Miscellaneous

Ref. No. 2040/44-2016

In the name of Allah the most Gracious the most Merciful

The answer to your question is as follows:

Difficulties are a part of life; the servants of Allah should not despair of Allah in any circumstances and should rely on Allah in order to live their lives in this world. One should always keep in mind that this world is short, tolerating people's words and being kind to relatives are among the basic teachings of Islam. Pay attention to the five daily prayers, recite the Holy Quran, say 100 times Durood Sharif and 100 times Istighfar, and pray to Allah. Also read “Rabbna Aatina fid dunya hasanah and fil aakhirati hasanah wa qina azaaban Naar” time and again. God willing, all problems will be solved soon.

And Allah knows best

 

Darul Ifta

Darul Uloom Waqf Deoband

 

اسلامی عقائد

الجواب وباللّٰہ التوفیق:دن مقرر کر کے مسجد میں درود شریف پڑھنے کا التزام کرنا درست نہیں ہے(۱) اتفاقاً ایسا کرنے میں کوئی مضائقہ نہیں ہے، بلکہ مستحب ہے۔

(۱) عن ابن مسعود رضي اللّٰہ تعالیٰ عنہ أنہ أخرج جماعۃ من المسجد یہللون ویصلون علی النبي صلی اللّٰہ علیہ وسلم جہراً وقال ما أراکم إلا مبتدعین۔ (ابن عابدین الدر المختار مع رد المحتار، ’’کتاب الحظر والإباحۃ: باب عن عائشۃ رضي اللّٰہ عنہا، قالت: قال رسول اللّٰہ علیہ وسلم: من أحدث في أمرنا ہذا ما لیس فیہ فہو رد۔ (أخرجہ البخاري، في صحیحہ، ’’کتاب الصلح: باب إذا اصطلحوا علی صلح جور‘‘: ج ۱، ص: ۳۷۱، رقم: ۲۶۹۷)

فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج1ص420

اسلامی عقائد

الجواب وباللّٰہ التوفیق:عقیقہ کرنا مسنون ہے جو ساتویں دن یا اس کے بعد کبھی بھی ہو جائے لڑکے کی طرف سے دو بکرے اور لڑکی کی طرف سے ایک بکرا اللہ کے نام عقیقہ کی نیت سے ذبح کیا جائے، پھر اس کو تقسیم کردیا جائے یا پکاکر لوگوں کو غریب امیر رشتہ داروں وغیرہ کو کھلا دیا جائے اور بچے کے بالوں کے برابر چاندی صدقہ کردی جائے۔
مذکورہ فی السوال طریقہ جو رائج ہے اس میں مسنون عقیقہ ادا نہیں ہوتا اور اگر رسم ورواج کے طور پر ہو تو بدعت ہوجائے گا، جس سے بچنا ضروری ہے، جہاں تک ہو سکے عقیقہ کردیا جائے اس سے بچہ کے سر سے بلائیں اور آفات بھی دور ہوجاتی ہیں۔ (۱)

(۱) عن سمرۃ رضي اللّٰہ عنہ، عن رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم، قال: کل غلام رہینۃ بعقیقۃ، تذبح عنہ یوم السابع، وتحلق رأسہ، ویدمیٰ۔ (أخرجہ أبوداود، في سننہ،…بقیہ  ’’کتاب الضحایا: باب في العقیقۃ‘‘: ج ۲، ص: ۳۹۲، رقم: ۲۸۳۷)
عن عائشۃ رضي اللّٰہ عنہا، قالت: قال رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم من أحدث في أمرنا ہذا ما لیس منہ فہو ردٌّ۔ (مشکوٰۃ المصابیح، ’’کتاب الإیمان: باب الاعتصام بالکتاب والسنۃ، الفصل الأول‘‘: ج ۱، ص: ۲۷، رقم: ۱۴۰)

 

فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج1ص525

متفرقات

Ref. No. 2531/45-3903

بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ تصویر میں چہرہ اصل ہے، ایسا عضو جس کے بغیر انسان زندہ نہیں رہ سکتا، اگر اس عضو کو کاٹ دیاجائے تو وہ تصویر کے زمرے میں نہیں ہے۔ اس لئے ایسی تصویر حرام نہیں ہے۔  اگر چہرہ کا دائرہ بناہواہو مگر آنکھ، ناک وغیرہ بناہوانہ ہو تو اس پر تصویر کا حکم نہیں ہوگا۔

وان کانت مقطوعۃ الراس لاباس بہ، وکذا لو محی وجہ الصورۃ فھو کقطع الراس (خلاصہ الفتاویٰ ، کتاب الصلوۃ 1/58)

او ممحوۃ عضو لاتعیش بدونہ لایکرہ ، لانھا لاتعبد وخبر جبریل مخصوص بغیرالمھانۃ (شامی، باب مایفسد الصلوۃ ومایکرہ فیھا، سعید ج1ص648)

واللہ اعلم بالصواب

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند

 

حدیث و سنت

الجواب وباللّٰہ التوفیق:(۱) حضرت ابو بکر رضی اللہ عنہ کی ولادت عام الفیل کے تین سال بعد ۵۷۴ء میں ہوئی۔(۱)
(۲) جس سال ابرہہ بادشاہ نے بیت اللہ پر حملہ کیا اور اللہ تعالیٰ نے ابابیل پرندوں کے ذریعہ اپنے گھر کی حفاظت فرمائی اس واقعہ کے تیرہ سال کے بعد ۵۸۴ عیسوی میں حضرت عمر رضی اللہ عنہ کی پیدائش ہوئی اور آپ نے بعمر ۲۷؍ سال اسلام قبول کیا۔(۲)
(۳) حضرت عثمان رضی اللہ عنہ یکم محرم الحرام ۲۴ھ کو خلیفہ منتخب ہوئے۔ اور آپ کو اسود تجیی نے ۳۵ھ بروز جمعہ کو شہید کیا، حضرت حکیم بن حزام نے نماز جنازہ پڑھائی، ہفتہ کی شب میں جنت البقیع میں دفن کئے گئے، آپ کی کل عمر ۸۲ سال ہوئی۔ (۳)

(۱) أبو الحسن علی بن أبي الکرم، الکامل في التاریخ: ج۲، ص: ۴۱۹۔
 (۲) جلال الدین السیوطي، تاریخ الخلفاء: ص: ۱۰۹۔
(۳) بدر الدین العیني، عمدۃ القاري: ج۳، ص: ۵۔


فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج2ص239

Islamic Creed (Aqaaid)

Ref. No. 2634/45-4432

In the name of Allah the most Gracious the most Merciful

The answer to your question is as follows:

If there is no Sunnat Namaz after Farz Namaz, it is masnoon to recite ‘Tasbih-e-Fatimi just after farz. But if there is sunnat namaz after Farz as in Zuhr, one should recite Tasbih Fatimi after sunnah namazs.

(قوله إلا بقدر اللهم إلخ) لما رواه مسلم والترمذي عن عائشة قالت «كان رسول الله - صلى الله عليه وسلم - لا يقعد إلا بمقدار ما يقول: اللهم أنت السلام ومنك السلام تباركت يا ذا الجلال والإكرام» وأما ما ورد من الأحاديث في الأذكار عقيب الصلاة فلا دلالة فيه على الإتيان بها قبل السنة، بل يحمل على الإتيان بها بعدها؛ لأن السنة من لواحق الفريضة وتوابعها ومكملاتها فلم تكن أجنبية عنها، فما يفعل بعدها يطلق عليه أنه عقيب الفريضة. (فتاوی شامی، کتاب الصلوۃ ، باب صفة الصلوۃ جلد ۱ ص: ۵۳۰ ط: دارالفکر)

 

And Allah knows best

Darul Ifta

Darul Uloom Waqf Deoband

 

طہارت / وضو و غسل

الجواب وباللّٰہ التوفیق:فقہاء نے جو لکھا ہے کہ پانی کے اوصاف بدل جائیں، تو اس کا استعمال درست نہیں ہے یہ بات علی الاطلاق نہیں ہے؛ بلکہ مراد یہ ہے کہ نجاست وگندگی کے ملنے سے اوصاف بدل جائیں، تو پانی ناپاک ہوتا ہے، پانی کے رکے رہنے کی وجہ سے یا کسی جگہ پانی میں کوئی پاک چیز مل جانے کی وجہ سے اگر اوصاف بدل جائیں، تو اس پانی کو ناپاک نہیں کہا جائے گا گاؤں، دیہات میں جو تالاب ہوتے ہیں ان میں پانی رکے رہنے کی وجہ سے ان کے اوپر کائی جم جاتی ہے، اوصاف بدل جاتے ہیں؛ لیکن پھر بھی وہ پانی پاک ہی رہتا ہے، کپڑے دھونے کے لئے پانی پاک ہی نہیں؛ بلکہ صاف بھی ہونا چاہئے تاکہ طبعی کراہت بھی نہ ہو تاہم اگر اس پانی سے کپڑے دھوئے جاتے ہیں، تو ان کپڑوں کو ناپاک نہیں کہا جائے گا، وہ کپڑے پاک ہیں اور ان میں نماز پڑھنی درست ہے، علامہ جزیری رحمۃ اللہ علیہ نے وضاحت فرمائی ہے:
’’قد یتغیر لون الماء وطعمہ ورائحتہ ومع ذلک یبقی طہور الصحیح استعمالہ في العبادات من وضوء وغسل ونحو ذلک ولکن ذلک مشروط بعد م  الضرر للشخص في عضو من أعضائہ فإنہ لا یحل لہ أن یتوضأ من ذلک الماء وقد یضطر سکان البوادی والصحاری إلی استعمال المیاہ المتغیرۃ حیث لا یجدون سواہا فأبا حت الشریعۃ الإسلامیۃ لمثال ہؤلاء أن یستعملوا ذلک الماء إذا أمنوا شرہ‘‘(۱)
’’لا لو تغیر بطول مکث فلو علم نتنہ بنجاسۃ لم یجز‘‘(۲)
(۱) عبد الرحمن الجزیري، کتاب الفقہ علی المذاہب الأربعۃ، ’’کتاب الطہارۃ: ما لا یخرج الماء عن الطہوریۃ‘‘: ج ۱، ص: ۳۴۔(بیروت، دارالکتب العلمیۃ، لبنان)
(۲) ابن عابدین، رد المحتار مع الدر المختار، ’’کتاب الطہارۃ: باب المیاہ، مطلب حکم سائر المائعات کالماء في الأصح‘‘: ج ۱، ص: ۳۳۲۔

 

فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج3ص46

طہارت / وضو و غسل

الجواب وباللّٰہ التوفیق: لپسٹک اگر اتنی ہلکی سی لگی ہو کہ وضو وغسل کے وقت ہونٹوں تک پانی پہنچے میں رکاوٹ نہ بنے، تو اس کے لگے ہونے کی حالت میں وضو و غسل درست ہے اور اگر اتنی زیادہ لگی ہوکہ وہ پانی پہنچنے سے مانع ہو، تو وضو اور غسل کے وقت اسے بالکل صاف کرنا ضروری ہے وضو درست ہونے کے بعد اگر لپسٹک لگائی ہو،تو نماز درست ہے : شرط صحتہ أي الوضوء ۔۔۔ زوال ما یمنع وصول الماء إلی الجسد کشمع وشحم۔(۴) ولایمنع الطہارۃ ونیم وحناء و درن و وسخ وتراب في ظفر مطلقاً، ولایمنع ما علی ظفر صباغ ۔۔۔ وقیل  إن صلبا منع(۱) والخضاب إذا تجسد ویبس یمنع تمام الوضوء والغسل کذا في السراج الوھاج۔(۲)

(۴)حسن بن عمار، مراقي الفلاح شرح نور الإیضاح، ’’کتاب الطہارۃ، فصل في أحکام الوضوء،‘‘ ص:۲۵
(۱) ابن عابدین، رد المحتار علی الدر المختار، ’’کتاب الطہارۃ، مطلب في أبحاث الغسل، فرض الغسل،‘‘ ج۱، ص:۲۸۸
(۲) جماعۃ من علماء الھند، الفتاوی الہندیۃ، ’’کتاب الطہارۃ، الفصل الأول: في فرائض  الوضوء، الفرض الثاني: غسل الیدین،‘‘ ج۱، ص:۵۴؛  و أبوبکر بن علي، الجوہرۃ النیرۃ علی مختصر القدوری، ’’کتاب الطہارۃ،‘‘ ج۱، ص:۴)

 

 فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج3 ص159

 

طہارت / وضو و غسل

الجواب وباللّٰہ التوفیق :شریعت میں خفین اس کو کہتے ہیں، جو چمڑے یا چمڑے جیسی کسی چیز سے بنائے جائیں۔
وہ پیروں کو ٹخنے یا پنڈلی تک ڈھانپ لیں۔
پاؤں سے متصل رہیں۔
 اور ان میں پانی نہ چھن سکے۔

ہر قسم کے موزے کو خف نہیں کہا جاتا، محدثین کا یہ ہی قول ہے۔(۱)

(۱)و أما المسح علی الجوربین فإن کانا مجلدین أو منعلین یجزیہ بلا خلاف، و إن لم یکونامجلدین ولا منعلین فإن کانا رقیقین یشفان الماء لا یجوز المسح علیھما بالإجماع۔ (ابن عابدین، رد المحتار علی درالمختار، ج۱، ص:۳۱۵)؛ و الاوّل : کونہ ساتر محل فرض الغسل القدم مع الکعب۔والثاني: کونہ مشغولا بالرجل لیمنع سرایۃ الحدث الخ۔ (ابن عابدین، ردالمحتار علی الدر المختار، ’’کتاب الطہارۃ، باب المسح علی الخفین،‘‘ ج۱، ص:۳۷-۴۳۹)
 

فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج3 ص262

نماز / جمعہ و عیدین

الجواب وباللّٰہ التوفیق: امام کو چاہئے کہ اتنی جلدی نہ کرے کہ مقتدیوں کو پریشانی ہو بلکہ تعدیل ارکان (نماز کے ارکان کو اطمینان سے ادا کرنے) پر عمل کرے سنت یہ ہے کہ اس قدر اطمنان سے رکوع وسجدہ کی تسبیحات پڑھے کہ مقتدیوں کے لیے بھی پڑھنا آسان ہو، تاہم اگر امام اتنی جلدی قرأت شروع کردے کہ مقتدی ثناء مکمل نہ کرسکے تو اگر ایک آدھ جملہ ثناء کا باقی رہے تو مقتدی کو چاہئے کہ جلد اس کو پورا کرکے امام کی قرأت سننے میں مشغول ہوجائے اور اگر پوری ثناء یا اکثر حصہ باقی رہے تو اس کو چھوڑ کر امام کی قرأت کے سننے میں مشغول ہوجائے۔(۲)
رکوع و سجدے میں بھی ایسا ہی ہے کہ امام کے ساتھ ہی رکوع سجدے سے اٹھ جائے اگر تسبیح شروع کردی ہے تو اس کو جلد پورا کرے اور نہیں شروع کی تو امام کے ساتھ اٹھ جائے دیر نہ کرے کہ امام کی متابعت واجب ہے اور تسبیح رکوع وسجود سنت ہے۔(۱)

(۲) یرکع ویتابع الإمام ویترک الثناء … لأن الواجب علی المسبوق متابعۃ الإمام في ما أدرکہ ولا یجوز لہ أن ینفرد عنہ قبل أن یتم صلوتہ۔ (إبراہیم الحلبي، الحلبي الکبیري: ص: ۲۶۶)
(۱) حدیث بن مسعود عنہ علیہ السلام أنہ قال إذا رکع أحدکم فلیقل ثلث مرات سبحان ربي العظیم وذلک أدناہ وإذا سجد فلیقل سبحان ربي الأعلی ثلث مرات وذلک أدناہ والمراد أدنی مایتم بہ تحقق السنۃ۔ (إبراہیم الحلبي، الحلبي الکبیري: ص: ۲۴۶)

 

فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج4 ص380