اسلامی عقائد

الجواب وباللّٰہ التوفیق:تدفین سے فراغت کے بعد جب لوگ واپس ہوجاتے ہیں تو فوراً منکرنکیر آکر سوال و جواب کرتے ہیں(۱) البتہ رمضان المبارک اور یوم جمعہ(۲) میں انتقال کرنے والوں کا حساب و کتاب مؤخر کردیا جاتا ہے۔ پھر اس کے بعد سوال وجواب ہوتے ہیں یا نہیں اس کی وضاحت نہیں ہے۔
سوال وجواب کے وقت ظاہر ہے کہ پوری روح جسم میں ڈال کر زندہ کردیا جاتا ہے کہ پوری سوجھ بوجھ اور سمجھداری کے ساتھ جواب دے سکے، اس کے بعد مومن کی روح اعلی علیین میں اور کافر کی روح سجیین میں پہونچادی جاتی ہے۔ مگر روح کا تعلق جسم کے ساتھ اس طرح رہتا ہے جس طرح آسمان سے سورج کی کرنیں دنیا کی چیزوں پر پڑتی ہیں اور ان میں اس کے اثرات ظاہر ہوتے ہیں اسی اثر کی وجہ سے جسم کو عذاب کی تکلیف اور انعام کی راحت محسوس ہوتی ہے۔(۳)

۱) عن عثمان بن عفان -رضي اللّٰہ عنہ- کان النبي صلی اللّٰہ علیہ وسلمإذا فرغ من دفن المیت وقف علیہ، فقال: استغفروا لأخیکم واسألو اللّٰہ لہ بالتثبیت فإنہ الآن یسئل۔ (أخرجہ أبوداود، في سننہ، ’’کتاب الجنائز: باب الاستغفار عند القبر للمیت في وقت الانصراف‘‘: ج ۲، ص: ۴۵۹، رقم: ۳۲۲۱)
(۲) ثم ذکر أن من لا یسأل ثمانیۃ! … ومنہم … والمیت یوم الجمعۃ أو لیلتہا۔ (ابن عابدین، الدر المختار مع رد المحتار، ’’کتاب الصلاۃ: باب صلاۃ الجنازۃ، مطلب: ثمانیۃ لا یسألون في قبورہم‘‘: ج ۳، ص: ۸۱)
عذاب القبر حق وسؤال منکر ونکیر وضغطۃ القبر حق، … ویرفع عنہ یوم الجمعۃ وشہر رمضان۔ (ابن عابدین، الدر المختار مع رد المحتار، کتاب الصلاۃ: باب الجمعۃ، مطلب: ما اختص بہ یوم الجمۃ‘‘: ج ۳، ص: ۴۴)
(۳) وسؤال منکر ونکیر وہما ملکان یدخلان القبر فیسئلان العبد إلخ۔ (علامہ تفتازاني، شرح العقائد النسفیۃ ’’بحث عذاب القبر‘‘: ص: ۹۸)
وأعلم أن أہل الحق اتفقوا علی أن اللّٰہ تعالیٰ یخلق في المیت نوع حیاۃ في القبر قدر ما یتألم، أو یتلذذ … وکلامہ (أبي حنیفۃ) ہنا یدل علی إعادۃ الروح، إذ جواب الملکین فعل اختیاري فلا یتصور بدون الروح۔ (أبو حنیفۃ -رحمہ اللّٰہ- شرح الفقہ الأکبر، بحث في أن عذاب القبر حق، وبیان أن الروح تعاد للمیت‘‘: ص: ۱۷۲)
إن عذاب القبر حق، سواء کان مؤمناً أو کافراً أو مطیعاً أو فاسقاً۔ (أیضاً:)


فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج1ص237

اسلامی عقائد

 

الجواب وباللّٰہ التوفیق:اللہ تعالیٰ کے علاوہ کسی کے نام پر دینا، کسی مزار یا کسی خاص مقام پر یا کسی خاص شخصیت کے نام پر نذر و نیاز کرنا، یا مرغ و بکرے وغیرہ چڑھانا یہ سب حرام ہے خواہ اس جانور کو ذبح کرتے وقت بسم اللہ ہی کیوں نہ پڑھ لی جائے؛ اس لیے کہ اس میں اللہ سے بڑھ کر دوسروں (مخلوق) کی تعظیم لازم آتی ہے شامی میں ہے ’’ذبح لقدوم الأمیر و نحوہ کواحد من العظماء یحرم لأنہ أہل بہ لغیر اللّٰہ تعالٰی‘‘(۱) قبر پر چادر وغیرہ چڑھانے کی حرمت بھی نص قطعی سے ثابت ہے نبی اکرم علیہ الصلوٰۃ والسلام کا ارشاد گرامی ہے کہ ’’إن اللّٰہ لم یأمرنا أن نکسو الحجارۃ والطین‘‘(۲) نیز غیر اللہ سے مرادیں مانگنا بھی حرام ہے اور اگر کوئی غیر اللہ کو قادر مطلق سمجھ کر اس سے مانگے تو وہ کافر ہے۔(۳)

(۱) ابن عابدین، الدر المختار مع رد المحتار، ’’کتاب الذبائح‘‘: ج ۹، ص: ۴۴۹۔
ولو ذبح لأجل قدوم الأمیر أو قدوم واحد من العظماء وذکر إسم اللّٰہ یحرم أکلہ لأنہ ذبحہا لأجلہ تعظیما لہ۔ (ابن نجیم، البحر الرائق، ’’ما یقولہ عند الذبح‘‘: ج ۸، ص: ۱۹۲)…(۲) أخرجہ المسلم، في صحیحہ، ’’کتاب اللباس: باب تحریم تصویر صورۃ الحیوان‘‘: ج ۲، ص: ۲۰۰، رقم: ۲۱۰۷۔
(۳) {وَلَا تَدْعُ مِنْ دُوْنِ اللّٰہِ مَالَا یَنْفَعُکَ وَلَایَضُرُّکَج فَإِنْ فَعَلْتَ فَإِنَّکَ إِذًا مِّنَ الظّٰلِمِیْنَ ہ۱۰۶} (سورۃ یونس: ۱۰۶)
{وَإِنْ یَّمْسَسْکَ اللّٰہُ  بِضُرٍّ فَلاَ کَاشِفَ  لَہٗٓ  إِلَّا ھُوَ} (سورۃ یونس: ۱۰۸)
وأعلم أن الأمۃ لو اجتمعت علی أن ینفعوک بشیء لم ینفعوک إلا بشيء قد کتبہ اللّٰہ لک۔ (أخرجہ الترمذي، في سننہ، ’’أبواب الزہد‘‘: ج ۲، ص: ۲۸، رقم: ۲۵۱۶)

 

فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج1ص365

اسلامی عقائد

Ref. No. 2380/44-3605

بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔  ہمارے ملک ہندوستان میں مختلف مذاہب کے لوگ رہتے ہیں، اور قانونی طور پر ہر ایک کو اپنے مذہب پر عمل کرنے کی آزادی ہے۔ اس لئے اگر کسی کمپنی میں یا ادارہ میں مختلف مذاہب کے ماننے والے اپنے اپنے طور پر اپنے مذہبی امور انجام دیتے ہیں اور دوسروں کو مجبور نہیں کرتے تو اس میں کوئی حرج نہیں ہے۔ 

واللہ اعلم بالصواب

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند

 

بدعات و منکرات

Ref. No. 2429/45-3668

بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔  مسجد کے لئے ضروری لائٹ کا انتظام مسجد کے فنڈ سے ہوگا، اسی طرح بنیادی ضرورت میں جو چیزیں شامل ہیں ان کو مسجد کے فنڈ سے پورا کیاجائے گا، لیکن جھگ مگ لائٹ جو صرف آرائش و زیبائش کے لئے یا اسی طرح ایسا کلر کرنا جو ضرورت سے زاید ہو اس کو مسجد کے فنڈ سے پورا نہیں کیا جائے گا۔ البتہ اگر کوئی شخص اپنی ذاتی رقم سے مسجد میں زائد لائٹ لگوائے یا زیب و زینت کے لئے دیواروں پر مختلف رنگ لگوائے تو اس کی گنجائش ہے۔ تاہم ایسی لائٹ اور اس طرح کا نقش و نگار مسجد کے ایسے حصہ میں مناسب نہیں جس سے نمازیوں کی نماز میں خلل واقع ہوتاہو۔

(الدر المختار وحاشة ابن عابدین (رد المحتار) ۱/۶۵۴)

بقي في المکروہات أشیاء أخر ذکرہا في المنیة ونور الإیضاح وغیرہا: منہا الصلاة بحضرة ما یشغل البال ویخل بالخشوع کزینة ولہو ولعب․

و في الدر المختار مع رد المحتار:

"لابأس بنقشه خلا محرابه بجص، وماء ذهب بماله لا من مال الوقف، وضمن متولیه لو فعل، النقش البیاض، إلا إذا کان لإحکام البناء".

( کتاب الصلاة، باب ما یفسد الصلاة وما یکره فیها 1: 658ط:سعيد

وفي المدخل لابن الحاج :

"و من البدع التي أحدثوها في هذا الشهر الكريم: أن أول ليلة جمعة منه يصلون في تلك الليلة في الجوامع، والمساجد صلاة الرغائب ... وقود القناديل و غيرها. و في زيادة وقودها إضاعة المال لا سيما إذا كان الزيت من الوقف فيكون ذلك جرحة في حق الناظر لا سيما إن كان الواقف لم يذكره، وإن ذكره لم يعتبر شرعًا.و زيادة الوقود مع ما فيه من إضاعة المال كما تقدم سبب لاجتماع من لا خير فيه."

(1/ 293الناشر: دار التراث)

و فيه أيضًا:

"و ينبغي في ليالي رمضان كلها أن يزاد فيها الوقود قليلًا زائدًا على العادة لأجل اجتماع الناس و كثرتهم فيه دون غيره فيرون المواضع التي يقصدونها، و إن كان الموضع يسعهم أم لا و المواضع التي يضعون فيها أقدامهم والمواضع التي يمشون فيها إلى غير ذلك من منافعهم. ولا يزاد في ليلة الختم شيء زائد على ما فعل في أول الشهر؛ لأنه لم يكن من فعل من مضى بخلاف ما أحدثه بعض الناس اليوم من زيادة وقود القناديل الكثيرة الخارجة عن الحد المشروع لما فيها من إضاعة المال والسرف والخيلاء سيما إذا انضاف إلى ذلك ما يفعله بعضهم من وقود الشمع وما يركز فيه، فإن كان فيه شيء من الفضة أو الذهب فاستعماله محرم لعدم الضرورة إليه وإن كان بغيرهما فهو إضاعة مال وسرف وخيلاء.

وبعضهم يفعلون فعلًا محرمًا وهو أنهم يعلقون ختمة عند الموضع الذي يختمون فيه وتختلف أحوالهم فيها فبعضهم يتخذها من الشقق الحرير الملونة.

وبعضهم من غيرها لكنها تكون ملونةً أيضًا ويعلقون فيها القناديل وذلك محرم وسرف وخيلاء وإضاعة مال واستعمال لما لا يجوز استعماله من الحرير وغيره، وبعضهم يجعل الماء الذي في القناديل ملونًا.

وبعضهم يضم إلى ذلك القناديل المذهبة أو الملونة أو هما معا وهذا كله من باب السرف والخيلاء."

(2/ 302الناشر: دار التراث)

واللہ اعلم بالصواب

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند

 

مذاہب اربعہ اور تقلید

الجواب وباللّٰہ التوفیق:شیعوں کا وہ فرقہ جو ضروریات دین میں سے کسی امر کا منکر ہے(۱) اور حضرت علی رضی اللہ عنہ کے بارے میں الوہیت کا قائل ہے یا حضرت جبرئیل علیہ السلام کے بارے میں غلط فی الوحی کا عقیدہ رکھتا ہے(۲) یا حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا کے بارے میں قذف یعنی الزام وبہتان کا عقیدہ رکھتا ہے، تو وہ اسلام سے خارج ہے؛ لیکن جو شیعہ فضیلت حضرت علی رضی اللہ عنہ کے قائل ہیں وہ مسلمان ہیں، لیکن مبتدع ہیں، ایسے شیعہ افراد کی لڑکیوں سے سنی مرد کا نکاح جائز ہے اور جو افراد خارج اسلام ہوں ان کی لڑکیوں سے سنی کا نکاح جائز نہیں ہوگا اور جو حضرات شیعہ تفضیلیہ ہیں ان سے سنی لڑکی کا نکاح اس لئے مناسب نہیں ہوگا کہ اختلاف عقائد کی بنا پر مقاصد نکاح کے فوت ہونے کا قوی اندیشہ ہے۔ مذکورہ صورت میں جن شیعہ لڑکیوں کا نکاح سنی مسلمان لڑکوں سے ہوا ہے ان نکاحوں کو صحیح کہا جائے گا اور اس کی وجہ سے جن سنی مسلمانوں نے لڑکیوں سے نکاح کیا ہے ان کو شیعہ نہیں کہا جائے گا، جب کہ وہ اپنے عقائد سنیہ پر قائم ہو ں اور چونکہ یہ نکاح پہلے ہوچکے ہیں؛ اس لئے مذکورہ علیحدگی کے ضمن میں وہ مرد وعورتیں نہیں ان کو بھی اس اعلان میں شمار کرنا صحیح نہ ہوگا، ہر وہ طریقہ جو باعث فتنہ بنتا ہے اس سے رکنا اور روکنا ضروری ہے۔

(۱) وإن أنکر بعض ما علم من الدین ضرورۃ کفر بہا۔ (ابن عابدین، الدرالمختار مع رد المحتار، کتاب الصلاۃ، ’’باب الإمامۃ‘‘:ج ۲، ص: ۳۰۰)
(۲) بخلاف من أدعی أن علیاً إلہ وأن جبریل غلط لأنہ لیس عن شبہۃ واستفراغ وسع في الاجتہاد بل محض ہوی۔ (’’أیضاً‘‘)
بخلاف ما إذا کان یفضل علیا أو یسب الصحابۃؓ فإنہ مبتدع لا کافر۔ (ابن عابدین۔ الدر المختار مع رد المحتار: ج ۳، ص: ۱۴۶)

 

فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج2ص284

نماز / جمعہ و عیدین

الجواب وباللّٰہ التوفیق:روایات میں فرض نمازوں کے بعد دعاء کی تاکید وترغیب آئی ہے؛ اس لیے فرض نمازوں کے بعد دعاء کا اہتمام ہونا چاہیے اور جب سب لوگ اس کا اہتمام کریں گے تو اجتماعی دعاء کی ہیئت ہو جائے گی، لیکن دعاء کو لازم وضروری سمجھنا درست نہیں ہے؛ اس لیے کہ سلام پر نماز ختم ہو جاتی ہے، دعاء نماز کا حصہ نہیں ہے؛ اس لیے اس پر اصرار کرنا درست نہیں ہے۔ جو صاحب نماز کے بعد مطلقاً دعاء سے منع کرتے ہیں، وہ غلط ہے؛ اس لیے کہ نماز کے بعد دعاء حدیث سے ثابت ہے۔
عن معاذ بن جبل: أن رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم أخذ بیدہ، وقال: یامعاذ واللّٰہ  إني لأحبک واللّٰہ إني لأحبک، فقال: أوصیک یا معاذ لاتدعن في دبر کل صلاۃ تقول: اللہم أعني علی ذکرک وشکرک وحسن عبادتک وأوصی بذلک معاذ الصنابحی وأوصی بہ الصنابحی أبا عبد الرحمن۔
حدثنا محمد بن سلمۃ المرادی ثنا ابن وہب عن اللیث بن سعد أن حنین بن أبي حکیم حدثہ عن علي بن رباح اللخمي۔
عن عقبۃ بن عامر رضي اللّٰہ عنہ، قال: أمرني رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم أن أقرأ بالمعوذات ]في[ دبر کل صلاۃ۔(۱)
حدثنا محمد بن یوسف قال: حدثنا سفیان عن عبد الملک بن عمیر عن وراد کاتب المغیرۃ بن شعبۃ قال أملی علی المغیرۃ بن شعبۃ في کتاب إلی معاویۃ أن النبي صلی اللّٰہ علیہ وسلم کان یقول في دبر کل صلاۃ مکتوبۃ (لا إلہ إلا اللّٰہ وحدہ لا شریک لہ، لہ الملک، ولہ الحمد، وہو علی کل شيء قدیر، اللہم لا مانع لما أعطیت، ولا معطی لما منعت، ولا ینفع ذا الجد منک الجد)۔ وقال شعبۃ عن عبد الملک بن عمیر، بہذا، وعن الحکم، عن القاسم بن مخیمرۃ، عن وراد بہذا۔ وقال الحسن الجد: غنیً۔
حدثنا عبید اللّٰہ بن معاذ، قال: ثنا أبي ثنا عبد العزیز بن أبي سلمۃ، عن عمہ الماجشون بن أبي سلمۃ، عن عبد الرحمن الأعرج، عن عبید اللّٰہ بن أبي رافع۔
عن علي بن أبي طالب رضي اللّٰہ عنہ، قال: کان النبي صلی اللّٰہ علیہ وسلم إذا سلم من الصلاۃ قال ’’اللہم اغفر لي ما قدمت وما أخرت وما أسررت وما أعلنت‘‘۔(۲)
(۱) أخرجہ البخاري، في صحیحہ، ’’کتاب الأذان: باب الذکر بعد الصلاۃ‘‘: ج ۱، ص: ۳۱۵، رقم: ۸۴۴۔
(۲) أخرجہ أبو داود، في سننہ، ’’کتاب الصلاۃ: باب الدعاء في صلاۃ اللیل وقیامہ‘‘: ج ۱، ص: ۲۰۸، رقم: ۷۷۱۔

فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج2ص383

طہارت / وضو و غسل

الجواب وباللّٰہ التوفیق:احتیاط کے ساتھ کموڈ کا استعمال کرنا جائز ہے، تاکہ جسم اور کپڑے پر چھینٹے نہ پڑیں؛ البتہ بہتر اور صحت بخش طریقہ وہی ہے، جو فطری ہے اور جسے محمد B نے اپنایا ہے۔ جدید ریسرچ کے مطابق اگر اس فطری طریقے کے مطابق قضائے حاجت کے لیے بیٹھا جائے، تو اپنڈے سائیٹس (Appendiesitis) دائمی قبض، بواسیر (Piles)، گردوں کے امراض، گیس، تبخیر اور بدہضمی وغیرہ جیسے امراض ختم ہوجاتے ہیں (۱) علاوہ ازیں ایک روایت میں ہے کہ حضرت سراقہ بن مالک رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ: علّمنا رسول اللّٰہ ﷺ: إذا دخل أحدنا الخلاء أن یعتمد علی الیسری و ینصب الیمنی۔(۲)
جو لوگ کموڈ کا استعمال کرتے ہیں ان کو مندرجہ ذیل آداب کا خیال رکھنا چاہیے (۱)اگر کموڈ صرف آپ کے ذاتی استعمال میں نہیں ہے (بلکہ مشترکہ یا پبلک کموڈ ہے) تو آپ کو اس کی سیٹ کی  طہارت پر یقین نہیں کرنا چاہیے۔ اس پر بیٹھنے سے قبل اسے دھوکر ٹشو پیپر سے خشک کرلیں (۲)کموڈ پر بیٹھنے سے قبل اس پر ٹشو پیپر کو اس طرح بچھا لیں کہ ٹشو کا کوئی حصہ دائیں بائیں لٹکا ہوا نہ ہو اور سیٹ کی طرح ٹشوبھی مکمل طور پر خشک ہو (۳)۔بول و براز سے قبل کموڈ کے بائول میں پانی کی سطح کے اوپر ٹشو پیپر کے اتنے ٹکڑے ڈال لیں کہ دورانِ فراغت نیچے کا پانی اچھل کر جسم کو نہ لگے (۴)۔بول و براز سے فراغت کے بعد پہلے فلش کو چلا کر غلاظت کو پانی بہادیں اس احتیاط کے ساتھ کہ اس دوران فلش
 کا پانی اچھل کر آپ کے جسم کو نہ لگے (۵) اب جسم دھلا ہوا اور خشک ہوگا۔ اب سیٹ سے اٹھ کر سیٹ کا ٹشو بھی بائول میں گرادیں اور ایک مرتبہ پھر فلش سے پانی کو بہادیں(۷)گندے اور آلودہ ہاتھ کو پہلے ڈیٹول صابن سے دھوئیں، پھر عام ٹوائلیٹ صابن سے دونوں ہاتھ دھو کر پاک کرلیں۔
(۱) محمد طارق محمود چغتائی، سنت نبوی اور جدید سائنس، حاجت ضروریہ اور جدید سائنس، ج۱، ص:۱۹۰
(۲) أخرجہ البیہقي، في سننہ، ’’کتاب الطہارۃ، باب تغطیۃ الراس عند دخول الخلاء والاعتماد،‘‘ ج۱، ص:۹۶(بیروت: دارالکتب العلمیۃ، لبنان)
 

فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج3 ص94

 

نماز / جمعہ و عیدین

الجواب وباللّٰہ التوفیق: اگر واقعی طور پر حافظ صاحب کی عمر پورے پندہ سال ہے اور اس میں کچھ بھی کمی نہیں ہے تو وہ حافظ صاحب بالغ ہیں اور شرعی اصول کے تحت ان کے پیچھے نماز تراویح درست ہے، چوں کہ اگر کوئی علامت احتلام وغیرہ سے ظاہر نہ ہو، تو عمر کا پندرہ سال ہونا بلوغت کے لیے شرعاً کافی ہے؛ پس ایسی صورت میں ان کے پیچھے نماز پڑھی جائے اور شک نہ کیا جائے۔(۱)

(۱) فإن لم یوجد شيء مما ذکرنا فیعتبر البلوغ بالسن وقد اختلف العلماء في أدنی السن التي یتعلق بہا البلوغ قال أبو حنیفۃؒ ثماني عشر سنۃ في الغلام وسبع عشرۃ في الجاریۃ وقال أبو یوسف ومحمد والشافعي رحمہم اللّٰہ خمس عشرۃ سنۃ في الجاریۃ والغلام جمیعاً۔ (الکاساني، بدائع الصنائع في ترتیب الشرائع، ’’کتاب الصلاۃ، فصل في بیان ما یرفع الحجر‘‘: ج ۱، ص: ۱۷۲)
 
 فتاویٰ دارالعلوم وقف دیوبندج 5 ص:34

 

نماز / جمعہ و عیدین

الجواب وباللّٰہ التوفیق: قرآنی آیات وادعیہ ماثورہ اور احادیث میں مذکورہ دعاؤں پر مشتمل تعویذ دینا اور اس پر مناسب اجرت لینا جائز ہے ایسے شخص کے پیچھے نماز درست ہے، امام صاحب کا سرکاری اینٹ یا دیگر سامان کا بغیر اجازت اٹھانا فعل قبیح ہے جس کا ترک کرنا لازم ہے۔(۱)

(۱) قال رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم إن أحق ما أخذتم علیہ أجرا کتاب اللّٰہ۔ (أخرجہ البخاري في صحیحہ، ’’کتاب الطب:باب الشرط في الرقیۃ بقطع من الغنم‘‘: ج۲، ص: ۸۵۴، رقم: ۳۱۱۳)
قال رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم: من این علمتم أنہا رقیۃ؟ أحسنتم، اقتسموا واضربو لي معکم بسہم، سلیمان بن الأشعث السجستاني۔ (أخرجہ أبو داؤد في سننہ، ’’کتاب الطب، کیف الرقی‘‘: ج۲، ص: ۵۴۴، رقم: ۳۹۰۰)

 

 فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج5 ص58

نماز / جمعہ و عیدین

الجواب و باللّٰہ التوفیق: غیر محرم عورت کو سفر میں لانے لے جانے والے شخص کا طریقہ غلط اور برا ہے ایسے شخص کی امامت بھی مکروہ ہے۔(۱)

(۱) ومن أم قوماً وہم لہ کارہون إن الکراہۃ لفساد فیہ أولأنہم أحق بالإمامۃ منہ کرہ لہ ذلک تحریماً وإن ہو أحق لا والکراہۃ علیہم۔ (ابن عابدین، رد المحتار، ’’کتاب الصلوۃ، باب الإمامۃ، مطلب في تکرار الجماعۃ في المسجد‘‘: ج۲، ص: ۲۹۸)
 

فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج5 ص187