے حقو پر دست درازی اور تعدی کرنا اور دوسروں کے حقوق کو چٹ کرجاناہے اور یہ ظلم ہے اور ظلم گناہ کبیرہ ہے جس پر اللہ تعالی نے وعید کا تذکرہ کیاہے ۔عن جابر أن رسول الله صلى الله عليه وسلم قال: اتَّقُوا الظُّلْمَ، فَإِنَّ الظُّلْمَ ظُلُمَاتٌ يَوْمَ الْقِيَامَةِ)(مسلم شریف) وروى البخاري عن أبي هريرة رضي الله عنه أن النبي صلى الله عليه وسلم قال: «مَنْ كَانَتْ لَهُ مَظْلَمَةٌ لِأَخِيهِ مِنْ عِرْضِهِ أَوْ شَيْءٍ، فَلْيَتَحَلَّلْهُ مِنْهُ الْيَوْمَ، قَبْلَ أَنْ لَا يَكُونَ دِينَارٌ وَلَا دِرْهَمٌ، إِنْ كَانَ لَهُ عَمَلٌ صَالِحٌ أُخِذَ مِنْهُ بِقَدْرِ مَظْلَمَتِهِ، وَإِنْ لَمْ تَكُنْ لَهُ حَسَنَاتٌ أُخِذَ مِنْ سَيِّئَاتِ صَاحِبِهِ فَحُمِلَ عَلَيْهِ».(بخاری )اسی طرح میراث نہ دینا یہ لوگوں کا مال باطل طریقہ سے کھانا ہے جس پر بھی قرآن میں وعید ہے {يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا لَا تَأْكُلُوا أَمْوَالَكُمْ بَيْنَكُمْ بِالْبَاطِلِ}.. [النساء: 29]عن أبي حميد الساعدي، أن رسول الله صلى الله عليه وسلم قال: «لا يحل لامرئ أن يأخذ مال أخيه بغير حقه» وذلك لما حرم الله مال المسلم على المسلم(مسند احمد 39/18،حدیث نمبر:23605)لا یجوز لاحد أن یتصرف فی ملک غیرہ بلا اذنہ أو وکالتہ منہ أو ولایۃ علیہ وان فعل کان ضامنا(شرح المجلۃ،رستم1/61)
چوں کہ مورث کی جائداد پر قبضہ کرنا اور دوسرے وارثوں کو محروم کرنا یہ گناہ کبیرہ اور ظلم ہے ایسے لوگوں کی نماز یں اللہ تعالی کے یہاں قبول نہیں ہوتی ہیں اگرچہ فریضہ ساقط ہوجاتاہے،وہ ان جائدادوں سے کھارہے ہیں تو ظلما دوسروں کا مال کھارہے رہے ہیںجس پر سخت وعید ناززل ہوئی ہے اس لیے بخت بانو کو چاہیے کہ جلد سے جلد شوہر کے ترکہ کو تمام ورثہ کے درمیان شرعی طورپر تقسیم کردیں اور تاخیر کی تمام ورثہ سے معافی مانگیں لیکن اگر انہوں نے تقسیم نہیں کیا اور فوت گئیں تو اس صورت میں شوہر کی جو جائداد ہے پہلے ان کے ورثہ میں تقسیم ہوگی پھر بخت بانو کے حصے میں جو کچھ آیا ہے اس کو بخت بانو کے ورثہ میں تقسیم کیا جائے گا۔

واللہ اعلم بالصواب

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند

 

نماز / جمعہ و عیدین

الجواب وباللّٰہ التوفیق:فجر اور عصر کی نماز کے بعد چوںکہ نفل و سنت نماز نہیں ہے کمزور بیمار کام کاج والے مصلیوں کی رعایت کرکے قدرے طویل دعا کی گنجائش ہے اور ظہر، مغرب اور عشاء جن نمازوں کے بعد سنت ونوافل ہیں، ان میں مختصر دعاء مانگنی چاہئے۔
اور چونکہ نماز جمعہ کے بعد بھی سنتیں ہیں؛ لہٰذا اس وقت بھی مختصر دعاء کرنی چاہئے۔ فیض الباری شرع بخاری میںاسی طرح منقول ہے۔(۱)

(۱) فإن کان بعدہا أي بعد المکتوبۃ تطوع یقوم إلی التطوع بلا فصل إلا مقدار ما یقول: ’’اللہم أنت السلام الخ‘‘۔ (غنیۃ الملتمس: ص: ۳۴۱)
کل صلوٰۃ بعدہا سنۃ یکرہ القعود بعد ہا والدعاء الخ۔ (حسن بن عمار، مراقي الفلاح علی الطحطاوي، ’’فصل في الأذکار الواردۃ بعد الفرض‘‘: ص: ۳۱۱)

 

فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج2ص357

طہارت / وضو و غسل

الجواب وباللّٰہ التوفیق:جنبی کی نجاست حکمی ہے اگر اس کے بدن پر کوئی ناپاکی نہیں ہے، تو اس کے جسم سے نکلنے والا پسینہ ناپاک شمار نہیں ہوگا اور اس پسینہ کے کسی کپڑے پر لگنے کی وجہ سے کپڑا ناپاک نہیں ہوگا۔
’’عرق کل شيء معتبر بسؤرہ کذا في الھدایۃ، سؤر الآدمي طاھر ویدخل في ھذا الجنب والحائض والنفساء الخ کذا في السراج الوھاج‘‘(۱)
’’سئل مالک عن رجل جنب وضع لہ ماء یغتسل بہ فسہا فأدخل أصبعہ فیہ  لیعرف حر الماء من بردہ قال مالک إن لم یکن أصاب أصبعہ أذی فلا أری ذلک ینجس علیہ الماء‘‘(۲)
’’ویعتبر سؤر بمسئر فسؤر آدمي مطلقاً ولو جنبا أو کافرا أو امرأۃ‘‘(۳)
(۱) جماعۃ من علماء الہند، الفتاویٰ الھندیۃ، ’’کتاب الطھارۃ: الباب الثالث في المیاہ، الفصل الثاني، فصل: فیما لا یجوز بہ التوفی ومما یتصل بذلک المسائل‘‘: ج ۱، ص: ۷۶۔…

…(۲) مالک بن أنس، مؤطأ الإمام مالک، ’’جامع غسل الجنابۃ‘‘: ج ۱، ص: ۱۰۷رقم: ۱۴۴۔(مکتبۃ بلال، دیوبند)
(۳) ابن عابدین، رد المحتار، ’’کتاب الطہارۃ: باب المیاہ، مطلب في السؤر‘‘: ج ۱، ص: ۳۸۱۔

 

فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج3ص53

 

طہارت / وضو و غسل

الجواب وباللّٰہ التوفیق:ایک مرتبہ چہرہ دھونے سے فرض کی ادائے گی ہوجاتی ہے،  دو مرتبہ دھونا سنت اور تین مرتبہ دھونا کمال سنت ہے۔ تین مرتبہ دھونے کا اہتمام کرنا چاہیے ایک کی عادت بنانا درست نہیں ہے۔ (۲)

(۲) غسل الوجہ مرۃ واحدۃ لقولہ تعالیٰ: فاغسلوا وجوہکم۔ والأمر المطلق لایقتضي التکرار،  (الکاساني، بدائع الصنائع في ترتیب الشرائع، ’’کتاب الطہارۃ، و أما أرکان الوضوء‘‘،ج۱، ص:۶۶)،  غسل الوجہ مرۃ واحدۃ۔ (محمد بن أحمد، أبوبکر علاء الدین السمرقندي، تحفۃ الفقہاء، ’’کتاب الطہارۃ‘‘، ج۱؍ ص:۸ ، شاملہ)
 

فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج3 ص163

طہارت / وضو و غسل

الجواب وباللّٰہ التوفیق :شریعت کی بنیاد سہولت پر نہیں ہے کہ جہاں بھی جس میں بھی سہولت ہو، وہ جائز ہو،؛بلکہ شریعت میں اس کی نظیر کا پایا جانا ضروری ہے(۱) موزے پر مسح کرنا ثابت ہے، تو مسح جائز ہوگا،(۲)اور جہاں مسح کرنا ثابت نہیں، اس پر مسح کرنا نا جائز ہوگا۔(۳)

(۱)عن علیؓ قال: لو کان الدین بالرأي، لکان أسفل الخف أولی بالمسح من أعلاہ، وقد رأیت رسول اللّّہ ﷺ یمسح علی ظاھر خفیہ۔ (أخرجہ ابوداود، في سننہ، ’’کتاب الطہارۃ، باب کیف المسح‘‘ ج۱،ص:۲۲،رقم:۱۶۲، مکتبۃ نعیمیۃ دیوبند)
(۲)وھو جائز بسنۃ مشھورۃ فمنکرہ مبتدع، وعلی رأي الثاني کافر، و في التحفۃ: ثبوتہ بالإجماع؛ بل بالتواتر، رواتہ أکثر من ثمانین منھم العشرۃ۔ (ابن عابدین، الدر المختار مع رد المحتار، ’’باب المسح علی الخفین، مطلب في المسح علی الخف،‘‘ ج ۱، ص:۴۴۱-۴۴۶)
(۳)لا یجوز علی عمامۃ و قلنسوۃ و برقع و قفازین، لعدم الحرج۔ (ایضاً، ج۱،ص:۴۵۷)

 

فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج3 ص266

نماز / جمعہ و عیدین

الجواب وباللّٰہ التوفیق: مذکورہ امام جس نے زنا کا ارتکاب کیا ہے اور مسجد کے لوٹے اور جائے نماز اپنے گھر لے گئے بلاشبہ فاسق ہے اور فاسق کو امام بنانا مکروہ تحریمی ہے۔در مختار میں ہے ’’ویکرہ إمامۃ عبد وفاسق وقال في رد المحتار قال في الشرح علیہ علی أن کراہۃ تقدیمہ کراہۃ تحریم‘‘ (۱) بس اس کے پیچھے نماز کراہت تحریمی کے ساتھ ادا ہوئی ہے۔ ضروری ہے کہ اس کو امام نہ بنایا جائے اور اگر وہ امام ہے تو اس کو الگ کر دیا جائے اور ایسے بد کردار مدرس سے بچوں کو تعلیم نہ دلوائی جائے۔(۲)

(۱) ابن عابدین، رد المحتار مع الدرالمختار، ’’کتاب الصلوۃ، باب الإمامۃ: البدعۃ خمسۃ أقسام‘‘: ج ۲، ص: ۲۹۹۔
(۲) لا تجوز إمامۃ الفاسق بلا تأویل کالزاني وشارب الخمر۔ (العیني، البنایۃ شرح الہدایۃ، ’’کتاب الصلوۃ، باب الإمامۃ‘‘: ج ۲، ص: ۳۳۳، نعیمیہ دیوبند)

 

فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج5 ص140

نماز / جمعہ و عیدین

الجواب وباللّٰہ التوفیق: افطار کی وجہ سے مغرب کی نماز میں پانچ؍ سات منٹ کی تاخیر میں کوئی حرج نہیں ہے، گھر پر روزہ افطار کرنے والے اگر نہ پہونچ پائیں، تو دس منٹ تک تاخیر ہو سکتی ہے، ان کو بھی چاہیے کہ جلد آنے کی کوشش کریں یا مسجد ہی میں افطار کریں، تاکہ حاضرین کو انتظار کی محنت نہ کرنی پڑے۔(۱)

(۱) (و) اخر (المغرب إلی اشتباک النجوم) أي کثرتہا (وکرہ) أي التأخیر لا الفعل لأنہ مأمور بہ (تحریماً) إلا بعذر کسفر وکونہ علی أکل … وعبارتہ إلا من عذر کسفر ومرض وحضور مائدۃ أو غیم۔ (ابن عابدین،  رد المحتار، ’’کتاب الصلوٰۃ: مطلب في طلوع الشمس من مغربہا‘‘: ج ۲، ص: ۲۷)
وأما المغرب فالمستحب فیہا التعجیل في الشتاء والصیف جمیعاً وتأخیرہا إلی اشتباک النجوم مکروہ۔ (الکاساني، بدائع الصنائع في ترتیب الشرائع، ’’کتاب الصلاۃ: فصل في شرائط الأرکارن،  الأوقات المستحبۃ‘‘: ج ۱، ص: ۳۲۵، زکریا دیوبند)

 

فتاویٰ دارالعلوم وقف دیوبند ج5 ص346

نماز / جمعہ و عیدین

الجواب وباللّٰہ التوفیق:بچہ کی ولادت کے فوراً بعد جلد از جلد اس کے کان میں اذان کہنی چاہئے، دیر کرنا مناسب نہیں، اوراگر فوراً اذان نہیں کہی اور بچہ کا انتقال ہوگیا تو اب اذان کی ضرورت نہ رہی، اور بچہ کے انتقال کے بعد اس کے کان میں اذان دینے کا کوئی فائدہ نہیں، اس لیے اذان نہ دی جائے؛ البتہ اگر ولادت کے وقت زندہ تھا تو اس کا نام رکھا جائے گا اور جنازہ کی نماز پڑھی جائے گی۔
’’وعن أبي رافع رضي اللّٰہ عنہ قال: رأیت رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم أذن في أذن الحسن بن علي رضي اللّٰہ عنہما حین ولدتہ فاطمۃ بالصلاۃ، رواہ الترمذي، وأبو داود، وقال الترمذي، ہذا حدیث حسن صحیح‘‘(۱)
’’بالصلاۃ، (أي بأذانہا وہو متعلق بأذن، والمعنی أذن بمثل أذان الصلاۃ وہذا یدل علی سنیۃ الأذان في أذن المولود وفي شرح السنۃ: روي أن عمر بن عبد العزیز رضي اللّٰہ عنہ کان یؤذن في الیمنی ویقیم في الیسری إذا ولد الصبي، قلت: قد جاء في مسند أبي یعلی الموصلي، عن الحسین رضي اللّٰہ عنہ مرفوعاً: من ولد لہ ولد فأذن في أذنہ الیمنی وأقام في أذنہ الیسری لم تضرہ أم الصبیان، کذا في الجامع الصغیر للسیوطي رحمہ اللّٰہ، قال النووي في الروضۃ: ویستحب أن یقول في أذنہ: {وإني أعیذہا بک وذریتہا من الشیطان الرجیم} (آل عمران: ۳۶)، قال الطیبي: ولعل مناسبۃ الآیۃ بالأذان أن الأذان أیضاً یطرد الشیطان؛ لقولہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم: إذا نودی للصلاۃ أدبر الشیطان لہ ضراط حتی لا یسمع التأذین، وذکر الأذان والتسمیۃ في باب العقیقۃ وارد علی سبیل الاستطراد، اہـ، والأظہر أن حکمۃ الأذان في الأذن أنہ یطرق سمعہ أول وہلۃ ذکر اللّٰہ تعالٰی علی وجہ الدعاء إلی الإیمان والصلاۃ التي ہي أم الأرکان (رواہ الترمذي، وأبو داود، وقال الترمذي: ہذا حدیث حسن صحیح):ومن ولد فمات یغسل ویصلي علیہ إن استہل وإلا یستہل غسل وسمی وأدرج في خرقۃ ودفن ولم یصل علیہ‘‘(۲)
’’من استہل بعد الولادۃ سمي، وغسل وصلی علیہ‘‘(۱)

(۱)  ملا علي قاري، مرقاۃ المفاتیح شرح مشکاۃ المصابیح، ’’کتاب الصید والذبائح، باب العقیقۃ، الفصل الثاني‘‘:  ج ۸، ص: ۸۱، رقم: ۴۱۵۷۔
(۲)  ابن عابدین، رد المحتار، ’’کتاب الصلاۃ، باب صلاۃ الجنازۃ، مطلب مہم: إذا قال: إن شتم فلانا في المسجد یتوقف علی کون الشاتم فیہ‘‘: ج ۳، ص: ۱۲۹، ۱۳۰، ۱۳۱۔
(۱) جماعۃ من علماء الہند، الفتاویٰ الہندیۃ، کتاب الصلاۃ،’’الباب الحادي والعشرون في صلاۃ الجنازۃ، الفصل الثاني في الغسل‘‘: ج۱، ص: ۲۱۹)

 

فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج4 ص244


 

نماز / جمعہ و عیدین

الجواب وباللّٰہ التوفیق: نماز میں تکبیر تحریمہ فرض ہے اگر تکبیر تحریمہ نہ کہے تو نماز نہیں رہتی باقی دیگر تکبیرات مسنون ہیں جن کا چھوڑنا خلاف سنت ہے؛ البتہ اگر کوئی تکبیر چھوٹ گئی تو نماز فاسد نہیں ہوتی۔(۱)

(۱) ویکبر مع الانحطاط، کذا في الہدایۃ، قال الطحطاوي۔ وہو الصحیح کذا في معراج الدرایۃ فیکون ابتداء تکبیرہ عند أول الخرور والفراغ عند الاستواء للرکوع کذا في المحیط۔ (جماعۃ من علماء الہند، الفتاویٰ الہندیۃ، ’’کتاب الصلاۃ: الباب الرابع في صفۃ الصلاۃ، الفصل الثالث: في سنن الصلاۃ وآدابہا وکیفیتہما‘‘: ج۱، ص: ۱۳۱)
(ویکرہ) أن یأتي بالأذکار المشروعۃ في الانتقالات بعد تمام الانتقال … بأن یکبر للرکوع بعد الانتہاء إلی حد الرکوع ویقول سمع اللّٰہ لمن حمدہ بعد تمام القیام۔ (إبراہیم الحلبي، الحلبي الکبیري: ص: ۳۵۷)

 

فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج4 ص385

نماز / جمعہ و عیدین

الجواب وباللّٰہ التوفیق: نوافل میں اختیار ہے خواہ کبھی کبھی ترک بھی کردے یا ہمیشہ نوافل سمجھ کر پڑھتا رہے۔ نوافل ترک کرنے کی عادت بنا لینا ناپسندیدہ ہے۔(۱)

(۱) ویجوز تأخیر الفوائت وإن وجبت علی الفور لعذر السعی علی العیال، و في ردالمحتار تحت (قولہ وفي الحوائج) وأما النفل فقال في المضمرات الاشتغال بقضاء الفوائت أولی واہم من النوافل إلا سنن المفروضۃ وصلاۃ الضحی وصلاۃ التسبیح والصلاۃ التي رویت فیہا الاخبار۔ اہـ۔ ط أي کتحیۃ المسجد والأربع قبل العصر والست بعد المغرب اھـ۔ (ابن عابدین، رد المحتار، ج۲، ص۷۴)
ترکہ لا یوجب إسائۃ ولا عتابا کترک سنۃ الزوائد، لکن فعلہ أفضل۔ (ابن عابدین، رد المحتار: ج ۱، ص: ۴۷۷)

 

فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج6 ص426