نماز / جمعہ و عیدین

الجواب وباللہ التوفیق:  سجدہ سہو کرلینے سے نماز صحیح ہوجائے گی رکوع یا قومہ میں دعاء قنوت کا پڑھنا ممنوع ہے اگر پڑھے گا تب بھی سجدہ سہو لازم ہوگا اگر امام رکوع سے اس لیے اٹھے کہ دعاء قنوت پڑھے اور پھر رکوع کرے تو یہ دوسرا رکوع لغو ہوگا کیوں کہ پہلا رکوع صحیح ہوگیا؛ لہٰذا جس مسبوق نے اس دوسرے رکوع میں امام کی اقتدا کی تو اس کے حق میں یہ رکعت شمار نہ ہوگی۔
’’(ولو نسیہ) أي القنوت، ثم تذکرہ في الرکوع لا یقنت فیہ لفوات محلہ۔ ولا یعود إلی القیام في الأصح، لأن فیہ رفض الفرض للواجب۔ فان عاد إلیہ وقنت ولم یعد الرکوع لم تفسد صلاتہ لکون رکوعہ بعد قرائۃ تامۃ، وسجد للسہو‘‘(۱)
’’حتی لو عاد وقنت ثم رکع فاقتدی بہ رجل، لم یدرک الرکعۃ، لأن ہذا الرکوع لغو‘‘(۲)

(۱) الحصکفي، الدر المختار مع رد المحتار، ’’کتاب الصلاۃ: باب الوتر والنوافل‘‘:… ج ۲، ص: ۴۴۶، ۴۴۷۔)
(۲) الحصکفي، الدرالمختار مع رد المحتار، ’’ باب الوتر‘‘: ج۲، ص: ۶۶۷۔)

 

فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج6 ص311

 

نماز / جمعہ و عیدین

الجواب وباللّٰہ التوفیق: بوقت اشراق احادیث میں دو رکعتوں کا پڑھنا بھی ثابت ہے اور چار رکعت پڑھنا بھی تاہم چار رکعت ایک سلام کے ساتھ پڑھنا افضل ہے۔(۱)

(۱) عن أنس قال: قال رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم من صلی الغداۃ في جماعۃ، ثم قعد یذکر اللّٰہ حتی تطلع الشمس، ثم صلی رکعتین، کانت لہ کأجر حجۃ وعمرۃ۔ قال: قال رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم: تامۃ تامۃ تامۃ۔ (أخرجہ الترمذي، في سننہ، ’’ابواب السفر، باب ذکر ما یستحب من الجلوس في المسجد بعد صلاۃ الصبح حتی تطلع الشمس‘‘: ج ۱، ص: ۱۳۰، رقم:۵۸۶)
عن أبي الدرداء و أبي ذر عن رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم عن اللّٰہ تبارک و تعالیٰ أنہ قال: ابن آدم، ارکع لي أربع رکعات من أوّل النہار أکفک آخرہ۔ (أخرجہ الترمذي، في سننہ، أبواب الوتر، باب ما جاء في صلاۃ الضحی، ج۱، ص۱۰۸، رقم:۴۷۵)
وتکرہ الزیادۃ علی أربع في نفل النہار، وعلی ثمان لیلاً بتسلیمۃ، لانہ لم یرد والأفضل فیہما الرباع بتسلیمۃ، وقالا: في اللیل المثنی أفضل قیل، وبہ یفتی۔ (الحصکفي، الدرالمختار مع رد المحتار، ’’باب الوتر والنوافل،مطلب في السنن والنوافل‘‘: ج ۲، ص: ۴۵۵، زکریا دیوبند)

 

فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج6 ص421

طلاق و تفریق

Ref. No. 881 Alif

الجواب وباللہ التوفیق

بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔  صورت مسئولہ میں  اگر فارم پر طلاق کی صراحت تھی اور  شوہر نےاس پر اپنی رضامندی سے  دستخط  کردیا ہے  اور  کورٹ نے  اسی کے مطابق فیصلہ سنایا ہے ، تو  عورت پر طلاق واقع ہوچکی ہے۔ واللہ اعلم بالصواب

 

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند

طہارت / وضو و غسل

Ref. No. 37 / 1071

الجواب وباللہ التوفیق                                                                                                                                                        

بسم اللہ الرحمن الرحیم: پیر دھونا اور اگر خفین پہنے ہو تو اس پر مسح کرناجبکہ  فرض ہے تو جوتے پہن کر وضو کرنے کا کیا مطلب ہے؟ جوتے تو بہرحال اتارنے پڑیں گے۔   واللہ اعلم بالصواب

 

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند

ذبیحہ / قربانی و عقیقہ

Ref. No. 38 / 1181

الجواب وباللہ التوفیق                                                                                                                                                        

بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ اگر جڑ سے نہ ٹوٹی ہو تو اس کی قربانی درست ہے۔  واللہ اعلم بالصواب

 

 

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند

Fiqh

Ref. No. 40/

In the name of Allah the most Gracious the most Merciful

The answer to your question is as follows:

Minimum period of menses is 3 days and maximum period is 10 days. If bleeding stops before day 3, then the bleeding is due to infection, not of Haidh.  And this kind of bleeding is named with Istihadha. A woman must act as normal, and perform namaz and keep fasting. In the above case, she has to complete the day 3 waiting. If the bleeding is seen on day 3, then all the three days will be counted as of Haidh, but if the bleeding is not seen on day 3, then the bleeding of previous two days will be considered as of Istihadha. And the lady must perform qaza namaz of these two days.

The maximum period of Haidh is 10 days. If she sees blood before day 10 anytime, then all the days will be counted as of Haidh. If the bleeding which stopped before day 3, starts again on day 11, then the past ten days are not of Haidh days.  

And Allah knows best

Darul Ifta
Darul Uloom Waqf Deoband

احکام میت / وراثت و وصیت

Ref. No. 1440/42-901

الجواب وباللہ التوفیق

بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ اس عمر کی بچی کو قبرستان لے جانے میں کسی مفسدہ کا اندیشہ نہیں ہے، اس لئے اس میں کوئی حرج نہیں۔ جوان عورتیں بہت سارے خرافات میں لگ جاتی ہیں اور صبروتحمل ان میں کم ہوتاہے اس لئے ان کو منع کیاجاتاہے۔

وإن کان للاعتبار والترحم من غیر بکاء والتبرک بزیارة قبور الصالحین فلا بأس إذا کن عجائز (شامي زکریا: ۳/۱۵۱)

واللہ اعلم بالصواب

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند

بدعات و منکرات

Ref. No. 1633/43-1214

بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔   

الصلاة والسلام على النبی الکریم صلى الله عليه وسلم قبل الأذان غیر مشروعة واما الصلاة والسلام على النبی الکریم صلى الله عليه وسلم بعد الأذان فمستحبۃ لقول النبي صلى الله عليه وسلم: إذا سمعتم مؤذناً فقولوا مثلَ ما يقول، ثم صلوا علي، فإنه من صلَّى عليَّ صلاةً صلَّى الله عليه بها عَشْراً، ثم سَلْوا ليَ الوَسيلَة، فإنها منزلةٌ فيِ الجنة لا تنبَغي إلا لعبد من عباد الله، وأرجو أنْ أكَونَ أناَ هو، فمن سألَ لي الوَسيلَة حلَّت عليه الشفاًعة (مسند احمد شاکر، اول مسند عبداللہ بن عمرو بن العاص 6/141، الرقم 6569)  أما إذا كان المؤذن يقول ذلك برفع صوت كالأذان فذلك بدعة؛ لأنه يوهم أنھا جزء من الأذان، والزيادة في الأذان لا تجوز؛ و لو كان ذلك خيرا لسبق إليه السلف الصالح فی القرون المشھود لھا بالخیر ولم یوجد ذلک فیھا۔  فعلینا أن نحافظ على ما كان عليه العمل أيام الرسول صلى الله عليه وسلم وصحابته ومن بعدھم من عدم رفع المؤذن صوته بها۔ فلذا  رفع الصوت بالصلاة على النبي صلى الله عليه وسلم غير مشروعة، وعلینا ان نصلی ونسلم علی النبی الکریم صلی اللہ علیہ وسلم سرًا.  واما الصلوۃ والسلام علی النبی الکریم بعد الصلوات الخمسۃ سرا، و قبل ابتداء المدرسۃ و انتھائھا فلا باس بہ مالم یعتقد لزومھا و لم یلم احدا علی ترکھا۔   

وفي جميع الأحوال، لا يجوز تحويل هذه المسألة الفرعية إلى سبب للشقاق والنزاع في مساجد المسلمين، فالأصل احترام العمل والعاملین والمجادلۃ بالتی ھی احسن۔

واللہ اعلم بالصواب

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند

عائلی مسائل

Ref. No. 1828/43-1628

بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔  ہرشخص اپنی زمین میں پورے طو پر تصرف کا مالک ہوتاہے، اپنی زمین کے چاروں جانب  کچھ حصہ چھوڑ کردیوار چلانا، اور بغیر جگہ چھوڑے بالکل آخری  کنارہ پر دیوار چلانا بھی درست ہے۔  البتہ اگر آپ نے اپنی زمین کے آخری کنارہ پر دیوار اٹھائی تو پھر اس جانب کھڑکی یا دروازہ یا روشن دان  کھولنے کی اجازت نہیں ہوگی۔ ہمارے عرف اورملک  کے قانون  میں بھی کھڑکی وغیرہ کھولنے کی اجازت صرف  اسی جانب ہوتی ہے  جس جانب اپنی زمین ہو۔ اس لئے دوسرے کی زمین کی طرف گرچہ وہ  ابھی تعمیر سے خالی ہو، کھڑکی وغیرہ کھولنا درست نہیں ہے۔  ملک  کے قانون کے مطابق عمل کریں۔

ہمارے یہاں بعض علاقوں میں یہ عرف ہے کہ ہر دومکانوں کے درمیان کچھ جگہ (گلی کے لئے) چھوڑی جاتی ہے تاکہ دونوں مکان والے اپنی کھڑکی اس گلی میں کھول سکیں ، جہاں یہ عرف ہو وہاں اس کے مطابق عمل کرنا چاہئے۔

واللہ اعلم بالصواب

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند

متفرقات

Ref. No. 2032/44-2137

بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ خواب خوش آئند ہے، اور مرحومہ ان شاء اللہ جنت کی بہاروں میں ہے ، اور خواب دیکھنے والی کے لئے یہ بشارت اس میں ہے۔ حسب گنجائش صدقہ کرنا اچھی بات ہے،

 واللہ اعلم بالصواب

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند