Islamic Creed (Aqaaid)

Ref. No. 37 / 1088

In the name of Allah the most Gracious the most Merciful
The answer to your question is as hereunder:

The bounty of Allah is showering on us each moment and we have to thank Allah for His uncountable bounties on us as much as we can.
It is not allowed to fix a date or time to remember Allah’s bounty on someone, because we don’t know if our actions were acceptable in the sight of Allah.
Thus, to celebrate one’s birthday, to believe in it, or exchanging gifts on this occasion etc. all are against the laws of Shariah. So, one is obliged to shun these actions.
And Allah knows best

Darul Ifta
Darul Uloom Waqf Deoband

خوردونوش

Ref. No. 39/1082

الجواب وباللہ التوفیق 

بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔  موقوفہ قبرستان میں لگے درختوں کے پھل بلاقیمت کھانا جائز نہیں ہے۔  البتہ اگر درخت لگانے والوں کا مقصد صرف سایہ و لکڑیاں ہوں اور پھل کی عام اجازت ہو تو پھل کے کھانے میں کوئی  حرج نہیں ہے۔

واللہ اعلم بالصواب

 

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند

طلاق و تفریق

Ref. No. 40/1111

الجواب وباللہ التوفیق 

بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔  طلاق جس طرح زبان سے دینے سے واقع ہوجاتی ہے اسی طرح تحریری طور پر دینے سے ھبی طلاق واقع ہوجاتی ہے۔ آجکل جو جدید آلات ہیں ای میل، واٹس اپ، فیس بک، اس کے ذریعہ بھی طلاق واقع ہوجاتی ہے۔ البتہ ضروری ہے کہ شوہر نے عورت کو خطاب کرکے دیا ہو، کسی کاغذ پر محض طلاق کا لفظ لکھنے سے طلاق واقع نہیں ہوتی ہے۔ اس لئے سوال میں طلاق دینے والے نے عورت کی تصویر پر طلاق کے کیا الفاظ لکھے تھے اس کی وضاحت  کرکے دوبارہ سوال کریں۔ قید بخطابھا لانہ لوقال ان خرجت یقع الطلاق او لا تخرجی الا باذنی فانی حلفت بالطلاق فخرجت لم یقع لترکہ الاضافۃ الیھا (ردالمحتار4/458)۔ ولو کتب علی وجہ الرسالۃ والخطاب کان یکتب یا فلان اذا اتاک کتابی ھذا فانت طالق طلقت بوصول الکتاب (ردالمحتار4/456)۔

واللہ اعلم بالصواب

 

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند

مساجد و مدارس

Ref. No. 1200/42-499

الجواب وباللہ التوفیق 

بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔   مسجد شرعی کے کسی بھی حصہ کو مسجد کے علاوہ کسی دوسرے استعمال میں لانا درست نہیں ہے۔ البتہ اگر ابتدائے بناء کے وقت ہی مسجد کے نیچے مصالح مسجد کے لئے کسی جگہ کو خاص کرلیاجائے تو بعض علماء کے نزدیک اس کی گنجائش ہے۔ لیکن بیت الخلاء مصالح مسجد میں شامل نہیں ہوتاہے، اس لئے مسجد شرعی کے کسی بھی حصہ میں خواہ اوپر یا نیچے بیت الخلاء بنانا جائز نہیں ہے۔

 لوبنی فوقہ بیتا للامام لایضر لانہ من المصالح اما لو تمت المسجدیۃ ثم اراد لبناء منع (الدرالمختار 6/548) لو جعل الواقف تحتہ بیتا للخلاء ھل یجوز کما فی مسجد محلۃ  الشحم فی دمشق، لم ارہ صریحا قال الرافعی الظاہر عدم صحتہ،   جعلہ مسجدا   بجعل بیت الخلاء تحتہ کمایاتی انہ لو جعل السقایۃ اسفلہ لایکون مسجدا فلذا بیت الخلاء  لانھما لیسا من المصالح (ردالمحتار 2/428زکریا)

واللہ اعلم بالصواب

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند

نکاح و شادی

Ref. No. 1321/42-698

الجواب وباللہ التوفیق

بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔  جوا، سٹہ سے پیسے حاصل کرنا، رشوت اور سود سے پیسے حاصل کرنا ، لڑکی والوں سے  بطورجہیزجبراً  پیسے حاصل کرنا یہ سب حرام و ناجائز ہیں۔ کوئی اگر اپنی رضامندی سے آپ کو بطور ہدیہ کچھ دیدے تو گرچہ  بلامحنت یہ پیسے حاصل ہوئے مگر  یہ حلال ہیں۔

والميسر مشتق من أحد أمرين: إما مشتق من اليسر وهو السهولة، وهذا بسبب أنهم يحصلون على المال من غير كد ولا تعب، وهي مغامرة يأتي بها فينجم عنها مال. وإما مشتق من اليسار وهو الغنى، أي: أنه يغنى بعد فقر، والمعاني متقاربة جداً.(سلسلۃ محاسن التاویل للمغامسی ج19ص12)

واللہ اعلم بالصواب

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند

اسلامی عقائد

 

بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔آپ کا سوال واضح نہیں ہے۔ اپنا سوال تفصیل کے ساتھ دوبارہ لکھ کر بھیجیں تو جواب دیاجائے گا۔ ان شاء اللہ

 واللہ اعلم بالصواب

 

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند

 

طلاق و تفریق

Ref. No. 2172/44-2284

بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ جو الفاظ شرعا یا عرفا طلاق کے لئے استعمال ہوتے ہیں ، ان کو اس طرح بدل دینا کہ بدلنے کے بعد بھی وہ عوام میں مستعمل ہوں  اور ان کو بول کر طلاق مراد ہوتی ہو  تو ان کو بولنے سے بھی  طلاق واقع ہوجاتی ہے،  لیکن  اگر ایسی تبدیلی کردی کہ عرف میں بالکل بھی اس کا استعمال نہیں ہے اور الفاظ طلاق سے اب وہ لفظ  کوئی مناسبت نہ رکھتاہو تو اس کو  بولنے سے طلاق نہیں ہوگی اور ان کو الفاظ مصحفہ میں شمار نہیں کیاجائے گا۔

رد المحتار - (10 / 500):

"باب الصريح (صريحه ما لم يستعمل إلا فيه) ولو بالفارسية (كطلقتك وأنت طالق ومطلقة) بالتشديد قيد بخطابها، لأنه لو قال: إن خرجت يقع الطلاق أو لاتخرجي إلا بإذني فإني حلفت بالطلاق فخرجت لم يقع لتركه الإضافة إليها (ويقع بها) أي بهذه الألفاظ وما بمعناها من الصريح ، ويدخل نحو طلاغ وتلاغ وطلاك وتلاك أو " ط ل ق " أو " طلاق باش " بلا فرق بين عالم وجاهل ، وإن قال: تعمدته تخويفًا لم يصدق قضاء إلا إذا أشهد عليه قبله وبه يفتى."

واللہ اعلم بالصواب

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند

 

اسلامی عقائد

الجواب وباللّٰہ التوفیق:مروجہ فاتحہ خوانی، نیاز اور کونڈے وغیرہ بھرنا بدعت ہے اور ناجائز امور ہیں۔ (۱)

(۱) تعیین فاتحہ برشیرینی از طعام دریں شبہات از احادیث وروایات کتب معتبرہ ثابت نہ شدہ۔ (مأۃ مسائل: ص: ۱۰۸)
 یکرہ اتخاذ الدعوۃ لقرأۃ القرآن وجمع الصلحاء والقراء للختم أو لقراء ۃ سورۃ الأنعام والإخلاص۔ (ابن عابدین، الدر المختار مع رد المحتار، ’’کتاب الصلاۃ: باب صلاۃ الجنازۃ، مطلب في کراہۃ الضیافۃ من أہل المیت‘‘: ج ۳، ص: ۱۴۸))

 فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج1 ص330

اسلامی عقائد

الجواب وباللّٰہ التوفیق:صورت مسئولہ میں مذکورہ تمام رواج اور رسمیں (دسواں بیسواں منانا اس میں گوشت وغیرہ کا اہتمام) شرعاً ناجائز ہیں ان کی کوئی اصل شریعت میں نہیں ہے نیز میت کے اعمال کی قبولیت اور عدم قبولیت سے اس کا کوئی تعلق نہیں میت کے جنتی یا دوزخی ہونے کا مدار اس کے اعمال اور عقیدے پر ہے ان برائیوں اور ناجائز امور میں حصہ نہ لیا جائے اور اس میں لوگوں کے برا بھلا کہنے اور طعن وتشنیع کی پروا نہ کی جائے۔(۲)

(۲) یکرہ اتخاذ الطعام في الیوم الأول والثالث وبعد الأسبوع۔ (ابن عابدین، الدر المختار مع رد المحتار، ’’کتاب الصلاۃ: باب صلاۃ الجنازۃ، مطلب في کراہۃ الضیافۃ من أہل المیت‘‘: ج ۳، ص: ۱۴۸)
 کم من مباح یصیر بالالتزام من غیر لزوم والتخصیص من غیر مخصص مکروہ۔ (سباحۃ الفکر لعبد الحي: ص:
۷۲)

فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج1ص421

نماز / جمعہ و عیدین

الجواب وباللّٰہ التوفیق:دعاء کے آداب میں سے ہے کہ دونوں ہاتھ سینہ تک اٹھاکر دعا کرے اور دونوں کے درمیان فاصلہ ہو، ملاکر رکھنا خلاف اولیٰ ہے۔(۱)

(۱) الأفضل فيالدعاء أن یبسط کفیہ ویکون بینہما فرجۃ۔ (جماعۃ من علماء الہند، الفتاویٰ الہندیۃ، ’’کتاب الکراہیۃ: الباب الرابع، فی الصلاۃ، والتسبیح، وقراء ۃ القرآن‘‘: ج ۵، ص: ۳۶۷)
من آداب الدعاء بعد الصلوٰۃ رفع الیدین بحذاء صدرہ۔ (وزارۃ الأوقاف، الموسوعۃ الفقہیۃ، ’’رفع الیدین في الدعاء خارج الصلاۃ‘‘: ج ۴۵، ص: ۴۶۶)

 

فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج2ص358