نماز / جمعہ و عیدین

الجواب وباللہ التوفیق: مسجد کی چھت پر وتر وتراویح کا ادا کرنا جائز ہے، لیکن افضل اور بہتر یہ ہی ہے کہ مسجد کے اصل حصہ میں (جس جگہ نماز فرض ادا کی ہے) نماز تراویح بھی ادا کی جائے۔(۳)

(۳) ثم رأیت القہستاني نقل عن المفید کراہۃ الصعود علی سطح المسجد اھـ۔ ویلزمہ کراہۃ الصلاۃ أیضاً فوقہ۔ (ابن عابدین، الدر المختار مع رد المحتار، ’’کتاب الصلاۃ، باب ما یفسد الصلاۃ و ما یکرہ فیھا، مطلب في أحکام المسجد‘‘: ج ۲، ص: ۴۲۸، زکریا دیوبند)
الصعود علی سطح کل مسجد مکروہ، ولہذا إذا اشتد الحر یکرہ أن یصلوا بالجماعۃ فوقہ إلا إذا ضاق المسجد فحینئذ لا یکرہ الصعود علی سطحہ للضرورۃ، کذا فی الغرائب۔ (جماعۃ من علماء الہند، الفتاویٰ الہندیۃ، ’’ ‘‘: ج ۱، ص: ۳۲۳)
و إن صلی أحد فی بیتہ بالجماعۃ حصل لہم ثوابہا وأدرکوا فضلہا، ولکن لم ینالوا فضل الجماعۃ التي تکون في المسجد لزیادۃ فضیلۃ المسجد وتکثیر جماعتہ وإظہار شعائر الإسلام۔ (إبراہیم الحلبي، الحلبي الکبیري، ’’باب التراویح‘‘:ص: ۴۰۲)
وکل ما شرع بجماعۃ فالمسجد فیہ أفضل، وإن صلی أحد فی البیت بالجماعۃ لم ینالوا فضل جماعۃ المسجد۔ (الحصکفي، الدرالمختار مع رد المحتار، ’’کتاب الصلاۃ، باب الوتر والنوافل، مبحث صلاۃ التراویح‘‘: ج ۲،ص: ۴۹۵، زکریا دیوبند)

 

فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج6 ص312

نماز / جمعہ و عیدین

الجواب وباللّٰہ التوفیق: صلاۃ التسبیح اوقات منہیہ کے علاوہ کسی بھی وقت میں پڑھ سکتے ہیں تہجد کے وقت اور جمعہ کے دن نماز جمعہ سے قبل پڑھنا افضل اور بہتر ہے۔ اور اس کا طریقہ جو بہشتی زیور میں لکھا ہے۔(۱) کہ پہلی رکعت میں ثناء کے بعد تسبیحات نہ پڑھیں؛ بلکہ دونوں سجدوں سے فارغ ہوکر بیٹھ کر پڑھیں اور پھر کھڑے ہوں اور ایسے ہی تیسری رکعت میں بھی کریں وہ درست ہے اور حدیث ابن عباس میں یہی طریقہ بیان کیا گیا ہے۔ علامہ شامی نے دوسرا طریقہ بھی ذکر کیا ہے اور اسی کو قول مختار بتایا ہے۔(۲)

(۱) بہشتی زیور، ’’سنت اور نفل نمازوں کا بیان‘‘: ج ۱، ص: ۳۰، کتب خانہ اختری۔)
(۲) عن ابن عباس، قال: قال رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم للعباس بن عبد المطلب: یا عباس، یا عماہ، ألا أعطیک، ألا أمنحک، ألا أحبوک، ألا أفعل لک عشر خصال إذا أنت فعلت ذلک غفر اللہ لک ذنبک؛ أولہ وآخرہ، وقدیمہ وحدیثہ، وخطأہ وعمدہ، وصغیرہ وکبیرہ، وسرہ وعلانیتہ؟ عشر خصال: أن تصلي أربع رکعات تقرأ في کل رکعۃ بفاتحۃ الکتاب وسورۃ، فإذا فرغت من القراء ۃ في أول رکعۃ قلت وأنت قائم: سبحان اللّٰہ، والحمد للّٰہ، ولا إلہ إلا اللّٰہ، واللّٰہ أکبر خمس عشرۃ مرۃ، ثم ترکع فتقول وأنت راکع عشرا، ثم ترفع رأسک من الرکوع فتقولہا عشرا، ثم تہوی ساجدا فتقول وأنت ساجد عشرا، ثم ترفع رأسک من السجود فتقولہا عشرا، ثم تسجد فتقولہا عشرا، ثم ترفع رأسک من السجود فتقولہا عشرا، فذلک خمسۃ وسبعون في کل رکعۃ تفعل في أربع رکعات، إن استطعت أن تصلیہا في کل یوم مرۃ فافعل، فإن لم تستطع، ففي کل جمعۃ مرۃ، فإن لم تفعل ففي کل شھر مرۃ، فإن لم تفعل ففي عمرک مرۃ۔ حکم الحدیث: صحیح۔ (أخرجہ ابن ماجہ، في سننہ ’’کتاب الصلاۃ: ما جاء في صلاۃ التسبیح‘‘: ص: ۹۹)
(قولہ وأربع صلاۃ التسبیح إلخ) یفعلہا فی کل وقت لا کراہۃ فیہ، أو فی کل یوم أو لیلۃ مرۃ، وإلا ففي کل أسبوع أو جمعۃ أو شہر أو العمر، وحدیثہا حسن لکثرۃ طرفۃ۔(الحصکفي، رد المحتار علی الدر المختار، ’’کتاب الصلاۃ، باب الوتر والنوافل، مطلب في صلاۃ التسبیح ‘‘: ج ۲، ص: ۴۷۱، زکریا)

 

فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج6 ص422

 

روزہ و رمضان

Ref. No. 40/1105

الجواب وباللہ التوفیق 

بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ نذر پوری ہونے کی صورت میں صرف اسی شخص پر روزہ لازم ہوگا، پورے گھر والوں پر نہیں۔ اس لئے کہ نذر کے ذریعہ انسان اپنے اوپر مالی یا جسمانی عبادت کو لازم کرسکتا ہے دوسروں پر کوئی چیز لازم نہیں کرسکتا ہے۔ البتہ اگر اس شخص نے گھر کے تمام افراد کی موجودگی میں یہ نذر مانی اور  سب لوگوں نے زبانی رضامندی ظاہر کی تو اس صورت میں تمام لوگوں پر روزہ لازم ہوگا۔ من نذر نذرا مطلقا او معلقا بشرط وکان من جنسہ واجب وھو عبادۃ مقصودۃ ووجد الشرط لزم الناذر لحدیث من نذر وسمی فعلیہ الوفاء بما سمی کصوم وصدقۃ ۔ وان لایکون ماالتزمہ اکثر مما یملکہ او ملکا لغیرہ ، فلو نذر التصدق بالف ولایملک الا مائۃ لزمہ المائۃ فقط۔ (ردالمحتار5/519)۔ وفی البحر عن الخلاصۃ لوقال للہ علی ان اھدی ھذہ الشاۃ وھی ملک الغیر لایصح النذر۔ (ردالمحتار5/519)۔  

واللہ اعلم بالصواب

 

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند

Islamic Creed (Aqaaid)

Ref. No. 903/41-11B

In the name of Allah the most Gracious the most Merciful

The answer to your question is as follows:

One should wear proper clothing while praying namaz. Allah says in the Quran: O Children of Adam! Take your adornment while praying. It means one should dress up for namaz and adopt clothing that is interpreted by Islamic scholars as being in accordance with the teachings of Islam. 

Secondly, wearing a garment against its proper form is also disliked. Therefore, praying in half sleeved garment without any proper reason is Makrooh (disliked).

 (و) كره (كفه) أي رفعه ولو لتراب كمشمر كم أو ذيل (الدرالمختار 1/640)

And Allah knows best

Darul Ifta

Darul Uloom Waqf Deoband

ربوٰ وسود/انشورنس

Ref. No. 1198/42-491

الجواب وباللہ التوفیق 

بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔  ادھار قسط وار بیع میں نقد ثمن کے مقابلہ میں زیادہ قیمت وصول کرنا درست ہے بشرط کہ عقد کے وقت ہی ایک معاملہ طے کرلیا جائے  اور قسط وار کی وجہ سے جو اضافی رقم دی جاتی ہے وہ سود نہیں ہے بلکہ قیمت کا ہی حصہ ہے۔ مذکورہ صورت میں اگر گاڑی کو فائنانس کے ذریعہ قسط وار خریدا اور فائنانس کا معاملہ براہ راست کمپنی سے ہے بینک سے نہیں ہے تو اس صورت میں قسط وار خریدنے کی یہ صورت درست ہے۔ البیع مع تاجیل الثمن وتقسیطہ صحیح، یلزم ان تکون المدۃ معلومۃ فی البیع بالتاجیل والتقسیط (شرح المجلۃ، رقم المادۃ 245/246) والثمن ماتراضی علیہ المتعاقدان سواء زاد علی القیمۃ او نقص (ردالمحتار علی الدرالمختار: 1227، مطلب فی الفرق بین القیمۃ والثمن، ط زکریا)

واللہ اعلم بالصواب

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند

متفرقات

Ref. No. 1634/43-1220

بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔   

نعم حکم العام الذی لم یخص عنہ البعض فی منزلۃ الخاص فی وجوب العمل بہ، وآیۃ إِنَّ اللَّهَ وَمَلَائِكَتَهُ يُصَلُّونَ عَلَى النَّبِيِّ يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا صَلُّوا عَلَيْهِ وَسَلِّمُوا تَسْلِيمًا عامۃ لم یخص عنھا البعض، فلماذا یخصون البعض بان یصلوا علی النبی صلی اللہ علیہ وسلم بعد الصلوۃ الجماعۃ الخمسۃ وقبل الاذان و فی ھذہ الآیۃ حکم مطلق والمطلق یجری علی اطلاقہ۔ فلھذا لایختص الصلوۃ والوقت للصلوۃ والسلام علی النبی صلی اللہ علیہ وسلم فی الاوقات المذکورۃ لان النبی صلی اللہ علیہ وسلم قال من احدث فی امرنا ھذا مالیس منہ فھو رد، متفق علیہ، مشکوۃ المصابیح 1/27، باب الاعتصام بالکتاب والسنۃ۔

واللہ اعلم بالصواب

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند

متفرقات

الجواب وباللّٰہ التوفیق:حضرت ایوب علیہ السلام کے جسد مبارک میں کیڑے پڑنے کی روایات معتبر نہیں ہیں، جن روایات وآثار سے کیڑے پڑنے اور جسد اطہر میں پھوڑے پھنسی وغیرہ کا ثبوت ہوتا ہے ان پر محققین نے رد کیا ہے، کیونکہ انبیاء علیہ السلام کو بشری بیماری لاحق ہونا تو ثابت ہے؛ لیکن ایسی بیماری کا لاحق ہونا جس سے انسانی طبیعت نفرت کرتی ہو نصوص شرعیہ کے خلاف ہے؛ بلکہ صحیح روایات اور آیت قرآنی سے صرف اتنی بات ثابت ہوتی ہے کہ حضرت ایوب علیہ السلام کو ایک شدید قسم کا مرض لاحق ہوا تھا۔ حضرت مفتی محمد شفیع صاحب نے معارف القرآن میں لکھاہے: قرآن میں اتنا تو بتلایا گیا ہے کہ حضرت ایوب علیہ السلام کو ایک شدید قسم کا مرض لاحق ہوگیا تھا لیکن اس مرض کی نوعیت نہیں بتائی گئی احادیث میں بھی اس کی کوئی تفصیل آںحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے منقول نہیں ہے۔ البتہ بعض آثار سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ آپ کے جسم کے ہر حصہ پر پھوڑے نکل گئے تھے یہاں تک کہ لوگوں نے گھن کی وجہ سے آپ کو کوڑی پر ڈال دیا تھا، لیکن بعض محقق مفسرین نے ان آثار کو درست تسلیم کرنے سے انکار کیا ہے ان کا کہنا ہے کہ انبیاء علیہم السلام پر بیماریاں تو آسکتی ہیں، لیکن انہیں ایسی بیماریوں میں مبتلانہیں کیا جاتا جن سے لوگ گھن کرنے لگیں۔(۱)

۱) مفتی محمد شفیع عثماني صاحب رحمۃ اللّٰہ علیہ، معارف القرآن: ج ۷، ص: ۵۲۲۔
قال: أہل التحقیق أنہ لا یجوز أن یکون بصفۃ یستقذرہ الناس علیہا …لأن فی ذلک تنفیرا فأما الفقر والمرض وذہاب الأہل فیجوز أن یمتحنہ اللّٰہ تعالی بذلک‘‘۔
وفي ہدایۃ المرید للفاني أنہ یجوز علی الأنبیاء علیہم السلام کل عرض بشری لیس محرما ولا مکروہا ولا مباحا مزریا ولا مزمنا ولا مما تعافہ الأنفس ولا مما یؤدي إلی النفرۃ ثم قال بعد ورقتین: واحترزنا بقولنا ولا مزمنا ولا مما تعافہ الأنفس عما کان کذلک کالإقعاد والبرص والجذام والعمی والجنون، وأما الإغماء، فقال النووي: لا شک في جوازہ علیہم لأنہ مرض بخلاف الجنون فإنہ نقص، وقید أبو حامد الإغماء بغیر الطویل وجزم بہ البلقینی، قال السبکي: ولیس کإغماء غیرہم لأنہ إنما یستر حواسہم الظاہرۃ دون قلوبہم لأنہا معصومۃ من النوم الأخف، قال: ویمتنع علیہم الجنون وإن قل لأنہ نقص ویلحق بہ العمی ولم یعم نبي قط، وما ذکر عن شعیب من کونہ کان ضریرا لم یثبت، وأما یعقوب فحصلت لہ غشاوۃ وزالت اہ۔
وفرق بعضہم في عروض ذلک بین أن یکون بعد التبلیغ وحصول الغرض من النبوۃ فیجوز وبین أن یکون قبل فلا یجوز، ولعلک تختار القول بحفظہم بما تعافہ النفوس ویؤدي إلی الاستقدار والنفرۃ مطلقا، وحینئذ فلا بد من القول بأن ما ابتلی بہ أیوب علیہ السلام لم یصل إلی حد الاستقذار والنفرۃ کما یشعر بہ ما روي عن قتادۃ ونقلہ القصاص في کتبہم، وذکر بعضہم أن دائہ کان الجدري ولا أعتقد صحۃ ذلک واللہ تعالی أعلم۔ (علامہ آلوسي، روح المعاني: ’’سورۃ ص: ۳۷ تا ۴۵‘‘، ج ۷، ۳۰۵)


فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج1ص203

اسلامی عقائد

الجواب وباللّٰہ التوفیق:مذکورہ عمل رسماً جائز نہیں، ہاں ضرورتاً جائز ہے، ضرورت پوری ہونے پر بند کردینا چاہئے اسراف جائز نہیں۔(۱)
اگر بتی کو بھی رسم کے طور پر جلانا درست نہیں۔ غیروں کے ساتھ مشابہت سے بچنا چاہئے، حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ’’من تشبہ بقوم فہو منہم‘‘ (۲){یأیہا الذین آمنوا لا تکونو کالذین کفروا}(۳)

(۱) إن إضاعۃ المال والتبذیر بأي وجہ کان کالرشوۃ والقمار والربوا وغیرہ ذلک حرام إجماعاً۔ (محمد ثناء اللّٰہ پاني پتي، تفسیر المظہري: ج ۱، ص: ۲۶۹)
(۲) أخرجہ أبوداود، في سننہ، ’’کتاب اللباس: باب القمیص والأقبیۃ ولبس الشہرۃ‘‘: ج ۲، ص: ۵۵۹، رقم: ۴۰۳۱۔
(۳) سورۃ آل عمران: ۱۵۶۔


فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج1ص530

حدیث و سنت

الجواب وباللّٰہ التوفیق:’’عن عبداللّٰہ بن بریدۃ عن أبیہ قال خطب أبوبکر وعمر رضي اللّٰہ عنہما فاطمۃ رضي اللّٰہ عنہا، فقال رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم: إنہا صغیرۃ ثم فخطبہا علي فزوجہا منہ‘‘(۱)
حدیث کے الفاظ اور عبارت سے ظاہر ہے کہ حضرت علی رضی اللہ عنہ نے نکاح کا پیغام دیا تو رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت فاطمہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کا نکاح ان سے کرا دیا، اگر حضرت علی رضی اللہ عنہ مجلس میں نہ ہوتے، تو قبول کون کرتا وہ مجلس میں موجود تھے اور قبول انہوں نے ہی کیا تھا، اس میں شبہ کی کوئی گنجائش نہیں ہے۔(۲)

(۱) مشکوۃ المصابیح، ’’کتاب الفتن: باب مناقب علي رضي اللّٰہ عنہ، الفصل الثالث‘‘: ج۲، ص: ۵۶۵، رقم: ۶۱۰۴۔
(۲) أخرجہ النسائي، في سننہ، ’’کتاب النکاح: باب تزوج المرأۃ مثلہا‘‘: ج۲، ص: ۵۸، رقم: ۳۲۲۱۔


فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج2ص240

زیب و زینت و حجاب

Ref. No. 2635/45-3999

بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔  عورت کے لئے  رخسار، بازو، گردن، ٹانگوں اور رانوں کے بال صاف کرنا مباح ہے، اسی طرح سینہ حلق اور پیٹھ کے بال بھی صاف کرنے کی گنجائش ہے،  البتہ ان بالوں  کو نوچ کرنکالنا مناسب نہیں۔ حسن کے لیے بھنویں بنانا (دھاگا یا کسی اور چیز سے) یا اَبرو کے اطراف سے بال اکھاڑ کر باریک دھاری بنانا جائز نہیں، اس پر حدیث میں لعنت وارد ہوئی ہے۔

"( والنامصة إلخ ) ذكره في الاختيار أيضاً، وفي المغرب: النمص نتف الشعر ومنه المنماص المنقاش اهـ ولعله محمول على ما إذا فعلته لتتزين للأجانب، وإلا فلو كان في وجهها شعر ينفر زوجها عنها بسببه ففي تحريم إزالته بعد؛ لأن الزينة للنساء مطلوبة للتحسين، إلا أن يحمل على ما لا ضرورة إليه؛ لما في نتفه بالمنماص من الإيذاء.  وفي تبيين المحارم: إزالة الشعر من الوجه حرام إلا إذا نبت للمرأة لحية أو شوارب فلا تحرم إزالته بل تستحب". (حاشية رد المحتار على الدر المختار (6/ 373)

واللہ اعلم بالصواب

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند