ربوٰ وسود/انشورنس

Ref. No. 41/855

الجواب وباللہ التوفیق:

بسم اللہ الرحن الرحیم:۔ بینک کے ذریعہ گاڑی خریدنے کی ایک صورت یہ ہے کہ بینک گاڑی کی قیمت مع منافع ایک ساتھ طے کردے اور پھر گاڑی خرید کراپنے گراہک کو  بیچ دے۔ اگر قسط مقرر کرے تو گراہک وقت  مقررہ پر قسط اداکرتا رہے تاکہ تاخیر کی وجہ سے کوئی سود نہ دینا پڑے تو اس میں کوئی حرج نہیں ہے۔ علاوہ ازیں اس زمانہ میں ضرورت کے پیش نظر بینک سے لون پر گاڑی خریدنے کی   بھی  گنجائش ہے۔  

واللہ اعلم بالصواب

 

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند

تجارت و ملازمت

Ref. No. 927/41-53B

الجواب وباللہ التوفیق 

بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔  بکری کو پا ل پر دینے کی جو شکلیں  آج کل رائج ہیں (جس میں ایک آدمی اپنی  بکری دوسرے کو اس کے نصف منافع کے عوض  پال پر دیتا ہے کہ تم اس کو چارہ کھلاؤ دیکھ بھال کرو، اور جو بچہ یہ دے گی اس کو آدھا آدھا تقسیم کرلیں گے) وہ شرعاً ناجائز ہیں۔  اگر کسی نے ناجائز ہونے کے باوجود ایسا معاملہ کرلیا تو جلد از جلد اس کو ختم کردینا ضروری ہے، اور بکری کا مالک اپنی بکری اور اگر بچہ ہو تو اس کو بھی اپنی ملکیت میں  واپس لے لے اور پالنے والے کو اس کی اجرت مثل دےدے۔ 

شرعی اعتبار سے ایک جائز شکل یہ ہوسکتی ہے کہ بکری  کا مالک بکری پالنے والے کو آدھی بکری  بیچ کر یا ہبہ  کرکےاس کو بکری میں شریک بنالے اور پھر دونوں باہمی رضامندی سے منافع کی تقسیم کرلیں، توایسا کرنا درست ہوگا۔  

فلو دفع بزر القز أو بقرة أو دجاجا لآخر بالعلف مناصفة فالخارج كله للمالك لحدوثه من ملكه وعليه قيمة العلف وأجر مثل العامل عيني ملخصا، ومثله دفع البيض كما لا يخفى (الدرالمختار 5/69)۔ وعلى هذا إذا دفع البقرة بالعلف ليكون الحادث بينهما نصفين، فما حدث فهو لصاحب البقرة وللآخر مثل علفه وأجر مثله تتارخانية. (الدرالمختار 4/327)

واللہ اعلم بالصواب

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند

طلاق و تفریق

Ref. No. 1238/42-553

الجواب وباللہ التوفیق

بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ جب شوہر نے طلاق کو کسی شرط پر معلق کردیا تو اب رجوع کی کوئی شکل نہیں ۔ جب بھی شرط پائی جائے گی، شرعا طلاق واقع ہوگی۔ اب مذکورہ شرط اس وقت پائی گئی جب آپ طلاق کا محل نہیں تھیں  اس لئے طلاق واقع نہیں ہوئی۔ لیکن جو دیگر شرطیں شوہر نے لگائی تھیں اور آپ نے ان کو پورا نہیں کیا اور اب جبکہ نکاح ہوگیا تب پورا کیا جیسے کہ بہن سے ملاقات کرنا تو اب اس سے طلاق واقع ہوجائے گی۔

وان قال لھا ان کلمت اباعمرو وابایوسف فانت طالق ثلاثا ثم طلقھا واحدۃ فبانت وانقضت عدتھا فکلمت ابا عمرو ثم تزوجھا فکلمت ابا یوسف فھی طالق ثلثا مع الواحدۃ الاولی (ہدایہ ۲/۳۸۸، دارالکتاب دیوبند)

واللہ اعلم بالصواب

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند

اسلامی عقائد

الجواب وباللّٰہ التوفیق:واقعۂ معراج کی تفصیلات میں ’’اسراء‘‘ قرآن کریم سے ثابت ہے جس کا منکر کافر ہے باقی تفصیل احادیث سے ثابت ہیں وہ احادیث مجموعی طور پر اگرچہ تواتر کے قریب ہیں؛ لیکن بہر حال متواتر نہیں، اس لئے منکر کافر نہیں قرار دیا جائے گا، تاہم ایسا شخص گمراہی کی راہ پر ہے اس کو اچھی طرح سمجھانا چاہئے۔

(۱) ومن أنکر المتواتر فقد کفر۔ (جماعۃ من علماء الہند، الفتاویٰ الہندیۃ، ’’کتاب السیر: الباب التاسع: في أحکام المرتدین، موجبات الکفر أنواع، ومنہا: ما یتعلق بالأنبیاء علیہم السلام، الوجہ الثالث:‘‘: ج ۲، ص: ۲۷۷)

فالإسراء ہو من المسجد الحرام إلی البیت المقدس قطعي أي یقیني ثبت بالکتاب أي القرآن ویکفر منکرہ۔ (محمد عبدالعزیز الفرھاوي،النبراس، ’’بیان المعراج‘‘:ص:۲۹۵)

من أنکر المعراج ینظر إن أنکر الإسراء من مکۃ إلی بیت المقدس فہو کافر … لأن الإسراء من الحرم إلی الحرم ثابت بالآیۃ۔ (أبو حنیفۃ رحمہ اللّٰہ، شرح الفقہ الأکبر، ’’بحث في أن المعراج حق‘‘: ص: ۱۸۹)

 

اسلامی عقائد

Ref. No. 1960/44-1881

بسم اللہ الرحمن الرحیم:  جس دن بچے کی پیدائش ہوئی ہے وہ پہلا دن ہے اس لئے ساتویں دن یعنی  ٧محرم  کو عقیقہ کی تاریخ ہوگی۔

واللہ اعلم بالصواب

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند

 

مساجد و مدارس

Ref. No. 2192/44-2333

بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔سرکار سے اجازت لئے بغیر اس طرح لائٹ لگانا غیرقانونی ہے، اس لئے شرعی اعتبار سے درست نہیں ہے۔ لائٹ سرکار کی ملکیت ہے اس لئے سرکاریعنی مذکورہ محکمہ  سے اجازت لینا ضروری ہے۔

ولا یجوز حمل تراب ربض المصر الخ (الفتاوی الھندیة، ۵: ۳۷۳، ط: المطبعة الکبری الأمیریة، بولاق، مصر)، إن المحظور لغیرہ لا یمتنع أن یکون سببا لحکم شرعي الخ (تبیین الحقائق، ۶: ۳۲۴، ط: المکتبة الإمدادیة، ملتان)

واللہ اعلم بالصواب

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند

 

اسلامی عقائد

الجواب وباللّٰہ التوفیق:کسی صحابی کے بارے میں ایسی کوئی روایت ہمیں نہیں ملی کہ کسی صحابی نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا پیشاب پی لیا ہو، البتہ حضرت برکۃ رضی اللہ عنہا کے بارے میں سیرت کی بعض کتابوں میں یہ منقول ہے کہ انہوں نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا پیشاب پیا۔(۱)  لیکن معلوم ہوتا ہے کہ یہ بھی حضرت برکۃ رضی اللہ عنہا نے پانی سمجھ کر پی لیا تھا، بعد میں معلوم ہوا کہ پیشاب ہے۔ بول وبراز کو زمین کا نگل جانا یہ تفسیر خازن میں مذکور ہے، لیکن غیر محقق ہے، تھوک کا صحابہ کا ہاتھ پر لینا بھی ثابت نہیں، ہاں اگر کبھی اتفاقاً کسی صحابی کے ہاتھ پر تھوک پڑ جاتا، تو وہ اس کو اپنے جسم اور چہرے پر تبرکاً مل لیتے(۲)  جان بوجھ کر صحابہؓ ایسا کرتے ہوں یہ ثابت نہیں۔
’’إن النبي صلی اللّٰہ علیہ وسلم کان لہ قدح من عیدان یبول فیہ ثم یوضع تحت سریرہ، فجاء ت إمرأۃ یقال لہا برکۃ جاء ت مع أم حبیبۃ من الحبشۃ فشربتہ برکۃ فسألہا، فقالت شربتہ، فقال: لقد حضرتني من النار بحضار أو قال حبتہ أو ہذا معناہ‘‘(۳)
’’عن أم أیمن رضي اللّٰہ عنہا، قالت: قام رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم
من اللیل إلی فخارۃ في جانب البیت، فبال فیہا فقمت من اللیل، وأنا عطشانۃ فشربت ما فیہا، وأنا لا أشعر فلما أصبح النبي صلی اللّٰہ علیہ وسلم قال: یا أم أیمن -رضي اللّٰہ عنہا- قومي فأہریقي ما في تلک الفخارۃ، قلت: قد واللّٰہ شربت ما فیہا، فضحک رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم حتی بدت نواجذہ ثم قال أما إنک لا تتجعین بطنک أبداً،(۱) وقد تکاثرت الأدلۃ علی طہارۃ فضلاتہ وعد الأئمۃ ذلک في خصائصہ‘‘ (۲)

(۱) اصح السیر: ص: ۵۶۱

(۲)(اصح السیر: ص: ۱۷۲
(۳) الطبراني، المعجم الکبیر: ج۲۴، ص: ۱۸۹؛ و السنن الکبریٰ للبیہقي: ج ۷، ص: ۶۷۔

(۱) الطبراني، المعجم الکبیر، ’’ما اسندت أم أیمن‘‘: ج ۲۵، ص: ۸۹
(۲) ابن حجر العسقلاني، فتح الباري، ’’باب: قولہ باب الماء‘‘: ج ۱، ص: ۲۷۲۔

 

فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج1ص233

 

متفرقات

الجواب وباللّٰہ التوفیق:اسلام نے مرد و عورت کسی کو بھی تعلیم سے نہیں روکا ہے  بلکہ تعلیم حاصل کرنے کی ترغیب دی ہے ہاں یہ ضروری ہے کہ وہ تعلیم انسانیت کے لیے نافع ہو اور شرعی طور پر جائز ہوتو اس کا حاصل کرنا مردوں کے لیے بھی جائز ہے اور عورتوں کے لیے بھی جائز ہے لیکن چوں کہ بالغ لڑکی کا باہر نکلنا عام طور پر فتنہ سے خالی نہیں ہوتا ہے جب کہ موجودہ حالات میں بالغ لڑکیوں کو مختلف فتنوں کا سامنا ہے جن میں بعض فتنے منظم سازش کے تحت سر ابھار رہے ہیں؛ اس لیے اس وقت لڑکیوں کی تعلیم کے لیے بہت زیادہ حساسیت کی ضرورت ہے۔ اس کی کوشش ہونی چاہیے کہ ادارے مخلوط تعلیم کے نہ ہوں اس لیے کہ مخلوط تعلیمی اداروں میں فتنہ کااندیشہ زیادہ ہے(۱) بہتر یہی ہے کہ کوئی محرم اس کو چھوڑنے اور لانے جائے تاکہ اس کی مکمل نگرانی ہوسکے تاہم اگر گاڑی سے لانے لے جانے کا نظم کیا جائے اور ساتھ میں کوئی نگراں ہو، تو بھی گنجائش ہے۔
’’عن الشِّفَاء بنتِ عبدِ اللّٰہ، قالت: دخلَ عليَّ النبي صلَّی اللّٰہ علیہ وسلم وأنا عندَ حفصۃَ، فقال لی: ’’ألا تُعَلِّمین ہذہ رُقْیَۃَ النملۃ، کما علَّمتنیہا الکتابۃَ‘‘(۲)

(۱) اتفق الفقہاء علی وجوب حجب عورۃ المرأۃ والرجل البالغین بسترہا عن نظر الغیر الذي لا یحل لہ النظر إلیہا، وعورۃ المرأۃ التي یجب علیہا ححبہا من الأجنبي ہي في الجملۃ جمیع جسدہا عد الوجہ والکفین وقول النبي یا أسماء أبي المرأۃ إذا بلغت الحیض لم تصلح أن یری منہا إلا ہذا وہذا وأشار إلی وجہہ وکفیہ۔ (وزارۃ الأوقاف و الشئون، الموسوعۃ الفقھیۃ الکویتیۃ: ج ۱۷، ص: ۶)
(۲) أخرجہ أبوداود، في سننہ، ’’کتاب الطب: باب ما جاء في الرقي‘‘: ج ۲، ص: ۵۴۰، رقم: ۳۸۸۷۔


فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج2ص178

تجارت و ملازمت

Ref. No. 2710/45-4226

بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ اگر معاملہ کرتے وقت اس طرح کی شرط تھی کہ مضارب اپنی مرضی سے کام کرے گااور رب المال نے اس اجازت کے ساتھ اس کو مال دیا تھا تو ایسی صورت میں مضارب کے لیے کسی دوسرے کو بطور مضاربت کے مال دینا اور اس سے نفع حاصل کرکے مضارب اول اور رب المال کے درمیان شر ط کے مطابق تقسیم کرنا جائز ہے۔

فإن كان قال له اعمل فيه برأيك، فله أن يعملجميع ذلك إلا القرض؛ لأنه فوض الأمر في هذا المال إلى رأيه على العموم وقد علمنا أن مراده التعميم فيما هو من صنع التجار عادة فيملك به المضاربة والشركة والخلط بماله؛ لأن ذلك من صنع التجار كما يملك الوكيل توكيل غيره بما وكل به إذا قيل له اعمل فيه برأيك ولا يملك القرض؛ لأنه تبرع ليس من صنع التجار عادة فلا يملكه بهذا اللفظ كالهبة والصدقة (المبسوط،22/40)

واللہ اعلم بالصواب

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند

 

طہارت / وضو و غسل

الجواب وباللّٰہ التوفیق:اس کی گنجائش ہے، لیکن شرط یہ ہے کہ طہارت اس ہاتھ سے نہ کرے، جس میں انگوٹھی ہے؛ مناسب ہے کہ تعویز ہو یا انگوٹھی اس کو نکال کر ہی جائے۔(۱)

(۱) قلت لکن نقلوا عندنا أن للحروف حرمۃ ولو مقطعۃ۔ (ابن عابدین، رد المحتار مع الدر المختار، ’’کتاب الطہارۃ، باب الأنجاس، مطلب : إذا دخل المستنجي في ماء قلیل،‘‘ج۱، ص:۵۵۲)؛  و یکرہ أن یدخل في الخلاء و معہ خاتم علیہ اسم اللّٰہ تعالیٰ أو شيء من القرآن۔ (جماعۃ من علماء الہند، الفتاوی الھندیۃ، ’’کتاب الطہارۃ، الباب السابع في النجاسۃ و أحکامہا، الفصل الثالث في الاستنجاء، الإستنجاء علی خمسۃ أوجہ،‘‘ ج۱، ص:۱۰۶)؛ و عن أنس رضی اللّٰہ عنہ: کان رسول اللّٰہ ﷺ إذا دخل الخلاء وضع خاتمہ۔ (بدرالدین العیني، البنایۃ شرح الھدایۃ، ’’کتاب الطہارۃ، فصل في الاستنجاء،‘‘ ج۱،ص:۷۴۵)
 

فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج3 ص89