مساجد و مدارس

Ref. No. 1363/42-760

الجواب وباللہ التوفیق

بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ بچوں کو سکھانے کے لئے ان کو بآواز بلند کلمے کہلوانا اور نماز واذان زور سے کہلوانا درست ہے۔ البتہ نماز کے اوقات  میں اس کو موقوف کردینا چاہئے تاکہ نمازیوں کو خلل نہ ہو۔ اذان سے پہلے اس کو بند کردیا جائے تاکہ لوگوں کو سنت وغیرہ پڑھنے میں کوئی حرج نہ ہو۔

لأن المسجد مابنی إلا لہا من صلاة واعتکاف وذکر شرعی وتعلیم علم وتعلمہ وقراء ة قرآن (البحرالرائق: ۲/۶۰، ط: زکریا، دیوبند) تعلیم الصبیان فی المسجد لا بأس بہ (ردالمحتار: ۹/۶۱۳، ط: زکریا، دیوبند(

واللہ اعلم بالصواب

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند

خوردونوش

Ref. No. 1590/43-1123

بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ حلال جانور کا دودھ و گوشت حلال ہے۔ اس لئے دودھ کے ساتھ گوشت یا انڈے کھانا خلاف سنت نہیں کہا جائے گا۔  گوشت کے مختلف پکوان میں  آج کل دہی ڈالتے ہیں، اس لئےدہی کے ساتھ  گوشت یاانڈے کھانے میں کوئی ممانعت نہیں ہے۔  تاہم اگر طبی طور پر مضرصحت ہونا معلوم ہوجائے تو گریز کرنا چاہئے۔  و في الخانیة وغیرھا: لبن المأکول حلال (شامی(456/6)

واللہ اعلم بالصواب

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند

طہارت / وضو و غسل

Ref. No. 1662/43-1278

بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔چھت پر موجود چوہے کی بیٹ اور پرندوں کی بیٹ سے گزر کر بارش کا  جو پانی گرتاہے وہ پاک ہے، اس سے  بدن یا کپڑا ناپاک نہیں ہوگا۔   ہاں اگر بیٹ اس قدر زیادہ  ہو کہ اس کا اثر پانی میں محسوس ہوتاہوتو پانی ناپاک ہوگا اور اس سے بدن و کپڑا ناپاک ہوجائے گا۔

بعرۃ الفأرۃ وقعت في وقر حنطۃ فطبخت والبقرۃ فیہا أو وقعت فی وقر دہن لم یفسد الدقیق والدہن ما لم یتغیر طعمہا۔ قال الفقیہ أبو اللیث: وبہ نأخذ۔ (الفتاویٰ الہندیۃ، کتاب الطہارۃ / الفصل الثاني في الأعیان النجسۃ 1/46)

 خبز وجد في خلالہ خرء فارۃٍ فإن کان الخرء صلباً رمی بہ وأکل الخبز، ولا یفسد خرء الفارۃِ الدہن والماء والحنطۃ للضرورۃ إلا إذا ظہر طعمہ أو لونہ في الدہن ونحوہٖ لفحشہٖ وإمکان التحرز منہ حینئذٍ۔ (الدرالمختار مع رد المحتار  6/732) 10/435 زکریا )

وطین الشوارع عفو وإن ملأ الثوب للضرورۃ، ولو مختلطاً بالعذرات وتجوز الصلوٰۃ معہ … بل الأشبہ المنع بالقدر الفاحش منہ إلا لمن ابتلي بہ بحیث یجيء ویذہب في أیام الأوحال في بلادنا الشامیۃ لعدم انفکاک طرقہا من النجاسۃ غالباً مع عسر الاحتراز، بخلاف من لا یمر بہا أصلاً في ہٰذہ الحالۃ فلا یعفی في حقہ، حتی أن ہٰذا لا یصلي في ثوب ذاک … والحاصل أن الذي ینبغي أنہ حیث کان العفو للضرورۃ وعدم إمکان الاحتراز، أن یقال بالعفو وإن غلبت النجاسۃ مالم یر عینہا، لو أصابہ بلا قصد، وکان ممن یذہب ویجیئ وإلا فلا ضرورۃ۔ (شامي،

واللہ اعلم بالصواب

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند

متفرقات

Ref. No. 1965/44-1886

In the name of Allah the most Gracious the most Merciful

The answer to your question is as follows:

The above mentioned dreams are the result of the thoughts that you have in your mind while you are awake, this is called a mishmash of dreams.  So, ignore them. Such dreams have no interpretation.

And Allah knows best

Darul Ifta

Darul Uloom Waqf Deoband

 

قرآن کریم اور تفسیر

Ref. No. 2046/44-2025

بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ ۔   لحن خفی مکروہ تنزیہی اور لحن جلی مکروہ تحریمی ہے۔

 واللہ اعلم بالصواب

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند

 

اسلامی عقائد

الجواب وباللّٰہ التوفیق:کنکریوں کے رکھنے کا شرعاً کوئی ثبوت نہیں ہے یہ بدعت اورجہالت کی باتیں ہیں اس سے کچھ نفع نہیں ہے۔ (۱)

(۱) عن عائشۃ رضي اللّٰہ عنہا، قالت: قال رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم: من أحدث في أمرنا ہذا ما لیس منہ فہو رد۔ (أخرجہ مسلم، في صحیحۃ، ’’کتاب الأقضیۃ:  باب نقض الأحکام‘‘: ج ۱، ص: ۷۷، رقم: ۱۷۱۸)
یکرہ إلقاء الحصیر في القبر۔ (مراقي الفلاح شرح نور الإیضاح، ’’فصل في حملہا ودفنہا‘‘: ج ۱، ص: ۲۲۶)


فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج1ص363

حدیث و سنت

الجواب وباللّٰہ التوفیق:حیاء کہتے ہیں وقار سنجیدگی اور متانت کو اصطلاح میں: ’’ہو صفۃ وخلق یکون في النفس فیبعث علی اجتناب القبیح ویمنع من التقصیر في حق ذي الحق‘‘(۱)   نفس کا کسی کام کے کرنے میں انقباض اور تنگی محسوس کرنا ملامت اور سزا کے ڈر سے نہ کرنے کو حیاء کہتے ہیں۔
حیاء انسانی زندگی میں ایک ضروری حیثیت رکھتی ہے شرم وحیاء کے ذریعے انسان کو خیر وبھلائی حاصل ہوتی ہے، افعال میں ہو، اخلاق میں ہو یا اقوال میں، جس میں حیاء کا جذبہ نہ رہے اس سے خیر رخصت ہو جاتی ہے۔ امام بخاریؒ نے ایک روایت نقل کی ہے: ’’إذا لم تستحي فاصنع ما شئت‘‘(۲) جب حیاء نہ رہے تو جو چاہے کر۔

اللہ تعالیٰ سے حیاء کے متعلق رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے جس کو امام ترمذیؒ نے اپنی سنن میں ذکر کیا ہے:
’’قال رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم: استحیوا من اللّٰہ حق الحیاء، قال: قلنا یا رسول اللّٰہ إنا نستحي والحمد للّٰہ، قال: لیس ذاک ولکن الاستحیاء من اللّٰہ حق الحیاء أن تحفظ الرأس وما وعی، والبطن وما حوی ولتذکر الموت والبلی ومن أراد الآخرۃ ترک زینۃ الدنیا فمن فعل ذلک فقد استحییٰ من اللّٰہ حق الحیاء‘‘(۱)
ترجمہ:  رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: لوگو! اللہ تعالیٰ سے شرم وحیاء کیا کرو۔ جیسا کہ اس سے شرم وحیاء کرنے کا حق ہے۔ ہم نے عرض کیا یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہم اللہ تعالیٰ سے شرم وحیاء کرتے ہیں اور اس پر اللہ تعالیٰ کا شکر ادا کرتے ہیں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا حیاء کا یہ مطلب نہیں جو تم نے سمجھا ہے؛ لیکن اللہ تعالیٰ سے شرم وحیاء کرنے کا جو حق ہے وہ یہ ہے کہ تم اپنے سر اور اس کے ساتھ جتنی چیزیں ہیں ان سب کی حفاظت کرو اور اپنے پیٹ اور اس کے اندر جو چیزیں ہیں ان کی حفاظت کرو اور موت اور ہڈیوں کے سڑ جانے کو یاد کرو اور جسے آخرت کی چاہت ہو وہ دنیا کی زینت کو ترک کردے، تو جس شخص نے اسے پورا کیا حقیقت میں اسی نے اللہ تعالیٰ سے حقیقی حیاء کی۔
امام ترمذی رحمۃ اللہ علیہ نے نقل کیا ہے، حیاء ایمان کا جزء ہے اور ایمان جنت میں لے جاتا ہے اور بے حیائی بدکاری ہے اور بدکاری دوزخ میں لے جاتی ہے۔
’’قال رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم: الحیاء من الإیمان والإیمان في الجنۃ والبذاء من الجفاء والجفاء في النار‘‘(۲)
حیاء اخلاقیات میں ریڑھ کی ہڈی کا درجہ رکھتی ہے اس سے خیر وبھلائی حاصل ہوتی ہے، اگر حیاء ہے تو دوسرے خصائل بھی حاصل ہو سکتے ہیں، ایسے ہی نبی کریم صلی اللہ علیہ کا فرمان ہے:ہر  دین کے لئے ایک خُلق ہے اور اسلام کا خُلق حیاء ہے۔
’’عن ابن عباس رضي اللّٰہ عنہ، قال: قال رسول اللّٰہ علیہ وسلم: إن لکل دین خُلقا وإن خُلق الإسلام الحیاء‘‘(۱)

(۱) ابن حجر، فتح الباري شرح البخاري، باب أمور الإیمان، ج۱، ص:۵۲
(۲)أخرجہ البخاري، في صحیحہ، ’’کتاب الأدب: باب إذا لم تسحتي فاصنع ما شئت‘‘: ج ۲، ص: ۹۰۴، رقم: ۶۱۲۰؛ وأخرجہ أبوداود، في سننہ، ’’کتاب الأدب: باب في الحیاء‘‘: ج ۲، ص: ۶۶۸، رقم: ۴۷۹۷۔
(۱) أخرجہ الترمذي، في سننہ، ’’أبواب صفۃ القیامۃ‘‘: ج ۲، ص: ۸۰، رقم: ۲۴۵۸۔
(۲) أخرجہ الترمذي، في سننہ، ’’أبواب الإیمان، باب ما جاء في الحیاء‘‘: ج ۲، ص: ۲۱، رقم: ۲۰۰۹۔
(۱) أخرجہ ابن ماجہ، في سننہ، ’’أبواب الزہد، باب الحیاء‘‘: ج ۲، ص: ۳۰۸، رقم: ۴۱۸۱۔


فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج2ص89

 

مذاہب اربعہ اور تقلید

الجواب وباللّٰہ التوفیق:جو حضرات شیعیت میں غلو کرتے ہیں، حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کو برا کہتے ہیں یا جبریل علیہ السلام کے وحی لانے میں غلطی کے قائل ہیں وغیرہ کفریہ عقائد رکھتے ہیں وہ کافر ہیں اور جن کے عقائد کفریہ نہیں ہیں، وہ مسلمان ہیں اگر کسی خاص جماعت یا شخص کے بارے میں سوال مقصود ہو، تو اس کے موجود عقائد کی وضاحت کرکے سوال کرلیا جائے۔(۱)

(۱) فصل: وأما الشیعۃ فلہم أقسام، منہا: الشیعۃ والرافضۃ والغالیۃ والطاریۃأما الغالیۃ فیتفرق منہا إثنتا عشرۃ فرقۃ منہا البیانیۃ والطاریۃ والمنصوریۃ والمغیریۃ والخطابیۃ والمعمریۃ الخ … ومن ذلک تفضیلہم علیاً رضي اللّٰہ عنہ علی جمیع الصحابۃ وتنصیصہم علی إمامتہ بعد النبي صلی اللّٰہ علیہ وسلم وتبرؤہم من أبي بکر وعمر رضي اللّٰہ عنہما وغیرہما من الصحابۃ الخ۔ (غنیۃ الطالبین: القسم الثاني: العقائد والفرق، فصل في بیان مقالۃ الفرقۃ الضالۃ: ص: ۱۷۹ - ۱۸۰)
نعم لا شک في تکفیر من قذف السیدۃ عائشۃ رضي اللّٰہ عنہا أو أنکر صحبۃ الصدیق رضي اللّٰہ عنہ أو اعتقد الألوہیۃ في علي رضي اللّٰہ عنہ أو أن جبرئیل علیہ السلام غلط في الوحي أو نحو ذلک من الکفر الصریح المخالف للقرآن۔ (ابن عابدین، الدر المختار مع رد المحتار، ’’کتاب الجہاد: باب المرتد، مطلب: فہم في حکم سب الشیخین‘‘: ج ۲، ص: ۳۷۸)

 

فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج2ص279

اسلامی عقائد

الجواب وباللّٰہ التوفیق:’’بسم اللّٰہ، والّٰلہ أکبر، اللہم لک وإلیک، ہذہ عقیقۃ فلان‘‘ (فلان کی جگہ بچہ کا نام لیں)۔(۱)

(۱) عبد الرزاق عن ابن جریج قال: حدثت حدیثا، رفع إلی عائشۃ رضي اللّٰہ عنہا، أنہا قالت عن رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم عن حسن شاتین، وعن حسین شاتین ذبحہما یوم السابع قال: ومشقہما وأمر أن یماط عن رؤوسہما الأذی، قالت:قال رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم: اذبحوا علی إسمہ، وقولوا: بسم اللّٰہ اللہم لک وإلیک، ہذہ عقیقۃ فلان۔ (أخرجہ أبو بکر عبد الرزاق، في مصنفہ: ج ۴، ص: ۳۳۰، رقم: ۷۰۶۳)
أخرج ابن أبي شیبۃ من طریق ہشام عن قتادۃ نحوہ قال: یسمی علی العقیقۃ کما یسمی علی الأضحیۃ بسم اللّٰہ عقیقۃ فلانٍ ومن طریق سعید عن قتادۃ نحوہ وزاد اللہم منک ولک عقیقۃ فلانٍ بسم اللّٰہ أللّٰہ أکبر ثم یذبح۔ (ابن حجر، فتح الباري: ج ۹، ص: ۵۹۴)


فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج2ص378

طہارت / وضو و غسل

الجواب وباللہ التوفیق: بیت الخلا میں جاتے وقت دعا میں تین قسم کے الفاظ حدیث میں مذکور ہیں اور تینوں مصنف ابن ابی شیبہ میں ہیں:
 عن أنس بن مالک قال: کان النبي صلی اللہ علیہ وسلم إذا دخل الخلاء، قال: أعوذ باللہ من الخبث، والخبائث (۱)
عن زید بن أرقم، قال: قال رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم: إن ہذہ الحشوش محتضرۃ، فإذا دخل أحدکم فلیقل: أللہم إني أعوذ بک من الخبث والخبائث(۲)
عن أنس: أن النبي صلی اللہ علیہ وسلم کان إذا دخل الخلاء، قال: بسم اللہ أللہم إنی أعوذ بک من الخبث والخبائث‘‘ (۳)

ان تینوں میں کوئی بھی دعا پڑھ سکتے ہیں؛ البتہ مناجات مقبول میں جو دعا ہے، وہ معنی کے اعتبار سے زیادہ جامع ہے، اس لیے اس کا پڑھنا بھی درست ہے۔

(۱) أخرجہ ابن أبی شیبۃ، في مصنفہ، حققہ محمد عوامہ، کتاب الطہارۃ، ما یقول الرجل إذا دخل الخلاء، ج۱، ص:۲۱۹،رقم: ۱(بیروت : دارارقم، لبنان)
(۲) ایضاً،ج۱، ص:۲۲۱، رقم: ۲۹۸۹۹        (۳)ایضاً،ج۱، ص:۲۲۳، رقم: ۲۹۹۰۲
 

فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج3 ص92